Surat ul Hijir

Surah: 15

Verse: 14

سورة الحجر

وَ لَوۡ فَتَحۡنَا عَلَیۡہِمۡ بَابًا مِّنَ السَّمَآءِ فَظَلُّوۡا فِیۡہِ یَعۡرُجُوۡنَ ﴿ۙ۱۴﴾

And [even] if We opened to them a gate from the heaven and they continued therein to ascend,

اور اگر ہم ان پر آسمان کا دروازہ کھول بھی دیں اور یہ وہاں چڑھنے بھی لگ جائیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Stubborn Disbelievers will never believe, no matter what Signs and Wonders They see Allah says, وَلَوْ فَتَحْنَا عَلَيْهِم بَابًا مِّنَ السَّمَاء فَظَلُّواْ فِيهِ يَعْرُجُونَ لَقَالُواْ إِنَّمَا سُكِّرَتْ أَبْصَارُنَا بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَّسْحُورُونَ

ان کی سرکشی ، ضد ، ہٹ ، خود بینی اور باطل پرستی کی تو یہ کیفیت ہے کہ بالفرض اگر ان کے لئے آسمان کا دروازہ کھول دیا جائے اور انہیں وہاں چڑھا دیا جائے تو بھی یہ حق کو حق کہہ کر نہ دیں گے بلکہ اس وقت بھی ہانک لگائیں گے کہ ہماری نظر بندی کر دی گئی ہے ، آنکھیں بہکا دی گئی ہیں ، جادو کر دیا گیا ہے ، نگاہ چھین لی گئی ہے ، دھوکہ ہو رہا ہے ، بیوقوف بنایا جا رہا ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَوْ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ ۔۔ : ” ظَلَّ “ اور ” بَاتَ “ میں وقت بھی ملحوظ ہوتا ہے۔ ” ظَلَّ “ دن کو ہونا، ” بَاتَ “ رات کو ہونا۔ اب ایک عجیب انداز میں ان کی ہٹ دھرمی اور ہر دلیل دیکھ کر بھی ایمان نہ لانے کا بیان ہوتا ہے، یعنی ان کا مطالبہ تو صرف فرشتے لانے کا ہے، اگر اس سے بڑھ کر عین دن کے بارہ بجے روشنی میں سب کے سامنے ہم آسمان کے دروازے کھول دیں اور یہ لوگ سیڑھی لگا کر آسمان پر چڑھنے لگیں تو پھر بھی ایمان نہیں لائیں گے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَوْ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَابًا مِّنَ السَّمَاۗءِ فَظَلُّوْا فِيْهِ يَعْرُجُوْنَ 14۝ۙ فتح الفَتْحُ : إزالة الإغلاق والإشكال، يدرک بالبصر کفتح الباب ونحوه، وکفتح القفل والغلق والمتاع، نحو قوله : وَلَمَّا فَتَحُوا مَتاعَهُمْ [يوسف/ 65] ( ف ت ح ) الفتح کے معنی کسی چیز سے بندش اور پیچیدگی کو زائل کرنے کے ہیں فتح المتاع ( اسباب کھولنا قرآن میں ہے ؛وَلَمَّا فَتَحُوا مَتاعَهُمْ [يوسف/ 65] اور جب انہوں نے اپنا اسباب کھولا ۔ ظلل الظِّلُّ : ضدُّ الضَّحِّ ، وهو أعمُّ من الفیء، فإنه يقال : ظِلُّ اللّيلِ ، وظِلُّ الجنّةِ ، ويقال لكلّ موضع لم تصل إليه الشّمس : ظِلٌّ ، ولا يقال الفیءُ إلّا لما زال عنه الشمس، ويعبّر بِالظِّلِّ عن العزّة والمنعة، وعن الرّفاهة، قال تعالی: إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي ظِلالٍ [ المرسلات/ 41] ، أي : في عزّة ومناع، ( ظ ل ل ) الظل ۔ سایہ یہ الضح ( دهوپ ) کی ضد ہے اور فیی سے زیادہ عام ہے کیونکہ ( مجازا الظل کا لفظ تورات کی تاریکی اور باغات کے سایہ پر بھی بولا جاتا ہے نیز ہر وہ جگہ جہاں دہوپ نہ پہنچنے اسے ظل کہہ دیا جاتا ہے مگر فییء صرف اس سے سایہ کو کہتے ہیں جوز وال آفتاب سے ظاہر ہو ہے اور عزت و حفاظت اور ہر قسم کی خش حالی کو ظل سے تعبیر کرلیتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي ظِلالٍ [ المرسلات/ 41] کے معنی یہ ہیں کہ پرہیز گار ہر طرح سے عزت و حفاظت میں ہوں گے ۔ عرج العُرُوجُ : ذهابٌ في صعود . قال تعالی: تَعْرُجُ الْمَلائِكَةُ وَالرُّوحُ [ المعارج/ 4] ، فَظَلُّوا فِيهِ يَعْرُجُونَ [ الحجر/ 14] ، والمَعَارِجُ : المصاعد . قال : ذِي الْمَعارِجِ [ المعارج/ 3] ، ولیلة المِعْرَاجُ سمّيت لصعود الدّعاء فيها إشارة إلى قوله : إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ [ فاطر/ 10] ، وعَرَجَ عُرُوجاً وعَرَجَاناً : مشی مشي العَارِجِ. أي : الذاهب في صعود، كما يقال : درج : إذا مشی مشي الصاعد في درجه، وعَرِجَ : صار ذلک خلقة له «4» ، ( ع ر ج ) العروج کے معنی اوپر چڑھنا کے ہیں قرآن میں ہے : تَعْرُجُ الْمَلائِكَةُ وَالرُّوحُ [ المعارج/ 4] جس کی طرف روح ( الامین ) اور فرشتے چڑھتے ہیں ۔ فَظَلُّوا فِيهِ يَعْرُجُونَ [ الحجر/ 14] اور وہ اس میں چڑھنے بھی لگیں ۔ اور معارج کے معنی سیڑھیوں کے ہیں اس کا مفرد معرج ( اور معراج ) ہے ۔ قرآن میں ہے : ذِي الْمَعارِجِ [ المعارج/ 3] سیڑھیوں والے خدا کی طرف سے ( نازل ہوگا ) ۔ اور شب معراج کو بھی لیلۃ المعراج اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں دعائیں اوپر چڑھتی ہیں جیسا کہ آیت کریمہ ؛ إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ [ فاطر/ 10] اسی کی طرف پاکیزہ کلمات چڑھتے ہیں ۔ میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٤۔ ١٥) اور اگر اہل مکہ کے لیے ہم آسمان میں ان کے داخل ہونے کے لیے کوئی دروازہ کھول دیں اور فرشتوں کی طرح یہ کفار دن کے وقت اوپر جانے اور اترنے لگیں، تب بھی یوں کہہ دیں گے کہ ہماری نظربندی کردی گئی تھی، بلکہ ہم لوگوں پر تو بالکل جادو کر رکھا ہے جس کی وجہ سے ہماری عقل جاتی رہی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٤۔ ١٥۔ اس آیت میں اللہ پاک ان کفار اور مشرکین کے انتہا درجے کی گمراہی کو بیان فرماتا ہے کہ یہ لوگ ہرگز ایمان نہیں لائیں گے معجزہ تو کیا چیز ہے اگر آسمان کا کوئی دروازہ بھی کھول دیا جائے اور اپنی آنکھ سے یہ لوگ وہاں کے عجائبات کو آسمان پر چڑھ کر دیکھ لیں جب بھی تو کفر سے باز نہیں آئیں گے بلکہ ان عجائبات کو دیکھ کر یہ کہنے لگیں گے کہ ہماری نظر بندی کی گئی ہے آنکھیں اپنی اصلی حالت پر نہیں ہیں ہم پر جادو کردیا گیا ہے جو ایسے ایسے تماشے ہم کو نظر آرہے ہیں جب ان کے کفرو سرکشی کی یہ حالت ہے تو کوئی قدرتی نشان ان کے ایمان لا نے کو کار آمد نہیں ہوسکتی فرشتے آسمان سے آئیں یا یہ خود آسمان پر چڑھ جاویں یا پہاڑ کو سونا بنا دیا جائے چٹیل میدان کو گلزار کردیا جائے کچھ بھی مفید مطلب نہ ہوگا یہی جواب اور اسی قسم کی بیہودہ باتیں یہ کرتے رہیں گے صحیح مسلم کے حوالہ سے عبد اللہ بن مسعود (رض) کی روایت ایک جگہ گزر چکی ١ ؎ ہے۔ ( ١ ؎ جلد ہذا ص ٢٦٢۔ ) جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہر شخص کے ساتھ ایک فرشتہ اور ایک شیطان رہتا ہے فرشتہ نیک کاموں کی رغبت دلاتا رہتا ہے اور شیطان برے کاموں کی سورت الزخرف میں آوے گا کہ جو لوگ یاد الٰہی سے آنکھ چراتے ہیں ان پر شیاطین کا تسلط زیادہ ہوجاتا ہے۔ اس لئے وہ شیاطین ایسے لوگوں کے دل میں برے کاموں کے ہمیشہ وسوسے ڈالتے رہتے ہیں اور اللہ کے فرشتے کی نصیحت کو آدمی کے دل میں جمنے نہیں دیتے اس حدیث اور سورت الزخرف میں جو آیتیں آویں گی ان کو ان آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اگرچہ یہ مشرک کہتے ہیں کہ آسمان سے کوئی فرشتہ آن کر اللہ کے رسول کے سچا ہونے کی گواہی دے دے گا تو یہ لوگ اللہ کے رسول کو سچا مان لیویں گے لیکن اللہ تعالیٰ کو ان کا خوب حال معلوم ہے کہ اللہ کے رسول کے سچا ہونے کی گواہی دینے کو فرشتے آسمان سے آویں یا خود یہ لوگ آسمان پر چڑھ کر فرشتوں کی گواہی کا حال آسمان پر سے سن آویں اس سب کو یہ لوگ نظر بندی اور جادو بتلاویں گے کیونکہ یاد الٰہی سے غافل اور بتوں کی یاد میں لگے رہنے سے ان کے دلوں پر شیاطین کا ایسا تسلط ہوگیا ہے کہ کسی نیک کام کا خیال ان کے دل میں جم نہیں سکتا فرشتے کا اصلی صورت میں دیکھنا تو انسان کی طاقت سے باہر ہے اس لئے کوئی فرشتہ آسمان سے آوے گا تو وہ بھی اس طرح اللہ کے رسول کے سچا ہونے کا خیال ان کے دل میں پیدا کرے گا۔ جس طرح اب بھی اس خیال کے پیدا کرنے کے لئے ان میں سے ہر ایک شخص کے ساتھ ایک فرشتہ تعینات ہے پھر شیاطینوں کے وسوسے کے آگے یہ لوگ اس فرشتے کی بات کو کیا سنتے ہیں جو نئے فرشتے کی بات کو سن لیویں گے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(15:14) فظلوا۔ ماضی جمع مذکر غائب ظل اور ظلول سے (باب فتح وسمع) الظل سایہ یہ الضح دھوپ کی ضد ہے ظل اور ظلول کے معنی دن میں کسی کام کو انجام دینے کے ہیں جس طرح بات یبیت کا استعمال رات گذارنے کے لئے ہوتا ہے ایسے ہی ظل یظل کا استعمال دن گذارنے کے لئے ہوتا ہے۔ یہ افعال ناقصہ میں سے ہے اور کسی کام کو دن کے وقت کرنے کے معنی میں آتا ہے کیونکہ دن کے وقت (از طلوع آفتاب تا غروب آفتاب) چیزوں کا سایہ موجود رہتا ہے۔ یہ صار کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے لیکن اس وقت دن کی تخصیص نہیں رہتی مثلاً لظلوا من بعدہ یکفرون۔ (30:51) تو اس کے بعد وہ ناشکری کرنے لگ جائیں گے۔ فظلوا فیہ یعرجون۔ پھر وہ دن دہاڑے چڑھنے لگیں۔ فیہ۔ ای فی ذلک الباب۔ اس دروازہ میں۔ فظلوا فیہ یعرجون۔ لفظی ترجمہ یہ ہے اور وہ روز روشن میں اس میں چڑھنے لگیں۔ اس میں ضمیر کا مرجع مشرکین و کفار ہیں اور مطلب یہ ہے کہ اگر ان مشرکین کے لئے آسمان میں ایک دروازہ ہم کھول دیں اور وہ اس میں دن دہاڑے چڑھ جائیں اور عالم بالا کے عجائبات اپنی آنکھوں سے واضح طور پر دیکھ لیں تب بھی یہ ایمان نہیں لائیں گے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

8:۔ یہ زجر ہے جو شکوہ مذکورہ سے متعلق ہے اس میں مشرکین مکہ کے انتہائی عناد و الحاد کا ذکر کیا گیا ہے۔ مشرکین کا مطالبہ تھا کہ اگر فرشتے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کی تصدیق کردیں تو ہم مان لیں گے فرمایا فرشتوں کا نازل کرنا بےسود ہے کیونکہ ان معاندین کا عناد اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ فرشتے نازل کرنا تو ایک طرف اگر ہم آسمان میں ایک دروازہ کھول دیں اور یہ مشرکین اس میں سے اوپر چرھ جائیں اور ملکوت سمٰوات کا اپنے سر کی آنکھوں سے مشاہدہ کرلیں، وہاں فرشتوں کو دیکھ لیں اور پوری حقیقت واضح اور روشن ہو کر ان کے سامنے آجائے تو بھی یہ لوگ نہیں مانیں گے اور فرط تعصب وعناد کی وجہ سے پھر بھی یہی کہیں گے کہ ہماری آنکھوں پر پردہ پڑگیا ہے بلکہ ہم پر جادو کردیا گیا ہے کہ ہمیں یہ ساری چیزیں نظر آرہی ہیں حالانکہ حقیقت میں کچھ نہیں۔ لقالوا الفرط عنادھم و غلوھم فی المکابرۃ الخ (روح ج 14 ص 20) ۔ جیسا کہ سورة رعد رکوع 4 میں مشرکین کے عناد و مکابرہ کو بیان کرتے ہوئے فرمایا۔ ” وَ لَوْ اَنَّ قُرْاٰنًا سُیِّرَتْ بِهِ الْجِبَالُ اَوْ قُطِّعَتْ بِهِ الْاَرْضُ اَوْ کُلِّمَ بِهِ الْمَوْتٰی اي لا یؤمنون “۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

14 ۔ ان کے انکار وعناد کی تو یہ حالت ہوگئی ہے کہ اگر ہم ان پر آسمان کا کوئی دروازہ بھی کھول دیں اور اس دروازے میں سے یہ دن کے وقت آسمان پر بھی چڑھ جائیں۔