Surat ul Hijir

Surah: 15

Verse: 2

سورة الحجر

رُبَمَا یَوَدُّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَوۡ کَانُوۡا مُسۡلِمِیۡنَ ﴿۲﴾

Perhaps those who disbelieve will wish that they had been Muslims.

وہ بھی وقت بھی ہوگا کہ کافر اپنے مسلمان ہونے کی آرزو کریں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

رُّبَمَا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُواْ ... How much would those who disbelieved wish, Here Allah tells us that they will regret having lived in disbelief, and will wish that they had been Muslims in this world. رُّبَمَا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُواْ لَوْ كَانُواْ مُسْلِمِينَ How much would those who disbelieved wish that they had been Muslims. Sufyan Ath-Thawri reported from Salamah bin Kuhayl, who reported from Abi Az-Za`ra', from Abdullah, who said: "This is about the Jahannamiyyun (the sinners among the believers who will stay in Hell for some time), when they (the disbelievers) see them being brought out of Hell." Ibn Jarir reported that Ibn Abbas and Anas bin Malik explained that; this Ayah refers to the Day when Allah will detain the sinful Muslims in Hell along with the idolators. He said: "The idolators will say to them, `What you used to worship on earth has not helped you.' Then by virtue of His mercy, Allah will be angry for their sake, and He will remove them (from it). That is when رُّبَمَا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُواْ لَوْ كَانُواْ مُسْلِمِينَ (How much would those who disbelieved wish that they had been Muslims)."

بعد از مرگ پشیمانی کافر اپنے کفر پر عنقریب نادم و پشیمان ہوں گے اور مسلمان بن کر زندگی گزارنے کی تمنا کریں گے ۔ یہ بھی مروی ہے کہ کفار بدر جب جہنم کے سامنے پیش کئے جائیں گے آرزو کریں گے کہ کاش کہ وہ دنیا میں مومن ہوتے ۔ یہ بھی ہے کہ ہر کافر اپنی موت کو دیکھ کر اپنے مسلمان ہونے کی تمنا کرتا ہے ۔ اسی طرح قیامت کے دن بھی ہر کافر کی یہی تمنا ہو گی ۔ جہنم کے پاس کھڑے ہو کر کہیں گے کہ کاش کہ اب ہم واپس دنیا میں بھیج دیئے جائیں تو نہ تو اللہ کی آیتوں کو جھٹلائیں گے نہ ترک ایمان کریں ۔ جہنمی لوگ اوروں کو جہنم سے نکلتے دیکھ کر بھی اپنے مسلمان ہونے کی تمنا کریں گے ۔ ابن عباس اور انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ گنہگار مسلمانوں کو جہنم میں مشرکوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ روک لے گا تو مشرک ان مسلمانوں سے کہیں گے کہ جس اللہ کی تم دنیا میں عبادت کرتے رہے اس نے تمہیں آج کیا فائدہ دیا ؟ اس پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جوش آئے گا اور ان مسلمانوں کو جہنم سے نکال لے کا اس وقت کافر تمنا کریں گے کا کاش وہ بھی دنیا میں مسلمان ہوتے ۔ ایک روایت میں ہے کہ مشرکوں کے اس طعنے پر اللہ تعالیٰ حکم دے گا کہ جس کے دل میں ایک ذرے کے برابر بھی ایمان ہو اسے جہنم سے آزاد کر دو ، الخ ۔ طبرانی میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں لا الہ الا اللہ کے کہنے والوں میں بعض لوگ بہ سبب اپنے گناہوں کے جہنم میں جائیں گے پس لات و عزیٰ کے پجاری ان سے کہیں گے کہ تمہارے لا الہ الا اللہ کہنے نے تمہیں کیا نفع دیا ؟ تم تو ہمارے ساتھ ہی جہنم میں جل رہے ہو اس پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جوش آئے گا اللہ ان سب کو وہاں سے نکال لے گا ۔ اور نہر حیات میں غوطہ دے کر انہیں ایسا کر دے گا جیسے چاند گہن سے نکلا ہو ۔ پھر یہ سب جنت میں جائیں گے وہاں انہیں جہنمی کہا جائے گا ۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ حدیث سن کر کسی نے کہا کیا آپ نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی سنا ہے ؟ آپ نے فرمایا سنو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علہ وسلم سے سنا ہے کہ مجھ پر قصدا جھوٹ بولنے والا اپنی جگہ جہنم میں بنا لے ۔ باوجود اس کے میں کہتا ہوں کہ میں نے یہ حدیث خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی سنی ہے ۔ اور روایت میں ہے کہ مشرک لوگ اہل قبلہ سے کہیں گے کہ تم تو مسلمان تھے پھر تمہیں اسلام نے کیا نفع دیا ؟ تم تو ہمارے ساتھ جہنم میں جل رہے ہو ۔ وہ جواب دیں گے کہ ہمارے گناہ تھے جن کی پاداش میں ہم پکڑے گئے الخ اس میں یہ بھی ہے کہ ان کے چھٹکارے کے وقت کفار کہیں گے کہ کاش ہم مسلمان ہوتے اور ان کی طرح جہنم سے چھٹکارا پاتے ۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت ( اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم ) پڑھ کر شروع سورت سے مسلمین تک تلاوت فرمائی ۔ یہی روایت اور سند سے ہے اس میں اعوذ کے بدلے آیت ( بسم اللہ الرحمن الرحیم ) کا پڑھنا ہے اور روایت میں ہے کہ ان مسلمان گنہگاروں سے مشرکین کہیں گے کہ تم تو دینا میں یہ خیال کرتے تھے کہ تم اولیاء اللہ ہو پھر ہمارے ساتھ یہاں کیسے ؟ یہ سن کر اللہ تعالیٰ ان کی شفاعت کی اجازت دے گا ۔ پس فرشتے اور نبی اور مومن شفاعت کریں گے اور اللہ انہیں جہنم سے چھوڑا جائے گا اس وقت مشکر لوگ کہیں گے کہ کاش وہ بھی مسلمان ہوتے تو شفاعت سے محروم نہ رہتے اور ان کے ساتھ جہنم سے چھوٹ جاتے ۔ یہی معنی اس آیت کے ہیں یہ لوگ جب جنت میں جائیں گے تو ان کے چہروں پر قدرے سیاہی ہو گی اس وجہ سے انہیں جہنمی کہا جاتا ہو گا ۔ پھر یہ دعا کریں گے کہ اے اللہ یہ لقب بھی ہم سے ہٹا دے پس انہیں جنت کی ایک نہر میں غسل کرنے کا حکم ہو گا اور وہ نام بھی ان سے دور کر دیا جائے گا ۔ ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں بعض لوگوں کو آگ ان کے گھٹنوں تک پکڑ لے گی اور بعض کو زانوں تک اور بعض کو گردن تک جیسے جن کے گناہ اور جیسے جن کے اعمال ہوں گے ۔ بعض ایک مہینے کی سزا بھگت کر نکل آئیں گے سب سے لمبی سزا والا وہ ہو گا جو جہنم میں اتنی مدت رہے گا جتنی مدت دنیا کی ہے یعنی دنیا کے پہلے دن سے دنیا کے آخری دن تک ۔ جب ان کے نکالنے کا ارادہ اللہ تعالیٰ کر لے گا اس وقت یہود و نضاری اور دوسرے دین والے جہنمی ان اہل توحید سے کہیں گے کہ تم اللہ پر اس کی کتابوں پر اس کے رسولوں پر ایمان لائے تھے پھر بھی آج ہم اور تم جہنم میں یکساں ہیں ۔ پس اللہ تعالیٰ کو سخت غصہ آئے گا کہ ان کی اور کسی بات پر اتنا غصہ نہ آیا تھا پھر ان موحدوں کو جہنم سے نکال کر جنت کی نہر کے پاس لایا جائے گا ۔ یہ ہے فرمان آیت ( رُبَمَا يَوَدُّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْ كَانُوْا مُسْلِمِيْنَ Ą۝ ) 15- الحجر:2 ) میں ہے ۔ پھر بطور ڈانٹ کے فرماتا ہے کہ انہیں کھاتے پیتے اور مزے کرتے چھوڑ دے آخر تو ان کا ٹھکانا جہنم ہے ۔ تم کھا پی لو ، تمہارا مجرم ہونا ثابت ہو چکا ہے ۔ انہیں ان کی دور دراز کی خواہشیں توبہ کرنے سے ، اللہ کی طرف جھکنے سے غافل رکھیں گی ۔ عنقریب حقیقت کھل جائے گی ۔ اتمام حجت کے بعد ہم کسی بستی کو دلیلیں پہنچانے اور ان کا مقرر وقت ختم ہونے سے پہلے ہلاک نہیں کرتے ۔ ہاں جب وقت مقررہ آ جاتا ہے پھر تقدیم تاخیر ناممکن ہے اس میں اہل مکہ کی تنبیہ ہے کہ وہ شرک سے الحاد سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت سے باز آ جائیں ورنہ مستحق ہلاکت ہو جائیں گے اور اپنے وقت پر تباہ ہو جائیں گے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

2۔ 1 یہ آرزو کب کریں گے ؟ موت کے وقت، جب فرشتے انھیں جہنم کی آگ دکھاتے ہیں یا جب جہنم میں چلے جائیں گے یا اس وقت جب گنہگار ایمانداروں کو کچھ عرصہ بطور سزا، جہنم میں رکھنے کے بعد جہنم سے نکالا جائے گا یا میدان محشر میں، جہاں حساب کتاب ہو رہا ہوگا اور کافر دیکھیں گے کہ مسلمان جنت میں جا رہے ہیں تو آرزو کریں گے کہ کاش وہ بھی مسلمان ہوتے۔ رُبَمَا اصل میں تو تکثیر کے لئے ہے لیکن کبھی کمی کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ ان کی طرف سے یہ آرزو ہر موقعے پر ہوتی رہے گی لیکن اس کا انھیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢] کافر کون کون سے وقت مسلمان ہونے کی خواہش کریں گے ؟ ربما تکثیر اور تقلیل دونوں مواقع پر استعمال ہوتا ہے یعنی اس کا معنی بسا اوقات اور اکثر اوقات بھی ہوسکتا ہے اور && کبھی کبھی && بھی۔ اور اس لفظ کا استعمال بالخصوص اس صورت میں ہوتا ہے جب کسی سے ہمہ وقت یا اکثر اوقات یاد کرنا متوقع ہو لیکن وہ یاد نہ کرے تو اسے کہتے ہیں کہ کبھی تو ہمیں یاد کرو گے۔ اور اس سے مراد ہر وہ وقت ہوسکتا ہے جب کسی کافر کو اپنی سابقہ زندگی اور اعمال پر حسرت اور ندامت ہو اور اپنے مقابلہ میں مسلمانوں کو عزت اور فلاح و بہبود سے سرفراز ہوتا دیکھے۔ جیسے غزوہ بدر کے موقع پر کافروں کی خوب پٹائی ہوئی اور مسلمانوں کو عزت اور فتح نصیب ہوئی اور ایسے مواقع بیشمار ہوسکتے ہیں۔ دنیا میں بھی، آخرت میں بھی حتیٰ کہ موت کے وقت بھی۔ جب فرشتے مہیب شکل و صورت میں کافر کی جان نکالنے کے لیے آئیں گے اور ایسی آرزو کا آخری موقع وہ ہوگا جب قیامت کے دن کافر کچھ گنہگار مسلمانوں کو بھی اپنے ساتھ دوزخ میں دیکھ کر کہیں گے۔ تم بھی ہمارے ساتھ دوزخ میں ہو تو تمہارے ایمان اور توحید نے تمہیں کیا فائدہ دیا ؟ اس پر اللہ تعالیٰ کسی موحد کو جہنم میں نہ رہنے دے گا۔ یہ فرماکر رسول اللہ نے یہی آیت پڑھی گویا یہ آخری موقع ہوگا جب کافر اپنے مسلمان ہونے کی تمنا کریں گے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

رُبَمَا يَوَدُّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْ كَانُوْا مُسْلِمِيْنَ :” رُبَّ “ حرف جر ہے، ” مَا “ بمعنی وقت۔ ” رُبَّ “ کا لفظ تقلیل کے لیے آتا ہے، یعنی کسی وقت، جیسے : ” رُبَّ أَخٍ لَمْ تَلِدْہُ اُمُّکَ “ ” کئی بھائی ہیں جنھیں تیری ماں نے نہیں جنا “ اور تکثیر کے لیے بھی، مثلاً ” رُبَّمَا یَنْجُو الذَّکِیُّ “ ” بہت دفعہ ذہین آدمی کامیاب ہوجاتا ہے۔ “ فرق موقع کو ملحوظ رکھ کر ہوتا ہے، مثلاً یہی مثال اگر اس طرح ہو کہ ” رُبَّمَا یَنْجُ الْکَسُوْلُ “ تو معنی ہوگا ” کسی وقت سست آدمی بھی کامیاب ہوجاتا ہے۔ “ اس آیت میں بعض علماء نے یہ لفظ تقلیل کے لیے قرار دیا ہے، یعنی ” کسی وقت “ اور بعض نے تکثیر کے لیے، یعنی بہت بار، صاحب مغنی اللبیب کے بقول یہاں یہی معنی راجح ہے، کیونکہ مرنے کے بعد کفار کا ہر لمحہ اسی حسرت میں گزرے گا۔ ” لَوْ “ تمنی کے لیے ہے۔ ایسی چیز کی خواہش جو ناممکن ہو تمنی کہلاتی ہے، ممکن کی خواہش ” ترجّی “ کہلاتی ہے۔ يَوَدُّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : یہ سورت مکی ہے، جب مسلمان ہر طرح کمزور اور مغلوب تھے تو اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کو تسلی دی کہ وہ وقت آ رہا ہے جب یہ کافر چاہیں گے کہ کاش وہ مسلمان ہوتے، مگر وقت نکل جانے کے بعد کسی کام کی خواہش کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس وقت سے مراد دنیا میں ایسے مواقع بھی ہیں جب مسلمانوں کو فتح و کامرانی اور کفار کو شکست و رسوائی حاصل ہوگی، جیسے بدر، خیبر اور فتح مکہ وغیرہ اور کفار چاہیں گے کہ اس وقت مسلمان ہوتے تو ہمیں بھی یہ عزت و غنیمت ملتی اور موت کے وقت بھی اس تمنا کا اظہار کریں گے، جیسا کہ فرمایا : (حَتّيٰٓ اِذَا جَاۗءَ اَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُوْنِ 99 ۝ ۙلَعَلِّيْٓ اَعْمَلُ صَالِحًا فِيْمَا تَرَكْتُ كَلَّا ۭ اِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَاۗىِٕلُهَا) [ المؤمنون : ٩٩، ١٠٠ ] ” یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے پاس موت آتی ہے تو کہتا ہے اے میرے رب ! مجھے واپس بھیجو، تاکہ میں جو کچھ چھوڑ آیا ہوں اس میں کوئی نیک عمل کرلوں۔ ہرگز نہیں، یہ تو ایک بات ہے جسے وہ کہنے والا ہے۔ “ پھر موت کے بعد کی سختیوں میں، خصوصاً جب آگ میں داخل ہونے کو ہوں گے، فرمایا : (وَلَوْ تَرٰٓي اِذْ وُقِفُوْا عَلَي النَّارِ فَقَالُوْا يٰلَيْتَنَا نُرَدُّ وَلَا نُكَذِّبَ بِاٰيٰتِ رَبِّنَا وَنَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ ) [ الأنعام : ٢٧ ] ” اور کاش ! تو دیکھے جب وہ آگ پر کھڑے کیے جائیں گے تو کہیں گے اے کاش ! ہم واپس بھیجے جائیں اور اپنے رب کی آیات کو نہ جھٹلائیں اور ایمان والوں میں سے ہوجائیں۔ “ اور سب سے زیادہ حسرت کے ساتھ یہ خواہش اس وقت کریں گے جب مسلمانوں میں سے جہنم میں جانے والے سب کے سب جہنم سے نکال لیے جائیں گے۔ ابوموسیٰ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جب اہل نار آگ میں جمع ہوجائیں گے اور ان کے ساتھ اہل قبلہ میں سے بھی وہ لوگ ہوں گے جنھیں اللہ چاہے گا تو کفار مسلمانوں سے کہیں گے : ” کیا تم مسلم نہیں تھے ؟ “ وہ کہیں گے : ” کیوں نہیں ؟ “ کفار کہیں گے : ” پھر تمہارے اسلام نے تمہیں کیا فائدہ دیا کہ تم بھی ہمارے ساتھ آگ میں پہنچ گئے ؟ “ وہ کہیں گے : ” ہمارے کچھ گناہ تھے جن کی و جہ سے ہم پکڑے گئے۔ “ انھوں نے جو کچھ کہا اللہ تعالیٰ اسے سنے گا اور جو اہل قبلہ میں سے ہوں گے ان کے متعلق حکم دے گا اور وہ نکال لیے جائیں گے، تو جب جہنمی یہ دیکھیں گے تو کہیں گے : ” کاش ! ہم بھی مسلم ہوتے اور ہم بھی اسی طرح نکل جاتے جیسے یہ نکلے ہیں۔ “ (ابو موسیٰ (رض) نے) کہا، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت پڑھی : (رُبَمَا يَوَدُّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْ كَانُوْا مُسْلِمِيْنَ الۗرٰ ۣ تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ وَقُرْاٰنٍ مُّبِيْنٍ ) [ السنۃ لابن أبي عاصم، باب ذکر من یخرج اللہ بتفضلہ من النار : ٨٤٣۔ مستدرک حاکم : ٢؍ ٢٤٢، ح : ٢٩٥٤ ] شیخ البانی (رض) نے ” ظلال السنۃ “ میں اسے صحیح کہا ہے اور اس مفہوم کی کئی احادیث بیان کی ہیں۔ ” مُسْلِمِيْنَ “ نکرہ ہے، اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے کہ ” کاش ! وہ کسی طرح کے مسلمان ہوتے “ یعنی گناہ گار بھی ہوتے تو آخر جہنم سے نکل ہی جاتے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

رُبَمَا يَوَدُّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْ كَانُوْا مُسْلِمِيْنَ ۝ رُب وَ «رُبَّ» لاستقلال الشیء، ولما يكون وقتا بعد وقت نحو : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] . ( ر ب ب ) الرب ( ن ) رب تقلیل کے لئے آتا ہے اور کبھی تکثیر کے معنی بھی دیتا ہے ۔ جیسے فرمایا : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] کافر بہترے ہی ارمان کریں گے ( کہ ) اے کاش ( ہم بھی ) مسلمان ہوئے ہوتے ۔ ودد الودّ : محبّة الشیء، وتمنّي كونه، ويستعمل في كلّ واحد من المعنيين علی أن التّمنّي يتضمّن معنی الودّ ، لأنّ التّمنّي هو تشهّي حصول ما تَوَدُّهُ ، وقوله تعالی: وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً [ الروم/ 21] ( و د د ) الود ۔ کے معنی کسی چیز سے محبت اور اس کے ہونے کی تمنا کرنا کے ہیں یہ لفظ ان دونوں معنوں میں الگ الگ بھی استعمال ہوتا ہے ۔ اس لئے کہ کسی چیز کی تمنا اس کی محبت کے معنی کو متضمعن ہوتی ہے ۔ کیونکہ تمنا کے معنی کسی محبوب چیز کی آرزو کرنا کے ہوتے ہیں ۔ اور آیت : ۔ وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً [ الروم/ 21] اور تم میں محبت اور مہربانی پیدا کردی ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ سلم والْإِسْلَامُ : الدّخول في السّلم، وهو أن يسلم کلّ واحد منهما أن يناله من ألم صاحبه، ومصدر أسلمت الشیء إلى فلان : إذا أخرجته إليه، ومنه : السَّلَمُ في البیع . والْإِسْلَامُ في الشّرع علی ضربین : أحدهما : دون الإيمان، وهو الاعتراف باللسان، وبه يحقن الدّم، حصل معه الاعتقاد أو لم يحصل، وإيّاه قصد بقوله : قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات/ 14] . والثاني : فوق الإيمان، وهو أن يكون مع الاعتراف اعتقاد بالقلب، ووفاء بالفعل، واستسلام لله في جمیع ما قضی وقدّر، كما ذکر عن إبراهيم عليه السلام في قوله : إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة/ 131] ، ( س ل م ) السلم والسلامۃ الاسلام اس کے اصل معنی سلم ) صلح) میں داخل ہونے کے ہیں اور صلح کے معنی یہ ہیں کہ فریقین باہم ایک دوسرے کی طرف سے تکلیف پہنچنے سے بےخوف ہوجائیں ۔ اور یہ اسلمت الشئی الی ٰفلان ( باب افعال) کا مصدر ہے اور اسی سے بیع سلم ہے ۔ شرعا اسلام کی دوقسمیں ہیں کوئی انسان محض زبان سے اسلام کا اقرار کرے دل سے معتقد ہو یا نہ ہو اس سے انسان کا جان ومال اور عزت محفوظ ہوجاتی ہے مگر اس کا درجہ ایمان سے کم ہے اور آیت : ۔ قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات/ 14] دیہاتی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے کہدو کہ تم ایمان نہیں لائے ( بلکہ یوں ) کہو اسلام لائے ہیں ۔ میں اسلمنا سے یہی معنی مراد ہیں ۔ دوسرا درجہ اسلام کا وہ ہے جو ایمان سے بھی بڑھ کر ہے اور وہ یہ ہے کہ زبان کے اعتراف کے ساتھ ساتھ ولی اعتقاد بھی ہو اور عملا اس کے تقاضوں کو پورا کرے ۔ مزید پر آں کو ہر طرح سے قضا وقدر الہیٰ کے سامنے سر تسلیم خم کردے ۔ جیسا کہ آیت : ۔ إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة/ 131] جب ان سے ان کے پروردگار نے فرمایا ۔ کہ اسلام لے آؤ تو انہوں نے عرض کی کہ میں رب العالمین کے آگے سرا طاعت خم کرتا ہوں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢) کافر لوگ بار بار تمنا کریں گے کہ کاش ہم دنیا میں مسلمان ہوتے اور جب کہ اللہ تعالیٰ دوزخ سے ہر مومن کو نکال کر جنت میں داخل فرمائے گا اس وقت بھی کافر خواہش کرے گا کہ کاش میں دنیا میں مسلمان ہوتا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢ (رُبَمَا یَوَدُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْ کَانُوْا مُسْلِمِیْنَ ) ایک وقت آئے گا کہ ان لوگوں کے لیے ان کا کفر موجب حسرت بن جائے گا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢۔ طبرانی میں حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بعضے کلمہ گو مسلمان گناہ گار جس وقت دوزخ میں جاویں گے تو کافر ان پر طعن کریں گے کہ تمہاری مسلمانی تمہارے کچھ کام نہ آئی آخر تم بھی ہمارے ساتھ عذاب میں پھنسے اللہ تعالیٰ ان کافروں کے یہ طعن سن کر جھٹ ان مسلمان کلمہ گو لوگوں کو دوزخ سے نکالنے کا حکم دیوے گا اس وقت کافر لوگ یہ تمنا کریں گے کاش کہ ہم بھی کلمہ گو ہوتے۔ یہ ذکر فرما کر آپ نے یہ آیت ١ ؎ پڑھی جس سے معلوم ہوا کہ اصل شان نزول اس آیت کی یہ ہے سوائے اس کے علمائے متقدمین و متاخرین نے اور شان نزول جو اس آیت کی بیان کی ہے مثلاً کافروں کا موت کے وقت عذاب کے فرشتوں کو دیکھ کر اسلام کی تمنا کا ظاہر کرنا اس سے ان علماء کا مقصد یہ ہے کہ اس حالت پر بھی آیت کا مطلب صادق آتا ہے ورنہ اصل شان نزول وہی ہے جس کی صراحت اس حدیث میں آچکی ہے یہ بات اوپر بیان ہوچکی ہے کہ صحابہ اور تابعین میں یہ ایک طریقہ جاری تھا کہ جس معاملہ پر آیت کا مطلب صادق آتا تھا خواہ وہ معاملہ آیت کے پہلے کا ہو یا بعد کا وہ لوگ اس معاملہ کو بھی آیت کی شان نزول قرار دیا کرتے تھے اگرچہ طبرانی کی سند میں ایک راوی خالد بن نافع کو بعضے علماء نے ضعیف ٹھہرایا ہے لیکن ذہبی ٢ ؎ نے اس کو ناقابل اعتراض قرار دیا ہے علاوہ اس کے یہ حدیث طبرانی میں انس بن مالک (رض) کی روایت ٣ ؎ سے بھی ہے جس کی سند میں خالد بن نافع نہیں ہے۔ اس لئے ایک روایت کو دوسری روایت سے تقویت ہوجاتی ہے۔ اسی واسطے حاکم نے اس حدیث کو صحیح کہا ٤ ؎ ہے۔ اور طبرانی میں صحیح سند سے ایک روایت جابر بن عبد اللہ ٥ ؎ کی بھی اس مضمون کی ہے یہ ہے کہ خالد بن نافع کے ضعیف ہونے کے سبب سے اس شان نزول کی روایت کو ضعیف نہیں کہا جاسکتا بعث و نشور بیہقی میں ایک قصہ ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ایک روز حضرت عبد اللہ بن عباس اور انس بن مالک (رض) میں اس آیت کی شان نزول کی بابت پر بڑی بحث ہو کر آیت کی یہی شان نزول صحیح قرار پائی ٦ ؎ جن کا ذکر ابو موسیٰ اشعری (رض) کی روایت سے اوپر گزرا۔ ١ ؎ تفسیر الدر المنثور ٩٢ ج ٤ مجمع الزوائد ص ٤٥ ج ٧ تفسیر سورت الحجر۔ ٢ ؎ میزان الاعتدال ص ٣٠٢ ج ١۔ ٣ ؎ تفسیر الدرا لمنثور ٩٣ ج ٤ تفسیر ابن کثیر ص ٥٤٦ ج ٢۔ ٤ ؎ تفسیر الدرا لمنثور ص ٩٢ ج ٤۔ ٥ ؎ تفسیر الدرالمنثور ص ٩٢ ج ٤ تفسیر فتح البیان ص ٦٣٩ ج۔ ٦ ؎ ایضاً ۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(15:2) ربما رب وربۃ وربما وربتما۔ حرف جر ہے۔ ربما فتح وتشدید باء کے ساتھ یا ربما فتح باء بلاتشدید کے ساتھ ہر دو صورت میں مستعمل ہے۔ سیاق کلام کے موافق تکثیرو تقلیل۔ یعنی ” اکثر “ اور ” کبھی کبھی “ کا فائدہ دیتا ہے۔ رب نکرہ پر داخل ہوتا ہے اور زائد کے حکم میں ہوتا ہے جیسے رب جھل رفع۔ اور جب اس پر ما کافہ داخل ہوجائے (کافّہ یعنی سابق عامل کو عمل سے روک دینے والا) تو اس کا دخول فعل اور معرفہ پر جائز ہوتا ہے۔ جیسے ربما الخلیل مقبل اور ربما اقبل الخلیل اس صورت میں بیشتر اس کا دخول ایسے جملہ فعلیہ پر ہوتا ہے جس کا فعل ماضی ہو خواہ وہ لفظاً موجود ہو یا معناً ۔ لیکن آیہ ہذا میں یہ فعل مستقبل پر داخل ہوا ہے۔ لیکن مضارع پر اس کا دخول بہت کم واقع ہوتا ہے۔ ربما اگرچہ کلام عرب میں اکثر استعمال ہوتا ہے لیکن قرآن مجید میں صرف اسی آیت میں آیا ہے۔ ربما۔ بمعنی کسی وقت۔ بہت وقت۔ کبھی کبھی۔ اکثر۔ یود۔ مضارع واحد مذکر غائب۔ مودۃ مصدر۔ (باب سمع ) وہ آرزو کرے گا۔ وہ آرزو کرتا ہے۔ پسند کرے گا۔ یا پسند کرے گا۔ ودو۔ مادہ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 ۔ ” یعنی موت کے وقت یا قیامت کے دن “۔ یا جب اللہ تعالیٰ گنہگار مسلمانوں کو جہنم سے نکال لے گا اور کافروں کو اس میں رہنے دگا۔ مطلب یہ کہ جب کافروں پر حقیقت حال واضح ہوجائے گی تو وہ پچھتا پچھتا کر آرزو کریں گے کہ کاش ہم نے اپنی غلط روش شے توبہ کرکے اسلام دعوت قبول کرلی ہوتی۔ مگر اس وقت ان کا پچھتانا اور یہ آرزو کرنا ان کے کسی کام نہ آسکے گا۔ بظاہر الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ حقیقت حال واضح ہوجانے کے بعد کفار ہر لحظہ یہ آرزو کرتے رہیں گے۔ (کذافی الشوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ بار بار اس لئے کہ جب کوئی نئی شدت واقع ہوگی اور معلوم ہوگا کہ اس کی علت کفر ہے تب ہی اسلام نہ لانے پر تازہ حسرت کریں گے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اگر کفار ایمان نہیں لاتے تو انہیں کھلے الفاظ میں انتباہ کیا جاتا ہے کہ وقت آئے گا کہ انہیں مسلمان نہ ہونے پر پچھتاوا ہوگا۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کے اخلاص اور جہد مسلسل کے باوجود یہ لوگ اپنے رب کی خالص بندگی کرنے اور آپ کی رسالت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تو ان سے الجھنے کی بجائے ان کو ان کی حالت پر چھوڑتے ہوئے فرما دیجئے : اے حق کا انکار کرنے والو ! تم کھاؤ، پیو اور عیش اڑاؤ۔ اپنے خوبصورت سپنوں اور امیدوں میں مگن رہو۔ لیکن یاد رکھنا وقت آئے گا کہ یہ خواب ایک دن چکنا چور ہوجائیں گے اور جس ذات کبریا کا تم انکار کرتے ہو قیامت کے دن اس کے سامنے تمہیں حاضر ہو کر اپنے اعمال کا انجام پانا ہوگا۔ جہاں تک ان کے اصرار اور تکرار کا تعلق ہے کہ ان کی بغاوت اور نافرمانیوں کے باوجودان کا احتساب کیوں نہیں ہو رہا، انہیں فرمائیں یہ تاخیر اللہ تعالیٰ کے مقرر کیے ہوئے ضابطے کے عین مطابق ہے۔ اس نے ہر قوم کے مواخذے کا ایک وقت مقرر کر رکھا ہے۔ جب اس قوم کی ہلاکت کا وقت آتا ہے تو اس میں لمحہ بھر کی تقدیم و تاخیر نہیں ہوتی۔ وہ وقت اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاں لوح محفوظ میں لکھ رکھا ہے۔ جب کسی قوم کی ہلاکت کا وقت آتا ہے۔ تو وہ لوگ حسرت و افسوس کا اظہار کرتے ہوئے صدائیں دیتے ہیں کہ کاش ہم اس سے پہلے اپنے رب کے تابع فرمان ہوجاتے۔ لیکن اس وقت ان کی آہ وزاریاں انہیں کچھ فائدہ نہیں دے سکتیں۔ (فَلَمْ یَکُ یَنْفَعُہُمْ إِیمَانُہُمْ لَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا سُنَّۃَ اللَّہِ الَّتِی قَدْ خَلَتْ فِی عِبَادِہِ وَخَسِرَ ہُنَالِکَ الْکَافِرُونَ )[ المومن : ٨٥] ” جب وہ ہمارا عذاب دیکھ چکے تو ان کے ایمان میں انھیں کچھ فائدہ نہ دیا یہ اللہ کا طریقہ ہے جو اس کے بندوں میں چلا آتا ہے اور وہاں کافر خسارے میں رہیں گے۔ “ لوح محفوظ میں ہر چیز لکھی ہوئی ہے : (عَنْ عَبْدِاللّٰہِ ابْنِ عَمْرٍو (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَتَبَ اللّٰہُ مَقَادِےْرَ الْخَلَآ ءِقِ قَبْلَ اَنْ یَّخْلُقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِخَمْسِےْنَ اَلْفَ سَنَۃٍ قَالَ وَکَانَ عَرْشُہٗ عَلَی الْمَاءِ ) [ رواہ مسلم : باب حِجَاجِ آدَمَ وَمُوسٰی i ] ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان پیدا کرنے سے پچاس ہزار سال پہلے مخلوق کی تقدیریں لکھ دیں تھیں اس وقت اللہ کا عرش پانی پر تھا۔ “ (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ دُعِیَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِلٰی جَنَازَۃِ صَبِیٍّ مِّنَ الْاَنْصَارِ فَقُلْتُ ےَا رَسُوْلَ اللّٰہِ طُوْبٰی لِھٰذَا عُصْفُوْرٌ مِّنْ عَصَافِےْرِ الْجَنَّۃِ لَمْ ےَعْمَلِ السُّوْٓءَ وَلَمْ ےُدْرِکْہُ فَقَالَ اَوَغَےْرُ ذٰلِکَ ےَا عَاءِشَۃُ اِنَّ اللّٰہَ خَلَقَ لِلْجَنَّۃِ اَھْلًا خَلَقَھُمْ لَھَا وَھُمْ فِیْٓ اَصْلَابِ اٰبَآءِھِمْ وَخَلَقَ للنَّارِ اَھْلًا خَلَقَھُمْ لَھَا وَھُمْ فِیْٓ اَصْلَابِ اٰبَآءِھِمْ ) [ رواہ مسلم : باب مَعْنَی کُلُّ مَوْلُودٍ یُولَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ ] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو انصار کے ایک بچے کے جنازے کے لیے بلایا گیا میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! اس بچے کے لیے خوشی ہے یہ تو جنت کے پرندوں سے ایک پرندہ ہے اس نے کوئی برا کام نہیں کیا اور نہ ہی اس نے اس کی مہلت پائی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عائشہ ! حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جنت کے لیے کچھ لوگوں کو پیدا فرمایا وہ اسی کے لیے پیدا ہوئے جبکہ وہ اپنے آباء کی پشت میں تھے اور کچھ لوگوں کو دوزخ کے لیے پیدا فرمایا اور وہ دوزخ کے لیے ہی پیدا ہوئے جب وہ اپنے آباء کی پشت میں تھے۔ “ مسائل ١۔ قرآن مجید واضح کتاب ہے۔ ٢۔ کافر قیامت کے دن تمنا کریں گے کاش ہم بھی مسلمان ہوتے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ دنیا میں کفار کو مہلت دیتا ہے۔ ٤۔ کوئی قوم اپنے مقررہ وقت سے آگے پیچھے نہیں ہوسکتی۔ تفسیر بالقرآن مجرموں کا افسوس کرنا : ١۔ عذاب کے وقت کفار کا حسرت و افسوس کرنا۔ (البقرۃ : ١٦٧) ٢۔ موت کے وقت آہ و زاریاں کرنا۔ (المومنون : ٩٩) ٣۔ محشر کے میدان میں حسرت و افسوس کا اظہار کرنا۔ (النباء : ٤٠) ٤۔ جہنم میں ان کا آہ و بکا کرنا۔ (فاطر : ٣٧)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

کافر بار بار تمنا کریں گے کہ کاش مسلمان ہوتے یہاں سے سورة الحجر شروع ہو رہی ہے اس کے چھٹے رکوع میں اصحاب حجر کا تذکرہ ہے اس لیے یہ سورت اس نام سے موسوم ہوئی، اس کی ابتداء بھی ا ل ر ہے جس کا معنی اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے، اس کے بعد فرمایا کہ یہ کتاب (کامل) کی آیات ہیں اور قرآن مبین کی آیات ہیں، مبین واضح اور خوب زیادہ ظاہر کے معنی میں آتا ہے قرآن مجید کی بعض دیگر آیات میں قرآن مجید کو قرآن مبین فرمایا ہے، چونکہ قرآن اپنے مضامین کو خوب واضح کرکے بیان کرتا ہے اس لیے اسے قرآن مبین فرمایا، صاحب معالم التنزیل اس کا معنی بتاتے ہوئے لکھتے ہیں ای بین الحلال من الحرام والحق من الباطل یعنی قرآن نے حلال حرام کی تفصیلات خوب واضح کرکے بیان فرمائیں اور حق کو باطل سے جدا کرکے واضح طور پر بیان فرمایا، الکتاب سے بھی قرآن مبین مراد ہے لفظ ” الکتاب “ میں یہ بتایا کہ یہ لکھی ہوئی چیز ہے اور لفظ قرآن میں یہ بتایا کہ یہ پڑھی جانے والی کتاب ہے آیات الکتاب کا تذکرہ فرمانے کے بعد منکرین کی آرزوؤں کا تذکرہ فرمایا اور وہ یہ کہ بہت سی مرتبہ کافر یہ آرزو کریں گے کہ کاش مسلمان ہوتے، دنیا میں تو مسلمانوں کو وہ بیوقوف بناتے ہیں اور احمق بتاتے ہیں لیکن جب آخرت میں عذاب میں مبتلا ہوں گے اور مسلمانوں کو کامیاب اور بامراد دیکھیں گے تو انہیں بار بار یہ آرزو ہوگی کہ ہائے کاش ہم مسلمان ہوتے، صاحب معالم التنزیل نے حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا جب دوزخی دوزخ میں چلے جائیں گے تو دوزخ میں انہیں بعض مسلمان بھی نظر آئیں گے وہ ان سے پوچھیں گے کیا تم مسلمان نہیں تھے ؟ وہ کہیں گے ہاں ہم مسلمان تھے اس پر کافر کہیں گے پھر تو تمہیں اسلام نے کچھ فائدہ نہ دیا تم تو ہمارے ساتھ دوزخ میں ہو، اس پر مسلمان جواب دیں گے کہ ہم لوگوں نے گناہ کیے تھے ان کی وجہ سے ہمارا مواخذہ ہوا ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ شانہٗ کی طرف سے مسلمانوں کی مغفرت کردی جائے گی اور حکم ہوگا کہ مسلمانوں میں سے جو بھی کوئی دوزخ میں ہے اسے نکال دیا جائے لہٰذا مسلمانوں کو دوزخ سے نکال دیا جائے گا اور یہ سب کچھ اللہ کی رحمت اور فضل سے ہوگا یہ منظر دیکھ کر کافر یہ آرزو کریں گے کہ کاش ہم بھی مسلمان ہوتے، صاحب روح المعانی ص ٤ ج ١٤ میں یہ روایت حضرت جابر بن عبد اللہ اور حضرت ابو سعید خدری (رض) سے بھی نقل کی ہے اس کے آخر میں یہ بھی ہے کہ مذکورہ بات بیان کرنے کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آیت بالا تلاوت فرمائی۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

3:۔ تمہید کے بعد اصل مقصود کا ذکر کیا گیا۔ سورة ابراہیم میں وقائع امم سابقہ زکر کردئیے گئے ہیں تاکہ تم ان سے عبرت حاصل کرو اور عذاب کے ڈر سے مسئلہ مان لو اس لیے اب وقت ہے ضد و انکار سے باز آجاؤ اور مسئلہ قبول کرلو ورنہ پچھتاؤ گے جیسا کہ بہت بار ایسا ہوچکا ہے اقوام گذشتہ کے کفار و مشرکین جب دیکھتے کہ کفر و انکار اور ضد وعناد کی وجہ سے ان پر اللہ کا عذاب نازل ہوچکا ہے اور ایمان والے اس سے بچ گئے ہیں تو وہ حسرت و افسوس سے کہنے لگتے کاش ہم نے بھی مسئلہ توحید مان لیا ہوتا تو آج ہم بھی اس عذاب سے بچ جاتے مگر اس وقت کے پچھتانے سے کوئی فائدہ نہ ہوگا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

2 ۔ بسا اوقات کافر اس بات کی آرزو اور تمنا کریں گے کہ کاش وہ بھی مسلمان ہوتے اور اسلام قبول کرلیتے ۔ یعنی باربار یہ آرزو کریں گے کہ وہ دنیا میں مسلمان ہوگئے ہوتے کیونکہ جب عذاب میں شدت ہوگی اور مسلمانوں کو عذاب سے محفوظ اور جنت میں دیکھیں گے اور اپنے آپ کو انواع و اقسا م کے عذاب میں مبتلا پائیں گے اور اس عذاب میں تخفیف دیکھنا نصیب نہ ہوگا تب ہی ایمان نہ لانے پر حسرت ہوگی اور بار بار یہ تمنا ہوگی کہ کیا اچھا ہوتا جو وہ بھی دنیا میں اسلام قبول کرلیتے اگرچہ وہاں بھی اپنے ایمان کا اعلان کریں گے لیکن وہ بیکار ہوگا ۔ وانی لھم التناوش من مکان بعید۔