Surat ul Hijir

Surah: 15

Verse: 20

سورة الحجر

وَ جَعَلۡنَا لَکُمۡ فِیۡہَا مَعَایِشَ وَ مَنۡ لَّسۡتُمۡ لَہٗ بِرٰزِقِیۡنَ ﴿۲۰﴾

And We have made for you therein means of living and [for] those for whom you are not providers.

اور اسی میں ہم نے تمہاری روزیاں بنادی ہیں اور جنہیں تم روزی دینے والے نہیں ہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِيهَا مَعَايِشَ ... And We have provided therein means of living, for you, Here Allah mentions that He created the earth with different means of provisions and livelihood of all kinds. ... وَمَن لَّسْتُمْ لَهُ بِرَازِقِينَ and for those whom you provide not. Mujahid said, "This refers to the riding animals and the cattle." Ibn Jarir said, "They are slaves, men and women, as well as the animals and the cattle. The meaning is that Allah, may He be exalted, is reminding them of the ways of earning provision that He has made easy for them, and of the animals that He has subjugated for them to ride and to eat, and the slaves from whom they benefit, but the provision of all of these comes from Allah alone."

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

20۔ 1 معایش معیشۃ کی جمع ہے یعنی زمین میں تمہاری معیشت اور گزران کے لئے بیشمار اسباب و وسائل پیدا کردیئے۔ 20۔ 2 اس سے مراد نوکر چاکر، غلام اور جانور ہیں۔ یعنی جانوروں کو تمہارے تابع کردیا، جن پر تم سواری بھی کرتے ہو، سامان بھی لاد کرلے جاتے ہو اور انھیں ذبح کر کے کھا بھی لیتے ہو۔ غلام لونڈیاں ہیں، جن سے تم خدمت گزاری کا کام لیتے ہو۔ یہ اگرچہ سب تمہارے ماتحت ہیں اور تم ان کے چارے اور خوراک وغیرہ کا انتظام بھی کرتے ہو لیکن حقیقت میں ان کا رازق اللہ تعالیٰ ہے، تم نہیں ہو۔ تم یہ نہ سمجھنا کہ تم ان کے رازق ہو، اگر تم انھیں کھانا نہیں دو گے تو بھوکے مرجائیں گے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١ ١] ایسی مخلوق بھی انسانوں کی تعداد سے زیادہ ہے اور اس میں ہر قسم کے چرند، پرند، درندے اور تمام حشرات الارض وغیرہ شامل ہیں۔ ان سب کی روزی بھی اسی طرح زمین کے ساتھ ہی وابستہ ہے جیسے تمہاری وابستہ ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِيْهَا مَعَايِشَ وَمَنْ لَّسْتُمْ لَهٗ بِرٰزِقِيْنَ ۔۔ : ” مَعَايِشَ “ ” مَعِیْشَۃٌ“ کی جمع ہے، ” عَاشَ یَعِیْشُ عَیْشًا وَ مَعَاشًا وَمَعِیْشَۃً “ کا معنی زندہ رہنا ہے، جیسے ” مَاتَ یَمُوْتُ مَوْتًا “ کا معنی مرنا ہے۔ پھر یہ لفظ زندگی کی ضرورتوں کے لیے استعمال ہونے لگا، یعنی تمہاری زندگی گزارنے کے لیے کھانے پینے، رہنے، علاج، راحت، سواری، الغرض ہر ضرورت کی چیز تمہارے لیے بھی پیدا کی اور ان کے لیے بھی جنھیں تم روزی دینے والے نہیں۔ اس سے دو قسم کی چیزیں مراد ہیں، ایک تو وہ جن کا تم سے تعلق ہی نہیں، سمندر کی گہرائیوں میں پہاڑوں کی بلندیوں میں، صحراؤں کی وسعتوں میں، زمین کی تہوں میں، آباد اور بےآباد زمین کی سطح پر اور فضاؤں میں بیشمار مخلوق ہے جنھیں تم ہرگز روزی دینے والے نہیں۔ ” لَّسْتُمْ “ نفی کی تاکید ” بِرٰزِقِيْنَ “ کی باء کے ساتھ ہونے کی و جہ سے ترجمہ ” ہرگز “ کیا گیا ہے۔ دوسری وہ تمام چیزیں جو تمہاری خدمت کے لیے ہیں، مثلاً چوپائے، سواریاں، بیوی بچے اور نوکر چاکر وغیرہ، جن کے متعلق تم سمجھتے ہو کہ ہم انھیں کھانے کو دے رہے ہیں، خوب سمجھ لو کہ تم ہرگز انھیں روزی نہیں دے رہے، زمین میں ان کی معیشت بھی ہم ہی نے بنائی ہے اور ہم ہی انھیں رزق دے رہے ہیں، فرمایا : (اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذو الْقُوَّةِ الْمَتِيْنُ ) [ الذاریات : ٥٨ ] ” بیشک اللہ ہی بیحد رزق دینے والا، قوت والا، نہایت مضبوط ہے۔ “ اور فرمایا : ( وَمَا مِنْ دَاۗبَّةٍ فِي الْاَرْضِ اِلَّا عَلَي اللّٰهِ رِزْقُهَا ) [ ہود : ٦ ] ” اور زمین میں کوئی چلنے والا (جاندار) نہیں مگر اس کا رزق اللہ ہی پر ہے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِيْهَا مَعَايِشَ وَمَنْ لَّسْتُمْ لَهٗ بِرٰزِقِيْنَ 20؀ عيش العَيْشُ : الحیاة المختصّة بالحیوان، وهو أخصّ من الحیاة، لأنّ الحیاة تقال في الحیوان، وفي الباري تعالی، وفي الملک، ويشتقّ منه المَعِيشَةُ لما يُتَعَيَّشُ منه . قال تعالی: نَحْنُ قَسَمْنا بَيْنَهُمْ مَعِيشَتَهُمْ فِي الْحَياةِ الدُّنْيا[ الزخرف/ 32] ، مَعِيشَةً ضَنْكاً [ طه/ 124] ، لَكُمْ فِيها مَعايِشَ [ الأعراف/ 10] ، وَجَعَلْنا لَكُمْ فِيها مَعايِشَ [ الحجر/ 20] . وقال في أهل الجنّة : فَهُوَ فِي عِيشَةٍ راضِيَةٍ [ القارعة/ 7] ، وقال عليه السلام : «لا عَيْشَ إلّا عَيْشُ الآخرة ( ع ی ش ) العیش خاص کر اس زندگی کو کہتے ہیں جو حیوان میں پائی جاتی ہے اور یہ لفظ الحیاۃ سے اض ہے کیونکہ الحیاۃ کا لفظ حیوان باری تعالیٰ اور ملائکہ سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور العیش سے لفظ المعیشۃ ہے جس کے معنی ہیں سامان زیست کھانے پینے کی وہ تمام چیزیں جن زندگی بسر کی جاتی ہے قرآن میں ہے : ۔ نَحْنُ قَسَمْنا بَيْنَهُمْ مَعِيشَتَهُمْ فِي الْحَياةِ الدُّنْيا[ الزخرف/ 32] ہم نے ان میں ان کی معیشت کو دنیا کی زندگی میں تقسیم کردیا ۔ مَعِيشَةً ضَنْكاً [ طه/ 124] اس کی زندگی تنگ ہوجائے گی ۔ وَجَعَلْنا لَكُمْ فِيها مَعايِشَ [ الحجر/ 20] اور ہم ہی نے تمہارے لئے اس میں زیست کے سامان پیدا کردیئے ۔ لَكُمْ فِيها مَعايِشَ [ الأعراف/ 10] تمہارے لئے اس میں سامان زیست ۔ اور اہل جنت کے متعلق فرمایا : ۔ فَهُوَ فِي عِيشَةٍ راضِيَةٍ [ القارعة/ 7] وہ دل پسند عیش میں ہوگا ۔ اور (علیہ السلام) نے فرمایا ( 55 ) الا عیش الا عیش الاخرۃ کہ حقیقی زندگی تو آخرت کی زندگی ہی ہے ۔ رزق الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة «2» ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، ( ر ز ق) الرزق وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٠) اور ہم نے تمہارے لیے زمین سے نباتات اور پھل اور اسی طرح تمام وہ چیزیں جو تم کھاتے پیتے اور پہنتے ہو پیدا کیں اور ان پرندوں اور وحشی جانوروں کو بھی اور پیٹ میں بچہ کو بھی روزی دی جن کو تم روزی نہیں دیتے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٠ (وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِيْهَا مَعَايِشَ وَمَنْ لَّسْتُمْ لَهٗ بِرٰزِقِيْنَ ) کچھ مخلوق تو ایسی ہے جس کی روزی اور کھانے پینے کا انتظام بظاہر انسانوں کی ذمہ داری ہے جیسے پالتو جانور مگر بہت سی مخلوقات ایسی ہیں جن کے رزق کی ذمہ داری انسانوں پر نہیں ہے مگر اللہ ان سب کو ان کے حصے کا رزق بہم پہنچا رہا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

10: اگرچہ ہر چیز کو رزق تو حقیقت میں اللہ تعالیٰ ہی دیتا ہے ؛ لیکن بعض پالتو جانور ایسے ہیں جنہیں انسان ظاہری طور پر چارہ فراہم کرتا ہے، ان کے علاوہ اکثر مخلوقات ایسی ہیں جنہیں رزق مہیا کرنے میں ظاہری طور پر بھی انسان کا کوئی دخل نہیں ہے، اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرمارہے ہیں کہ ہم نے انسانوں کے لئے بھی رزق کے سامان پیدا کئے ہیں اور ان مخلو قات کے لئے بھی جنہیں انسان ظاہری طور پر کوئی غذا فراہم نہیں کرتا۔ عربی گرامر کی رو سے اس آیت کا ترجمہ ایک اور طرح بھی ممکن ہے اور وہ مخلوقات بھی پیدا کی ہیں جن کو تم رزق نہیں دیتے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے فائدے کے لئے وہ مخلوقات بھی پیدا کی ہیں جن کو وہ ظاہری طور پر بھی رزق نہیں دیتا مگر ان سے فائدہ اٹھاتا ہے جیسے شکار کے جانور۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(15:20) معایش۔ معیشۃ کی جمع۔ سامان زندگانی۔ وسائل معاش۔ کھانے پینے کی چیزیں۔ ومن لستم لہ برازقین۔ ای ولمن لستم لہ برازقین۔ یعنی اور ان کے لئے بھی ہم نے سامانِ زینت مہیا کیا ہے جنہیں تم روزی دینے والے نہیں۔ مثلاً جنگلی جانور۔ درندے ۔ کیڑے۔ مکوڑے یا سمندر میں بسنے والے جانور وغیرہ۔ یعنی ایسی مخلوق جو انسان کے ہاتھوں روزی حاصل نہیں کرتی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 ۔ بلکہ اللہ تعالیٰ روزی دیتا ہے اور جو تمہاری خدمت کرتے ہیں۔ اس سے مراد مربوط ہیں نوکرچاکر اور جانور وغیرہ جن کا رازق درحقیقت اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ (شوکانی) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ تعالیٰ نے زمین میں انسانوں کی زندگی کے سامان پیدا فرمائے پھر فرمایا (وَ جَعَلْنَا لَکُمْ فِیْھَا مَعَایِشَ ) (اور ہم نے زمین میں تمہارے لیے زندگی کے سامان پیدا کردئیے) یعنی کھانے پینے اور پہننے کی چیزیں پیدا کردیں یہ چیزیں تمہاری بقاء اور معیشت اور زندگی کا سبب ہیں (وَ مَنْ لَّسْتُمْ لَہٗ بِرٰزِقِیْنَ ) (اور ہم نے تمہارے لیے وہ چیزیں پیدا کیں جنہیں تم رزق دینے والے نہیں ہو) صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ یہ معایش پر معطوف ہے اور مطلب یہ ہے کہ ہم نے تمہارے لیے معیشت کی چیزیں پیدا فرمائیں جنہیں تم استعمال کرتے ہو اور جن سے تم خدمت لیتے ہو ان کو بھی پیدا فرمایا یعنی اہل و عیال اور باندی غلام نوکر چاکر اور چوپائے وغیرہ پیدا فرمائے تم ان چیزوں سے کام لیتے ہو اور رزق اللہ تعالیٰ دیتا ہے وہ تمہارا بھی رازق ہے اور ان چیزوں کا بھی رازق ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

20 ۔ اور ہم نے زمین میں تمہاری معیشت اور تمہاری روزی کے اسباب و سامان پیدا کئے اور ان چیزوں کی روزی کے بھی سامان پیدا کئے جن کو تم روزی نہیں دیتے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی جانوروں کی روزیاں۔ 12 خلاصہ۔ یہ ہے کہ آیت کے مفسرین نے دو معنی کئے ہیں ایک یہ کہ تمہاری روزی کے اسباب پیدا کئے اور وہ چیزیں پیدا کیں جن کو تم روزی نہیں دیتے اور دوسرے معنی یہ کہ تمہارے لئے بھی اسباب معیشت زمین میں بنائے اور ان کے لئے بھی سامان معیشت بنایا جن کو تم روزی نہیں دیتے پہلے معنی ترجمہ میں اور دوسرے معنی تیسیر میں اختیار کئے ہیں دوسرے معنی زیادہ مشہور ہیں ۔ من لستم کی شرح میں یعنی دیگر حیوانات بلکہ تمام مخلوقات کو روزی عطا کرتے ہیں۔