Surat ul Hijir

Surah: 15

Verse: 27

سورة الحجر

وَ الۡجَآنَّ خَلَقۡنٰہُ مِنۡ قَبۡلُ مِنۡ نَّارِ السَّمُوۡمِ ﴿۲۷﴾

And the jinn We created before from scorching fire.

اوراس سے پہلے جنات کو ہم نے لو والی آگ سے پیدا کیا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And indeed, We created man from dried (sounding) clay of altered mud. And the Jinn, We created earlier from the smokeless flame of fire. Ibn Abbas, Mujahid and Qatadah said that; Salsal means dry mud. The apparent meaning is similar to the Ayah: خَلَقَ الاِنسَـنَ مِن صَلْصَـلٍ كَالْفَخَّارِ وَخَلَقَ الْجَأنَّ مِن مَّارِجٍ مِّن نَّارٍ He created man (Adam) from sounding clay like the potter's clay, And He created the Jinns from a smokeless flame of fire. (55:14-15) It was also reported from Mujahid that, صَلْصَالٍ (dried (sounding) clay) means "putrid", but it is more appropriate to interpret an Ayah with another Ayah. ... مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍ of altered mud, means the dried clay that comes from mud, which is soil. "Altered" here means smooth. وَالْجَأنَّ خَلَقْنَاهُ مِن قَبْلُ ... And the Jinn, We created earlier, means before creating humans. ... مِن نَّارِ السَّمُومِ from the smokeless flame of fire. Ibn Abbas said, "It is the smokeless flame that kills." Abu Dawud At-Tayalisi said that Shu`bah narrated to them from Abu Ishaq, who said: "I visited `Umar Al-Asamm when he was sick, and he said: `Shall I not tell you a Hadith that I heard from Abdullah bin Mas`ud He said: `This smokeless flame is one of the seventy parts of the smokeless fire from which the Jinn where created. Then he recited, وَالْجَأنَّ خَلَقْنَاهُ مِن قَبْلُ مِن نَّارِ السَّمُومِ (And the Jinn, We created earlier from the smokeless flame of fire)."' The following is found in the Sahih, خُلِقَتِ الْمَلَيِكَةُ مِنْ نُورٍ وَخُلِقَتِ الْجَانُّ مِنْ مَارِجٍ مِنْ نَارٍ وَخُلِقَ ادَمُ مِمَّا وُصِفَ لَكُم The angels were created from light, the Jinn were created from a smokeless flame of fire, and Adam was created from that which has been described to you. The Ayah is intended to point out the noble nature, good essence and pure origin of Adam.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

27۔ 1 جِنّ کو جن اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آنکھوں سے نظر نہیں آتا۔ سورة رحمٰن میں جنات کی تخلیق ( مَّارِجٍ مِّنْ نَّارٍ ) 55 ۔ الرحمن :15) سے بتلائی گئی ہے اور صحیح مسلم کی ایک حدیث میں یہ کہا گیا اس اعتبار سے لو والی آگ یا آگ کے شعلے کا ایک ہی مطلب ہوگا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨ ١] جنوں کی پیدائش آگ سے ہوئی :۔ جنوں کو ایسی آگ سے پیدا کیا گیا جس میں ہوا ملی ہوئی تھی۔ سموم بمعنی سخت گرم ہوا۔ یعنی اتنی گرم ہوا سے جو آگ جیسی گرم ہو اور ہر چیز کو جھلس کر رکھ دے۔ جس سے معلوم ہوا کہ جنوں کی پیدائش میں غالب عنصر آگ تھا۔ ابلیس اصل میں جنوں کی جنس سے تعلق رکھتا تھا۔ مگر اپنی ہمہ وقت عبادت گزاری کی وجہ سے فرشتوں کی صفوں میں شامل ہوگیا تھا۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے سورة بقرہ کا حاشیہ نمبر ٥٣) جانّ اور جن کا لغوی مفہوم اور مراد :۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ جس طرح آدمیوں یا انسانوں کے جد امجد کا نام آدم (علیہ السلام) ہے۔ اسی طرح جنوں کے جد امجد جانّ ہے۔ اور جن کا لغوی معنی کسی چیز کو ڈھانپ کر چھپا دینا ہے کہ وہ نظروں سے اوجھل ہوجائے۔ اور جنوں کو بھی جن اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ انسانوں کے لیے غیر مرئی مخلوق ہے جو انسانوں کی نظروں سے اوجھل رہتی ہے۔ جن اپنی شکل و صورت بدل سکتے ہیں کبھی یہ دیو، بھوت پریوں کی شکل میں انسانوں کے سامنے نمودار ہوتے ہیں اور کبھی سانپ کی شکل میں۔ چناچہ حدیث میں آیا ہے کہ اگر تم گھروں میں سانپ دیکھو تو مارنے سے پہلے اسے کہہ لو کہ اگر وہ جن ہے تو چلا جائے۔ قرآن میں بھی جان کا لفظ سانپ کے لیے استعمال ہوا ہے۔ (٢٧ : ١٠) اور جان صرف ایسے سانپ کو کہتے ہیں جو عصا کی طرح لمبا اور پتلا ہو۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَالْجَاۗنَّ خَلَقْنٰهُ : یہاں ” وَالْجَاۗنَّ “ سے مراد اکثر مفسرین نے جنوں کا باپ لیا ہے، بعض جنوں کی جنس مراد لیتے ہیں، بعض نے ابلیس مراد لیا ہے۔ اسے ” وَالْجَاۗنَّ “ یا جن (جَنَّ یَجُنُّ ، بمعنی ڈھانپنا، چھپانا) انسان کی آنکھوں سے چھپنے کی وجہ سے کہتے ہیں، جیسا کہ جنین اور جنون وغیرہ سب میں ڈھانپنے کا مفہوم شامل ہے۔ جنوں کے بارے میں فرمایا : (اِنَّهٗ يَرٰىكُمْ هُوَ وَقَبِيْلُهٗ مِنْ حَيْثُ لَا تَرَوْنَهُمْ ) [ الأعراف : ٢٧ ] ” بیشک وہ اور اس کا قبیلہ تمہیں وہاں سے دیکھتے ہیں جہاں سے تم انھیں نہیں دیکھتے۔ “ مِنْ قَبْلُ مِنْ نَّار السَّمُوْمِ : ” السَّمُوْمِ “ دراصل سخت گرم ہوا (لوُ ) کو کہتے ہیں، ایک تو اس کے زہریلے ہونے کی و جہ سے (مِنَ السُّمِّ ) اور ایک اس لیے کہ وہ جسم کے مسامات کے اندر پہنچ جاتی ہے (مِنَ الْمَسَامِ ) ۔ مراد خالص آگ جو دھوئیں سے خالی اور اپنی تیزی کی و جہ سے لو کی شکل اختیار کرچکی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَالْجَاۗنَّ خَلَقْنٰهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نَّارِ السَّمُوْمِ 27؀ كثر عشبها حتی صارت كأنها مجنونة، وقوله تعالی: وَالْجَانَّ خَلَقْناهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نارِ السَّمُومِ [ الحجر/ 27] فنوع من الجنّ ، وقوله تعالی: كَأَنَّها جَانٌّ [ النمل/ 10] ، قيل : ضرب من الحيّات . اور آیت کریمہ ؛۔ وَالْجَانَّ خَلَقْناهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نارِ السَّمُومِ [ الحجر/ 27] اور جان کو اس سے بھی پہلے بےہوئیں کی آگ سے پیدا کیا تھا ۔ میں جان سے بھی جنوں کی ایک قسم مراد ہے ۔ لیکن آیت کریمۃ ؛ كَأ نَّها جَانٌّ [ النمل/ 10] میں جان سے ایک قسم سانپ مراد ہے ۔ نار والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] ، ( ن و ر ) نار اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ سمم السَّمُّ والسُّمُّ : كلّ ثقب ضيّق کخرق الإبرة، وثقب الأنف، والأذن، وجمعه سُمُومٌ. قال تعالی: حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِياطِ [ الأعراف/ 40] ، وقد سَمَّهُ ، أي : دخل فيه، ومنه : السَّامَّةُ «3» للخاصّة الذین يقال لهم : الدّخلل «4» ، الذین يتداخلون في بواطن الأمر، والسّمّ القاتل، وهو مصدر في معنی الفاعل، فإنه بلطف تأثيره يدخل بواطن البدن، والسَّمُومُ : الرّيح الحارّة التي تؤثّر تأثير السّمّ. قال تعالی: وَوَقانا عذاب السَّمُومِ [ الطور/ 27] ، وقال : فِي سَمُومٍ وَحَمِيمٍ [ الواقعة/ 42] ، وَالْجَانَّ خَلَقْناهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نارِ السَّمُومِ [ الحجر/ 27] . ( س م م ) السم ( بفتحہ سین وضمہ آں ) کے معنی تنگ سوارخ کے ہیں جیسے سوئی کا ناکہ یا ناک اور کان کا سوراخ ہوتا ہے ۔ اس کی جمع سموم آتی ہے قرآن میں ہے ۔ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِياطِ [ الأعراف/ 40] یاہں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں سے نہ نکل جائے ۔ اور سمہ ( ن ) کے معنی کسی چیز میں گھس جانا کے ہیں ۔ اور اسی سے السامۃ ہے یعنی وہ خاص لوگ جو ہر معاملہ میں گھس کر اس کی تہ تک پہنچ جاتے ہیں اور انہیں دخل بھی کہا جاتا ہے ۔ السم ۔ زہر قاتل کو کہتے ہیں کیونکہ یہ اپنے لطف تاثیر سے بدن کے اندر سرایت کر جاتی ہے اور یہ اصل میں مصدر بمعنی فاعل ہے ۔ السموم ( لو ) گرم ہوا جو زہر کی طرح بدن کے اندر سرایت کی جاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَوَقانا عذاب السَّمُومِ [ الطور/ 27] اور ہمیں لو کے عذاب سے بچالیا ۔ فِي سَمُومٍ وَحَمِيمٍ [ الواقعة/ 42]( یعنی دوزخ کی ) لپٹ اور کھولتے ہوئے پانی میں ۔ وَالْجَانَّ خَلَقْناهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نارِ السَّمُومِ [ الحجر/ 27] اور جنوں کو اس سے بھی پہلے دھوئیں کی آگ سے پیدا کیا تھا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٧ (وَالْجَاۗنَّ خَلَقْنٰهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نَّار السَّمُوْمِ ) یہ لفظ ” سموم “ اردو میں بھی معروف ہے۔ موسم گرما میں صحرا میں چلنے والی تیز گرم ہوا کو باد سموم کہتے ہیں۔ آگ کے شعلے کا وہ حصہ جو بظاہر نظر آتا ہے اس کے گرد ہالے کی شکل میں اس کا وہ حصہ ہوتا ہے جو عام طور پر نظر نہیں آتا۔ شعلے کے اس نظر نہ آنے والے حصے کا درجہ حرارت نسبتاً زیادہ ہوتا ہے۔ یہاں ” نار سموم “ سے مراد آگ کی وہی لپٹ یا لو مراد ہے جو شدید گرم ہوتی ہے اور اسی سے جنات کو پیدا کیا گیا ہے۔ یہاں ایک نکتہ یہ بھی مد نظر رہنا چاہیے کہ جنات کو اگرچہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے مگر وہ آگ نہیں ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے ہمیں مٹی سے پیدا کیا گیا ہے مگر ہم مٹی نہیں ہیں۔ دوسری اہم بات یہاں یہ واضح ہوئی کہّ جناتِ کو انسانوں سے بہت پہلے پیدا کیا گیا تھا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

18. As samum is not wind, nar-i-samum will mean flame of intense heat and not of fire. This is the explanation of those passages in which it has been stated that jinns have been created from fire.

سورة الْحِجْر حاشیہ نمبر :18 سموم گرم ہوا کو کہتے ہیں ، اور نار کو سموم کی طرف نسبت دینے کی صورت میں اس کے معنی آگ کے بجائے تیز حرارت کے ہوجاتے ہیں ۔ اس سے ان مقامات کی تشریح ہو جاتی ہے جہاں قرآن مجید میں یہ فرمایا گیا ہے کہ جن آگ سے پیدا کیے گئے ہیں ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو ، الرحمٰن ، حواشی ۱٤ تا ۱٦ ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

13: جس طرح انسان کے جد امجد حضرت آدم (علیہ السلام) ہیں اسی طرح جنات میں سب سے پہلے جس جن کو پیدا کیا گیا اس کا نام جان تھا اور اسے آگ سے پیدا کیا گیا

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(15:27) الجان۔ الجن (باب نصر) کے اصل معنی کسی چیز کو حواس سے پوشیدہ کرنے کے ہیں۔ جیسے فلما جن علیہ اللیل (6:76) جب رات نے اس کو (پردہ تاریکی) سے چھپا دیا ۔ اسی معنی میں الجنان دل۔ کیونکہ وہ حواس سے مستور رہتا ہے۔ یا المجن المجنۃ الجنۃ ۔ ڈھال کیونکہ اس سے انسان اپنے آپ کو بچاتا اور چھپاتا ہے۔ اور الجنۃ باغ۔ ایسا باغ جس کی زمین درختوں کی وجہ سے نظر نہ آئے۔ ولو لا اذ دخلت جنتک (18:39) اور جب تم اپنے باغ میں داخل ہوئے تو کیوں نہ۔۔ اور جنین (فعیل بمعنی مفعول) وہ بچہ جو ابھی ماں کے پیٹ میں ہے۔ کہ وہ حواس انسانی سے مستور ہے یا الجنین قبر (فعیل بمعنی فاعل) چھپانے والے۔ تو گویا جن ایک ایسی مخلوق ہے جو انسانی نظروں سے پوشیدہ اور اوجھل ہے۔ جان، جن کی جمع ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ جس طرح ابوالبشر (سارے انسانوں کے باپ ) کا نام آدم ہے اسی طرح ابو الجن (جنو ّں کے باپ کا نام) الجان ہے۔ بعض کے نزدیک الجان اسم جنس ہے مراد ہے جنوں کی جنس جیسے الانسان۔ انسانوں کی جنس کا نام ہے جن مسلمان بھی ہوتے ہیں اور کافر بھی جیسے قرآن مجید میں آیا ہے وانا من المسلمون ومنا القسطون۔ (72:14) اور ہم میں سے بعض مسلمان ہیں اور بعض ہم میں سے راہ حق سے مڑجانیوالے ہیں یعنی کافر۔ السموم۔ اس کا مادّہ س م ہے السم (بفتحہ سین وضمّہ آن) کے معنی تنگ سوراخ کے ہیں۔ جیسے سوئے کا ناکہ یا کان اور ناک کا سوراخ ہوتا ہے۔ اس کی جمع سموم آتی ہے۔ قرآن مجید میں آیا ہے حتی یلج الجمل فی سم الخیاط (7:40) یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکہ میں سے نہ نکل جائے۔ سم یسم۔ (باب نصر) کے معنی ہیں کسی چیز میں گھس جانا۔ اسی سے السامۃ ہے یعنی وہ خاص لوگ جو ہر معاملہ میں گھس کر اس کی تہ تک پہنچ جاتے ہیں۔ السم زہر قاتل کو کہتے ہیں کیونکہ یہ اپنے لطف ِ تاثیر سے بدن کے اندر سرایت کر جاتی ہے اور یہ اصل میں مصدر بمعنی فاعل ہے۔ السموم۔ لُو ! گرم ہوا۔ جو زہر کی طرح بدن کے اندر سرایت کر جاتی ہے۔ جیسے ووقنا عذاب السموم (52:27) اور ہمیں لو کے عذاب سے بچا لیا۔ السموم الریح الحارۃ التی تقتل۔ سخت گرم ہوا جو مار ڈالے دیتی ہو۔ سموم بغیر دھوئیں کی آگ۔ قیل السموم نار لا دخان لھا۔ سموم وہ آگ ہے جس کا دھواں نہ ہو۔ نار السموم۔ مضاف مضاف الیہ۔ یہ اضافۃ العام الی الخاص کی مثال ہے یا اضافۃ الموصوف الی الصفۃ کی ۔ مراد اس سے النار المفرطۃ الحرارۃ یعنی بہت ہی گرم آگ، (جو زہر کی طرح یا بادسموم کی طرح لطیف تاثیر سے روئیں روئیں میں سرایت کر جائے) گو یا نار السموم سے دو صفات نمایاں ہیں۔ ایک تو انتہائی گرمی کہ اس کے سبب سے متصف میں غضب وبے قراری کی سی حالت پائے جائے ۔ اور دوسرے غایت درجہ لطافت کہ اس کی وجہ سے وہ غیر مرئی ہو۔ اور یہی جنات کی عام صفتیں ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 ۔ مگر جمہور مفسرین کے نزدیک یہاں ” الجان “ سے مراد ابو الجن (جنوں کا باپ) ہی ہے۔ 9 ۔ ” سموم “ دراصل گرم ہوا (لو) کو کہتے ہیں۔ پس ” نار السموم “ کا ترجمہ بعض مفسرین (رح) نے ” ہوا طی ہوئی لطیف آگے “ یا تیز حرارت “ بھی کیا ہے۔ حضرت ابن مسعود (رض) فرماتے ہیں جس سموم سے اللہ تعالیٰ نے ” الجان “ کو پیدا کیا یہ باد سموم اس کا سترواں حصہ ہے۔ (رزی) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ یعنی آدم (علیہ السلام) کے قبل۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

27 ۔ اور جان یعنی ابو الجنات کو ہم نے انسان کی پیدائش سے پہلے گرم ہوا کی آگ سے پیدا کیا ، حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں مٹی کو پانی میں تر کیا اور خمیر اٹھایا کہ کھن کھن بولنے لگی وہ بدن ہوا انسان کا اس کی خاصیتیں اس میں رہ گئیں سختی اور بوجھ اسی طرح گرم باد کی خاصیت رہی جن کی پیدائش میں ۔ 12 یعنی جس طرح انسان کو مٹی سے بنایا اسی طرح جنات کو آگ سے بنایا وہ آگ خالص ہونے کی وجہ سے گرم ہوا کی مانند تھی جو نظر نہ آتی تھی ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی لطیف آگ ہوا سے ملی ہوئی ابلیس بھی اسی قسم میں ہے۔ 12 خلاصہ۔ یہ کہ جس طرح حضرت آدم (علیہ السلام) میں مٹی کے اجزا غالب تھے اسی طرح جنات میں آگ کے اجزا غالب ہیں۔