Surat ul Hijir
Surah: 15
Verse: 45
سورة الحجر
اِنَّ الۡمُتَّقِیۡنَ فِیۡ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوۡنٍ ﴿ؕ۴۵﴾
Indeed, the righteous will be within gardens and springs.
پرہیزگار جنتی لوگ باغوں اور چشموں میں ہونگے ۔
اِنَّ الۡمُتَّقِیۡنَ فِیۡ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوۡنٍ ﴿ؕ۴۵﴾
Indeed, the righteous will be within gardens and springs.
پرہیزگار جنتی لوگ باغوں اور چشموں میں ہونگے ۔
Description of the People of Paradise Since Allah mentioned the condition of the people of Hell, He followed that by mentioning the people of Paradise. He tells that they will dwell in Gardens and water springs. إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ Truly, those who have Taqwa, will dwell in Gardens and water springs.
جنت میں کوئی بغض و کینہ نہ رہے گا دوزخیوں کا ذکر کر کے اب جنتیوں کا ذکر ہو رہا ہے کہ وہ باغات ، نہروں اور چشموں میں ہوں گے ۔ ان کو بشارت سنائی جائے گی کہ اب تم ہر آفت سے بچ گئے ہر ڈر اور گھبراہٹ سے مطمئن ہو گئے نہ نعمتوں کے زوال کا ڈر ، نہ یہاں سے نکالے جانے کا خطرہ نہ فنا نہ کمی ۔ اہل جنت کے دلوں میں گو دنیوں رنجشیں باقی رہ گئی ہوں مگر جنت میں جاتے ہی ایک دوسرے سے مل کر تمام گلے شکوے ختم ہو جائیں گے ۔ حضرت ابو امامہ فرماتے ہیں جنت میں داخل ہونے سے پہلے ہی سینے بےکینہ ہو جائیں گے ۔ چنانچہ مرفوع حدیث میں بھی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مومن جہنم سے نجات پا کر جنت دوزخ کے درمیان کے پل پر روک لئے جائیں گے جو ناچاقیاں اور ظلم آپس میں تھے ، ان کا ادلہ بدلہ ہو جائے گا اور پاک دل صاف سینہ ہو کر جنت میں جائیں گے ۔ اشتر نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آنے کی اجازت مانگی ، اس وقت آپ کے پاس حضرت طلحہ کے صاحبزادے بیٹھے تھے تو آپ نے کچھ دیر کے بعد اسے اندر بلایا اس نے کہا کہ شاید ان کی وجہ سے مجھے آپ نے دیر سے اجازت دی ؟ آپ نے فرمایا سچ ہے ۔ کہا پھر تو اگر آپ کے پاس حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان لوگوں میں سے ہوں گے ، جن کی شان میں یہ ہے کہ ان کے دلوں میں جو کچھ خفگی تھی ہم نے دور کر دی ، بھائی بھائی ہو کر آمنے سامنے تخت شاہی پر جلوہ فرما ہیں ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ عمران بن طلحہ اصحاب جمل سے فارغ ہو کر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئے آپ نے انہیں مرحبا کہا اور فرمایا کہ میں امید رکھتا ہوں کہ میں اور تمہارے والد ان میں سے ہیں جن کے دلوں کے غصے اللہ دور کر کے بھائی بھائی بنا کر جنت کے تختوں پر آمنے سامنے بٹھائے گا ، ایک اور روایت میں ہے کہ یہ سن کر فرش کے کونے پر بیٹھے ہوئے دو شخصوں نے کہا ، اللہ کا عہد اس سے بہت بڑھا ہوا ہے کہ جنہیں آپ قتل کریں ان کے بھائی بن جائیں ؟ آپ نے غصے سے فرمایا اگر اس آیت سے مراد میرے اور طلحہ جیسے لوگ نہیں تو اور کون ہوں گے ؟ اور روایت میں ہے کہ قبیلہ ہمدان کے ایک شخص نے یہ کہا تھا اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس دھمکی اور بلند آواز سے یہ جواب دیا تھا کہ محل ہل گیا ۔ اور روایت میں ہے کہ کہنے والے کا نام حارث اعور تھا اور اس کی اس بات پر آپ نے غصے ہو کر جو چیز آپ کی ہاتھ میں تھی وہ اس کے سر پر مار کر یہ فرمایا تھا ۔ این جرموز جو حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کا قاتل تھا جب دربار علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں آیا تو آپ نے بڑی دیر بعد اسے داخلے کی اجازت دی ۔ اس نے آ کر حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے ساتھیوں کو بلوائی کہہ کر برائی سے یاد کیا تو آپ نے فرمایا تیرے منہ میں مٹی ۔ میں اور طلحہ اور زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو انشاء اللہ ان لوگوں میں ہیں جن کی بابت اللہ کا یہ فرمان ہے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ قسم کہا کر فرماتے ہیں کہ ہم بدریوں کی بابت یہ آیت نازل ہوئی ہے ۔ کثیر کہتے ہیں میں ابو جعفر محمد بن علی کے پاس گیا اور کہا کہ میرے دوست آپ کے دوست ہیں اور مجھ سے مصالحت رکھنے والے آپ سے مصالحت رکھے والے ہیں ، میرے دشمن آپ کے دشمن ہیں اور مجھ سے لڑائی رکھنے والے آپ سے لڑائی رکھنے والے ہیں ۔ واللہ میں ابو بکر اور عمر سے بری ہوں ۔ اس وقت حضرت ابو جعفر نے فرمایا اگر میں ایسا کروں تو یقینا مجھ سے بڑھ کر گمراہ کوئی نہیں ۔ ناممکن کہ میں اس وقت ہدایت پر قائم رہ سکوں ۔ ان دونوں بزرگوں یعنی حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے تو اے کثیر محبت رکھ ، اگر اس میں تجھے گناہ ہو تو میری گردن پر ۔ پھر آپ نے اسی آیت کے آخری حصہ کی تلاوت فرمائی ۔ اور فرمایا کہ یہ ان دس شخصوں کے بارے میں ہے ابو بکر ، عمر عثمان ، علی ، طلحہ ، زبیر ، عبد الرحمن بن عوف ، سعد بن الی وقاص ، سعید بن زید اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم اجمعین ۔ یہ آمنے سامنے ہوں گے تاکہ کسی کی طرف کسی کی پیٹھ نہ رہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ایک مجمع میں آ کر اسے تلاوت فرما کر فرمایا یہ ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہوں گے ۔ وہاں انہیں کوئی مشقت ، تکلیف اور ایذاء نہ ہو گی ۔ بخاری و مسلم میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مجھے اللہ کا حکم ہوا ہے کہ میں حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو جنت کے سونے کے محل کی خوشخبری سنا دوں جس میں نہ شور و غل ہے نہ تکلیف و مصیبت ۔ یہ جنتی جنت سے کبھی نکالے نہ جائیں گے حدیث میں ہے ان سے فرمایا جائے گا کہ اے جنتیو تم ہمیشہ تندرست رہو گے کبہی بیمار نہ پڑو گے اور ہمیشہ زندہ رہو گے کبھی نہ مروگے اور ہمیشہ جوان رہو گے کبھی بوڑھے نہ بنو گے اور ہمیشہ یہیں رہو گے کبھی نکالے نہ جاؤ گے ۔ اور آیت میں ہے وہ تبدیلی مکان کی خواہش ہی نہ کریں گے نہ ان کی جگہ ان سے چھنے گی ۔ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ میرے بندوں سے کہہ دیجئے کہ میں ارحم الراحمین ہوں ۔ اور میرے عذاب بھی نہایت سخت ہیں ۔ اسی جیسی آیت اور بھی گزر چکی ہے ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ مومن کو امید کے ساتھ ڈر بھی رکھنا چاہئے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے پاس آتے ہیں اور انہیں ہنستا ہوا دیکھ کر فرماتے ہیں جنت دوزخ کی یاد کرو ، اس وقت یہ آیتیں اتریں ۔ یہ مرسل حدیث ابن ابی حاتم میں ہے ۔ آپ بنو شیبہ کے دروازے سے صحابہ کے پاس آ کر کہتے ہیں میں تو تمہیں ہنستے ہوئے دیکھ رہا ہوں یہ کہہ کر واپس مڑ گئے اور حطیم کے پاس سے ہی الٹے پاؤں پھرے ہمارے پاس آئے اور فرمایا کہ ابھی میں جا ہی رہا تھا ، جو حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے اور فرمایا کہ جناب باری ارشاد فرماتا ہے کہ تو میرے بندوں کو نامید کر رہا ہے ؟ انہیں مرے غفور و رحیم ہو نے کی اور میرے عذابوں کے المناک ہونے کی خبر دے دے ۔ اور حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا اگر بندے اللہ تعالیٰ کی معافی کو معلوم کرلیں تو حرام سے بچنا چھوڑ دیں اور اگر اللہ کے عذاب کو معلوم کرلیں تو اپنے آپ کو ہلاک کر ڈالیں ۔
45۔ 1 جہنم اور اہل جہنم کے بعد جنت اور اہل جنت کا تذکرہ کیا جا رہا ہے تاکہ جنت میں جانے کی ترغیب ہو۔ متقین سے مراد شرک سے بچنے والے موحدین ہیں اور بعض کے نزدیک وہ اہل ایمان جو معاصی سے بچتے رہے۔ جَنَّاتٍ سے مراد باغات اور عُیُونِ سے نہریں مراد ہیں۔ یہ باغات اور نہریں یا تو متقین کے لئے مشترکہ ہونگی، یا ہر ایک کے لئے الگ الگ باغات اور نہریں یا ایک ایک باغ اور نہر ہوگی۔
” نَّ الْمُتَّقِيْنَ “ ” اِتَّقٰی “ باب افتعال سے اسم فاعل ” مُتَّقِیْ “ کی جمع ہے۔ مجرد ” وَقٰی یَقِيْ وَقَایَۃً “ ہے، بمعنی بچانا اور نقصان دہ چیزوں سے محفوظ رکھنا۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورة بقرہ (٢) ۔ فِيْ جَنّٰتٍ وَّعُيُوْنٍ : گمراہ لوگوں کے برے انجام کے ساتھ ہی متقی لوگوں کے بہترین انجام کا ذکر ہے اور یہ قرآن مجید کا عام انداز ہے کہ وہ دونوں پہلوؤں کا ساتھ ساتھ ذکر کرتا ہے۔ ” جَنّٰتٍ “ ” جَنَّۃٌ“ کی جمع ہے، گھنے درختوں کا باغ جو زمین کو چھپائے ہوئے ہو۔ ” جَنَّ یَجُنُّ “ کا معنی ہے چھپانا۔ ” وَّعُيُوْنٍ “ کا معنی ہے چشمے، مراد وہ چشمے ہیں جن سے جنت کی نہریں نکلتی ہیں، یا الگ چشمے، کیونکہ چشموں کا حسن ایک الگ ہی چیز ہے۔ سورة دہر میں کافور اور زنجبیل کی آمیزش والے چشمے، سلسبیل نامی چشمے اور سورة مطففین میں تسنیم نامی چشمے کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں۔ یاد رہے کہ جنت سے مراد صرف باغ ہی نہیں، بلکہ سونے چاندی کی اینٹوں کے مکانات اور ایک ایک موتی یا لعل سے بنے ہوئے میلوں لمبے اور اونچے خیموں کے ساتھ ملے ہوئے باغات ہیں، جیسا کہ صحیح احادیث میں جنت کے اوصاف میں مذکور ہے۔
Commentary According to Sayyidna ` Abdullah ibn ` Abbas (رض) ، when the people of Jannah will enter Jannah, first of all two streams of water will be pre¬sented before them. They will drink water from the first stream and all mutual grudges they had from their life in the mortal world - the effect of which naturally survived right through the end - will be totally washed away. In its place, they all will feel love for each other in their hearts because mutual bickering too is virtually a pain and punishment as such, and Jannah is free of all pain. As for the report appearing in Sahih Hadith: &Anyone who nurses the least grudge in his heart against a Muslim will not go to Jannah,& it means the grudge and malice which is rooted in material ends, and is there by one&s personal intention and choice, and because of which this person keeps looking for an opportunity to inflict pain or loss on his ene¬my. Being ill at ease in someone&s company as a matter of natural tem¬perament, a human trait beyond one&s control, is not included here. Simi¬lar is the case of what is based on some Islamic legal ground. It is this kind of grudge which has been referred to in this verse and where it has been said that such grudge and temperamental distaste will be removed from their hearts. It is about this kind of grudge that Sayyidna ` Ali (رض) said: |"I hope that I shall be, along with Talha and Zubayr, among those the dust of mu¬tual anxiety from whose hearts will be removed while entering Jannah.|" The reference here is to the difference of opinion and resulting conflict which took place between Sayyidna Talha and Sayyidna Zubayr and Sayyidna ` Ali (رض) .
خلاصہ تفسیر : بے شک خدا سے ڈرنے والے (یعنی اہل ایمان) باغوں اور چشموں میں (بستے) ہوں گے (خواہ اول ہی سے اگر معصیت نہ ہو یا معاف ہوگئی ہو اور خواہ سزائے معصیت بھگتنے کے بعد ان سے کہا جائے گا کہ) تم ان (جنات و عیون) میں سلامتی اور امن کے ساتھ داخل ہو (یعنی اس وقت بھی ہر ناپسند چیز سے سلامتی ہے اور آئندہ بھی کسی شر کا اندیشہ نہیں) اور (دنیا میں طبعی تقاضے سے) ان کے دلوں میں جو کینہ تھا ہم وہ سب (ان کے دلوں سے جنت میں داخل ہونے کے قبل ہی) دور کردیں گے کہ سب بھائی بھائی کی طرح (الفت و محبت سے) رہیں گے تختوں پر آمنے سامنے بیٹھا کریں گے وہاں ان کو ذرا بھی تکلیف نہ پہنچے گی اور نہ وہ وہاں سے نکالے جائیں گے (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ میرے بندوں کو اطلاع دیدیجئے کی میں بڑا مغفرت اور رحمت والا بھی ہوں اور (نیز) یہ کہ میری سزا (بھی) درد ناک سزا ہے (تاکہ اس سے مطلع ہو کر ایمان اور تقوی کی رغبت اور کفر و معصیت سے خوف پیدا ہو) معارف و مسائل : حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے فرمایا کہ اہل جنت جب جنت میں داخل ہوں گے تو سب سے پہلے ان کے سامنے پانی کے دو چشمے پیش کئے جائیں گے پہلے چشمہ سے وہ پانی پئیں گے تو ان سب کے دلوں سے باہمی رنجش جو کبھی دنیا میں پیش آئی تھی اور طبعی طور پر اس کا اثر آخر تک موجود رہا وہ سب دھل جائے گی اور سب کے دلوں میں باہمی الفت و محبت پیدا ہوجائے گی کیونکہ باہمی رنجش بھی ایک تکلیف و عذاب ہے اور جنت ہر تکلیف سے پاک ہے۔ اور حدیث صحیح میں جو یہ وارد ہوا ہے کہ جس شخص کے دل میں ذرہ برابر بھی کینہ کسی مسلمان سے ہوگا وہ جنت میں نہ جائے گا اس سے مراد وہ کینہ اور بغض ہے جو دنیوی غرض سے اور اپنے قصد واختیار سے ہو اور اس کی وجہ سے یہ شخص اس کے درپے رہے کہ جب موقع پائے اپنے دشمن کو تکلیف اور نقصان پہونچائے طبعی انقباض جو خاصہ بشری اور غیر اختیاری ہے وہ اس میں داخل نہیں اسی طرح جو کسی شرعی بنیاد پر مبنی ہو ایسے ہی بغض و انقباض کا ذکر اس آیت میں ہے کہ اہل جنت کے دلوں سے ہر طرح کا انقباض اور رنجش دور کردی جائے گی۔ اسی کے متعلق حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ میں اور طلحہ اور زبیر انہی لوگوں میں سے ہوں گے جن کے دلوں کا غبار جنت میں داخلہ کے وقت دور کردیا جائے گا۔ اشارہ ان اختلافات ومشاجرات کی طرف ہے جو ان حضرات اور حضرت علی کی درمیان پیش آئے تھے۔
اِنَّ الْمُتَّقِيْنَ فِيْ جَنّٰتٍ وَّعُيُوْنٍ 45ۭ وقی الوِقَايَةُ : حفظُ الشیءِ ممّا يؤذيه ويضرّه . يقال : وَقَيْتُ الشیءَ أَقِيهِ وِقَايَةً ووِقَاءً. قال تعالی: فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان/ 11] ، والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] ( و ق ی ) وقی ( ض ) وقایتہ ووقاء کے معنی کسی چیز کو مضر اور نقصان پہنچانے والی چیزوں سے بچانا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان/ 11] تو خدا ان کو بچا لیگا ۔ التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ جَنَّةُ : كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15] الجنۃ ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔
(٤٥۔ ٤٦) کفر وشرک اور برائیوں سے بچنے والے یعنی حضرت ابوبکر صدیق (رض) اور حضرت عمر فاروق (رض) اور ان کے ساتھی باغوں اور پاکیزہ پانی کے چشموں میں بستے ہوں گے اللہ تعالیٰ ان سے قیامت کے دن فرمائیں گے جنت میں سلام اور تحیت اور موت اور زوال سے امن وسلامتی کے ساتھ داخل ہو۔ شان نزول : (آیت ) ” ان المتقین “۔ (الخ) ابوثعلبی نے سلمان فارسی (رض) سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے جس وقت یہ آیت کریمہ سنی۔ (آیت) ” وان جھنم “۔ (الخ) ( اور ان سب سے جہنم کا وعدہ ہے) تو کئی دن تک خوف سے بھاگے پھرے کسی چیز کا ہوش نہ رہا۔ پھر ان کو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں لایا گیا تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا آپ پر یہ آیت نازل ہوئی (کہ ان سب سے جہنم کا وعدہ ہے) قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے، اس نے تو میرے دل کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی یعنی اللہ سے ڈرنے والے باغوں اور چشموں میں ہوں گے۔
27. The righteous people are those who did not follow Satan but feared Allah and lived lives of obedience to Him.
سورة الْحِجْر حاشیہ نمبر :27 یعنی وہ لوگ جو شیطان کی پیروی سے بچے رہے ہوں اور جنہوں نے اللہ سے ڈرتے ہوئے عبدیت کی زندگی بسر کی ہو ۔
٤٥۔ ٥٠۔ اللہ پاک نے دوزخ والوں کا حال بیان کر کے اہل جنت کا ذکر کیا کہ متقی لوگ جنت کے باغ اور نہروں میں ہوں گے اور صحیح وسالم وہاں رہیں گے کوئی رنج کوئی تکلیف کوئی بیماری وہاں نہیں ہوگی اور دنیا میں جنتی دو شخصوں کے درمیان شکر رنجی ہوگی وہ رنج و کدورت ان کے دلوں سے نکال دی جاوے گی اور جنت میں بھائی بھائی بن کر آمنے سامنے مسندوں پر بیٹھے ہوں گے ١ ؎۔ بعض مفسروں نے یہ بیان کیا ہے کہ یہ دس صحابہ ہیں حضرت ابوبکر (رض) حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، طلحہ، زبیر، عبد الرحمن بن عوف، سعد بن ابی وقاص، زید، عبد اللہ بن مسعود (رض) ان کے دلوں میں آپس میں جو کچھ دنیا میں ملال تھا وہ جنت میں بالکل نہیں رہے گا اور آمنے سامنے کرسیوں پر بیٹھے ہوں گے اور جنت میں کسی قسم کی مشقت وغیرہ نہ ہوگی اور نہ لوگ وہاں سے نکلیں گے بلکہ نہایت آرام کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رہیں گے اس کے بعد حضرت صلعم کو اللہ پاک نے یہ ارشاد فرمایا کہ میرے بندوں کو یہ خبر دیدو کہ میں رحمت والا بھی ہوں اور میرا عذاب بھی سخت ہوا کرتا ہے تفسیر ابن ابی حاتم میں مصعب بن ثابت کی روایت سے جو حدیث ہے اس میں ( نبئی عبادی انی انا الغفور الرحیم۔ وان عذابی ھو العذاب الالیم) کی شان نزول یہ ہے کہ حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے چند صحابہ کی طرف ایک روز جا نکلے وہ لوگ ہنس رہے تھے آپ نے فرمایا جنت اور دوزخ کو یاد کرو تو آیت اتری ٢ ؎، اور قتادہ نے اس آیت کی تفسیر میں یوں کہا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اگر بندہ خدا کی رحمت کی قدر جانے تو کبھی گناہوں سے نہ بچے اور اگر اس کے عذاب کو جان لیوے تو اپنے کو ہلاک کر ڈالے ٣ ؎، اس کے بعد کی آیتوں میں اللہ پاک نے اپنے اگلے رسولوں کے قصہ کو بیان کیا تاکہ لوگ اس کی عبادت کی رغبت کریں اور گناہوں سے بچیں اور بد بختوں کا انجام سن کر اس سے عبرت پکڑیں۔ اس جگہ چار قصے بیان کئے ہیں ابراہیم (علیہ السلام) کا لوط (علیہ السلام) کا شعیب (علیہ السلام) کا پھر صالح (علیہ السلام) کا اور پہلے ابراہیم (علیہ السلام) کے قصہ سے شروع کیا ہے۔ ان قصوں میں نیک فرمانبردار لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے امن میں رکھا اور عذاب سے بچایا ہے۔ اور نافرمان لوگوں کو طرح طرح کے عذاب سے ہلاک کیا ہے اس واسطے یہ قصے اللہ کی رحمت اور اس کے عذاب کی گویا تفسیر ہیں اوپر دس صحابہ کی آپس میں رنجش اور ملال ہونے کا جو ذکر گزرا یہ روایت تفسیر ابن مردویہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کے حوالے سے ٤ ؎ ہے۔ بعضے سلف نے اس روایت کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ اسلام سے پہلے عرب کے قبائل جو آپس میں لڑتے رہتے تھے اس زمانہ کی حق العباد کے طور کی کچھ خفگی جو ان لوگوں کے دل میں ہوگی تو جنت میں جانے سے پہلے اللہ تعالیٰ اس کو آپس کی محبت سے بدل دیوے گا۔ اس قول کی تائید ابو سعید خدری (رض) کی صحیح بخاری کی اس روایت سے ہوتی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پل صراط سے اتر جانے کے بعد دوزخ اور جنت کے درمیان میں ایک پل ہے وہاں اہل جنت کو روکا جا کر ان کی آپ کی رنجش دور کردی جاوے گی ٥ ؎۔ تذکرہ قرطبی میں حضرت علی (رض) کا ایک قول ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ جنت میں داخل ہونے سے پہلے قابل جنت لوگوں کو ایک چشمہ میں نہانے کا حکم ہوگا جس سے ان کی آپس کی رنجش دور ہوجاوے گی ٦ ؎۔ یہ چشمہ اسی پل کے پاس ہے جس کا ذکر ابو سعید خدری (رض) کی اوپر کی حدیث میں ہے۔ ١ ؎ حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) جیسا کہ ابھی آتا ہے۔ ٢ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٥٥٢ ج ٢۔ ٣ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٥٥٣ ج ٢۔ ٤ ؎ تفسیر الدرالمنثور ص ١: ١ ج ٤۔ ٥ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٥٥٢ ج ٢۔ ٦ ؎ مختصر تذکرۃ قرطبی ص ١٠٩۔
(رکوع نمبر ٤) اسرارومعارف جو لوگ تقوی اختیار کرتے ہیں اور زندگی اطاعت الہی میں بسر کرتے ہیں یقینا باغوں اور چشموں کی بہترین سرزمین میں رہیں گے ایک ایسی جگہ جہاں کا داخلہ ہی ہر طرح کے امن کی ضمانت ہے اور جہاں داخلے پر کہہ دیا جائے گا جاؤ یہاں امن وسلامتی کے ساتھ داخل ہوجاؤ نیز اگر دنیا میں کبھی ایک دوسرے کے درمیان رنجش بھی رہی ہوگی تو اس کا طبعی اثر یا خفگی جنت میں داخلے کے وقت دور کردی جائے گی ۔ (مزاج برزخ میں وہی رہتا ہے جو دنیا میں ہو) گویا انسانی مزاج کو موت تبدیل نہیں کرتی نہ علم کو فنا کرتی ہے لہذا برزخ میں وہی مزاج رہتا ہے جو دنیا میں رہا ہو اور محبت وناراضگی کے اثرات دل میں موجود رہتے ہیں اور واقعات جو ان کا باعث بنے یاد رہتے ہیں مگر جنت میں داخلے کے وقت یہ سب چیزیں اس لیے صاف کردی جائیں گی کہ یہ بھی ایک قسم کا رنج ہے اور جنت ایسی حسین سرزمین کا نام ہے جہاں رنج کو دخل نہیں لہذا بھائی بھائی بن کر آمنے سامنے تخت بچھا کر بیٹھے ہوں گے نہ تو انہیں وہاں کسی بھی طرح کا کوئی دکھ ہوگا اور نہ ہی وہاں سے کبھی نکالے جائیں گے لہذا آپ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے بندوں کو خبر کر دیجئے کہ ان انمول نعمتوں کا حصول کوئی مشکل نہیں کہ میں معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہوں لہذا توبہ کرکے معافی حاصل کریں اور اطاعت کرکے رحمت کو پائیں کہ ان انعامات کو پالیں اور یہ بھی واضح کر دیجئے کہ جس نے نافرمانی کی راہ ہی اپنائی تو میرا عذاب بھی بہت ہی دردناک عذاب ہے اس کی جھلک اگر وہ دنیا میں بھی دیکھنا چاہیں تو انہیں ان ملائکہ کے حالات سنائیے جو ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس انسانی شکل میں مہمان بن کر وارد ہوئے اور جب انہوں نے کھانا پیش کیا تو انہوں نے ہاتھ نہ بڑھایا تو ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا کہ ہمیں تو آپ لوگوں سے خطرہ محسوس ہو رہا ہے کہ عربوں میں دستور تھا کہ دشمن کے گھر کا نہ کھاتے تھے تو انہوں نے کہا ہمارے نہ کھانے کا سبب دشمنی نہیں بلکہ ہم اللہ جل جلالہ کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں اور آپ کو ایک ایسے بیٹے کی خوش خبری سنانے حاضر ہوئے ہیں جو بہت بڑے علم کا مالک ہوگا فرمایا بھلا یہ خوشخبری سنانے کا کونسا وقت ہے جب بڑھاپے نے میری قوی مضمحل کردیئے ہیں تو کہنے لگے ہم تو حق کی بات عرض کر رہے ہیں جس کا رب کریم نے حکم دیا ہے لہذا ناامیدی کی کوئی وجہ نہیں کہ وہ ہر طرح سے قادر ہے تو ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا بیشک اس کی رحمت سے تو صرف راہ گم کردہ لوگ ہی ناامید ہوا کرتے ہیں لیکن کی تمہارے آنے کا باعث صرف یہی خبر سنانا ہے یا اور بھی کوئی اہم کام درپیش ہے تب انہوں نے بتایا کہ ہمیں ایک ایسی قوم کو تباہ کرنا ہے جو بہت بڑی مجرم ہے یعنی لوط (علیہ السلام) کی قوم جس میں سے حضرت لوط (علیہ السلام) کا اتباع کرنے والوں کے علاوہ کوئی نہ بچ سکے گا اور عین تباہی کے وقت وہ سب لوگ امن میں رہیں گے جو ان کی اطاعت کرنے والے ہیں سوائے ان کی اہلیہ کے کہ وہ بھی عملا زندگی ان کے گھر گزارنے کے باوجود عقیدۃ کفار کے ساتھ ہے لہذا ۔ (نجات کا مدار) انہی کے ساتھ ہوگی گویا کا مدار عقیدہ پر ہے اگر عقیدہ درست نہ ہو تو دنیا کا بہت قریبی رشتہ بھی کسی کام کا نہیں ہاں عقیدہ درست ہو اور صالحین سے نسبی رشتہ بھی تو نور علی نور ہے ۔
لغات القرآن آیت نمبر 45 تا 50 عیون (عین) چشمے۔ ادخلوا تم داخل ہوجاؤ سلام سلامتی، امن و سکون۔ نزعنا ہم نے کھینچ نکالا۔ غل باہمی رنجش، ناراضگی، کینہ۔ سرر (سریر) ، تخت ، بیٹھنے کی اونچی جگہ۔ متقابلین ایک دوسرے کے سامنے۔ نصب بےسکونی، محنت و مشقت، تکلیف۔ نبئی بتا دے، ، خبردار کر دے۔ تشریح : آیت نمبر 45 تا 50 حضرت آدم کی پیدائش، ان کا جنت میں قیام اور شیطان کی نافرمانی کے بعد جب شیطان نے اللہ تعالیٰ سے قیامت تک کی مہلت مانگی اور وہ مہلت دیدی گئی اس وقت اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ جو لوگ تقویٰ اور پرہیزگاری کی زندگی اختیار کریں گے ان کی جنت کی دائمی راحتیں عطا کی جائیں گی۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے فرماں بردار بندوں کے متعلق ارشاد فرمایا ہے کہ لوگ جو تقویٰ ، پرہیزگاری اور نیکی کی زندگی اختیار کریں گے ان کو ایسی جنتیں عطا کی جائیں گی جن میں دودھ، پانی اور شہد کے چشمے جاری ہوں گے جو بھی اہل تقویٰ ہوں گے ان سے کہا جائے گا کہ تم ان جنتوں میں داخل ہوجاؤ اور امن و سلامتی کی زندگی اور راحتیں حاصل کرو۔ ان کے دلوں میں اگر کچھ کدورتیں، نفرتیں یا کینہ ہوگا۔ تو وہ سب نکال کر اس کی جگہ محبت اور پیار بھر دیا جائے گا اور وہ حقیقی بھائیوں کی طرح ایک دوسرے کے سامنے تخت پر بیٹھے ہوں گے۔ نہ ان جنتوں میں کوئی محنت، مشقت اور روزی کے لئے بھاگ دوڑ ہوگی اور نہ وہ کبھی ان جنتوں سے نکالے جائیں گے۔ ایک حدیث میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : اہل جنت سے کہا جائے گا کہ اب تم ہمیشہ تندرست رہوگے۔ تم کبھی بیمار نہ پڑو گے اب تم ہمیشہ زندہ رہوگے۔ اب تمہیں کبھی موت نہیں آئے گی۔ تم ہمیشہ جوان رہوگے تمہارے اوپر بڑھاپا نہیں آئے گا۔ اب تم (اسی جنت میں) مقیم رہوگے۔ اب تمہیں سفر کی مشقتیں نہ اٹھانا پڑیں گی۔ ان آیات کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ میرے بندوں سے کہہ دیجیے کہ میں اپنے بندوں پر بہت زیادہ مہربان ہوں اور ان کی خطاؤں کو بہت معاف کرنے والا ہوں۔ لیکن جب میں گناہگاروں کو پکڑنے پر آتا ہوں تو بہت سخت پکڑتا ہوں۔ مراد یہ ہے کہ اللہ اپنے بندوں پر مہربان ہے وہ ان کی بڑی سے بڑی خطا معاف کرسکتا ہے اور کرتا ہے لیکن وہ صرف ایک مہربان و شفیق ہی نہیں ہے بلکہ وہ ان لوگوں کو جو گناہ اور خطاؤں سے باز نہیں آتے جب ان کو پکڑنے پر آتا ہے تو کوئی اس سے چھڑا نہیں سکتا۔
فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میرے مخلص بندوں پر شیطان کا تسلط نہیں ہوسکتا۔ اب مخلص بندوں کے اجرو ثواب کا اعلان کیا جا رہا ہے۔ مخلص بندوں کی پہلی اور بنیادی صفت یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے اس کی نافرمانیوں سے بچتے ہیں۔ ان کے اجرو ثواب کا یوں تذکرہ فرمایا کہ یہ ایسی جنت میں داخل کئے جائیں گے جس میں چشمے اور آبشاریں جاری ہوں گی۔ وہ اس میں امن و سلامتی کے ساتھ داخل ہوں گے۔ جس میں انہیں نہ کوئی مشقت اٹھانا پڑے گی اور نہ ہی انہیں جنت سے نکالے جانے کا خطرہ ہوگا۔ دنیا میں رہتے ہوئے انسان ہونے کے ناطے سے اگر ان کی باہمی رنجش ہوگی تو اللہ ان کے دلوں سے عداوت و کدورت نکال دے گا۔ جنتی اخوت و بھائی چارے کی فضا میں ایک دوسرے کے ساتھ شیر و شکر ہو کر بیٹھا اور ٹہلا کریں گے۔ اسی آیت کی تلاوت کرتے ہوئے سیدنا حضرت علی (رض) نے فرمایا تھا کہ میں اللہ کی رحمت سے امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ میرے اور معاویہ کے درمیان ہونے والی رنجش کو دور فرمائے گا۔ ہم جنت میں بھائیوں کی طرح ایک دوسرے کے سامنے بیٹھا کریں گے۔ (عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ اٰمَنَ باللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَاَقَام الصَّلٰوۃَ وَصَامَ رَمَضَانَ کَانَ حَقًّا عَلَی اللّٰہِ اَنْ یُّدْخِلَہُ الْجَنَّۃَ جَاھَدَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَوْ جَلَسَ فِیْٓ اَرْضِہِ الَّتِیْ وُلِدَ فِیْھَا قَالُوْا اَفلَاَ نُبَشِّرُ بِہِ النَّاسَ قَالَ اِنَّ فِی الْجَنَّۃِ ماءَۃَ دَرَجَۃٍ اَعَدَّھَا اللّٰہُ لِلْمُجَاہِدِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ مَابَیْنَ دَرَجَتَیْنِ کَمَا بَیْنَ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ فَاِذَا سَاَلْتُمُ اللّٰہَ فَاسْءَلُوْہُ الْفِرْدَوْسَ فَاِنَّہٗ اَوْسَطُ الْجَنَّۃِ وَاَعْلَی الْجَنَّۃِ وَفَوْقَہٗ عَرْشُ الرَّحْمٰنِ وَمِنْہُ تَفَجَّرُ اَنْھَارُ الْجَنَّۃِ ) [ رواہ البخاری : کتاب الجہاد ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لایا، نماز قائم کی ‘ رمضان کے روزے رکھے ‘ اللہ تعالیٰ نے ذمّہ لے لیا ہے کہ وہ اسے جنت میں داخل فرمائے گا۔ خواہ اس نے اللہ کے راستے میں جہاد کیا یا اپنی آبادی میں رہا جہاں وہ پیدا ہوا۔ صحابۂ کرام (رض) نے عرض کیا ‘ اے اللہ کے رسول ! اجازت ہو تو ہم لوگوں کو یہ خوش خبری سنائیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ بلاشبہ جنت کی سومنزلیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو ان لوگوں کے لیے تیار کیا ہے ‘ جو اللہ کے راستے میں جہاد کرتے ہیں۔ ان میں سے ہر دو منزلوں کے درمیان زمین اور آسمان جتنا فاصلہ ہے۔ جب تم اللہ سے جنت کا سوال کرو تو اس سے جنت الفردوس کا سوال کرو۔ کیونکہ وہ اعلیٰ و افضل جنت ہے۔ اس کے اوپر اللہ تعالیٰ کا عرش ہے اور وہیں سے جنت کی نہریں نکلتی ہیں۔ “ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جنت میں سب سے پہلے داخل ہونے والے چودھویں رات کے چاند کی طرح روشن چہرہ ہوں گے۔ جو ان کے بعد داخل ہوں گے یہ آسمان پر بہت تیز چمکنے والے ستارے کی طرح ہوں گے تمام جنتیوں کے دل ایک جیسے ہوں گے نہ تو ان کے درمیان باہمی اختلاف ہوگا اور نہ ہی ایک دوسرے سے بغض رکھیں گے۔ ان میں سے ہر شخص کے لیے حوروں میں سے دو بیویاں ہوں گی۔ حسن کی وجہ سے جن کی پنڈ لیوں کا گودا ‘ ہڈی اور گوشت کے پیچھے دکھائی دے گا۔ اہل جنت صبح شام اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کریں گے۔ نہ وہ بیمار ہوں گے اور نہ ہی پیشاب کریں گے ‘ نہ رفع حا جت کریں گے اور نہ ہی تھوکیں گے اور نہ ہی ناک سے رطوبت بہائیں گے۔ ان کے برتن سونے چاندی کے ہوں گے۔ ان کی کنگھیاں سونے کی ہوں گی۔ انگیٹھیوں کا ایندھن عود ہندی ہوگا اور ان کا پسینہ کستوری کی طرح ہوگا۔ سب کا اخلاق ایک جیسا ہوگا نیز وہ سب شکل و صورت میں اپنے باپ آدم (علیہ السلام) کی طرح ہوں گے۔ آدم کا قد ساٹھ ہاتھ لمبا تھا۔ “ [ رواہ البخاری : باب خَلْقِ آدَمَ صَلَوَات اللّٰہِ عَلَیْہِ وَذُرِّیَّتِہِ ] تفسیر بالقرآن جنت کی نعمتوں کی ایک جھلک : ١۔ ہم ان کے دلوں سے کینہ نکال دیں گے اور سب ایک دوسرے کے سامنے تکیوں پر بیٹھے ہوں گے۔ انہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی اور نہ وہ اس سے نکالے جائیں گے۔ (الحجر : ٤٧۔ ٤٨) ٢۔ جنت کی مثال جس کا مومنوں کے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے۔ اس کے نیچے سے نہریں جاری ہیں اور اس کے پھل اور سائے ہمیشہ کے لیے ہوں گے۔ (الرعد : ٣٥) ٣۔ جنت میں بےخار بیریاں، تہہ بہ تہہ کیلے، لمبا سایہ، چلتا ہوا پانی، اور کثرت سے میوے ہوں گے۔ (الواقعۃ : ٢٨ تا ٣٠) ٤۔ جنت کے میوے ٹپک رہے ہوں گے۔ (الحاقۃ : ٢٣) ٥۔ جنت میں وہ سب کچھ ہوگا جس کی جنتی خواہش کرے گا۔ (حٰم السجدۃ : ٣١)
آیت نمبر ٤٥ تا ٤٨ متقی کون ہیں ؟ وہ جو خدا سے ڈرتے ہیں اور اس کے عذاب سے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان اسباب سے اپنے آپ کو بچاتے ہیں جو عذاب الٰہی کا باعث بنتے ہیں۔ جتنوں میں جن چشموں کا ذکر ہے وہ سات ابواب کے بالمقابل ہے۔ یہ لوگ جنتوں میں نہایت ہی امن و اطمینان سے اتریں گے اور وہ اس طرح خوفزدہ نہ ہوں گے جس طرح اہل جہنم تھے۔ ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف جو کدورت ہوگی وہ بھی ہم نکال دیں گے ۔ جبکہ ابلیس کے دل میں جو حسد اور کینہ ہوگا وہ اہل جہنم کے ساتھ ہمیشہ رہے گا اور وہ ایک دوسرے کو ملامت کرتے رہیں گے۔ جبکہ اہل جنت کے لئے کوئی مشقت نہ ہوگی اور نہ ان کے لئے وہاں سے نکلنے کا کوئی خطرہ ہوگا۔ یہ لوگ زمین میں خدا سے ڈرتے تھے ، لیکن یہاں ان کے لئے کوئی خوف و خطر نہ ہوگا۔ رب کریم کے جوار رحمت میں خوش و خرم ہوں گے۔ درس نمبر ١١٧ ایک نظر میں اس سبق میں اللہ کی رحمت اور اللہ کے عذاب دونوں کی کئی مثالیں پائی جاتی ہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ان کی کبرسنی کے باوجود اولاد دی جاتی ہے اور اسے اولاد علیم کہا جاتا ہے ۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کو نجات دی جاتی ہے اور اس رحمت سے صرف ان کی بیوی محروم ہوتی ہے کیونکہ اس کا تعلق ظالمین سے تھا۔ پھر یہاں اصحاب ایکہ اور اصحاب حجر کے برے دنوں کا تذکرہ بھی ہے۔ یہ تمام قصص اور مثالیں اس تمہید کے بعد آتی ہیں : نبیء عبادی ۔۔۔۔۔ الرحیم (٣٩) وان عذابی ھو العذاب الالیم (٥٠) (١٥ : ٤٩ – ٥٠) ” اے نبی میرے بندوں کو خبر دے دو کہ میں بہت درگزر کرنے والا اور رحیم ہوں مگر اس کے ساتھ میرا عذاب بھی نہایت دردناک ہے “۔ چناچہ ان امثلہ و قصص میں سے بعض تو اللہ کی رحمت کی مثالیں ہیں اور بعض اللہ کے عذاب کی۔ یہ قصص اس سورة کے ابتدائی تبصرے کے بھی مناسب ہیں جس میں لوگوں کو متنبہ کرتے ہوئے یہ کہا گیا تھا : ذرھم یاکلوا ۔۔۔۔ یعلمون (٣) وما اھلکنا ۔۔۔۔۔ (٤) ما تسبق ۔۔۔۔۔ (٥) (١٥ : ٣ تا ٥) ” چھوڑ دو ، انہیں ، کھائیں پئیں ، مزے کریں اور بھلاوے میں ڈالے رکھے ان کو جھوٹی امید۔ عنقریب انہیں معلوم ہوجائے گا۔ ہم نے اس سے پہلے جس بستی کو بھی ہلاک کیا ہے اس کے لئے ایک خاص مہلت عمل لکھی جا چکی تھی۔ کوئی قوم نہ تو اپنے وقت مقرر سے پہلے ہلاک ہو سکتی ہے نہ اس کے بعد چھوٹ سکتی ہے “۔ چناچہ یہ قصص ان بستیوں کی مثالیں ہیں جو ہلاک کی گئیں اور جب ان کی مہلت عمل ختم ہوگئی تو ان پر عذاب نازل ہوا۔ نیز سورة کے آغاز میں فرشتوں کے نزول کے بارے میں بھی بتایا گیا تھا کہ وہ حق کے ساتھ اترتے ہیں۔ وقالوا یایھا الذی ۔۔۔۔۔۔ لمجنون (٦) لو ما تاتینا ۔۔۔۔۔ من الصدقین (٧) ما ننزل الملئکۃ ۔۔۔۔۔ منظرین (٦ تا ٨) ” یہ لوگ کہتے ہیں ” اے وہ شخص جس پر یہ ذکر نازل ہوا ہے تو یقیناً دیوانہ ہے اگر تو سچا ہے تو ہمارے سامنے فرشتوں کو لے کر کیوں نہیں آتا ؟ ہم فرشتوں کو یوں ہی نہیں اتار دیا کرتے۔ وہ جب اترتے ہیں تو حق کے ساتھ اترتے ہیں اور پھر ان لوگوں کو مہلت نہیں دی جاتی “ ۔ یوں یہ سورة ایک متحد اور مربوط مضمون بن جاتی ہے جس کے تمام حصے ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ اور ایک دوسرے کے موید نظر آتے ہیں ، یہ اس حقیقت کے باوجود کہ قرآن سے نازل نہ ہوتی تھیں جس طرح ہم مصحف میں پاتے ہیں۔ ہاں یہ بات مسلم ہے کہ سورتوں کے اندر آیات کی ترتیب اللہ کی جانب سے ہے یعنی توقیفی ہے۔ لہٰذا اس خدائی ترتیب کے اندر حکمت اور ترتیب ضرور ملحوظ ہے۔ ان سورتوں کے مضامین کی ترتیب اور ہم آہنگی کے سلسلے میں اللہ نے بعض پہلو ہم پر منکشف کیے ہیں جن کا بیان ہم نے تمام سورتوں کے مقدمات میں کیا ہے۔ ہر سورة کی ایک فضا اور اس کے خدو خال بیاں کئے ہیں ، حقیقی علم بہر حال اللہ کو ہے۔ ہم نے جو ترتیب ، ربط مضامین اور حکمت بیان کی ہے وہ اجتہادی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب ۔
متقی باغوں اور چشموں میں ہوں گے، سلامتی کے ساتھ رہیں گے آپس میں کوئی کینہ نہ ہوگا گزشتہ آیت میں دوزخ کا اور اس کے دروازوں کا ذکر تھا اور یہ فرمایا تھا کہ دوزخ میں ابلیس کا اتباع کرنے والے داخل ہوں گے، اب یہاں ان آیات میں اہل جنت اور ان کی بعض نعمتوں کا ذکر ہے، جنت والے کون ہیں ؟ یہ متقی حضرت ہیں تقویٰ کے بہت سے درجات ہیں کفر شرک سے بچنا سب سے بڑا تقویٰ ہے، کبیرہ گناہوں سے بچنا بھی تقویٰ ہے صغیر گناہوں سے بچنا بھی تقویٰ میں شامل ہے مکروہات سے بچنا اور متشابہات سے بچنا یہ بھی تقویٰ ہے جنت میں کوئی کافر و مشرک تو جا ہی نہیں سکتا مسلمان اپنے اپنے تقویٰ کے اعتبار سے جنت کے درجات میں داخل ہوں گے دارالنعیم جس میں اہل ایمان داخل ہوں گے اس کا نام جنت ہے اور اسے بہشت بھی کہا جاتا ہے پھر اس میں بہت سے باغیچے ہوں گے اس لیے بہت سی جگہ لفظ (جَنَّاتٍ ) جمع کے ساتھ وارد ہوا ہے، یہاں بھی لفظ (جَنَّاتٍ ) آیا ہے اور اس کے ساتھ لفظ (عُیُوْنُ ) بھی ہے جو عین کی جمع ہے، عین عربی میں چشمہ کو کہتے ہیں جنت میں باغ بھی ہوں گے اور چشمے بھی ہوں گے اور متعدد آیات میں (جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ ) وارد ہوا ہے، یعنی ایسے باغ ہوں گے جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی ہرے بھرے باغ درختوں پر پھل ہوں گے اہل جنت کے قریب لٹکے ہوئے ہوں گے، چشمے اور نہریں جاری ہوں گی اور ان کے سوا کثیر تعداد میں دیگر انمول اور بےمثال نعمتیں ہوں گی اور ان سب سے زیادہ بڑھ کر اللہ کی رضا حاصل ہوگی اس میں داخل ہوں گے، سلامتی کے ساتھ رہیں گے اور سلامتی کے ساتھ، پر امن بےخوف، ہوں گے نہ کوئی خوف ہوگا نہ نعمتیں چھینے جانے کا اندیشہ ہوگا، آپس میں نہ بغض نہ حسد نہ دشمنی نہ مخالفت نہ مخاصمت، سب بھائیوں کی طرح ایک دل ہو کر رہیں گے، دنیا میں جو آپس میں کسی وجہ سے کوئی کھوٹ، کینہ اور دشمنی تھی وہ سب جنت میں داخل ہونے سے پہلے نکال دی جائے گی۔ صحیح بخاری میں ہے کہ قلوبھم علی قلب رجل واحد لا اختلاف بینھم ولا تباغض یعنی ان سب کے دل ایسے ہوں گے جیسے ایک ہی شخص کا دل ہو نہ آپس میں کوئی اختلاف ہوگا اور نہ بغض ہوگا، مفسر ابن کثیر نے (ص ٥٥ ج ٢) حضرت ابو امامہ کا ارشاد نقل فرمایا ہے کہ جنت میں کوئی مومن اس وقت تک داخل نہ ہوگا جب تک اس کے سینہ سے کھوٹ کپٹ کو نہ نکال دیا جائے جیسے حملہ کرنے والا درندہ ہٹایا جاتا ہے اسی طرح سے مومن کے دل سے کینہ نکال دیا جائے گا۔
19:۔ یہ شرک اور فواحش سے بچنے والوں کے لیے خوشخبری ہے۔ ” اُدْخُلُوْھَا الخ “ اس سے پہلے ” یقال لھم “ محذوف ہے یعنی ان سے کہا جائے گا کہ جنات میں سلامتی اور امن کے ساتھ داخل ہوجاؤ۔ ” وَ نَزَعْنَا الخ “ مومنین کے درمیان دنیا میں جو لڑائی جھگڑے ہوئے اور ان کی وجہ سے ان کے دلوں میں ایک دوسرے سے بغض اور ناراضی کے جو جذبات پیدا ہوگئے جنت میں ان کے دلوں کو ایسے تمام جذبات بغض و عداوت سے پاک و صاف کردیا جائے گا اور وہ بھائیوں کی طرح آمنے سامنے بیٹھ کر پیار اور محبت سے باتیں کریں گے۔ ” لَایَمَسُّھُمْ الخ “ دنیا مومن کے لیے محنت و مشقت اور امتحان و آزمائش کی جگہ ہے لیکن اس کیلئے جنت سراسر آرام و آسائش اور سراپا عیش و راحت کا مقام ہوگا اور وہاں کوئی تکلیف اس کے نزدیک بھی نہیں آئے گی اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے اور اس سے کبھی بھی نکالے نہیں جائیں گے۔