Surat ul Hijir

Surah: 15

Verse: 47

سورة الحجر

وَ نَزَعۡنَا مَا فِیۡ صُدُوۡرِہِمۡ مِّنۡ غِلٍّ اِخۡوَانًا عَلٰی سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِیۡنَ ﴿۴۷﴾

And We will remove whatever is in their breasts of resentment, [so they will be] brothers, on thrones facing each other.

ان کے دلوں میں جو کچھ رنجش و کینہ تھا ہم سب کچھ نکال دیں گے وہ بھائی بھائی بنے ہوئے ایک دوسرے کے آمنے سامنے تختوں پر بیٹھے ہونگے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And We shall remove any deep feeling of bitterness from their breasts. (So they will be like) brothers facing each other on thrones. Al-Qasim narrated that Abu Umamah said: "The people of Paradise will enter Paradise with whatever enmity is left in their hearts from this world. Then, when they come together, Allah will remove whatever hatred the world has left in their hearts." Then he recited: وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِم مِّنْ غِلٍّ (And We shall remove any deep feeling of bitterness from their breasts). This is how it was narrated in this report, but Al-Qasim bin Abdur-Rahman is weak in his reports from Abu Umamah. However, this is in accord with the report in the Sahih where Qatadah says, "Abu Al-Mutawakkil An-Naji told us that Abu Sa`id Al-Khudri told them that the Messenger of Allah said: يَخْلُصُ الْمُوْمِنُونَ مِنَ النَّارِ فَيُحْبَسُونَ عَلَى قَنْطَرَةٍ بَيْنَ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ فَيُقْتَصُّ لِبَعْضِهِمْ مِنْ بَعْضٍ مَظَالِمُ كَانَتْ بَيْنَهُمْ فِي الدُّنْيَا حَتَّى إِذَا هُذِّبُوا وَنُقُّوا أُذِنَ لَهُمْ فِي دُخُولِ الْجَنَّة The believers will be removed from the Fire, and they will be detained on a bridge between Paradise and Hell. Then judgment will be passed between them concerning any wrong they have committed in this world against one another, until they are cleansed and purified. Then permission will be given to them to enter Paradise."

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

47۔ 1 دنیا میں ان کے درمیان جو آپس میں حسد اور بغض و عداوت کے جذبات رہے ہوں گے، وہ ان کے سینوں سے نکال دیئے جائیں گے اور ایک دوسرے کے بارے میں ان کے آئینے کی طرح صاف اور شفاف ہوں گے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٥] جنت میں داخلہ سے پہلے دلوں کی صفائی :۔ دنیا کی زندگی میں نیک لوگوں کے درمیان بعض غلط فہمیوں کی بنا پر کچھ رنجش اور ناراضگی دلوں میں رہ بھی گئی ہوگی تو جنت میں داخل ہونے سے پہلے پہلے ایسی سب چیزیں اللہ تعالیٰ دلوں سے نکال دے گا اور وہ بھائی بھائی بن کر جنت میں داخل ہوں گے۔ پچھلی سب باتیں دلوں سے محو کردی جائیں گی۔ سیدنا علی نے یہی آیت پڑھ کر فرمایا تھا کہ مجھے امید ہے کہ اللہ میرے & عثمان & طلحہ اور زبیر کے درمیان بھی صفائی کرا دے گا۔ واضح رہے کہ یہ چاروں صحابہ کرام (رض) ان چھ رکنی کمیٹی کے ممبر تھے جو سیدنا عمر نے اپنے وفات سے پیشتر نئے خلیفہ کے انتخاب کے سلسلہ میں تشکیل دی تھی اور یہ رنجش بعض غلط فہمیوں کی بنا پر پیدا ہوگئی تھی۔ اور بعض لوگوں نے اس سے یہ مراد لی ہے کہ جنت میں اہل جنت کے درجات مختلف ہوں گے۔ کوئی اعلیٰ درجہ کی جنت کا مستحق ہوگا اور کوئی نچلے درجہ والی جنت کا۔ تو داخلہ سے پہلے ہر ایک کے دل سے رشک اور رنجش وغیرہ نکال دی جائے گی ہر جنتی اپنے اپنے درجہ پر قانع اور مطمئن ہوگا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَنَزَعْنَا مَا فِيْ صُدُوْرِهِمْ مِّنْ غِلٍّ اِ ۔۔ : ” نَزْعٌ“ کا معنی کھینچ کر، اکھاڑ کر نکالنا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کینہ اور دشمنی دل میں کتنی گہری جڑ پکڑتی ہے۔ ” غِلٍّ “ کینہ، کھوٹ، یعنی اللہ تعالیٰ دنیا میں اہل جنت کے دلوں میں ایک دوسرے کے متعلق ہر کینے کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دے گا، کیونکہ جس سینے میں کوئی کدورت ہو وہ مکمل خوشی سے ہم کنار نہیں ہوسکتا۔ دلوں کی صفائی کے بعد وہ بھائی بھائی بن کر آمنے سامنے تختوں پر بیٹھے ہوں گے۔ محبت ہو تو خودبخود چہرے آپس میں مل جاتے ہیں، جب کہ دلوں میں کدورت ہو تو چہرے بھی ادھر ادھر ہوجاتے ہیں ؂ دل بدلتے ہیں تو چہرے بھی بدل جاتے ہیں ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (اہل جنت کے متعلق) فرمایا : ( قُلُوْبُھُمْ عَلٰی قَلْبِ رَجُلٍ وَّاحِدٍ لاَ اخْتِلَافَ بَیْنَھُمْ وَلَا تَبَاغُضَ ) [ بخاری، بدء الخلق، باب ما جاء فی صفۃ الجنۃ : ٣٢٤٦ ] ” ان کے دل ایک آدمی کے دل کی طرح ہوں گے، نہ ان میں کوئی اختلاف ہوگا، نہ آپس میں کوئی بغض۔ “ ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( یَخْلُصُ الْمُؤْمِنُوْنَ مِنَ النَّارِ فَیُحْبَسُوْنَ عَلٰی قَنْطَرَۃٍ بَیْنَ الجَنَّۃِ وَالنَّارِ ، فَیُقْتَصُّ لِبَعْضِھِمْ مِنْ بَعْضٍ مَظَالِمُ کَانَتْ بَیْنَھُمْ فِي الدُّنْیَا، حَتّٰی إِذَا ھُذِّبُوْا وَ نُقُّوْا أُذِنَ لَھُمْ فِيْ دُخُوْلِ الجَنَّۃِ ) [ بخاری، الرقاق، باب القصاص یوم القیامۃ : ٦٥٣٥ ] ” مومن آگ سے بچ کر آئیں گے تو جنت اور جہنم کے درمیان ایک پل پر روک لیے جائیں گے، پھر دنیا میں ان کے ایک دوسرے پر مظالم کا قصاص ایک دوسرے کو دلوایا جائے گا، یہاں تک کہ جب ان کی پوری تراش خراش کردی جائے گی اور خوب پاک صاف کردیے جائیں گے تو انھیں جنت میں داخلے کی اجازت ملے گی۔ “ اس آیت سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام اور صلحائے امت باہمی لڑائیوں اور رنجشوں کے باوجود جنت میں جائیں گے، مگر اس سے پہلے ان کے دلوں کی باہمی کدورتیں بالکل دور کردی جائیں گی اور وہ صاف دل بھائی بھائی ہو کر جنت میں جائیں گے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَنَزَعْنَا مَا فِيْ صُدُوْرِهِمْ مِّنْ غِلٍّ اِخْوَانًا عَلٰي سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِيْنَ 47؀ نزع نَزَعَ الشیء : جَذَبَهُ من مقرِّه كنَزْعِ القَوْس عن کبده، ويُستعمَل ذلک في الأعراض، ومنه : نَزْعُ العَداوة والمَحبّة من القلب . قال تعالی: وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍ [ الأعراف/ 43] ( ن زع ) نزع الشئی کے معنی کسی چیز کو اس کی قرار گاہ سے کھینچنے کے ہیں ۔ جیسا کہ کام ن کو در میان سے کھینچا جاتا ہے اور کبھی یہ لفظ اعراض کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور محبت یا عداوت کے دل سے کھینچ لینے کو بھی نزع کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍ [ الأعراف/ 43] اور جو کینے ان کے دلوں میں ہوں گے ۔ ہم سب نکال ڈالیں گے ۔ صدر الصَّدْرُ : الجارحة . قال تعالی: رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه/ 25] ، وجمعه : صُدُورٌ. قال : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات/ 10] ، وَلكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ [ الحج/ 46] ، ثم استعیر لمقدّم الشیء كَصَدْرِ القناة، وصَدْرِ المجلس، والکتاب، والکلام، وصَدَرَهُ أَصَابَ صَدْرَهُ ، أو قَصَدَ قَصْدَهُ نحو : ظَهَرَهُ ، وكَتَفَهُ ، ومنه قيل : رجل مَصْدُورٌ: يشكو صَدْرَهُ ، وإذا عدّي صَدَرَ ب ( عن) اقتضی الانصراف، تقول : صَدَرَتِ الإبل عن الماء صَدَراً ، وقیل : الصَّدْرُ ، قال : يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتاتاً [ الزلزلة/ 6] ، والْمَصْدَرُ في الحقیقة : صَدَرٌ عن الماء، ولموضع المصدر، ولزمانه، وقد يقال في تعارف النّحويّين للّفظ الذي روعي فيه صدور الفعل الماضي والمستقبل عنه . ( ص در ) الصدر سینہ کو کہتے ہیں قرآن میں ہے ۔ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه/ 25] میرے پروردگار اس کا م کے لئے میرا سینہ کھول دے ۔ اس کی جمع صدور آتی ہے جیسے فرمایا : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات/ 10] اور جو بھید دلوں میں وہ ظاہر کردیئے جائیں گے ۔ وَلكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ [ الحج/ 46] بلکہ دل جو سینوں میں ہیں وہ اندھے ہوتے ہیں ۔ پھر بطور استعارہ ہر چیز کے اعلیٰ ( اگلے ) حصہ کو صدر کہنے لگے ہیں جیسے صدرالقناۃ ( نیزے کا بھالا ) صدر المجلس ( رئیس مجلس ) صدر الکتاب اور صدرالکلام وغیرہ صدرہ کے معنی کسی کے سینہ پر مارنے یا اس کا قصد کرنے کے ہیں جیسا کہ ظھرہ وکتفہ کے معنی کسی کی پیٹھ یا کندھے پر مارنا کے آتے ہیں ۔ اور اسی سے رجل مصدور کا محاورہ ہے ۔ یعنی وہ شخص جو سینہ کی بیماری میں مبتلا ہو پھر جب صدر کا لفظ عن کے ذریعہ متعدی ہو تو معنی انصرف کو متضمن ہوتا ہے جیسے صدرن الابل عن الماء صدرا وصدرا اونٹ پانی سے سیر ہوکر واپس لوٹ آئے ۔ قرآن میں ہے :۔ يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتاتاً [ الزلزلة/ 6] اس دن لوگ گروہ گروہ ہو کر آئیں گے ۔ اور مصدر کے اصل معنی پانی سے سیر ہوکر واپس لوٹنا کے ہیں ۔ یہ ظرف مکان اور زمان کے لئے بھی آتا ہے اور علمائے نحو کی اصطلاح میں مصدر اس لفظ کو کہتے ہیں جس سے فعل ماضی اور مستقبل کا اشتقاق فرض کیا گیا ہو ۔ غل الغَلَلُ أصله : تدرّع الشیء وتوسّطه، ومنه : الغَلَلُ للماء الجاري بين الشّجر، وقد يقال له : الغیل، وانْغَلَّ فيما بين الشّجر : دخل فيه، فَالْغُلُّ مختصّ بما يقيّد به فيجعل الأعضاء وسطه، وجمعه أَغْلَالٌ ، وغُلَّ فلان : قيّد به . قال تعالی: خُذُوهُ فَغُلُّوهُ [ الحاقة/ 30] ، وقال : إِذِ الْأَغْلالُ فِي أَعْناقِهِمْ [ غافر/ 71] ( غ ل ل ) الغلل کے اصل معنی کسی چیز کو اوپر اوڑھنے یا اس کے درمیان میں چلے جانے کے ہیں اسی سے غلل اس پانی کو کہا جاتا ہے جو درختوں کے درمیان سے بہہ رہا ہو اور کبھی ایسے پانی کو غیل بھی کہہ دیتے ہیں اور الغل کے معنی درختوں کے درمیان میں داخل ہونے کے ہیں لہذا غل ( طوق ) خاص کر اس چیز کو کہا جاتا ہے ۔ جس سے کسی کے اعضار کو جکڑ کر اس کے دسط میں باندھ دیا جاتا ہے اس کی جمع اغلال اتی ہے اور غل فلان کے معنی ہیں اے طوق سے باندھ دیا گیا قرآن میں ہے : خُذُوهُ فَغُلُّوهُ [ الحاقة/ 30] اسے پکڑ لو اور طوق پہنادو ۔ إِذِ الْأَغْلالُ فِي أَعْناقِهِمْ [ غافر/ 71] جب کہ ان لی گردنوں میں طوق ہوں گے ۔ سَّرِيرُ : الذي يجلس عليه من السّرور، إذ کان ذلک لأولي النّعمة، وجمعه أَسِرَّةٌ ، وسُرُرٌ ، قال تعالی: مُتَّكِئِينَ عَلى سُرُرٍ مَصْفُوفَةٍ [ الطور/ 20] ، فِيها سُرُرٌ مَرْفُوعَةٌ [ الغاشية/ 13] ، وَلِبُيُوتِهِمْ أَبْواباً وَسُرُراً عَلَيْها يَتَّكِؤُنَ [ الزخرف/ 34] ، وسَرِيرُ الميّت تشبيها به في الصّورة، وللتّفاؤل بالسّرور الذي يلحق الميّت برجوعه إلى جوار اللہ تعالی، وخلاصه من سجنه المشار إليه بقوله صلّى اللہ عليه وسلم : «الدّنيا سجن المؤمن» «1» . السریر ( تخت ) وہ جس کی ( ٹھاٹھ سے ) بیٹھا جاتا ہے یہ سرور سے مشتق ہے کیونکہ خوشحال لوگ ہی اس پر بیٹھتے ہیں اس کی جمع اسرۃ اور سرر آتی ہے ۔ قرآن نے اہل جنت کے متعلق فرمایا : مُتَّكِئِينَ عَلى سُرُرٍ مَصْفُوفَةٍ [ الطور/ 20] تختوں پر جو برابر بچھے ہوئے ہیں تکیہ لگائے ہوئے ۔ فِيها سُرُرٌ مَرْفُوعَةٌ [ الغاشية/ 13] وہاں تخت ہوں گے اونچے بچھے ہوئے ۔ وَلِبُيُوتِهِمْ أَبْواباً وَسُرُراً عَلَيْها يَتَّكِؤُنَ [ الزخرف/ 34] اور ان کے گھروں کے دروازے بھی ( چاندی بنادئیے ) اور تخت بھی جن پر تکیہ لگاتے ۔ اور میت کے جنازہ کو اگر سریر المیت کہاجاتا ہے تو یہ سریر ( تخت) کے ساتھ صوری شابہت کی وجہ سے ہے ۔ یا نیک شگون کے طور پر کہ مرنے والا دنیا کے قید خانہ سے رہائی پاکر جوار الہی میں خوش وخرم ہے جس کی طرف کہ آنحضرت نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : الدنیا سجن المومن کہ مومن کو دنیا قید خانہ معلوم ہوتی ہے ۔ مُقَابَلَةُ والتَّقَابُلُ : أن يُقْبِلَ بعضهم علی بعض، إمّا بالذّات، وإمّا بالعناية والتّوفّر والمودّة . قال تعالی: مُتَّكِئِينَ عَلَيْها مُتَقابِلِينَ [ الواقعة/ 16] ، إِخْواناً عَلى سُرُرٍ مُتَقابِلِينَ [ الحجر/ 47] ، ولي قِبَلَ فلانٍ كذا، کقولک : عنده . قال تعالی: وَجاءَ فِرْعَوْنُ وَمَنْ قَبْلَهُ [ الحاقة/ 9] ، فَمالِ الَّذِينَ كَفَرُوا قِبَلَكَ مُهْطِعِينَ [ المعارج/ 36] ، ويستعار ذلک للقوّة والقدرة علی الْمُقَابَلَةِ ، المقابلۃ والتقابل کے معنی ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہونے کے ہیں خواہ وہ توجہ بذریعہ ذات کے ہو یا بذریعہ عنایت اور سورت کے ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ مُتَّكِئِينَ عَلَيْها مُتَقابِلِينَ [ الواقعة/ 16] آمنے سامنے تکیہ لگائے ہوئے ۔ إِخْواناً عَلى سُرُرٍ مُتَقابِلِينَ [ الحجر/ 47] بھائی بھائی تختوں پر ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں ۔ لی قبل فلان کذا کے معنی ہیں میرے فلاں کی جانب اتنے ہیں اور یہ عندہ کے ہم معنی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجاءَ فِرْعَوْنُ وَمَنْ قَبْلَهُ«7» [ الحاقة/ 9] اور فرعون اوع جو لوگ اس سے پہلے تھے سب ۔۔۔۔ کرتے تھے ۔ فَمالِ الَّذِينَ كَفَرُوا قِبَلَكَ مُهْطِعِينَ [ المعارج/ 36] تو ان کا فروں کو کیا ہوا ہے کہ تمہاری طرف دوڑتے چلے آتے ہیں ۔ اور استعارہ کے طور پر قوت اور قدرت علی المقابل کے معنی میں استعمال ہوتا ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٧۔ ٤٨) اور دنیا میں آپس کا جو کینہ وغیرہ تھا ہم ان کو ان کے دلوں سے دور کردیں گے، آخرت میں سب بھائی بھائی کی طرح رہیں گے ایک دوسرے کی زیارت کے لیے تختوں پر آمنے سامنے بیٹھا کریں گے جنت میں ان کو ذرا بھی تکلیف اور مشقت نہیں پہنچے گی اور نہ وہ جنت سے نکالے جائیں گے۔ شان نزول : (آیت) ” ونزعنا مافی صدورھم “۔ (الخ) ابن ابی حاتم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے علی بن حسین سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت کریمہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) اور حضرت عمر (رض) کے بارے میں نازل ہوئی ہے ان سے دریافت کیا گیا کہ کس قسم کا کینہ ان کے دلوں سے دور کیا جائے گا فرمایا جاہلیت کا کینہ وہ یہ کہ بنی تمیم، بنی عدی اور بنی ہاشم میں زمانہ جاہلیت کی دشمنی تھی جب یہ تینوں خاندان والے مشرف بااسلام ہوگئے تو آپس میں اس قدر الفت و محبت ہوگئی کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے اپنی کوکھ پکڑی تو حضرت علی (رض) اپنا ہاتھ ان کو کوکھ پر رکھ کر اس کو کھجانے لگے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی، یعنی ان کے دلوں میں جو کینہ تھا ہم وہ سب دور کردیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٧ (وَنَزَعْنَا مَا فِيْ صُدُوْرِهِمْ مِّنْ غِلٍّ ) یہ مضمون بالکل انہی الفاظ میں سورة الاعراف (آیت ٤٣) میں بھی آچکا ہے۔ اہل ایمان کی آپس کی رنجشیں کدورتیں اور شکایتیں ختم کر کے ان کے دلوں کو ہر قسم کے تکدر سے پاک کردیا جائے گا۔ (اِخْوَانًا عَلٰي سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِيْنَ ) جب کسی سے ناراضگی ہو تو آدمی آنکھیں چار نہیں کرتا لیکن اہل جنت کے دل چونکہ ایک دوسرے کی طرف سے بالکل صاف ہوں گے ‘ اس لیے وہ آمنے سامنے بیٹھ کر ایک دوسرے سے باتیں کر رہے ہوں گے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

28. That is, if any spite might have been caused in their hearts in this world because of misunderstandings between the pious people, it shall be removed at the time of their entry into Paradise and they will bear no ill feelings there against each other. Refer to (((E.N. 320 of Surah Al-Aaraf))).

سورة الْحِجْر حاشیہ نمبر :28 یعنی نیک لوگوں کے درمیان آپس کی غلط فہمیوں کی بنا پر دنیا میں اگر کچھ کدورتیں پیدا ہوگئی ہوں گی تو جنت میں داخل ہونے کے وقت وہ دور ہو جائیں گی اور ان کے دل ایک دوسرے کی طرف سے بالکل صاف کر دیے جائیں گے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ اعراف ۔ حاشیہ نمبر ۳۲ ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

18: یعنی دنیا میں ان حضرات کے درمیان اگر کوئی رنجش رہی ہو تو جنت میں پہنچنے کے بعد اللہ تعالیٰ وہ ان کے دلوں سے نکال دیں گے

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(15:47) نزعنا۔ ماضی جمع متکلم۔ نزع مصدر (باب فتح) سے ہم نکال دیں گے۔ نزع الشیء کے معنی کسی چیز کو اس کی قرار گاہ سے کھینچنے کے ہیں جیسا کہ کمان کو درمیان سے کھینچا جاتا ہے اور کبھی یہ لفظ اعراض کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ جان نکالنے کو بھی نزع کہتے ہیں۔ اسی طرح محبت یا عداوت کو دل سے نکالنے کو بھی نزع کہتے ہیں۔ جیسا کہ آیت ہذا میں ہے ونزعنا ما فی صدورہم من غل۔ جو کینے ان کے دلوں میں ہوں گے ہم سب نکال دیں گے۔ کھینچنے اور چھیننے کے معنی میں بھی مستعمل ہے مثلاً وتنزع الملک ممن تشاء (3:36) اور تو جس سے چاہے بادشاہی چھین لے۔ اور فان تنازعتم فی شیء (4:59) اگر تم جھگڑ پرو کسی بات میں۔ یعنی تمہاری آپس میں کسی امر کے متعلق کھینچا تانی ہوجائے۔ اختلاف ہوجائے۔ غل۔ دلی کدورت ۔ قلبی عداوت۔ کینہ۔ غل یغل (باب ضرب) کسی کے متعلق دل میں کینہ رکھنا۔ غل یغل (باب نصر) الغلول خیانت کرنا ما کان للنبی ان یغل (3:161) اور کبھی نہیں ہوسکتا کہ پیغمبر خدا خیانت کرے۔ اخوانا۔ بھائی بھائی۔ یعنی بھائیوں کی طرح۔ حال ہے ہم (فی صدورہم) سے اور بدیں وجہ منصوب ہے۔ اسی طرح علی سرر اور متقابلین بھی حال ہے یعنی وہ اس حالت میں وہاں ہوں گے۔ جیسے بھائی بھائی تختوں پر بیٹھے ہوئے اور ایک دوسرے کے آمنے سامنے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 حضرت ابوسعید خدری سے صحیح روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مومنوں کو جہنم سے نکال کر جنت اور جہنم کے درمیان ایک پل پر روک لیا جائے گا تاکہ کے درمیان آپس کی زیادتیوں کی بنا پر جو کدورتیں پیدا ہوگئی تھیں وہ ان کے دلوں سے نکال دی جائیں۔ چناچہ جب وہ ان کدرتوں سے پاک صاف ہوجائیں گے انہیں جنت میں داخل ہونے کی اجازت دے دی جائے گی۔ حضرت علی فرماتے ہیں ” مجھے امید ہے کہ میں طلحہ اور زبیر ان لوگوں میں سے ہوں گے جن کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ (ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اہل جنت تکیہ لگائے آنے سامنے تختوں پر بیٹھے ہوں گے (عَلٰی سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِیْنَ ) جو فرمایا ہے اس کے بارے میں صاحب روح المعانی نے حضرت مجاہد سے نقل کیا ہے کہ وہ جنت میں اس طرح رہیں گے کہ ایک دوسرے کی پشت نہ دیکھیں گے ان کے تخت گھومنے والے ہوں گے وہ جن حالات میں بھی ہوں گے آپس میں آمنے سامنے ہی ہوں گے اور ان کے تخت ان کو لے کر اس طرح گھوم رہے ہوں گے کہ جب بھی مجتمع ہوں گے متقابل ہی رہیں گے یعنی آمنا سامنا ہی رہے گا۔ جنت میں کوئی تکلیف نہ ہوگی نہ وہاں سے نکالے جائیں گے سورة واقعہ میں فرمایا (عَلٰی سُرُرٍ مَّوْضُوْنَۃٍ مُتَّکِءِیْنَ عَلَیْہَا مُتَقَابِلِیْنَ ) ایسے تختوں پر ہوں گے جو سونے کے تاروں سے بنے ہوں گے ان پر تکیہ لگائے ہوئے آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے، پھر فرمایا (لَا یَمَسُّھُمْ فِیْھَا نَصَبٌ وَّ مَا ھُمْ مِّنْھَا بِمُخْرَجِیْنَ ) یعنی اہل جنت کو جنت میں کسی طرح کی کوئی تکلیف جسمانی روحانی ظاہری باطنی نہ پہنچے گی ہر طرح کے دکھن تھکن رنج و غم سے محفوظ ہوں گے ہر چیز خواہش کے موافق ہوگی وہاں ہمیشہ رہیں گے کبھی وہاں سے نکالے نہ جائیں گے بھرپور نعمتوں میں ہوں گے نعمتوں کے چھن جانے کا یا وہاں سے نکالے جانے کا کبھی کوئی خطرہ نہ ہوگا۔ سورة فاطر میں فرمایا (وَ قَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْٓ اَذْھَبَ عَنَّا الْحَزَنَ اِنَّ رَبَّنَا لَغَفُوْرٌ شَکُوْرُنِ الَّذِیْٓ اَحَلَّنَا دَارَ الْمُقَامَۃِ مِنْ فَضْلِہٖ لَا یَمَسُّنَا فِیْھَا نَصَبٌ وَّ لَا یَمَسُّنَا فِیْھَا لُغُوْبٌ) (اور وہ کہیں گے کہ سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے ہم سے غم دور فرما دیا، بلاشبہ ہمارا رب بخشنے والا ہے قدردان ہے جس نے ہمیں اپنے فضل سے رہنے کے مقام میں اتارا اس میں ہمیں نہ کوئی تھکن پہنچے گی اور نہ ہمیں کوئی خستگی پہنچے گی۔ )

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

47 ۔ اور ہم نے ان کے دلوں سے باہمی رنجش اور خفگی اس طرح دور کردیں گے اور سلب کرلیں گے کہ وہ بھائی بھائی کی طرح رہیں گے اور وہ تختوں پر ایک دوسرے کے سامنے بیٹھا کریں گے یعنی دنیاوی رنجش اور خفگی کا وہاں کوئی اثر نہ ہوگا سب بھائیوں کی طرح رہیں گے اور جب کبھی آپس میں جمع ہوں گے تو ایک دوسرے کے روبرو تختوں پر بیٹھا کریں گے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی دنیا میں جو کچھ آپس میں خفگی تھی جی صاف ہوگئے اس سے معلوم ہوا کہ کبھی دو آدمیوں میں خفگی رہی ہے اور وے دونوں بہشتی ہیں جیسے حضرت ؐ کے اصحاب (رض) ۔ 12