Surat ul Hijir

Surah: 15

Verse: 52

سورة الحجر

اِذۡ دَخَلُوۡا عَلَیۡہِ فَقَالُوۡا سَلٰمًا ؕ قَالَ اِنَّا مِنۡکُمۡ وَجِلُوۡنَ ﴿۵۲﴾

When they entered upon him and said, "Peace." [Abraham] said, "Indeed, we are fearful of you."

کہ جب انہوں نے ان کے پاس آکر سلام کہا تو انہوں نے کہا کہ ہم کو تو تم سے ڈر لگتا ہے

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

He said: "Indeed we are frightened of you." meaning that they were scared. The reason for their fear has been mentioned previously, which is that they noticed that these guests did not eat of the food that was offered, which was a fattened calf.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

52۔ 1 حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ان فرشتوں سے ڈر اس لئے محسوس ہوا کہ انہوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا تیار کردہ بھنا ہوا بچھڑا نہیں کھایا، جیسا کہ سورة ہود میں تفصیل گزری۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر پیغمبر کو بھی غیب کا علم نہیں ہوتا، اگر پیغمبر عالم الغیب ہوتے تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سمجھ جاتے کہ آنے والے مہمان فرشتے ہیں اور ان کے لئے کھانا تیار کرنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ فرشتے انسانوں کی طرح کھانے پینے کے محتاج نہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنَّا مِنْكُمْ وَجِلُوْنَ : ” وَجِلُوْنَ “ ” وَجِلَ یَوْجَلُ (س) سے ” وَجِلٌ“ (صفت مشبہ) کی جمع ہے، بمعنی ڈرنے والے۔ ڈرنے کی وجہ، مکمل واقعہ اور اس کے فوائد کے لیے دیکھیے سورة ہود (٦٩) سے واقعہ کے آخر تک۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِذْ دَخَلُوْا عَلَيْهِ فَقَالُوْا سَلٰمًا ۭ قَالَ اِنَّا مِنْكُمْ وَجِلُوْنَ 52؀ وجل الوَجَل : استشعار الخوف . يقال : وَجِلَ يَوْجَلُ وَجَلًا، فهو وَجِلٌ. قال تعالی: إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ [ الأنفال/ 2] ، إِنَّا مِنْكُمْ وَجِلُونَ قالُوا لا تَوْجَلْ [ الحجر/ 52- 53] ، وَقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ [ المؤمنون/ 60] . ( و ج ل ) الوجل کے معنی دل ہی دل میں خوف محسوس کرنے کے ہیں اور یہ باب وجل یوجل کا مصدر ہے جس کے معیج ڈر نے یا گھبرا نے کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ [ الأنفال/ 2] مومن تو وہ ہیں کہ جب خدا کا ذکر کیا جاتا ہے تو انکے دل ڈر جاتے ہیں ۔ إِنَّا مِنْكُمْ وَجِلُونَ قالُوا لا تَوْجَلْ [ الحجر/ 52- 53] انہوں نے کہا ہمیں تو تم سے ڈر لگتا ہے ۔ یہ وجل کی جمع ہے جس کے معیق ہیں ڈر نے ولا ۔ قالُوا لا تَوْجَلْ [ الحجر/ 52- 53]( مہمانوں نے ) کہا کہ ڈر یئے نہیں ۔ وَقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ [ المؤمنون/ 60] اور ان کے دل ڈر تے رہتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٢ (اِذْ دَخَلُوْا عَلَيْهِ فَقَالُوْا سَلٰمًا ۭ قَالَ اِنَّا مِنْكُمْ وَجِلُوْنَ ) آپ کے اجنبی ہونے کی وجہ سے ہمیں آپ سے خدشہ ہے۔ لہٰذا بہتر ہوگا اگر آپ لوگ اپنی شناخت کروادیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

31. Please compare this story of Prophet Abraham (peace be upon him) with that contained in (Surah Houd, Ayats 69- 76).

سورة الْحِجْر حاشیہ نمبر :31 تقابل کے لیے ملاحظہ ہو سورہ ہود ، رکوع ۷ مع حواشی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

20: سورۂ ہود میں گزرچکا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ان کو انسان سمجھ کر انکی مہمانی کے لئے بچھڑے کا بھنا ہوا گوشت لے کر آئے تھے، لیکن انہوں نے کھانے سے پرہیز کیا جو اس علاقے کے رواج کے مطابق اس بات کی علامت تھی کہ یہ کوئی دشمن ہیں اور کسی برے ارادے سے آئے ہیں اس لئے انہیں خوف محسوس ہوا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(15:52) وجلون۔ صفت مشبہ۔ جمع مذکر۔ وجل واحد وجل مصدر۔ (باب سمع) خوف زدہ۔ ڈرنے والا۔ الوجل کے معنی دل ہی دل میں خوف محسوس کرنے کے ہیں۔ موجل نشیبی گڑھا۔ خوف کی جگہ۔ یہاں انا (بیشک ہم) اور وجلون جمع کے صیغے آئے ہیں۔ شاید حضرات ابراہیم (علیہ السلام) یہ خوف کی کیفیت اپنی اور اپنے اہل خانہ کی سے بتا رہے تھے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 پہلے حضرت ابراہیم نے سلام کا جواب دیا پھر مہمانداری کے لئے بھنا ہوا بچھڑا لے آئے۔ لیکن جب دیکھ دکھانے کیلئے ہاتھ نہیں بڑھاتے تو گھبرا کر یہ کہا جیسا کہ سورة ہود میں گزر چکا ہے۔ (قرطبی) 6 معلوم نہیں تم کون لوگ ہو اور کس نیت سے آئے ہوئے۔ دیکھئے سورة ہود۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

7۔ ابراہیم (علیہ السلام) ان کو مہمان سمجھ کر فوران ان کے لئے کھانا تیار کر کے لائے، مگر چونکہ وہ فرشتے تھے انہوں نے کھانا نہیں کھایا، تب ابراہیم (علیہ السلام) دل میں ڈرے کہ یہ لوگ کھانا کیوں نہیں کھاتے، چونکہ وہ فرشتے بشکل بشر تھے اس لئے ان کو بشرہی سمجھا اور ان کے کھانا نہ کھانے سے شبہ ہوا کہ یہ لوگ کہیں مخالف نہ ہوں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

52 ۔ جس وقت وہ مہمان یعنی فرشتے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس آئے اور ان کے گھر میں داخل ہوئے تو انہوں نے السلام علیکم کہا تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کو دیکھ کر فرمایا ہم کو تم سے ڈر لگتا ہے اور خوف معلوم ہوتا ہے۔ یعنی ملاقات اور کھانے وغیرہ کا انتظام کرنے اور ان کے نہ کھانے کے بعد فرمایا ہوگا ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں ظاہر کچھ سبب نہ تھا پر ڈر کا ان کے پاس حکم تھا عذاب کا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ولی پر اس کا اثر پڑا دل کی صفائی سے یہ ہوتا ہے۔ 12