Surat ul Hijir

Surah: 15

Verse: 57

سورة الحجر

قَالَ فَمَا خَطۡبُکُمۡ اَیُّہَا الۡمُرۡسَلُوۡنَ ﴿۵۷﴾

[Abraham] said, "Then what is your business [here], O messengers?"

پوچھا کہ اللہ کے بھیجے ہوئے ( فرشتو ) تمہارا ایسا کیا اہم کام ہے؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Reason why the Angels came Allah tells: قَالَ فَمَا خَطْبُكُمْ أَيُّهَا الْمُرْسَلُونَ He said: "What then is the business for which you have come, O messengers!" Allah tells us that after Ibrahim had calmed down from the excitement of this good news, he started to ask them why they had come to him. قَالُواْ إِنَّا أُرْسِلْنَا إِلَى قَوْمٍ مُّجْرِمِينَ

حضرت ابراہیم علیہ السلام کا جب ڈر خوف جاتا رہا بلکہ بشارت بھی مل گئی تو اب فرشتوں سے ان کے آنے کی وجہ دریافت کی ۔ انھوں نے بتلایا کہ ہم لوطیوں کی بستیاں الٹنے کے لئے آئے ہیں ۔ مگر حضرت لوط علیہ السلام کی آل نجات پا لے گی ۔ ہاں اس آل میں سے ان کی بیوی بچ نہیں سکتی؛وہ قوم کے ساتھ رہ جائے گی اور ہلا کت میں ان کے ساتھ ہی ہلاک ہو گی ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

57۔ 1 حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان فرشتوں کی گفتگو سے اندازہ لگا لیا کہ یہ صرف اولاد کی بشارت دینے ہی نہیں آئے ہیں بلکہ ان کی آمد کا اصل مقصد کوئی اور ہے۔ چناچہ انہوں نے پوچھا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣١] سیدنا ابراہیم کے ڈرنے کی وجہ :۔ ان فرشتوں کی آمد سے سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) سمجھ گئے کہ یہ کسی خاص مہم پر آئے ہیں۔ ورنہ لڑکے کی خوشخبری دینے کے لیے تو ایک فرشتہ بھی کافی تھا نیز یہ کہ کئی فرشتوں کا انسانی شکل میں آناغیر معمولی حالات میں ہی ہوا کرتا ہے۔ لہذا آپ نے ان سے پوچھ ہی لیا کہ تمہاری اس طرح آمد کی اصل غرض وغایت کیا ہے ؟ واضح رہے کہ قرآن نے یہاں خطب کا لفظ استعمال فرمایا ہے اور یہ لفظ کسی ناگوار صورت حال کے لیے آتا ہے گویا آپ ان فرشتوں کی آمد سے فی الواقع ڈر رہے تھے۔ پھر جب فرشتوں نے بتایا کہ وہ قوم لوط کی طرف بھیجے گئے ہیں تو آپ کا ڈر جاتا رہا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالَ فَمَا خَطْبُكُمْ اَيُّهَا الْمُرْسَلُوْنَ : غالباً ابراہیم (علیہ السلام) قرائن سے سمجھ گئے کہ فرشتوں کے آنے کا مقصد محض مجھے خوش خبری دینا نہیں، کیونکہ عموماً فرشتے کسی بڑی مہم ہی کے لیے آیا کرتے ہیں، جیسا کہ فرمایا : (مَا نُنَزِّلُ الْمَلٰۗىِٕكَةَ اِلَّا بالْحَقِّ وَمَا كَانُوْٓا اِذًا مُّنْظَرِيْنَ ) [ الحجر : ٨ ] ” ہم فرشتوں کو نہیں اتارتے مگر حق کے ساتھ۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ فَمَا خَطْبُكُمْ اَيُّهَا الْمُرْسَلُوْنَ 57؀ خطب ( حال) الخَطْبُ «2» والمُخَاطَبَة والتَّخَاطُب : المراجعة في الکلام، والخَطْبُ : الأمر العظیم الذي يكثر فيه التخاطب، قال تعالی: فَما خَطْبُكَ يا سامِرِيُّ [ طه/ 95] ، فَما خَطْبُكُمْ أَيُّهَا الْمُرْسَلُونَ [ الذاریات/ 31] ( خ ط ب ) الخطب والمخاطبۃ والتخاطب ۔ باہم گفتگو کرنا ۔ ایک دوسرے کی طرف بات لوٹانا ۔ الخطب ۔ اہم معاملہ جس کے بارے میں کثرت سے تخاطب ہو ۔ قرآن میں ہے :۔ فَما خَطْبُكَ يا سامِرِيُّ [ طه/ 95] پھر سامری سے کہنے لگے ) سامری تیرا کیا حال ہے ۔ فَما خَطْبُكُمْ أَيُّهَا الْمُرْسَلُونَ [ الذاریات/ 31] کہ فرشتوں تمہارا مدعا کیا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٧) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو جب قرائن سے معلوم ہوگیا تو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں سے فرمایا کہ یہ تو بتاؤ اب تمہیں کیا مہم در پیش ہے اور کس مقصد کے تحت آئے ہو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٧ (قَالَ فَمَا خَطْبُكُمْ اَيُّهَا الْمُرْسَلُوْنَ ) اب حضرت ابراہیم نے ان سے پوچھ ہی لیا کہ آپ لوگوں کے یہاں آنے کا کیا مقصد ہے ؟ آپ کو کیا مہم درپیش ہے ؟

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

33. It appears from the question of Prophet Abraham (peace be upon him) that angels are sent down in human shape only on extraordinary occasions and on some important expedition.

سورة الْحِجْر حاشیہ نمبر :33 حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس سوال سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ فرشتوں کا انسانی شکل میں آنا ہمیشہ غیر معمولی حالات ہی میں ہوا کرتا ہے اور کوئی بڑی مہم ہی ہوتی ہے جس پر وہ بھیجے جاتے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٥٧۔ ٦٠۔ جب فرشتوں نے ابراہیم (علیہ السلام) کو اولاد کی خوشی سنادی اور ان کے دل سے خوف جاتا رہا تو انہوں نے فرشتوں سے پوچھا کہ اے خدا کے بھیجے ہوئے فرشتوں تمہارا ارادہ کس کام کا ہے کیونکہ ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ سمجھ لیا تھا کہ یہ فقط بشارت ہی دینے کو نہیں آئے ہیں ان کا آنا کسی اور کام کی غرض سے ہوا ہے اگر خوشی صرف سنانی تھی تو ایک آتا ابراہیم (علیہ السلام) کے پوچھنے پر انہوں نے کہا کہ ہم لوط (علیہ السلام) کی مجرم قوم پر عذاب لے کر بھیجے گئے ہیں سوائے لوط (علیہ السلام) کے گھر والوں کے سب لوگ گاؤں کے گاؤں ہلاک ہوجائیں گے اسی میں لوط (علیہ السلام) کی بیوی بھی ہلاک ہوں گی یہ دل میں منافق تھیں۔ مگر خداوند تعالیٰ جب تک ظاہر قصور نہیں دیکھتا ہے اس وقت تک کسی کو نہیں پکڑتا اس لئے فرشتوں نے لوط (علیہ السلام) سے کہا کہ آپ سب لوگ گھر میں سے باہر چلے جائیں اور پیچھے پھر کر نہ دیکھئے گا۔ لوط (علیہ السلام) کے ساتھ ان کی بیوی بھی جارہی تھیں اور کسی نے تو مڑ کر نہیں دیکھا ان کی بیوی نے پیچھے پھر کر دیکھا خدا نے ان کو پکڑ لیا اور یہ بھی اپنی قوم کے ساتھ ہلاک ہوئیں۔ سورت ہود میں گزر چکا ہے کہ جب ابراہیم (علیہ السلام) کے دل سے خوف جاتا رہا اور انہوں نے فرشتوں سے قوم لوط کے عذاب کا حال سنا تو وہ اللہ کے فرشتوں سے جھگڑنے لگے کہ اس بستی میں لوط بھی ہیں ساری بستی پر عذاب کیوں کر آوے گا اس کا جواب اللہ کے فرشتوں نے یہ دیا ہے کہ سوائے لوط (علیہ السلام) کی بی بی کے اور سب ان کے گھر والے بچ جاویں گے۔ سورت ہود کا قصہ گویا یہاں کے قصے کی تفسیر ہے سورت توبہ کی آیت { ان ابراہیم لاواہ } (٩: ١١٤) کی تفسیر میں حسن بصری اور قتادہ کا قول ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نرم دل بہت تھے صحیح بخاری وغیرہ میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ قیامت کے دن ابراہیم (علیہ السلام) اپنے باپ کی نجات چاہیں گے لیکن وہ منظور ١ ؎ نہ ہوگی۔ اس حدیث سے حسن بصری اور قتادہ کے قول کی پوری تائید ہوتی ہے اور آخری آیت کی تفسیر کا حاصل یہ ٹھہرتا ہے کہ نرم دلی کے سبب سے ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ کے فرشتوں سے قوم لوط کے باب میں جھگڑا کیا اور اللہ کے فرشتوں نے یہ جواب دیا جس کا ذکر آیت میں ہے۔ ١ ؎ صحیح بخاری ص ٤٧٣ ج ١ باب قول اللہ عزوجل واتخذ اللہ ابراہیم خلیلا الخ۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(15:57) خطبکم۔ تمہاری مہم۔ تمہارا کام۔ تمہارا معاملہ۔ المرسلون ۔ اسم مفعول۔ جمع مذکر۔ بھیجے ہوئے۔ فرستادہ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 غالباً حضرت ابراہیم قرائن سے سمجھ گئے کہ فرشتوں کے آنے کا مقصد محض مجھے خوشخبری دینا نہیں ہے بلکہ کوئی بڑی مہم ہے جس کے لئے انہیں بھیجا گیا ہے۔ (شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے واقعہ میں اللہ تعالیٰ کی بےپایاں رحمت کا عملی ثبوت پیش کیا گیا ہے اور اب حضرت لوط (علیہ السلام) کے واقعہ میں اس کے غضب کی ایک مثال پیش کی جا رہی ہے۔ تاکہ ملائکہ کے نزول کا مطالبہ کرنے والے ملائکہ کے نزول کا پوری طرح فرق سمجھ لیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ملائکہ سے خوشخبری سننے اور اس پر اطمینان کا اظہار کرنے کے بعد ان سے استفسار فرماتے ہیں کہ تمہاری آمد کا اور مقصد کیا ہے ؟ ملائکہ نے عرض کیا کہ ہم ایک مجرم قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں۔ سوائے حضرت لوط (علیہ السلام) اور اس کی آل کے ان کو عذاب سے بچا لیا جائے گا۔ البتہ حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیوی نہیں بچ سکے گی۔ کیونکہ ربِّ ذوالجلال کا یہی فیصلہ ہے کہ وہ تباہ و برباد ہونے والوں میں شامل ہو۔ حضرت لوط (علیہ السلام) اور حضرت نوح (علیہ السلام) کی بیویوں کے بارے میں بتلایا گیا ہے کہ وہ دونوں اللہ کے صالح بندوں کی بیویاں ہونے کے باوجود خیانت کی مرتکب تھیں وہ اپنے خاوندوں جو کہ اپنے اپنے وقت میں اللہ کے رسول تھے۔ ان پر ایمان لانے کی بجائے کفر اختیار کیے ہوئے تھیں۔ جب اللہ تعالیٰ کا ان اقوام پر عذاب نازل ہوا تو حضرت نوح (علیہ السلام) اور حضرت لوط (علیہ السلام) اپنی بیویوں کو عذاب سے نہ بچا سکے۔ حکم ہوا کہ تم دونوں عورتیں جہنم میں داخل ہونے والوں کے ساتھ داخل ہوجاؤ۔ ان کے مقابلے میں ایک بدترین انسان اور حکمران فرعون کی بیوی جنت میں جائے گی بلکہ موت سے پہلے اسے جنت کا نظارہ کروا گیا۔ یہاں حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم کا انجام ذکر کرتے ہوئے واضح کیا گیا ہے کہ حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیوی بھی ان کے ساتھ تباہی کے گھاٹ اتر گئی۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ کَانَتْ خِیَانَتُہُمَا أنَّہُمَا کَانَتَا عَلٰی عَوْرَتَیْہِمَا فَکَانَتْ اِمْرَأۃُ نُوْحٍ تَطْلَعُ عَلٰی سِرِّ نُوْحٍ ، فَإذَا آمَنَ مَعَ نُوْحٍ أحَدٌ أخْبَرَتِ الْجَبَابِرَۃَ مِنْ قَوْمِ نُوْحٍ بِہِ ، وَأمَّا اِمْرَأۃُ لُوْطٍ فَکَانَتْ إذَا أضَافَ لُوْطُ أحَدًا أخْبَرَتْ بِہِ أہْلَ الْمَدِیْنَۃِ مِمَّنْ یَّعْمَلُ السُّوءَ )[ ابن کثیر ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت نوح اور حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیویوں کی خیانت یہ تھی کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی بیوی ان کے راز فاش کرتی تھی۔ جب کوئی شخص حضرت نوح (علیہ السلام) پر ایمان لے آتا تو وہ اس کے بارے میں ظالموں کو بتاتی دیتی اور حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیوی ان کے مہمانوں کے بارے میں شہر کے برے لوگوں کو خبر دیتی تھی۔ “ اللہ تعالیٰ کے ہاں کردار : (ضَرَبَ اللَّہُ مَثَلاً لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْا امْرَأَۃَ نُوْحٍ وَّامْرَأَۃَ لُوْطٍ کَانَتَا تَحْتَ عَبْدَیْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَیْنِ فَخَانَتَاہُمَا فَلَمْ یُغْنِیَا عَنْہُمَا مِنَ اللَّہِ شَیْءًا وَقِیلَ ادْخُلَا النَّارَمَعَ الدَّاخِلِیْنَ وَضَرَبَ اللَّہُ مَثَلاً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا امْرَأَۃَ فِرْعَوْنَ إِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِیْ عِنْدَکَ بَیْتًا فِی الْجَنَّۃِ وَنَجِّنِیْ مِنْ فِرْعَوْنَ وَعَمَلِہٖ وَنَجِّنِیْ مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِیْنَ ) [ التحریم : ١٠] ” اللہ تعالیٰ کافروں کے لیے نوح اور لوط کی بیویوں کو بطور مثال بیان فرماتا ہے۔ وہ دونوں ہمارے بندوں میں سے دو صالح بندوں کے نکاح میں تھیں مگر انہوں نے اپنے شوہروں سے خیانت کی تو وہ اللہ کے مقابلہ میں ان دونوں کے کچھ کام نہ آسکے۔ اور دونوں عورتوں سے کہہ دیا گیا کہ جہنم میں داخل ہونے والوں کے ساتھ داخل ہوجاؤ۔ اہل ایمان کے معاملہ میں اللہ فرعون کی بیوی کی مثال پیش کرتا ہے جب اس نے دعا کی اے میرے رب میرے لیے اپنے ہاں جنت میں ایک گھر بنا دے۔ مجھے فرعون اور اس کے عمل سے بچا اور ظالم قوم سے مجھے نجات عطا فرما۔ “ مسائل ١۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیوی کے سوا، ان کے ایمان دار ساتھیوں کو بچا لیا گیا۔ تفسیر بالقرآن حضرت لوط کی بیوی کا کردار اور انجام : ١۔ لوط کی بیوی کے سوا اللہ نے انہیں نجات دی۔ (الحجر : ٦٠) ٢۔ ہم نے لوط اور اس کے اہل کو نجات دی مگر لوط کی بیوی پر عذاب مسلط ہوا۔ (الاعراف : ٨٣) ٣۔ نوح اور لوط کی بیویوں نے خیانت کی اللہ انہیں جہنم میں داخل کرے گا۔ (التحریم : ١٠) ٤۔ ہم نے لوط اور اس کے اہل کو نجات دی مگر اس کی بیوی پیچھے رہ جانے والوں میں سے تھی۔ (النمل : ٥٧)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر ٥٧ تا ٦٠ یہاں سیاق کلام میں یہ نہیں بتایا گیا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم کے بارے میں فرشتوں سے اچھا خاصا تکرار کیا ، جیسا کہ سورة ہود میں بتایا گیا ہے بلکہ یہاں فرشتے پوری کی پوری بات حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بتا دیتے ہیں کیونکہ وہ حضرت لوط (علیہ السلام) اور آل لوط پر رحمت خداوندی کی تصدیق کی تصدیق کرتے ہیں۔ ہاں ان کی بیوی کے بارے میں فیصلہ ذرا مختلف ہے ، وہ پیچھے رہ جانے والوں میں سے ہے (غابرین یعنی پیچھے قوم کے ساتھ رہ جانے والوں سے ہوگئی اور اس کا انجام قوم کے ساتھ ہوا ۔ یہ لفظ غبرہ سے نکلا ہے ، جس کا اطلاق اس دودھ پر ہوتا ہے جو مویشی کو دونے کے بعد اس کے تھنوں میں رہ جاتا ہے ) چناچہ فرشتے قوم لوط کی طرف روانہ ہوجاتے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

یہ مہمان فرشتے تھے جو حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم کو ہلاک کرنے کے لیے بھیجے گئے تھے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو خوشخبری دے کر فرشتوں کا حضرت لوط (علیہ السلام) کے پاس آنا یہ فرشتے جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس خوشخبری لے کر آئے تھے اللہ تعالیٰ نے ان کے سپرد یہ کام بھی کیا تھا کہ حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم کو ہلاک کردیں ان کی ہلاکت کا قصہ سورة اعراف اور سورة ھود میں گزر چکا ہے ان لوگوں کو یہ عادت بد پڑی ہوئی تھی کہ عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے اپنی شہوت پوری کرتے تھے سورة عنکبوت میں ہے کہ جب ان کو عذاب آنے کی وعید سنائی جاتی تھی تو اس پر یقین نہیں کرتے تھے اور نصیحت کا الٹا اثر لیتے تھے اور یوں بھی کہتے تھے (اءْتِنَا بِعَذَاب اللّٰہِ اِنْ کُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ ) (ہمارے پاس اللہ کا عذاب لے آ اگر تو سچوں میں سے ہے) اب جب فرشتے عذاب لے کر آئے تو پہلے حضرت لوط (علیہ السلام) کے پاس پہنچے چونکہ ان کی صورتیں نئی نئی تھیں کبھی دیکھا نہیں تھا اس لیے انہوں نے بھی وہی بات کہی جو ابراہیم (علیہ السلام) کے منہ سے نکلی تھی کہ تم لوگ تو اجنبی معلوم ہوتے ہو، فرشتوں نے کہا کہ ہم آدمی نہیں ہیں بلکہ ہم اللہ کے فرشتے ہیں عذاب لے کر آئے ہیں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ ہماری بات اور ہماری خبر سچی ہے اور اس عذاب سے ہم تمہیں اور تمہارے سارے خاندان کو نجات دے دیں گے البتہ تمہاری بیوی ہلاکت سے اور عذاب سے نہ بچے گی اسے بھی وہی عذاب پہنچے گا جو اس کی قوم کو پہنچنے والا ہے اب آپ ایسا کریں کہ رات کے کسی حصے میں اپنے گھر والوں کو لے کر نکل جائیں اور آپ ان کے پیچھے ہولیں (تاکہ کوئی رہ نہ جائے اور لوٹ کر واپس بھی نہ آئے) اور تم میں سے کوئی بھی پیچھے مڑ کر نہ دیکھے اور تمہیں جس جگہ جانے کا حکم ہوا ہے اسی طرف چلے جاؤ، روح المعانی میں لکھا ہے کہ اس سے شام کی سرزمین مراد ہے اور بعض حضرات نے فرمایا کہ اردن کا علاقہ مراد ہے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم کی شرارت اور ہلاکت یہ فرشتے جو حضرت لوط (علیہ السلام) کے پاس آئے یہ خوبصورت انسانوں کی شکلوں میں تھے اور چونکہ وہ اس بستی کے رہنے والوں میں نہ تھے (اور بستی والے باہر سے آنے والے لوگوں کو اپنے برے مقصد کے لیے استعمال کرتے تھے) اس لیے بری نیت کے ساتھ خوش ہوتے ہوئے پہنچے تاکہ ان مہمانوں سے اپنا کام نکالیں، حضرت لوط (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا کہ یہ میرے مہمان ہیں تم میری فضیحت نہ کرو اللہ سے ڈرو اور مجھے رسوا نہ کرو وہ لوگ اپنی بدمستی میں اندھے بنے ہوئے تھے کہنے لگے کہ کیا ہم آپ کو دنیا بھر کے لوگوں کو مہمان بنانے سے منع نہیں کرچکے ہیں، ہمارے اور آنے والے لوگوں کے درمیان آڑے نہ آئیں، آپ کو کیا ضرورت ہے کہ باہر کے آنے والوں کو مہمان بنائیں نہ آپ مہمان بناتے نہ آپ کے رسوا ہونے کی نوبت آتی، حضرت لوط (علیہ السلام) نے ان کو سمجھایا اور فرمایا کہ تمہیں اپنی شہوت کو پوری کرنے کے لیے ان بیہودہ حرکتوں کی کیا ضرورت ہے یہی میری بیٹیاں (قوم کی لڑکیاں) ہیں تم ان پر حلال طریقے سے قضائے شہوت کا کام نکالو ان لوگوں نے کہا ہمیں تمہاری بیٹیوں سے کوئی مطلب نہیں تمہیں معلوم ہے ہم کیا چاہتے ہیں (کما فی سورة ھود (علیہ السلام) فرشتوں نے کہا کہ آپ تھوڑا سا صبر کریں صبح ہوتے ہی یہ لوگ ہلاک کردئیے جائیں گے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) اپنے گھر والوں کو لے کر بستی سے رات کے وقت نکل گئے بیوی وہیں رہ گئی۔ جب سورج نکلا تو ایک سخت آواز آئی جو بہت کرخت تھی پھر اوپر سے یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے زمین کو اوپر اٹھایا اور زمین کا تختہ الٹ دیا، زمین کے اوپر کا حصہ نیچے ہوگیا اور نیچے کا حصہ اوپر ہوگیا۔ جس سے لوگ دب گئے اور مزید یہ ہوا کہ لگاتار مسلسل پتھر برسا دئیے گئے۔ یہ پتھر سجیل کے تھے سورة ھود اور سورة حجر میں (بِحِجَارَۃٍ مِّنْ سِجِّیْلٍ ) فرمایا اور سورة ذاریات میں (حِجَارَۃً مِّنْ طِیْنٍ ) فرمایا ہے دونوں جگہ کی تصریح سے معلوم ہوا کہ ان لوگوں پر جو پتھر برسائے گئے تھے وہ عام پتھر یعنی پہاڑوں کے ٹکڑے نہیں تھے بلکہ ایسے پتھر تھے جو مٹی سے پکا کر بنائے جاتے ہوں جس کا ترجمہ ” کنکر “ کیا گیا ہے۔ یہ لفظ سنگ اور گل سے مرکب ہے سنگ پتھر کو اور گل مٹی کو کہتے ہیں مٹی کو اگر پکایا جائے تو اس سے پتھر کی طرح ایک چیز بن جاتی ہے۔ سورة ھود میں (سِجِّیْلٍ مَّنْضُوْدٍ ) فرمایا یعنی ان پر پتھروں کی جو بارش کی گئی جو لگاتار گر رہے تھے آیات قرآنیہ کو ملانے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم پر تینوں طرح کا عذاب آیا چیخ نے بھی پکڑا، ان کی زمین کا تختہ بھی الٹ دیا گیا، اور ان پر پتھر بھی برسا دئیے گئے ان بستیوں کو سورة برأۃ میں (الْمُؤْتَفِکَاتِ ) (یعنی الٹی ہوئی بستیاں فرمایا ہے) اور سورة نجم میں فرمایا ہے (وَالْمُؤْتَفِکَۃَ اَھْوی فَغَشّٰہَا مَا غَشّٰی) (اور الٹی ہوئی بستیوں کو پھینک مارا پھر ان بستیوں پر وہ چیز چھا گئی جو چھا گئی) یعنی اوپر سے پتھر برسنا شروع ہوئے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) مومنین کو لے کر راتوں رات بستیوں سے نکل چکے تھے جو عذاب آیا وہ کافروں پر آیا۔ ان کی بیوی کے بارے میں مفسرین لکھتے ہیں یا تو ان کے ساتھ نکلی ہی نہ تھی یا ساتھ تو نکلی تھی لیکن پیچھے مڑ کر دیکھ لیا اور ہلاک والوں میں شریک ہوگئی ایک پتھر آیا اور اسے وہیں قتل کردیا۔ یہاں بظاہر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب زمین الٹ دی گئی تو وہ اسی سے مرگئے ہونگے پھر پتھر کیوں برسائے گئے ؟ اس کے بارے میں بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ جو لوگ بستیوں سے باہر تھے ان پر پتھروں کی بارش برسا دی گئی۔ یہ بستیاں نہر اردن کے قریب تھیں ان کو الٹ دیا گیا اور ان کی جگہ اللہ تعالیٰ نے بحرمیت پیدا فرمایا جو آج بھی موجود ہے پانی بد بو دار ہے اس سے انسانوں کو یا کھیتوں کو نفع نہیں ہوتا اور یہ پانی انہیں بستیوں کی حدود میں ہے کسی دوسری جگہ سے نہیں آتا۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم کی ہلاکت سے عبرت حاصل کریں جن کی الٹی ہوئی بستیوں پر گزرتے ہیں حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم کی بربادی کا تذکرہ فرما کر ارشاد فرمایا کہ (اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّلْمُتَوَسِّمِیْنَ وَ اِنَّھَا لَبِسَبِیْلٍ مُّقِیْمٍ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّلْمُؤْمِنِیْنَ ) (بلاشبہ اس میں بصیرت والوں کے لیے نشانیاں ہیں، بلاشبہ یہ بستیاں شاہراہ عام پر پڑی ہیں، بیشک اس میں اہل ایمان کے لیے نشانی ہے۔ ) ان آیات میں اول تو یہ فرمایا کہ یہ جو حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم ہلاک ہوئی اس میں بصیرت والوں کے لیے نشانیاں ہیں کہ کفر اور فعل بد کا برا نتیجہ ہے اور ایمان اور طاعت باعث نجات ہے، پھر یہ فرمایا کہ یہ بستیاں ایک عام شاہراہ پر پڑتی ہیں، اہل عرب جب شام کو جاتے ہیں تو ان الٹی ہوئی بستیوں کے پاس سے گزرتے ہیں خود اپنی آنکھوں سے دیکھ کر بھی عبرت حاصل نہ کرنا بہت بڑی حماقت اور شقاوت ہے، اس کے بعد مزید توجہ دلائی اور عبرت کی طرف متوجہ فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ ان بستیوں میں اہل ایمان کے لیے بڑی نشانی ہے، جس نے آنکھوں پر پٹی باندھ لی وہ عبرت کی باتوں سے متاثر نہیں ہوتا اہل ایمان ہی نصیحت قبول کرتے ہیں، اور مانتے ہیں اور عبرت حاصل کرتے ہیں، سورة صافات میں حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم کی ہلاکت کا تذکرہ کرنے کے بعد فرمایا ہے (وَاِِنَّکُمْ لَتَمُرُّوْنَ عَلَیْہِمْ مُصْبِحِیْنَ وَبِالَّیْلِ اَفَلاَ تَعْقِلُوْنَ ) (اور تم ان پر صبح کے وقت اور رات کے وقت گزرا کرتے ہو کیا تم سمجھ نہیں رکھتے) اہل عرب تجارت کے لیے شام جایا کرتے تھے راستے میں یہ بستیاں بھی پڑتی تھی جن کا تختہ الٹ دیا گیا تھا کبھی صبح کے وقت اور کبھی رات کے وقت وہاں سے گزر ہوتا تھا ان لوگوں کو یاد دلایا کہ دیکھو کافروں اور بدکاروں کا کیا انجام ہوا تم وہاں سے گزرتے ہو اور الٹی ہوئی بستیاں دیکھتے ہو پھر کیوں عبرت حاصل نہیں کرتے کیا بالکل ہی سمجھ سے ہاتھ دھو بیٹھے ہو، قرآن مجید بیان سامنے ہے تاریخوں میں بھی واقعہ موجود ہے لیکن عبرت کا نام نہیں، کفر کی وجہ سے اور مردوں سے قضاء شہوت کرنے کی وجہ سے یہ عذب آیا تھا، اب یورپ کی اقوام کو دیکھ لو جو مہذب سمجھی جاتی ہیں ہلاکت کے دھارے پر ہیں کافر تو ہیں ہی زناکاری ان میں عام تھی ہی اب مردوں سے قضاء حاجت کرنے کا رواج بھی عام ہوگیا ہے اور حکومتوں نے قانونی طور پر ان کو جائز قرار دے دیا ہے۔ (فَا نْتَظِرُوْآ اِنَّا مُنْتَظِرُوْنَ )

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

22:۔ ” قَالَ فَمَا خَطْبُکُمْ “ تا ” اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَةً لِّلْمُؤْمِنِیْنَ “ رکوع 5) ۔ یہ تخویف دنیوی کا پہلا نمونہ ہے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کا قصہ اپنی واقعی ترتیب کے ساتھ سورة ہود میں مذکور ہے یہاں قصہ کی مختلف کڑیوں میں تقدیم و تاخیر ہے ” فَلَمَّا جَاءَ اٰلَ لُوْطِ نِ الْمُرْسَلُوْنَ “ یہ قصہ کا ابتدائی حصہ ہے۔ ” قَالُوْا بَلْ جِئْنٰکَ الخ “ سے پہلے حذف ہے ای ماجئنٰک لضرک۔ یعنی ہم تیرے پاس تمہیں کسی قسم کا نقصان پہنچانے نہیں آئے بلکہ ہم تیری سرکش قوم کے لیے وہ عذاب لے کر آئے ہیں جس سے تم ان کو ڈراتے رہے ہو اور جس کی آمد میں وہ شک کرتے رہے ہیں۔” فَاَسْرِ بِاَھْلِکَ “ لہذا تم اپنے اہل و عیال اور مؤمنین کو لے کر راتوں رات شہر سے باہر چلے جاؤ کیونکہ صبح ہوتے ہی اس سرکش قوم کو ہلاک کردیا جائے گا۔ فرشتوں کا یہ جواب اور یہ کلام ترتیب قصہ میں متاخر ہے کیونکہ فرشتوں نے اس بات کا اظہار قوم کی شرارت کے بعد کیا تھا ” وَ قَضَیْنَا اِلَیْهِ الخ “ یہ ادخال الٰہی ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

57 ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا یا خدا کے بھیجے ہوئے فرشتو ! اب تم کو کیا مہم در پیش ہے اور بشارت کے بعد اب کیا کرو گے۔