Surat ul Hijir

Surah: 15

Verse: 65

سورة الحجر

فَاَسۡرِ بِاَہۡلِکَ بِقِطۡعٍ مِّنَ الَّیۡلِ وَ اتَّبِعۡ اَدۡبَارَہُمۡ وَ لَا یَلۡتَفِتۡ مِنۡکُمۡ اَحَدٌ وَّ امۡضُوۡا حَیۡثُ تُؤۡمَرُوۡنَ ﴿۶۵﴾

So set out with your family during a portion of the night and follow behind them and let not anyone among you look back and continue on to where you are commanded."

اب تو اپنے خاندان سمیت اس رات کے کسی حصہ میں چل دے اور آپ ان کے پیچھے رہنا ، اور ( خبردار ) تم میں سے کوئی ( پیچھے ) مڑ کر بھی نہ دیکھے اور جہاں کا تمہیں حکم کیا جا رہا ہے وہاں چلے جانا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Lut is ordered to leave with His Family during the Night Allah tells: فَأَسْرِ بِأَهْلِكَ بِقِطْعٍ مِّنَ اللَّيْلِ وَاتَّبِعْ أَدْبَارَهُمْ ... Then travel for a portion of the night with your family, and you go behind them in the rear, Allah tells us that His angels ordered Lut to set out after part of the night had passed. They told him to walk behind them, to protect them....  Similarly, the Messenger of Allah would walk in the rear of the army on military campaigns, in order to help the weak and carry those who had no means of transport. ... وَلاَ يَلْتَفِتْ مِنكُمْ أَحَدٌ ... and let no one amongst you look back, meaning - when you hear the people screaming from their torment, do not turn around to look at them; leave them to face whatever punishment and vengeance is coming to them. ... وَامْضُواْ حَيْثُ تُوْمَرُونَ but go on to where you are ordered. it is as if they had a guide with them to show them the way.   Show more

لوط علیہ السلام کو ہدایا ت حضرت لوط علیہ السلام سے فرشتے کہہ رہے ہیں کہ رات کا کچھ حصہ گزر تے ہی آپ اپنے والوں کو کر یہاں سے چلے جائیں ۔ خود آپ ان سب کے پیچھے رہیں تاکہ ان کی اچھی طرح نگرانی کر چکیں ۔ یہی سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تھی کہ آپ لشکر کے آخر میں چلاکرتے تھے تاکہ کمزور اور ... گرے پڑے لوگوں کا خیال رہے ۔ پھر فرما دیا کہ جب قوم پر عذاب آئے اور ان کا شور و غل سنائی دے تو ہرگز ان کی طرف نظریں نہ اٹھانا ، انہیں اسی عذاب و سزا میں چھوڑ کر تمہیں جانے کا حکم ہے ، چلے جاؤ گویا ان کے ساتھ کوئی تھا جو انہیں راستہ دکھاتا جائے ۔ ہم نے پہلے ہی سے لوط ( علیہ السلام ) سے فرما دیا تھا کہ صبح کے وقت یہ لوگ مٹا دئیے جائیں گے ۔ جیسے دوسری آیت میں ہے کہ ان کے عذاب کا وقت صبح ہے جو بہت ہی قریب ہے ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٣] آپ کی تبلیغ کا مرکز سدوم کا شہر تھا۔ اور یہ عذاب اسی شہر اور اس کے مضافات پر آیا تھا۔ ان کا علاقہ عراق اور فلسطین کے درمیان واقع تھا جہاں آج کل شرق اردن ہے۔ یہاں سے آپ کو شام کی طرف ہجرت کرجانے کا حکم دیا گیا تھا۔ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ سورة ہود میں واقعہ کی ترتیب یہ ہے کہ...  جب فرشتے سیدنا لوط (علیہ السلام) کے ہاں آئے تو قوم کے بدمعاش اور غنڈے فوراً سیدنا لوط کے گھر پہنچ گئے۔ اور آپ کو اپنے ان مہمانوں کو ان غنڈوں سے بچانے کی فکر لاحق ہوگئی۔ تاآنکہ آپ نے یہ فرمایا کہ کاش ! مجھ میں ان کی مدافعت کی طاقت ہوتی یا میں کسی مضبوط سہارے کی طرف پناہ لے سکتا && تو اس وقت فرشتوں نے اپنا تعارف کرایا اور تسلی دی کہ آپ کو گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ اور یہاں ترتیب یہ ہے کہ عذاب کا ذکر پہلے آیا ہے اور باقی تفصیلات بعد میں۔ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں مضمون کے تسلسل اور مناسبت کی بنا پر عذاب کا ذکر پہلے کردیا گیا ہے ورنہ واقعہ کی اصل ترتیب وہی ہے جو پہلے سورة ہود میں مذکور ہوئی۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاتَّبِعْ اَدْبَارَهُمْ : لوط (علیہ السلام) کو ان کے پیچھے چلنے کا حکم اس لیے دیا کہ وہ ان کی اچھی طرح حفاظت کرسکیں، کوئی پیچھے نہ رہ جائے، سب مسلسل چلتے رہیں اور ٹھہر کر آنے والوں کا انتظار نہ کرنا پڑے۔ ہماری نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا طریقہ بھی یہی تھا، چناچہ جابر بن عبداللہ (رض) فرمات... ے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سفر میں پیچھے رہتے، کمزوروں کو آگے چلاتے اور سواری پر اپنے پیچھے بٹھاتے اور ان کے لیے دعا فرماتے۔ [ أبوداوٗد، الجہاد، باب لزوم الساقۃ : ٢٦٣٩ ] وَلَا يَلْتَفِتْ مِنْكُمْ : کیونکہ مڑ کر دیکھنے میں وہ تیزی باقی نہیں رہے گی جو اللہ کے عذاب کی جگہ سے بھاگنے میں ہونی چاہیے اور وطن چھوڑتے وقت حسرت سے اسے بار بار دیکھنے کے بجائے بس آگے بڑھتے جاؤ، تاکہ نہ دل کسی اور طرف متوجہ ہو اور نہ اللہ کے ذکر و شکر اور تمہاری رفتار میں کوئی کمی واقع ہو، نہ قوم کی بدترین بربادی دیکھتے ہوئے دل میں کوئی رقت پیدا ہو۔ وَّامْضُوْا حَيْثُ تُؤْمَرُوْنَ : وہ جگہ اللہ تعالیٰ نے ذکر نہیں فرمائی، نہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے۔ تعجب ہوتا ہے کہ بعض مفسرین اس کے بغیر ہی ” قِیْلَ “ (کہا جاتا ہے) کہہ کر کبھی شام، کبھی اردن اور کبھی مصر کا نام لیتے ہیں، یہ اندھیرے میں تیر پھینکنے والی بات ہے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاَسْرِ بِاَهْلِكَ بِقِطْعٍ مِّنَ الَّيْلِ وَاتَّبِعْ اَدْبَارَهُمْ وَلَا يَلْتَفِتْ مِنْكُمْ اَحَدٌ وَّامْضُوْا حَيْثُ تُؤْمَرُوْنَ 65؀ سری السُّرَى: سير اللّيل، يقال : سَرَى وأَسْرَى. قال تعالی: فَأَسْرِ بِأَهْلِكَ [هود/ 81] ، وقال تعالی: سُبْحانَ الَّذِي أَسْرى بِعَبْدِهِ لَيْلًا [ الإسراء/ 1]...  ( س ر ی و ) السریٰ کے معنی رات کو سفر کرنے کے ہیں اور اس معنی میں سریٰ ( ض ) واسریٰ ( افعال ) دونوں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَأَسْرِ بِأَهْلِكَ [هود/ 81] تو کچھ رات رہے سے اپنے گھر والوں کو لے کر چل دو ۔ سُبْحانَ الَّذِي أَسْرى بِعَبْدِهِ لَيْلًا [ الإسراء/ 1] ( وہ ذات ) پاک ) ہے جو ایک رات اپنے بندے کو لے گیا ۔ قطع القَطْعُ : فصل الشیء مدرکا بالبصر کالأجسام، أو مدرکا بالبصیرة كالأشياء المعقولة، فمن ذلک قَطْعُ الأعضاء نحو قوله : لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلافٍ [ الأعراف/ 124] ، ( ق ط ع ) القطع کے معنی کسی چیز کو علیحدہ کردینے کے ہیں خواہ اس کا تعلق حاسہ بصر سے ہو جیسے اجسام اسی سے اعضاء کا قطع کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلافٍ [ الأعراف/ 124] میں پہلے تو ) تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسرے طرف کے پاؤں کٹوا دونگا ليل يقال : لَيْلٌ ولَيْلَةٌ ، وجمعها : لَيَالٍ ولَيَائِلُ ولَيْلَاتٌ ، وقیل : لَيْلٌ أَلْيَلُ ، ولیلة لَيْلَاءُ. وقیل : أصل ليلة لَيْلَاةٌ بدلیل تصغیرها علی لُيَيْلَةٍ ، وجمعها علی ليال . قال اللہ تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم/ 33] ( ل ی ل ) لیل ولیلۃ کے معنی رات کے ہیں اس کی جمع لیال ولیا ئل ولیلات آتی ہے اور نہایت تاریک رات کو لیل الیل ولیلہ لیلاء کہا جاتا ہے بعض نے کہا ہے کہ لیلۃ اصل میں لیلاۃ ہے کیونکہ اس کی تصغیر لیلۃ اور جمع لیال آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر/ 1] ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل ( کرنا شروع ) وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم/ 33] اور رات اور دن کو تمہاری خاطر کام میں لگا دیا ۔ تبع يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلك قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] ، ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے دبر دُبُرُ الشّيء : خلاف القُبُل «3» ، وكنّي بهما عن، العضوین المخصوصین، ويقال : دُبْرٌ ودُبُرٌ ، وجمعه أَدْبَار، قال تعالی: وَمَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍ دُبُرَهُ [ الأنفال/ 16] ، وقال : يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبارَهُمْ [ الأنفال/ 50] ، أي : قدّامهم وخلفهم، وقال : فَلا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبارَ [ الأنفال/ 15] ، وذلک نهي عن الانهزام، وقوله : وَأَدْبارَ السُّجُودِ [ ق/ 40] : أواخر الصلوات، وقرئ : وَإِدْبارَ النُّجُومِ «1» ( وأَدْبَار النّجوم) «2» ، فإدبار مصدر مجعول ظرفا، ( د ب ر ) دبر ۔ بشت ، مقعد یہ قبل کی ضد ہے اور یہ دونوں لفظ بطور کنایہ جائے مخصوص کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور اس میں دبر ا اور دبر دولغات ہیں اس کی جمع ادبار آتی ہے قرآن میں ہے :َ وَمَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍدُبُرَهُ [ الأنفال/ 16] اور جو شخص جنگ کے روز ان سے پیٹھ پھیرے گا ۔ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبارَهُمْ [ الأنفال/ 50] ان کے مونہوں اور پیٹھوں پر ( کوڑے و ہیتھوڑے وغیرہ ) مارتے ہیں ۔ فَلا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبارَ [ الأنفال/ 15] تو ان سے پیٹھ نہ پھیرنا ۔ یعنی ہزیمت خوردہ ہوکر مت بھاگو ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ وَأَدْبارَ السُّجُودِ [ ق/ 40] اور نماز کے بعد ( بھی ) میں ادبار کے معنی نمازوں کے آخری حصے ( یا نمازوں کے بعد ) کے ہیں . وَإِدْبارَ النُّجُومِ«1»میں ایک قرات ادبارالنجوم بھی ہے ۔ اس صورت میں یہ مصدر بمعنی ظرف ہوگا یعنی ستاروں کے ڈوبنے کا وقت جیسا کہ مقدم الجام اور خفوق النجم میں ہے ۔ اور ادبار ( بفتح الھمزہ ) ہونے کی صورت میں جمع ہوگی ۔ لفت يقال : لَفَتَهُ عن کذا : صرفه عنه . قال تعالی: قالُوا أَجِئْتَنا لِتَلْفِتَنا[يونس/ 87] أي : تصرفنا، ( ل ف ت ) لفتہ عن کذا ۔ کسی چیز سے پھیر دینا ۔ قرآن میں ہے : قالُوا أَجِئْتَنا لِتَلْفِتَنا[يونس/ 87] کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ( جس راہ پر ہم اپنے باپ دادا کو پاتے رہے ہیں اس سے ہم کو پھیردو ۔ مضی المُضِيُّ والمَضَاءُ : النّفاذ، ويقال ذلک في الأعيان والأحداث . قال تعالی: وَمَضى مَثَلُ الْأَوَّلِينَ [ الزخرف/ 8] ، فَقَدْ مَضَتْ سُنَّتُ الْأَوَّلِينَ [ الأنفال/ 38] . ( م ض ی ) المضی والمضاء کسی چیز کا گذر جانا اور چلے جانا یہ اعیان واحد اث دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَمَضى مَثَلُ الْأَوَّلِينَ [ الزخرف/ 8] اور اگلے لوگوں کی مثال گذر گئی ۔ فَقَدْ مَضَتْ سُنَّتُ الْأَوَّلِينَ [ الأنفال/ 38] رو اگلے لوگوں کی سنت گذر چکی ہے ( وہی ان کے حق میں برقی جائے گی ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٥۔ ٦٦) سو آپ رات کے کسی حصہ میں یعنی سحر کے وقت اپنے گھر والوں کو لے کر یہاں سے چلے جائیے اور آپ سب کے پیچھے ہو لیجیے اور تم میں سے کوئی پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھے اور صعر (شام) کی طرف سب چلے جانا اور ہم نے لوط (علیہ السلام) کو صعر جانے کا حکم دیا یا اور ہم نے لوط (علیہ السلام) کو اس بات سے مطلع کیا...  کہ صبح ہوتے ہی آپ کی قوم کی جڑ کٹ جائے گی (اور فرشتوں کی آمد کی خبر سن کر جو کہ شکل سے آدمی تھے) شہر کے لوگ حضرت لوط (علیہ السلام) کے مکان پر اپنے ناپاک مقصد کے تحت خوب خوشیاں کرتے ہوئے آئے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٥ (فَاَسْرِ بِاَہْلِکَ بِقِطْعٍ مِّنَ الَّیْلِ وَاتَّبِعْ اَدْبَارَہُمْ وَلاَ یَلْتَفِتْ مِنْکُمْ اَحَدٌ) ” یعنی آپ لوگ صبح ہونے سے پہلے پہلے یہاں سے نکل جائیں۔ پیچھے رہ جانے والوں کے لیے اب دوستی اور ہمدردی جیسے جذبات کا اظہار کسی بھی شکل میں نہیں ہونا چاہیے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

37. That is, you should walk behind your people lest anyone of them should stay behind. 38. It did not mean: “look not behind thee, lest thou be consumed,” as stated in the Bible. But it merely meant to warn them: None of you should turn round to see what was happening behind them lest you should stop to see when you heard the cries of the smitten people. For it is neither the time nor the place ... viewing the destruction nor shedding tears of regret. If you stop even for a minute in the territory of the smitten people you also might get hurt from the rain of stones.  Show more

سورة الْحِجْر حاشیہ نمبر :37 یعنی اس غرض سے اپنے گھر والوں کے پیچھے چلو کہ ان میں سے کوئی ٹھیرنے نہ پائے ۔ سورة الْحِجْر حاشیہ نمبر :38 اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ پلٹ کر دیکھتے ہی تم پتھر کے ہو جاؤ گے ، جیسا کہ بائیبل میں بیان ہوا ہے ۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ پیچھے کی آوازیں اور شور و غل سن ک... ر تماشا دیکھنے کے لیے نہ ٹھیر جانا ۔ یہ نہ تماشا دیکھنے کا وقت ہے ، اور نہ مجرم قوم کی ہلاکت پر آنسو بہانے کا ۔ ایک لمحہ بھی اگر تم نے معذب قوم کے علاقے میں دم لے لیا تو بعید نہیں کہ تمہیں بھی اس ہلاکت کی بارش سے کچھ گزند پہنچ جائے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

22: حضرت لوط (علیہ السلام) کو پیچھے چلنے کا حکم اس لیے دیا گیا تاکہ آپ اپنے تمام ساتھیوں کی نگرانی کرسکیں، خاص طور پر ان سب کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ پیچھے مڑ کر نہ دیکھیں۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کے پیچھے ہونے کی وجہ سے کسی کو یہ جرات نہیں ہوسکتی تھی کہ وہ اس حکم کی خلاف ورزی کرے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٦٥۔ ٦٦۔ اللہ پاک یہ کلام فرشتوں کی زبان سے فرماتا ہے کہ انہوں نے لوط (علیہ السلام) سے یہ بات کہی کہ تم اپنے بال بچوں کو لے کر راتوں رات یہاں سے نکل جاؤ گھر والوں کو آگے رکھو اور آپ ان کے پیچھے ہو لو تاکہ تمہیں اطمینان رہے کہ کوئی عزیز پیچھے تو نہیں رہ گیا اور فرشتوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ دیکھنا کبھی ... تم میں سے کوئی پیچھے پھر کر نہ دیکھے کہ قوم پر کیا عذاب ہو رہا ہے نہیں تو رستہ طے کرنے میں دیر ہوجائے گی اور طبیعت قوم کے عذاب کی طرف مشغول رہے گی پھر فرمایا کہ جہاں تم کو حکم ہوا ہے وہاں چلے جاؤ دیر نہ کرو جس کا مطلب یہ ہے کہ ملک شام کو چلے جاؤ پھر فرمایا کہ اللہ نے یہ بات ٹھہرا دی ہے کہ صبح ہوتے ہی اس قوم کی جڑ بنیاد بالکل نیست و نابود ہوجائے گی لوط (علیہ السلام) معہ اپنے دونوں بیٹوں کے گھر سے نکلے ان کی بیوی بھی چلی تھیں مگر رستے میں پیچھے پھر کر دیکھا وہ اپنی قوم کے حال میں شریک ہوئیں ان کو بھی عذاب نے پکڑ لیا اور لوط (علیہ السلام) ملک شام کی طرف چل نکلے خدا نے زمین کو لپیٹ دیا آپ ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس پہنچ گئے۔ ابو موسیٰ اشعری (رض) کی جو حدیث اوپر گزر چکی ہے وہی حدیث ان آیتوں کی بھی تفسیر ہے مطلب اس تفسیر کا وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(15:65) فاسر۔ امر واحد مذکر حاضر۔ اسرب تو رات کو لے کر چل۔ سری یسری (ضرب) اور اسری یسری (افعال) سریۃ وسریۃ وسرایۃ رات کو سفر کرنا۔ اور سری ب واسری ب۔ رات کو لے کر چلنا۔ فاسر باھلک سو رات کو اپنے گھروالوں کو لے چل دیں۔ بقطع من اللیل۔ رات کے کسی حصہ میں۔ رات کا آخری حصہ۔ رات کا سب سے تاریک حصہ ۔ اتب... ع۔ تو پیروی کر۔ تو پیچھے پیچھے چل۔ تو اتباع کر۔ امر واحد مذکر حاضر۔ ادبارہم۔ مضاف مضاف الیہ۔ ان کے ادبار۔ ادبار ربر کی جمع ہے۔ ادبارہم ان کی پیٹھیں۔ ان کے پیچھے۔ لا یلتفت۔ فعل نہی واحد مذکر غائب۔ التفات (افتعال) سے لفت مادہ۔ پھیرنا۔ موڑنا۔ لا یلتفت احد کوئی پیچھے مڑ کر نہ دیکھے۔ ثلاثی مجرد سے باب ضرب سے آتا ہے جیسے اجئتنا لتلفتنا (10:78) کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ (جس راہ پر ہم اپنے باپ دادا کو پاتے رہے ہیں اس سے) ہم کو پھیر دو ۔ امضوا۔ امر۔ جمع مذکر حاضر۔ مضی یمضی (ضرب) مضی۔ مصدر ۔ تم چلے جائو۔ حیث۔ جہاں۔ جس جگہ۔ تؤ مرون۔ مضارع مجہول ، جمع مذکر حاضر۔ (جہاں کا) تمہیں حکم دیا گیا ہے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 یعنی ملک شام کی طرف یا کسی امن کی جگہ جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے مقرر فرمائی ہوگئی۔ بعض نے ” اردن “ بھی لکھا ہے (روح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

9۔ تاکہ کوئی رہ نہ جاوے لوٹ نہ جاوے، اور آپ کی ہیبت سے کوئی التفات نہ کرے۔ 10۔ یعنی ملک شام۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

65 ۔ پس اے لوط (علیہ السلام) اب تو اپنے متعلقین کو رات کے کسی حصہ میں لے کر نکل جا اور تو خود ان سب کے پیچھے پیچھے چلیو اور تم میں سے کوئی پیچھے مڑ کر اور پلٹ کر نہ دیکھے اور جہاں جانے کا تم کو حکم دیا گیا ہے وہاں چلے جانا یعنی اپنے گھر والوں کو لے ک رات ہی رات میں کسی وقت نکل جائو اور خود پیچھے رہو...  تا کہ سب کی دیکھ بھال کرتے رہو کوئی پیچھے پلٹ کر نہ دیکھے اور جہاں کا حکم ہوا ہے وہاں سب ایمان والوں کو لے کر چلے جائو وہ جگہ شام ہو یا ملک اردن ہو یا کوئی اور جگہ ہو جو جبرئیل (علیہ السلام) بتائیں۔  Show more