Surat ul Hijir

Surah: 15

Verse: 7

سورة الحجر

لَوۡ مَا تَاۡتِیۡنَا بِالۡمَلٰٓئِکَۃِ اِنۡ کُنۡتَ مِنَ الصّٰدِقِیۡنَ ﴿۷﴾

Why do you not bring us the angels, if you should be among the truthful?"

اگر تو سچا ہی ہے تو ہمارے پاس فرشتوں کو کیوں نہیں لاتا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Why do you not bring angels to us if you are of the truthful! i.e., to bear witness to the accuracy of what you have brought to us is true, if you are really telling the truth! This is similar to what Pharaoh said: فَلَوْلاَ أُلْقِىَ عَلَيْهِ أَسْوِرَةٌ مِّن ذَهَبٍ أَوْ جَأءَ مَعَهُ الْمَلَـيِكَةُ مُقْتَرِنِينَ Why then are not golden bracelets bestowed on him, or angels sent along with him. (43:53) And Allah said: وَقَالَ الَّذِينَ لاَ يَرْجُونَ لِقَأءَنَا لَوْلاَ أُنزِلَ عَلَيْنَا الْمَلَـيِكَةُ أَوْ نَرَى رَبَّنَا لَقَدِ اسْتَكْبَرُواْ فِى أَنفُسِهِمْ وَعَتَوْا عُتُوّاً كَبِيراً يَوْمَ يَرَوْنَ الْمَلَـيِكَةَ لاَ بُشْرَى يَوْمَيِذٍ لِّلْمُجْرِمِينَ وَيَقُولُونَ حِجْراً مَّحْجُوراً And those who do not expect a meeting with Us (i.e., those who deny the Day of Resurrection and the life of the Hereafter), say: "Why are not the angels sent down to us, or why do we not see our Lord!" Indeed they think too highly of themselves, and are scornful with great pride. On the Day that they do see the angels - there will be no good news given on that day to the guilty. And they (angels) will say: "All kinds of glad tidings are forbidden for you." (25:21-22) For this reason Allah said: مَا نُنَزِّلُ الْمَليِكَةَ إِلاَّ بِالحَقِّ وَمَا كَانُواْ إِذًا مُّنظَرِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

7۔ 1 یہ کافروں کے کفر وعناد کا بیان ہے کہ وہ نبی کو دیوانہ کہتے اور کہتے کہ اگر تو (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سچا ہے تو اپنے اللہ سے کہہ کہ وہ فرشتے ہمارے پاس بھیجے تاکہ وہ تیری رسالت کی تصدیق کریں یا ہمیں ہلاک کردیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

لَوْ مَا تَاْتِيْنَا بالْمَلٰۗىِٕكَةِ : کہ فرشتے سامنے آ کر گواہی دیں کہ یہ واقعی اللہ کا سچا پیغمبر ہے، اس کی پیروی اختیار کرو، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس مطالبے کا کئی جگہ ذکر کیا ہے، فرمایا : (وَقَالُوْا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَيْهِ مَلَكٌ) [ الأنعام : ٨ ] ” اور انھوں نے کہا اس پر کوئی فرشتہ کیوں نہ اتارا گیا ؟ “ اور دیکھیے سورة زخرف (٥٣) اور سورة فرقان ( ٢١، ٢٢) اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو عذاب سے ڈراتے تو انھوں نے ” لَوْ مَا تَاْتِيْنَا بالْمَلٰۗىِٕكَةِ “ کہہ کر عذاب کا مطالبہ کیا ہو۔ (کبیر)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لَوْ مَا تَاْتِيْنَا بِالْمَلٰۗىِٕكَةِ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِيْنَ ۝ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے ملك ( فرشته) وأما المَلَكُ فالنحویون جعلوه من لفظ الملائكة، وجعل المیم فيه زائدة . وقال بعض المحقّقين : هو من المِلك، قال : والمتولّي من الملائكة شيئا من السّياسات يقال له : ملک بالفتح، ومن البشر يقال له : ملک بالکسر، فكلّ مَلَكٍ ملائكة ولیس کلّ ملائكة ملکاقال : وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة/ 17] ، عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة/ 102] ( م ل ک ) الملک الملک علمائے نحو اس لفظ کو ملا ئکۃ سے ماخوذ مانتے ہیں اور اس کی میم کو زائد بناتے ہیں لیکن بعض محقیقن نے اسے ملک سے مشتق مانا ہے اور کہا ہے کہ جو فرشتہ کائنات کا انتظام کرتا ہے اسے فتحہ لام کے ساتھ ملک کہا جاتا ہے اور انسان کو ملک ہیں معلوم ہوا کہ ملک تو ملا ئکۃ میں ہے لیکن کل ملا ئکۃ ملک نہیں ہو بلکہ ملک کا لفظ فرشتوں پر بولا جاتا ہے کی طرف کہ آیات ۔ وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة/ 17] اور فرشتے اس کے کناروں پر اتر آئیں گے ۔ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة/ 102] اور ان باتوں کے بھی پیچھے لگ گئے جو دو فرشتوں پر اتری تھیں ۔ صدق الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ص دق) الصدق ۔ یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(لَوْ مَا تَاْتِيْنَا بالْمَلٰۗىِٕكَةِ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِيْنَ ) اب اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی ان باتوں کا جواب آ رہا ہے :

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٧۔ ٩۔ اس سے پہلے ذکر تھا کہ مشرکین مکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہتے تھے کہ تم پر قرآن وغیرہ کچھ نہیں اترا ہے سب جھوٹ ہے اور تم دیوانے ہوگئے ہو جو یہ دعویٰ رسالت کا کرتے ہو اور اپنے ساتھ ہم لوگوں کو بھی باپ دادا کے پرانے مذہب بت پرستی سے چھڑا کر ایک خدا کی عبادت کو کہتے ہو اگر سچ مچ تم سچے ہو اور خدا نے تمہیں رسول بنا کر لوگوں کی ہدایت کو بھیجا ہے تو خدا تو تمہاری ہر ایک بات کو فوراً مان لے گا جو کہو گے وہ سنے گا تم اس سے کہو کہ آسمان سے فرشتہ کو بھیج دے وہ یہاں آکر ہم لوگوں سے تمہارا سب جھوٹ سچ کہہ دے فرشتے کے کہنے سے ہمیں معلوم ہوجائے گا کہ ہاں تم خدا کے رسول ہو اور ہدایت کو بھیجے گئے ہو اور جس کتاب کو تم قرآن کہتے ہو اس کی بھی تحقیق ہوجائے گی کہ یہ خدا کا کلام ہے جو تم پر اترا کرتا ہے اللہ تعالیٰ نے ان آیتوں میں مشرکوں کی ان باتوں کا جواب اس طرح دیا کہ فرشتے اس کام کے لئے نہیں ہیں فرشتے کام ٹھہرا کر آسمان سے بھیجے جاتے ہیں مجاہد نے بالحق کی یہ تفسیر کی ہے کہ خدا فرشتوں کو اس وقت بھیجتا ہے جب اپنے رسول پر وحی نازل کرتا ہے اور اس وقت فرشتے کو بھیجتا ہے جب کسی قوم پر عذاب بھیجنا چاہتا ہے یا انسان کی موت لے کر فرشتے کو بھیجتا ہے پھر جب ان پر عذاب آئے گا تو ایک ذرا بھی مہلت نہیں ملے گی پھر فرمایا کہ اپنا کلام یہ قرآن مجید اپنے رسول پر ہم اتارتے ہیں ہم ہی اس کی حفاظت کرتے ہیں یہاں سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اللہ پاک نے قرآن مجید کی حفاظت اپنے ہاتھ میں لے لی ہے کبھی اس میں ردو بدل نہ ہوگا جس طرح پہلی کتابوں توریت و انجیل میں ردو بدل ہوگیا۔ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے ابو موسیٰ اشعری (رض) کی حدیث گزر چکی ہے ١ ؎۔ کہ اللہ تعالیٰ جب تک چاہتا ہے نافرمان لوگوں کو مہلت دیتا ہے اور پھر جب پکڑ لیتا ہے تو ان کو بالکل غارت کردیتا ہے یہ حدیث { وما کانوا اذا منظرین } کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے تک مہلت کا زمانہ تھا اس لئے اس آیت میں اتنا ہی فرمادیا تھا کہ اللہ کے فرشتے آسمان سے اتریں گے تو ان سرکشوں پر ایسا عذاب آجاوے گا جس سے ان کو بچنا دشوار ہے اللہ سچا ہے اللہ کا وعدہ سچا ہے بدر کی لڑائی میں مہلت کا وقت ختم ہوگیا تھا اس وا سطے فرشتے آسمان سے اترے اور بڑے بڑے سرکشوں کو ہلاک کر ڈالا چناچہ صحیح مسلم میں ٢ ؎ حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ بدر کی لڑائی میں بعضے مشرک خود بخود مر کر زمین پر گر پڑے اور ایسی آواز آئی جیسے کسی نے ان کو کوڑا مار کر مار ڈالا جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کا ذکر آیا تو آپ نے فرمایا تیسرے آسمان کے فرشتے جو مدد کے لئے آئے تھے انہوں نے ان مشرکوں کو مار ڈالا بیہقی وغیرہ میں جو روایتیں ہیں ٣ ؎۔ ان کا حاصل یہ ہے کہ بدر کی لڑائی میں فرشتوں نے جن مشرکوں کو ہلاک کیا ان مشرکوں کی لاشوں پر آگ سے جل جانے کے نشان تھے کیونکہ فرشتوں نے ان کو دوزخ کی آگ کے کوڑوں سے مارا تھا بدر کی لڑائی کا باقی قصہ ایک جگہ گزر چکا ہے اس تفسیر کے مقدمہ میں صحیح بخاری مسلم ترمذی وغیرہ کے حوالہ سے حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کی حدیث گزر چکی ہے کہ قرآن شریف کے نزول کے زمانہ میں آسمان تک جناب کا جانا بند ہوگیا تھا تاکہ جنات چوری سے قرآن شریف کے لفظ سن کر کاہنوں سے نہ بیان کرسکیں اور قرآن شریف کے لفظوں کی حفاظت جو اللہ تعالیٰ کو منظور ہے اس میں کچھ خلل نہ ڈال سکیں ٤ ؎۔ یہ باتیں بھی صحیح حوالوں سے گزر چکی ہیں کہ بیس برس کے عرصہ میں قرآن شریف نازل ہوا ایک رمضان سے دوسرے رمضان تک جس قدر حصہ قرآن شریف کا نازل ہونا تھا حضرت جبرئیل (علیہ السلام) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کا دور کیا کرتے تھے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وفات کے سال میں حضرت جبرئیل (علیہ السلام) نے دو دفعہ دور کیا۔ ٥ ؎ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں متفرق طور پر جو قرآن لکھا ہوا تھا آپ کی وفات کے بعد صحابہ نے بڑی احتیاط سے اس کو یکجا کیا ٦ ؎۔ اس کے بعد امت میں ہر سال سینکڑوں ہزاروں حافظ قرآن ہوتے چلے آتے ہیں کوئی کاتب زیر زبر کی غلطی بھی قرآن شریف کے لکھنے میں کردیتا ہے تو حافظ لوگوں کی پڑہائی سے وہ غلطی صحیح ہوجاتی ہے یہ سب قصے { وانا لہ لحافظون } کی گویا تفسیر ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس وعدہ کے موافق قرآن شریف کے نازل ہونے کے زمانہ سے قیامت تک قرآن شریف کی حفاظت کا ایسا انتظام کردیا ہے جس سے قرآن شریف میں کسی طرح کا ردو بدل ممکن نہیں اور یہ انتظام اس بات کو پورے طور پر جتلاتا ہے کہ قرآن شریف اللہ کا کلام ہے اور جن پر یہ اللہ کا کلام اترا وہ اللہ کے سچے رسول ہیں۔ ١ ؎ جلد ہذا ص ٢٠٥۔ ٢١٥۔ ٢٢٤۔ ٢٣٥۔ ٢٧٦۔ ٢ ؎ ص ٩٣ ج ٢ باب الاماد بالمئکۃ نے غزوۃ بدر الخ۔ ٣ ؎ تفسیر فتح البیان ص ١٥٧ ج ٢۔ ٤ ؎ تفسری ابن کثیر ص ١٦٣ ج ٤ تفسیر سورت الاحقاف۔ ٥ ؎ صحیح بخاری ص ٧٤٨ ج ٢ باب کان جبرئیل یعرض القرآن علی النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ ٦ ؎ مشکوٰۃ ص ١٩٣ کتاب فضائل القرآن۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(15:7) لو ما۔ شرطیہ ہے حرف تحضیض (ابھارنا) ہے۔ حرف تو بیخ ہے۔ کیوں نہیں۔ لو ما تاتینا بالملئکۃ ۔ کیوں نہیں لے آتا تو ہم پر ملائکہ کو۔ (شہادت تصدیق کے لئے یا ان کے انکار پر عذاب کے لئے)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 ۔ کہ وہ سامنے آکر گواہی دیں کہ یہ واقعی اللہ کا سچا پیغمبر ہے اس کی پیروی اختیار کرو جیسا کہ سورة انعام آیت ٌ میں ہے : وقالو لو لا انزل علیہ ملک اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو عذاب سے ڈراتے تو انہوں نے لوما تاتینا بالملائکۃ کہہ کر عذاب کا مطالبہ کیا ہو۔ (کبیر) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

7 ۔ اگر تو اپنے دعوے میں سچا ہے کہ واقعی تو پیغمبر ہے اور تجھ پر خدا کی طرف سے قرآن نازل ہوتا ہے تو تو ہمارے پاس فرشتے کیوں نہیں لے آتا۔ حضرت حق تعالیٰ نے اس بات کا جواب فرمایا ۔