Surat ul Hijir

Surah: 15

Verse: 72

سورة الحجر

لَعَمۡرُکَ اِنَّہُمۡ لَفِیۡ سَکۡرَتِہِمۡ یَعۡمَہُوۡنَ ﴿۷۲﴾

By your life, [O Muhammad], indeed they were, in their intoxication, wandering blindly.

تیری عمر کی قسم! وہ تو اپنی بد مستی میں سرگرداں تھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Verily, by your life, in their wild intoxication, they were wandering blindly. Allah swore by the life of His Prophet, which is an immense honor reflecting his high rank and noble status. Amr bin Malik An-Nakari reported from Abu Al-Jawza' that Ibn Abbas said: "Allah has never created or made or formed any soul that is dearer to him than Muhammad. I never heard that Allah swore by the life of anyone else. Allah says, لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ يَعْمَهُونَ Verily, by your life, in their wild intoxication, they were wandering blindly. meaning, by your life and the length of your stay in this world, This was reported by Ibn Jarir. Qatadah said: لَفِي سَكْرَتِهِمْ (in their wild intoxication), "It means - in their misguided state; يَعْمَهُونَ (they were wandering blindly), means - they were playing." Ali bin Abi Talhah reported that Ibn Abbas said: لَعَمْرُكَ (Verily, by your life), means by your life, and إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ يَعْمَهُونَ (in their wild intoxication, they were wandering blindly), means that they were confused."

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

72۔ 1 اللہ نبی سے خطاب فرما کر، ان کی زندگی کی قسم کھا رہا ہے، جس سے آپ کا شرف و فضل واضح ہے۔ تاہم کسی اور کے لئے اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی قسم کھانا جائز نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ تو حاکم مطلق ہے، وہ جس کی چاہے قسم کھائے، اس سے کون پوچھنے والا ہے ؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس طرح شراب کے نشے میں دھت انسان کی عقل ماؤف ہوجاتی ہے، اسی طرح یہ اپنی بد مستی اور گمراہی میں اتنے سرگرداں تھے کہ حضرت لوط (علیہ السلام) کی اتنی معقول بات بھی ان کی سمجھ میں نہیں آ پائی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٧] غنڈوں کی بدمستی :۔ سیدنا ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں رسول اللہ کی جان سے زیادہ اکرم و افضل کوئی جان پیدا نہیں کی۔ مجھے یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی جان عزیز کے علاوہ کسی اور جان کی قسم کھائی ہو۔ یہی قسم کھا کر اللہ نے رسول اللہ کو مخاطب کرکے فرمایا کہ اس وقت ان خوبصورت لڑکوں کو دیکھ کر وہ اپنی شہوت رانی کی مستی میں اندھے اور دیوانے بنے ہوئے تھے کہ ایسا شکار شاید انھیں بعد میں کبھی بھی میسر نہ آسکے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

لَعَمْرُكَ اِنَّهُمْ لَفِيْ ۔۔ : ” عَمْرٌ“ عین کے فتحہ کے ساتھ ” عُمْرٌ“ ہی کی ایک لغت ہے، اس کا معنی دنیا میں زندگی کی مدت ہے۔ قسم کے وقت ” عین “ ہمیشہ مفتوح ہوتا ہے۔ لام ابتدا کا ہے جو قسم کے معنی میں ہے۔ ” عَمْرٌ“ مبتدا ہے اور اس کی خبر ” قَسْمِیْ “ یا ” یَمِیْنِیْ “ ہے جو لازماً حذف ہوتی ہے، یعنی مجھے تیری عمر کی قسم۔ ” سَکْرَۃٌ“ نشے میں ہونا، مدہوش ہونا۔ اکثر مفسرین کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی کی قسم کھائی اور آپ کی اتنی تکریم فرمائی کہ آپ کے علاوہ کسی انسان کی زندگی کی قسم نہیں کھائی۔ لوط (علیہ السلام) کے قصے کے درمیان یہ جملہ معترضہ ہے، جس سے ان کا گمراہی سے کسی صورت باز نہ آنا بیان کرنا مقصود ہے۔ قسم اور جواب قسم میں مناسبت یہ ہے کہ اے نبی ! آپ کی پوری پاکیزہ زندگی اور عفت اس بات کی دلیل ہے کہ وہ لوگ جو اس کے بالکل برعکس چلنے والے تھے وہ دراصل ہوش میں نہ تھے اور اسی مدہوشی میں ایسے بھٹکے پھرتے تھے کہ ان کے لیے راہ راست پر آنا ممکن ہی نہ تھا۔ ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ یہ فرشتوں کا کلام ہے اور انھوں نے لوط (علیہ السلام) کی زندگی کی قسم کھائی ہے۔ ہماری شریعت میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی قسم کھانا منع ہے، صحیح احادیث میں اس کی ممانعت آئی ہے۔ اللہ تعالیٰ جس کی چاہے قسم کھا سکتا ہے۔ قسم کے متعلق مفصل بات ان شاء اللہ آگے کسی مقام پر ہوگی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary A Great Honour for the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) About the word of Allah: لَعَمرُکَ (la&amruk : By your life), the majority of commentators, as reported in Ruh al-Ma’ ani, have said that the ad¬dressee of &la&amruka& is the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . It is his life that Allah Ta’ ala has sworn by. Al-Baihaqi in Dala&ilun-Nubuwwah, and Abu Nu&aym, Ibn Marduwayh and others have reported from Sayyidna ` Ab-dullah ibn ` Abbas (رض) that Allah Ta’ ala has not bestowed on anyone in the whole creation an honour and rank higher than that of Sayyidna Mu¬hammad al-Mutafa (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . This is the reason why Allah Ta’ ala has never sworn by the life of any prophet or angel, while in this verse, He has sworn by the age and life of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - which is the highest conceivable honour and deference accorded to him. Swearing by Non-Allah To swear by anyone or anything, other than the names and attrib¬utes of Allah Ta` ala, is not permissible for any human being because one would only swear by whoever is held in the highest of esteem - and, as obvious, Allah alone can be the highest. According to Hadith, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: Do not swear by your mothers, fathers and idols. And do not swear by anyone except Allah - and if you have to swear by Allah, do it only when you are truthful in your statement. (Reported by Abu Dawud and An-Nasa&i from Sayyidna Abu Hurairah~aow ) It appears in the Sahihayn (the Sahih of Al-Bukhari and the Sahih of Muslim) that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) once saw Sayyidna ` Umar ibn al-Khattab (رض) swearing by his father. He called out to him and said: &Watch out! Allah Ta’ ala forbids swearing by fathers. Whoever has to take an oath, let him do it in the name of Allah, otherwise, let him be silent. (Al-Qurtubi under the commentary on Surah al-Ma&idah) But, this injunction applies to Allah&s creation in general. As for Allah Ta’ ala Himelf, He swears by different things He has created. This is particular to Him. Its purpose is to state the sublimity and benefi¬cence of something from the desired angle. Then, the cause of forbidding common people from swearing by anyone other than Allah is not present here - because, in the Word of Allah there is no probability that He would take someone from His creation to be the highest and the best. Again, the reason is that absolute greatness is particular only with Allah Ta’ ala.

معارف و مسائل : رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خصوصی اعزازو اکرام : قولہ لَعَمْرُكَ ۔ روح المعانی میں جمہور مفسرین کا قول یہ نقل کیا ہے کہ لَعَمْرُكَ کے مخاطب رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کی حیات کی قسم کھائی ہے بہیقی نے دلائل النبوۃ میں اور ابو نعیم وابن مردویہ وغیرہ نے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات و کائنات میں کسی کو محمد مصطفے (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے زیادہ عزت و مرتبہ عطا نہیں فرمایا یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی پیغبر یا فرشتے کی حیات پر کبھی قسم نہیں کھائی اور اس آیت میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عمر وحیات کی قسم کھائی ہے جو آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انتہائی اعزازو اکرام ہے۔ غیر اللہ کی قسم کھانا : کسی انسان کے لئے جائز نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات کے علاوہ کسی اور چیز کی قسم کھائے کیونکہ قسم اس کی کھائی جاتی ہے جس کو سب سے زیادہ بڑا سمجھا جائے اور ظاہر ہے سب سے زیادہ بڑا صرف اللہ تعالیٰ ہی ہوسکتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اپنی ماؤں اور باپوں کی اور بتوں کی قسم نہ کھاؤ اور اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی قسم نہ کھاؤ اور اللہ تعالیٰ کی قسم بھی صرف اس وقت کھاؤ جب تم اپنے قول میں سچے ہو (رواہ ابو داؤد والنسائی عن ابی ہریرۃ) اور صحیحین میں ہے کہ ایک مرتبہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عمر بن خطاب (رض) کو دیکھا کہ اپنے باپ کی قسم کھا رہے ہیں تو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پکار کر فرمایا کہ خبردار رہو اللہ تعالیٰ باپوں کی قسم کھانے سے منع فرماتا ہے جس کو حلف کرنا ہو اللہ کے نام کا حلف کرے ورنہ خاموش رہے (قرطبی مائدہ) لیکن یہ حکم مخلوقات کے لئے ہے اللہ جل شانہ خود اپنی مخلوقات میں سے مختلف چیزوں کی قسم کھاتے ہیں یہ ان کے لئے مخصوص ہے جس کا مقصد کسی خاص اعتبار سے روکنے کا جو سبب ہے وہ یہاں موجود نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے کلام میں اس کا کوئی امکان نہیں کہ وہ اپنی کسی مخلوق کو سب سے بڑا اور افضل سمجھیں کیونکہ علی الاطلاق بڑائی تو صرف اللہ تعالیٰ کی ذات سے مخصوص ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لَعَمْرُكَ اِنَّهُمْ لَفِيْ سَكْرَتِهِمْ يَعْمَهُوْنَ 72؀ عمر والْعَمْرُ والْعُمُرُ : اسم لمدّة عمارة البدن بالحیاة، فهو دون البقاء، فإذا قيل : طال عُمُرُهُ ، فمعناه : عِمَارَةُ بدنِهِ بروحه، وإذا قيل : بقاؤه فلیس يقتضي ذلك، فإنّ البقاء ضدّ الفناء، ولفضل البقاء علی العمر وصف اللہ به، وقلّما وصف بالعمر . والتَّعْمِيرُ : إعطاء العمر بالفعل، أو بالقول علی سبیل الدّعاء . قال : أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ ما يَتَذَكَّرُ فِيهِ [ فاطر/ 37] ، وَما يُعَمَّرُ مِنْ مُعَمَّرٍ وَلا يُنْقَصُ مِنْ عُمُرِهِ [ فاطر/ 11] ، وَما هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنَ الْعَذابِ أَنْ يُعَمَّرَ [ البقرة/ 96] ، وقوله تعالی: وَمَنْ نُعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِي الْخَلْقِ [يس/ 68] ، قال تعالی: فَتَطاوَلَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ [ القصص/ 45] ، وَلَبِثْتَ فِينا مِنْ عُمُرِكَ سِنِينَ [ الشعراء/ 18] . والعُمُرُ والْعَمْرُ واحد لکن خُصَّ القَسَمُ بِالْعَمْرِ دون العُمُرِ «3» ، نحو : لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ [ الحجر/ 72] ، وعمّرک الله، أي : سألت اللہ عمرک، وخصّ هاهنا لفظ عمر لما قصد به قصد القسم، ( ع م ر ) العمارۃ اور العمر والعمر اس مدت کو کہتے میں جس میں بدن زندگی کے ساتھ آباد رہتا ہے اور یہ بقا سے فرو تر ہے چنناچہ طال عمر ہ کے معنی تو یہ ہوتے ہیں کہ اس کا بدن روح سے آباد رہے لیکن طال بقاء ہ اس مفہوم کا مقتضی نہیں ہے کیونکہ البقاء تو فناء کی ضد ہے اور چونکہ بقاء کو عمر پر فضیلت ہے اس لئے حق تعالیٰ بقاء کے ساتھ تو موصؤف ہوتا ہے مگر عمر کے ساتھ بہت کم متصف ہوتا ہے ۔ التعمیر کے معنی ہیں بالفعل عمر بڑھانا نا یا زبان کے ساتھ عمر ک اللہ کہنا یعنی خدا تیری عمر دراز کرے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ ما يَتَذَكَّرُ فِيهِ [ فاطر/ 37] کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی تھی کہ اس میں جو سوچنا چاہتا سوچ لیتا ۔ وَما يُعَمَّرُ مِنْ مُعَمَّرٍ وَلا يُنْقَصُ مِنْ عُمُرِهِ [ فاطر/ 11] اور نہ کسی بڑی عمر والے کو عمر زیادہ دی جاتی ہے اور نہ اس کی عمر کم کی جاتی ہے ۔ وَما هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنَ الْعَذابِ أَنْ يُعَمَّرَ [ البقرة/ 96] اگر اتنی لمبی عمر اس کو مل بھی جائے تو اسے عذاب سے تو نہیں چھڑا سکتی ۔ اور آیت : ۔ وَمَنْ نُعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِي الْخَلْقِ [يس/ 68] اور جس کو بڑی عمر دیتے ہیں اسے خلقت میں اوندھا کردیتے ہیں ۔ فَتَطاوَلَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ [ القصص/ 45] یہاں تک کہ ( اسی حالت میں ) ان کی عمر ین بسر ہوگئیں ۔ وَلَبِثْتَ فِينا مِنْ عُمُرِكَ سِنِينَ [ الشعراء/ 18] اور تم نے برسوں ہمارے عمر بسر کی ۔ العمر والعمر کے ایک ہی معنی ہیں لیکن قسم کے موقعہ پر خاص کر العمر کا لفظ ہی استعمال ہوتا ہے ۔ عمر کا لفظ نہیں بولا جاتا جیسے فرمایا : ۔ لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ [ الحجر/ 72] تمہاری زندگی کی قسم وہ اپنی مستی میں عمرک اللہ خدا تمہاری عمر دارز کرے یہاں بھی چونکہ قسم کی طرح تاکید مراد ہے اس لئے لفظ عمر کو خاص کیا ہے ۔ سكر السُّكْرُ : حالة تعرض بيت المرء وعقله، وأكثر ما يستعمل ذلک في الشّراب، وقد يعتري من الغضب والعشق، ولذلک قال الشاعر : 237- سکران : سکر هوى، وسکر مدامة «2» ومنه : سَكَرَاتُ الموت، قال تعالی: وَجاءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ [ ق/ 19] ، والسَّكَرُ : اسم لما يكون منه السّكر . قال تعالی: تَتَّخِذُونَ مِنْهُ سَكَراً وَرِزْقاً حَسَناً [ النحل/ 67] ، والسَّكْرُ : حبس الماء، وذلک باعتبار ما يعرض من السّدّ بين المرء وعقله، والسِّكْرُ : الموضع المسدود، وقوله تعالی: إِنَّما سُكِّرَتْ أَبْصارُنا [ الحجر/ 15] ، قيل : هو من السَّكْرِ ، وقیل : هو من السُّكْرِ ( س ک ر ) الکرس ۔ اصل میں اس حالت کو کہتے ہیں جو انسان اور اس کی عقل کے درمیان حائل ہوجاتی ہے اس کا عام استعمال شراب کی مستی پر ہوتا ہے اور کبھی شدت غضب یا غلبہ یا غلبہ عشق کی کیفیت کو سکر سے تعبیر کرلیا جاتا ہے اسی لئے شاعر نے کہا ہے ( 231 ) سکران ھوی وسکر مدامۃ نشے دو ہیں ایک نشہ محبت اور دوسرا نشہ شراب اور اسی سے سکرت الموت ( موت کی بیہوشی ) ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَجاءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ [ ق/ 19] اور موت کی بےہوشی کھولنے کو طاری ہوگئی ۔ السکرۃ ( بفتح السین والکاف ) نشہ آور چیز ۔ قرآن میں ہے : ۔ تَتَّخِذُونَ مِنْهُ سَكَراً وَرِزْقاً حَسَناً [ النحل/ 67] کہ ان سے شراب بناتے ہو اور عمدہ رزق رکھا تے ہو ) اور شراب سے انسان اور اس کی عقل کے درمیان بھی چونکہ دیوار کی طرح کوئی چیز حائل ہوجاتی ہے اس اعتبار سے سکر کے معنی پانی کو بند لگانے اور روکنے کے آجاتے ہیں اور اس بند کو جو بانی روکنے کے لئے لگایا جائے سکر کہا جاتا ہے ( یہ فعل بمعنی مفعول ہے ) اور آیت : ۔ إِنَّما سُكِّرَتْ أَبْصارُنا[ الحجر/ 15] کہ ہماری آنکھیں مخمور ہوگئی ہیں ۔ میں سکرت بعض کے نزدیک سک سے ہے اور بعض نے سکرا سے لیا ہے اور پھر سکر سے سکون کے معنی لے کر پر سکون رات کو لیلۃ ساکرۃ کہا جاتا ہے ۔ عمه الْعَمَهُ : التّردُّدُ في الأمر من التّحيّر . يقال : عَمَهَ فهو عَمِهٌ وعَامِهٌ «2» ، وجمعه عُمَّهٌ. قال تعالی: فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ الأعراف/ 186] ، فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ البقرة/ 15] ، وقال تعالی: زَيَّنَّا لَهُمْ أَعْمالَهُمْ فَهُمْ يَعْمَهُونَ [ النمل/ 4] . ( ع م ہ ) العمۃ کے معنی حیر انگی کی وجہ سے کسی کام میں تردد سے کام لینا کے ہیں ۔ عمہ ( س) صیغہ صفت فاعل عمہ وعامہ اور عامہ کی جمع عمہ ہے ۔ قرآن میں ہے : فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ الأعراف/ 186] وہ اپنی شرارت وسرکشی میں پڑے بہک رہے ہیں ۔ زَيَّنَّا لَهُمْ أَعْمالَهُمْ فَهُمْ يَعْمَهُونَ [ النمل/ 4] ہم نے ان کے اعمال ان کے لئے آراستہ کردیئے تو وہ سرگردان ہو رہے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٢) اللہ تعالیٰ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان کی قسم کھا کر فرماتا ہے یا یہ کہ آپ کے دین کی قسم حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم اپنی جہالت میں مدہوش تھی ان کو کچھ نہیں نظر آرہا تھا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٢ (لَعَمْرُكَ اِنَّهُمْ لَفِيْ سَكْرَتِهِمْ يَعْمَهُوْنَ ) عمہ کے مادہ میں دل کے اندھے پن کا مفہوم پایا جاتا ہے یعنی ان لوگوں کے دل بھلائی اور برائی کی تمیز سے بالکل عاری ہوگئے تھے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(15:72) لعمرک۔ ل قسم کے لئے ہے۔ عمرک مضاف مضاف الیہ۔ تیری جان کی قسم۔ تیری زندگی کی قسم۔ عمرو عمر ہم معنی لفظ ہیں لیکن قسم میں یہ اکثر مفتوح استعمال ہوتا ہے کیونکہ سہل الاداء ہے۔ سکرتہم۔ مضاف مضاف الیہ۔ ان کی مستی۔ ان کا نشہ۔ ان کی مدہوشی۔ یعمھون۔ مضارع جمع مذکر غائب عمہ مصدر (باب فتح وسمع) سرگردانی۔ گمراہی میں حیرانی ۔ وہ سرگرداں پھرتے ہیں۔ لعمرک انہم لفی سکرتہم یعمھون۔ تیری جان کی قسم یہ لوگ اپنی طاقت کے نشے میں سرگرداں مست ہیں اور بہکے بہکے پھر رہے ہیں۔ (اللہ تعالیٰ کا یہ خطاب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے) مدارک التنزیل میں ہے کہ یہ خطاب فرشتوں کا حضرت لوط (علیہ السلام) سے تھا۔ لیکن اکثر مفسرین کے نزدیک اللہ تعالیٰ کی جانب سے یہ خطاب حضرت رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے۔ الصیحۃ۔ صاح یصیح (ضرب) کا مصدر ہے بمعنی آواز بلند کرنا۔ دراصل یہ صیح کے معنی آواز پھاڑنا کے ہیں اور یہ الصاح الثوب سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں کپڑا پھٹ گیا اور اس سے آواز نکلی۔ یہاں الصیحۃ بطور حاصل مصدر استعمال ہوا ہے۔ بلند آواز ۔ چیخ۔ ہولناک آواز چنگھاڑ ۔ چونکہ زور کی آواز سے آدمی گھبرا اٹھتا ہے اسلئے بمعنی گھبراہٹ اور عذاب کے بھی استعمال ہوتا ہے۔ آیۃ ہذا میں بمعنی چنگھاڑ ۔ سخت کڑک۔ ہولناک آواز ۔ آیا ہے۔ مشرقین۔ یہ اخذتہم میں ضمیر ہم کا حال ہے۔ یعنی ان کو ایک ہولناک چنگھاڑنے آلیا۔ جبکہ وہ دن میں داخل ہو ہی رہے تھے۔ یعنی جبکہ سورج نکل ہی رہا تھا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 جمہور مفسرین کا یہی خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی کی قسم کھائی ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ فرشتوں کا کلام ہو اور انہوں نے حضرت لوط کی زندگی کی قسم کھائی ہو۔ ہماری شریعت میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی قسم کھانا منع ہے۔ صحیح احادیث میں اس کی ممانعت آئی ہے۔ اللہ تعالیٰ جس کی چاہے قسم کھا سکتا ہے۔ (وحیدی و کذافی الروح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ قوم لوط (علیہ السلام) کی بدمعاشی کی انتہا۔ قوم لوط (علیہ السلام) کے بدمعاشوں کی بےحیائی اور غنڈہ گردی اس قدر حد سے بڑھ چکی تھی کہ حضرت لوط (علیہ السلام) انتہائی پریشان ہو کر بےساختہ پکار اٹھے کہ کاش تمہارے مقابلے کے لیے میرے پاس قوت ہوتی یا پھر کوئی مضبوط پناہ گاہ۔ (ھود : ٨٠) اس کے باوجود غنڈوں کو شرم نہ آئی تو انہوں نے فرمایا میری بیٹیاں حاضر ہیں۔ (لاعراف : ٨١) حالانکہ وہ لوگ کسی اعتبار سے بھی اس لائق نہ تھے کہ حضرت لوط (علیہ السلام) انھیں اپنی دامادی میں لینے کے لیے تیار ہوتے لیکن مہمانوں کی تکریم اور اپنی بےبسی کی وجہ سے حضرت لوط (علیہ السلام) نے انتہا درجے کی پریشانی میں یہ بات کہی۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کے اضطراب اور بدمعاشوں کی غنڈہ گردی کی منظر کشی کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے نبی آخرالزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عمر کی قسم کھا کر فرمایا ہے اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کی عمر کی قسم ! اس وقت وہ لوگ بےحیائی کے نشے میں اندھے ہوچکے تھے۔ اس فرمان میں ایک طرف ان کی انتہائی بدمعاشی اور غنڈہ گردی کی عکاسی کی گئی ہے تو دوسری طرف یہ اشارہ بھی موجود ہے کہ اے نبی ! آپ کے مخالف بھی آپ کی مخالفت میں اندھے ہوچکے ہیں۔ ان لوگوں کو قوم لوط کا انجام اپنے سامنے رکھنا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی آپ کی عزت و عظمت کو دوبالا کرنے کے لیے آپ کی عمر کی قسم کھائی گئی ہے۔ جس سے بڑھ کر آپ کی پاکدامنی کا اور ثبوت نہیں ہوسکتا۔ مفسر قرآن حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے پوری کائنات میں کسی کی عمر کی قسم نہیں کھائی یہ اعزازو اکرام صرف ہمارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بخشا گیا ہے۔ جہاں تک اللہ تعالیٰ کا مخلوق کی قسم کھانے کا معاملہ ہے یہ اس کی مرضی اور حکمت ہے وہ جس کی چاہے قسم کھائے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہے اسی لیے انسان کے ذہن میں کسی حقیقت کو دو چند کرنے کے کے لیے اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں کسی چیز کی قسم اٹھاتا ہے تو اس سے اس بات اور کام کی اہمیت میں اضافہ کرنا مقصود ہوتا ہے۔ قسم کا یہ مفہوم نہیں ہوتا کہ جس چیز کی قسم کھائی جا رہی ہے کہ وہ قسم کھانے والے سے لازماََ بڑی یا عظیم تر ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عظمت : (عَنْ أبِی ذَرِّ الْغَفَّارِیِّ قَالَ قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ کَیْفَ عَلِمْتَ أنَّکَ نَبِیٌّ حَتّٰی اسْتَیْقَنْتُ ؟ فَقَالَ یَا أبَا ذَرٍّ أتَانِی مَلَکَانِ وَأنَا بَ بَعْضَ بَطْحَاءَ مَکَّۃَ فَوَقَعَ أحَدُہُمَا عَلٰی الأرْضِ وَکَان الآخَرُ بَیْنَ السَّمَاءِ وَالأرْضِ فَقَالَ أحَدُہُمَا لِصَاحِبِہِ أہُوَ ہُوَ ؟ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَزِنْہٗ بَرَجُلٍ فَوَزَنَتْ بِہِ فَوَزَنَتْہٗ ثُمَّ قَالَ زِنْہٗ بِعَشْرَۃٍ فَوَزَنَتْ بِہِمْ فَرَجَحْتُہُمْ ثُمَّ قَالَ زِنْہٗ بِمِاءَۃِ فَوَزَنَتْ بِہِمْ فَرَجَحْتُہُمْ کَأنِّی أنْظُرُ إلَیْہِمْ یَنْتَثِرُوْنَ عَلٰی مَنْ خِفَّۃِ الْمِیْزَانِ قَالَ فَقَالَ أحَدُہُمَا لِصَاحِبِہِ لَوْ وَزَنْتَہٗ بِأمِّتِہِ لَرَجَحَہَا) [ رواہ الدارمی ] ” حضرت ابوذر غفاری (رض) بیان کرتے ہیں میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ نے کیسے جانا کہ آپ اللہ کے نبی ہیں تاکہ میں بھی یقین کرسکوں آپ نے فرمایا اے ابوذر میرے پاس دو فرشتے آئے اور وہ بطحاء کی وادی میں گھومے پھرے، ایک ان میں سے زمین پر آیا اور دوسرا آسمان و زمین کے درمیان میں رہا۔ ان میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا کیا یہ وہی ہے اس نے کہا ہاں اس نے کہا پھر ان کا وزن ایک آدمی کے ساتھ کیجیے۔ میرا وزن ایک آدمی کے ساتھ کیا گیا میں بھاری نکلا، فرشتے نے کہا ان کا وزن دس آدمیوں کے ساتھ کیا جائے میں پھر بھی بھاری نکلا، پھر فرشتے نے کہا ان کا وزن سو آدمیوں کے ساتھ کیجیے تو میں پھر بھی بھاری نکلا۔ فرشتے نے کہا اگر تو ان کا وزن ان کی پوری امت کے ساتھ کرے گا تو یہ تب بھی بھاری نکلیں گے۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ جس کی چاہے قسم کھائے۔ ٢۔ مجرم اپنی مدہوشی میں بہکے رہتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کی قسموں کے چند حوالے : ١۔ آپ کی جان کی قسم ! وہ اپنی مدہوشی میں مست ہیں۔ (الحجر : ٧٢) ٢۔ قسم ہے ان ہواؤں کی ! جو بھیجی جاتی ہیں۔ (المرسلات : ١) ٣۔ قسم ہے جان سختی سے نکالنے والے فرشتوں کی۔ (النازعات : ١) ٤۔ قسم ہے برجوں والے آسمان کی۔ (البروج : ١) ٥۔ قسم ہے آسمان کی اور رات کو نمودار ہونے والی چیز کی۔ (الطارق : ١) ٦۔ قسم ہے فجر کی۔ (الفجر : ١) ٧۔ میں قسم کھاتا ہوں مکہ شہر کی۔ (البلد : ١) ٨۔ قسم ہے آفتاب اور اس کی روشنی کی۔ (الشمس : ١) ٩۔ قسم ہے آپ کے رب کی وہ مومن نہیں ہوسکتے حتی کہ آپ اپنے درمیان فیصل تسلیم کرلیں۔ (النساء : ٦٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر ٧٢ یہ تھی ان کی اصل تصویر اور اس حالت میں وہ ہمیشہ رہتے تھے ، اس لیے حضرت لوط (علیہ السلام) کو سعی کے باوجود ان کے بارے میں یہ امید نہ تھی کہ وہ راہ راست پر آجائیں گے ، نہ یہ امید تھی کہ ان میں شرافت اور غیرت کے جذبات جاگ اٹھیں گے یا وہ خدا سے ڈر کر راہ راست اور فطرت سلیمہ کی طرف لوٹ آئیں گے۔ اب ان کے خاتمے کا وقت قریب آتا جا رہا ہے اور اللہ کا کلمہ سچ ہو رہا ہے۔ ما ننزل الملئکۃ الا بالحق وما کانوا اذا منظرین (١٥ : ٨) “ اور ہم فرشتوں کو نہیں بھیجتے مگر حق کے ساتھ اور اس وقت پھر کسی کو مہلت نہیں دی جاتی ”۔ اب ہمارے سامنے آخری منظر آتا ہے۔ یہ ہلاکت ، تباہی اور زمین میں دھنس جانے کا منظر ہے۔ ایک ہمہ گیر تباہی ہے جو ہر طرف نظر آتی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

رحمتہ للعالمین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بہت بڑا اعزاز، اللہ جل شانہ نے آپ کی جان کی قسم کھائی ہے اللہ تعالیٰ شانہٗ نے (لَعَمْرُکَ اِنَّھُمْ لَفِیْ سَکْرَتِھِمْ یَعْمَھُوْنَ ) جو فرمایا ہے اس میں اپنے حبیب مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان کی قسم کھائی ہے صاحب روح المعانی ص ٤٢ ج ١٤ نے امام بیہقی کی دلائل النبوۃ سے حضرت ابن عباس (رض) کا قول نقل کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان سے بڑھ کر کوئی معزز و مکرم جان پیدا نہیں فرمائی اللہ تعالیٰ نے آپ کی حیات کے علاوہ کسی بھی حیات کی قسم نہیں کھائی، یہاں سرسری طور پر جو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ غیر اللہ کی قسم کھانا تو ممنوع ہے اللہ تعالیٰ نے آپ کی جان کی قسم کیوں کھائی ؟ اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ یہ تو مخلوق کے لیے منع ہے وہ غیر اللہ کی قسم کھائیں گے تو شرک ہوگا اللہ تعالیٰ خالق اور مالک ہے اس پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں ہے اس کو اختیار ہے جس کی چاہے قسم کھائے، اللہ تعالیٰ سب سے بڑا ہے اگر وہ کسی کی قسم کھائے تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ کوئی چیز اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر عظمت والی ہوگئی۔ یا اللہ تعالیٰ کے برابر ہوگئی یہاں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان کی قسم کھائی اور قرآن مجید میں بہت سے مواقع ہیں دوسری چیزوں کی قسمیں بھی مذکور ہیں جیسے (وَالزَّیْتُوْنِ اور والذّٰرِیَات اور والْعٰدِیَات اور والسَّمَآء اور والطَّارِقِ ) وغیرہ ذالک حضرات مفسرین کرام نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں کی قسم کھائی ہے ان میں وہ چیزیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کی قدرت پر دلالت کرنے میں بہت زیادہ واضح ہیں یا ان کا نفع خوب زیادہ ہے یا جن میں غورو فکر کرنے سے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر ذہن جلدی پہنچتا ہے اگر غور کیا جائے گا تو یہ امر واضح طور پر سمجھ میں آجائے گا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

24:۔ یہ ادخال الٰہی ہے۔ جملہ قسمیہ ہے ” لَعَمْرُکَ “ مبتدا ہے اور قسمی اس کی خبر وجوبًا محذوف ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگانی کی قسم کھائی ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ساری مخلوق میں حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے زیادہ مکرم و محترم کوئی شخصیت پیدا نہیں فرمائی اورحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علاوہ کسی دوسرے شخص کی زندگی کی قسم نہیں کھائی۔ ماخلق اللہ تعالیٰ و ما ذرا و ما برا نفساً اکرم علیہ من محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وما سمعت اللہ سبحانہ اقسم بحیاۃ احد غیرہ (روح) میرے پیغمبر مجھے تیری زندگانی کی قسم وہ اپنی گمراہی میں مست اور سرگرداں تھے یا یہ فرشتوں کا قول ہے اور حضرت لوط (علیہ السلام) سے خطاب ہے۔ حضرت شیخ قدس سرہ نے فرمایا مقسم بہ یعنی جس چیز کی قسم کھائی جائے اس کے اعتبار سے قسم کی چار قسمیں ہیں۔ (1) یہ کہ مقسم بہ کو عالم الغیب اور قادر و متصرف سمجھ کر اس کی قسم کھائے اور یہ عقیدہ ہو کہ وہ میرے حال سے واقف ہے اگر میں نے اس قسم کو توڑا تو وہ مجھے ضرر اور نقصان پہنچانے پر قادر ہے غیر خدا کی اس نیت سے قسم کھانا شرک ہے۔حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غیر اللہ کی اسی نوع کی قسم کو شرک قرار دیا ہے۔ من حلف بغیر اللہ فقد اشرک۔ (2) وہ قسم جس میں مقسم بہ کو بطور دلیل و شاہد پیش کرنا مقصود ہو قرا ان مجید کی اکثر و بیشتر قسمیں اسی نوع کی ہیں مثلاً ” وَ الْعَصْرِ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ “ مندرجہ ذیل مصرع میں بھی اسی نوع کی قسم ہے۔ ع۔ قسم بلب مے گون تو وزلف شبگونِ تو کہ تو محبوب دلربائی۔ یہ قسم غیر اللہ کی جائز ہے۔ (2) یہ کہ مثلاً یوں کہے کہ اگر میں جھوٹ بولوں تو اللہ تعالیٰ مجھ سے فلاں نعمت چھین لے۔ جیسا کہ حضرت حسان بن ثابت (رض) نے مشرکین کے مقابلے میں فرمایا تھا۔ ثکلت بنیتی ان لم تروھا۔ تثیر النقع من طرفی کداء۔ (ترجمہ میری بیٹی مرے اگر تم ان (ہمارے گھوڑوں کو کداء پہاڑ کی جانب سے گرد اڑاتے ہوئے (مکہ کو فتح کرنے کے لیے مکہ پر حملہ آور ہوتے ہوئے) نہ دیکھو) ۔ چناچہ فتح مکہ کے دنحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا فوج اسلام کداء پہاڑ کی جانب سے مکہ میں داخل ہو تاکہ حسان کی قسم پوری ہوجائے۔ اس سے معلوم ہوا کہحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ثکلت بنیتی کو قسم کقرار دیا ہے۔ (4) یہ کہ قسم سے دعاء مقصود ہو مثلاً کوئی شخص اپنے محبوب کو اعتماد میں لینے کے لیے یوں کہنے کے بجائے کہ اگر میں جھوٹ بولوں تو اللہ تعالیٰ مجھ سے تجھ ایسا دلربا محبوب چھین لے، اس طرح قسم کھائے کہ مجھے تیری زندگانی کی قسم میں سچ کہہ رہا ہوں یعنی خدا کرے تو زندہ رہے اور تیری زندگانی مجھے بہت محبوب ہے۔ ” لَعَمْرُکَ “ اسی نوع کی قسم ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

72 ۔ اے پیغمبر قسم ہے آپ کی جان کی وہ اپنی مستی اور گمراہی کے نشے میں مدہوش تھے۔ ایک پیغمبر کی آبرو کا معاملہ ہے اس لئے حضرت حق تعالیٰ نے نبی آخر الزمان حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان کی قسم کھا کر فرمایا۔ جیسا کہ حدیث میں آتا ہے عرض المسلم کدمہٖ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یہ اللہ تعالیٰ حضرت ؐ کو فرمایا ہے قسم تیری جان کی دے قوم لوط (علیہ السلام) اپنی مستی میں ان کی بات نہیں سنتے۔