Surat ul Hijir

Surah: 15

Verse: 73

سورة الحجر

فَاَخَذَتۡہُمُ الصَّیۡحَۃُ مُشۡرِقِیۡنَ ﴿ۙ۷۳﴾

So the shriek seized them at sunrise.

پس سورج نکلتے نکلتے انہیں ایک بڑے زور کی آواز نے پکڑ لیا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Destruction of the People of Lut Allah said; فَأَخَذَتْهُمُ الصَّيْحَةُ مُشْرِقِينَ So the Sayhah overtook them at the time of sunrise. This is the piercing sound that came to them when the sun rose, which was accompanied by the city being flipped upside down, and stones of baked clay (As-Sijjil) raining down upon them. فَجَعَلْنَا عَالِيَهَا سَافِلَهَا وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهِمْ حِجَارَةً مِّن سِجِّيلٍ

آل ہود کا عبرتناک انجام سو رج نکلنے کے وقت آسمان سے ایک دل دہلانے والی اور جگر پاش پاش کر دینے والی چنگھاڑ کی آواز آئی ۔ اور ساتھ ہی ان کی بستیاں اوپر کو اٹھیں اور آسمان کے قریب پہنچ گئیں اور وہاں سے الٹ دی گئیں اوپر کا حصہ نیچے اور نیچے کا حصہ اوپر ہو گیا ساتھ ہی ان پر آسمان سے پتھر برسے ایسے جیسے پکی مٹی کے کنکر آلود پتھر ہوں ۔ سورہ ھود میں اس کا مفصل بیان ہو چکا ہے ۔ جو بھی بصیرت و بصارت سے کام لے ، دیکھے ، سنے ، سوچے ، سمجھے اس کے لئے ان بستیوں کی بربادی میں بڑی بڑی نشانیاں موجود ہیں ۔ ایسے پاکباز لوگ ذرا ذرا سی چیزوں سے بھی عبرت و نصیحت حاصل کر تے ہیں پند پکڑتے ہیں اور غور سے ان واقعات کو دیکھتے ہیں اور لم تک پہنچ جاتے ہیں ۔ تامل اور غور و خوض کر کے اپنی حالت سنوار لیتے ہیں ۔ ترمذی وغیرہ میں حدیث ہے رسول اللہ صلی علیہ وسلم فرماتے ہیں مومن کی عقلمندی اور دور بینی کا لحاظ رکھو وہ اللہ کے نور کے ساتھ دیکھتا ہے ۔ پھر آپ نے یہی آیات تلاوت فرمائی ۔ اور حدیث میں ہے کہ وہ اللہ کے نور اور اللہ کی توفیق سے دیکھتا ہے ۔ اور حدیث میں ہے کہ اللہ کے بندے لوگوں کو ان نشانات سے پہچان لیتے ہیں ۔ یہ بستی شارع عام پر موجود ہے جس پر ظاہری اور باطنی عذاب آیا ، الٹ گئی ، پتھر کھائے ، عذاب کا نشانہ بنی ۔ اب ایک گندے اور بد مزہ کھائی کی جھیل سے بنی ہوئی ہے تم رات دن وہاں سے آتے جاتے ہو تعجب ہے کہ پھر بھی عقلمندی سے کام نہیں لیتے ۔ غرض صاف واضح اور آمد و رفت کے راستے پر یہ الٹی ہو بستی موجود ہے ۔ یہ بھی معنی کئے ہیں کہ کتاب موبین میں ہے لیکن یہ معنی کچھ زیادہ بند نہیں بیٹھتے واللہ اعلم ۔ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے والوں کے لئے یہ ایک کھلی دلیل اور جاری نشانی ہے کہ کس طرح اللہ اپنے والوں کو نجات دیتا ہے اور اپنے دشمنوں کو غارت کرتا ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

73۔ 1 ایک چنگھاڑ نے، جب کہ سورج طلوع ہوچکا تھا، ان کا خاتمہ کردیا۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ زوردار آواز حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کی تھی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَاَخَذَتْهُمُ الصَّيْحَةُ مُشْرِقِيْنَ :” اَشْرَقَتِ الشَّمْسُ “ ” سورج طلوع ہوا “۔ اس سے پہلے آیت (٦٦) میں ” مُصْبِحِیْن “ کا لفظ ہے، یعنی صبح کے وقت۔ سورة قمر (٣٨) میں ” بُکْرَةً “ کا لفظ ہے، جس کا معنی دن کا پہلا حصہ ہے۔ بعض اہل علم نے فرمایا کہ صبح کے وقت عذاب شروع ہوا اور سورج چڑھنے تک جاری رہا۔ ایک تطبیق یہ ہوسکتی ہے کہ صبح نمودار ہونے سے لے کر سورج چڑھنے کے کچھ بعد تک سارے وقت کو عرف میں صبح کہہ لیتے ہیں اور ایک تطبیق یہ بھی ہے کہ ” أَشْرَقَ یُشْرِقُ “ مطلقاً تاریکی میں روشنی ہونے کے معنی میں بھی آتا ہے، جو ظاہر ہے کہ صبح کے ساتھ ہی شروع ہوجاتی ہے اور سورج نکلنے کے ساتھ مکمل ہوتی ہے، جیسا کہ فرمایا : (وَاَشْرَقَتِ الْاَرْضُ بِنُوْرِ رَبِّهَا) [ الزمر : ٦٩ ] ” اور زمین اپنے رب کے نور کے ساتھ روشن ہوجائے گی۔ “ میں نے ترجمہ میں یہی معنی اختیار کیا ہے، تاکہ ” مُصْبِحِیْن “ کے ساتھ مطابقت رہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاَخَذَتْهُمُ الصَّيْحَةُ مُشْرِقِيْنَ 73؀ۙ أخذ الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف/ 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة/ 255] ( اخ ذ) الاخذ ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ { مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ } ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ { لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ } ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔ صاح الصَّيْحَةُ : رفع الصّوت . قال تعالی: إِنْ كانَتْ إِلَّا صَيْحَةً واحِدَةً [يس/ 29] ( ص ی ح ) الصیحۃ کے معنی آواز بلندکرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنْ كانَتْ إِلَّا صَيْحَةً واحِدَةً [يس/ 29] وہ تو صرف ایک چنگھاڑ تھی آتشین ۔ شرق شَرَقَتِ الشمس شُرُوقاً : طلعت، وقیل : لا أفعل ذلک ما ذرّ شَارِقٌ «1» ، وأَشْرَقَتْ : أضاءت . قال اللہ : بِالْعَشِيِّ وَالْإِشْراقِ [ ص/ 18] أي : وقت الإشراق . والْمَشْرِقُ والمغرب إذا قيلا بالإفراد فإشارة إلى ناحیتي الشَّرْقِ والغرب، وإذا قيلا بلفظ التّثنية فإشارة إلى مطلعي ومغربي الشتاء والصّيف، وإذا قيلا بلفظ الجمع فاعتبار بمطلع کلّ يوم ومغربه، أو بمطلع کلّ فصل ومغربه، قال تعالی: رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ [ الشعراء/ 28] ، رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ [ الرحمن/ 17] ، بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج/ 40] ، وقوله تعالی: مَکاناً شَرْقِيًّا[ مریم/ 16] ، أي : من ناحية الشّرق . والْمِشْرَقَةُ «2» : المکان الذي يظهر للشّرق، وشَرَّقْتُ اللّحم : ألقیته في الْمِشْرَقَةِ ، والْمُشَرَّقُ : مصلّى العید لقیام الصلاة فيه عند شُرُوقِ الشمس، وشَرَقَتِ الشمس : اصفرّت للغروب، ومنه : أحمر شَارِقٌ: شدید الحمرة، وأَشْرَقَ الثّوب بالصّبغ، ولحم شَرَقٌ: أحمر لا دسم فيه . ( ش ر ق ) شرقت ( ن ) شروقا ۔ الشمس آفتاب طلوع ہوا ۔ مثل مشہور ہے ( مثل ) الاافعل ذالک ماذر شارق واشرقت جب تک آفتاب طلوع ہوتا رہیگا میں یہ کام نہیں کروں گا ۔ یعنی کبھی بھی نہیں کروں گا ۔ قرآن میں ہے : بِالْعَشِيِّ وَالْإِشْراقِ [ ص/ 18] صبح اور شام یہاں اشراق سے مراد وقت اشراق ہے ۔ والْمَشْرِقُ والمغربجب مفرد ہوں تو ان سے شرقی اور غربی جہت مراد ہوتی ہے اور جب تثنیہ ہوں تو موسم سرما اور گرما کے دو مشرق اور دو مغرب مراد ہوتے ہیں اور جمع کا صیغہ ہو تو ہر روز کا مشرق اور مغرب مراد ہوتا ہے یا ہر موسم کا قرآن میں ہے : رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ [ الشعراء/ 28] وہی مشرق اور مغرب کا مالک ( ہے ) رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ [ الرحمن/ 17] وہی دونوں مشرقوں اور دونوں مغربوں کا مالک ہے ۔ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج/ 40] اور مشرقوں کا رب ہے ۔ مَکاناً شَرْقِيًّا[ مریم/ 16] مشر ق کی طرف چلی گئی ِ ۔ المشرقۃ جاڑے کے زمانہ میں دھوپ میں بیٹھنے کی جگہ جہاں سورج طلوع ہونے کے ساتھ ہی دھوپ پڑتی ہو ۔ شرقت اللحم ۔ گوشت کے ٹکڑے کر کے دھوپ میں خشک کرنا ۔ المشرق عید گاہ کو کہتے ہیں کیونکہ وہاں طلوع شمس کے بعد نماز اد کی جاتی ہے ۔ شرقت الشمس آفتاب کا غروب کے وقت زردی مائل ہونا اسی سے احمر شارق کا محاورہ ہے جس کے معنی نہایت سرخ کے ہیں ۔ اشرق الثوب کپڑے کو خالص گہرے رنگ کے ساتھ رنگنا ۔ لحم شرق سرخ گوشت جس میں بالکل چربی نہ ہو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٣۔ ٧٤۔ ٧٥) چناچہ سورج نکلتے نکلتے ان کو عذاب نے پکڑا اور پھر ہم نے ان بستیوں کا اوپر کا تختہ نیچے کر کردیا اور نیچے کا تختہ اوپر کردیا اور پھر ان لوگوں پر اور ان مسافروں پر آسمان سے کنکر کے پتھر برسانا شروع کیے ہم نے ان لوگوں کے ساتھ جو معاملہ کیا اس میں اہل بصیرت اور متفکر اور دیکھنے اور اعتبار کرنے والوں کے لیے چند نشانیاں اور عبرتیں ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٣ (فَاَخَذَتْهُمُ الصَّيْحَةُ مُشْرِقِيْنَ ) یعنی پو پھٹتے ہی ان پر اللہ کے عذاب کا کوڑا ایک زبردست چنگھاڑ کے ساتھ ٹوٹ پڑا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٧٣۔ ٨٥۔ جب لوط (علیہ السلام) کی قوم نے ان کی ایک نہ سنی اور اپنی ہٹ دھرمی کئے گئے تو اللہ پاک نے فرشتوں کو حکم دے دیا کہ ان کو غارت کرو تو صبح ہوتے ہی جبرئیل (علیہ السلام) نے ایک ایسی چیخ ماری کہ لوگوں کے کلیجے دہل گئے اور پھر اس بستی کی تہ میں اپنے پر ڈال کر اکھیڑ لیا اور آسمان کی طرف لے جا کر وہاں سے الٹا گرا دیا اور پھر اوپر سے چھوٹے چھوٹے پتھر کے ریزے برسے جس سے ایک متنفس بھی جان بر نہ ہوسکا پھر اللہ پاک نے فرمایا کہ اس قصہ میں عبرت کرنے والوں اور غورو فکر کرنے والوں کے لئے بڑی نشانی ہے۔ بعضے مفسروں نے للمتوسمین کی یہ تفسیر بیان کی ہے کہ عقلمندوں کے واسطے اس قصہ میں پتے ہیں اور ابو سعید (رض) کی حدیث ترمذی نے نقل کی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرمایا کہ مومن کی فراست سے ڈرو کیوں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نور سے دیکھتا ہے اگرچہ ترمذی نے ابو سعید خدری (رض) کی حدیث کو غریب کہا ہے ١ ؎۔ لیکن مسند بزار میں یہ حدیث انس بن مالک (رض) کی روایت ٢ ؎ سے جو ہے اس کی سند معتبر ہے اور اسی مضمون کی حدیث ابن جریر نے بھی ابو سعید سے اور ثوبان (رض) سے روایت کی ہے اور حضرت انس (رض) سے بھی ایسی ہی حدیث نقل کی ہے ٣ ؎۔ پھر اللہ پاک نے فرمایا کہ وہ بستی سدوم ملک شام کی طرف بو دار پانی کے چشمہ کی صورت میں آج تک باقی ہے پھر فرمایا کہ جو لوگ ایماندار ہیں اس قصے سے خدا کی نشانی پہچانتے ہیں پھر بن کے رہنے والی قوم شعیب کے لوگوں کا اور جحیر کے رہنے والی قوم ثمود حضرت صالح (علیہ السلام) کی امت کا قصہ مختصر طور پر ذکر فرما کر قریش کو یہ تنبیہ فرمائی کہ ایک دن قیامت ضرور آنے والی ہے تاکہ نیک و بد کی جزا و سزا ہو کر دنیا کا پیدا کیا جانا ٹھکانے سے لگے کیونکہ آسمان و زمین کو اللہ تعالیٰ نے کھیل تماشے کے طور پر نہیں پیدا کیا ہے اگر ان کے پیدا کرنے میں جزا و سزا کی حکمت کا انکار کیا جاوے تو ان کا پیدا کیا جانا کھیل تماشے کے طور پر ٹھہرتا ہے جو اللہ کی شان سے بہت بعید ہے سورت اعراف میں ترتیت وار پہلے ثمود کا اور پھر قوم لوط اور قوم شعیب کا قصہ تفصیل سے گزر چکا ہے یہاں یہ قصے قریش کی تنبیہ کے بلا ترتیب مختصر طور پر ذکر فرمائے ہیں۔ حاصل کلام یہ ہے کہ سورت اعراف کے مفصل قصے ان مختصر قصوں کی گویا تفسیر میں { فمآ اغنی عنہم ما کانوا یکسبون } اس کا مطلب یہ ہے کہ کھیتی اور دودھ کے جن جانوروں کو یہ لوگ اپنی بڑی کمائی جانتے تھے اور اس کمائی کی حمایت میں انہوں نے معجزہ کی اونٹنی کو ہلاک کر ڈالا آخر کو وہ کمائی ان لوگوں کے کچھ کام نہ آئی۔ بعضے مفسروں نے حکم جہاد اس آیت کو منسوخ کہا ہے لیکن یہ اوپر ہوچکا ہے کہ حسن خلق اور درگزر کی کوئی آیت حکم جہاد سے منسوخ نہیں ہے۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے ابو سعید خدری (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کسی امر خلاف شریعت کو ہاتھ سے مٹانے کی طاقت جب اہل اسلام میں نہ ہو تو ایسے وقت پر زبانی وعظ و نصیحت کافی ہے ٤ ؎۔ اس حدیث سے ان علماء کے قول کی پوری تائید ہوتی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ ضعف اسلام کے وقت درگزر کا حکم قیامت تک باقی ہے اسی واسطے اللہ کے رسول نے ضعف اسلام کے وقت کسی امر خلاف شریعت کے ہاتھ مٹانے سے کی جگہ زبانی وعظ و نصیحت کو جائز رکھا ہے ورنہ منسوخ حکم کے موافق عمل کرنے کا آپ ہرگز حکم نہ دیتے۔ آیت کے اس ٹکڑے کا حاصل مطلب یہ ہے کہ پہلی امتوں کی تباہی کے قصے سنا کر ان مشرکین مکہ کی تنبیہ کردی گئی ہے اس پر بھی یہ لوگ اپنی شرارت سے باز نہ آویں تو ضعفی اسلام کے زمانے تک درگز کو کام میں لایا جاوے۔ ١ ؎ جامع ترمذی ص ١٤٠ ج ٢ تفسیر سورت الحجر و تفسیر ابن کثیر ٥٥٥ ج ٢۔ ٢ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٥٥٥ ج ١٢ والدار المنثور ص ١٠٣ ج ٤۔ ٣ ؎ تفسیر ابن جریر ص ٤٦۔ ٤٧ ج ١٤۔ ٤ ؎ صحیح مسلم ص ٥٢ ج ١ باب بیان کون النہی عن المنکر الایمان الخ۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ بدمعاشوں کی بدمعاشی کا منظر پیش کرنے کے بعد ان کا انجام بیان کیا گیا ہے۔ ملائکہ نے حضرت لوط (علیہ السلام) کو پہلے ہی بتلا دیا تھا کہ صبح کے وقت آپ کی قوم کو اللہ کا عذاب آلے گا۔ جونہی عذاب کی گھڑی آپہنچی تو حضرت جبرئیل امین (علیہ السلام) نے پوری بستی کو اٹھایا اور اس قدر اونچا لے جا کر اسے الٹ کر زمین پردے مارا کہ بستی والوں کے چیخنے کی آوازیں آسمان کے ملائکہ تک نے سنیں۔ جس پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ سورج نکلنے کے قریب ہی وہ پکڑے گئے اور ہم نے اس بستی کے اوپر کے حصہ کو نیچے کردیا اور پھر ان پر پتھر برسائے گئے جن پر مخصوص نشان لگے ہوئے تھے۔ (الذاریات : ٣٤) ارشاد ہوتا ہے کہ اس واقعہ میں صاحب بصیرت لوگوں کے لیے بڑی عبرت ہے اور یہ علاقہ شاہراہ عام پر واقع ہے۔ قوم لوط کی بستیاں مدینہ سے مدین جاتے ہوئے راستے میں پائی جاتی ہیں اور آج بھی ان کے کھنڈرات عبرت کا نقشہ پیش کر رہے ہیں۔[ رواہ البخاری : کتاب الانبیاء باب قولہٖ تعالیٰ والیٰ ثمود اخاھم صالحا ] دنیا کے موجو دہ جغرافیے میں یہ بحر مردار اردن کی سر زمین میں واقع ہے۔ پچاس میل لمبا، گیارہ میل چوڑا ہے اس کا کل رقبہ ٣٥١ مربع میل ہے۔ اس کی زیادہ سے زیادہ گہرائی تیرہ سو فٹ پیمائش کی گئی ہے۔ یہ اسرائیل اور اردن کی سرحد پر واقع ہے اور اس کا کسی بڑے سمندر کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ گویا کہ یہ ایک بہت بڑی جھیل بن چکی ہے۔ اس کی نمکیات اور کیمیائی اجزاء عام سمندروں سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کے قریب ترین سمندر بحر روم ہے۔ جدید محققین نے اسی جگہ پر لوط (علیہ السلام) کی قوم کی بستیوں کی نشاندہی کی ہے۔ جو کسی زمانے میں یہاں صدوم عمود کے نام سے بڑے شہر آباد تھے۔ مصر کے محقق عبدالوہاب البخار نے بھرپور دلائل کے ساتھ یہ ثابت کیا ہے کہ عذاب سے پہلے اس جگہ پر کوئی سمندر نہیں تھا۔ جب اللہ کے عذاب کی وجہ سے اس علاقے کو الٹ دیا گیا تو یہ ایک چھوٹے سے سمندر کی شکل اختیار کر گیا۔ “ ١۔ اس کے پانی کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں نمکیات کا تناسب پچیس فیصد ہے جب کہ دنیا کے تمام سمندروں میں نمکیات کا تناسب چار سے چھ فیصد شمار کیا گیا ہے۔ ٢۔ اس کے کنارے نہ کوئی درخت ہے اور نہ ہی اس میں کوئی جانور زندہ رہ سکتا ہے حتی کہ سیلاب کے موقع پر دریائے اردن سے آنے والی مچھلیاں اس میں داخل ہوتے ہی تڑپ تڑپ کر مرجاتی ہیں۔ اہل عرب اس کو بحیرہ لوط بھی کہتے ہیں۔ اس صورت حال کو قرآن مجید نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔ مسائل ١۔ قوم لوط کو آواز نے پکڑ لیا۔ ٢۔ قوم لوط کی بستی کو الٹ دیا گیا۔ ٣۔ قوم لوط پر پتھروں کی بارش برسائی گئی۔ ٤۔ اہل بصیرت کے لئے اس واقعہ میں نشانیاں ہیں۔ ٥۔ قوم لوط کی بستی ایک آباد راستہ پر ہے۔ تفسیر بالقرآن قوم لوط کے واقعہ کی تفسیر : ١۔ ہم نے اس بستی کو الٹ کر ان پر پتھروں کی بارش برسائی۔ (الحجر : ٧٤) ٢۔ ان کے پاس ان کی قوم کے لوگ دوڑتے ہوئے آئے اور وہ پہلے سے ہی بدکاریاں کیا کرتے تھے۔ (ھود : ٧٨) ٣۔ لوط نے کہا کہ کاش میرے پاس طاقت ہوتی یا میں کوئی مضبوط پناہ گاہ پاتا۔ (ھود : ٨٠) ٤۔ ہم نے اوپر والی سطح کو نیچے کردیا اور ہم نے ان پر پتھروں کی بارش برسا دی جو تہہ بہ تہہ تھے خاص نشان لگے ہوئے۔ (ھود : ٨٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر ٧٣ تا ٧٤ حضرت لوط (علیہ السلام) کی بستیوں پر جو عذاب آیا وہ بظاہر شدید زلزلے اور آتش فشانی کے مشابہ ہے ، جس میں گاؤں کے گاؤں دھنس جاتے ہیں ، جس میں پتھروں کی بارش بھی ہوتی ہے اور جس میں خاک آلود پتھر بھی ہوتے ہیں اور ہمہ گیر تباہی ہوتی ہے۔ کہا جاتا ہے بحیرۂ لوط اس ہمہ گیر حادثے کے بعد نمودار ہوا ، اس وقت جب سدوم کی پوری کی پوری آبادی زمین میں دھنس گئی ، اور اس جگہ اس قدر بڑا گڑھا نمودار ہوا کہ وہاں پانی جمع ہو کر بحیرہ بن گیا۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم کی یہ بستیاں حجاز سے شام جاتے ہوئے شارع عام پر واقعہ تھیں اور ان کو دیکھ کر ہر عقل مند اور ذی بصیرت شخص عبرت حاصل کرسکتا ہے لیکن یہ تمام آیات و نشانات صرف ان دلوں کے لئے مفید ہوتے ہیں جن میں صلاحیت ہو اور جو ہدایت کے لئے کھلے ہوں اور جن میں حقیقی ایمانی نظریات موجود ہوں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

25:۔ ترتیب قصہ میں یہ ” مَقْطُوْعٌ مُّصْبِحِیْنَ “ کے بعد ہے۔ ” مُشْرِقِیْنَ “ یہ ” اَخَذْتُھُمْ “ میں ضمیر مفعول سے حال ہے یعنی عذاب نے ان کو سورج چمکنے تک اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ عذاب کی ابتداء صبح صادق سے ہوئی اور سورج چمکنے تک ان کا کام تمام کردیا گیا۔ قیل اول العذاب کان عند الصبح وامتد الی شروق الشمس فکان تمام الہلاک عند ذلک (قرطبی ج 10 ص 42) ۔ ” اَلْمُتَوَسِّمِیْنَ اي الْمُتَفَکِّرِیْنَ “ یعنی دھیان دینے اور غور و فکر کرنے والے اصل میں اس کے معنی ہیں الناظرین الی سمۃ الشیء۔ یہاں سوچ بچار سے کنایہ ہے۔ ” سَبِیْلٍ مُّقِیْمٍ “ شاہراہ عام جرنیلی سڑک، قائم اور ثابت راستہ جو ابھی تک موجود ہے اور لوگ اس پر آمد و رفت رکھتے اور قوم لوط کی ہلاکت کے آثار دیکھتے ہیں۔ (” لَبِسَبِیْلٍ مُّقِیْمٍ “ ) ثابت یسل کہ الناس لم یندرس بعدوھم یبصرون تلک الاثار وھو تنبیہ لقریش الخ (مدارک ج 2 ص 213) ۔ اہل مکہ ! دیکھ لو قوم لوط نے ہمارا پیغام نہ مانا تو ہم نے ان کا کیا حشر کیا تم ان کی بستی کے پاس سے گذرتے ہوئے ان کی تباہی کے آثار اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہو۔ ان کے انجام سے عبرت حاصل کرو اور عناد و الحاد سے باز آجاؤ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

73 ۔ بالآخر سورج کے نکلتے ان کو ایک ہولناک آواز اور چنگھاڑنے آپکڑا۔