Surat ul Hijir

Surah: 15

Verse: 75

سورة الحجر

اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّلۡمُتَوَسِّمِیۡنَ ﴿۷۵﴾

Indeed in that are signs for those who discern.

بلاشبہ بصیرت والوں کے لئے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Surely, in this are signs for those who see. meaning that the traces of the destruction of that city are easily visible to any one who ponder about it, whether they look at it with physical eyesight or mental and spiritual insight, as Mujahid said concerning the phrase, لِّلْمُتَوَسِّمِينَ (those who see) he said, "those who have insight and discernment." It was reporte... d from Ibn Abbas and Ad-Dahhak that; it referred to those who look. Qatadah said: "those who learn lessons." لِّلْمُتَوَسِّمِينَ (those who see), therefore the meaning is "those who ponder." The City of Sodom on the Highroad Allah tells; وَإِنَّهَا لَبِسَبِيلٍ مُّقيمٍ   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

75۔ 1 گہری نظر سے جائزہ لینے اور غور وفکر کرنے والوں کو مُتَوَسِّمِیْنَ کہا جاتا ہے۔ مُتَوَسِّمِیْنَ کے لئے اس واقعے میں عبرت کے پہلو اور نشانیاں ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٩] متوسم سے مراد وہ لوگ ہیں جو قرائن و علامات اور آثار سے کسی نتیجہ پر پہنچنے کی اہلیت رکھتے ہوں یعنی غور و فکر اور دھیان کرنے والے اہل دانش کے لیے اس واقعہ لوط میں عبرت کے بہت سے نشان موجود ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ ۔۔ : ” لِّلْمُتَوَسِّمِيْنَ “ یہ ” وَسْمٌ، سِمَۃٌ“ سے باب تفعل کا اسم فاعل ہے۔ ” وَسْمٌ“ کا معنی نشان ہے، خصوصاً جو گرم لوہے کے ساتھ اونٹ یا گھوڑے پر لگایا جاتا ہے۔ ” مِیْسَمٌ“ گرم کرکے نشان لگانے کا آلہ۔ نشانات کو دیکھ کر بات کی تہ تک پہنچنا ” تَوَسَّم “ کہلاتا ہے، یعنی غ... ور و فکر کرنے والوں اور گہری نظر والوں کے لیے ان بستیوں میں عبرت کے بہت سے نشان موجود ہیں ۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Learn Your Essential Lesson From Sites Ruined by Divine Punishment In verses 75 and 76: إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّلْمُتَوَسِّمِينَ ﴿٧٥﴾ وَإِنَّهَا لَبِسَبِيلٍ مُّقِيمٍ ﴿٧٦﴾ (Surely, in that there are signs for those who read signs. And surely, it [ their city ] is located on the straight road), Allah Ta’ ala has pointed out to the geographical location of such ruined cities which fall on the m... ain road which takes people from Arabia to Syria. Also said with it was that in them there are great signs of the perfect power of Allah Ta’ ala for those who believe and have the necessary hindsight and foresight. About this, there is another statement in Surah al-Qasas where it was said: لَمْ تُسْكَن مِّن بَعْدِهِمْ إِلَّا قَلِيلًا (not lived in after them except a little - 28:58). In other words, after their destruction by Divine punishment, these habitations were not repopulated except some. So, by combining these indicators, we can see that Allah Ta’ ala has made these ruined habitations and homes a site from which coming generations could learn their essential lesson. This is the reason why the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، whenever he has passed by these sites, went through a particular emotional state under which he would be overwhelmed by the awe of Almighty Allah and which caused his blessed head to lower down and he would then try to make his mount hasten through these sites. This particular mode of action taken by the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has established the sunnah that making sites which have been hit by Divine punishment a place of picnic and amusement is hard-heartedness at its ugliest. Rather than do something like that, the only method of learning a lesson from them is to think about and feel the very presence of the most perfect power of Allah Ta’ ala on the site being visited which should cause one to tremble with the fear of His punish¬ment. The habitations of the time of Sayyidna Lut (علیہ السلام) which were over-turned are located, as said by the Qur&an, on the Arabia-Syria route. This site is still present in the proximity of Jordan in the form of a wild¬erness below the sea level. On a major portion, flows a particular kind of water like a river. Sea life cannot survive here. Therefore, it is called the Dead Sea or the Sea of Lut (علیہ السلام) .  Show more

جن بستیوں پر عذاب ہوا ان سے عبرت حاصل کرنا چاہئے : (آیت) اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّلْمُتَوَسِّمِيْنَ وَاِنَّهَا لَبِسَبِيْلٍ مُّقِيْمٍ ۔ اس میں حق تعالیٰ نے ان بستیوں کا محل وقوع بیان فرمایا جو عرب سے شام تک جانے والے راستہ پر ہیں اور ساتھ ہی ارشاد فرمایا کہ ان میں اہل بصیرت کے لئے اللہ تعالیٰ ... کی قدرت کاملہ کی بڑی نشانیاں ہیں۔ ایک دوسری آیت میں ان کے متعلق یہ بھی ارشاد ہوا ہے (آیت) لَمْ تُسْكَنْ مِّنْۢ بَعْدِهِمْ اِلَّا قَلِيْلًا یعنی یہ بستیاں عذاب الہی کے ذریعہ ویران ہونے کے بعد پھر دوبارہ آباد نہیں ہوئیں بجز چند بستیوں کے اس مجموعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حق تعالیٰ نے ان بستیوں اور ان کے مکانات کو آنے والی نسلوں کے لئے عبرت کا سامان بنایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب ان مقامات سے گذرے ہیں تو آپ پر ہیبت حق کا ایک خاص حال ہوتا تھا جس سے سر مبارک جھک جاتا تھا اور آپ اپنی سواری کو ان مقامات میں تیز کر کے جلد عبور کرنے کی سعی فرماتے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس عمل نے یہ سنت قائم کردی کہ جن مقامات پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آیا ہے ان کو تماشا گاہ بنانا بڑی قساوت ہے بلکہ ان سے عبرت حاصل کرنے کا طریقہ یہی ہے کہ وہاں پہنچ کر اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا استحضار اور اس کے عذاب کا خوف طاری ہو۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کی بستیاں جن کا تختہ الٹا گیا ہے قرآن کریم کے ارشاد کے مطابق عرب سے شام کو جانے والے راستہ پر اردن کے علاقہ میں آج بھی یہ مقام سطح سمندر سے کافی گہرائی میں ایک عظیم صحرا کی صورت میں موجود ہے اس کے ایک بہت بڑے رقبہ پر ایک خاص قسم کا پانی دریا کی صورت اختیار کئے ہوئے ہے اس پانی میں کوئی مچھلی، مینڈک وغیرہ جانور زندہ نہیں رہ سکتا اس دریا کو میت اور بحر لوط کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے اور تحقیق سے معلوم ہوا کہ درحقیقت اس میں پانی کے اجزاء بہت کم اور تیل کی قسم کے اجزاء زیادہ ہیں اس لئے اس میں کوئی دریائی جانور زندہ نہیں رہ سکتا   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّلْمُتَوَسِّمِيْنَ 75؀ وسم الوَسْمُ : التأثير، والسِّمَةُ : الأثرُ. يقال : وَسَمْتُ الشیءَ وَسْماً : إذا أثّرت فيه بِسِمَةٍ ، قال تعالی: سِيماهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ [ الفتح/ 29] ، وقال : تَعْرِفُهُمْ بِسِيماهُمْ [ البقرة/ 273] ، وقوله : إِنَّ فِي ذل... ِكَ لَآياتٍ لِلْمُتَوَسِّمِينَ [ الحجر/ 75] ، أي : للمعتبرین العارفین المتّعظین، وهذا التَّوَسُّمُ هو الذي سمّاه قوم الزَّكانةَ ، وقوم الفراسة، وقوم الفطنة . قال عليه الصلاة والسلام : «اتّقوا فراسة المؤمن فإنّه ينظر بنور الله» «3» وقال تعالی: سَنَسِمُهُ عَلَى الْخُرْطُومِ [ القلم/ 16] ، أي : نعلّمه بعلامة يعرف بها کقوله : تَعْرِفُ فِي وُجُوهِهِمْ نَضْرَةَ النَّعِيمِ [ المطففین/ 24] ، والوَسْمِيُّ : ما يَسِمُ من المطر الأوّل بالنّبات . ( وس م ) الوسم ( ض ) کے معنی نشان اور داغ لگانے کے ہیں اور سمۃ علامت اور نشان کو کہتے ہیں چناچہ محاورہ ہے ۔ وسمت الشئی وسما میں نے اس پر نشان لگایا ۔ قرآن میں ہے : ۔ سَنَسِمُهُ عَلَى الْخُرْطُومِ [ القلم/ 16] ہم عنقریب اس کی ناک پر داغ لگائیں گے ؛ یعنی اس کی ناک پر ایسا نشان لگائیں گے جس سے اس کی پہچان ہو سکے گی ۔ جیسا کہ مو منین کے متعلق فرمایا : ۔ تَعْرِفُ فِي وُجُوهِهِمْ نَضْرَةَ النَّعِيمِ [ المطففین/ 24] تم ان کے چہروں ہی سے راحت کی تازگی معلوم کر لوگے ۔ سِيماهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ [ الفتح/ 29] کثرت سجود گے اثر سے ان کی پیشانیوں پر نشان پڑے ہوئے ہیں ۔ تَعْرِفُهُمْ بِسِيماهُمْ [ البقرة/ 273] اور تم قیافے سے ان کو صاف پہچان لوگے ۔ التوسم کے معنی آثار وقرائن سے کسی چیز کی حقیقت معلوم کرنے کی کوشش کر نا کے ہیں اور اسے علم ذکانت فراصت اور فطانت بھی کہا جاتا ہے حدیث میں یعنی مومن کی فراست سے ڈرتے رہو وہ خدا تعالیٰ کے عطا کئے ہوئے نور توفیق سے دیکھتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ فِي ذلِكَ لَآياتٍ لِلْمُتَوَسِّمِينَ [ الحجر/ 75] بیشک اس ( قصے ) میں اہل فراست کے لئے نشانیاں ہیں ۔ یعیہ ان کے قصہ میں عبرت اور نصیحت حاصل کرنے والوں کے لئے بہت سے نشا نات ہیں الوسمی ۔ موسم بہار کی ابتدائی بارش کو کہتے ہیں  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٥ (اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّلْمُتَوَسِّمِيْنَ ) ” متوسمین “ سے مراد وہ لوگ ہیں جو آیات آفاقیہ ‘ آیات تاریخیہ ‘ آیات انفسیہ یا آیات قرآنیہ کے ذریعے سے حقیقت کو جاننا اور پہچاننا چاہیں۔ اسم (اصل مادہ ” س م و “ ہے۔ الف اس کے حروف اصلیہ میں سے نہیں ہے) کے معنی علامت کے ہیں۔ اردو میں لفظ ” اسم...  “ کو نام کے مترادف کے طور پر جانا جاتا ہے ‘ اس لیے کہ کسی چیز یا شخص کا نام بھی ایک علامت کا کام دیتا ہے جس سے اس کی پہچان ہوتی ہے۔ لہٰذا جو اصحاب بصیرت علامتوں سے متوسم (باب تفعل) ہوتے ہیں ‘ ان کے لیے ایسے واقعات میں سامان عبرت موجود ہے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(15:75) متوسمین۔ اسم فاعل۔ جمع مذکر۔ المتوسم واحد توسم (تفعل) مصدر۔ اہل فراست۔ علامات سے اندازہ کرنے والے۔ نتیجے اخذ کرتے ہیں۔ الوسم (باب ضرب) کے معنی داغ اور نشان لگانے کے ہیں۔ اور سمۃ علامت اور نشان کو کہتے ہیں جیسا کہ قرآن مجید میں ہے۔ سنسمہ علی الخرطوم۔ (68:16) ہم عنقریب اس کی ناک پر داغ لگائیں ... گے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ مثلا ایک یہ کہ فعل بد کا نتیجہ بد ہوتا ہے، ایک یہ کہ ایمان و اطاعت سے نجات ہوتی ہے، ایک یہ کہ اللہ کو بڑی قدرت ہے کہ اسباب طبعیہ کے خلاف جو چاہے کردے وغیر ذلک۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر ٧٥ تا ٧٧ یہ تھی تصدیق ایک سچے ڈرانے والے کی ، فرشتوں کا نزول دراصل اعلان نزول عذاب الٰہی تھا اور جب یہ عذاب آتا ہے تو پھر وہ ٹلتا نہیں اور نہ اس میں تاخیر ممکن ہوتی ہے اور نہ پھر مہلت عمل ملتی ہے۔ ٭٭٭ یہی صورت حال اصحاب ایکہ کو پیش آئی جو حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم دعوت تھے۔ (ایکہ کا...  مفہوم گھنے جنگلات والے ، حضرت شعیب (علیہ السلام) اصحاب ایکہ اور قوم مدین کی طرف بھیجے گئے تھے ) یہی حالات قوم صالح کے ساتھ پیش آئے جنہیں حجر والے بھی کہا جاتا ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

75 ۔ بیشک اس واقعہ میں اہل بصیرت اور اہل فراست کے لئے بڑی نشانیاں ہیں۔