Surat ul Hijir

Surah: 15

Verse: 8

سورة الحجر

مَا نُنَزِّلُ الۡمَلٰٓئِکَۃَ اِلَّا بِالۡحَقِّ وَ مَا کَانُوۡۤا اِذًا مُّنۡظَرِیۡنَ ﴿۸﴾

We do not send down the angels except with truth; and the disbelievers would not then be reprieved.

ہم فرشتوں کو حق کے ساتھ ہی اتارتے ہیں اور اس وقت وہ مہلت دیئے گئے نہیں ہوتے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

We do not send the angels down except with the truth, and in that case, they (the disbelievers) would have no respite! Mujahid said in this Ayah: مَا نُنَزِّلُ الْمَليِكَةَ إِلاَّ بِالحَقِّ (We do not send the angels down except with the truth), "i.e., with the Message and the punishment." إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

8۔ 1 اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ فرشتے ہم حق کے ساتھ بھیجتے ہیں یعنی جب ہماری حکمت و مشیت عذاب بھیجنے کا تقاضا کرتی ہے تو پھر فرشتوں کا نزول ہوتا ہے اور پھر وہ مہلت نہیں دیئے جاتے، فوراً ہلاک کردیئے جاتے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤] فرشتے کن کن حالات میں آتے ہیں ؟ ہم فرشتے نہ تو تماشہ دکھانے کے لیے اتارتے ہیں اور نہ اس لیے اتارتے ہیں کہ وہ لوگوں کو ایمان لانے پر مجبور کردیں۔ بلکہ فرشتے تو مجرموں پر قہرالٰہی بن کر آتے ہیں۔ جیسے غزوہ بدر میں آئے تھے یا تمہاری جانیں نکالنے کے لیے آتے ہیں یا پھر کسی قوم کو صفحہ ئہستی سے نیست و نابود کرنے کے لیے آتے ہیں۔ پھر جب یہ آجاتے ہیں تو تمہارا کام تمام کرکے چھوڑتے ہیں۔ اس وقت ان کے آنے کی نہ تمہیں آرزو ہوتی ہے اور نہ ہی ان کے آنے کا تمہیں کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ وہ اپنے مقررہ وقت سے پہلے نہیں آتے۔ لیکن جب وہ آتے ہیں تو اپنا کام کرکے جاتے ہیں۔ اس وقت مہلت دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

مَا نُنَزِّلُ الْمَلٰۗىِٕكَةَ اِلَّا بالْحَقِّ ۔۔ : یعنی فرشتے تو عین اس وقت نازل ہوتے ہیں جب کسی شخص کی موت کا وقت آگیا ہو، یا کسی قوم پر عذاب کا قطعی فیصلہ ہوچکا ہو، اس کے بعد انھیں مہلت نہیں دی جاتی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Explanatory Notes 1. The word: الْحَقِّ (what is true) in: إِلَّا بِالْحَقِّ (ilia bi al-l aqq: translated as &except with what is true& ) means the decision to send down punish¬ment. Some commentators take them to be denoting the Qur’ an, or pro¬phethood. In Bayan al-Qur&an, preference has been given to the first meaning which has been reported from al-Hasan al-Basri (رح) . Maulana Ash¬raf ` Ali Thanavi (رح) has explained these verses as given below. And these disbelievers (of Makkah) said to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : |"0 you to whom the Qur’ an has been revealed, (as you claim, then,) you are certainly (God forbid) insane (and your claim to prophethood is false, otherwise) why would you not bring the angels to us (who will testify your truthfulness before us - as in Surah Al-Furqan: لَوْلَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مَلَكٌ فَيَكُونَ مَعَهُ نَذِيرً‌ا : &Why is not an angel sent down unto him, to be a warner with him? [ 25:7] which is answered by Allah Ta’ ala:) We send down the angels (in the manner asked by them) only to enforce a decision (and had that been the case) then they would have been given no respite either (in fact, when they would have not believed even after their having come - as their ways guarantee - they would have been destroyed instantly, the re¬ason for which has already appeared in the later verses of the first sec¬tion of Surah Al-An’ am: 6:8, 9).

خلاصہ تفسیر : (الا بالحق۔ میں لفظ حق سے مراد فیصلہ عذاب ہے اور بعض مفسرین نے قرآن یا رسالت کو مراد قرار دیا ہے بیان القرآن میں پہلے معنی کو ترجیح دی ہے یہ معنی حضرت حسن بصری سے منقول ہیں تفسیر آیات یہ ہے) اور ان کفار (مکہ) نے (رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے) یوں کہا اے وہ شخص جس پر (اس کے دعوے کے مطابق) قرآن نازل کیا گیا ہے تم (نعوذ باللہ) مجنون ہو ( اور نبوت کا غلط دعوی کرتے ہو ورنہ) اگر تم (اس دعوے میں) سچے ہو تو ہمارے پاس فرشتوں کو کیوں نہیں لاتے (جو ہمارے سامنے تمہارے صدق کی گواہی دیں کقولہ تعالیٰ (آیت) لَوْلَآ اُنْزِلَ اِلَيْهِ مَلَكٌ فَيَكُوْنَ مَعَهٗ نَذِيْرًا اللہ تعالیٰ جواب دیتے ہیں کہ) ہم فرشتوں کو (جس طریق پر وہ درخواست کرتے ہیں) صرف فیصلہ ہی کے لئے نازل کیا کرتے ہیں اور (اگر ایسا ہوتا تو) اس وقت ان کو مہلت بھی نہ دی جاتی (ہم فرشتوں کو (جس طریق پر وہ درخواست کرتے ہیں) صرف فیصلہ ہی کے لئے نازل کیا کرتے ہیں اور (اگر ایسا ہوتا تو) اس وقت ان کو مہلت بھی نہ دی جاتی (بلکہ جب ان کے آنے پر بھی ایمان نہ لاتے جیسا کہ ان کے حالات سے ہی متیقن ہے تو فورا ہلاک کردئیے جاتے جیسا کہ سورة انعام کے اول رکوع کی اخیر آیتوں میں اس کی وجہ مذکور ہوچکی ہے)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

مَا نُنَزِّلُ الْمَلٰۗىِٕكَةَ اِلَّا بِالْحَقِّ وَمَا كَانُوْٓا اِذًا مُّنْظَرِيْنَ ۝ نظر النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظَرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] أي : تَأَمَّلُوا . والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] ، ( ن ظ ر ) النظر کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔ اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨) اللہ تعالیٰ جواب دیتے ہیں کہ ہم فرشتوں کو صرف ہلاکت اور تمہاری ارواح قبض کرنے کے لیے نازل کیا کرتے ہیں اور جب ان پر فرشتے نازل کیے جاتے تو پھر ان کو مہلت بھی نہ دی جاتی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨ (مَا نُنَزِّلُ الْمَلٰۗىِٕكَةَ اِلَّا بالْحَقِّ ) یعنی یہ لوگ فرشتوں کو بلانا چاہتے ہیں یا اپنی شامت کو ؟ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ عاد وثمود اور قوم لوط پر فرشتے نازل ہوئے تو کس غرض سے نازل ہوئے ! انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ فرشتے جب کسی قوم پر نازل ہوتے ہیں تو آخری فیصلے کے نفاذ کے لیے نازل ہوتے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

4. This was a sarcastic remark that was made by the opponents, for they did not acknowledge that the admonition had been sent down to the Prophet (peace be upon him): otherwise they could not say that he was insane. What they really meant by this remark was: You, who claim that the admonition has been sent down to you, are insane. A similar remark was also made by Pharaoh concerning Prophet Moses (peace be upon him). Addressing his courtiers, he said: The Messenger who has been sent to you is insane. (Surah Ash-Shuara, Ayat 27). 5. “We do not send down the angels.” We do not send down the angels for the mere fun of it in response to the request of the people, nor are they sent to unveil the reality before them in order to show to them all the unseen things to which the Messengers invite them to believe. As a matter of fact, angels are sent down on that occasion when it is decreed to pass judgment on sane wicked people. At that time the judgment comes into operation without extending any invitation to the condemned people to accept the message, for their period of respite ends as soon as the reality is unveiled before them. “Except with truth.” They bring down truth with them. That is, they come down to eradicate falsehood and to establish truth in its stead. Or, in other words, it means, they come down to put into force the judgment of Allah.

سورة الْحِجْر حاشیہ نمبر :5 ”یعنی فرشتے محض تماشا دکھا نے کے لیے نہیں اتارے جاتے کہ جب کسی قوم نے کہا بلاؤ فرشتوں کو اور وہ فورا حاضر ہوئے ۔ نہ فرشتے اس غرض کے لیے کبھی بھیجے جاتے ہیں کہ وہ آکر لوگوں کے سامنے حقیقت کو بے نقاب کریں اور پردہ غیب کا چاک کر کے وہ سب کچھ دکھا دیں جس پر ایمان لانے کی دعوت انبیاء علیہم السلام نے دی ہے ۔ فرشتوں کو بھیجنے کا وقت تو وہ آخری وقت ہوتا ہے جب کسی قوم کا فیصلہ چکا دینے کا ارادہ کر لیا جاتا ہے ۔ اس وقت بس فیصلہ چکایا جاتا ہے ، یہ نہیں کہا جاتا کہ اب ایمان لاؤ تو چھوڑے دیتے ہیں ۔ ایمان لانے کی جتنی مہلت بھی ہے اسی وقت تک ہے جب تک کہ حقیقت بے نقاب نہیں ہو جاتی ۔ اس کے بے نقاب ہو جانے کے بعد ایمان لانے کا کیا سوال ۔ ” حق کے ساتھ اترتے ہیں“ کا مطلب ” حق لے کر اترنا “ ہے ۔ یعنی وہ اس لیے آتے ہیں کہ باطل کو مٹا کر حق کو اس کی جگہ قائم کر دیں ۔ یا دوسرے الفاظ میں یوں سمجھیے کہ وہ اللہ تعالی کا فیصلہ لے کر آتے ہیں اور اسے نافذ کر کے چھوڑتے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

2: یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرشتے اتارنے کی فرمائش کا جواب ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جس قوم کے لیے کوئی پیغمبر بھیجا گیا ہو، اس کے پاس ہم فرشتے اس وقت اتارتے ہیں جب اس قوم کی نافرمانی حد سے گذر جاتی ہے، اور اس فیصلے کا وقت آجاتا ہے کہ اب ان پر عذاب نازل ہوگا۔ اور جب یہ فیصلہ کر کے فرشتے بھیج دئیے جاتے ہیں تو پھر اس قوم کو ایمان لانے کی مہلت نہیں ملتی۔ کیونکہ یہ دنیا ایک امتحان کی جگہ ہے۔ یہاں انسان سے جو ایمان مطلوب ہے وہ ایمان بالغیب ہے جس میں انسان اپنی عقل اور سمجھ کو کام میں لا کر اللہ تعالیٰ اور اس کی توحید کے آگے سر تسلیم خم کرے۔ اگر غیب کی ساری چیزیں دنیا میں دکھا دی جائیں تو امتحان ہی کیا ہوا؟

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(15:8) ما کانوا۔ کی ضمیر فاعل کا مرجع کفار و منکرین مکہ ہیں۔ اذا۔ تب۔ اس وقت۔ جواب وجزاء کے لئے بھی آتا ہے۔ جواب ان کے سوال کا کہ لو ما تأتینا بالملئکۃ ان کنت من الصادقین اور جزاء شرط مقدر کی۔ تقدیر کلام یوں ہے ! ولو نزلنا الملئکۃ ما کانوا منظرین وما اخر عذابہم۔ اور اگر ہم فرشتے اتار دیں تو نہ ان کو مہلت دی جائے گی اور نہ ان کا عذاب ٹل سکے گا۔ منظرین۔ اسم مفعول جمع مذکر۔ انظار (افعال) مصدر۔ مہلت دیئے ہوئے۔ جن کو مہلت دی گئی ہو۔ منصوب بوجہ خبر کانوا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 ۔ یعنی فرشتے تو عین اس وقت نازل ہوتے ہیں جب کسی قوم پر عذاب نازل کرنے کا قطعی فیصلہ ہوجائے۔ اس کے بعد انہیں مہلت نہیں دی جاتی۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

8 ۔ ہم فرشتے نہیں نازل کیا کرتے مگر آخری فیصلے کے لئے اور اس وقت جبکہ فرشتے آجائیں اور ہم فرشتوں کو اتاردیں تو اس کے بعد یہ لوگ مہلت بھی نہیں دیئے جاتے ۔ یعنی فرشتے بلا کسی صحیح وجہ کے نہیں اتارے جاتے وہ تو جب کسی قوم کے متعلق آخری فیصلہ ہوجاتا تو عذاب لیکر اترتے ہیں پھر اس وت مہلت اور ڈھیل کہاں ۔ ان کا مطالبہ یہ تھا کہ فرشتے کھلم کھلا ہمارے سامنے آئیں ۔ جواب دیا گیا کہ فرشتے تو انسانوں پر یا عذاب کے وقت اترتے ہیں یا موت کے وقت پھر اس وقت مہلت بھی نہیں ملتی۔ اس مطالبہ کا جواب قرآن کریم میں اور بھی بہت جگہ دیا گیا ہے یہ بات ان کے عناد اور لعنت سے ظاہر تھی کہ یہ فرشتوں کے آنے کے بعد ایمان نہ لاتے اور کوئی اور عذر تراش لیتے۔