Surat ul Hijir

Surah: 15

Verse: 80

سورة الحجر

وَ لَقَدۡ کَذَّبَ اَصۡحٰبُ الۡحِجۡرِ الۡمُرۡسَلِیۡنَ ﴿ۙ۸۰﴾

And certainly did the companions of Thamud deny the messengers.

اور حجر والوں نے بھی رسولوں کو جھٹلایا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Destruction of the Dwellers of Al-Hijr, Who are the People called Thamud Allah tells; وَلَقَدْ كَذَّبَ أَصْحَابُ الحِجْرِ الْمُرْسَلِينَ وَاتَيْنَاهُمْ ايَاتِنَا فَكَانُواْ عَنْهَا مُعْرِضِينَ

آل ثمود کی تباہیاں حجر والوں سے مراد ثمودی ہیں جنہوں نے اپنے نبی حضرت صالح علیہ السلام کو جھٹلایا تھا اور ظاہر ہے کہ ایک نبی کا جھٹلانے والا گویا سب نبیوں کا انکار کرنے والا ہے ۔ اسی لئے فرمایا گیا کہ انہوں نے نبیوں کو جھٹلایا ۔ ان کے پاس ایسے معجزے پہنچے جن سے حضرت صالح علیہ السلام کی سچائی ان پر کھل گئی ۔ جیسے کہ ایک سخت پتھر کی چٹان سے اونٹنی کا نکلنا جو ان کے شہروں میں چرتی چگتی تھی اور ایک دن وہ پانی پیتی تھی ایک دن شہروں کے جانور ۔ مگر پھر بھی یہ لوگ گردن کش ہی رہے بلکہ اس اونٹنی کو مار ڈالا ۔ اس وقت حضرت صالح علیہ السلام نے فرمایا بس اب تین دن کے اندر اندر قہرے الہی نازل ہو گا ۔ یہ بالکل سچا وعدہ ہے اور اٹل عذاب ہے ان لوگوں نے اللہ کی بتلائی ہوئی راہ پر بھی اپنے اندھاپے کو ترجیح دی ۔ یہ لوگ صرف اپنی قوت جتانے اور ریا کاری ظاہر کرنے کے واسطے تکبر و تجبر کے طور پر پہاڑوں میں مکان تراشتے تھے ۔ کسی خوف کے باعث یا ضرورتا یہ چیز نہ تھی ۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تبوک جاتے ہوئے ان کے مکانوں سے گزرے تو آپ نے سر پر کپڑا ڈال لیا اور سواری کو تیز چلایا اور اپنے ساتھیوں سے فرمایا کہ جن پر عذاب الہی اترا ہے ان کی بستیوں سے روتے ہوئے گزرو ۔ اگر رونا نہ آئے تو رونے جیسی شکل بنا کر چلو کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ انہیں عذابوں کا شکار تم بھی بن جاؤ آخر ان پر ٹھیک چوتھے دن کی صبح عذاب الہی بصورت چنگھاڑ آیا ۔ اس وقت ان کی کمائیاں کچھ کام نہ آئیں ۔ جن کھیتوں اور پھولوں کی حفاظت کے لئے اور انہیں بڑھانے کے لئے ان لوگوں نے اونٹنی کا پانی پینا نہ پسند کر کے اسے قتل کر دیا وہ آج بےسود ثابت ہوئے اور امر رب اپنا کام کر گیا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

80۔ 1 حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم ثمود کی بستیوں کا نام تھا۔ انھیں ( اَصْحٰبُ الْحِـجْرِ ) 15 ۔ الحجر :80) (حجر والے) کہا گیا ہے۔ یہ بستی مدینہ اور تبوک کے درمیان تھی۔ انہوں نے اپنے پیغمبر حضرت صالح (علیہ السلام) کو جھٹلایا۔ لیکن یہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ' انہوں نے پیغمبروں کو جھٹلایا، یہ اس لئے کہ ایک پیغمبر کی تکذیب ایسے ہی ہے جیسے سارے پیغمبروں کی تکذیب۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٢] وادی حجر کے لوگوں سے مراد قوم ثمود ہے جس کی طرف صالح (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا گیا تھا اور یہاں جو ایک رسول کے بجائے کئی رسولوں کا ذکر فرمایا تو یہ اس لحاظ سے ہے کہ تمام رسولوں کی بنیادی تعلیم ایک ہی رہی ہے لہذا ایک رسول کو جھٹلانا سب رسولوں کو جھٹلانے کے مترادف ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَقَدْ كَذَّبَ اَصْحٰبُ الْحِـجْرِ الْمُرْسَلِيْنَ : ” الْحِـجْرِ “ اصل میں اس جگہ کو کہتے ہیں جسے پتھروں سے گھیرا گیا ہو، جیسا کہ حطیم کو بھی حجر کہہ لیتے ہیں۔ ” حَجَرَ یَحْجُرُ “ کا معنی روکنا بھی ہے، تو ” الْحِـجْرِ “ وہ جگہ جہاں عام لوگوں کا آنا جانا ممنوع ہو۔ یہ اس سورت میں چوتھا قصہ ہے۔ ” الْحِـجْرِ “ شام اور مدینہ منورہ کے درمیان ایک مقام ہے، جو صالح (علیہ السلام) کی قوم ثمود کے لوگوں کا مرکز تھا، یہ جگہ خیبر سے تبوک جانے والی سڑک پر واقع ہے اور اب ” مدائن صالح “ کے نام سے مشہور ہے۔ یہ علاقہ ” العُلاء “ سے چند میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ حجاز سے شام کو جو قافلے جاتے ہیں وہ لازماً یہاں سے گزر کر جاتے ہیں اور یہ اس ریلوے لائن کا ایک سٹیشن بھی ہے جو ترکوں کے زمانہ میں مدینہ سے دمشق کو جاتی تھی۔ اس قوم کے مفصل حالات سورة ہود (٦٥ تا ٦٨) ، سورة اعراف، سورة قمر اور سورة شعراء میں ملاحظہ فرمائیں۔ الْمُرْسَلِيْنَ : ایک رسول کو جھٹلانا چونکہ سب کو جھٹلانا ہے، اس لیے ان کے بارے میں فرمایا گیا کہ انھوں نے رسولوں کو جھٹلا دیا۔ (روح المعانی)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ كَذَّبَ اَصْحٰبُ الْحِـجْرِ الْمُرْسَلِيْنَ 80؀ۙ صدق وکذب الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ص دق) الصدق ۔ الکذب یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ حجر الحَجَر : الجوهر الصلب المعروف، وجمعه : أحجار وحِجَارَة، وقوله تعالی: وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجارَةُ [ البقرة/ 24] ( ح ج ر ) الحجر سخت پتھر کو کہتے ہیں اس کی جمع احجار وحجارۃ آتی ہے اور آیت کریمہ : وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجارَةُ [ البقرة/ 24] جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہوں گے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٠۔ ٨١) اور حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم نے بھی حضرت صالح (علیہ السلام) اور تمام رسولوں کو جھٹلایا اور ہم نے ان کو اپنی نشانیاں یعنی اونٹنی وغیرہ دیں، سو وہ لوگ انھیں جھٹلاتے رہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨٠ (وَلَقَدْ كَذَّبَ اَصْحٰبُ الْحِـجْرِ الْمُرْسَلِيْنَ ) اصحاب الحجر سے مراد قوم ثمود ہے۔ قوم ثمود حجر کے علاقے میں آباد تھی اور ان کی طرف حضرت صالح مبعوث کیے گئے تھے۔ جیسے حضرت ہود کی قوم عاد کا ذکر ” احقاف “ کے حوالے سے بھی ہوا ہے (ملاحظہ ہو سورة الاحقاف) جو اس قوم کا علاقہ تھا ‘ اسی طرح قوم ثمود کا ذکر یہاں ” اصحاب الحجر “ کے نام سے ہوا ہے۔ یہاں پر ” مرسلین “ کے لفظ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس قوم میں پہلے بہت سے انبیاء آئے اور پھر آخر میں رسول کی حیثیت سے حضرت صالح تشریف لائے ۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

45. Al-Hijr was the capital city of the people of Thamud, and its ruins are found near the modern city of Al-Ula which is to the north west of Al-Madinah, and lies on the route from AI-Madinah to Tabuk. Though the caravans had to pass through the valley of Al-Hijr, the Prophet (peace be upon him) had forbidden the Muslims to stay in the valley on their journey. When Ibn Batutah reached there in the eighth century of Hijrah on his way to Makkah, he wrote: I have seen the buildings of Thamud hewed into red mountains; the paintings look so bright as if they have been put on only recently, and rotten bones of human beings are found in them even today." See (E.N. 57 of Surah Al-Aaraf).

سورة الْحِجْر حاشیہ نمبر :45 یہ قوم ثمود کا مرکزی شہر تھا ۔ اس کے کھنڈر مدینہ کے شمال مغرب میں موجودہ شہر العلاء سے چند میل کے فاصلہ پر واقع ہیں ۔ مدینہ سے تبوک جاتے ہوئے یہ مقام شاہراہ عام پر ملتا ہے اور قافلے اس وادی میں سے ہو کر گزرتے ہیں ، مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق کوئی یہاں قیام نہیں کرتا ۔ آٹھویں صدی ہجری میں ابن بطوطہ حج کو جاتے ہوئے یہاں پہنچا تھا ۔ وہ لکھتا ہے کہ ”یہاں سرخ رنگ کے پہاڑوں میں قوم ثمود کی عمارتیں موجود ہیں جو انہوں نے چٹانوں کو تراش کر ان کے اندر بنائی تھیں ۔ ان کے نقش و نگار اس وقت تک ایسے تازہ ہیں جیسے آج بنائے گئے ہوں ۔ ان مکانات میں اب بھی سڑی گلی انسانی ہڈیاں پڑی ہوئی ملتی ہیں ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ اعراف حاشیہ نمبر ۵۷ )

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

28: حِجر (حا کے نیچے زیر) قومِ ثمود کی اُن بستیوں کا نام تھا جن کے پاس حضرت صالح علیہ السلام کو پیغمبر بناکر بھیجا گیا تھا، ان کا واقعہ بھی سورۂ اعراف آیت نمبر ۷۳ تا ۷۹ میں گذر چکا ہے، ان کے تعارف کے لئے اسی سورت کی مذکورہ آیات پر ہمارے حواشی ملاحظہ فرمائیے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(15:80) اصحب الحجر۔ مضاف مضاف الیہ۔ حجر والے۔ حجر کے رہنے والے ۔ تمام مفسرین کے نزدیک اور مؤرخین کے نزدیک اصحاب حجر سے مراد قوم ثمود ہے۔ لیکن مولانا سید سلیمان ندوی (رح) کی تحقیق کے مطابق یہ قوم ثمود نہیں ہے بلکہ وہ نبطی ہیں جنہوں نے حجر کو اپنا مرکز قرار دیا تھا۔ اگرچہ قوم ثمود کا دار السلطنت بھی یہی شہر تھا۔ یہ شہر اس وادی میں ہے جو حجاز اور شام کے درمیان واقع ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 11 اس سورة میں یہ چوتھا قصہ ہے۔ حجر قوم ثمود کا مرادی شہر تھا جو اب ” مدائن صالح “ کے نام سے مشہور ہے اور وہاں اس قوم کے تباہ شدہ آثار اب بھی موجود ہیں۔ یہ علاقہ ” العلا “ سے چند میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ حجاز سے جو قافلے شام جاتے ہیں وہ لازماً اس سے گزر کر جاتے ہیں اور یہ اس ریلوے لائن کا ایک سٹیشن بھی ہے جو مدینہ سے دمشق کو جاتی ہے۔12 ایک پیغمبر کیت کذیب چونکہ سب کی تکذیب ہے اس لئے ان کے بارے میں فرمایا گیا کہ انہوں نے پیغمبروں کو جھٹلایا۔ (روح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

(رکوع نمبر ٦) اسرارومعارف اور اصحاب حجر بھی جنہیں ثمود کہا گیا ہے نے بھی اللہ جل جلالہ کے رسولوں کا انکار کیا حالانکہ انہیں بہت روشن معجزات عطا ہوئے تھے مگر ان لوگوں نے توجہ تک نہ کی بلکہ محض دنیاوی اسباب پہ بھروسہ کرنے میں لگے رہے ان لوگوں نے بڑے بڑے پہاڑوں کو کاٹ کر گھر بنائے کہ یہ مضبوط مکان انہیں امن وسلامتی مہیا کریں گے مگر انہیں بھی ویسی ہی زبردست چنگھاڑ نے صبح کے وقت آلیا اور حفاظت کے جس قدر مادی اسباب انہوں نے بنائے تھے وہ ان کے کسی کام نہ آسکے کہ یہ ارض وسما کی تخلیق یا یہ نظام عالم بڑی حکمت سے بنایا گیا ہے اور بظاہر اسباب خواہ کیسے نظر آ رہے ہوں کفر اور برائی پر ہمیشہ سزا ملتی ہے اور تباہی آتی ہے اور امن کا راستہ صرف اللہ جل جلالہ کی اطاعت ہی کا ہے نیز قیامت بھی تو بلاشبہ قائم ہوگی جس میں حقیقی سزا وجزا دی جائے گی کہ دنیا کی سزا تو محض گناہ کا ہلکا سا اثر ہے لہذا آپ نہایت مناسب طریقے سے در گذر کیجئے ۔ (تبلیغ دین کے لیے حالات کو برداشت کرنا چاہئے) اس میں دینی تبلیغ کا طریقہ ارشاد فرمایا کہ تحمل اور بردباری سے حالات کا مقابلہ کیا جائے اور دین کا کام کرنے والے فرد کو جذباتی نہ ہونا چاہئے کہ آپ کا رب ہی سب کا خالق ہے اس لیے وہ سب کی ہر ہر حرکت اور ہر سوچ کا علم رکھتا ہے ۔ ( سورة فاتحہ کی عظمت) ہم نے آپ کو سات آیات عطا فرمائی ہیں جو پورے قرآن کی عظمت کی حامل ہیں اور جو بار بار یعنی نماز کی ہر ہر رکعت میں دہرائی جاتی ہیں مفسرین کرام کے مطابق اسلام کے سارے بنیادی اصول اسی سورة میں سمو دیئے گئے قرآن حکیم انہی کی وضاحت اور حدیث شریف انہی کا مفہوم بیان کرتی ہے نیز ایسی جامع دعا پہلے کسی بھی امت کو عطا نہ کی گئی کاش مسلمان اسی کو خلوص سے دہرایا کرتے مگر آج تو اکثریت اس کے لفظی معنوں تک سے آشنا نہیں آپ اس بات کو کوئی اہمیت نہ دیجئے کہ کفار ومشرکین میں بعض لوگوں کو بہت مال و دولت یا دنیاوی اسباب حاصل ہیں نہ اس بات پر دکھ محسوس کیجئے یعنی نہ تو یہ خیال فرمائیے کہ یہ مالدار ہیں حالانکہ کفر اختیار کیے ہوئے اور نہ یہ دکھ کہ شاید مالدار نہ ہوتے تو ایمان لے آتے کہ پہلے تباہ ہونے والوں کے پاس بھی دنیا کے اسباب تھے مگر وہ وقتی اور فانی فائدے کے علاوہ کسی کام نہ آئے نیز یہ لوگ مزاجا بگڑ چکے ہیں مالدار نہ بھی ہوتے تو ان کا کردار یہی ہوتا لہذا آپ اپنی ساری شفقتیں ان لوگوں پر متوجہ فرمائیے ۔ rnّ (حجت عقیدہ بہت بڑی نعمت ہے) جو ایمان لائے ہیں واہ کیا نعمت ہے کہ صحت عقیدہ پہ شفقت رسالت کو متوجہ فرمایا جا رہا ہے جو پہلے رحمت عالم میں بھلا اس حکم کے بعد ان کی شفقتوں کا کیا عالم ہوگا ، اور آپ علی الاعلان فرما دیجئے کہ میں تمہیں اللہ جل جلالہ کے عذابوں سے کھلم کھلا ڈرانے اور ہر وقت مطلع کرنے والا ہوں کہ قبل از تبلیغ مکہ مکرمہ میں خفیہ طریقے سے جاری تھی کہ اعلان کرنے کا حکم ہوا تو نہ صرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بلکہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین بھی کھل کر میدان میں آگئے اور تبلیغ دین کا کام علی الاعلان ہونے لگا آپ ان عذابوں سے خبردار کیجئے جو پہلے بھی ایسے لوگوں پہ نازل ہوچکے جنہوں نے اللہ جل جلالہ کی کتابوں کے حصے بخرے کر رکھے تھے یعنی جو بات پسند آئی قبول کرلی اور جو خلاف مزاج نظر آئی اس کا انکار کردیا ، سو تیرے پروردگار کی قسم یعنی تیرے پیدا کرنے والے کی شان ربوبیت کہ ہر شے پر پھل لگتا ہے اور ہر کام کا نتیجہ سامنے آتا ہے خود اس بات کی دلیل ہے کہ کردار و اعمال کے نتایج بھی اپنے وقت پر سامنے آئیں گے ، لہذا آپ وہ بات کھول کر سنا دیجئے جس کا حکم آپ کو ہوا ہے اور مشرکین کی ہرگز پرواہ نہ کیجئے اور نہ مذاق اڑانے کو خاطر میں لائیے ہم آپ کی طرف سے انہیں کافی ہیں کہ آپ سے مذاق کرتے ہیں اور اللہ جل جلالہ کے ساتھ دوسروں کو معبود قرار دیتے ہیں بہت جلد اپنے انجام کو پالیں گے یہ تو اللہ کریم اللہ جل جلالہ کے علم میں ہے کہ آپ کے دل کو رنج پہنچتا ہے ایک فطری جذبے اور انسانی مزاج کے تقاضے کے مطابق ایسا ہوتا ہے کہ یہ باتیں ہی ایسی کرتے ہیں مگر اس کا بھی علاج ہے ۔ (ذکر طبعی تفکرات کا علاج بھی ہے) کہ آپ اپنے رب کی پاکی بیان کریں اس کا ذکر کیا کریں اور عبادات میں مجاہدہ فرمائیں اور یہ کام کیے جائیں حتی کہ دنیا کی زندگی اپنے اختتام کو پہنچے گویا دشمن کی ایذا اور دل کی تنگی کا حقیقی علاج ذکر الہی ہے جس سے عبادات کا اعلی درجہ بھی نصیب ہوتا ہے اور انسان کلی طور پر ادھر متوجہ رہتا ہے سورة حجر تمام ہوئی ۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 80 تا 86 معرضین منہ پھیر کر چلنے والے۔ نظر انداز کرنے والے الجبال (الجبل) ۔ پہاڑ۔ امنین امن و سکون سے رہنے والے۔ ما اغنی کام نہ آیا ۔ یکسبون وہ کماتے ہیں۔ الساعۃ قیامت۔ اصفع درگذر کر۔ الصفح الجمیل اچھی طرح خوبی سے درگزر کرنا۔ تشریح :- آیت نمبر 80 تا 86 ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جس طرح اور قوموں نے رسولوں کو جھٹلایا تھا ان ہی میں اصحاب الحجر بھی تھے ” الحجر “ قوم ثمود کے اس مرکزی شہر کا نام ہے جس کے کھنڈرات آج بھی مدینہ منورہ کے شمال مغرب میں تبوک جاتے ہوئے پڑتے ہیں۔ یہ جگہ چونکہ اللہ کے عذاب سے تباہ و برباد کردی گئی تھی اس لئے جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس مقام سے گذرے تو آپ نے اس تباہ شدہ بستی کے قریب جانے سے منع فرما دیا۔ اسی لئے یہاں کوئی قافلہ گذرتا تو وہ اس وادی میں قیام نہیں کرتا تھا۔ قوم ثمود دنیا کی متمدن ترین قوم تھی ان کی تہذیب معاشرت اور معیشت نہایت ترقی یافتہ تھی۔ ہر طرف خوش حالی کا دورہ دورہ تھا۔ ان کی تعمیرات کا یہ حال تھا کہ وہ پہاڑوں کو نہایت خوبصورتی سے تراش تراش کر بیس بیس منزلہ عمارتیں بناتے تھے جن کی تعمیرات کے نمونے آج تک موجود ہیں۔ دنیاوی ترقی کا تو یہ عالم تھا لیکن کفر و شرک اور بدعات نے اس قوم کو اعمال و اخلاق کے اعتبار سے بالکل کھوکھلا کر کے رکھ دیا تھا انبیاء کرام تشریف لاتے رہے مگر انہوں نے اپنے مال و دولت بلند وبالا عمارتوں اور تذہیب و تمدن کی بدمستی میں اللہ کے بھیجے ہوئے رسولوں کو اور ان کی تعلیمات کو حقارت سے ٹھکرا دیا تھا۔ آخر کار اللہ کا وہ فیصلہ آگیا جو نافرمان قوموں کا مقدر ہوتا ہے۔ ایک زبردست اور تیز آواز نے ان کی تہذیب اور ترقیات کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا اور وہ دنیاوی وسائل جن پر اس قوم کو ناز تھا ان کے کام نہ آسکے۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں کفار مکہ کو بھی اس بات پر آگاہ کیا ہے کہ دوسری قوموں کے حالات سے سبق حاصل کریں اور اللہ کے آخر نبی اور رسول محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی لائی ہوئی تعلیمات پر ایمان لے آئیں۔ اگر انہوں نے بھی ان کی ناقدری کی اور اس موقع کو غنیمت نہ سمجھا تو وہ اپنے برے انجام پر غور کرسکتے ہیں۔ فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ ان کفار کی ایذا رسانیوں اور ظلم و ستم سے نہ گھبرائیں۔ اللہ نے آسمان و زمین اور اس پوری کائنات کا نظام یونہی نہیں بنایا بلکہ ایک نظام کے تحت بنایا ہے۔ حالات جگہ اور قومیں بدلتی رہتی ہیں۔ قومیں عروج وزوال کا شکار ہوتی رہتی ہیں لیکن وہ خالق کائنات جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا وہ اس نظام کائنات کا نگراں ہے۔ فرمایا کہ اے اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان کو ان کے انجام سے باخبر کردیجیے اور ان سے درگزر کیجیے اگر ابھی یہ کسی طرح بچ بھی جائے تو قیامت دور نہیں ہے۔ ایک ایک بات کا فیصلہ ہوئے گا۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ کیونکہ جب صالح (علیہ السلام) کو جھوٹا کہا اور سب پیغمبروں کا اصل دین ایک ہی ہے تو سب ہی کو جھوٹا بتلایا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اصحاب الایکہ کے بعد اصحاب الحجر کی تاریخ اور ان کا انجام۔ اصحاب الحجر سے مراد وہ قوم اور علاقہ ہے جو مدینہ سے تبوک جاتے ہوئے راستے میں پڑتا ہے۔ یہ علاقہ جغرافیائی اعتبار سے خلیج اربعہ کے مشرق میں اور شہر مدین کے جنوب مشرق میں واقع ہے۔ یہ قوم اس قدر ٹیکنالوجی اور تعمیرات کے معاملے میں ترقی یافتہ تھی کہ انہوں نے پہاڑوں کو تراش تراش کر مکانات اور محلات تعمیر کیے تھے تاکہ کوئی زلزلہ اور طوفان انہیں نقصان نہ پہنچا سکے۔ یہ قوم بھی کفرو شرک کا عقیدہ رکھنے کے ساتھ ہر قسم کے جرائم میں ملوث تھی۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے بہت سمجھایا مگر یہ لوگ کفر و شرک اور برے اعمال سے باز نہ آئے۔ حضرت صالح (علیہ السلام) اور ان کے ایماندار ساتھیوں کے بارے میں یہ پروپیگنڈہ کرتے کہ تم ہمارے لیے نحوست کا سبب ہو اور حضرت صالح (علیہ السلام) پر جادو کا اثر ہوچکا ہے۔ (الشعراء : ١٤٢ تا ١٥٣) انھوں نے حضرت صالح (علیہ السلام) سے کہا کہ ہم اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک ہمارے سامنے اس پہاڑ سے گابھن اونٹنی نمودار نہ ہو۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے انہیں بہت سمجھایا کہ اس طرح معجزہ طلب نہ کرو۔ اگر تمہارا منہ مانگا معجزہ ظاہر کردیا گیا۔ اور تم نے اس کا انکار کیا تو پھر تمہارا بچنا مشکل ہوگا۔ لیکن قوم ثمود نے اونٹنی کاٹ دیں۔ جسکے سبب عذاب نا زل ہوا۔ جس کا یہاں ذکر کیا گیا ہے تفصیل جاننے کے لیے سورة الاعراف کی آیت : ٧٣ تا ٧٩ کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اصحاب الحجر کی تکذیب اور ہلاکت اور تعذیب ان آیات میں اصحاب الحجر کی تکذیب پھر ان کی تعذیب کا ذکر ہے اصحاب الحجر سے قوم ثمود مراد ہے یہ لوگ وادی حجر میں رہتے تھے قوم عاد کی بربادی کے بعد یہ لوگ زمین میں بسے اور پھلے پھولے طاقتور بھی بہت تھے پہاڑوں کو تراش کر گھر بنالیتے تھے، سورة الفجر میں فرمایا (وَثَمُوْدَ الَّذِیْنَ جَابُوا الصَّخْرَ بالْوَادِ ) (اور قوم ثمود کے ساتھ تیرے رب نے کیا معاملہ کیا جنہوں نے وادی میں پتھروں کو کاٹا) اس بات کو یہاں سورة حجر میں یوں نقل فرمایا ہے (وَکَانُوْا یَنْحِتُوْنَ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتًا اٰمِنِیْنَ ) (اور وہ لوگ پہاڑوں سے تراش کر گھر بنالیتے تھے۔ امن وامان سے رہتے تھے) ان کی طرف حضرت صالح (علیہ السلام) مبعوث ہوئے تھے ان لوگوں نے ان کو جھٹلایا اور چونکہ ایک نبی کا جھٹلانا سارے نبیوں کے جھٹلانے کے مترادف ہے (کیونکہ تمام پیغمبروں کی دعوت ایک ہی ہے) اس لیے یوں فرمایا کہ اصحاب الحجر نے پیغمبروں کو جھٹلایا، ان کے سامنے حضرت صالح (علیہ السلام) نے توحید کے دلائل پیش کیے اور ان کا منہ مانگا معجزہ بھی ظاہر ہوگیا (یعنی پہاڑ سے اونٹنی نکل آئی جسے ان لوگوں نے مار ڈالا) لہٰذا ایک دن صبح صبح ان پر عذاب آگیا، یہاں سورة حجر میں فرمایا ہے کہ ان کو چیخ نے پکڑ لیا اور سورة ہود میں بھی یہی فرمایا ہے اور سورة اعراف میں فرمایا (وَاَخَذَتْھُمُ الرَّجْفَۃُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِھِمْ جٰثِمِیْنَ ) (ان کو سخت زلزلہ نے پکڑلیا لہٰذا وہ اپنے گھروں میں اوندھے منہ پڑے رہ گئے) اور سورة حم سجدہ میں فرمایا ہے (فَاَخَذَتْھُمْ صٰعِقَۃُ الْعَذَابِ الْھُوْنِ ) (سو انہیں ایسی سخت آواز نے پکڑ لیا جو اوپر سے سنائی دی جاتی ہے وہ سراپا ذلت کا عذاب تھی) تینوں جگہ کی آیات ملانے سے معلوم ہوا کہ رجفۃ (زلزلہ) صیحۃ (سخت چیخ) صاعقۃ (وہ سخت آواز جو اوپر سے سنائی دے) قوم ہود پر تینوں طرح کا عذاب آیا، بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ صاعقۃ سے مطلق عذاب مراد ہے اگر یہ معنی لیا جائے تو یوں کہا جائے گا کہ صیحۃ کو صاعقۃ سے تعبیر فرما دیا اور بمعنی عذاب مراد لے لیا واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔ یہ لوگ بڑے غرور وتکبر سے رہتے تھے، دنیا پر دل دئیے ہوئے تھے اور دنیا ہی کو سب کچھ سمجھتے تھے، اس لیے آخر میں فرمایا (فَمَآ اَغْنٰی عَنْھُمْ مَّا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ ) (سو ان کے کچھ کام نہ آیا وہ جو کچھ کسب کرتے تھے) قوم ثمود کا مفصل واقعہ سورة اعراف (رکوع ٨) کی تفسیر میں گزر چکا ہے۔ (انوار البیان جلد دوم)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

27:۔ یہ تخویف دنیوی کا تیسرا نمونہ ہے۔ ” اَلْحِجْرُ “ ایک وادی کا نام ہے جس میں حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم ثمود آباد تھی۔ قال المفسرون الحجر اسم واد کان یسکنہ ثمود (کبیر) ۔ قوم ثمود کے پاس بھی ہم نے اپنا پیغام بھیجا مگر انہوں نے ماننے کے بجائے اس سے اعراض کیا۔ وہ پہاڑوں کو کاٹ کر رہنے کے لیے مکان بنا لیتے تھے اور نہایت پر امن اور چین کی زندگی بسر کر رہے تھے مگر مسئلہ توحید کا انکار کر کے اللہ تعالیٰ کے غضب اور عتاب کے مورد ٹھہرے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

80 ۔ اور یقینا حجر والوں نے بھی پیغمبروں کو جھٹلایا ، یعنی ثمود نے بھی پیغمبروں کی تکذیب کی یا تو ایک پیغمبر کی تکذیب کو سب کی تکذیب فرمایا کیونکہ سب کا مسلک ایک ہی ہے یا حضرت صالح (علیہ السلام) کے علاوہ اور بھی پیغمبر آئے ہوں جن کا ذکر قرآن کریم میں نہیں آیا۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں حجر والے ثمود کو فرمایا ان کے ملک کا نام حجر تھا۔