Surat ul Hijir

Surah: 15

Verse: 87

سورة الحجر

وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنٰکَ سَبۡعًا مِّنَ الۡمَثَانِیۡ وَ الۡقُرۡاٰنَ الۡعَظِیۡمَ ﴿۸۷﴾

And We have certainly given you, [O Muhammad], seven of the often repeated [verses] and the great Qur'an.

یقیناً ہم نے آپ کو سات آیتیں دے رکھی ہیں کہ وہ دہرائی جاتی ہیں اور عظیم قرآن بھی دے رکھا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

A Reminder of the Blessing of the Qur'an and the Command to focus on its Message Allah says: وَلَقَدْ اتَيْنَاكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْانَ الْعَظِيمَ لااَ تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَى مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِّنْهُمْ وَلااَ تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُوْمِنِينَ

قرآن عظیم سبع مثانی اور ایک لازوال دولت اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے جب قرآن عظیم جیسی لازوال دولت تجھے عنایت فرما رکھی ہے تو تجھے نہ چاہئے کہ کافروں کے دنیوی مال و متاع اور ٹھاٹھ باٹھ للچائی ہوئی نظروں سے دیکھے ۔ یہ تو سب فانی ہے اور صرف ان کی آزمائش کے لئے چند روزہ انہیں عطا ہوا ہے ۔ ساتھ ہی تجھے ان کے ایمان نہ لانے پر صدمے اور افسوس کی بھی چنداں ضرورت نہیں ۔ ہاں تجھے چاہئے کہ نرمی ، خوش خلقی ، تواضع اور ملنساری کے ساتھ مومنوں سے پیش آتا رہے ۔ جیسے ارشاد ہے آیت ( لَقَدْ جَاۗءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِيْزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيْصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ ١٢٨؁ ) 9- التوبہ:128 ) لوگو تمہارے پاس تم میں سے ہی ایک رسول آ گئے ہیں جن پر تمہاری تکلیف شاق گزرتی ہے جو تمہاری بہبودی کا دل سے خواہاں ہے جو مسلمانوں پر پرلے درجے کا شفیق و مہربان ہے ۔ سبع مثانی کی نسبت ایک قول تو یہ ہے کہ اس سے مراد قرآن کریم کی ابتدا کی سات لمبی سورتیں ہیں سورہ بقرہ ، آل عمران ، نساء ، مائدہ ، انعام ، اعراف اور یونس ۔ اس لئے کہ ان سورتوں میں فرائض کا ، حدود کا ، قصوں کا اور احکام کا خاص طریق پر بیان ہے اسی طرح مثالیں ، خبریں اور عبرتیں بھی زیادہ ہیں ۔ بعض نے سورہ اعراف تک کی چھ سورتیں گنوا کر ساتویں سورت انفال اور براۃ کو بتلایا ہے ان کے نزدیک یہ دونوں سورتیں مل کر ایک ہی سورت ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ صرف حضرت موسیٰ علیہ السلام کو چھ ملی تھیں لیکن جب آپ نے تختیاں گرا دیں تو دو اٹھ گئیں اور چار رہ گئیں ۔ ایک قول ہے قرآن عظیم سے مراد بھی یہی ہیں ۔ زیادہ کہتے ہیں میں نے تجھے سات جز دیئے ہیں ۔ حکم ، منع ، بشارت ، ڈر اور مثالیں ، نعمتوں کا شمار اور قرآنی خبریں ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ مراد سبع مثانی سے سورہ فاتحہ ہے جس کی سات آیتیں ہیں ۔ یہ سات آیتیں ( بسم اللہ الرحمن الرحیم سمیت ہیں ۔ ان کے ساتھ اللہ نے تمہیں مخصوص کیا ہے یہ کتاب کا شروع ہیں ۔ اور ہر رکعت میں دہرائی جاتی ہیں ۔ خواہ فرض نماز ہو خواہ نفل نماز ہو ۔ امام ابن جریر رضی اللہ عنہ اسی قول کو پسند فرماتے ہیں اور اس بارے میں جو حدیثیں مروی ہیں ان سے اس پر استدلال کرتے ہیں ہم نے وہ تمام احادیث فضائل سورہ فاتحہ کے بیان میں اپنی اس تفسیر کے اول میں لکھ دی ہیں فالحمد للہ ۔ امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے اس جگہ دو حدیثیں وارد فرمائی ہیں ۔ ایک میں ہے حضرت ابو سعید بن معلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں نماز پڑھ رہا تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آئے مجھے بلایا لیکن میں آپ کے پاس نہ آیا نماز ختم کر کے پہنچا تو آپ نے پوچھا کہ اسی وقت کیوں نہ آئے؟ میں نے کہا یا رسول اللہ میں نماز میں تھا ۔ آپ نے فرمایا کیا اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نہیں آیت ( يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِيْبُوْا لِلّٰهِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيْكُمْ ۚ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ يَحُوْلُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهٖ وَاَنَّهٗٓ اِلَيْهِ تُحْشَرُوْنَ 24؀ ) 8- الانفال:24 ) یعنی ایمان والو اللہ اور اس کے رسول کی بات مان لو جب بھی وہ تمہیں پکاریں ۔ سن اب میں تجھے مسجد میں سے نکلنے سے پہلے ہی قرآن کریم کی بہت بڑی سورت بتلاؤں گا ۔ تھوڑی دیر میں جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے جانے لگے تو میں نے آپ کا وعدہ یاد دلایا آپ نے فرمایا وہ سورۃ آیت ( الحمد للہ رب العالمین ) کی ہے یہی سبع مثانی ہے اور یہی بڑا قرآن ہے جو میں دیا گیا ہوں ۔ دوسری میں آپ کا فرمان ہے کہ ام القرآن یعنی سورہ فاتحہ سبع مثانی اور قرآن عظیم ہے ۔ پس صاف ثابت ہے کہ سبع مثانی اور قرآن عظیم سے مراد سورہ فاتحہ لیکن یہ بھی خیال رہے کہ اس کے سوا اور بھی یہی ہے اس کے خلاف یہ حدیثیں نہیں ۔ جب کہ ان میں بھی یہ حقیقت پائی جائے جیسے کہ پورے قرآن کریم کا وصف بھی اس کے مخالف نہیں ۔ جیسے فرمان الٰہی ہے آیت ( اللہ نزل احسن الحدیث کتابا متثابھا مثانی ) پس اس آیت میں سارے قرآن کو مثانی کہا گیا ہے ۔ اور متشابہ بھی ۔ پس وہ ایک طرح سے مثانی ہے اور دوسری وجہ سے متشابہ ۔ اور قرآن عظیم بھی یہی ہے جیسے کہ اس روایت سے ثابت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا کہ تقویٰ پر جس مسجد کی بنا ہے وہ کون ہے ؟ تو آپ نے اپنی مسجد کی طرف اشارہ کیا حالانکہ یہ بھی ثابت ہے کہ آیت مسجد قبا کے بارے میں اتری ہے ۔ پس قاعدہ یہی ہے کہ کسی چیز کا ذکر دوسری چیز سے انکار نہیں ہوتا ۔ جب کہ وہ بھی وہی صفت رکھتی ہو ۔ واللہ اعلم ۔ پس تجھے ان کی ظاہری ٹیپ ٹاپ سے بےنیاز رہنا چاہئے اسی فرمان کی بنا پر امام ابن عینیہ رحمتہ اللہ علیہ نے ایک صحیح حدیث جس میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہم میں سے وہ نہیں جو قرآن کے ساتھ تغنی نہ کرے کی تفسیر یہ لکھی ہے کہ قرآن کو لے کر اس کے ماسوا سے دست بردار اور بےپرواہ نہ ہو جائے وہ مسلمان نہیں ۔ گو یہ تفسیر بالکل صحیح ہے لیکن اس حدیث سے یہ مقصود نہیں حدیث کا صحیح مقصد اس ہماری تفسیر کے شروع میں ہم نے بیان کر دیا ہے ابن ابی حاتم میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں ایک مرتبہ مہمان آئے آپ کے گھر میں کچھ نہ تھا آپ نے ایک یہودی سے رجب کے وعدے پر آٹا ادھار منگوایا لیکن اس نے کہا بغیر کسی چیز کو رھن رکھے میں نہیں دوں گا اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا واللہ میں امین ہوں اور زمین والوں میں بھی اگر یہ مجھے ادھار دیتا یا میرے ہاتھ فروخت کر دیتا تو میں اسے ضرور ادا کرتا پس آیت ( لَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ اِلٰى مَا مَتَّعْنَا بِهٖٓ اَزْوَاجًا مِّنْهُمْ وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُؤْمِنِيْنَ 88؀ ) 15- الحجر:88 ) نازل ہوئی اور گویا آپ کی دل جوئی کی گئی ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں انسان کا ممنوع ہے کہ کسی کے مال و متاع کو للچائی ہوئی نگاہوں سے تاکے ۔ یہ جو فرمایا کہ ان کی جما عتوں کو جو فائدہ ہم نے دے رکھا ہے اس سے مراد کفار کے مالدار لوگ ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

87۔ 1 سبع مثانی سے مراد کیا ہے اس میں مفسرین کا اختلاف ہے صحیح بات یہ ہے کہ اس سے مراد سورة فاتحہ ہے۔ یہ سات آیتیں ہیں اور جو ہر نماز میں بار بار پڑھی جاتی ہیں (مثانی کے معنی بار بار دہرانے کے کیئے گئے ہیں (حدیث میں بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ چناچہ ایک حدیث میں رسول اللہ نے فرمایا (اَ لْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ) یہ سبع مثانی اور قرآن عظیم ہے جو میں دیا گیا ہوں (صحیح بخاری) ایک اور حدیث میں فرمایا (ام القرآنھی السبع المثانی والقرآن العظیم) سورة فاتحہ قرآن کا ایک جزء ہے اس لیے قرآن عظیم کا ذکر بھی ساتھ ہی کیا گیا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٧] سبع المثانی یا قرآن العظیم & فضائل سورة فاتحہ :۔ سات بار بار دہرائی جانے والی آیات سے مراد سورة فاتحہ ہے۔ چناچہ سیدنا سعید بن معلیٰ فرماتے ہیں کہ آپ نے مجھے فرمایا : && میں تجھے قرآن کی ایک ایسی سورت بتاؤں گا جو قرآن کی سب سورتوں سے بڑھکر ہے اور وہ ہے (اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ ) وہی سبعا من المثانی اور قرآن العظیم ہے جو مجھے دیا گیا۔ (بخاری، تفسیر سورة فاتحہ، نیز کتاب التفسیر، سورة انفال زیر آیت نمبر ٢٤ (يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِيْبُوْا لِلّٰهِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيْكُمْ ۚ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ يَحُوْلُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهٖ وَاَنَّهٗٓ اِلَيْهِ تُحْشَرُوْنَ 24؀) 8 ۔ الانفال :24) نیز سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا && سورة الحمد ہی ام القرآن، ام الکتاب اور سات دہرائی جانے والے آیتیں ہیں۔ (ترمذی، ابو اب التفسیر سورة محمد) اور یہ سورت قرآن عظیم اس لحاظ سے ہے کہ اس میں پورے قرآن کی تعلیم کا خلاصہ آگیا ہے۔ گویا سمندر کو کوزے میں بند کردیا گیا ہے۔ سب سے پہلے اللہ کی معرفت اور اس کی حمد و ثنا، پھر روز آخرت میں جزا و سزا کا جامع ذکر، پھر شرک کی تمام اقسام سے کلی اجتناب کا اقرار، پھر صراط مستقیم کی ہدایت کی طلب۔ یہ ہی مضامین قرآن میں مختلف انداز سے اجمالاً اور تفصیلاً بیان کیے گئے ہیں اور بعض علماء کہتے ہیں کہ اس سورة کا مزید اختصار ( اِیَّاَکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ ) ہے تفصیل کے لیے دیکھئے سورة فاتحہ کے حواشی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَقَدْ اٰتَيْنٰكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِيْ :” الْمَثَانِيْ “ ” ثَنٰی یَثْنِیْ “ (ض) کے اسم مفعول ” مَثْنِیَّۃٌ“ (بروزن مَضْرُوْبَۃٌ، مَرْمِیَّۃٌ) کی جمع ہے، معنی دوہرا کرنا، دوہرانا ہے، یعنی بار بار دہرائی جانے والی۔ کافروں کی زیادتی سے درگزر کی تلقین کے ساتھ اپنی ایک عظیم نعمت سبع مثانی اور قرآن عظیم یاد دلائی، تاکہ اتنی بڑی دولت کا مالک ہونے کے احساس سے کفار سے درگزر میں آسانی رہے۔ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِيْ : ” لام “ اور ” قَدْ “ کی تاکید کے ساتھ فرمایا کہ ہم نے آپ کو سات بار بار دہرائی جانے والی عطا فرمائیں۔ یہ آیت اس بات کی بھی بڑی واضح دلیل ہے کہ قرآن کے ساتھ حدیث پر بھی ایمان اور عمل واجب ہے، اس کے بغیر قرآن نہ صحیح سمجھا جاسکتا ہے نہ اس پر عمل ہوسکتا ہے۔ دیکھیے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کہیں نہیں بتایا کہ وہ سبع مثانی سات سورتیں ہیں یا سات آیتیں، نہ یہ بتایا کہ وہ سورتیں ہیں تو کون سی اور آیتیں ہیں تو کون سی ؟ بلکہ ایک جگہ سارے قرآن ہی کو مثانی فرما دیا، فرمایا : (اَللّٰهُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِيْثِ كِتٰبًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِيَ ) [ الزمر : ٢٣ ] ” اللہ نے سب سے اچھی بات نازل فرمائی، وہ کتاب جو ایک دوسرے سے ملتی جلتی اور بار بار دہرائی جانے والی ہے۔ “ اب لازم ہے کہ پورے قرآن میں سے جو سارا ہی مثانی ہے، یہ متعین کیا جائے کہ ان سبع مثانی سے مراد کیا ہے۔ اپنے پاس سے متعین کریں تو کبھی اتفاق نہیں ہوسکتا، اس لیے کسی مفسر نے سات سورتیں بتائیں، کسی نے سات آیتیں، تو کسی نے کچھ اور بتایا۔ یہاں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وضاحت کے بغیر قرآن کی اس آیت کا مفہوم متعین کرنا ممکن ہی نہیں، چناچہ ابوسعید بن معلی (رض) فرماتے ہیں : ( کُنْتُ أُصَلِّيْ فَمَرَّبِيْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَدَعَانِيْ ، فَلَمْ آتِہِ حَتّٰی صَلَّیْتُ ، ثُمَّ أَتَیْتُہُ ، فَقَالَ مَا مَنَعَکَ أَنْ تَأْتِيَ ؟ أَلَمْ یَقُلِ اللّٰہُ : (اسْتَجِيْبُوْا لِلّٰهِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ ) [ الأنفال : ٢٤] ؟ ثُمَّ قَالَ لِيْ لَأُعَلِّمَنَّکَ سُوْرَۃً ھِيَ أَعْظَمُ السُّوَرِ فِي الْقُرْآنِ قَبْلَ أَنْ تَخْرُجَ مِنَ الْمَسْجِدِ ثُمَّ أَخَذَ بِیَدِيْ فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ یَّخْرُجَ قُلْتُ لَہٗ أَلَمْ تَقُلْ لَأُعَلِّمَنَّکَ سُوْرَۃً ھِيَ أَعْظَمُ سُوْرَۃٍ فِي الْقُرْآنِ ؟ قَالَ : (اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ) ھِيَ السّبْعُ الْمَثانِيْ وَالقُرْآنُ الْعَظِیْمُ الَّذِيْ أُوْتِیْتُہُ ) [ بخاری، التفسیر، باب ما جاء في فاتحۃ الکتاب : ٤٤٧٤، ٤٦٤٧ ] ” نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے پاس سے گزرے اور میں نماز پڑھ رہا تھا، تو آپ نے مجھے بلایا، میں آپ کے پاس نہیں آیا، یہاں تک کہ میں نے نماز پڑھ لی، پھر میں آیا تو آپ نے فرمایا : ” تمہیں میرے پاس آنے سے کس چیز نے روکے رکھا ؟ “ کیا اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایا : (اسْتَجِيْبُوْا لِلّٰهِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ ) [ الأنفال : ٢٤ ] اللہ کی اور رسول کی دعوت قبول کرو جب وہ تمہیں بلائیں۔ “ پھر مجھے فرمایا : ” میں تمہارے مسجد سے نکلنے سے پہلے ضرور تمہیں ایک سورت سکھاؤں گا جو قرآن کی تمام سورتوں سے بڑی (اعظم) ہے۔ “ پھر آپ نے میرا ہاتھ پکڑ لیا، جب آپ نے نکلنے کا ارادہ کیا تو میں نے آپ سے کہا : ” کیا آپ نے فرمایا نہیں تھا کہ میں تمہیں ایک سورت سکھاؤں گا جو قرآن کی تمام سورتوں سے بڑی ہے ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ) یہی سبع مثانی اور قرآن عظیم ہے جو مجھے عطا کیا گیا ہے۔ “ اس سے معلوم ہوا کہ سبع مثانی سے سورة فاتحہ کی سات آیتیں مراد ہیں، کیونکہ وہ ہر نماز کی ہر رکعت میں بار بار پڑھی جاتی ہیں۔ دوسری تفسیریں مثلاً یہ کہ سات لمبی سورتیں مراد ہیں وغیرہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صراحت کے بعد کچھ حیثیت نہیں رکھتیں۔ اس لیے بھی کہ لمبی سات سورتوں کی اکثریت تو اتری ہی مدینہ میں ہے، جب کہ یہ آیت مکی ہے۔ وَالْقُرْاٰنَ الْعَظِيْمَ : بہت سے مفسرین نے سبع مثانی سے مراد فاتحہ اور قرآن عظیم سے مراد باقی قرآن لیا ہے، حالانکہ یہ بات درست نہیں، کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت میں مذکور سبع مثانی بھی اور القرآن العظیم بھی سورة فاتحہ ہی کو کہا ہے۔ بخاری میں اس آیت کی تفسیر میں آپ کے الفاظ ہیں : ( اُمُّ الْقُرْآنِ ھِیَ السَّبْعُ الْمَثَانِیْ وَالْقُرْآنُ الْعَظِیْمُ ) [ بخاري، التفسیر، باب قولہ : ( و لقد ٰاتینک سبعا من المثانی۔۔ ) : ٤٧٠٤ ] ” ام القرآن ہی سبع مثانی اور قرآن عظیم ہے۔ “ کیونکہ قرآن ہونے کے لیے پورا قرآن ہونا ضروری نہیں، ایک آیت ہو تو وہ بھی قرآن ہے۔ آپ کا مطلب یہ ہے کہ سورة فاتحہ جب قرآن کی سب سے بڑی سورت ہے تو قرآن عظیم (بہت بڑا قرآن) یہی ہے۔ رہی ” واؤ “ تو وہ ایک ہی چیز کی دو مختلف صفات کے درمیان آجاتی ہے، جیسا کہ فرمایا : (سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَى ۝ ۙالَّذِيْ خَلَقَ فَسَوّٰى ۝۽وَالَّذِيْ قَدَّرَ فَهَدٰى ۝۽وَالَّذِيْٓ اَخْرَجَ الْمَرْعٰى) [ الأعلٰی : ١ تا ٤ ] ” اپنے رب کے نام کی تسبیح کر جو سب سے بلند ہے، وہ جس نے پیدا کیا، پس درست بنایا اور وہ جس نے اندازہ ٹھہرایا، پھر ہدایت کی اور وہ جس نے چارا اگایا۔ “ اور اس لحاظ سے بھی فاتحہ کو ” الْقُرْاٰنَ الْعَظِيْمَ “ فرمایا کہ قرآن مجید کے تمام مضامین اس میں اجمالی طور پر موجود ہیں۔ ایک دفعہ گوجرانوالہ میں ایک منکر حدیث نے بہت اودھم مچایا اور بہت سے لوگوں کے عقیدے خراب کیے، مولانا محمد عبد اللہ (رض) (دال بازار والے) کی اس سے گفتگو ہوئی تو مولانا نے سورة توبہ کی آیت پڑھی : (اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِيْ كِتٰبِ اللّٰهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ مِنْهَآ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ) [ التوبۃ : ٣٦ ] ” بیشک مہینوں کی گنتی، اللہ کے نزدیک، اللہ کی کتاب میں بارہ مہینے ہے، جس دن اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، ان میں سے چار حرمت والے ہیں “ اور فرمایا کہ جب حدیث کی ضرورت نہیں تو آپ قرآن سے بتائیں کہ حرمت والے وہ چار ماہ کون سے ہیں ؟ اسے بالکل کوئی جواب نہ آیا اور حق بات بہت سے لوگوں کی سمجھ میں آگئی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Surah Al-Fatihah is the Text and Summary of the Whole Qur&an That Surah Al-Fatihah (The Opening) has been called the Glorious Qur’ an in this verse (87) indicates that Surah Al-Fatihah is, in a way, the whole Qur’ an - because the basic principles of Islam have been merged in it.l 1. In order to understand this, one must keep in mind that the words: اَلسَبعَ المثانِی واَلقُرآن (the seven oft repeated verses and the glorious Qur&an) in verse (87) are inter¬preted by the commentators in different ways. Most of them are of the view that &seven oft-repeated verses& refer to Surah al-Fatihah which consists of seven verses. Since these seven verses are repeated in every Salah, they have been referred to in the verse 87 as &oft-repeated verses&. Then, the words &and the glorious Qur&an& occurring after it are of explanatory nature which refer to the same &seven oft repeated verses&. Therefore, the name of the &glorious Qur&an& has been given here to the Surah al-Fatihah itself. The comment of the author is based on this interpretation. On Being Questioned in Al-Mal} shar : About what will it be? In verse 92, swearing by His Own sacred Being, Allah Ta’ ala has de¬clared that all such people who came earlier or later shall definitely be questioned. The Sahabah (رض) asked the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) as to what it will be about. He said that it will be about saying: لا إله إلا اللہ (la ilaha illallah: there is no god worthy of worship but Allah). Al-Qurtubi, after reporting this narration in his Tafsir, has said: It means the fulfilling of this pledge practically as signified by the Kalimah Tayyibah: La ilaha illallah. A simple verbal statement is not what is desired here because, as for verbal attestation, that was done by the hypocrites (munafiqin) too. Hazrat al-Hasan al-Basri (رح) said: &Iman (faith) does not become a living reality by taking on a particular style and form, and Din (religion) does not prosper by simply having the best of wishes for it. &Iman is the name of that certitude which has been poured into the heart and which has been proved true by deeds. This is well illustrated by a Hadith from Sayyidna Zayd ibn Arqam in which the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has been reported to have said: A person who says: لا إله إلا اللہ (la ilaha illallah : there is no god worthy of worship but Allah) with ikhlas (totally unalloyed sincerity) will definitely go to Jannah. People asked: Ya Rasul Allah, how is &ikhlas& related to this Kalimah? He said: When this Kalimah stops a person from what has been prohibited by Allah as unlawful and impermissible, then, it is with &ikhlas& (with sincerity in the absolute sense). (Qurtubi)

خلاصہ تفسیر : اور (آپ ان کے معاملہ کو نہ دیکھئے کہ موجب غم ہوتا ہے ہمارا معاملہ اپنے ساتھ دیکھئے کہ ہماری طرف سے آپ کے ساتھ کس قدر لطف و عنایت ہے چنانچہ) ہم نے آپ کو (ایک بڑی بھاری نعمت یعنی) سات آیتیں دیں جو (نماز میں) مکرر پڑھی جاتی ہیں اور وہ (بوجہ جامع مضامین عظیمہ ہونے کے اس قابل ہے کہ اس کے دینے کو یوں کہا جاوے کہ) قرآن عظیم دیا (مراد اس سے سورة فاتحہ ہے جس کی عظمت کی وجہ سے اس کا نام ام القرآن بھی ہے پس اس نعمت اور منعم کی طرف نگاہ رکھئے کہ آپ کا قلب مسرور و مطمئن ہو ان لوگوں کے عناد و خلاف کی طرف التفات نہ کیجئے اور) آپ اپنی آنکھ اٹھا کر بھی اس چیز کو نہ دیکھئے (نہ بلحاظ افسوس نہ بلحاظ ناراضگی) جو کہ ہم نے مختلف قسم کے کافروں کو (مثلا یہود و نصاری مجوس اور مشرکین کو) برتنے کے لئے دے رکھی ہے (اور بہت جلد ان سے جدا ہوجائے گی) اور ان (کی حالت کفر) پر (کچھ) غم نہ کیجئے (بلحاظ ناراضگی نظر کرنے سے یہ مراد ہے کہ چونکہ وہ دشمن خدا ہیں اس لئے بوجہ بغض فی اللہ غصہ آئے کہ ایسی نعمتیں ان کے پاس نہ ہوتیں اس کے جواب کی طرف متعنا میں اشارہ ہے کہ یہ کوئی بڑی بھاری دولت نہیں کہ ان مبغوضین کے پاس نہ ہوتیں یہ تو متاع فانی ہے بہت جلد جاتا رہے گا اور بلحاظ افسوس کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ افسوس یہ چیزیں ان کو ایمان سے مانع ہو رہی ہیں اگر یہ نہ ہوں تو غالبا ایمان لے آئیں اس کا جواب لا تحزن میں ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ ان کی طینت میں حد درجہ عناد ہے ان سے کسی طرح توقع نہیں اور حزن ہوتا ہے خلاف توقع پر جب توقع نہیں تو پھر حزن بےوجہ سے اور بہ لحاظ حرص نظر کرنے کا تو آپ سے احتمال ہی نہیں غرض یہ کہ آپ کسی بھی طرح ان کفار کے فکر وغم میں نہ پڑئیے) اور مسلمانوں پر شفقت رکھئے (یعنی فکر مصلحت اور شفقت کے لئے مسلمان کافی ہیں کہ ان کو اس سے نفع بھی ہے) اور (کافروں کے لئے چونکہ فکر مصلحت کا کوئی نتیجہ نہیں اس لئے ان کی طرف توجہ بھی نہ کیجئے البتہ تبلیغ جو آپ کا فرض منصبی ہے اسکو ادا کرتے رہئے اور اتنا) کہہ دیجئے کہ میں کھلم کھلا (تم کو خدا کے عذاب سے) ڈرانیوالا ہوں (اور خدا کی طرف سے تم کو یہ مضمون پہنچاتا ہوں کہ وہ عذاب جس سے ہمارا نبی ڈراتا ہے ہم تم پر کسی وقت ضرور نازل کریں گے) جیسا ہم نے (وہ عذاب) ان لوگوں پر (مختلف اوقات گذشتہ میں) نازل کیا ہے جنہوں نے (احکام الہی کے) حصے کر رکھے تھے یعنی آسمانی کتاب کے مختلف اجزا قرار دیئے تھے (ان میں جو مرضی کے موافق ہوا مان لیا جو مرضی کے خلاف ہو اس سے انکار کردیا مراد اس سے سابق یہود و نصاری ہیں جن پر مخالفت انبیاء (علیہم السلام) کی وجہ سے عذابوں کا ہونا مثل مسخ بصورت بندر وخنزیر، قید قتل اور ذلت مشہور و معروف تھا مطلب یہ کہ عذاب کا نازل ہونا امر بعید نہیں پہلے ہوچکا ہے اگر تم پر بھی ہوجائے تو تعجب کی کون سی بات ہے خواہ وہ عذاب دنیا میں ہو یا آخرت میں اور جب تقریر مذکور سے یہ بات واضح ہوگئی کہ جس طرح پچھلے لوگ مخالفت انبیاء (علیہم السلام) کی وجہ سے عذاب کے مستحق تھے اسی طرح موجودہ لوگ بھی مستحق عذاب ہوگئے ہیں) سو (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم کو) آپ کے پروردگار کی (یعنی اپنی) قسم ہم ان سب (اگلوں اور پچھلوں) سے ان کے اعمال کی (قیامت کے روز) ضرور باز پرس کریں گے (پھر ہر ایک کو اس کے مناسب سزا دیں گے غرض (حاصل کلام یہ کہ) آپ کو جس بات (کے پہنچانے) کا حکم کیا گیا ہے اس کو (تو) صاف صاف سنا دیجئے اور (اگر یہ نہ مانے تو) ان مشرکوں (کے نہ ماننے) کی (مطلق) پروا نہ کیجئے (یعنی غم نہ کیجئے جیسا اوپر آیا ہے لا تحزن اور نہ طبعی طور پر خوف کیجئے کہ یہ مخالف بہت سے ہیں کیونکہ) یہ لوگ جو (آپ کے اور خدا کے مخالف ہیں چناچہ آپ پر تو) ہنستے ہیں (اور) اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسرا معبود قرار دیتے ہیں ان (کے شر و ایذاء) سے آپ (کو محفوظ رکھنے) کے لئے (اور ان سے بدلہ لینے کے لئے) ہم کافی ہیں سو ان کو ابھی معوم ہوا جاتا ہے (کہ استہزاء اور شرک کیا انجام ہوتا ہے غرض جب ہم کافی ہیں پھر کا ہے کا خوف ہے اور واقعہ ہم کو معلوم ہے کہ یہ لوگ جو (کفر و استہزاء کی) باتیں کرتے ہیں اس سے آپ تنگ دل ہوتے ہیں (کہ یہ طبعی بات ہے) سو (اس کا علاج یہ ہے کہ) آپ اپنے پروردگار کی تسبیح و تمحید کرتے رہئے اور نمازیں پڑھنے والوں میں رہئے اور اپنے رب کی عبادت کرتے رہئے یہاں تک کہ (ایسی حالت میں) آپ کو موت آجائے (یعنی مرتے دم تک ذکر و عبادت میں مشغول رہئے کیونکہ ذکر اللہ اور عبادت میں آخرت کے اجر وثواب کے علاوہ یہ خاصیت بھی ہے کہ دنیا میں جب انسان اس طرف لگ جاتا ہے تو دنیا کے رنج وغم اور تکلیف و مصیبت ہلکی ہوجاتی ہے) معارف و مسائل : سورۃ فاتحہ پورے قرآن کا متن اور خلاصہ ہے۔ ان آیات میں سورة فاتحہ کو قرآن عظیم کہنے میں اس طرف اشارہ ہے کہ سورة فاتحہ ایک حیثیت سے پورا قرآن ہے کیونکہ اصول اسلام سب اس میں سموئے ہوئے ہیں محشر میں سوال کس چیز کا ہوگا : آیت مذکورہ میں حق تعالیٰ نے اپنی ذات پاک کی قسم کھا کر فرمایا کہ ان سب اگلوں پچھلوں سے ضرور سوال اور باز پرس ہوگی صحابہ کرام (رض) اجمعین نے آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ یہ سوال کس معاملہ کے متعلق ہوگا تو آپ نے فرمایا قول لا الہ الا اللہ کے متعلق تفسیر قرطبی میں اس روایت کو نقل کر کے فرمایا ہے کہ ہمارے نزدیک اس سے مراد اس عہد کو عملی طور پر پورا کرنا ہے جس کی علامت کلمہ طبیہ لا الہ الا اللہ ہے محض زبانی قول مقصود نہیں کیونکہ زبان سے اقرار تو منافقین بھی کرتے تھے حضرت حسن بصری نے فرمایا کہ ایمان کسی خاص وضع وہیت بنانے سے اور دین محض تمنائیں کرنے سے نہیں بنتا بلکہ ایمان اس یقین کا نام ہے جو قلب میں ڈال دیا گیا ہو اور اعمال نے اس کی تصدیق کی ہو جیسا کے ایک حدیث میں حضرت زید بن ارقم سے روایات ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمایا کہ جو شخص اخلاص کے ساتھ لا الہ الا اللہ کہے گا وہ ضرور جنت میں جائے گا لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ اس کلمہ میں اخلاص کا کیا مطلب ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ جب یہ کلمہ انسان کو اللہ کے محارم اور ناجائز کاموں سے روک دے تو وہ اخلاص کے ساتھ ہے (قرطبی )

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ اٰتَيْنٰكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِيْ وَالْقُرْاٰنَ الْعَظِيْمَ 87؀ ثنی الثُّنْوَى والثَّنَاء : ما يذكر في محامد الناس، فيثنی حالا فحالا ذكره، يقال : أثني عليه . وتَثَنَّى في مشیته نحو : تبختر، وسمیت سور القرآن مثاني في قوله عزّ وجلّ : وَلَقَدْ آتَيْناكَ سَبْعاً مِنَ الْمَثانِي [ الحجر/ 87] لأنها تثنی علی مرور الأوقات وتکرّر فلا تدرس ولا تنقطع دروس سائر الأشياء التي تضمحل وتبطل علی مرور الأيام، وعلی ذلک قوله تعالی: اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتاباً مُتَشابِهاً مَثانِيَ [ الزمر/ 23] ، ويصح أنه قيل للقرآن : مثاني، لما يثنی ويتجدّد حالا فحالا من فوائده، كما روي في الخبر في صفته : «لا يعوجّ فيقوّم ولا يزيغ فيستعتب، ولا تنقضي عجائبه» «1» . ويصح أن يكون ذلک من الثناء، تنبيها علی أنه أبدا يظهر منه ما يدعو إلى الثناء عليه وعلی من يتلوه، ويعلمه ويعمل به، وعلی هذا الوجه وصفه بالکرم في قوله تعالی: إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] ، وبالمجد في قوله : بَلْ هُوَ قُرْآنٌ مَجِيدٌ [ البروج/ 21] . ( ث ن ی ) مثاني تثنی ٰ ( تفعل ) فی مشیتہ تکبر سے لڑکھڑا کر چلنا ۔ اور آیت کریمہ :َ ۔ وَلَقَدْ آتَيْناكَ سَبْعاً مِنَ الْمَثانِي [ الحجر/ 87] اوہم نے تم کو سات مثانی ( سورتیں ) عطاکیں ۔ میں قرآن کی سورتوں کو مثانی کہا ہے ۔ کیونکہ مرور ایام کے ساتھ باربار ان کا ذکر اور اعادہ ہوتا رہیگا ۔ لیکن زمانہ کے گزرنے کے ساتھ نہ تو ان میں کسی قسم کا تغیر آئے گا اور نہ ہی دوسری اشیاء کی طرح یہ زوال پذیر ہیں ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتاباً مُتَشابِهاً مَثانِيَ [ الزمر/ 23] خدا نے نہایت اچھی باتیں نازل فرمائی ہیں ( یعنی ) کتاب جس کی آیتیں باہم ) ملتی جلتی ( ہیں ) اور دوہرائی جاتی ہیں ۔ اور قرآن کو مثانی کہنے کی یہ وجہ بھی ہوسکتی ہے کہ بار بار اعادہ سے اس کے عجائب وغرائب منقطع نہیں ہوتے اور ہر بار نئے حقائق سامنے آتے ہیں ۔ جیسا کہ اس کے وصف میں ایک روایت مروی ہے (53) لایعوج فیقوم ولا یزیغ فیستعتب ولا تنقضی عجائبہ ۔ کہ اس میں کچی نہیں آئے گی کہ اسے سیدھا کرنے کی ضرورت پیش آئے اور اس میں زیغ پیدا ہوگا کہ اس کا ازالہ کرنا پڑے اور اس کے عجائب وغرائب کبھی منقطع نہیں ہوں گے ۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مثافی ثناء سے مشتق ہو تو اس اسے اس امر پر متنبہ کیا ہے کہ قرآن پاک سے ہمیشہ ایسے مضامین ظاہر ہوتے رہیں گے جو اس کی ، اس کو پڑھنے والوں ، اس کا علم حاصل کرنے والوں ، اور اس پر عمل کرنے والوں ، کی تعریف کا موجب ہوں گے اور اسی معنی میں قرآن کو آیت :۔ إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] کہ یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے :۔ میں کرم کے ساتھ متصف کیا ہے اور آیت :۔ بَلْ هُوَ قُرْآنٌ مَجِيدٌ [ البروج/ 21] بلکہ یہ قرآن عظیم الشان ہے ۔ اس کے وصف میں مجید کا لفظ ذکر کیا ہے ۔ قرآن والْقُرْآنُ في الأصل مصدر، نحو : کفران ورجحان . قال تعالی:إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة/ 17- 18] قال ابن عباس : إذا جمعناه وأثبتناه في صدرک فاعمل به، وقد خصّ بالکتاب المنزّل علی محمد صلّى اللہ عليه وسلم، فصار له کالعلم کما أنّ التّوراة لما أنزل علی موسی، والإنجیل علی عيسى صلّى اللہ عليهما وسلم . قال بعض العلماء : ( تسمية هذا الکتاب قُرْآناً من بين كتب اللہ لکونه جامعا لثمرة كتبه) بل لجمعه ثمرة جمیع العلوم، كما أشار تعالیٰ إليه بقوله : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف/ 111] ، وقوله : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل/ 89] ، قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر/ 28] ، وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء/ 106] ، فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم/ 58] ، وَقُرْآنَ الْفَجْرِ؂[ الإسراء/ 78] أي : قراء ته، لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] ( ق ر ء) قرآن القرآن ۔ یہ اصل میں کفران ورحجان کی طرف مصدر ہے چناچہ فرمایا :إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة/ 17- 18] اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم ( اس کو سننا کرو ) اور پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔ حضرت ابن عباس نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب ہم قرآن تیرے سینہ میں جمع کردیں تو اس پر عمل کرو لیکن عرف میں یہ اس کتاب الہی کا نام ہے جو آنحضرت پر نازل ہوگئی ا وریہ اس کتاب کے لئے منزلہ علم بن چکا ہے جیسا کہ توراۃ اس کتاب الہی کو کہاجاتا ہے جو حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ اور انجیل اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل کی گئی ۔ بعض علماء نے قرآن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ قرآن چونکہ تمام کتب سماویہ کے ثمرہ کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے بلکہ تمام علوم کے ماحصل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے جیسا کہ آیت : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف/ 111] اور ہر چیز کی تفصیل کرنے والا ۔ اور آیت کریمہ : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل/ 89] کہ اس میں ہر چیز کا بیان مفصل ہے ۔ میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ مزید فرمایا : قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر/ 28] یہ قرآن عربی ہے جس میں کوئی عیب ( اور اختلاف ) نہیں ۔ وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء/ 106] اور ہم نے قرآن کو جزو جزو کرکے نازل کیا تاکہ تم لوگوں کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کر سناؤ ۔ فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم/ 58] اس قرآن اور آیت کریمہ : وَقُرْآنَ الْفَجْرِ [ الإسراء/ 78] اور صبح کو قرآن پڑھا کرو میں قرآت کے معنی تلاوت قرآن کے ہیں ۔ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٧) یعنی قرآن کریم کی سورة فاتحہ کی سات آیتیں جو ہر ایک رکعت میں پڑھی جاتی ہیں یا یہ کہ ہم نے ایسا قرآن کریم آپ کو عطا فرمایا کہ وہ پورے کا پورا شافی ہے، چناچہ اس میں امر، نہی، وعد، وعید، حلال، حرام، ناسخ، منسوخ، حقیقت، مجاز محکم، متشابہ، جو ہوچکا اور جو ہوگا اس کی اطلاع ایک قوم کی تعریف اور دوسری قوم کی مذمت تو سارے قرآن کریم میں مضامین بھی مرر اور ہفت ہیں اور قرآن عزیز وعظیم کے ساتھ ہم نے آپ کو اعزاز عطا فرمایا جیسا کہ یہود ونصاری پر توریت وانجیل نازل کی کہ جنہوں نے آسمانی کتابوں کے حصے کر رکھے تھے ،

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨٧ (وَلَقَدْ اٰتَيْنٰكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِيْ وَالْقُرْاٰنَ الْعَظِيْمَ ) اس پر تقریباً تمام امت کا اجماع ہے کہ یہاں سات بار بار دہرائے جانے والی آیات سے مراد سورة الفاتحہ ہے۔ حدیث میں سورة الفاتحہ کو نماز کا لازمی جزو قرار دیا گیا ہے : (لَا صَلاَۃَ لِمَنْ لَمْ یَقْرَأْ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ ) (متفق علیہ) یعنی جو شخص (نماز میں) سورة الفاتحہ نہیں پڑھتا اس کی نماز نہیں۔ قبل ازیں سورة الفاتحہ کے مطالعے کے دوران ہم وہ حدیث قدسی بھی پڑھ چکے ہیں جس میں سورة الفاتحہ ہی کو نماز قرار دیا گیا ہے : (قَسَمْتُ الصَّلَاۃَ بَیْنِیْ وَبَیْنَ عَبْدِیْ نِصْفَیْنِ ) (رواہ مسلم) اب جبکہ ہر نمازی اپنی نماز کی ہر رکعت میں سورة الفاتحہ کی تلاوت کر رہا ہے تو اندازہ کریں کہ دنیا بھر میں ان سات آیات کی تلاوت کتنی مرتبہ ہوتی ہوگی۔ اس کے علاوہ آیت زیر نظر میں اس سورة کو ” قرآن عظیم “ کا نام بھی دیا گیا ہے۔ یعنی اہمیت اور فضیلت کے اعتبار سے سورة الفاتحہ قرآن عظیم کا درجہ رکھتی ہے۔ اسی بنیاد پر اس سورت کو اساس القرآن اور ام القرآن قرار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اسے الکافیہ (کفایت کرنے والی) اور الشافیہ (شفا دینے والی) جیسے نام بھی دیے گئے ہیں۔ ایک حدیث کے مطابق سورة الفاتحہ جیسی کوئی سورت نہ تورات میں ہے ‘ نہ انجیل میں اور نہ ہی قرآن میں۔ چناچہ یہاں حضور کی دلجوئی کے لیے فرمایا جا رہا ہے کہ اے نبی دیکھیں ہم نے آپ کو اتنا بڑا خزانہ عطا فرمایا ہے۔ ابو جہل اگر خود کو مالدار سمجھتا ہے ‘ ولید بن مغیرہ اپنے زعم میں اگر بہت بڑا سردار ہے تو آپ مطلق پروا نہ کریں۔ ان لوگوں کی سوچ کے اپنے پیمانے ہیں۔ ان بد بختوں کو کیا معلوم کہ ہم نے آپ کو کتنی بڑی دولت سے نوازا ہے !

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

49. These seven verses which are recited over and over again in every prescribed salat are the verses of Surah Al- Fatihah. Though some of the commentators are of the view that this Al-Mathani, refers to the seven Surahs which contain two hundred or more verses, that is, Surahs 2-7 and (8-9) or 10. But the majority of the early commentators opine that it refers to Al-Fatihah. Imam Bukhari has cited two authentic traditions in support of the view that it refers to Al-Fatihah. 50. The mention of the precious gift of the glorious Quran has been made also to console the Prophet (peace be upon him) and his followers that they should not even look at the worldly wealth of their opponents because that was nothing as compared with this precious wealth. In order to grasp the full significance of this, one should keep in view the fact that at that time the Prophet (peace be upon him) and his companions were suffering badly from poverty. The trading activities of the Prophet (peace be upon him) had almost come to an end during the period in which he had been engaged in his mission. Besides this, he had almost used up the entire wealth of Khaijah (may Allah be pleased with her). As regards to his companions, some of the young men had been turned out of their homes and reduced to poverty. The economic boycott had mined the business of those who were engaged in trade. There were others who were mere slaves or proteges of the Quraish and had no economic position whatsoever. In addition to their sad economic plight, all the Muslims, along with the Prophet (peace be upon him), were suffering persecution from the people of Makkah and its surroundings. In short, they were so much persecuted, ridiculed and insulted that no one of them was safe from physical and mental torture. On the other side, the Quraish, their opponents and persecutors, enjoyed all the good things of this world, and lived lives of happiness and luxury. This is the background of the reassurance given to the believers, as if to say: Why should you feel disheartened at this? We have given you wealth which surpasses all kinds of worldly riches. Therefore, your opponents should envy your knowledge and high morals; you need not envy their ill canned wealth and their wicked enjoyments, for when they will go before their Lord, they themselves will find that they had not brought such wealth as carries any value there.

سورة الْحِجْر حاشیہ نمبر :49 یعنی سورہ فاتحہ کی آیات ۔ اگرچہ بعض لوگوں نے اس سے مراد وہ سات بڑی بڑی سورتیں بھی لی ہیں جن میں دو دو سو آیتیں ہیں ، یعنی البقرہ ، آل عمران ، النساء ، المائدہ ، الانعام ، الاعراف اور یونس ، یا انفاق و توبہ ۔ لیکن سلف کی اکثریت اس پر متفق ہے کہ اس سے سورہ فاتحہ ہی مراد ہے ۔ بلکہ امام بخاری نے دو مرفوع روایتیں بھی اس امر کے ثبوت میں پیش کی ہیں کہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سبع من المثانی سے مراد سورہ فاتحہ بتائی ہے ۔ سورة الْحِجْر حاشیہ نمبر :50 یہ بات بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کی تسکین و تسلی کے لیے فرمائی گئی ہے ۔ وقت وہ تھا جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھی سب کے سب انتہائی خستہ حالی میں مبتلا تھے ۔ کار نبوت کی عظیم ذمہ داریاں سنبھالتے ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تجارت قریب قریب ختم ہو چکی تھی اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا سرمایہ بھی دس بارہ سال کے عرصے میں خرچ ہو چکا تھا ۔ مسلمانوں میں سے بعض کم سن نوجوان تھے جو گھروں سے نکال دیے گئے تھے ، بعض صنعت پیشہ یا تجارت پیشہ تھے جن کے کاروبار معاشی مقاطعہ کی مسلسل ضرب سے بالکل بیٹھ گئے تھے ، اور بعض بیچارے پہلے ہی غلام یا موالی تھے جن کی کوئی معاشی حیثیت نہ تھی ۔ اس پر مزید یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سمیت تمام مسلمان مکے اور اطراف و نواح کی بستیوں میں انتہائی مظلومی کی زندگی بسر کر رہے تھے ۔ ہر طرف سے مطعون تھے ، ہر جگہ تذلیل و تحقیر اور تضحیک کا نشانہ بنے ہوئے تھے ، اور قلبی و روحانی تکلیفوں کے ساتھ جسمانی اذیتوں سے بھی کوئی بچا ہوا نہ تھا ۔ دوسری طرف سردارن قریش دنیا کی نعمتوں سے مالا مال اور ہر طرح کی خوشحالیوں میں مگن تھے ۔ ان حالات میں فرمایا جا رہا ہے کہ تم شکستہ خاطر کیوں ہوتے ہو ، تم کو تو ہم نے وہ دولت عطا کی ہے جس کے مقابلہ میں دنیا کی ساری نعمتیں ہیچ ہیں ۔ رشک کے لائق تمہاری یہ علمی و اخلاقی دولت ہے نہ کہ ان لوگوں کی مادی دولت جو طرح طرح کے حرام طریقوں سے کما رہے ہیں اور طرح طرح کے حرام راستوں میں اس کمائی کو اڑا رہے ہیں اور آخر کار بالکل مفلس و قلاش ہو کر اپنے رب کے سامنے حاضر ہونے والے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

31: اس سے مراد سورۂ فاتحہ کی سات آیتیں ہیں جو ہر نماز میں بار بار پڑھی جاتی ہیں، غالباً اس موقع پر سورۂ فاتحہ کا خصوصی حوالہ اس لئے دیا گیا ہے کہ اس سورت میں بندوں کو ایاک نعبد وایاک نستعین کے ذریعے ہر بات اللہ سے مانگنے کی تلقین فرمائی گئی ہے، گویا یہ ہدایت فرمائی جارہی ہے کہ جب کوئی تکلیف یا مصیبت پیش آئے، اللہ تعالیٰ سے رجوع کرکے اسی سے مدد مانگو، اور اسی سے صرط مستقیم پر قائم رہنے کی دعا کرو۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٨٧۔ ٨٨۔ ان آیتوں میں اللہ پاک نے ان نعمتوں کا ذکر کیا جو اس نے خاص اپنے رسول برحق کو عطا کی ہیں اس لئے فرمایا کہ ” ہم نے دیں تم کو سات آیتیں وظیفہ کی اور قرآن بڑے درجہ کا عنایت کیا اکثر مفسرین نے { سبعا من المثانی } کی تفسیر میں یہ بیان کیا ہے کہ اس سے سورت فاتحہ مراد ہے کیونکہ سورت فاتحہ کی سات آیتیں ہیں اور ہر نماز میں یہ دوہرائی جاتی ہے خواہ فرض ہو خواہ نفل اور ہر ختم قرآن میں یہ دو دفعہ پڑھی جاتی ہے ایک ابتداء میں اور پھر ختم کرنے کے بعد۔ اس کے علاوہ اور بھی چند باتیں ہیں جن کو مفسروں نے بیان کیا ہے مثلاً اس کی آیتیں دو قسم کی ہیں خدا کی تعریف اور دعا اس لئے بندے اور اس کے رب کے درمیان میں یہ سورت ملی جلی ہے۔ صحیح بخاری ١ ؎ میں ابو سعید بن معلی (رض) کی ایک حدیث ہے جس میں ابو سعید بن معلی (رض) کہتے ہیں کہ میں ایک روز نماز پڑھ رہا تھا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے اور مجھ کو بلایا مگر میں نماز پڑھ رہا تھا اس لئے میں آپ کے پاس نہ جاسکا جب نماز سے فارغ ہو کر حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا تو میرے بلانے سے کیوں نہیں آیا کیوں رک گیا تھا ابو سعید بن معلی (رض) نے کہا کہ میں نماز پڑ رہا تھا اس لئے نہ آسکا آپ نے فرمایا کہ کیا خدا نے یہ نہیں کہا ہے کہ اے ایمان والو خدا اور اس کے رسول کا حکم مانو اور کیا میں تجھ کو مسجد سے نکلنے کے پہلے ایک بڑے درجے کی سورت نہ بتلا دوں جب حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسجد سے باہر نکلنے لگے تو ابو سعید بن معلی نے یاد دلایا کہ آپ نے سورت بتلانے کو فرمایا تھا آپ نے سورت فاتحہ پڑھی اور فرمایا یہ بڑے درجے کا قرآن اور سبع مثانی ہے۔ دوسری حدیث ابوہریرہ (رض) سے بخاری میں ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ سورت فاتحہ القرآن ہے اور سبع مثانی ہے اور بڑے درجے کا قرآن ٢ ؎ ہے۔ یہ حدیثیں سورت فاتحہ کے سبع مثانی ہونے کی تفسیر ہیں مگر اور سورتوں کو بھی سبع مثانی کہا جائے یا پورے قرآن کو سبع مثانی کہا جائے تو بھی کوئی قباحت نہیں ہے چناچہ بعضے مفسروں نے سبع مثانی قرآن کی سات لمبی سورتوں کو بھی کہا ہے۔ یہ سورتیں سورت بقر سے سورت توبہ کے ختم تک ہیں کیوں کہ سورت توبہ میں بسم اللہ نہیں ہے اور ہر سورت کے شروع میں بسم اللہ ہے اس لئے اکثر سلف انفال اور توبہ ان دونوں سورتوں کو علیحدہ علیحدہ سورت نہیں سمجھتے ہیں حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) بھی اسی کے قائل ہیں وہ فرماتے ہیں کہ ان سات سورتوں میں سے دو سورتیں موسیٰ (علیہ السلام) کو ملی ہیں باقی اور کسی رسول کو سوائے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نہیں ملیں اور بعضے مفسر ساتوں منزلوں کو بھی سبع مثانی خیال کرتے ہیں جن لوگوں نے سات سورتوں کو سبع مثانی کہا ہے وہ مثانی ہونے کی یہ وجہ فرماتے ہیں کہ ان سورتوں میں پہلے ان سورتوں میں پہلے رسولوں کے قصے اور ان سے عبرت کا حاصل کرنا اور پچھلی قوموں پر عذاب کا بھیجنا مکرر بیان کیا ہے اور جو لوگ ساتوں منزلوں کو سبع مثانی کہتے ہیں وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ پورے قرآن میں قصے مقرر ذکر کئے گئے ہیں اور دین کے احکام امر و نہی چند مرتبہ مذکور ہوئے ہیں بہر حال اس نعمت کا بیان کر کے اللہ پاک نے حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کر کے فرمایا کہ دنیا میں جو اور لوگوں کو مال و دولت حاصل ہے اس کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھ شاید تمہیں اس کی رغبت ہوجائے تمہیں جو نعمت کے طور پر قرآن مجید عطا کیا گیا ہے اس کے سامنے دنیا کی دولت کیا حقیقت رکھتی ہے۔ یہ جلد فنا ہونے والی ہے اور یہ لوگ جو ایمان نہیں لاتے ہیں نہ لائیں تم اس کا کچھ غم نہ کرو اس لئے کہ جو لوگ علم الٰہی میں گمراہ ٹھہر چکے ہیں وہ کسی طرح راہ راست پر نہ آویں گے صحیح مسلم میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ دنیا کے مال و متاع میں جو شخص اپنے سے کم ہو اسے ایمان دار لوگوں تم اس کی طرف دیکھو اور جو تم سے بڑے درجے کا ہے اس کی طرف نہ دیکھو تاکہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے تم کو دیا ہے تمہاری نظر میں وہ حقیر نہ ٹھہرے ٣ ؎۔ حضرت عوف کہتے ہیں کہ میں مالدار لوگوں کے پاس بیٹھا کرتا تھا مجھے بڑا غم رہتا تھا کہ ان کے کپڑے اپنے کپڑے سے اچھا دیکھتا تھا۔ ان کے جانور میرے جانوروں سے موٹے تازے نظر آتے تھے جب میں نے یہ حدیث سنی تو غریبوں کے پاس اٹھنے بیٹھنے لگا اس وقت سے میں نہایت آرام میں ہوں پھر اللہ پاک نے حضرت کو یہ حکم دیا کہ ایمان والوں سے تواضع کے ساتھ پیش آؤ اور ان کی دلجوئی کرتے رہو۔ آیتوں اور ابوہریرہ (رض) کی حدیث کے ملانے سے یہ مطلب ہوا کہ اہل اسلام کو دین کی نعمت کے طور پر قرآن جو عطا کیا گیا ہے اس کے سامنے تمام دنیا کی کچھ حقیقت نہیں کیونکہ قرآن کی نصیحت پر عمل کرنے والوں کو عقبیٰ میں جو جنت ملنے والی ہے اس کی تھوڑی سی جگہ بھی تمام دنیا سے بہتر ہے چناچہ صحیح بخاری و مسلم کے حوالے سے ابوہریرہ (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جتنی جگہ میں سوار اپنا کوڑا رکھ دیتا ہے جنت کی اتنی جگہ تمام دنیا سے بہتر ہے ٤ ؎۔ لیکن اہل ایمان و قرآن کو دنیا میں گزر کے قابل جو کچھ اللہ نے دیا ہے اس کی ناشکری کی نوبت بھی اس طرح نہ آوے گی کہ ہر ایماندار شخص ہمیشہ ایسے آدمی پر نظر ڈالا کرے جو اس شخص سے زیادہ تنگدست ہے کیونکہ تنگدست آدمی پر نظر ڈالنے سے اس کو اپنی تھوڑی سی خوشحالی بھی بڑی نعمت نظر آوے گی نافرمان مالداروں سے بےپروائی کرنے کے حکم کے بعد آخر میں تنگ دست ایمان داروں کی دلجوئی کا حکم اس لئے فرمایا کہ ان لوگوں کو معلوم ہوجاوے کہ اللہ تعالیٰ کو ایمان دار پسند ہے مالداری پسند نہیں عربی کے محاورے میں بازو جھکانا دلجوئی کی جگہ بولا جاتا ہے۔ ١ ؎ ص ٦٨٨٣ ج ٢ باب قولہ ولقد اتینک سیعا من المثانف والقرآن العظیم (طبع سابق میں سعید بن معلی مطبوع ہے) ۔ صحیح بخاری سے تصحیح کردی گئی۔ ٢ ؎ صحیح بخاری ایضاً ۔ ٣ ؎ مشکوٰۃ ص ٤٤٧ باب فضل الفقراء الخ۔ ٤ ؎ مشکوٰۃ ص ٤٩٥ باب صفۃ الجنتہ واھلہا۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(15:87) مثانی۔ جمع منصوب۔ نکرہ۔ مثنیٰ واحد ثنی یا ثناء مصدر ثنی کا معنی دوہرا کرنا۔ تکرار کرنا۔ اعادہ کرنا۔ چھانٹ لینا۔ اور ثناء کا معنی بار بار کسی کے اوصاف حمیدہ بیان کرنا۔ یہ مثانی اس لئے ہے کہ نماز میں بار بار اس کی تکرار کی جاتی ہے یا یہ مثانی اس لئے کہ اللہ کی ذات وصفات اور اسماء حسنیٰ کی ثناء ہے اور یہ ثناء بار بار دہرائی جاتی ہے۔ سبعا من المثانی بار بار دوہرائی جانے والی آیات میں سے سات۔ اکثریت کی رائے ہے کہ اس سے مراد سورة فاتحہ ہے جس کی سات آیات ہیں اور اس کی تلاوت نہ صرف بہ تکرار ہر نماز میں ہر رکعت میں کی جاتی ہے بلکہ اس کے علاوہ بھی اکثر بطور ورد ودعا پڑھی جاتی ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 ” سبع مثانی “ اور ” بڑے قرآن “ سے مراد سورة فاتحہ ہے۔ ابوسعید بن العلی سے روایت ہے کہ آنحضرت نے فرمایا : (الحمد للہ رب العلمین یہی سبع مثانی اور قرآن عظیم ہے جو مجھے دیا گیا اور یہی اکثر صحابہ اور بعد کے مفسرین کا قول ہے۔ بعض نے سبع طوال یعنی سات لمبی سورتیں (بقرہ تا) العا و توبہ) مراد لی ہیں۔ مگر جب صحیح حدیث میں اس سے سورة فاتحہ مراد ہونے کی تصریح ہے تو کوئی دوسری تفسیر اختیار کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ کذافی شو فی۔ اس کی تفسیر میں اور بھی اقوال سقول ہیں۔ (دیکھیے المعانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 87 تا 99 اتینک ہم نے تجھے دیا۔ سبع سات۔ المثانی بار بار پڑھی جانے والی چیز۔ لاتمدن ہرگز نہ پھیلا، ہرگز نہ بڑھا۔ عینیک اپنی آنکھیں۔ متعنا ہم نے سامان دیا ۔ ازواج جوڑے۔ قسم قسم کی چیزیں۔ اخفض جھکائے رکھ۔ جناح پر، بازو۔ المقتسمین تقسیم کرنے والے۔ بانٹنے والے، عضین (عضو) ۔ ٹکڑے ٹکڑے کردینا۔ نسئلن ہم ضرور پوچھیں گے۔ اصدع صاف صاف کہہ دے ۔ اعرض منہ پھیر لے۔ نظر انداز کر دے۔ کفیناک ہم تیرے لئے کافی ہیں یضیق تنگ ہوتا ہے۔ الیقین یقینی بات۔ موت۔ تشریح :- آیت نمبر 87 تا 99 سورۃ الحجر کی آخری آیات جن پر اس سورت کو مکمل فرمایا گیا ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے دنیا کی زیب وزینت اور اس کے مقابلے میں قرآن کریم کی شان اور عظمت بیان فرمائی ہے۔ ارشاد ہے کہ آج یہ دنیا پرست اپنے مال و دولت پر فخر و غرور کر رہے ہیں ان کو اپنی سرداریوں اور اعلیٰ خاندانوں پر بڑا ناز ہے اور اسی غرور وتکبر کے نشے میں یہ صحابہ کرام پر مشق ستم کر رہے ہیں صحابہ کرام کی غربت و افلاس کا مذاق اڑا رہے ہیں لیکن ان کو نہیں معلوم کو یہ دنیا کی دولت اور عیش و آرام بہت جلد ختم ہوجائیں گے اور ان میں سے کوئی بھی باقی رہنے والی چیز نہیں ہے گزشتہ قومیں تو ان سے بھی زیادہ مضبوط اور طاقت ور تھیں لیکن آج ان کا وجود اس طرح مٹ گیا ہے کہ ان کی تہذیب و ترقی کے کھنڈرات نشان عبرت بنے ہوئے ہیں۔ فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ ان کی پرواہ نہ کیجیے۔ اللہ نے آپ کو سارا قرآن کریم عطا فرمایا ہے اور سات ایسی آیتیں عطا فرمائی ہیں جو زمانے اور حالات کے بدلنے سے نہیں بدلیں گی اور نہ ہم ہوں گی بلکہ ہمیشہ باقی رہیں گی۔ قرآن کریم ایک عظیم نعمت ہے اس نعمت کے مقابلے میں دنیا کی ساری زیب وزینت اور مال و دولت کوئی بھی حیثیت نہیں رکھتی۔ فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہم جانتے ہیں کہ کفار کے ظلم و ستم اور ذہنی اذیتوں سے آپ اپنے دل میں ایک تنگی سی محسوس کرتے ہیں لیکن وقت اور حالات بدلنے والے ہیں۔ آپ اپنے صحابہ کرام پر شفقتیں فرمئایے اور ہر چیز سے بےنیاز ہو کر اللہ کا دین پہنچایئے کیونکہ اللہ ان لوگوں کو اچھی طرح جانتا ہے جنہوں نے اللہ کے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا ہے جب جس حکم کو چاہتے ہیں مانتے ہیں جس حکم کو چاہتے ہیں نظر انداز کردیتے ہیں۔ فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ان سے نبٹنے کے لئے اللہ ہی کافی ہے۔ ان کو اپنے کھلونوں سے کھیلنے دیجیے وہ وقت دور نہیں جب ان کا انجام بھی ان کے سامنے آجائے گا آپ زندگی کے آخری سانس تک اللہ کا دین پہنچانے کی کوشش کرتے رہئے اور کسی ظالم و جابر کی پرواہ نہ کیجیے۔ حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کا دین پہنچانے کے لئے چپکے چپکے تبلیغ دین فرمایا کرتے تھے لیکن جب یہ آیت نازل ہوئی ” فاصدع بما تو مر “ (یعنی آپ وہ کیجیے جس کا حکم دیا گیا ہے) تو اس کے بعد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام نے کھلم کھلا دین اسلام کی تبلیغ شروع کردی۔ الحمد للہ سورة الحجر کا ترجمہ و تشریح مکمل ہوئی۔ واخردعوانا ان الحمد للہ رب العالمین

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

9۔ مراد اس سے سورة فاتحہ ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : سابقہ اقوام کے عبرت ناک انجام کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی و اطمینان دیتے ہوئے سورة کے اختتام میں گذشتہ تمام مضامین کو سمیٹا جا رہا ہے۔ اے پیغمبر ! آپ کو منکرین کے ساتھ اس لئے بھی نہیں الجھنا چاہیے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو سورة الفاتحہ اور قرآن مجید کی صورت میں عظیم دولت سے مالا مال کیا ہے۔ جس میں منکرین کا انجام اور اللہ کے بندوں کا انعام بیان کیا گیا ہے۔ نبوت کا منصب بذات خود اس قدر اعلیٰ وارفع ہے کہ دنیا کا کوئی منصب اور نعمت اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ مزید انعام و احسان یہ کہ نبوت کے منصب کے ساتھ اللہ تعالیٰ اس شخصیت کو اپنی کتاب بھی عطا فرما دے۔ صاحب کتاب نبی جسے ” الرسول “ بھی کہا گیا ہے۔ یہ وہ منصب ہے کہ جس کا موازنہ اور مقابلہ کسی فرشتے کے ساتھ بھی نہیں کیا جاسکتا۔ بالخصوص ہمارے رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وہ منصب اور مقام ہے جس کی مثال کائنات کی کسی چیز سے نہیں دی جاسکتی۔ جس طرح آپ کی ذات اور مقام بےمثال اور عالی مرتبت ہے اسی طرح قرآن مجید کی صورت میں جو کتاب آپ کو عنایت کی گئی ہے۔ اس کی مثل کوئی دوسری کتاب نہیں ہوسکتی۔ اس لیے ارشاد ہوتا ہے کہ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہم نے آپ کو بار بار دہرائی جانے والی سات آیات یعنی سورة الفاتحہ اور قرآن مجید، فرقان حمید عنایت فرمایا ہے۔ لہٰذا لوگوں کو بتلائیں کہ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایسی نصیحت آچکی ہے جو دلوں کی بیماریوں کے لیے شفا، تمہاری زندگی کے لیے رہنما اور اس پر ایمان لانے والوں کے لیے رحمت ہے۔ لہٰذا اللہ کے فضل اور اس کی رحمت پر خوش ہوجاؤ۔ یہ سراسر بہتر ہے اس سے جو اپنے لیے جمع کرتے ہو۔ ( یونس : ٥٧۔ ٥٨) اس گراں مایہ خزانے کے ساتھ آپ کو سورة فاتحہ کی صورت میں سات آیات عنائت کی گئی ہیں۔ جو بار بار پڑھی جانے والی ہیں۔ قرآن مجید سورة فاتحہ کی زبان میں انعام یافتہ، مغضوب اور گمراہ لوگوں کے حوالے سے قوموں کے عروج وزوال بیان کرتا ہے تاکہ سمع و اطاعت اور تسلیم ورضاکا رویّہ اختیار کرنے والوں کو بہترین انجام اور ان کا مرتبہ و مقام بتلایا جائے، باغیوں اور نافرمانوں کو ان کے انجام سے ڈرایاجائے۔ قرآن مجید کے باقی ارشادات واحکامات انہی مضامین کی تفصیلات اور تقاضے ہیں اور یہی قرآن کا پیغام ہے۔ اسی بنیاد پر سورة الحمد کو فاتحہ اور ام الکتاب کا نام دے کر اس کو کتاب مبین کی ابتدا میں رکھا گیا ہے۔ فاتحہ کی فضیلت : (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ بَیْنَمَا جِبْرِیْلُ قَاعِدٌ عِنْدَ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سَمِعَ نَقِیْضًا مِّنْ فَوْقِہٖ فَرَفَعَ رَأْسَہٗ فَقَالَ ہٰذَا بَابٌ مِّنَ السَّمَآءِ فُتِحَ الْیَوْمَ لَمْ یُفْتَحْ قَطُّ إِلَّا الْیَوْمَ فَنَزَلَ مِنْہُ مَلَکٌ فَقَالَ ہٰذَا مَلَکٌ نَزَلَ إِلَی الْأَرْضِ لَمْ یَنْزِلْ قَطُّ إِلَّا الْیَوْمَ فَسَلَّمَ فَقَالَ أَبْشِرْ بِنُوْرَیْنِ أُوْتِیْتَھُمَا لَمْ یُؤْتَھُمَا نَبِیٌّ قَبْلَکَ فَاتِحَۃِ الْکِتَابِ وَخَوَاتِیْمِ سُوْرَۃِ الْبَقَرَۃِ لَنْ تَقْرَأَ بِحَرْفٍ مِّنْھُمَا إِلَّآ أُعْطِیْتَہٗ ) [ رواہ مسلم : کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا، باب فضل الفاتحۃ ] ” حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک دن حضرت جبرائیل (علیہ السلام) رسول اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ اس دوران انہوں نے اوپر سے ایک زور دار آواز سنی اور اپنا سر اٹھا کر فرمایا کہ آسمان کا جو دروازہ آج کھولا گیا ہے یہ اس سے پہلے کبھی نہیں کھولا گیا۔ اس دروازے سے ایک فرشتہ نازل ہوا یہ ایسا فرشتہ ہے جو آج ہی زمین پر نازل ہوا ہے اس سے پہلے کبھی نہیں اترا۔ پھر اس فرشتے نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سلام کیا اور کہا : دونوروں کی خوشخبری سنیے ! یہ دونوں نور آپ ہی کو عطا کیے گئے ہیں اور آپ سے پہلے کسی نبی کو عطا نہیں ہوئے۔ ایک فاتحۃ الکتاب اور دوسراسورۃ البقرۃ کی آخری آیات۔ آپ ان دونوں میں سے کوئی کلمہ تلاوت کریں گے تو آپ کی مانگی مراد پوری ہوجائے گی۔ “ فاتحہ کی عظمت : (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خَرَجَ عَلٰٓی أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ (رض) فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَا أُبَیُّ وَہُوَ یُصَلِّی فَالْتَفَتَ أُبَیٌّ وَلَمْ یُجِبْہُ وَصَلَّی أُبَیٌّ فَخَفَّفَ ثُمَّ انْصَرَفَ إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَال السَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَعَلَیْکَ السَّلاَمُ مَا مَنَعَکَ یَا أُبَیُّ أَنْ تُجِیْبَنِیْٓ إِذْ دَعَوْتُکَ فَقَالَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ إِنِّیْ کُنْتُ فِی الصَّلاَۃِ قَالَ أَفَلَمْ تَجِدْ فِیْمَآ أَوْحَی اللّٰہُ إِلَیَّ أَنِ (اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰہِ وَلِلرَّسُوْلِ إِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْ ) قَالَ بَلٰی وَلاآأَعُودُ إِنْ شَآء اللّٰہُ قَالَ تُحِبُّ أَنْ أُعَلِّمَکَ سُورَۃً لَمْ یَنْزِلْ فِی التَّوْرَاۃِ وَلاَ فِی الإِنْجِیْلِ وَلاَ فِی الزَّبُوْرِ وَلاَ فِیْ الْفُرْقَانِ مِثْلُہَا قَالَ نَعَمْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ کَیْفَ تَقْرَأُ فِی الصَّلاَۃِ قَالَ فَقَرَأَ أُمَّ الْقُرْآنِ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ مَا أُنْزِلَتْ فِی التَّوْرَاۃِ وَلاَ فِی الإِنْجِیْلِ وَلاَ فِی الزَّبُوْرِ وَلاَ فِی الْفُرْقَانِ مِثْلُہَا وَإِنَّہَا سَبْعٌ مِّنَ الْمَثَانِیْ وَالْقُرْآنَ الْعَظِیْمُ الَّذِیْٓ أُعْطِیَتُہٗ ) [ رواہ الترمذی : کتاب فضائل القرآن، باب مَآ جَاءَ فِی فَضْلِ فَاتِحَۃِ الْکِتَابِ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں بیشک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابی بن کعب کے ہاں تشریف لے گئے۔ آپ نے اسے آواز دی وہ نماز پڑھ رہے تھے۔ حضرت ابی (رض) نے التفات فرمایا اور جواب نہ دیا لیکن اپنی نماز کو ہلکا کردیا، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف آیا۔ تو اس نے کہا آپ کو سلام کہا ! رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سلام کا جواب دیا اے ابی ! کس چیز نے تجھے جواب دینے سے روکے رکھا، اس نے کہا اللہ کے رسول میں نماز ادا کر رہا تھا آپ نے فرمایا کیا تو قرآن مجید میں یہ بات نہیں پاتا کہ اللہ اور اس کے رسول کی پکار کا جواب دو ۔ جب وہ تمہیں بلائیں ایسی چیز کی طرف جو تمہیں زندگی بخشنے والی ہے۔ اس نے کہا کیوں نہیں انشاء اللہ دوبارہ ایسے نہیں کروں گا۔ آپ نے فرمایا کیا تو پسند کرتا ہے کہ میں تجھے ایسی سورة سکھلاؤں جو توراۃ، انجیل، زبور اور قرآن مجید میں نہیں ہے اس نے کہا جی ہاں اے اللہ کے رسول ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دریافت کیا تو نماز میں کیا پڑھتا ہے حضرت ابی نے سورة فاتحہ پڑھی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قسم ہے مجھے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ اس جیسی سورة توراۃ، انجیل، زبور اور قرآن مجید میں نازل نہیں ہوئی اور یقیناً یہ سات آیات ہیں اور عظمت والا قرآن ہے جو مجھے عطا کیا گیا ہے۔ “ (عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ (رض) قَالَ کُنَّا خَلْفَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فِی صَلاَۃِ الْفَجْرِ فَقَرَأَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَثَقُلَتْ عَلَیْہِ الْقِرَاءَ ۃُ فَلَمَّا فَرَغَ قَالَ لَعَلَّکُمْ تَقْرَءُ ونَ خَلْفَ إِمَامِکُمْ قُلْنَا نَعَمْ ہَذَا یَا رَسُول اللَّہِ قَالَ لاَ تَفْعَلُوا إِلاَّ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ فَإِنَّہُ لاَ صَلاَۃَ لِمَنْ لَمْ یَقْرَأْ بِہَا ) [ رواہ ابوداؤد : باب مَنْ تَرَکَ الْقِرَاءَ ۃَ فِی صَلاَتِہِ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ ] ” حضرت عبادہ بن صامت (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے صبح کی نماز پڑھ رہے تھے آپ پر قرأت بھاری ہوگئی۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کیا تم امام کے پیچھے قرأت کرتے ہو ؟ ہم نے عرض کی جی ہاں۔ آپ نے فرمایا تم صرف سورة فاتحہ پڑھا کروکیون کہ اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو الفاتحہ کی صورت میں سات آیات دیں جو بار بار پڑھی جاتی ہیں۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید کے اوصاف اور عظمت : ١۔ اللہ نے رسول اللہ کو قرآن مجید اور سات آیات دیں جو باربار پڑھی جاتی ہیں۔ (الحجر : ٨٧) ٢۔ قرآن مجید ایسی کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں۔ (البقرۃ : ٢) ٣۔ قرآن مجید برھان اور نور مبین ہے۔ (النساء : ١٧٤) ٤۔ قرآن مجید لوگوں کے لیے ہدایت ہے۔ (البقرۃ : ١٨٥) ٥۔ قرآن مجید اللہ کی طرف سے کھلی کتاب ہے۔ (ھود : ١) ٦۔ قرآن مجید لوگوں کے لیے ہدایت اور نصیحت ہے۔ (آل عمران : ١٣٨)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر ٨٧ ۔ یہ سبع مثانی کیا ہیں ؟ راجح بات یہ ہے کہ یہ سورة فاتحہ کی سات آیات ہیں۔ جیسا کہ روایات میں بھی وارد ہے ، مثانی اس لیے کہا گیا ہے کہ نماز میں ان کو بار بار دہرایا جاتا ہے یا ان کو مثانی اس یے کہا گیا کہ ان میں اللہ کی ثنا بیان ہوتی ہے۔ جبکہ قرآن عظیم سے مراد بقیہ قرآن ہے۔ یہاں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ اس آیت میں قرآن عظیم کو آیات تخلیق کائنات اور آیات وقوع قیامت کے ساتھ ایک ہی لڑی میں لایا گیا ہے۔ اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ تخلیق کائنات ، قیام قیامت اور نزول قرآن اسی ایک سچائی کی کڑیاں ہیں جو اس پوری کائنات کی روح ہے۔ اس طرح قرآن کریم دلوں کو اس عظیم سچائی اور نوامیس قدرت کو سمجھنے کے لئے مائل کرتا ہے جو اس کائنات میں پوشیدہ ہیں۔ نفس انسانی اور آفاق میں موجود ہیں۔ انہی کے مطابق لوگوں کو ہدایت و ضلالت نصیب ہوتی ہے ۔ حق و باطل کا انجام ، خیر وشر کی اقدار ، صلاح و فساد کا تعین اسی ناموس حق کے مطابق ہوتا ہے۔ یہ قرآن کریم اس حقیقی سچائی کی دفعات اور اصولوں پر مشتمل ہے اور قرآن ہی کے ذریعے ہم معلوم کرسکتے ہیں کہ جس سچائی پر کائنات قائم ہے وہ کیا ہے ؟ گویا جس سچائی پر اس کائنات کی بنیاد رکھی گئی ہے وہ قرآن کریم ہے۔ اس سے نوامیس فطرت ثابت ہوتے ہیں ، اور یہ ان نوامیس فطرت کے ساتھ مربوط اور مرتب ہے۔ یہ قرآن کریم کوئی عارضی چیز نہیں ہے ، نہ ملنے والی حقیقت ہے۔ یہ حق ہے اور یہ ہمیشہ موثر رہے گا۔ یہ زندگی کی راہنمائی کرتا رہے گا۔ اگرچہ خندۂ و استہزاء کرنے والے خندہ و استہزاء کرتے رہیں۔ اگرچہ باطل پرست باطل کے جھنڈے اٹھائیں کیونکہ باطل زائل ہونے والا ہے اور ایک دن مٹنے والا ہے۔ جن لوگوں کو سورة فاتحہ دی گئی اور یہ قرآن عظیم دیا گیا ، جو اس کائنات کی عظیم سچائی پر مشتمل ہے جس کا اس عظیم سچائی اور حق اکبر کے ساتھ گہرا تعلق ہے ، ان کی نظریں اس قدر بلند ہوجاتی ہیں کہ وہ پھر اس دنیا میں باطل چیزوں اور زائل ہونے والی چیزوں کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھتے بھی نہیں۔ نہ ان کو باطل پرستوں کے ہاؤہو سے سے غرض ہوتی ہے ۔ وہ اس بات کو اہمیت ہی نہیں دیتے کہ وہ قلیل ہیں یا کثیر ہیں۔ ان کی تعداد کم ہے یا زیادہ ہے بہرحال ایسے لوگ اپنی راہ پر چلتے رہتے ہیں کیونکہ حق ان کے ساتھ ہوتا ہے لہٰذا ہر حال میں ان کے حوصلے بلند ہوتے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کہ ہم نے آپ کو سبع مثانی اور قرآن عظیم عطا فرمایا جو لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب کرتے تھے وہ دنیا دار تھے اور مالدار تھے کھاتے پیتے لوگ تھے اللہ جل شانہٗ نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اول تو اپنی ایک بہت بڑی نعمت کا تذکرہ فرمایا کہ ہم نے آپ کو (سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ ) عطا کیں اور قرآن عظیم عطا کیا، سبع سات کو کہتے ہیں اور مثانی جمع ہے مثنیٰ کی جو چیز بار بار مذکور ہو اسے مثنیٰ کہتے ہیں یہاں (سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ ) سے سورة فاتحہ مراد ہے اس میں سات آیات ہیں جو بار بار نماز میں پڑھی جاتی ہیں اور (اَلْقُرْاٰنَ الْعَظِیْمَ ) سے سورة فاتحہ کے علاوہ باقی قرآن مجید مراد ہے اللہ جل شانہٗ نے بطور امتنان فرمایا کہ ہم نے آپ کو سورة فاتحہ دی اور اس کے سوا باقی قرآن عطا کیا آپ لوگوں کی تکذیب پر نظر نہ کریں، ہم نے جو نعمت دی ہے، اور آپ پر جو مہربانی کی ہے اس کے سامنے منکرین کی تکذیب کی کچھ بھی حیثیت نہیں ہے، آپ نعمت عظیمہ پر خوش ہوں، ان کے عناد اور بےالتفاتی کی طرف التفات نہ کریں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

30:۔ یہ دوسری تسلی ہے۔ ” سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ “ سے سورة فاتحہ مراد ہے اور ” الْقُرْاٰنَ الْعَظِیْمَ “ کا عطف تفسیری ہے اور اس سے بھی سورة فاتحہ مراد ہے جیسا کہ ایک مرفوع حدیث میں ہے۔ قال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الحمد للہ رب العلمینھی السبع من المثانی والقران العظیم الذی اوتیتہ۔ اخرجہ البخاری (روح ج 14 ص 79) یعنی ہم نے آپ پر سورة فاتحۃ جیسا عظیم الشان انعام فرمایا ہے اس لیے آپ کافروں کی دنیوی ٹھاٹ کی طرف توجہ نہ دیں۔ یا عطف تفسیر کے لیے ہے اور ” القران العظیم “ سے قرا ان مجید مراد ہے۔ ” لَا تَمُدَّنَّ عَیْنَیْکَ الخ “ یہ زجر ہے۔ متعلق بما قبل ازواجا ای اصنافا من الکفار کالیھود والنصاریٰ والمجوس (مدارک ج 2 ص 214) ۔ یعنی ہم نے آپ کو سورة فاتحۃ اور قرآن ایسی نعمت عظمیٰ عطا فرمائی ہے اس لیے کفار کی مختلف جماعتوں کو ہم نے جو دنیوی دولت و ثروت دے دی ہے اس کی طرف آپ نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھیں کیونکہ یہ دنیوی ساز و سامان محض چند روزہ ہے قد اغنیتک بالقران عما فی ایدی الناس (قرطبی ج 10 ص 56) ۔ یعنی ہم نے آپ کو سورة فاتحہ اور قرآن ایسی نعمت عظمی عطا فرمائی ہے اس لیے کفار کی مختلف جماعتوں کو ہم نے جو دنیوی دولت و ثروت دے دی ہے اس کی طرف آپ نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھیں کیونکہ یہ دنیوی ساز و سامان محض چند روزہ ہے قد اغنیتک بالقران عما فی ایدی الناس (قرطبی ج 10 ص 56) جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد فرمایا ” لَا یَغُرَّنَّکَ تَقَلُّبُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فِیْ الْبِلَادِ “ (اٰل عمران رکوع 20) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

87 ۔ اور بلا شبہ ہم نے آپ کو سات آیتیں جو مکرر پڑھی جاتی ہیں اور نماز میں بار بار دہرائی جاتی ہیں اور قرآن عظیم عطا فرمایا ۔ کافروں کی بیجاز یادتیوں کے مقابلہ میں حضرت حق نے اپنا احسان یاد دلایا تا کہ آپ کا غم پہلے اور صدمہ دور ہوسورۂ فاتحہ کو سبع مثالی فرمایا کہ اس میں سات آیتیں ہیں اور چونکہ قرآن کے تمام مضامین پر مشتمل ہے اور قرآن کا اہم جزو ہے اس لئے اسی کو قرآن عظیم فرمایا ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی یہ نعمت بڑی دیکھ اور کافروں کی ضد سے خفا نہ ہو سات آیتیں وظیفہ کہا سورة فاتحہ کو اور بڑا قرآن بھی اسی کو کہا ہر سورة قرآن ہے یہ سب سے بڑا ہے درجہ میں رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جسکو اللہ نے قرآن دیا ہو پھر کسی کی اور نعمت دیکھ کر ہوس کرے اس نے قرآن کی قدر نہ جانی ۔ 12 خلاصہ ! یہ ہے کہ اس آیت میں چند اقوال ہیں اس میں سے شاہ صاحب (رح) نے ایک قوم اختیار کرلیا ہے واللہ اعلم