Surat ul Hijir

Surah: 15

Verse: 88

سورة الحجر

لَا تَمُدَّنَّ عَیۡنَیۡکَ اِلٰی مَا مَتَّعۡنَا بِہٖۤ اَزۡوَاجًا مِّنۡہُمۡ وَ لَا تَحۡزَنۡ عَلَیۡہِمۡ وَ اخۡفِضۡ جَنَاحَکَ لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۸۸﴾

Do not extend your eyes toward that by which We have given enjoyment to [certain] categories of the disbelievers, and do not grieve over them. And lower your wing to the believers

آپ ہرگز اپنی نظریں اس چیز کی طرف نہ دوڑائیں جس سے ہم نے ان میں سے کئی قسم کے لوگوں کو بہرہ مند کر رکھا ہے نہ ان پر آپ افسوس کریں اور مومنوں کے لئے اپنے بازو جھکائے رہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And indeed, We have bestowed upon you seven of the Mathani, and the Grand Qur'an. Look not with your eyes ambitiously at what We have given to certain classes of them, nor grieve over them. And lower your wings to the believers. Allah is saying to His Prophet: Since We have given you the Grand Qur'an, then do not look at this world and its attractions, or the transient...  delights that we have given to its people in order to test them. Do not envy what they have in this world, and do not upset yourself with regret for their rejection of you and their opposition to your religion. وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُوْمِنِينَ And lower your wings to the believers who follow you. (26:215) meaning - be gentle with them, like the Ayah, لَقَدْ جَأءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُوْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ Verily, there has come unto you a Messenger from among yourselves. It grieves him that you should receive any injury or difficulty. He is anxious for you, for the believers - he is full of pity, kind and merciful. (9:128) There were some differences among the scholars over the meaning of "seven of the Mathani". Ibn Mas`ud, Ibn Umar, Ibn Abbas, Mujahid, Sa`id bin Jubayr, Ad-Dahhak and others said that; they are the seven long (Surahs), meaning Al-Baqarah, Al-Imran, An-Nisa', Al-Ma'idah, Al-An`am, Al-A`raf, Yunus. There are texts to this effect reported from Ibn Abbas and Sa`id bin Jubayr. Sa`id said: "In them, Allah explains the obligations, the Hudud (legal limits), stories and rulings." Ibn Abbas said, "He explains the parables, stories and lessons." The second opinion is that; they (the seven of the Mathani) are Al-Fatihah, which is composed of seven Ayat. This was reported from Ali, Umar, Ibn Mas`ud and Ibn Abbas. Ibn Abbas said: "The Bismillah, is completing seven Ayah, which Allah has given exclusively to you (Muslims)." This is also the opinion of Ibrahim An-Nakha`i, Abdullah bin Umayr, Ibn Abi Mulaykah, Shahr bin Hawshab, Al-Hasan Al-Basri and Mujahid. Al-Bukhari, may Allah have mercy on him, recorded two Hadiths on this topic. The first was recorded from Abu Sa`id bin Al-Mu`alla, who said: "The Prophet passed by me while I was praying. He called out for me but I did not come until I finished my prayer. Then I came to him, and He asked, مَا مَنَعَكَ أَنْ تَأْتِيَنِي What stopped you from coming to me? I said, `I was praying'. He said, أَلَمْ يَقُلِ اللهُ D ; يأَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُواْ اسْتَجِيبُواْ لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ O you who believe! Answer Allah (by obeying Him) and (His) Messenger when he calls you... (8:24) أَلاَ أُعَلِّمُكَ أَعْظَمَ سُورَةٍ فِي الْقُرْانِ قَبْلَ أَنْ أَخْرُجَ مِنَ الْمَسْجِد Shall I not teach you the most magnificent Surah before I leave the Masjid! Then the Prophet went to leave the Masjid, and I reminded him, so he said, الْحَمْدُ للَّهِ رَبِّ الْعَـلَمِينَ All praises and thanks be to Allah, the Lord of all that exists. (1:2) هِيَ السَّبْعُ الْمَثَانِي وَالْقُرْانُ الَّذِي أُوتِيتُه This is the seven of the Mathani and the Qur'an which I have been given." The second Hadith was reported from Abu Hurayrah who said that the Messenger of Allah said: أُمُّ الْقُرْانِ هِيَ السَّبْعُ الْمَثَانِي وَالْقُرْانُ الْعَظِيم Umm Al-Qur'an (the Mother or the Essence of the Qur'an), is the seven Mathani, and the Grand Qur'an. This means that Al-Fatihah is the seven Mathani and the Grand Qur'an, but this does not contradict the statement that the seven Mathani are the seven long Surahs, because they also share these attributes, as does the whole Qur'an. As Allah says, اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَـباً مُّتَشَـبِهاً مَّثَانِيَ Allah has sent down the best statement, a Book (this Qur'an), its parts resembling each other in goodness and truth, oft-recited. (39:23) So it is oft-recited in one way, and its parts resemble one another in another way, and this is also the Grand Qur'an. لااَ تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَى مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِّنْهُمْ ... Look not with your eyes ambitiously at what We have given to certain classes of them. meaning, be content with the Grand Qur'an that Allah has given to you, and do not long for the luxuries and transient delights that they have. Al-Awfi reported that Ibn Abbas said: لااَ تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ (Look not with your eyes ambitiously), "He (in this Ayah) forbade a man to wish for what his companion has." ... إِلَى مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِّنْهُمْ ... at what We have given to certain classes of them, Mujahid said: "This refers to the rich."   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

88۔ 1 یعنی ہم نے سورت فاتحہ اور قرآن عظیم جیسی نعمتیں آپ کو عطا کی ہیں، اس لئے دنیا اور اس کی زینتیں اور ان مختلف قسم کے اہل دنیا کی طرف نہ نظر دوڑائیں جن کو دنیا فانی کی عارضی چیزیں ہم نے دی ہیں اور وہ جو آپ کی تکذیب کرتے ہیں، اس پر غم نہ کھائیں اور مومنوں کے لئے اپنے بازو جھکائے رہیں، یعنی ان کے ل... ئے نرمی اور محبت کا رویہ اپنائیں۔ اس محاورہ کی اصل یہ ہے کہ جب پرندہ اپنے بچوں کو اپنے سایہ شفقت میں لیتا ہے تو ان کو اپنے بازوؤں یعنی پروں میں لے لیتا ہے۔ یوں یہ ترکیب نرمی، پیار و محبت کا رویہ اپنانے کے مفہوم میں استعمال ہوتی ہے۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٨] مسلمانوں اور قریشیوں کی معاشی حالت کا تقابل :۔ جب ہم نے آپ کو قرآن عظیم جیسی نعمت عطا فرما دی تو پھر کافروں کو دی ہوئی ناپائیدار اور فانی نعمتوں کی طرف توجہ نہ کرنا چاہیے۔ جب یہ ہدایت آپ کو اور صحابہ کرام (رض) کو دی گئی اس وقت صورت حال یہ تھی کہ رسالت کی ذمہ داریوں کی بنا پر آپ سے تجارت کا شغل...  بھی چھوٹ چکا تھا اور سیدہ خدیجہ (رض) والا سرمایہ بھی ختم ہو رہا تھا۔ اور قریش مکہ کے معاشرتی بائیکاٹ کی وجہ سے جو چند جوان صحابہ کاروبار یا دوسرے کام کاج کرتے تھے وہ بھی چھوٹ چکے تھے۔ ویسے بھی کچھ صحابہ غلام اور کچھ آزاد کردہ غلام تھے۔ غرضیکہ مسلمانوں پر یہ سخت تنگدستی کا دور تھا۔ دوسری طرف قریش مکہ خاصے مالدار تھے۔ تجارت کرتے تھے اور ٹھاٹھ باٹھ سے رہتے تھے۔ ایسے ہی حالات میں مسلمانوں کو تسلی کے طور پر ایسی ہدایات دی جا رہی تھیں۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

لَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ اِلٰى مَا مَتَّعْنَا بِهٖٓ اَزْوَاجًا مِّنْهُمْ وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُؤْمِنِيْنَ متاع معمولی اور عارضی سازو سامان۔ ” اَزْوَاجًا “ زوج ایک قسم، مثلاً نر اور مادہ میں سے ہر ایک ایک زوج ہے، دونوں ہوں تو ” زَوْجَانِ “ (ایک جوڑا) ہے۔ ان ازواج کی بہت...  سی قسمیں ہیں، مثلاً سرمایہ دار، حاکم، فوجی، زمیندار، کارخانے دار، مذہبی پیشوا وغیرہم، یعنی سبع مثانی اور قرآن عظیم کی دولت رکھتے ہوئے آپ کفار کے مختلف قسم کی دنیاوی نعمتیں رکھنے والوں کی طرف ہرگز نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھیے، خصوصاً جب وہ نعمتیں ان کے لیے فتنہ و عذاب ہیں۔ دیکھیے سورة توبہ (٥٥) اور سورة طٰہٰ ( ١٣٠ تا ١٣٢) کی تفسیر۔ وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ : ان کے بڑے بڑے سردار اور کفر کے ٹھیکیدار اور ان کے پیروکار اگر ایمان نہیں لاتے تو آپ ان کے ایمان نہ لانے اور جہنم میں جانے پر غمگین نہ ہوں، آپ نے بات پہنچا کر حق ادا کردیا تو غم کی کیا ضرورت ہے۔ وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُؤْمِنِيْنَ : ” جَنَاحٌ“ بازو، پر، پہلو۔ یہ دراصل ایک استعارہ ہے کہ پرندہ جس طرح اپنے بچوں کو اپنے پروں کے نیچے لے کر سمیٹ لیتا ہے اور انھیں سرد و گرم سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرتا ہے، اسی طرح آپ بھی اہل ایمان کے لیے اپنا بازو یا پہلو جھکا دیں، مراد ان کے لیے نرمی، شفقت، محبت اور حفاظت ہے۔ یہی صفت اصحاب رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تھی، فرمایا : ( اَشِدَّاۗءُ عَلَي الْكُفَّارِ رُحَمَاۗءُ بَيْنَهُمْ ) [ الفتح : ٢٩ ] ” کافروں پر بہت سخت ہیں، آپس میں نہایت رحم دل ہیں۔ “  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ اِلٰى مَا مَتَّعْنَا بِهٖٓ اَزْوَاجًا مِّنْهُمْ وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُؤْمِنِيْنَ 88؀ مد أصل المَدّ : الجرّ ، ومنه : المُدّة للوقت الممتدّ ، ومِدَّةُ الجرحِ ، ومَدَّ النّهرُ ، ومَدَّهُ نهرٌ آخر، ومَدَدْتُ عيني إلى كذا . قال تعالی: وَلا تَمُدَّن... َّ عَيْنَيْكَ الآية [ طه/ 131] . ومَدَدْتُهُ في غيّه، ومَدَدْتُ الإبلَ : سقیتها المَدِيدَ ، وهو بزر ودقیق يخلطان بماء، وأَمْدَدْتُ الجیشَ بِمَدَدٍ ، والإنسانَ بطعامٍ. قال تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَ [ الفرقان/ 45] . ( م د د ) المد کے اصل معنی ( لمبائی میں ) کهينچنا اور بڑھانے کے ہیں اسی سے عرصہ دراز کو مدۃ کہتے ہیں اور مدۃ الجرح کے معنی زخم کا گندہ مواد کے ہیں ۔ مد النھر در کا چڑھاؤ ۔ مدہ نھر اخر ۔ دوسرا دریا اس کا معاون بن گیا ۔ قرآن میں ہے : أَلَمْ تَرَ إِلى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَ [ الفرقان/ 45] تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارا رب سائے کو کس طرح دراز کرک پھیلا دیتا ہے ۔ مددت عینی الی کذا کسی کیطرف حریصانہ ۔۔ اور للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنا ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَلا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ الآية [ طه/ 131] تم ۔۔ للچائی نظروں سے نہ دیکھنا ۔ متع الْمُتُوعُ : الامتداد والارتفاع . يقال : مَتَعَ النهار ومَتَعَ النّبات : إذا ارتفع في أول النّبات، والْمَتَاعُ : انتفاعٌ ممتدُّ الوقت، يقال : مَتَّعَهُ اللهُ بکذا، وأَمْتَعَهُ ، وتَمَتَّعَ به . قال تعالی: وَمَتَّعْناهُمْ إِلى حِينٍ [يونس/ 98] ، ( م ت ع ) المتوع کے معنی کیس چیز کا بڑھنا اور بلند ہونا کے ہیں جیسے متع النھار دن بلند ہوگیا ۔ متع النسبات ( پو دا بڑھ کر بلند ہوگیا المتاع عرصہ دراز تک فائدہ اٹھانا محاورہ ہے : ۔ متعہ اللہ بکذا وامتعہ اللہ اسے دیر تک فائدہ اٹھانے کا موقع دے تمتع بہ اس نے عرصہ دراز تک اس سے فائدہ اٹھایا قران میں ہے : ۔ وَمَتَّعْناهُمْ إِلى حِينٍ [يونس/ 98] اور ایک مدت تک ( فوائد دینوی سے ) ان کو بہرہ مندر کھا ۔ حزن الحُزْن والحَزَن : خشونة في الأرض وخشونة في النفس لما يحصل فيه من الغمّ ، ويضادّه الفرح، ولاعتبار الخشونة بالغم قيل : خشّنت بصدره : إذا حزنته، يقال : حَزِنَ يَحْزَنُ ، وحَزَنْتُهُ وأَحْزَنْتُهُ قال عزّ وجلّ : لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران/ 153] ( ح ز ن ) الحزن والحزن کے معنی زمین کی سختی کے ہیں ۔ نیز غم کی وجہ سے جو بیقراری سے طبیعت کے اندر پیدا ہوجاتی ہے اسے بھی حزن یا حزن کہا جاتا ہے اس کی ضد فوح ہے اور غم میں چونکہ خشونت کے معنی معتبر ہوتے ہیں اس لئے گم زدہ ہوے کے لئے خشنت بصررہ بھی کہا جاتا ہے حزن ( س ) غمزدہ ہونا غمگین کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران/ 153] تاکہ جو چیز تمہارے ہاتھ سے جاتی رہے ۔۔۔۔۔ اس سے تم اندو ہناک نہ ہو خفض الخَفْض : ضدّ الرّفع، والخَفْض الدّعة والسّير اللّيّن وقوله عزّ وجلّ : وَاخْفِضْ لَهُما جَناحَ الذُّلِ [ الإسراء/ 24] ، فهو حثّ علی تليين الجانب والانقیاد، كأنّه ضدّ قوله : أَلَّا تَعْلُوا عَلَيَّ [ النمل/ 31] ، وفي صفة القیامة : خافِضَةٌ رافِعَةٌ [ الواقعة/ 3] ، أي : تضع قوما وترفع آخرین، فخافضة إشارة إلى قوله : ثُمَّ رَدَدْناهُ أَسْفَلَ سافِلِينَ [ التین/ 5] . ( خ ف ض ) الخفض ۔ یہ رفع کی ضد ہے اور خفض کے معنی نرم رفتاری اور سکون و راحت بھی آتے ہیں اور آیت کریمہ : وَاخْفِضْ لَهُما جَناحَ الذُّلِ [ الإسراء/ 24] اور عجز ونیاز سے ان کے آگے جھکے رہو ۔ میں ماں باپ کے ساتھ نرم بر تاؤ اور ان کا مطیع اور فرمانبردار ہوکر رہنے کی ترغیب دی گئی ہے ۔ گویا یہ ( کہ مجھ سے سر کشی نہ کرنا ) کی ضد ہے اور قیامت کے متعلق فرمایا : خافِضَةٌ رافِعَةٌ [ الواقعة/ 3] کسی کو پست کر ہی اور کسی کو بلند ۔ کیونکہ وہ بعض کو پست اور بعض کو بلند کردے گی پس خافضتہ میں آیت کریمہ : ثُمَّ رَدَدْناهُ أَسْفَلَ سافِلِينَ [ التین/ 5] کے مضمون کی طرف اشارہ ہے ۔ جنح الجَنَاح : جناح الطائر، يقال : جُنِحَ «4» الطائر، أي : کسر جناحه، قال تعالی: وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ [ الأنعام/ 38] ، وسمّي جانبا الشیء جَناحيه، فقیل : جناحا السفینة، وجناحا العسکر، وجناحا الوادي، وجناحا الإنسان لجانبيه، قال عزّ وجل : وَاضْمُمْ يَدَكَ إِلى جَناحِكَ [ طه/ 22] ، أي : جانبک وَاضْمُمْ إِلَيْكَ جَناحَكَ [ القصص/ 32] ، عبارة عن الید، لکون الجناح کالید، ولذلک قيل لجناحي الطائر يداه، وقوله عزّ وجل : وَاخْفِضْ لَهُما جَناحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ [ الإسراء/ 24] ، فاستعارة، وذلک أنه لما کان الذلّ ضربین : ضرب يضع الإنسان، وضرب يرفعه۔ وقصد في هذا المکان إلى ما يرفعه لا إلى ما يضعه۔ فاستعار لفظ الجناح له، فكأنه قيل : استعمل الذل الذي يرفعک عند اللہ من أجل اکتسابک الرحمة، أو من أجل رحمتک لهما، وَاضْمُمْ إِلَيْكَ جَناحَكَ مِنَ الرَّهْبِ [ القصص/ 32] ، ( ج ن ح ) الجناح پر ندکا بازو ۔ اسی سے جنح الطائر کا محاورہ ماخوذ ہے جس کے معنی اس کا باز و تو (علیہ السلام) ڑ دینا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ؛َ ۔ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ [ الأنعام/ 38] یا دوپروں سے اڑنے والا جانور ہے ۔ پھر کسی چیز کے دونوں جانب کو بھی جناحین کہدیتے ہیں ۔ مثلا جناحا السفینۃ ( سفینہ کے دونوں جانب ) جناحا العسکر ( لشکر کے دونوں جانب اسی طرح جناحا الوادی وادی کے دونوں جانب اور انسان کے دونوں پہلوؤں کو جناحا الانسان کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے جانبک وَاضْمُمْ إِلَيْكَ جَناحَكَ [ القصص/ 32] اور اپنا ہاتھ اپنے پہلو سے لگا لو ۔ اور آیت :۔ :۔ وَاضْمُمْ إِلَيْكَ جَناحَكَ مِنَ الرَّهْبِ [ القصص/ 32] اور خوف دور ہونے ( کی وجہ ) سے اپنے بازو کو اپنی طرف سکیڑلو ۔ میں جناح بمعنی ید کے ہے ۔ کیونکہ پرند کا بازو اس کے لئے بمنزلہ ہاتھ کے ہوتا ہے اسی لئے جناحا الطیر کو یدا لطیر بھی کہا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمۃ :۔ وَاخْفِضْ لَهُما جَناحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ [ الإسراء/ 24] اور عجز دنیا سے انگے آگے جھکے رہو ۔ میں ذل کے لئے جناح بطور استعارہ ذکر کیا گیا ہے کیونکہ ذل یعنی ذلت و انکساری دو قسم پر ہے ایک ذلت وہ ہے جو انسان کو اس کے مرتبہ سے گرا دیتی ہے اور دوسری وہ ہے جو انسان کے مرتبہ کو بلند کردیتی ہے اور یہاں چونکہ ذلت کی دوسری قسم مراد ہے ۔ جو انسان کو اس کے مرتبہ سے گرانے کی بجائے بلند کردیتی ہے اس لئے جناح کا لفظ بطور استعارہ ( یعنی معنی رفعت کی طرف اشارہ کے لئے ) استعمال کیا گیا ہے گویا اسے حکم دیا گیا ہے کہ رحمت الہی حاصل کرنے کے لئے ان کے سامنے ذلت کا اظہار کرتے رہو اور یا یہ معنی ہیں کہ ان پر رحمت کرنے کے لئے ذلت کا اظہار کرو ۔ قافلہ تیزی سے چلا گویا وہ اپنے دونوں بازوں سے اڑ رہا ہے ۔ رات کی تاریکی چھاگئی ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٨۔ ٨٩۔ ٩٠۔ ٩١۔ ٩٢۔ ٩٣۔ ٩٤۔ ) اور ہم نے جو اموال بنی قریظہ اور نضیر یا یہ کہ قریش کے لوگوں کو دے رکھے ہیں آپ ان کی طرف رغبت سے اپنی آنکھ اٹھا کر نہ دیکھیں کیوں کہ ہم نے آپ کو نبوت واسلام اور قرآن کریم کے ذریعے سے جو اعزاز واکرام عطا کیا ہے، وہ ان کے عطا کردہ اموال سے کہیں بڑھ کر ہے اور اگر یہ کفار ... ایمان نہ لائیں تو ان کی ہلاکت پر کچھ غم نہ کیجیے اور مسلمانوں پر شفقت کیجیے اور ان پر مہربان ہوجائیے اور فرمائیے اور فرما دیجیے کہ میں تمہیں ایسی زبان میں جس کو تم جانتے ہو، عذاب الہی سے ڈرانے والا رسول ہوں۔ جیسا کہ ہم نے اپنا عذاب بدر کے دن اصحاب عقبہ یعنی ابوجہل، ابن ہشام، ولید بن مغیرہ بن مخزومی، حنظلہ بن ابی سفیان، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ اور تمام ان کفار پر جو کہ بدر کے دن مارے گئے نازل کیا، جنہوں نے قرآن کریم کے بارے مختلف باتیں بنائی تھیں، بعضوں نے جادو بعض نے شعر اور بعض نے پہلے لوگوں کے جھوٹے واقعات اور بعض نے کہا تھا کہ آپ کے یہ خود تراش لیا ہے۔ لہذا اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں کو آپ کے پروردگار کی قسم ہم قیامت کے دن دنیا میں جو کچھ یہ کہتے تھے یا یہ کہ کلمہ لاالہ الا اللہ کے قائل نہ ہونے کی ضرور باز پرس کریں گے، آپ اپنے امر تبلیغ کو مکہ مکرمہ میں صاف صاف سنا دیجیے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨٨ (لَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ اِلٰى مَا مَتَّعْنَا بِهٖٓ اَزْوَاجًا مِّنْهُمْ ) ابوجہل کی دولت و شوکت ‘ ولید بن مغیرہ کے باغات اور ان جیسے دوسرے کافروں کی جاگیریں آپ کو ہرگز متاثر نہ کریں۔ آپ ان کی ان چیزوں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ اگر دنیا و ما فیہا کی حیثیت اللہ ک... ی نگاہ میں مچھر کے ایک پر کے برابر بھی ہوتی تو اللہ تعالیٰ کسی کافر کو ایک گھونٹ پانی تک نہ دیتا۔ چناچہ ان کفار کو جو مال و متاع اس دنیا میں دیا گیا ہے اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کی کچھ اہمیت نہیں ہے۔ اہل ایمان کو بھی چاہیے کہ وہ بھی مال و دولت دنیا کو اسی نظر سے دیکھیں۔ (وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ ) یہ لوگ آپ کی دعوت کو ٹھکرا کر عذاب کے مستحق ہو رہے ہیں۔ ان میں آپ کے قبیلے کے افراد بھی شامل ہیں اور ابو لہب جیسے عزیز و اقارب بھی ‘ مگر آپ اب ان لوگوں کے انجام کے بارے میں بالکل پریشان نہ ہوں۔ (وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُؤْمِنِيْنَ ) اہل ایمان کے ساتھ آپ شفقت اور مہربانی سے پیش آئیں۔ ان لوگوں میں فقراء و مساکین بھی ہیں اور غلام بھی۔ یہ لوگ جب آپ کے پاس حاضر ہوں تو کمال تواضع سے ان کا استقبال کیجیے اور ان کی دلجوئی فرمائیے۔ اس سے قبل یہی بات اس انداز میں بیان فرمائی گئی ہے : (فَقُلْ سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ ) (الانعام : ٥٤) ۔ سورة الشعراء میں بھی اس مضمون کو ان الفاظ میں دہرایا گیا ہے : (وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ ) کہ اہل ایمان جو آپ کی پیروی کر رہے ہیں آپ اپنے کندھے ان کے لیے جھکا کر رکھیے۔ سورة بنی اسرائیل میں والدین کے ادب و احترام کے سلسلے میں بھی یہی الفاظ استعمال کیے گئے ہیں کہ اولاد اپنے والدین کے ساتھ ادب محبت عاجزی اور انکساری کا معاملہ کرے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

51. That is, do not grieve that they consider you as their enemy, though you are their sincere well wisher; that they regard their vices as their virtues; that they are not only themselves following but leading their followers on that way which inevitably leads to destruction. Nay, they are doing their best to oppose the reformative efforts of the one who is showing them the way of peace.

سورة الْحِجْر حاشیہ نمبر :51 ” یعنی ان کے اس حال پر نہ کڑھو کہ اپنے خیر خواہ کو اپنا دشمن سمجھ رہے ہیں ، اپنی گمراہیوں اور اخلاقی خرابیوں کو اپنی خوبیاں سمجھے بیٹھے ہیں ، خود اس راستے پر جا رہے ہیں اور اپنی ساری قوم کو اس پر لیے جا رہے ہیں جس کا یقینی انجام ہلاکت ہے ، اور جو شخص انہیں سلامتی کی...  راہ دکھا رہا ہے اس کی سعی اصلاح کو ناکام بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور صرف کیے ڈالتے ہیں ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(15:88) لا تمدن۔ فعل نہی بانون ثقیلہ واحد مذکر حاضر۔ تو لمبا نہ کر۔ تو نظر نہ اٹھا۔ لا تمدن عینیک تو ہرگز آنکھ اٹھا کر نہ دیکھ۔ مد یمد (باب نصر) المد سے جس کے معنی لمبائی میں کھینچنے اور بڑھانے کے ہیں۔ جب آنکھوں کے لئے اس کا استعمال ہو تو معنی نظر اٹھانے کے آتے ہیں۔ متعنا بہ۔ ماضی جمع متکلم متع (تف... عیل) مال ومتاع دینا۔ متعنا بہ۔ ہم نے جس مال ومتاع سے (ان میں سے بعض کو) نوازا۔ ازواجا۔ اصناقا۔ مختلف اصناف کے لوگ۔ مختلف قسم کے لوگ۔ منہم۔ ای من الکفار کالیھود والنصاریٰ ۔ یعنی کفار میں سے مختلف لوگوں یعنی یہود و نصاریٰ کو جو مال ومتاع ہم نے دے رکھا ہے۔ آیت (20:131) میں بھی انہی معنوں میں یہ جملہ استعمال ہوا ہے۔ ازواج بمعنی اقسام۔ آیت سبحان الذی خلق الازواج کلھا۔ (36:36) پاک ہے وہ ذات جس نے ہر قسم کی چیزیں پیدا کیں۔ میں بھی آیا ہے۔ المفردات میں ہے الزوج۔ جن حیوانات میں نر اور مادہ پایا جاتا ہے ان میں سے ہر ایک دوسرے کا زوج کہلاتا ہے یعنی نر اور مادہ دونوں میں سے ہر ایک پر اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ حیوانات کے علاوہ دوسری اشیاء میں سے کو زوج کہا جاتا ہے جیسے موزے اور ہوتے وغیرہ۔ پھر ہر اس چیز کو جو دوسری کی مماثل یا مقابل ہونے کی حیثیت سے اس سے مقترن ہو۔ (متصل و قریب ہو) وہ زوج کہلاتی ہے۔ قرآن میں آیا ہے۔ وجعل منہ الزوجین الذکر والانثی (75:39) اور (آخر کار) اس کی دو قسمیں کیں یعنی مرد اور عورت۔ ولا تحزن علیہم۔ اور ان پر غم نہ کیجئے (1) بوجہ ان کے ایمان نہ لانے کے۔ یا (2) بوجہ ان کے مالدار ہونے کے۔ اخفض۔ خفض۔ یخفض (ضرب) سے امر۔ واحد مذکر حاضر۔ تو جھکا دے۔ تو نیچے کر دے ۔ (56:3) قیامت کسی کو پست کرے اور کسی کو بلند۔ اس کے معنی نرم رفتاری اور سکون و راحت کے بھی آتے ہیں۔ جناحک۔ مضاف مضاف الیہ۔ جناح۔ بازو، پرندہ کا پَر۔ کسی شے کی جانب اور پہلو۔ بازو اور ہاتھ۔ اس کی جمع اجنحۃ ہے۔ واخفض جناحک اور تو جھکا دے اپنا بازو یا پُر۔ مطلب یہ کہ نرم برتائو کرو۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر ٨٨ تا ٨٩ آنکھیں لمبی نہیں ہوتیں۔ لا تمدن عینیک الی ما متعنا بہ ازواجا منھم (١٥ : ٨٨) “ تم اس متاع دنیا کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھو۔ جو ہم نے ان میں سے مختلف قسم کے لوگوں کو دے رکھی ہے ”۔ درحقیقت نظریں پھیلتی اور لمبی ہوتی ہیں لیکن للچائی نظروں کی تعبیر ان الفاظ میں کی گئی کہ گویا آنکھیں ن... کل کر لمبی ہوگئی ہیں۔ تخیل کی یہ تعجب انگیز اور طرب آمیز تصویر کشی ہے۔ مفہوم یہی ہے کہ اے رسول ، ان چیزوں کی طرف توجہ ہی نہ کرو ، ان کو اہمیت ہی نہ دو ، بعض مردوں اور عورتوں اور طبقوں کو جو یہ دولت دی گئی ہے اس کی اہمیت کچھ بھی نہیں ہے۔ ان چیزوں کو زیادہ اہتمام سے نہ دیکھو۔ ان کو خوبصورت نہ سمجھو ، ان کو دیکھ کر تمہاری نظریں خیرہ نہ ہوجائیں اور تم ان کی تمنائیں نہ کرنے لگو۔ یہ تو زائل ہونے والی چیزیں ہیں ، یہ حق نہیں ہیں ، باطل ہیں جبکہ اے پیغمبر ، آپ تو عظیم سچائی ، مثانی اور قرآن عظیم کے حامل ہیں۔ اس کا یہ مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ دنیا میں محروم طبقات کو حالت محرومیت ہی میں چھوڑ دیا جائے ، اور منعم اور عیش پرست لوگوں کو ان کے مال و منال میں غرق اور مست چھوڑ دیا جائے جبکہ اعلیٰ اقدار مٹ جائیں اور معاشی عدل ختم ہوجائے اور دنیا مستقلاً محرومین اور مترفین کے درمیان منقسم ہوجائے۔ اسلام جو سچائی پر قائم ہے اور جو یہ تعلیم دیتا ہے کہ حق اس کائنات کی روح ہے تو وہ کیسے اس قسم کی ظالمانہ اور غیر عادلانہ صورت حال کو جاری رکھنے کی اجازت دے سکتا ہے۔ یہاں اس کا ایک خاص مقامی مفہوم ہے۔ مقصد یہ ہے کہ آپ کو رشد و ہدایت کی جو دولت دی گئی ہے وہ ان لوگوں کی زرق وبرق زندگی اور دولت سے زیادہ قیمتی ہے۔ لہٰذا آپ ان سرمایہ داروں کو نظر انداز کردیں اور مخلص مومنین کی طرف متوجہ ہوں ۔ کیونکہ یہ اہل ایمان جو دنیاوی اعتبار سے اگرچہ غریب ہوں گے لیکن یہ اس سچائی کے حاملین ہیں جس کے اوپر اس کائنات کی تخلیق کی گئی ہے اور ان تمام چیزوں کی تخلیق کی گئی ہے جو اس کائنات کے درمیان ہیں۔ دنیا دار لوگ تو باطل کے پیرو کار ہیں جو عارضی چیز ہے اور اس کا اس کائنات کی اصل حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ولا تحزن علیھم (١٥ : ٨٨) “ اور ان کے حال پر اپنا دل نہ کڑھاؤ ”۔ یہ فکر نہ کرو کہ ان لوگوں کا انجام نہایت ہی بھیانک ظاہر ہونے والا ہے۔ قیامت کے دن یہ برا انجام اس حق کا تقاضا ہے لہٰذا ان کو اپنے حال پر چھوڑ دیں۔ واخفض جناحک للمومنین (١٥ : ٨٨) “ اور ایمان لانے والوں کی طرف اپنے پر جھکاؤ ”۔ یہاں نرمی ، محبت اور شفقت کی تعبیر اس طرح کی گئی ہے کہ جس طرح پرندہ اپنے بچوں کے سامنے پر بچھاتا ہے۔ یہ نہایت ہی مصور انداز تعبیر ہے اور اسے قرآن کریم بہت زیادہ استعمال کرتا ہے۔ یہ قرآن مجید کا مخصوص فنی انداز ہے۔ وقل انی انا النذیر المبین (١٥ : ٨٩) “ اور کہہ دو کہ میں تو صاف صاف تنبیہ کرنے والا ہوں ”۔ دعوت کا موثر اور حقیقی طریقہ ہی یہ ہے کہ بات واضح طور پر کہو ، یہاں موقعہ و محل چونکہ مکذبین اور مذاق کرنے والوں کا تھا۔ یہاں صرف ڈراوے کا ذکر کیا گیا ہے۔ بشارت کو ترک کردیا گیا ہے۔ کیونکہ خطاب ان لوگوں سے تھا جو دنیا پرست ہیں اور اس سچائی پر غوروفکر نہیں کرتے جو تخلیق کائنات کی بنیاد ہے جس کے اوپر قرآن آیا ہے اور جس کے مطابق قیامت برپا ہوگی۔ تخلیق کائنات کی عظیم سچائی اور فاتحہ اور قرآن عظیم کے ذکر کے موقعہ پر یہاں یہ بھی بتا دیا گیا کہ رسولان سابق کے بعض معصبین قرآن کریم پر غور نہیں کرتے۔ اس کی بعض باتوں کو تو مانتے ہیں اور بعض کا انکار کرتے ہیں۔ قرآن کریم کی جو باتیں ان کی کتابوں سے موافق ہیں ان کو تسلیم کرتے ہیں اور جو باتیں زیادہ ہیں ان کو نہیں مانتے حالانکہ قرآن کریم اللہ کی آخری اور مکمل کتاب ہے اور اس میں وہ تمام سچائیاں جمع کردی گئی ہیں جن پر کتاب سابقہ مشتمل تھیں۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اہل دنیا کے اموال و ازواج کی طرف نظریں نہ پھیلائیں پھر فرمایا (لَا تَمُدَّنَّ عَیْنَیْکَ اِلٰی مَا مَتَّعْنَابِہٖٓ اَزْوَاجًا مِّنْھُمْ ) (آپ اپنی آنکھیں ان چیزوں کی طرف نہ بڑھائیے جو ہم نے مختلف قسم کے کافروں کو فائدہ حاصل کرنے کے لیے دی ہیں۔ ) یعنی آپ کو جو کتاب اللہ کی نعمت دی گئی ہے وہ بہت بڑی ... نعمت ہے اس کے سامنے منکرین کے اموال اور زیب وزینت کی کوئی حیثیت نہیں آپ ان کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھیں، بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ اس میں بظاہر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب ہے لیکن حقیقت میں آپ کی امت کو خطاب فرمایا ہے آپ کے توسط سے جو اللہ تعالیٰ نے قرآن عظیم عطا فرمایا ہے اس نعمت کے سامنے دنیاوی اموال اور زیب وزینت ہیچ ہے، ان منکرین کے دنیاوی سامان کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھیں سورة طٰہٰ میں ارشاد فرمایا (وَ لَا تَمُدَّنَّ عَیْنَیْکَ اِلٰی مَا مَتَّعْنَابِہٖٓ اَزْوَاجًا مِّنْھُمْ زَھْرَۃَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا لِنَفْتِنَھُمْ فِیْہِ وَ رِزْقُ رَبِّکَ خَیْرٌ وَّ اَبْقٰی) (اور آپ ہرگز ان چیزوں کی طرف نظر اٹھا کر نہ دیکھیں جو ہم نے کافروں کے مختلف گروہوں کو متمتع کرنے کے لیے دی ہیں جو دنیاوی زندگی کی رونق ہیں تاکہ ہم انہیں آزمائش میں ڈالیں اور آپ کے رب کا رزق بہتر ہے اور باقی رہنے والا ہے) جو چیز فتنہ میں ڈالنے کے لیے ہے وہ نعمت نہیں ہوسکتی لہٰذا کافروں کے اموال کو دیکھنا اور ان کی طرف آنکھیں پھیلانا اہل ایمان کا شیوہ نہیں مزید فرمایا (وَلاَ تَحْزَنْ عَلَیْھِمْ ) (اور آپ ان پر غم نہ کیجیے) آپ کا کام پہنچا دینا ہے منکرین انکار کریں عناد پر کمر باندھے رہیں تو انہیں اس کی سزا مل جائے گی۔ آپ اس غم میں نہ پڑیں کہ یہ ایمان قبول نہیں کرتے۔ (وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ ) (اور ایمان والوں کے لیے اپنے بازوؤں کو جھکائے رہیے) بازوؤں کو جھکا کر رکھنے سے مراد یہ ہے کہ ان کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کیجیے جن لوگوں نے ایمان قبول کرلیا وہ رحمت اور شفقت کے مستحق ہیں کافروں پر غم کھانے کی بجائے اہل ایمان پر توجہ دی جائے تاکہ وہ اور زیادہ ایمان کے قدر دان ہوں اور مزید بشاشت کے ساتھ اعمال ایمان کو انجام دیں۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

31:۔ یہ تیسری تسلی ہے فرط رحمت و شفقت کی وجہ سے آپ کی خواہش تھی کہ تمام مشرک ایمان لے آئیں دوزخ سے بچ جائیں اس لیے بطور تسلی آپ سے فرمایا کہ آپ مشرکین کے متواتر انکار اور مسلسل عناد کی وجہ سے بھی آپ غمزدہ نہ ہوں کیونکہ آپ کا کام تبلیغ رسالت ہے جسے آپ نے احسن طریق سے انجام دے دیا ہے اگر وہ نہیں مانتے...  تو یہ ان کی بدبختی ہے۔ ” وَ لَا تَحْزَنْ عَلَیْھِمْ “ حیث انھم لم یؤمنوا وکان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یود ان یومن کل من بعث الیہ و یشق علیہ (علیہ السلام) لمزید شفقتہ بقاء الکفرۃ علی کفرھم (روح ج 14 ص 80) ۔ 32:۔ آپ نہ کافروں کی ظاہری شان و شوکت اور دنیوی مال و دولت کی طرف دیکھیں اور نہ ان کے ایمان نہ لانے پر غم کریں بلکہ آپ اپنی توجہ مومنوں کی طرف رکھیں اور ان سے نرمی کا برتاؤ فرمائیں۔ اور جو معاندین معجزات طلب کرتے ہیں ان سے صاف صاف فرما دیں کہ معجزات اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہیں میرے قبضہ میں نہیں ہیں میں تو کھلا کھلا ڈڑ سنانے والا ہوں اور نہ ماننے والوں کو عذاب الٰہی سے خبردار کرنے والا ہوں کہ اگر نہیں مانوگے تو ہلاک کر دئیے جاؤ گے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

88 ۔ اور ہم نے دنیوی زندگی میں کافروں کے مختلف گروہوں کو جو سامان برتنے کے لئے دے رکھا ہے۔ اس پر آرزو مندانہ اور رغبت آمیز نگاہ نہ دوڑایئے اور نگاہ نہ کیجئے اور نہ آپ ان کافروں پر اور ان کی محرومی پر اندوہ غم کیجئے اور اپنے بازو مسلمانوں کے لئے پست رکھیئے۔ نگاہ دراز نہ کیجئے یعنی منکروں کے آرام و آس... ائش اور ان کے سازو سامان کی جانب نظر نہ کیجئے اور یہ آرزو نہ کیجئے کہ مسلمانوں کو بھی یہ سازو سامان دیا جائے ، مختلف گروہوں سے مراد مشرکین اور یہود و نصاریٰ ہیں ان پر غم نہ کیجئے یعنی آپ کو اس کا غم نہ ہو کہ یہ کیوں مسلمان نہیں ہوتے آپ مسلمانوں کے ساتھ تواضع اور شفقت کا برتائو کیجئے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو دنیوی چند روزہ سازو سامان سے بےرغبتی کی تعلیم دی اور قرآن کریم جو بہت بڑی نعمت ہے اس نعمت کی جانب توجہ دلائی حضرت صدیق اکبر (رض) کا قول ہے اللہ تعالیٰ نے جس کو قرآن کریم عطا فرمایا اور اس نے یہ خیال کیا کہ مجھ سے کسی کو بہتر دنیوی سازو سامان دیا گیا ہے تو اس نے بڑی چیز کو چھوٹا کردیا اور چھوٹی چیز کو بڑا کردیا ۔  Show more