Surat ul Hijir

Surah: 15

Verse: 90

سورة الحجر

کَمَاۤ اَنۡزَلۡنَا عَلَی الۡمُقۡتَسِمِیۡنَ ﴿ۙ۹۰﴾

Just as We had revealed [scriptures] to the separators

جیسے کہ ہم نے ان تقسیم کرنے والوں پر اتارا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

As We have sent down on the Muqtasimin (conspiring confederates), المُقْتَسِمِينَ (the Muqtasimin) refers to those who had made a pact to oppose, deny, and insult the Prophets. Similarly, Allah tells us about the people of Salih: قَالُواْ تَقَاسَمُواْ بِاللَّهِ لَنُبَيِّتَنَّهُ وَأَهْلَهُ They said, "Swear to one another (Taqasamu) by Allah that we shall make a secret night attack on him and his household." (27:49) i.e., they plotted to kill him at night. Mujahid said; "Taqasamu means they swore an oath." وَأَقْسَمُواْ بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَـنِهِمْ لاَ يَبْعَثُ اللَّهُ مَن يَمُوتُ And they swear by Allah with their strongest oaths, that Allah will not raise up one who dies. (16:38) أَوَلَمْ تَكُونُواْ أَقْسَمْتُمْ مِّن قَبْلُ (It will be said): "Did you not before swear that you would not leave (the world for the Hereafter)! (14:44) أَهَـوُلاءِ الَّذِينَ أَقْسَمْتُمْ لاَ يَنَالُهُمُ اللَّهُ بِرَحْمَةٍ Are they those, of whom you swore that Allah would never show them mercy. (7:49) It is as if they took an oath for every single thing that they denied in this world, so they are called the Muqtasimin. Who have made the Qur'an into parts. meaning, they have split up the Books that were revealed to them, believing in parts of them and rejecting parts of them. الَّذِينَ جَعَلُوا الْقُرْانَ عِضِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

90۔ 1 بعض مفسرین کے نزدیک انزلنا کا مفعول العذاب محذوف ہے۔ معنی یہ ہیں کہ میں تمہیں کھل کر ڈرانے والا ہوں عذاب سے، مثل اس عذاب کے، جنہوں نے کتاب الٰہی کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے، بعض کہتے ہیں کہ اس سے قریش قوم مراد ہے، جنہوں نے اللہ کی کتاب کو تقسیم کردیا، اس کے بعض حصے کے شعر، بعض کو سحر (جادو) بعض کو کہانت اور بعض کو اساطیر الأولین (پہلوں کی کہانیاں (قرار دیا، بعض کہتے ہیں کہ یہ حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم ہے جنہوں نے آپس میں قسم کھائی تھی کہ صالح (علیہ السلام) اور ان کے گھر والوں کو رات کے اندھیرے میں قتل کردیں گے (تَقَاسَمُوْا باللّٰهِ لَـنُبَيِّتَـنَّهٗ وَاَهْلَهٗ ) 27 ۔ النمل :49) اور آسمانی کتاب کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا۔ عضین کے ایک معنی یہ بھی کیے گئے ہیں کہ اس کی بعض باتوں پر ایمان رکھنا اور بعض کے ساتھ کفر کرنا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

كَمَآ اَنْزَلْنَا عَلَي الْمُقْتَسِمِيْنَ ۔۔ : ” الْمُقْتَسِمِيْنَ “ یہ ” قَسْمٌ“ سے باب افتعال کا اسم فاعل ہے، ” تقسیم کرنے والے۔ “ قرطبی نے فرمایا : ” عِضِیْنَ “ ” عِضَۃٌ“ کی جمع ہے، جس کا معنی کسی چیز کا جز یا ٹکڑا ہے۔ ” عَضَا یَعْضُوْ عَضْوًا الشَّیْءَ “ اور ” عَضّٰی یُعَضِّی الشَّیْءَ “ ” کسی چیز کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا۔ “ ہر ٹکڑا ” عِضَۃٌ“ کہلاتا ہے، اس کے آخر سے واؤ حذف کرکے تاء لائی گئی ہے۔ ” اَلْقُرْاٰنَ “ قرآن مجید کا نام ہے، پہلے انبیاء کی کتابوں کو بھی ” قرآن “ کہہ لیتے ہیں، کیونکہ وہ بھی پڑھی جاتی تھیں، گویا کتاب اور قرآن کا لفظ سب کے لیے ہے۔ ہمارے قرآن کے لیے عموماً ” ھٰذَا الْقُرْآنُ “ یا ” ذٰلِکَ الْکِتَابُ “ وغیرہ کا اشارہ ساتھ موجود ہوتا ہے۔ ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( خُفِّفَ عَلٰی دَاوٗدَ عَلَیْہِ السَّلَامُ الْقُرْآنُ فَکَانَ یَأْمُرُ بِدَوَابِّہِ فَتُسْرَجُ فَیَقْرَأُ الْقُرْآنَ قَبْلَ أَنْ تُسْرَجَ دَوَابُّہُ )[ بخاری، أحادیث الأنبیاء، باب قول اللہ تعالیٰ : ( و آتینا داود زبورا ) : ٣٤١٧ ] ” داؤد (علیہ السلام) پر قرآن (پڑھنا) بہت ہلکا کردیا گیا تھا، چناچہ وہ اپنی سواریوں کے متعلق حکم دیتے تو ان پر زین ڈالی جاتی اور آپ سواریوں پر زین ڈالے جانے سے پہلے قرآن پڑھ لیتے تھے۔ “ ان آیات کی مختلف تفسیریں کی گئی ہیں، ان میں سے ایک وہ ہے جو امام المفسرین طبری (رض) نے پسند فرمائی ہے۔ یہاں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ” كَمَآ اَنْزَلْنَا عَلَي الْمُقْتَسِمِيْنَ “ (جیسا ہم نے ان تقسیم کرنے والوں پر اتارا) کا تعلق پچھلی کس آیت اور کس لفظ کے ساتھ ہے اور اس مشبہ بہ کا مشبہ کیا ہے اور ” اَنْزَلْنَا “ (ہم نے اتارا) سے کیا چیز اتارنا مراد ہے ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ ” اَنْزَلْنَا “ کا مفعول محذوف ہے ” اَلْعَذَابَ “ یعنی ہم نے عذاب اتارا اور ” كَمَآ اَنْزَلْنَا “ کا تعلق اس سے پہلی آیت : (وَقُلْ اِنِّىْٓ اَنَا النَّذِيْرُ الْمُبِيْنُ ) کے ساتھ ہے اور معنی یہ ہے، اے نبی ! کہہ دے کہ بیشک میں تو تمہیں کھلم کھلا ڈرانے والا ہوں، اس قسم کے عذاب سے جیسا ہم نے ان تقسیم کرنے والوں پر نازل کیا تھا جنھوں نے (اپنی) کتاب کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا تھا۔ یعنی اس کے بعض حصوں کو مان لیا اور بعض کو نہ مانا۔ سورة بقرہ میں اللہ تعالیٰ نے ان کے اس طرح کے بعض کاموں کا ذکر کرکے فرمایا : ( ۭاَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْكِتٰبِ وَتَكْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ ) [ البقرۃ : ٨٥ ] ” پھر کیا تم کتاب کے بعض پر ایمان لاتے ہو اور بعض کے ساتھ کفر کرتے ہو ؟ “ اور اس کی جزا دنیا کی رسوائی اور آخرت میں سخت ترین عذاب بیان فرمائی۔ اب یہاں آپ کے زمانے کے اسرائیلیوں کو اس قسم کے عذاب سے ڈرایا جا رہا ہے جو ان سے پہلوں پر آیا تھا، کیونکہ وہ بھی تورات کے بعض حصوں کا صاف انکار کرتے تھے، مثلاً نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کی تاکید والی آیات۔ اور قریش کو بھی کہ کتاب اللہ کے بعض حصوں کو جھٹلانے والوں پر جس طرح عذاب آیا میں تمہیں بھی ویسے ہی عذاب سے کھلم کھلا ڈرانے والا ہوں، کیونکہ تم نے بھی جھٹلانے کی روش اختیار کر رکھی ہے اور تم قرآن کے بعض حصوں کو ماننے کے لیے بالکل تیار نہیں ہو، چناچہ تم بھی بتوں کی مذمت کی آیات نکال دینے پر ایمان لانے کی پیش کش کرتے ہو، فرمایا : (وَدُّوْا لَوْ تُدْهِنُ فَيُدْهِنُوْنَ ) [ القلم : ٩ ] ” وہ چاہتے ہیں کاش ! تو نرمی کرے تو وہ بھی نرمی کریں۔ “ اسی طرح ان کا یہ مطالبہ بھی ذکر فرمایا کہ اس قرآن کے علاوہ اور قرآن لے آؤ، یا اس میں تبدیلی کر دو ۔ (دیکھیے یونس : ١٥) دوسری تفسیر یہ ہے کہ ” کَمَا اَنْزَلْنَا “ کا تعلق آیت (٨٧) (وَلَقَدْ اٰتَيْنٰكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِيْ وَالْقُرْاٰنَ الْعَظِيْمَ ) سے ہے اور ” اَنْزَلْنَا “ کا مفعول محذوف ” اَلْکِتَابَ “ ہے اور مطلب یہ ہے کہ ہم نے آپ کو سبع مثانی اور قرآن عظیم عطا فرمائے، جیسے ان لوگوں پر کتاب نازل کی تھی جنھوں نے اپنی کتاب کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا، کسی حصے کو مان لیا کسی کو نہ مانا، جب ہم ان پر کتاب نازل کرسکتے ہیں تو آپ پر، جن کی پاکیزہ زندگی کے یہ لوگ چالیس سالہ گواہ ہیں، ہم سبع مثانی اور قرآن عظیم کیوں نازل نہیں کرسکتے ! یہ تفسیر بھی اچھی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

كَمَآ اَنْزَلْنَا عَلَي الْمُقْتَسِمِيْنَ 90۝ۙ وقوله : كَما أَنْزَلْنا عَلَى الْمُقْتَسِمِينَ [ الحجر/ 90] أي : الذین تَقَاسَمُوا شعب مكّة ليصدّوا عن سبیل اللہ من يريد رسول اللہ «1» ، وقیل : الذین تحالفوا علی كيده عليه الصلاة والسلام «2» . او رآیت کریمہ ؛كَما أَنْزَلْنا عَلَى الْمُقْتَسِمِينَ [ الحجر/ 90] جس طرح ان لوگوں پر نازل کیا جنہوں نے تقسیم کردیا ۔ میں مقتسمین سے وہ لوگ مراد ہیں جو مکہ کی مختلف گھاٹیوں میں بٹ کر بیٹھ گئے تھے ۔ تاکہ نووارد لوگوں کو اسلام سے روکیں اور رسول اللہ تک پہنچنے نہ دیں ۔ بعض کے نزدیک وہ لوگ مراد ہیں جنہوں نے رسول اللہ کے خلاف شازش کرنے پر قسمیں کھائی تھیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(15:90) المقتسمین۔ اسم فاعل جمع مذکر۔ اقتسام (افتعال) سے۔ بانٹ لینے والے۔ بعض کے نزدیک اس سے مراد یہودی اور عیسائی ہیں۔ یعنی اپنی کتابوں کے بعض حصوں کو ماننے والے اور بعض کو نہ ماننے والے۔ بعض کے نزدیک وہ بارہ یا سول اشخاص تھے جن کو ولید بن مغیرہ نے حج کے دنوں میں مکہ کی طرف آنے والے مختلف راستوں اور گھاٹیوں پر متعین کردیتا تھا۔ اور جو باہر سے آنے والوں کو بدظن کیا کرتے تھے کہ خبردار اس شخص کے فریب میں نہ آنا۔ جس نے ہم میں سے نبوت کا دعویٰ کر رکھا ہے۔ ان کو المقتسمین اس لیے کہا ہے کہ انہوں نے راستے آپ میں بانٹ رکھے تھے۔ اور یہ لوگ جنگ بدر میں ہلاک ہوگئے تھے۔ یا جنگ بدر سے قبل ہلاک ہوگئے تھے۔ یا اس کے معنی حلف اٹھانے والوں کے ہیں (قسم سے) یعنی وہ دشمنان اسلام جنہوں نے باہم سازش کر کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت میں حلف اٹھائے تھے۔ اور جو قرآن کے ان حصوں کو جو ان کی مرضی کے مطابق ہوتے تھے لے لیتے تھے اور جو حصے وہ ناگوار پاتے تھے ان سے انکار کردیتے تھے ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر ٩٠ تا ٩٣ یعنی ہم نے آپ کو سبع مثانی اور قرآن عظیم دیا ہے۔ یہ اسی طرح کی تنبیہ ہے جسے ہم نے ان تفرقہ پردازوں کی طرف بھیجی تھی۔ آپ اکیلے نبی نہ تھے جس کو کتاب دی گئی دوسرے انبیاء کو بھی دی گئی اور ان تمام کتابوں کی اصل الکتاب ہے۔ یہ واحد ہے اس کا مرجع ایک ہے کیونکہ سب کتب اللہ کی طرف سے نازل ہوئیں۔ اس لیے جن لوگوں پر اس سے قبل کتاب نازل ہوچکی ہے ، ان کا تو حق نہیں ہے کہ وہ کسی کتاب کا انکار کریں کیونکہ کتاب نازل کرنے والا خالق حقیقی بہت ہی اچھی طرح جانتا ہے کہ کس دور میں لوگوں کو کس ضابطے کی ضرورت ہے۔ یہ لوگ جنہوں نے قرآن کریم کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا ہے اور اس کو تقسیم کرلیا ہے ، ایک حصے کو تو قبول کرتے ہیں اور دوسرے حصے کو رد کردیتے ہیں۔ ( عضین جمع عضی ہے یعنی جزء۔ عضی الشاۃ یعنی فصل بین اعضائھا ان لوگوں نے اس رویہ کی مخالفت کی جو ان سے اہل کتاب ہونے کے حوالے سے متوقع تھا۔ فو ربک لنسئلنھم اجمعین (٩٢) عما کانوا یعملون (٩٣) (١٥ : ٩٢- ٩٣) “ تو قسم ہے تیرے رب کی ہم ضرور ان سے پوچھیں گے کہ تم کیا کرتے رہے ہو ”۔ اور پوچھنے کا مقصد معلوم ہے یعنی سزا۔ جب بات یہاں تک پہنچ جاتی ہے تو حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو براہ راست خطاب کیا جاتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی راہ پر گامزن رہیں ۔ جو حکم اللہ نے آپ کو دیا ہے اسے ببانگ دہل کہہ دیں۔ یہاں اس کے لئے صدع کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے معنی چیرنے کے ہیں یعنی پوری قوت سے بات کریں۔ لوگوں کا شرک کرنا اور اس پر اصرار کرنا آپ کو اپنی جدو جہد سے نہ روک دے۔ کیونکہ مشرکین اور دشمنان اسلام اپنے انجام سے جلد ہی خبردار ہوجائیں گے۔ اسی طرح آج جو لوگ تحریکی اسلامی سے استہزاء کرتے ہیں وہ بھی اپنے انجام تک پہنچ جائیں گے۔ ان کے مذاق کو دعوت اسلامی کی رفتار پر اثر انداز ہونے نہ دیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

سابقہ امتوں نے اپنی کتابوں کے اجزاء بنا رکھے تھے امت محمدیہ علی صاحبھا الصلوٰۃ والتحیۃ سے پہلے جو امتیں گزری ہیں ان پر بھی اللہ تعالیٰ شانہٗ نے آسمانی کتابیں نازل فرمائی تھیں ان لوگوں نے ان کے مختلف اجزاء کرلیے تھے یعنی بعض پر ایمان لاتے تھے بعض کے منکر ہوجاتے تھے اور ان میں تحریف و تبدیل بھی کرتے تھے ان تقسیم کرنے والوں کو (الْمُقْتَسِمِیْنَ ) سے تعبیر فرمایا اور جو کتابیں ان پر نازل ہوئی تھیں ان کو قرآن سے تعبیر کیا لفظ قرآن فعلان کا وزن ہے جو قَرَءَ یَقْرَءَ سے ماخوذ ہے ہر وہ چیز جو پڑھی جائے وہ قرآن ہے یہ اس کا لغوی معنی ہے اور امت حاضر کی اصطلاح میں لفظ قرآن اللہ تعالیٰ کی اس کتاب کا علم ہے یعنی مخصوص نام ہے جو سیدنا محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوئی، آیت کا مطلب بعض مفسرین نے یہ بتایا ہے کہ جس طرح ہم نے گزشتہ زمانہ میں ان لوگوں پر عذاب نازل کیا جنہوں نے احکام الٰہیہ کے حصے کر رکھے تھے یعنی آسمانی کتابوں کے مختلف اجزاء قرار دئیے تھے، اسی طرح سے اس زمانے کے مکذبین پر بھی عذاب نازل ہوسکتا ہے، قال صاحب معالم التنزیل ص ٥٨ ج ٣ جزؤہ فجعلوہ جزءً فامنوا ببعضہ وکفروا ببعضہ وقال مجاھدھم الیھود والنصاریٰ قسموا کتابھم ففرقوہ وبدلوہ ١ ھ کہ انہوں نے کتاب اللہ کو حصوں میں تقسیم کردیا اور بعض حصوں پر ایمان لائے اور بعض کا انکار کردیا اور مجاہد کہتے ہیں وہ یہود و نصاریٰ ہیں۔ جنہوں نے اپنی کتاب کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور اسے تقسیم کیا اور تبدیل کیا۔ صحیح بخاری ص ٦٨٤ ج ٢ میں حضرت ابن عباس (رض) سے مذکورہ بالا تفسیر یوں نقل کی ہے قال امنوا ببعض وکفروا ببعض الیھود والنصاریٰ بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ مکہ مکرمہ میں سولہ مشرکین نے یہ مشورہ کیا کہ حج کے دنوں میں مکہ معظمہ کے راستوں پر بیٹھ جائیں اور مکہ معظمہ کی گھاٹیوں اور راستوں کو تقسیم کرلیں جس شخص کی طرف سے بھی آنے والے گزریں وہ ان سے یوں کہے کہ اہل مکہ میں سے جو شخص مدعی نبوت نکلا ہے اس کے دھوکہ میں نہ آنا کوئی شخص یوں کہے کہ یہ شخص دیوانہ ہے اور کوئی شخص یوں کہے کہ یہ شخص کاہن ہے اور کوئی شخص یوں کہے کہ یہ شاعر ہے (العیاذ باللہ) چناچہ ان لوگوں نے ایسا کیا اس قول کی بناء پر انزلنا جو ماضی کا صیغہ ہے مضارع کے معنی میں ہوگا اور مطلب یہ ہے کہ مکہ کے راستے کی گھاٹیاں تقسیم کرنے والے اور ان پر بیٹھنے والے ہلاک ہوں گے چناچہ یہ لوگ غزوہ بدر میں مقتول ہوگئے اس تفسیر کی بنا پر (الَّذِیْنَ جَعَلُوا الْقُرْاٰنَ عِضِیْنَ ) کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں نے قرآن کریم کو اس طرح بانٹ لیا کہ اس کے بارے میں بطور تکذیب مختلف قسم کی باتیں کہتے تھے کوئی کہتا تھا کہ یہ سحر ہے اور کسی کا کہنا تھا کہ یہ شعر ہے اور بعض نے یوں کہا کہ یہ کذب ہے اور بعض نے اسے (اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ ) بتایا اس صورت میں قرآن سے قرآن مجید ہی مراد ہوگا اور کتب سابقہ مراد لینے کی ضرورت نہ ہوگی۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

33: یہ تخویف دنیوی کا چوتھا نمونہ ہے جس میں مشرکین کی ایک جماعت کی ہلاکت کا ذکر ہے۔ ” اَلْمُقْتَسِمِیْنَ “ (بانٹنے والا) یہ مشرکین مکہ کے حسب ذیل سولہ آدمی تھے جو موسم حج میں مکہ مکرمہ کے دروازوں کو آپس میں تقسیم کر کے ان پر بیٹھ جاتے اور باہر سے آنے والے لوگوں کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے متنفر اور بظن کرتے تاکہ وہ آپ کے پاس نہ جائیں اور آپ سے قرٓان نہ سن پائیں۔ ان کے نام یہ ہیں۔ حنظلہ بن ابی سفیان، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن مغیرہ، ابوجہل، عاص بن ہشام، ابو قیس بن الولید، قیس بن الفاکہ، زہیر بن امیہ، ہلال بن عبدالاسود، سائب بن صیفی، نضر بن ھارث، ابو البختری بن ہشام، زمعہ بن حجاج، امیہ بن کلف، اور اوس بن مغیرہ (روح ج 14 ص 81) ان کا لیڈر ولید بن مغیرہ تھا۔ جو ان سب کو مکہ مکرمہ کے مختلف راستوں پر متعین کرتا اور خود بھی ایک مورچہ سنبھال لیتا۔ یہ ہر آنے والے کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر شاعر، جادوگر، مجنون وگیرہ بہتان لگا کر آپ سے متنفر کرنے کی کوشش کرتے۔ قال مقاتل والفراء ھم ستۃ عشر رجلا بعثھم الولید بن المغیرۃ ایام الموسم فاقتسموا اعقاب مکۃ وانقابھا و فجاجھا یقولون لمن سلکھا الاتغتروا بھذا الخارج فینا یدعی النبوۃ فانہ مجنون و ربما قالوا سٰحر و ربما قالوا شاعر و ربما قالوا کا ھن (قرطبی ج 41 ص 58) ۔ ان معاندین کو اللہ تعالیٰ نے جنگ بدر میں اور اس سے پہلے آفات و بلیات سے ہلاک کردیا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

90 ۔ ہم نے جس طرح پہلی قوموں پر جو کتب سماویہ میں تفرق کرتے تھے عذاب نازل کیا تھا اسی طرح ان تقسیم کرنے والوں پر بھی عذاب نازل کریں گے۔