Surat ul Hijir

Surah: 15

Verse: 97

سورة الحجر

وَ لَقَدۡ نَعۡلَمُ اَنَّکَ یَضِیۡقُ صَدۡرُکَ بِمَا یَقُوۡلُوۡنَ ﴿ۙ۹۷﴾

And We already know that your breast is constrained by what they say.

ہمیں خوب علم ہے کہ ان باتوں سے آپ کا دل تنگ ہوتا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَكُن مِّنَ السَّاجِدِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّكَ يَضِيْقُ ۔۔ : اللہ تعالیٰ نے کفار کے استہزا اور کفر و شرک پر اصرار سے متعلق نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نہایت تاکید والے الفاظ میں تسلی دی۔ چناچہ لام تاکید اور ” قَدْ “ برائے تحقیق کے ساتھ اس بات کا اظہار فرمایا کہ ہم آپ کے حالات سے بیخبر نہیں، بلکہ ہر وقت ہماری توجہ آپ کی طرف ہے، اب بھی اور آئندہ بھی اور ہم جانتے ہیں کہ یقیناً آپ کا سینہ ان کی باتوں سے تنگ پڑجاتا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The Spiritual Defence Against Enemy Hostility From verses 97 and 98, we learn that should one face heart-rending sayings and doings of enemies the anxiety from which bothers him, then, there is a spiritual cure for that condition: Let him or her get busy with Tasbih and ` Ibadah, praising Allah Ta’ ala and praying before Him. Allah Taala will Himself remove this pain and anxiety.

دشمنوں کی ایذاء سے تنگدلی کا علاج : وَلَقَدْ نَعْلَمُ الی فَسَبِّحْ ۔ سے معلوم ہوا کہ جب انسان کو دشمنوں کی باتوں سے رنج پہنچے اور دل تنگی پیش آئے تو اس کا روحانی علاج یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تسبح و عبادت میں مشغول ہوجائے اللہ تعالیٰ خود اس کی تکلیف کو دور فرما دیں گیے۔ سورة حجر تمام شد :

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّكَ يَضِيْقُ صَدْرُكَ بِمَا يَقُوْلُوْنَ 97؀ۙ ضيق الضِّيقُ : ضدّ السّعة، ويقال : الضَّيْقُ أيضا، والضَّيْقَةُ يستعمل في الفقر والبخل والغمّ ونحو ذلك . قال تعالی: وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود/ 77] ، أي : عجز عنهم، وقال : وَضائِقٌ بِهِ صَدْرُكَ [هود/ 12] ( ض ی ق ) الضیق والضیق کتے معنی تنگی کے ہیں اور یہ سعتہ کی ضد ہے اور ضیقتہ کا لفظ فقر بخل غم اور اس قسم کے دوسرے معانی میں استعمال ہوتا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود/ 77] کے معنی یہ ہیں کہ وہ انکے مقابلہ سے عاجز ہوگئے ۔ اور آیت ؛۔ وَضائِقٌ بِهِ صَدْرُكَ [هود/ 12] اور اس ( خیال سے سے تمہارا دل تنگ ہو ۔ صدر الصَّدْرُ : الجارحة . قال تعالی: رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه/ 25] ، وجمعه : صُدُورٌ. قال : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات/ 10] ، وَلكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ [ الحج/ 46] ، ثم استعیر لمقدّم الشیء كَصَدْرِ القناة، وصَدْرِ المجلس، والکتاب، والکلام، وصَدَرَهُ أَصَابَ صَدْرَهُ ، أو قَصَدَ قَصْدَهُ نحو : ظَهَرَهُ ، وكَتَفَهُ ، ومنه قيل : رجل مَصْدُورٌ: يشكو صَدْرَهُ ، وإذا عدّي صَدَرَ ب ( عن) اقتضی الانصراف، تقول : صَدَرَتِ الإبل عن الماء صَدَراً ، وقیل : الصَّدْرُ ، قال : يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتاتاً [ الزلزلة/ 6] ، والْمَصْدَرُ في الحقیقة : صَدَرٌ عن الماء، ولموضع المصدر، ولزمانه، وقد يقال في تعارف النّحويّين للّفظ الذي روعي فيه صدور الفعل الماضي والمستقبل عنه . ( ص در ) الصدر سینہ کو کہتے ہیں قرآن میں ہے ۔ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه/ 25] میرے پروردگار اس کا م کے لئے میرا سینہ کھول دے ۔ اس کی جمع صدور آتی ہے جیسے فرمایا : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات/ 10] اور جو بھید دلوں میں وہ ظاہر کردیئے جائیں گے ۔ وَلكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ [ الحج/ 46] بلکہ دل جو سینوں میں ہیں وہ اندھے ہوتے ہیں ۔ پھر بطور استعارہ ہر چیز کے اعلیٰ ( اگلے ) حصہ کو صدر کہنے لگے ہیں جیسے صدرالقناۃ ( نیزے کا بھالا ) صدر المجلس ( رئیس مجلس ) صدر الکتاب اور صدرالکلام وغیرہ صدرہ کے معنی کسی کے سینہ پر مارنے یا اس کا قصد کرنے کے ہیں جیسا کہ ظھرہ وکتفہ کے معنی کسی کی پیٹھ یا کندھے پر مارنا کے آتے ہیں ۔ اور اسی سے رجل مصدور کا محاورہ ہے ۔ یعنی وہ شخص جو سینہ کی بیماری میں مبتلا ہو پھر جب صدر کا لفظ عن کے ذریعہ متعدی ہو تو معنی انصرف کو متضمن ہوتا ہے جیسے صدرن الابل عن الماء صدرا وصدرا اونٹ پانی سے سیر ہوکر واپس لوٹ آئے ۔ قرآن میں ہے :۔ يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتاتاً [ الزلزلة/ 6] اس دن لوگ گروہ گروہ ہو کر آئیں گے ۔ اور مصدر کے اصل معنی پانی سے سیر ہوکر واپس لوٹنا کے ہیں ۔ یہ ظرف مکان اور زمان کے لئے بھی آتا ہے اور علمائے نحو کی اصطلاح میں مصدر اس لفظ کو کہتے ہیں جس سے فعل ماضی اور مستقبل کا اشتقاق فرض کیا گیا ہو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٩٧۔ ٩٨۔ ٩٩) اور یہ کفار جو آپ کو جھٹلاتے ہیں اور معاذ باللہ آپ کو شاعر کاہن، ساحر وغیرہ کہتے ہیں ہم جانتے ہیں کہ اس سے آپ دکھی ہوتے ہیں، سو آپ اپنے پروردگار کے حکم سے نماز پڑھتے رہیے اور سجدہ کرنے والوں میں یا یہ کہ اطاعت کرنے والوں میں رہیے اور اپنے پروردگار کی اطاعت پر مستقیم رہیے یہاں تک کہ اسی حالت میں آپ کو موت آجائے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩٧ (وَلَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّكَ يَضِيْقُ صَدْرُكَ بِمَا يَقُوْلُوْنَ ) علی الاعلان دعوت کی وجہ سے مخالفت کا ایک طوفان آپ پر امڈ آیا تھا۔ پہلے مرحلے میں یہ مخالفت اگرچہ زبانی طعن وتشنیع اور بد گوئی تک محدودتھی مگر بہت تکلیف دہ تھی۔ کسی نے مجنون اور کاہن کہہ دیا ‘ کسی نے شاعر کا خطاب دے دیا۔ کوئی دور کی کوڑی لایا کہ آپ نے گھر میں ایک عجمی غلام چھپا رکھا ہے ‘ اس سے معلومات لے کر ہم پر دھونس جماتے ہیں۔ کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو واقعی سمجھتے تھے کہ آپ پر آسیب وغیرہ کے اثرات ہوگئے ہیں۔ ایسے لوگ ازراہ ہمدردی ایسی باتوں کا اظہار کرتے رہتے تھے۔ ایک دفعہ عتبہ بن ربیعہ نے اسی طرح آپ سے اظہار ہمدردی کیا۔ وہ قبیلے کا معمر بزرگ تھا۔ اس نے کہا : اے میرے بھتیجے ‘ بڑے بڑے عاملوں اور کاہنوں سے میرے تعلقات ہیں ‘ آپ کہیں تو میں ان میں سے کسی کو بلا لاؤں اور آپ کا علاج کراؤں ؟ ان سب باتوں سے آپ کو بہت تکلیف ہوتی تھی اور آپ کی اسی تکلیف اور دل کی گھٹن کا یہاں تذکرہ کیا جا رہا ہے کہ اے نبی ان لوگوں کی بیہودہ باتوں سے آپ کو جو تکلیف ہوتی ہے وہ ہمارے علم میں ہے۔ یہ مضمون سورة الانعام کی آیت ٣٣ میں بھی گزر چکا ہے ۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(15:97) یضیق صدرک۔ ضاق یضیق (ضرب) سے مضارع واحد مذکر غائب ضیق مصدر۔ تیرا دل تنگ پڑتا ہے۔ تیرے دل کو کوفت ہوتی ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے آپ کا دفاع کرنے کے ساتھ تسلی دی ہے۔ کفار کو انتباہ کرنے اور آپ کے دفاع کی ذمہ داری لینے کے بعد آپ کو مزید تسلی دینے کی خاطر ارشاد ہوتا ہے اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہم آپ کے حالات اور کیفیت کو بڑی اچھی طرح جانتے ہیں کہ کفار کے طعن وتشنیع اور استہزا سے آپ کے دل کو غم اور تکلیف پہنچتی ہے۔ جب بھی آپ غم اور تکلیف محسوس کریں تو مشرکین کے طعن وتشنیع اور استہزا کی طرف توجہ کرنے کے بجائے آپ اپنے رب کی حمد بیان کریں اور اس کے حضور سجدہ ریز ہوجائیں اور اپنے رب کی آخری دم تک عبادت کرتے رہیں۔ یہاں عبادت کے لیے ” الیقین “ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ جس سے اکثر مفسرین نے موت مراد لی ہے۔ انسان کو اپنی موت تک اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی فرمانبرداری کرنا ہے۔ اسی کے پیش نظر مومنوں کو مخاطب کرکے فرمایا گیا ہے اے صاحب ایمان لوگو ! ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو یہاں تک کہ تمہیں موت بھی مسلمان ہونے کی حیثیت سے آئے۔ (آل عمران : ١٠٢) لیکن اس کے مفہوم میں یہ بھی گنجائش نکلتی ہے کہ ” الیقین “ سے مراد عبادت میں وہ کیفیت اور اطمینان ہے۔ جس سے عبادت گزار کی طبیعت میں سکون اور دل میں اطمینان پیدا ہوجائے۔ کیونکہ ! دل اللہ کے ذکر سے ہی قرار پاتے ہیں۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ (رض) اَنَّ رَجُلًا دَخَلَ الْمَسْجِدَ وَرَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جَالِسٌ فِیْ نَاحِےَۃِ الْمَسْجِدِ فَصَلّٰی ثُمَّ جَآءَ فَسَلَّمَ عَلَےْہِ فَقَالَ لَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَعَلَےْکَ السَّلَامُ ارْجِعْ فَصَلِّ فَاِنَّکَ لَمْ تُصَلِّ فَرَجَعَ فَصَلّٰی ثُمَّ جَآءَ فَسَلَّمَ فَقَالَ وَعَلَےْکَ السَّلاَمُ ارْجِعْ فَصَلِّ فَاِنَّکَ لَمْ تُصَلِّ فَقَالَ فِی الثَّالِثَۃِ اَوْ فِی الَّتِیْ بَعْدَھَا عَلِّمْنِیْ ےَا رَسُوْلَ اللّٰہِ فَقَالَ اِذَا قُمْتَ اِلَی الصَّلٰوۃِ فَاَسْبِغِ الْوُضُوْٓءَ ثُمَّ اسْتَقْبِلِ الْقِبْلَۃَ فَکَبِّرْ ثُمَّ اقْرَأْ بِمَا تَےَسَّرَ مَعَکَ مِنَ الْقُرْآنِ ثُمَّ ارْکَعْ حَتّٰی تَطْمَءِنَّ رَاکِعًا ثُمَّ ارْفَعْ حَتّٰی تَسْتَوِِیَ قَاءِمًآ ثُمَّ اسْجُدْ حَتّٰی تَطْمَءِنَّ سَاجِدًا ثُمَّ ارْفَعْ حَتّٰی تَطْمَءِنَّ جَالِسًا ثُمَّ اسْجُدْ حَتّٰی تَطْمَءِنَّ سَاجِدًا ثُمَّ ارْفَعْ حَتّٰی تَطْمَءِنَّ جَالِسًا وَّفِیْ رِوَاے َۃٍ ثُمَّ ارْفَعْ حَتّٰی تَسْتَوِیَ قَآءِمًا ثُمَّ افْعَلْ ذَالِکَ فِیْ صَلٰوتِکَ کُلِّھَا) [ رواہ البخاری : باب من رد فقال وعلیکم السلام ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسجد کے ایک کونے میں تشریف فرما تھے اس نے جلدی سے نماز پڑھی اور آکر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں سلام عرض کیا۔ آپ نے اسے سلام کا جواب دیتے ہوئے فرمایا پیچھے ہٹ کر دوبارہ نماز پڑھو کیونکہ آپ نے نماز نہیں پڑھی۔ اس نے واپس پلٹ کر نماز پڑھی اور پھر آکر سلام عرض کیا۔ آپ نے سلام کا جواب دے کر فرمایا۔ جاکر پھر نماز پڑھو یقینًاتیری نماز ادا نہیں ہوئی۔ اس طرح وہ تیسری یا چوتھی دفعہ نماز پڑھنے کے بعدآیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہی ارشاد فرمایا تب وہ عرض کرتا ہے کہ اے اللہ کے رسول ! مجھے نماز ادا کرنے کا طریقہ سمجھائیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں جب تم نماز کا ارادہ کرو تو اچھی طرح وضو کرو۔ قبلہ رخ کھڑے ہو کر اللہ اکبر کہو پھر قرآن کی تلاوت کرو جتنی تم آسانی کے ساتھ کرسکتے ہو۔ پھر اطمینان کے ساتھ رکوع کرو، رکوع کے بعد سر اٹھا کر اطمینان کے ساتھ کھڑے ہوجاؤ، پھر اطمینان کے ساتھ سجدہ کرو ‘ سجدہ کے بعداطمینان کے ساتھ بیٹھو اب دوسرا سجدہ اطمینان کے ساتھ کرو۔ پھر دو سجدوں کے بعد اطمینان اور سکون کے ساتھ بیٹھ کر اٹھو۔ ایک روایت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے یہ الفاظ موجود ہیں اس کے بعد پھر اطمینان کے ساتھ قیام کرو۔ اس طرح اپنی نماز کو مکمل کرو۔ “ مسائل ١۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کفار کی باتیں سن کر دل میں تنگی محسوس کرتے تھے۔ ٢۔ انسان کو آخری دم تک اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنی چاہیے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرنے سے دل کو سکون اور اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی تسبیح کے فوائد : ١۔ اے لوگو ! آخری دم تک اللہ کی عبادت کرو۔ (الحجر : ٩٩) ٢۔ جن و انس کو اللہ نے اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا۔ (الذاریات : ٥٦) ٣۔ اپنے رب کی حمد و تسبیح بیان کرو اور سجدہ کرنے والوں میں سے ہوجاؤ۔ (الحجر : ٩٨) ٤۔ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ میں تمہیں عذاب الیم سے ڈراتا ہوں۔ (ھود : ٢٦) ٥۔ اللہ کا ذکر دلوں کے لیے سکون و اطمینان کا باعث ہے۔ (الرعد : ٢٨)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر ٩٧ تا ٩٩ یہ ہے اس سورة کا خاتمہ یعنی کافروں کو نظر انداز کرنا اور رب تعالیٰ کی طرف واپس ہونا اور یہ کہ جلد ہی ایک دن ایسا آنے والا ہے کہ یہ کافر خواہش رکھیں گے کہ کاش وہ مسلمان ہوتے ؟

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

36:۔ یہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے پانچویں تسلی ہے۔ اس تعبیر میں کس قدر محبت کا اظہار ہے میرے پیغمبر ہمیں خوب معلوم ہے ان مشرکین کے مشرکانہ کلمات اور ان کے استہزاء سے آپ آزردہ خاطر اور دل برداشت ہوجاتے ہیں۔ مگر آپ ان کی باتوں کو خاطر میں نہ لائیں اور ان پر غم نہ کریں ان سے میں خود حساب کرلوں گا۔ ” فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ الخ “ آپ اپنا معاملہ خدا کے سپرد کردیں، دن رات شرک سے اس کی پاکیزگی بیان کرنے اور اس کی حمد و ثنا میں لگے رہیں، اسی کے سامنے جھکیں، ہر قسم کی عبادت (زبانی، بدنی اور مالی) اسی کے لیے بجا لائیں۔ حاجات و مشکلات میں اسی کو پکاریں رکوع و سجود بھی اسی کے سامنے کریں، نذریں منتیں بھی اسی کے نام کی اور اسی کی خوشنودی کے لیے دیں۔ ” حَتّٰی یَاتِیَکَ الْیَقِیْنُ “ الیقین سے موت مراد ہے یعنی آپ تادم آخریں اسی عقیدے اور عمل پر قائم رہیں۔ المراد منہ واعبد ربک فی زمان حیاتک ولا تخل لحظۃ من لحظات الحیاۃ عن ھذہ العبادۃ (کبیر ج 5 ص 420) ۔ ان آخری دو آیتوں میں مقصودی مسئلہ بالاختصار ذکر کردیا گیا ہے۔ سورة الحجر میں آیات توحید اور اس کی خصوصیات 1 ۔ ” رُبَمَا یَوَدُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْ کَانُوْا مُسْلِمِیْنَ “ (رکوع 1) ۔ خصوصیت سورت، وقائع امم سابقہ سے عبرت حاصل کر کے مسئلہ مان لو ورنہ پچھتاؤ گے۔ 2 ۔ ” وَ لَقَدْ جَعَلْنَا فِی السَّمَاءِ بُرُوْجًا “ تا ” مِنْ نَّارِ السَّمُوْمِ “ (رکوع 3) ۔ نفی شرک فی التصرف و نفی شرک فی العلم۔ 3 ۔ ” اِنَّا مِنْکُمْ وَجِلُوْنَ “ (رکوع 4) ۔ نفی علم غیب ابراہیم علیہ السلام۔ 4 ۔ ” اِلَّا امْرَاَتَهٗ قَدَّرْنَا اِنَّھَا لَمِنَ الْغٰبِرِیْنَ “ (رکوع 4) ۔ نفی تصرف و اختیار از لوط علیہ السلام۔ 5 ۔ ” قَالَ اِنَّکُمْ قَوْمٌ مُّنْکَرُوْنَ “ (رکوع 5) ۔ نفی علم غیب از لوط علیہ السلام۔ 6 ۔ ” فَمَا اَغْنٰی عَنْھُمْ مَّا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ “ (رکوع 6) ۔ نفی اختیار و تصرف از معبودان باطلہ۔ 7 ۔ ” وَ مَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ اِلَّا بِالْحَقِّ “ (رکوع 6) ۔ کائنات کا ذرہ ذرہ اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی قدرت کاملہ پر شاہد ہے۔ 8 ۔ ” فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَ کُنْ مِّنَ السّٰجِدِیْنَ ۔ وَاعْبُدْ رَبَّکَ حَتّٰی یَاتِیَکَ الْیَقِیْنُ “ (رکوع 6) ۔ نفی استحقاق انواع عبادت از غیر اللہ، دعاء، سجدہ، نذر و منت تمام اقسام و انواع عبادت کا مستحق صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ 9 ۔ اس سورت میں تخویف دنیوی کے پانچ نمونے بیان کیے گئے ہیں۔ تین امم سابقہ سے اور دو مشرکین مکہ سے۔ 10 ۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پانچ طریقوں سے تسلی دی گئی ہے۔ سورة الحجر ختم ہوئی

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

97 ۔ اور ہم جانتے ہیں کہ یہ منکر جو کفر و استہزاء کی باتیں کرتے ہیں ان کی باتوں سے آپ کے دل تنگ ہوتے ہیں۔