Surat ul Hijir

Surah: 15

Verse: 98

سورة الحجر

فَسَبِّحۡ بِحَمۡدِ رَبِّکَ وَ کُنۡ مِّنَ السّٰجِدِیۡنَ ﴿ۙ۹۸﴾

So exalt [ Allah ] with praise of your Lord and be of those who prostrate [to Him].

آپ اپنے پروردگار کی تسبیح اور حمد بیان کرتے رہیں اور سجدہ کرنے والوں میں شامل ہوجائیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Indeed, We know that your breast becomes tight because of what they say. So glorify the praises of your Lord and be of those who prostrate themselves (to Him). meaning `We know, O Muhammad, that you are distressed by their insults towards you, but do not let that weaken your resolve or cause you to give up conveying the Message of Allah. Put your trust in Him, for He will suffice you and will support you against them. Keep yourself busy with remembering Allah, praising Him, glorifying Him, and worshipping Him (which means Salah, or prayer)' Hence Allah says: فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَكُن مِّنَ السَّاجِدِينَ (So glorify the praises of your Lord and be of those who prostrate themselves (to Him). Imam Ahmad reported from Nu`aym bin Hammar that he heard the Messenger of Allah say: قَالَ اللهُ تَعَالَى يَا ابْنَ ادَمَ لاَا تَعْجَزْ عَنْ أَرْبَعِ رَكَعَاتٍ مِنْ أَوَّلِ النَّهَارِ أَكْفِكَ اخِرَه Allah said, "O son of Adam! It is not too difficult for you to perform four Rak`ah at the beginning of the day, (and if you do them,) I will take care of you until the end of it." وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّى يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥١] مشکل اوقات میں نماز کی تلقین :۔ جب ان مشرکوں کے استہزاء سے یا ایمان نہ لانے سے یا ان کی ایذاؤں سے آپ کے دل میں تنگی اور گھٹن پیدا ہو تو اس کا بہترین حل یہ ہے کہ آپ اللہ کی طرف رجوع کیجئے اس کی تسبیح و تقدیس بیان کیجئے، نماز ادا کیجئے۔ ان چیزوں سے ایک تو آپ کے دل میں گھٹن کی بجائے اطمینان پیدا ہوگا تمہارا حوصلہ بڑھائیں گی، استقامت پیدا ہوگی اور دعوت دین کے سلسلہ میں آپ کو جو تکلیفیں اور مصائب پیش آرہے ہیں یہ باتیں آپ میں ان کے مقابلے کی قوت پیدا کردیں گی چناچہ آپ کی عادت مبارکہ تھی کہ جب بھی آپ کو کوئی پریشانی لاحق ہوتی یا رزق کی تنگی ہوتی تو آپ خود بھی نماز کی طرف جھپٹتے اور اپنے گھر والوں کو بھی ایسا ہی حکم فرماتے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ : کفار کی زیادتیوں اور استہزا کی و جہ سے سینہ کی اس تنگی کا علاج بیان فرمایا کہ اگر آپ کا سینہ اس سے تنگ ہو تو آپ اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور حمد کریں۔ تسبیح کا معنی ہے اللہ تعالیٰ کو ہر عیب، نقص اور ایسی چیزوں سے پاک قرار دینا جو اس کے لائق نہیں اور حمد کا معنی اللہ کی ان تمام صفات کمال کے ساتھ تعریف کرنا جو اس کی شان کے لائق ہیں۔ اہل علم فرماتے ہیں کہ تسبیح اور حمد میں اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کمال آجاتی ہیں، کیونکہ تسبیح میں تمام صفات سلبیہ (یعنی ہر عیب اور کمی سے پاک ہونا) آگئیں اور حمد میں تمام صفات ثبوتیہ (یعنی ہر خوبی کا مالک ہونا) آگئیں، چناچہ قرآن مجید میں بہت سے مقامات پر ہر مصیبت اور تنگی میں صبر اور تسبیح و حمد کا حکم دیا، جیسا کہ دیکھیے سورة طٰہٰ (١٣٠) ، فرقان (٥٨) ، مومن (٥٥) ، طور ( ٤٨) اور سورة نصر (٣) وغیرہ۔ وَكُنْ مِّنَ السّٰجِدِيْنَ : یعنی نماز پڑھنے والوں میں سے ہوجا، جس طرح قیام اور ” رَکْعَۃٌ“ (رکوع) سے مراد پوری نماز لی جاتی ہے، حالانکہ قیام اور ” رَکْعَۃٌ“ (رکوع) نماز کا جز ہیں، کل نہیں، مگر جز سے مراد کل ہے، اسی طرح یہاں سجدہ سے مراد نماز ہے، اسی لیے اس آیت پر سجدہ نہیں۔ سجدے کا ذکر خصوصاً اس لیے کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( أَقْرَبُ مَا یَکُوْنُ الْعَبْدُ مِنْ رَبِّہِ وَھُوَ سَاجِدٌ، فَأَکْثِرُوا الدُّعَاءَ ) [ مسلم، الصلاۃ، باب ما یقال فی الرکوع و السجود : ٤٨٢، عن أبی ہریرہ (رض) ] ” بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتا ہے جب وہ سجدے میں ہوتا ہے تو (سجدے میں) دعا کثرت سے کیا کرو۔ “ اس آیت سے معلوم ہوا کہ ہر پیش آنے والی مصیبت کا علاج اللہ کا ذکر، خصوصاً تسبیح و تحمید اور نماز ہے، ان کی برکت سے دل کو تسلی بھی ہوگی اور فکر و غم کے بادل بھی چھٹ جائیں گے، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فاطمہ (رض) کے چکی پیسنے اور مشک میں پانی ڈھونے کی مشقت کی و جہ سے خادمہ کے لیے درخواست پر انھیں سوتے وقت تسبیحات فاطمہ کا حکم دیا اور ان تسبیحات کو خادمہ سے بہتر قرار دیا اور خود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا عمل تھا کہ جب آپ کو کوئی معاملہ پیش آتا تو نماز میں مصروف ہوجاتے۔ [ أبوداوٗد، التطوع، باب وقت قیام النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فی اللیل : ١٣١٩۔ مسند أحمد : ٥؍٣٨٨، ح : ٢٣٣٦١ ]

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَكُنْ مِّنَ السّٰجِدِيْنَ 98؀ۙ تسبیح والتَّسْبِيحُ : تنزيه اللہ تعالی. وأصله : المرّ السّريع في عبادة اللہ تعالی، وجعل ذلک في فعل الخیر کما جعل الإبعاد في الشّرّ ، فقیل : أبعده الله، وجعل التَّسْبِيحُ عامّا في العبادات قولا کان، أو فعلا، أو نيّة، قال : فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ [ الصافات/ 143] ، قيل : من المصلّين «3» ، والأولی أن يحمل علی ثلاثتها، قال : وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ [ البقرة/ 30] ، وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ بِالْعَشِيِ [ غافر/ 55] ( س ب ح ) السبح التسبیح کے معنی تنزیہ الہیٰ بیان کرنے کے ہیں اصل میں اس کے معنی عبادت الہی میں تیزی کرنا کے ہیں ۔۔۔۔۔۔ پھر اس کا استعمال ہر فعل خیر پر ہونے لگا ہے جیسا کہ ابعاد کا لفظ شر پر بولا جاتا ہے کہا جاتا ہے ابعد اللہ خدا سے ہلاک کرے پس تسبیح کا لفظ قولی ۔ فعلی اور قلبی ہر قسم کی عبادت پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ [ الصافات/ 143] قو اگر یونس (علیہ السلام) اس وقت ( خدا کی تسبیح ( و تقدیس کرنے والوں میں نہ ہوتے ۔ یہاں بعض نے مستحین کے معنی مصلین کئے ہیں لیکن انسب یہ ہے کہ اسے تینوں قسم کی عبادت پر محمول کیا جائے وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ [ البقرة/ 30] اور ہم تیری حمد کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں ۔ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ بِالْعَشِيِ [ غافر/ 55] اور صبح وشام ( اسی کی ) تسبیح و تقدیس کرتے رہنا ۔ حمد الحَمْدُ لله تعالی: الثناء عليه بالفضیلة، وهو أخصّ من المدح وأعمّ من الشکر، فإنّ المدح يقال فيما يكون من الإنسان باختیاره، ومما يقال منه وفيه بالتسخیر، فقد يمدح الإنسان بطول قامته وصباحة وجهه، كما يمدح ببذل ماله وسخائه وعلمه، والحمد يكون في الثاني دون الأول، والشّكر لا يقال إلا في مقابلة نعمة، فكلّ شکر حمد، ولیس کل حمد شکرا، وکل حمد مدح ولیس کل مدح حمدا، ويقال : فلان محمود : إذا حُمِدَ ، ومُحَمَّد : إذا کثرت خصاله المحمودة، ومحمد : إذا وجد محمودا «2» ، وقوله عزّ وجلّ :إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود/ 73] ، يصحّ أن يكون في معنی المحمود، وأن يكون في معنی الحامد، وحُمَادَاكَ أن تفعل کذا «3» ، أي : غایتک المحمودة، وقوله عزّ وجل : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف/ 6] ، فأحمد إشارة إلى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم باسمه وفعله، تنبيها أنه كما وجد اسمه أحمد يوجد وهو محمود في أخلاقه وأحواله، وخصّ لفظة أحمد فيما بشّر به عيسى صلّى اللہ عليه وسلم تنبيها أنه أحمد منه ومن الذین قبله، وقوله تعالی: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ [ الفتح/ 29] ، فمحمد هاهنا وإن کان من وجه اسما له علما۔ ففيه إشارة إلى وصفه بذلک وتخصیصه بمعناه كما مضی ذلک في قوله تعالی: إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم/ 7] ، أنه علی معنی الحیاة كما بيّن في بابه «4» إن شاء اللہ . ( ح م د ) الحمدللہ ( تعالیٰ ) کے معنی اللہ تعالے کی فضیلت کے ساتھ اس کی ثنا بیان کرنے کے ہیں ۔ یہ مدح سے خاص اور شکر سے عام ہے کیونکہ مدح ان افعال پر بھی ہوتی ہے جو انسان سے اختیاری طور پر سرزد ہوتے ہیں اور ان اوصاف پر بھی جو پیدا کشی طور پر اس میں پائے جاتے ہیں چناچہ جس طرح خرچ کرنے اور علم وسخا پر انسان کی مدح ہوتی ہے اس طرح اسکی درازی قدو قامت اور چہرہ کی خوبصورتی پر بھی تعریف کی جاتی ہے ۔ لیکن حمد صرف افعال اختیار یہ پر ہوتی ہے ۔ نہ کہ اوصاف اضطرار ہپ پر اور شکر تو صرف کسی کے احسان کی وجہ سے اس کی تعریف کو کہتے ہیں ۔ لہذا ہر شکر حمد ہے ۔ مگر ہر شکر نہیں ہے اور ہر حمد مدح ہے مگر ہر مدح حمد نہیں ہے ۔ اور جس کی تعریف کی جائے اسے محمود کہا جاتا ہے ۔ مگر محمد صرف اسی کو کہہ سکتے ہیں جو کثرت قابل ستائش خصلتیں رکھتا ہو نیز جب کوئی شخص محمود ثابت ہو تو اسے بھی محمود کہہ دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود/ 73] وہ سزاوار تعریف اور بزرگوار ہے ۔ میں حمید بمعنی محمود بھی ہوسکتا ہے اور حامد بھی حماد اک ان تفعل کذا یعنی ایسا کرنے میں تمہارا انجام بخیر ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف/ 6] اور ایک پیغمبر جو میرے بعد آئیں گے جن کا نام احمد ہوگا ان کی بشارت سناتاہوں ۔ میں لفظ احمد سے آنحضرت کی ذات کی طرف اشارہ ہے اور اس میں تنبیہ ہے کہ جس طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام احمد ہوگا اسی طرح آپ اپنے اخلاق واطوار کے اعتبار سے بھی محمود ہوں گے اور عیٰسی (علیہ السلام) کا اپنی بشارت میں لفظ احمد ( صیغہ تفضیل ) بولنے سے اس بات پر تنبیہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت مسیح (علیہ السلام) اور ان کے بیشتر وجملہ انبیاء سے افضل ہیں اور آیت کریمہ : مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ [ الفتح/ 29] محمد خدا کے پیغمبر ہیں ۔ میں لفظ محمد گومن وجہ آنحضرت کا نام ہے لیکن اس میں آنجناب کے اوصاف حمیدہ کی طرف بھی اشنار پایا جاتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم/ 7] میں بیان ہوچکا ہے کہ ان کا یہ نام معنی حیات پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ اس کے مقام پرند کو ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩٨ (فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَكُنْ مِّنَ السّٰجِدِيْنَ ) آپ اپنے رب کی تسبیح وتحمید میں مشغول رہیں۔ اسی کے آگے جھکے رہیں اور اس طرح اپنے تعلق مع اللہ کو مزید مضبوط کریں۔ اللہ سے اپنے اس قلبی اور ذہنی رشتے کو جتنا مضبوط کریں گے اسی قدر آپ کے دل کو سکون و اطمینان ملے گا اور صبر و استقامت کے رستے پر چلنا اور ان سختیوں کو جھیلنا آپ کے لیے آسان ہوگا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

تسبیح وتحمید میں مشغول رہنے اور موت آنے تک عبادت میں لگے رہنے کا حکم اللہ جل شانہ نے فرمایا ہم جانتے ہیں کہ مشرکین معاندانہ باتیں کرتے ہیں (جو استھزاء کو بھی شامل ہے) اور اس کی وجہ سے آپ تنگ دل ہوتے ہیں یہ تنگ دل ہونا طبعی طور پر تھا۔ اس کے دور کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ شانہٗ نے ارشاد فرمایا کہ آپ اپنے رب کی تسبیح وتحمید میں لگے رہیں اور نمازوں میں مشغول رہیں اور دیگر عبادات میں بھی مشغولیت رکھیں اور زندگی بھر آخری دم تک ان کاموں میں مشغول رہیں، یہ چیزیں طبعی رنج کو دفع کرنے کا ذریعہ بنیں گی۔ اس سے معلوم ہوا کہ جب کوئی رنج و غم کی صورت پیش آئے تو خالق کائنات جل مجدہ کی طرف زیادہ سے زیادہ توجہ کی جائے۔ حضرت حذیفہ (رض) نے فرمایا کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب کوئی فکر مندی والی بات پیش آتی تھی تو نماز پڑھنے لگتے تھے۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص ١٧٧) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مال جمع نہیں فرماتے تھے جو آتا تھا خرچ فرما دیتے تھے۔ حضرت جبیر بن نفیر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ میری طرف یہ وحی نہیں بھیجی گئی کہ میں مال جمع کروں اور تاجروں میں سے ہوجاؤں لیکن میری طرف یہ وحی بھیجی گئی ہے کہ (فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَ کُنْ مِّنَ السّٰجِدِیْنَ وَاعْبُدْ رَبَّکَ حَتّٰی یَاْتِیَکَ الْیَقِیْنُ ) (اپنے رب کی تسبیح بیان کیجیے جو حمد کے ساتھ ملی ہوئی ہو اور نماز پڑھنے والوں میں سے ہوجاؤ اور موت آنے تک اپنے رب کی عبادت کیجیے۔ (مشکوٰۃ المصابیح ٤٤٤) ولقد تم تفسیر سورة الحجر بفضل اللّٰہ تعالیٰ وانعامہ والحمد للّٰہ تعالیٰ علیٰ تمامہ وحسن ختامہ

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

98 ۔ پس اس کا علاج یہ ہے کہ آپ اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ پاکی بیان کرتے رہیے اور اس کی تسبیح وتحمید کرتے رہیئے اور نماز پڑھنے والوں میں شامل رہیئے۔ یعنی کفار کی مخالفت کا علاج یہ ہے کہ بکثرت سبحان اللہ وبحمدہ کہا کیجئے اور سجدہ کرنے والوں اور نماز پڑھنے والوں میں شامل رہیئے اگر یہ علاج کرو گے تو تمہارا غم اور پریشانی دور کردی جائے گی۔ حدیث شریف میں آتا ہے جب حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کوئی امر پیش آجاتا تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فوراً نماز پڑھنے کھڑے ہوجاتے۔