Warning about the approach of the Hour
Allah says:
أَتَى أَمْرُ اللّهِ
...
The Event ordained by Allah has indeed come,
Allah is informing about the approach of the Hour in the past tense (in Arabic) in order to confirm that it will undoubtedly come to pass.
This is like the following Ayat, in which the verbs appear in the past tense in Arabic:
اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَـبُهُمْ وَهُمْ فِى غَفْلَةٍ مُّعْرِضُونَ
Mankind's reckoning has drawn near them, while they turn away in heedlessness. (21:1)
اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانشَقَّ الْقَمَرُ
The Hour has drawn near, and the moon has been cleft. (54:1)
...
فَلَ تَسْتَعْجِلُوهُ
...
so do not seek to hasten it.
means, what was far is now near, so do not try to rush it. As Allah said,
وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ وَلَوْلاَ أَجَلٌ مُّسَمًّى لَّجَأءَهُمُ الْعَذَابُ وَلَيَأْتِيَنَّهُمْ بَغْتَةً وَهُمْ لاَ يَشْعُرُونَ
يَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِيطَةٌ بِالْكَـفِرِينَ
And they ask you to hasten the torment (for them), and had it not been for a term appointed, the torment would certainly have come to them. And surely, it will come upon them suddenly while they are unaware!
They ask you to hasten on the torment. And verily! Hell, of a surety, will encompass the disbelievers. (29:53-54)
Ibn Abi Hatim reported from Uqbah bin Amir that the Messenger of Allah said:
تَطْلُعُ عَلَيْكُمْ عِنْدَ السَّاعَةِ سَحَابَةٌ سَوْدَاءُ مِنَ الْمَغْرِبِ مِثْلَ التُّرْسِ فَمَا تَزَالُ تَرْتَفِعُ فِي السَّمَاءِ ثُمَّ يُنَادِي مُنَادٍ فِيهَا يَا أَيُّهَاالنَّاسُ
فَيُقْبِلُ النَّاسُ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ هَلْ سَمِعْتُمْ
فَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ نَعَمْ وَمِنْهُمْ مَنْ يَشُكُّ
ثُمَّ يُنَادِي الثَّانِيَةَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ
فَيَقُولُ النَّاسُ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ هَلْ سَمِعْتُمْ
فَيَقُولُونَ نَعَمْ
ثُمَّ يُنَادِي الثَّالِثَةَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ
أَتَى أَمْرُ اللهِ فَلَ تَسْتَعْجِلُوه
When the Hour approaches, a black cloud resembling a shield will emerge upon from the west. It will continue rising in the sky, then a voice will call out, `O mankind!'
The people will say to one another, `Did you hear that!'
Some will say, `yes', but others will doubt it.
Then a second call will come, `O mankind!'
The people will say to one another, `Did you hear that!'
And they will say, `Yes.'
Then a third call will come, `O mankind!'
The Event ordained by Allah has indeed come, so do not seek to hasten it.'
The Messenger of Allah said:
فَوَ الَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنَّ الرَّجُلَيْنِ لَيَنْشُرَانِ الثَّوبَ فَمَا يَطْوِيَانِهِ أَبَدًا
وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَمُدَّنَّ حَوْضَهُ فَمَا يَسْقِي فِيهِ شَيْيًا أَبَدًا
وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَحْلُبُ نَاقَتَهُ فَمَا يَشْرِبُهُ أَبَدًا
قَالَ وَيَشْتَغِلُ النَّاس
"By the One in Whose Hand is my soul, two men will spread out a cloth, but will never refold it;
a man will prepare his trough, but will never water his animals from it;
and a man will milk his camel, but will never drink the milk."
Then he said, "The people will be distracted."
Then Allah tells us that He is free from their allegations of partners to their worship of idols, and making equals for Him. Glorified and exalted be He far above that. These are the people who deny the Hour, so He says:
...
سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ
Glorified and Exalted be He above all that they associate as partners with Him.
عذاب کا شوق جلد پورا ہو گا
اللہ تعالیٰ قیامت کی نزد یکی کی خبر دے رہا ہے اور گو یا کہ وہ قائم ہو چکی ۔ اس لئے ماضی کے لفظ سے بیان فرماتا ہے جیسے فرمان ہے لوگوں کا حساب قریب آچکا پھر بھی وہ غفلت کے ساتھ منہ موڑے ہوئے ہیں ۔ اور آیت میں ہے قیامت آچکی ۔ چاند پھٹ گیا ۔ پھر فرمایا اس قریب والی چیز کے اور قریب ہونے کی تمنائیں نہ کرو ۔ ہ کی ضمیر کا مر جع یا تو لفظ اللہ ہے یعنی اللہ سے جلدی نہ چاہو یا عذاب ہیں یعنی عذابوں کی جلدی نہ مچاؤ ۔ دونوں معنی ایک دوسرے کے لازم ملز وم ہیں ۔ جیسے اور آیت میں ہے یہ لوگ عذاب کی جلدی مچا رہے ہیں مگر ہماری طرف سے اس کا وقت مقرر نہ ہوتا تو بیشک ان پر عذاب آجاتے لیکن عذاب ان پر آئے گا ضرور اور وہ بھی نا گہاں ان کی غفلت میں ۔ یہ عذابو کی جلدی کرتے ہیں اور جہنم ان سب کافروں کو گھیر ہوئے ہے ۔ ضحاک رحمتہ اللہ علیہ نے اس آیت کا ایک عجیب مطلب بیان کیا ہے یعنی وہ کہتے ہیں کہ مراد ہے کہ اللہ فرائض اور حدود نازل ہو چکے ۔ امام ابن جریر نے اسے خوب رد کیا ہے اور فرمایا ہے ایک شخص بھی تو ہمارے علم میں ایسا نہیں جس نے شریعت کے وجود سے پہلے اسے مانگنے میں عجلت کی ہو ۔ مراد اس سے عذابوں کی جلدی ہے جو کافروں کی عادت تھی کیو نکہ وہ انہیں مانتے ہی نہ تھے ۔ جیسے قرآن پاک نے فرمایا ہے آیت ( يَسْتَعْجِلُ بِهَا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِهَا 18 ) 42- الشورى:18 ) بے ایمان تو اس کی جلدی مچا رہے ہیں اور ایما ندار ان سے لر زاں و ترساں ہیں کیو نکہ وہ انہیں برحق مانتے ہیں ۔ بات یہ ہے کہ عذاب الہٰی میں شک کرنے والے دور کی گمراہی میں جا پڑتے ہیں ۔ ابن ابی حاتم میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہے فرماتے ہیں قیامت کے قریب مغرب کی جانب سے ڈھال کی طرح کا سیاہ ابر نمودار ہو گا اور وہ بہت جلد آسمان پر چڑھے گا پھر اس میں سے ایک منا دی کرے گا لوگ تعجب سے ایک دو سرے سے کہیں گے میاں کچھ سنا بھی ؟ بعض ہاں کہیں گے اور بعض بات کو اڑا دیں گے وہ پھر دوبارہ ندا کرے گا اور کہے گا اے لوگو ! اب تو سب کہیں گے کہ ہاں صاحب آواز تو آئی ۔ پھر وہ تیسری دفعہ منادی کرے گا اور کہے گا اے لوگو امر الہٰی آ پہنچا اب جلدی نہ کرو ۔ اللہ کی قسم دو شخص جو کسی کپڑے کو پھیلائے ہوئے ہوں گے سمیٹنے بھی نہ پائیں گے جو قیامت قائم ہو جائے گی کوئی اپنے حوض کو ٹھیک کر رہا ہو گا ابھی پانی بھی پلا نہ پایا ہو گا جو قیامت آئے گی دودھ دوہنے والے پی بھی نہ سکیں گے کہ قیامت آ جائے گی ہر ایک نفسا نفسی میں لگ جائے گا ۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے نفس کریم سے شرک اور عبادت غیر پاکیزگی بیان فرماتا ہے فی الواقع وہ ان تمام باتوں سے پاک بہت دور اور بہت بلند ہے یہی مشرک ہیں جو منکر قیامت بھی ہیں اللہ سجانہ و تعالیٰ ان کے شرک سے پاک ہے ۔