Surat un Nahal

Surah: 16

Verse: 1

سورة النحل

اَتٰۤی اَمۡرُ اللّٰہِ فَلَا تَسۡتَعۡجِلُوۡہُ ؕ سُبۡحٰنَہٗ وَ تَعٰلٰی عَمَّا یُشۡرِکُوۡنَ ﴿۱﴾

The command of Allah is coming, so be not impatient for it. Exalted is He and high above what they associate with Him.

اللہ تعالٰی کا حکم آپہنچا اب اس کی جلدی نہ مچاؤ ۔ تمام پاکی اس کے لئے ہے وہ برتر ہے ان سب سے جنہیں یہ اللہ کے نزدیک شریک بتلاتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Warning about the approach of the Hour Allah says: أَتَى أَمْرُ اللّهِ ... The Event ordained by Allah has indeed come, Allah is informing about the approach of the Hour in the past tense (in Arabic) in order to confirm that it will undoubtedly come to pass. This is like the following Ayat, in which the verbs appear in the past tense in Arabic: اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَـبُهُمْ وَهُمْ فِى غَفْلَةٍ مُّعْرِضُونَ Mankind's reckoning has drawn near them, while they turn away in heedlessness. (21:1) اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانشَقَّ الْقَمَرُ The Hour has drawn near, and the moon has been cleft. (54:1) ... فَلَ تَسْتَعْجِلُوهُ ... so do not seek to hasten it. means, what was far is now near, so do not try to rush it. As Allah said, وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ وَلَوْلاَ أَجَلٌ مُّسَمًّى لَّجَأءَهُمُ الْعَذَابُ وَلَيَأْتِيَنَّهُمْ بَغْتَةً وَهُمْ لاَ يَشْعُرُونَ يَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِيطَةٌ بِالْكَـفِرِينَ And they ask you to hasten the torment (for them), and had it not been for a term appointed, the torment would certainly have come to them. And surely, it will come upon them suddenly while they are unaware! They ask you to hasten on the torment. And verily! Hell, of a surety, will encompass the disbelievers. (29:53-54) Ibn Abi Hatim reported from Uqbah bin Amir that the Messenger of Allah said: تَطْلُعُ عَلَيْكُمْ عِنْدَ السَّاعَةِ سَحَابَةٌ سَوْدَاءُ مِنَ الْمَغْرِبِ مِثْلَ التُّرْسِ فَمَا تَزَالُ تَرْتَفِعُ فِي السَّمَاءِ ثُمَّ يُنَادِي مُنَادٍ فِيهَا يَا أَيُّهَاالنَّاسُ فَيُقْبِلُ النَّاسُ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ هَلْ سَمِعْتُمْ فَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ نَعَمْ وَمِنْهُمْ مَنْ يَشُكُّ ثُمَّ يُنَادِي الثَّانِيَةَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ فَيَقُولُ النَّاسُ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ هَلْ سَمِعْتُمْ فَيَقُولُونَ نَعَمْ ثُمَّ يُنَادِي الثَّالِثَةَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَتَى أَمْرُ اللهِ فَلَ تَسْتَعْجِلُوه When the Hour approaches, a black cloud resembling a shield will emerge upon from the west. It will continue rising in the sky, then a voice will call out, `O mankind!' The people will say to one another, `Did you hear that!' Some will say, `yes', but others will doubt it. Then a second call will come, `O mankind!' The people will say to one another, `Did you hear that!' And they will say, `Yes.' Then a third call will come, `O mankind!' The Event ordained by Allah has indeed come, so do not seek to hasten it.' The Messenger of Allah said: فَوَ الَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنَّ الرَّجُلَيْنِ لَيَنْشُرَانِ الثَّوبَ فَمَا يَطْوِيَانِهِ أَبَدًا وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَمُدَّنَّ حَوْضَهُ فَمَا يَسْقِي فِيهِ شَيْيًا أَبَدًا وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَحْلُبُ نَاقَتَهُ فَمَا يَشْرِبُهُ أَبَدًا قَالَ وَيَشْتَغِلُ النَّاس "By the One in Whose Hand is my soul, two men will spread out a cloth, but will never refold it; a man will prepare his trough, but will never water his animals from it; and a man will milk his camel, but will never drink the milk." Then he said, "The people will be distracted." Then Allah tells us that He is free from their allegations of partners to their worship of idols, and making equals for Him. Glorified and exalted be He far above that. These are the people who deny the Hour, so He says: ... سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ Glorified and Exalted be He above all that they associate as partners with Him.

عذاب کا شوق جلد پورا ہو گا اللہ تعالیٰ قیامت کی نزد یکی کی خبر دے رہا ہے اور گو یا کہ وہ قائم ہو چکی ۔ اس لئے ماضی کے لفظ سے بیان فرماتا ہے جیسے فرمان ہے لوگوں کا حساب قریب آچکا پھر بھی وہ غفلت کے ساتھ منہ موڑے ہوئے ہیں ۔ اور آیت میں ہے قیامت آچکی ۔ چاند پھٹ گیا ۔ پھر فرمایا اس قریب والی چیز کے اور قریب ہونے کی تمنائیں نہ کرو ۔ ہ کی ضمیر کا مر جع یا تو لفظ اللہ ہے یعنی اللہ سے جلدی نہ چاہو یا عذاب ہیں یعنی عذابوں کی جلدی نہ مچاؤ ۔ دونوں معنی ایک دوسرے کے لازم ملز وم ہیں ۔ جیسے اور آیت میں ہے یہ لوگ عذاب کی جلدی مچا رہے ہیں مگر ہماری طرف سے اس کا وقت مقرر نہ ہوتا تو بیشک ان پر عذاب آجاتے لیکن عذاب ان پر آئے گا ضرور اور وہ بھی نا گہاں ان کی غفلت میں ۔ یہ عذابو کی جلدی کرتے ہیں اور جہنم ان سب کافروں کو گھیر ہوئے ہے ۔ ضحاک رحمتہ اللہ علیہ نے اس آیت کا ایک عجیب مطلب بیان کیا ہے یعنی وہ کہتے ہیں کہ مراد ہے کہ اللہ فرائض اور حدود نازل ہو چکے ۔ امام ابن جریر نے اسے خوب رد کیا ہے اور فرمایا ہے ایک شخص بھی تو ہمارے علم میں ایسا نہیں جس نے شریعت کے وجود سے پہلے اسے مانگنے میں عجلت کی ہو ۔ مراد اس سے عذابوں کی جلدی ہے جو کافروں کی عادت تھی کیو نکہ وہ انہیں مانتے ہی نہ تھے ۔ جیسے قرآن پاک نے فرمایا ہے آیت ( يَسْتَعْجِلُ بِهَا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِهَا 18؀ ) 42- الشورى:18 ) بے ایمان تو اس کی جلدی مچا رہے ہیں اور ایما ندار ان سے لر زاں و ترساں ہیں کیو نکہ وہ انہیں برحق مانتے ہیں ۔ بات یہ ہے کہ عذاب الہٰی میں شک کرنے والے دور کی گمراہی میں جا پڑتے ہیں ۔ ابن ابی حاتم میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہے فرماتے ہیں قیامت کے قریب مغرب کی جانب سے ڈھال کی طرح کا سیاہ ابر نمودار ہو گا اور وہ بہت جلد آسمان پر چڑھے گا پھر اس میں سے ایک منا دی کرے گا لوگ تعجب سے ایک دو سرے سے کہیں گے میاں کچھ سنا بھی ؟ بعض ہاں کہیں گے اور بعض بات کو اڑا دیں گے وہ پھر دوبارہ ندا کرے گا اور کہے گا اے لوگو ! اب تو سب کہیں گے کہ ہاں صاحب آواز تو آئی ۔ پھر وہ تیسری دفعہ منادی کرے گا اور کہے گا اے لوگو امر الہٰی آ پہنچا اب جلدی نہ کرو ۔ اللہ کی قسم دو شخص جو کسی کپڑے کو پھیلائے ہوئے ہوں گے سمیٹنے بھی نہ پائیں گے جو قیامت قائم ہو جائے گی کوئی اپنے حوض کو ٹھیک کر رہا ہو گا ابھی پانی بھی پلا نہ پایا ہو گا جو قیامت آئے گی دودھ دوہنے والے پی بھی نہ سکیں گے کہ قیامت آ جائے گی ہر ایک نفسا نفسی میں لگ جائے گا ۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے نفس کریم سے شرک اور عبادت غیر پاکیزگی بیان فرماتا ہے فی الواقع وہ ان تمام باتوں سے پاک بہت دور اور بہت بلند ہے یہی مشرک ہیں جو منکر قیامت بھی ہیں اللہ سجانہ و تعالیٰ ان کے شرک سے پاک ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1۔ 1 اس سے مراد قیامت ہے، یعنی وہ قیامت قریب آگئی ہے جسے تم دور سمجھتے تھے، پس جلدی نہ مچاؤ، یا وہ عذاب مراد ہے جسے مشرکین طلب کرتے تھے۔ اسے مستقبل کے بجائے ماضی کے صیغے سے بیان کیا، کیونکہ کہ اس کا وقوع یقینی ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١] قریش پر اللہ کے عذاب کی صورت اور اس کا آغاز ہجرت نبوی سے :۔ مشرکین مکہ اکثر رسول اللہ کو چڑانے کے لیے کہا کرتے تھے کہ اگر تم سچے ہو تو جیسے تم کہتے ہو، ہم پر اب تک عذاب آ کیوں نہیں گیا وہ دیکھ رہے تھے کہ پیغمبر کو عذاب کا وعدہ دیتے دس بارہ سال گزر چکے ہیں اور عذاب تو آیا نہیں لہذا یہ الفاظ گویا ان کا تکیہ کلام بن گئے تھے۔ اور اس بات سے وہ دو باتوں پر استدلال کرتے تھے۔ ایک اپنے مشرکانہ مذہب کی سچائی پر اور دوسرے پیغمبر اسلام کی نبوت کی تکذیب پر۔ انھیں باتوں کے جواب سے اس سورت کا آغاز ہو رہا ہے۔ پہلی بات کا جواب یہ دیا گیا کہ عذاب کا آنا یقینی ہے اس کے لیے جلدی مچانے کی ضرورت نہیں کیونکہ جلد ہی تمہیں اس سے سابقہ پڑنے والا ہے یوں ہی سمجھو کہ وہ سر پر آپہنچا۔ اب رہا یہ سوال کہ وہ عذاب کون سا تھا اور کب آیا ؟ تو اس کے متعلق یہ بات تو طے شدہ ہے کہ نبی کی ذات جب تک کسی قوم میں موجود ہو اس وقت تک عذاب نہیں آتا۔ آگے پھر دو صورتیں ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ نبی کو اور اس کے ساتھیوں کو ہجرت کا حکم دے کر وہاں سے نکال لیا جاتا ہے یا کسی بھی دوسرے ذریعہ سے انھیں بچا لیا جاتا ہے اور باقی مجرموں پر قہر الٰہی نازل ہوتا ہے اور عذاب کی دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ انھیں ہجرت کرنے والوں کے ہاتھوں اللہ تعالیٰ مجرم قوم کی پٹائی کراتا ہے۔ تاآنکہ کفر و شرک کا سر توڑ دیتا ہے۔ عذاب کی ان دونوں صورتوں کا ذکر سورة توبہ کی آیت نمبر ٥٢ میں موجود ہے لہذا ہمارے خیال میں اس عذاب کا نقطہ ئآغاز ہجرت نبوی ہی تھا۔ جس کا حکم اس سورة کے نزول کے تھوڑے ہی عرصہ بعد دے دیا گیا تھا۔ یہی ہجرت مشرکین مکہ کے ظلم و ستم کے خاتمہ کا سبب بنی اور مسلمانوں کو آزادی سے سانس لینا نصیب ہوا اور یہی ہجرت غزوہ بدر کا پیش خیمہ ثابت ہوئی جس میں کفر کی خوب پٹائی ہوئی اور اس ہجرت کے صرف آٹھ دس سال بعد بتدریج کافروں اور مشرکوں کا اس طرح قلع قمع ہوا اور کفر و شرک کا یوں استیصال ہوا کہ سارے عرب سے اس کا نام و نشان تک مٹ گیا۔ [ ٢] یہ ان کے دوسرے استدلال کا جواب ہے کہ اگر ہمارا مشرکانہ مذہب سچا نہ ہوتا تو اب تک ہم پر عذاب آچکا ہوتا۔ عذاب آجانے پر اس استدلال کی از خود تردید ہوگئی۔ اور سب کو معلوم ہوگیا کہ ان کے معبود ان کے کسی کام نہ آسکے لہذا وہ باطل ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَتٰٓى اَمْرُ اللّٰهِ :” اَمْرُ اللّٰهِ “ سے مراد قیامت ہے اور مشرکین پر مختلف قسم کے عذاب کا نزول بھی ہے اور ” اَتٰٓى“ (آ گیا) سے مراد بالکل قریب آنا ہے، کیونکہ آ ہی چکا ہو تو پھر کفار کی طرف سے اسے جلدی لانے کا مطالبہ بےمعنی ہے۔ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْهُ : مشرکین قیامت یا عذاب کا ذکر آنے پر مذاق اڑانے کے لیے اسے فوراً لانے کا مطالبہ کرتے تھے۔ دیکھیے سورة انفال ( ٣٢) اور سورة عنکبوت (٥٣ تا ٥٥) لفظ ماضی ” اَتٰٓى“ (آگیا) کا مطلب ہے کہ اس کا آنا اتنا یقینی ہے کہ سمجھو آ ہی چکا، اس لیے جلدی نہ مچاؤ، وہ بالکل قریب ہے اور طے شدہ وقت پر آجائے گا۔ بعض اہل علم نے فرمایا کہ مسلمان بھی بعض اوقات پریشان ہو کر مسلمانوں کے لیے اللہ کی نصرت اور کفر پر عذاب میں تاخیر پر اس کے جلدی آنے کی دعا کرتے تھے، انھیں بھی تسلی دی کہ سمجھو اللہ کا حکم آ ہی گیا، جیسا کہ فرمایا : (حَتّٰى يَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ مَتٰى نَصْرُ اللّٰهِ ۭ اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰهِ قَرِيْبٌ) [ البقرۃ : ٢١٤ ] ” یہاں تک کہ وہ رسول اور جو لوگ اس کے ساتھ ایمان لائے تھے، کہہ اٹھے اللہ کی مدد کب ہوگی ؟ سن لو، بیشک اللہ کی مدد قریب ہے۔ “ سُبْحٰنَهٗ وَتَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ : عذاب کے جلدی نہ آنے کی و جہ سے وہ کہتے تھے اللہ تعالیٰ وہ عذاب لا ہی نہیں سکتا، ورنہ فوراً کیوں نہیں لے آتا۔ فرمایا ان کا اللہ تعالیٰ کو اپنا حکم نافذ کرنے سے اور عذاب لانے سے عاجز قرار دینا، یا وعدہ خلافی کرنے والا سمجھنا کفر و شرک کا نتیجہ ہے، جس سے اللہ تعالیٰ ہر طرح پاک اور نہایت بلند ہے۔ وہ نہ عاجز ہے نہ وعدہ خلاف، مگر وہ اپنی مرضی کا مالک ہے، ان کی فرمائشوں کا پابند نہیں۔ دیکھیے سورة حج (٤٧) ۔ آیت کے شروع میں مخاطب کرکے فرمایا : (فَلَا تَسْتَعْجِلُوْهُ ) ” تم اس کے جلد آنے کا مطالبہ نہ کرو “ اور آیت کے آخر میں مشرکین کا ذکر غائب کے لفظ سے کیا : (سُبْحٰنَهٗ وَتَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ ) ” وہ اس سے پاک اور بہت بلند ہے جو وہ شریک بناتے ہیں “ اسے التفات کہتے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ یہ لوگ اس قابل ہی نہیں کہ انھیں مخاطب کیا جائے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The Name of the Surah This Surah has been called Al-Nahl, that is, the honey bee because it mentions it as a unique Divine marvel. Another name for this Surah is Surah Al-Ni` am. (Qurtubi) The word Ni&am is the plural of Ni&mah (bless¬ing) because the great blessings of Allah Ta’ ala have been particularly mentioned in this Surah. Commentary The Surah begins without any particular introduction with a direct, stern and awesome note of warning. The reason behind it was the saying of the polytheists that Muhammad (al-Mustafa (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) keeps warning them of the day of Qiyamah and the punishment of Allah and telling them that Allah Ta’ ala has promised victory for him and punish¬ment for his opponents. All this, they challenged, they do not see coming upon them. In reply, it was said: أَتَىٰ أَمْرُ‌ اللَّـهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوهُ (The command of Allah is bound to come. So, do not ask for it to come sooner - 1). Here, the expression: أَمْرُ‌ اللَّـهِ (amrullah : the command of Allah) means the promise Allah has made to His Rasul - that his enemies will be made to surrender, and that Muslims will be blessed with victory and honour. In this verse, it is in a distinctly awesome tone that Allah Ta’ ala has said: أَتَىٰ أَمْرُ‌ اللَّـهِ (ata amrullah: translated here as &the command of Allah is bound to come& ). Literally (the nuance of the original expression remaining untranslatable), the sense is that issued is the command of Al¬lah, that is, it is bound to come which you will soon see. Some commentators say that &the command of Allah& here means the day of Qiyamah. The sense of its being &bound to come& is that it is going to come soon. And if we were to look at it in the frame of the life of the entire world itself, its being close, or its actual coming does not remain much distant. (Al-Bahr Al-Muhit) As for the second sentence in the first verse where it is said that Allah Ta’ ala is free of Shirk (the ascribing of partners to Him), it means that the act of these people who are belying the promise of Allah Ta’ ala is itself an act of Kufr (infidelity) and Shirk. Allah Ta’ ala is absolutely free from it. (Al-Bahr Al-Muhit) The essential message of the first verse is to call people to believe in the Oneness of Allah (Tauhid) through a stern warning. The second verse carries an affirmation of Tauhid through a reported proof, the substance of which is that every Rasul or messenger of Allah, from Sayyidna Adam (علیہ السلام) to the Last of the Prophets (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، who has come in different parts of the world at different times, has but preached this belief in the Oneness of Allah - though, none of them knew anything about the life and work of each other because of obvious causes. Just imagine if at least one hundred and twenty thousand blessed wise men who are born in different ages, countries and regions, and believe in and adhere to one single principle, then, one is naturally compelled to accept that their saying so cannot be false. In order to have faith, this single proof is sufficient. The word: رُوح (ruh: spirit) as used in this verse, according to Sayyidna ibn ` Abbas (رض) ، means Wahy (revelation); and according to some commentators, it means Hidayah (guidance). (Al-Bahr Al-Muhit) After having presented the reported proof of Tauhid in the second verse, the same belief has been proved rationally by turning the focus on the blessings of Allah Ta` ala as it follows next in verses 3-8.

خلاصہ تفسیر : اس سورة کا نام سورة نحل اس مناسبت سے رکھا گیا ہے کہ اس میں نحل یعنی شہد کی مکھیوں کا ذکر قدرت کی عجیب و غریب صنعت کے بیان کے سلسلے میں ہوا ہے اس کا دوسرا نام سورة نعم بھی ہے (قرطبی) نعم بکسر نون نعمت کی جمع ہے اس لئے کہ اس سورة میں خاص طور پر اللہ جل شانہ کی عظیم نعمتوں کا ذکر ہے۔ خدا تعالیٰ کا حکم (یعنی سزائے کفر کا وقت قریب) آپہنچا سو تم اس میں (منکرانہ) جلدی مت مچاؤ (بلکہ توحید اختیار کرو اور اس کی حقیقت سنو کہ) وہ لوگوں کے شرک سے پاک اور برتر ہے وہ اللہ تعالیٰ فرشتوں (کی جنس یعنی جبرئیل) کو وحی یعنی اپنا حکم دے کر اپنے بندوں میں جس پر چاہیں (یعنی انبیاء (علیہم السلام) پر) نازل فرماتے ہیں (اور وہ حکم) یہ (ہے) کہ لوگوں کو خبردار کردو کہ میرے سوا کوئی لائق عبادت نہیں سو مجھ سے ہی ڈرتے رہو (یعنی میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ ورنہ سزا ہوگی ) معارف و مسائل : اس سورة کو بغیر کسی خاص تمہید کے ایک شدید وعید اور ہیبت ناک عنوان سے شروع کیا گیا جس کی وجہ مشرکین کا یہ کہنا تھا کہ محمد (مصطفے (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں قیامت سے اور اللہ کے عذاب سے ڈراتے رہتے ہیں اور بتلاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو غالب کرنے اور مخالفوں کو سزا دینے کا وعدہ کیا ہے ہمیں تو یہ کچھ ہوتا نظر نہیں آتا اس کے جواب میں ارشاد فرمایا کہ آپہنچا حکم اللہ کا تم جلد بازی نہ کرو۔ حکم اللہ سے اس جگہ مراد وہ وعدہ ہے جو اللہ نے اپنے رسول سے کیا ہے کہ ان کے دشمنوں کو زیر و مغلوب کیا جاوے گا اور مسلمانوں کو فتح ونصرت اور عزت و شوکت حاصل ہوگی اس آیت میں حق تعالیٰ نے ہیبت ناک لہجہ میں ارشاد فرمایا کہ حکم اللہ کا آپہنچا یعنی پہنچنے ہی والا ہے جس کو تم عنقریب دیکھ لو گے اور بعض حضرات نے فرمایا کہ اس میں حکم اللہ سے مراد قیامت ہے اس کے آ پہنچنے کا مطلب بھی یہی ہے کہ اس کا وقوع قریب ہے اور پوری دنیا کی عمر کے اعتبار سے دیکھا جائے تو قیامت کا قریب ہونا یا آ پہنچنا بھی کچھ بعید نہیں رہتا (بحر محیط) اس کے بعد کے جملے میں جو یہ ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ شرک سے پاک ہے اس سے مراد یہ ہے کہ یہ لوگ جو حق تعالیٰ کے وعدہ کو غلط قرار دے رہے ہیں یہ کفر و شرک ہے اللہ تعالیٰ اس سے پاک ہیں (بحر) اس آیت کا خلاصہ ایک وعید شدید کے ذریعہ توحید کی دعوت دینا ہے دوسری آیت میں دلیل نقلی سے توحید کا اثبات ہے کہ آدم (علیہ السلام) سے لے کر خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک دنیا کے مختلف خطوں مختلف زمانوں میں جو بھی رسول آیا ہے اس نے یہی عقیدہ توحید پیش کیا ہے حالانکہ ایک کو دوسرے کے حال اور تعلیم کی بظاہر اسباب کوئی اطلاع بھی نہ تھی غور کرو کہ کم از کم ایک لاکھ بیس ہزار حضرات عقلاء جو مختلف اوقات میں مختلف ملکوں مختلف خطوں میں پیدا ہوں اور وہ سب ایک ہی بات کے قائل ہوں تو فطرۃ انسان یہ سمجھنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ یہ بات غلط نہیں ہو سکتی ایمان لانے کے لئے تنہا یہ دلیل بھی کافی ہے۔ لفظ روح سے مراد اس آیت میں بقول ابن عباس اور بقول بعض مفسرین ہدایت ہے (بحر) اس آیت میں توحید کا روایتی اور نقلی ثبوت پیش کرنیکے بعد اگلی آیتوں میں اسی عقیدہ توحید کو عقلی طور سے حق تعالیٰ کی نعمتیں پیش نظر کر کے ثابت کیا جاتا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَتٰٓى اَمْرُ اللّٰهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْهُ ۭ سُبْحٰنَهٗ وَتَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ ۝ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے أمر الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته : إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود/ 123] ( ا م ر ) الامر ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔ { وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ } ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے عجل العَجَلَةُ : طلب الشیء وتحرّيه قبل أوانه، وهو من مقتضی الشّهوة، فلذلک صارت مذمومة في عامّة القرآن حتی قيل : «العَجَلَةُ من الشّيطان» «2» . قال تعالی: سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء/ 37] ، ( ع ج ل ) العجلۃ کسی چیز کو اس کے وقت سے پہلے ہی حاصل کرنے کی کوشش کرنا اس کا تعلق چونکہ خواہش نفسانی سے ہوتا ہے اس لئے عام طور پر قرآن میں اس کی مذمت کی گئی ہے حتی کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا العجلۃ من الشیطان ( کہ جلد بازی شیطان سے ہے قرآن میں ہے : سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء/ 37] میں تم لوگوں کو عنقریب اپنی نشانیاں دکھاؤ نگا لہذا اس کے لئے جلدی نہ کرو ۔ سبح و ( سُبْحَانَ ) أصله مصدر نحو : غفران، قال فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم/ 17] ، وسُبْحانَكَ لا عِلْمَ لَنا [ البقرة/ 32] ، وقول الشاعرسبحان من علقمة الفاخر «1» قيل : تقدیره سبحان علقمة علی طریق التّهكّم، فزاد فيه ( من) ردّا إلى أصله «2» ، وقیل : أراد سبحان اللہ من أجل علقمة، فحذف المضاف إليه . والسُّبُّوحُ القدّوس من أسماء اللہ تعالیٰ «3» ، ولیس في کلامهم فعّول سواهما «4» ، وقد يفتحان، نحو : كلّوب وسمّور، والسُّبْحَةُ : التّسبیح، وقد يقال للخرزات التي بها يسبّح : سبحة . ( س ب ح ) السبح ۔ سبحان یہ اصل میں غفران کی طرح مصدر ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم/ 17] سو جس وقت تم لوگوں کو شام ہو اللہ کی تسبیح بیان کرو ۔ تو پاک ذات ) ہے ہم کو کچھ معلوم نہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ ( سریع) (218) سبحان من علقمۃ الفاخر سبحان اللہ علقمہ بھی فخر کرتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں سبحان علقمۃ ہے اس میں معنی اضافت کو ظاہر کرنے کے لئے زائد ہے اور علقمۃ کی طرف سبحان کی اضافت بطور تہکم ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں ، ، سبحان اللہ من اجل علقمۃ ہے اس صورت میں اس کا مضاف الیہ محذوف ہوگا ۔ السبوح القدوس یہ اسماء حسنیٰ سے ہے اور عربی زبان میں فعول کے وزن پر صرف یہ دو کلمے ہی آتے ہیں اور ان کو فاء کلمہ کی فتح کے ساتھ بھی پڑھا جاتا ہے جیسے کلوب وسمود السبحۃ بمعنی تسبیح ہے اور ان منکوں کو بھی سبحۃ کہاجاتا ہے جن پر تسبیح پڑھی جاتی ہے ۔ شرك وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان : أحدهما : الشِّرْكُ العظیم، وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] ، والثاني : الشِّرْكُ الصّغير، وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] ، ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ دین میں شریک دو قسم پر ہے ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ دوم شرک صغیر کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ جب یہ (آیت) ” اقترب للناس حسابھم “۔ (الخ) اور ”۔ اقتربت الساعۃ “۔ نازل ہوئی تو کچھ زمانہ تک جتنا کہ خدا کو منظور تھا یہ کفار رکے رہے اور کچھ نہیں بولے، اس کے بعد انہوں نے کہا اے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہ عذاب کب آئے گا جس کا آپ نے ہم سے وعدہ کر رکھا ہے۔ ان کی اس بات پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ اللہ تعالیٰ کا عذاب آپہنچا، رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف فرما تھے یہ سمجھ کر ابھی عذاب نازل ہو رہا ہے، گھبرا کر کھڑے ہوئے اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا، عذاب کے اترنے کی جلدی مت کرو، تب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیٹھ گئے اللہ تعالیٰ کی ذات ان لوگوں کے شرک سے پاک اور بلند ہے کہ نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ اس کا کوئی شریک۔ شان نزول : (آیت) ” اتی امر اللہ “۔ (الخ) ابن مردویہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے یہ جس وقت آیت کا یہ حصہ اترا (آیت) ” اتی امر اللہ “۔ (الخ) نازل ہوا تو صحابہ کرام گھبرا گئے، اس پر اللہ تعالیٰ نے اگلا حصہ (آیت) ” فلا تستعجلوہ “۔ نازل کیا تو سب خاموش ہوگئے۔ عبداللہ بن امام احمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے زوائد الزہد میں اور ابن جریر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور ابن ابی حاتم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ابوبکر بن ابوحفص رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے روایت کیا ہے کہ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی کہ اللہ کا حکم آپہنچا تو سب سن کر کھڑے ہوگئے، پھر اگلا حصہ نازل ہوا یعنی سو تم جلدی نہ کرو

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١ (اَتٰٓى اَمْرُ اللّٰهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْهُ ) جب ہم نے اپنا رسول بھیج دیا اور اس پر اپنا کلام بھی نازل کرنا شروع کردیا ہے تو گویا فیصلہ کن وقت آن پہنچا ہے۔ اب معاملہ صرف مہلت کے دورانیے کا ہے کہ ہمارے رسول اور ہمارے پیغام کا انکار کرنے والوں کو مشیت الٰہی کے مطابق کس قدر مہلت ملتی ہے۔ بہر حال اب جلدی مچانے کی ضرورت نہیں۔ اللہ کا عذاب بس اب آیا ہی چاہتا ہے ‘ اس کے لیے اب بہت زیادہ وقت نہیں رہ گیا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

1. That is, the time for final judgment has come near. As regards to the use of the past tense in the original, this may be to show certainty of its occurrence in the near future or to emphasize the fact that the rebellion and the wrong deeds of the Quraish had become so unbearable that they warranted that the time for decisive action had come. Here question arises as to what that judgment was and how it came. We are of the opinion (and true knowledge is with Allah alone) that that judgment was hijra (the migration) of the Prophet (peace be upon him) from Makkah. For a short time after this revelation, he was bidden to emigrate from there. And according to the Quran, a Prophet (peace be upon him) is bidden to leave his place only at that time when the rebellion and antagonism of his people reaches the extreme limit. Then their doom is sealed, for after this Allah’s punishment comes on them either as a direct scourge from Him, or they are destroyed by the Prophet (peace be upon him) and his followers. And this did actually take place. At the occasion of the migration, the people of Makkah regarded it as a victory for themselves, but in fact it turned out to be a defeat for shirk and disbelief which were totally uprooted within a decade or so after the migration, not only from Makkah but from the rest of Arabia as well. 2. In order to understand the interconnection between the first and the second sentences, one should keep in view the background. The challenge of the disbelievers to the Prophet (peace be upon him), to hasten divine judgment, was really based on their assumption that their own religion of shirk was true and the religion of Tauhid presented by Muhammad (peace be upon him) was false. Otherwise, they argued, the divine scourge with which he threatened them would have come upon them long before because of their disbelief and rebellion, if there had been the authority of Allah behind it. That is why after the declaration of the judgment, their misunderstanding about the cause of delay in the punishment was removed, as if to say: You are absolutely wrong to assume that punishment has not been inflicted on you because your creed of shirk is true, for Allah is free from and far above shirk and has no partner.

سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :1 یعنی بس وہ آیا ہی چاہتا ہے ۔ اس کے ظہور و نفاد کا وقت قریب آ لگا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس بات کو صیغہ ماضی میں یا تو اس کے انتہائی یقینی اور انتہائی قریب ہونے کا تصور دلانے کے لیے فرمایا گیا ، یا پھر اس لیے کہ کفار قریش کی سرکشی و بدعملی کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا اور آخری فیصلہ کن قدم اٹھائے جانے کا وقت آگیا تھا ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ ”فیصلہ“ کیا تھا اور کس شکل میں آیا ؟ ہم یہ سمجھتے ہیں ( اللہ اعلم بالصواب ) کہ اس فیصلے سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مکہ سے ہجرت ہے جس کا حکم تھوڑی مدت بعد ہی دیا گیا ۔ قرآن کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی جن لوگوں کے درمیان مبعوث ہوتا ہے ان کے حجود و انکار کی آخری سرحد پر پہنچ کر اسے ہجرت کا حکم دیا جاتا ہے اور یہ حکم ان کی قسمت کا فیصلہ کر دیتا ہے ۔ اس کے بعد یا تو ان پر تباہ کن عذاب آجاتا ہے ، یا پھر نبی اور اس کے متبعین کے ہاتھوں ان کی جڑ کاٹ کر رکھ دی جاتی ہے ۔ یہی بات تاریخ سے بھی معلوم ہوتی ہے ۔ ہجرت جب واقع ہوئی تو کفار مکہ سمجھے کہ فیصلہ ان کے حق میں ہے ۔ مگر آٹھ دس سال کے اندر ہی دنیا نے دیکھ لیا کہ نہ صرف مکے سے بلکہ پوری سرزمین عرب ہی سے کفر و شرک کی جڑیں اکھاڑ پھینک دی گئیں ۔ سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :2 پہلے فقرے اور دوسرے فقرے کا باہمی ربط سمجھنے کے لیے پس منظر کو نگاہ میں رکھنا ضروری ہے ۔ کفار جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بار بار چیلنج کر رہے تھے کہ اب کیوں نہیں آجاتا خدا کو وہ فیصلہ جس کے تم ہمیں ڈراوے دیا کرتے ہو ، اس کے پیچھے دراصل ان کا یہ خیال کار فرما تھا کہ ان کا مشرکانہ مذہب ہی برحق ہے اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) خواہ مخواہ اللہ کا نام لے لے کر ایک غلط مذہب پیش کر رہے ہیں جسے اللہ کی طرف سے کوئی منظوری حاصل نہیں ہے ۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ آخر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم اللہ سے پھرے ہوئے ہوتے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بھیجے ہوئے نبی ہوتے اور پھر بھی جو کچھ ہم ان کے ساتھ کر رہے ہیں اس پر ہماری شامت نہ آجاتی ۔ اس لیے خدائی فیصلے کا اعلان کرتے ہی فورا یہ ارشاد ہوا ہے اس کے نفاذ میں تاخیر کی وجہ ہرگز وہ نہیں ہے جو تم سمجھ بیٹھے ہو ۔ اللہ اس سے بلند تر اور پاکیزہ تر ہے کہ کوئی اس کا شریک ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

1: عربی زبان کے اعتبار سے یہ انتہائی زور دار فقرہ ہے جس میں آئندہ ہونے والے کسی یقینی واقعے کو ماضی کے صیغے سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اس کے زور اور تأثیر کو کسی اور زبان میں ادا کرنا بہت مشکل ہے۔ اس کا پسِ منظر یہ ہے کہ جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کفار سے یہ فرماتے تھے کہ کفر کا نتیجہ اﷲ تعالیٰ کے عذاب کی صورت میں ظاہر ہوگا، اور مسلمان غالب آئیں گے تو وہ مذاق اُڑانے کے انداز میں کہا کرتے تھے کہ اگر عذاب آنا ہے تو اﷲ تعالیٰ سے کہئے کہ اُسے ابھی بھیج دے۔ اس کا مقصد در حقیقت یہ تھا کہ عذاب کی یہ دھمکی اور مسلمانوں کی فتح کا وعدہ (معاذ اللہ) محض بناوٹی بات ہے، اس کی حقیقت کچھ نہیں۔ اِس سورت کا آغاز اُن کے اِس طرزِ عمل کے مقابلے میں یہ فرما کر کیا گیا ہے کہ کافروں پر آنے والے جس عذاب اور مسلمانوں کے غلبے کی جس خبر کو تم ناممکن سمجھ رہے ہو، وہ اﷲ تعالیٰ کا اٹل فیصلہ ہے، اور اِتنا یقینی ہے کہ گویا آن ہی پہنچا ہے، لہٰذا اُس کے آنے کی جلدی مچا کر اُس کا مذاق نہ اُڑاؤ، کیونکہ وہ تہارے سر پر کھڑا ہے۔ پھر اگلے فقرے میں اس عذاب کے یقینی ہونے کی وجہ یہ بیان فرمائی ہے کہ تم لوگ اﷲ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرتے ہو، حالانکہ اﷲ تعالیٰ نہ صرف اُس سے پاک بلکہ اُس سے بہت بالا و برتر ہے، لہٰذا اُس کے ساتھ شرک کرنا اُس کی توہین ہے، اور خالقِ کائنات کی توہین کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ توہین کرنے والے پر عذاب نازل ہو (تفسیر المہائمی 402:1)

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١۔ معتبر سند سے تفسیر ابن مردویہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ جس وقت سورت نحل کی یہ آیت اتری تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ڈر گئے اور صحابہ بھی ڈر گئے اور سب نے جانا کہ قیامت آگئی اتنے میں دوسرا یہ ٹکڑا آیت کا نازل ہوا کہ جلدی نہ کرو ١ ؎۔ پھر آپ نے اپنی دونوں انگلیاں ملا کر فرمایا کہ میں اور قیامت یوں ملے ہوئے ہیں جس طرح یہ دونوں انگلیاں ملی ہوئی ہیں مطلب آپ کا یہ ہے کہ جب نبی آخر الزمان آچکے تو پھر قیامت کے آنے میں اب کیا دیر ہے۔ یہ حدیث مختصر طور پر صحیح بخاری و مسلم میں بھی سہل بن سعد انس بن مالک (رض) اور ابوہریرہ (رض) کی روایت سے آئی ہے ٢ ؎۔ جس میں نزول آیت کا ذکر نہیں ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) فرمایا کرتے تھے کہ جس روز سے حضرت جبرئیل نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس وحی لانی شروع کی آسمان پر فرشتوں میں اسی وقت سے قیامت کا ایک خوف اور چرچہ پھیل گیا ہے۔ معتبر سند سے مستدرک حاکم طبرانی اور تفسیر ابن ابی حاتم میں حضرت عقبہ بن عامر (رض) سے روایت ہے کہ صور پھونکنے سے ذرا پہلے آسمان پر ایک کالا ابر اٹھے گا اور اس ابر میں سے پہلے اس آیت کے پڑھنے کی آواز لوگوں کے کانوں میں آوے گی لوگ اس آواز کا چرچہ کر رہے ہوں گے کہ اتنے میں صور پھونک دیا جاوے گا ٣ ؎۔ حاصل مطلب آیت کا یہ ہے کہ دنیا کے کسی عذاب کا آنا اگر کسی مصلحت الٰہی سے ٹل گیا تو وقت مقررہ پر آئندہ قیامت کا آنا ایسا یقینی ہے جیسے زمانہ گزشتہ کی بہت سی باتیں ان لوگوں کی آنکھوں کے سامنے گزر چکی ہیں ان مشرکوں میں سرکش لوگ اب تو نادانی سے کبھی عذاب اور کبھی قیامت کی جلدی کرتے ہیں لیکن جب اپنے شرک کے وبال میں یہ لوگ پکڑے گئے تو ان کو اس جلدی کرنے کی قدر کھل جاوے گی۔ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے ابو موسیٰ اشعری (رض) کی حدیث گزر چکی ہے ٤ ؎ کہ اللہ تعالیٰ جب تک چاہتا ہے ایسے سرکش لوگوں کو مہلت دیتا ہے اور پھر وقت مقررہ پر جب ان کو پکڑتا ہے تو بالکل برباد کردیتا ہے صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے انس بن مالک (رض) کی روایتیں بھی گزر چکی ہیں ٥ ؎ جن میں مشرکین مکہ میں بڑے بڑے سرکشوں اور بدر کی لڑائی میں مارے جانے کا ذکر ہے اور یہ بھی ذکر ہے کہ مرتے ہی ان لوگوں پر عقبیٰ کا سخت عذاب شروع ہوگیا اور اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان لوگوں کی لاشوں پر کھڑے ہو کر فرمایا کہ اب تو تم لوگوں نے عذاب الٰہی کو سچا پالیا۔ صحیح بخاری و مسلم میں عبد اللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نیک شخص کے مردہ کو اس کا جنت کا ٹھکانا اور بد شخص کے مردہ کو اس کا دوزخ کا ٹھکانا صبح شام دکھایا جا کر یہ کہا جاتا ہے کہ قیامت کے دن تجھ کو اس ٹھکانے میں جانا پڑے گا ٦ ؎۔ ان حدیثوں کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ مکہ کے مشرکوں میں سرکش لوگ وقت مقررہ سے پہلے عذاب اور قیامت کی جو جلدی کرتے تھے وقت مقررہ آنے پر ان کا انجام یہ ہوا کہ دنیا میں ذلت سے وہ مارے گئے مرتے ہی عذاب قبر میں گرفتار ہوئے قیامت کے دن دوزخ میں جو ٹھکانا ان کے لئے ٹھہرا وہ صبح شام قیامت تک ان کو دکھایا جاتا ہے۔ غرض ان لوگوں کو عذاب اور قیامت دونوں چیزوں کی جلدی کرنے کی قدر کھل گئی۔ ١ ؎ ١ باب قول ص ١٣٣ و تفسیر الدارالمنثور ص ١٠٩ ج ٤۔ ٢ ؎ صحیح بخاری ص ٩٦٣ ج ٢ باب قول النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بعثت انا والساعۃ کھاتین الخ۔ ٣ ؎ الترغیب ص ٢٩٣ ج ٢ فصل النفح فی الصور۔ ٤ ؎ صحیح بخاری ص ٦٧٨ ج ٢ وکذلک اخذ ربک اذا اخذ القری۔ ٥ ؎ صحیح مسلم ص ١٠٢ ج ٢ باب غزوۃ بدر۔ ٦ ؎ الترغیب ص ٢٨٧ ج ٢ الترھیب من المرد بقبور الظالمین الخ۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

اتی۔ اتی یاتی اتیان۔ ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب۔ یہاں ماضی بمعنی مستقبل مستعمل ہے اور ایسی متعدد مثالیں قرآن مجید میں ہیں۔ قطعی طور پر وقوع پذیر ہونے والی اور قریب تر ہونے والی بات کو ماضی کے لفظوں سے تعبیر کرتے ہیں۔ گویا سمجھو کہ یہ بات ہو ہی چکی۔ اتی امر اللہ۔ اللہ کا حکم آن ہی پہنچا۔ (یعنی بہت جلد آنے والا ہے اور ضرور بالضرور آئے گا۔ امر اللہ ۔ خدا کا حکم۔ اس سے مفسرین نے متعدد معانی مراد لئے ہیں۔ (1) امر سے مراد سزائے کفروشرک کا حکم ہے۔ یہ سزا (عذاب) دنیوی بھی ہوسکتی ہے اور اخروی بھی ۔ (2) اس سے مراد روز قیامت ہے۔ (3) اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ مسلمانوں کو فتح وظفر ہوگی۔ اور مشرکین شکست وہزیمت بربادی و رسوائی سے دوچار ہوں گے۔ لا تستعجلوہ۔ فعل نہی جمع مذکر حاضر ہُ ضمیر کا واحد مذکر غائب امر اللہ کی طرف راجع ہے تم اس کی جلدی (وقوع پذیر ہونے کے لئے بیتابی) مت کرو۔ عجلۃ سے باب استفعال جس کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے وقت سے پہلے ہی حاصل کرنے کی کوشش کرنا۔ باب استفعال کی خاصیتوں میں سے ایک خاصیت طلب ِ ماخذ ہے جیسے استغفر اس نے مغفرت مانگی۔ استعجل اس نے عجلت چاہی۔ ینزل۔ مضارع واحد مذکر غائب تنزیل ۔ مصدر باب تفعیل وہ نازل کرتا ہے۔ یعنی اللہ نازل کرتا ہے۔ بالروح۔ روح کے ساتھ۔ روح بمعنی وحی یا قرآن۔ کیونکہ ہر دو دین میں بمقام روح فی الجسد کے ہیں۔ (جیسے جسد انسانی میں روح) اور ہر دو جہالت وکفر سے مردہ دلوں کو زندگی بخشتے ہیں۔ علی من یشاء من عبادہ۔ اپنے بندوں میں سے وہ جن پر چاہتا ہے (اپنے حکم سے وحی دے کر فرشتوں کو بھیجتا ہے) ۔ ان انذروا۔ یہ الروح کا بدل ہے یعنی مقصود وحی لوگوں کو اس کی وحدانیت میں کسی اور کو شریک ٹھہرانے سے ڈرانا ہے یا خبردار کرنا ہے۔ انذروا۔ فعل امر جمع مذکر حاضر۔ تم ڈر سنائو۔ تم ڈرائو۔ تم خبردار کرو۔ تم آگاہ کرو۔ انذار ایسا اعلان جس میں خوف بھی ملا ہوا ہو۔ انہ۔ ضمیر شان۔ (اگر جملہ سے پہلے ضمیر غائب بغیر مرجع کے واقع ہو تو اگر وہ ضمیر مذکر کی ہے تو اس کو ضمیر شان کہتے ہیں اور اگر مؤنث کی ہو تو اس کو ضمیر قصہ ّ کہتے ہیں۔ ان انذروا انہ لا الہ الا انا۔ والمعنی یقول اللہ تعالیٰ بواسطۃ الملائکۃ لمن یشاء من عبادہ (ای رسلہ) اعلموا الناس قولی۔ لا الہ الا انا۔ یعنی خداوند تعالیٰ وحی کے ذریعہ سے اپنے رسولوں کو فرماتا ہے کہ لوگوں کو میرے اس قول سے خبردار کردو کہ کوئی معبود نہیں سوائے میرے۔ فاتقون۔ ف نتیجہ کے لئے ہے۔ اتقون مجھ سے ڈرو۔ اتقوا۔ فعل امر۔ صیغہ جمع مذکر حاضر۔ نون وقایہ۔ یواحد متکلم محذوف ہے یعنی جب میں ہی معبود ہوں تو صرف مجھی سے ڈرو۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 یعنی اس کے آنے میں کوئی دیر نہیں ہے یہاں ” امر “ سے مراد قیامت ہے اور مشرکوں پر مختلف انواع کے عذاب کے نزول کا وقت بھی ہوسکتا ہے۔ (روح) 4 مشرکین کو جب عذاب کی دھمکی دی جاتی ہے تو وہ استہزاء کے طور پر اس کے فوراً آجانے کا مطالبہ کرتے۔ (دیکھیے انفال :22) یہاں ان کو تنبیہ کی گئی ہے۔ 5 عذاب کی جلد ہی نہ آنے کی وجہ سے وہ اللہ کی طرف عجز و احتیاج کی نسبت کرتے۔ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف اس قسم کے امور کی نسبت کرنا شرک کا نتیجہ ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات اس قسم کی مشرکانہ باتوں سے بلندو برتر ہے۔ (روح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

(رکوع نمبر ١) اسرارومعارف اہل مکہ مذاق اڑاتے اور وقوع عذاب کی تردید میں کہتے کہ بھئی وہ عذاب کہاں ہے جس سے روزانہ ڈرایا جاتا ہے ارشاد ہوا کہ گھبراؤ مت اللہ جل جلالہ کا فیصلہ آپہنچا اور دنیا میں واقعی بہت تھوڑے عرصہ میں مسلمانوں کے ہاتھوں مسلسل شکستیں کھا کر ذلیل ہوئے کچھ قتل ہوگئے کچھ قید بنا لیے گئے اور پھر مکہ مکرمہ فتح ہوگیا اور سب غلام بن کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شفقتوں کے صدقے آزاد ہوئے حالانکہ اسباب دنیا کے لحاظ سے یہ سب ناممکن نظرآتا تھا اور ایسے ہی اگر دنیا کی عمر کے اعتبار سے دیکھا جائے تو قیام قیامت بھی آپہنچا ہے کہ اللہ کریم کا آخری نبی اور آخری کتاب آچکی اب جہان میں آخری امت ہی تو ہے کوئی نئی امت نہ آئے گی لہذا اب تو قیامت ہی آنے والی ہے لہذا فرمایا اللہ جل جلالہ کی گرفت تو سر پہ کھڑی ہے اگر چندے مہلت نصیب ہے تو جلدی نہ کرو اور ان لمحات کو غنیمت جانو کہ اللہ جل جلالہ ہر عیب سے پاک اور بلند ہے جب اس نے فرما دیا کہ قیامت قائم ہوگی تو یقینا ہوگی کہ اس کا ارشاد برحق ہے اور کوئی اس کا شریک نہیں نہ برابری کا دعوی کرسکتا ہے کہ اس کے فیصلوں پر اثر انداز ہو ، رہی یہ بات کہ بھلا ہم صاحب عزت ووقار بھی تھے اور ہمارے بال سفید نہیں آج تک لوگ بزرگوں کے پیچھے چلے ہیں اور ہم ایک ایسے نوجوان کی پیروی کیسے اختیار کریں جو ہمارے سامنے پیدا ہوا پلا بڑھا تو یہ اللہ جل جلالہ کی مرضی ہے کہ وہ کس کو مقتدا بناتا ہے ۔ (بزرگی و قیادت) قیادت کی اہلیت سن وسال سے نہیں بلکہ اللہ کریم کے عطا کردہ علم سے ہوتی ہے اور یہ اس کی مرضی کہ اس نے اپنی نبوت و رسالت کیلئے کس کو پسند فرما لیا اور اس پر وحی کا نزول فرمایا ایسے ہی ولایت کی سند عمر نہیں کہ ہر بوڑھا آدمی ہی ولی کامل ہو بلکہ اللہ جل جلالہ کا عطا کردہ نور ہے جس سینے میں وہ بھر دے ہاں وحی جب بھی اور جس پر بھی آئی اسی نے سب سے پہلے اللہ جل جلالہ کی توحید کی طرف دعوت دی اور یہ کتنی عجیب بات ہے کہ کم وبیش سوا لاکھ کے قریب بنی اور مختلف زبانوں اور مختلف خطہ ہائے زمین مبعوث ہوئے جو سب کے سب اپنے دور کے مانے ہوئے صاحب خرد لوگ تھے مگر سب ان دو باتوں ہی کی طرف بلاتے رہے اور پوری طرح ان باتوں پر متفق رہے کہ اللہ وحدہ لاشریک ہے اور معبود برحق ہے کوئی دوسرا عبادت کے لائق نہیں دوسرے اس کی نافرمانی سے ڈرتے رہو کہ تمہیں حساب دینا ہوگا تو کیا یہ عقلا محال نہیں کہ اتنے سارے لوگ کسی ایسی بات پر متفق ہوجائیں جو صحیح نہ ہو ، یہ بجائے خود بہت بڑی دلیل ہے ۔ پھر تم جن ہستیوں کو اس کا شریک قرار دیتے ہو وہ سب مخلوق ہیں اور زمین وآسمان اور اس کی ہر شے کا خالق تو اللہ جل جلالہ ہے جس نے بیشمار حکمتیں ان میں سمو دی ہیں بھلا مخلوق خالق کی شریک کیسے ہو سکتی ہے ، لہذا وہ ان سب باتوں سے پاک ہے جو تم نے گھڑ رکھی ہیں وہ ایسا قادر ہے کہ ایک ناپاک قطرے کو وجود انسانی کے لیے بیج کی حیثیت دے دی اور اسی کی تربیت فرما کر ایک پیکر حسن یعنی انسان پیدا فرماتا ہے عجیب بات نہیں کہ پھر یہ تخلیق اپنے خالق کی ذات وصفات میں زبان درازی کرتی ہے اور جھگڑتی ہے بھلا یہ کیا انسان کو زیب دیتا ہے ہرگز نہیں ۔ اسی نے تو چوپائے پیدا فرمائے جو تمہاری ضرورتیں پوری کرتے ہیں ان کے بال ، کھال اور ہڈیاں تک تمہارے استعمال میں آتی ہیں بعضے پال کر ان سے منافع کماتے ہو تو بعض کو اپنی غذا بناتے ہو بلکہ وہ تمہارا حسن ہیں ان کا صبح کو چرنے جانا اور پھر گھروں کو واپس آنا تمہاری شوکت بڑھاتا ہے آج کے جدید دور کا انسان بھی چوپاؤں اور قدرتی تخلیقات کا اتنا ہی محتاج ہے جتنے قدیم عرب تھے اور آج کی فارمنگ بھی اتنی نفع بخش اور باعث عزت ہے جتنی تب تھی ۔ بعض جانوروں کو بار برداری کے کام میں لاتے ہو اور مشکل مقامات پر تمہارے نقل وحمل کا کام کرتے ہیں جہاں خود تمہارے لیے چیزوں کا پہچاننا بہت دشوار ہوجاتا مگر تمہارا پروردگار کتنا کریم کس قدر شفقت والا اور کتنا ہی مہربان ہے اس نے تمہاری سواری کو گھوڑے خچر اور گدھے پیدا فرما دیئے جو ہر قسم کے راستوں پہ سفر کرتے ہیں اور تمہیں پہنچانے کا کام کرتے ہیں اور پھر اس پر پس نہیں تم نہیں جانتے کہ ابھی تمہاری سواری کو کیا کیا کچھ پیدا فرمائے گا کتاب اللہ کی یہ ایسی پیشگوئی ہے کہ آج تک کی سواری کی ساری ایجادات کے ساتھ آئندہ کی ایجادات کو بھی شامل ہے کہ ہر ایجاد محض چند چیزوں کی خصوصیات سے آگاہ ہو کر انہیں مختلف نسبتوں سے جوڑنے کا نام ہے جس کا شعور وہی ذات عظیم عطا کرتی ہے اور یہ سب دلائل ایک ہی سیدھے راستے کو روشن کر رہے ہیں جو اللہ کی اطاعت کا راستہ ہے مگر لوگوں نے اسے چھوڑ کر ٹیڑھے راستے اپنا لیے ہیں حالانکہ وہ قادر ہے چاہتا تو سب کو حکما ایک ہی راہ پر ڈال دیتا مگر یہ اس کی حکمت کا تقاضا نہ تھا لہذا راہ واضح کر کے اختیار کرنا یا نہ کرنا خود انسان پہ چھوڑ دیا ۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 1 تا 4 اتی آگیا۔ امر اللہ اللہ کا حکم۔ لاتستعجلوہ تم اس میں جلدی نہ مچاؤ۔ تعالیٰ بلندو برتر۔ الروح جبرئیل امین۔ وحی ۔ خصیم جھگڑا کرنے والا۔ تشریح : آیت نمبر 1 تا 4 نبی کریم حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب قرآن کریم کی آیات تلاوت فرما کر کفار مکہ سے یہ فرماتے تھے کہ میں اللہ کا آخری رسول ہوں جو تعلیمات میں لے کر آیا ہوں ان پر ایمان لے آؤ تو تمہیں اس دنیا کی سربلندی اور آخرت کی ہمیشہ رہنے والی نعمتیں عطا کی جائیں گی۔ لیکن اگر تم نے میری بات نہ مانی اور اپنے کفر و شرک ، بری رسموں اور خرافات سے چمٹے رہے اور تم نے اپنی ضد اور ہٹ دھرمی نہ چھوڑی تو کہیں تم پر وہی عذاب نہ آجائے جو نبیوں کی تعلیمات کو جھٹلانے سے قوموں پر آیا کرتا ہے۔ اس کے لئے توحید کا ثبوت شرک اور کفر کے باطل ہونے، اللہ کے پیغمبروں کی دعوت کو نا ماننے کی بدترین نتائج اور گزشتہ قوموں کے واقعات سنا کر تنبیہ فرماتے تو اس کے جواب میں وہ کہتے تھے کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہم تمہارے لائے ہوئے دین کو تسلیم نہیں کرتے اور ہم تمہاری اسی طرح مخالفت کرتے رہیں گے۔ تم جس عذاب کے آنے کی باتیں کرتے ہو اگر تم واقعی سچے ہو تو اس عذاب کے آنے میں دیر کیا ہے وہ کیوں نہیں آجاتا ؟ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم جس عذاب کے آنے کی جلدی مچا رہے ہو اس کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ تمہیں سوچنے سمجھنے کی جو مہلت دی گئی ہے اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے کفر و شرک سے توبہ کرلو۔ ورنہ اللہ کا وہ حکم (امر اللہ) بہت جلد آنے والا ہے۔ جب وہ امر اللہ آجائے گا تو پھر اس سے کوئی بچانے والا نہیں ہوگا ۔ علماء مفسرین نے لکھا ہے کہ امر اللہ سے مراد وہ وعدہ ہو سکتا ہے جو اللہ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام سے کر رکھا تھا کہ اللہ کا فیصلہ جس میں تمہیں تمہارے دشمنوں پر غالب کردیا جائے گا اور مسلمانوں کو فتح و نصرت اور کامیابی عطا کی جائے گی یا یہ کہ امر اللہ سے مراد قیامت کا دن ہے جو بہت جلد آنے والا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ان آیات کے نازل ہونے کے چند سالوں کے بعد ان کفار و مشرکین کو شکست پر شکست کھانا پڑی۔ سایر دنیا میں ان کو ذلت نصیب ہوئی اور آخر کار فتح مکہ کے بعد پورے جزیرۃ العرب پر اہل ایمان کو فتح حاصل ہوئی اور وہ وقت بھی آ کر رہا جب تمام کفار و مشرکین کو اس سر زمین سے نکل جانے کا حکم دیدیا گیا اور اب قیامت تک اس سرزمین پر انہیں قدم رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ اس طرح اس دنیا کی زندگی میں تو ان کو اس بدنصیبی سے واسطہ پڑا۔ اب قیامت کے دن ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے گا۔ وہ وقت بھی دور نہیں ہے۔ اس کے بعد فرمایا کہ یہ مشرکین اللہ کی ذات اور صفات میں جن چیزوں کو شریک کرتے ہیں اللہ کی ذات اس سے بہت بلندو برتر ہے۔ وہ ہر طرح کے عیبوں سے پاک ذات ہے۔ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اپنا کلام نازل کرتا ہے تاکہ وہ اللہ کے نیک بندے (پیغمبر) اس بات کو پوری وضاحت سے بیان فرما دیں کہ اس کائنات میں ہر طرح کی عبادت و بندگی کے لائق صرف ایک اللہ ہی کی ذات ہے۔ وہ اس لائق ہے کہ اس سے ڈرا جائے۔ اسی نے آسمانوں او زمین کو برحق پیدا فرمایا ہے۔ اسی نے اس انسان کو ایک حقیر قطرہ سے پیدا کیا ہے اور زندگی گذارنے کا ہر طرح کا سامان عطا فرمایا ہے۔ وہ انسان کتنا عجیب ہے کہ اپنی خلقت کو بھول کر اپنے پروردگار کے سامنے ہی ڈٹ کر کھڑا ہوگیا ہے اور اللہ اور اس کے رسول سے کھلم کھلا جھگڑتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اللہ کے نبی اللہ کا پیغام اس کے بندوں تک پہنچاتے ہیں۔ پھر بھی اگر کوئی شخص اللہ کے نبی کی بات کو نہیں مانتا تو اسے یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ کا فیصلہ آنے میں دیر نہیں لگے گی۔ جب وہ کسی چیز کا فیصلہ کرلیتا ہے تو پھر اس کے ہونے میں دیر نہیں لگتی۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ یعنی سزائے کفر و شرک کا وقت قریب آپہنچا اور اس کا آنا یقینی ہے۔ 3۔ یعنی اس کا کوئی شریک نہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : سورة الحجر کا اختتام ان آیات پر ہوا ہے کہ مشرکین سے مزید بحث و تکرار کرنے کی بجائے اعراض کیجئے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے لیے ان کی کٹ حجتیاں اور استہزا کے مقابلے میں کافی ہے یہ لوگ جو ہرزہ سرائی کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کو سب کچھ معلوم ہے اور وہ جانتا ہے کہ اس سے آپ کا دل پسیجتا ہے۔ بس آپ اپنے رب کو یاد کرتے رہیں اور کفار کو تنبیہ کریں کہ جس بات کی تم جلدی کرتے ہو وہ آن پہنچی ہے۔ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مشرکین کو اللہ تعالیٰ کی توحید سمجھاتے ہوئے فرمایا کرتے تھے کہ اگر تم نے اللہ تعالیٰ کی توحید کا انکار کیے رکھا تو اس کا عذاب تمہیں آلے گا۔ لیکن مشرکین آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ کہہ کر مذاق اڑاتے کہ سال پر سال گزر رہے ہیں، تیری دھمکیوں کے باوجود اب تک ہم پر کوئی عذاب نازل نہیں ہوا۔ اس دلیری میں وہ اس قدر آگے بڑھ گئے کہ ایک دن بیت اللہ میں جمع ہو کر اس کے غلاف کو کھینچتے ہوئے یہ الفاظ کہتے ہیں کہ اے اللہ اگر یہ دین حق اور یہ رسول تیری طرف سے ہے تو پھر ہم پر آسمان سے پتھر برسا یا ہمیں کسی ہولناک عذاب سے دوچار کر دے جس کا یہ جواب دیا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ انہیں اس لیے عذاب میں مبتلا نہیں کر رہا کہ اس کا رسول ان میں موجود ہے اور ان پر عذاب نہ آنے کی وجہ یہ بھی ہے کہ ان میں مسلمان موجود ہیں جو استغفار کرتے رہتے ہیں۔ (الانفال : ٣٢۔ ٣٣) لیکن اب وقت آگیا تھا کہ ان کی نافرمانیوں کے بدلے میں ان پر عذاب نازل کیا جائے۔ چناچہ اعلان ہوتا ہے اپنے آپ سے باہر ہونے اور جلدی کرنے کی ضرورت نہیں بس اللہ کا حکم آہی پہنچا ہے۔ جب اللہ کا عذاب آئے گا تو اس کے سامنے تم اور تمہارے معبودان باطل یکسر بےبس ہوجائیں گے۔ اب تک اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل نہیں ہوا تو اس کا معنیٰ یہ نہ سمجھو کہ تمہارے اور تمہارے معبودوں کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کمزور ہے۔ وہ ہر کمزوری سے مبرا، اور ہر قسم کی شراکت سے پاک اور تمہارے باطل عقیدہ اور تصورات سے کہیں اعلیٰ اور ارفع ہے۔ اس کے کمال کو کوئی زوال نہیں اور اس کی ذات میں کوئی نقص نہیں وہ ہمیشہ سے اعلیٰ اور صاحب کمال ہے اور رہے گا۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ سَأَلْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَیُّ الذَّنْبِ أَعْظَمُ عِنْدَ اللَّہِ قَالَ أَنْ تَجْعَلَ لِلَّہِ نِدًّا وَّہْوَ خَلَقَکَ قُلْتُ إِنَّ ذٰلِکَ لَعَظِیْمٌ، قُلْتُ ثُمَّ أَیُّ قَالَ وَأَنْ تَقْتُلَ وَلَدَکَ تَخَافُ أَنْ یَّطْعَمَ مَعَکَ قُلْتُ ثُمَّ أَیُّ قَالَ أَنْ تُزَانِیَ حَلِیْلَۃَ جَارِکَ ) [ رواہ البخاری : کتاب التفسیر باب قَوْلُہُ تَعَالَی (فَلاَ تَجْعَلُوا لِلَّہِ أَنْدَادًا وَّأَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ اللہ کے ہاں سب سے بڑا گناہ کونسا ہے آپ نے فرمایا تو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے۔ میں نے کہا یہ تو بہت بڑا ہے۔ اس کے بعد کونسا ہے آپ نے فرمایا کہ تو اپنی اولاد کو اس ڈر سے قتل کردے کہ وہ تیرے ساتھ کھانا کھائے گی۔ میں نے عرض کی اس کے بعد کونسا گناہ ہے۔ آپ نے فرمایا کہ تو اپنے ہمسایہ کی بیوی سے زنا کرے۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرتے رہنا چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ شریکوں کی شراکت سے پاک اور مبرا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہر قسم کی کمزوری اور شرک سے پاک ہے : ١۔ اللہ ان کے شرک سے پاک و برتر ہے۔ (النحل : ١) ٢۔ اللہ نے آسمان و زمین کو برحق پیدا کیا۔ اللہ شریکوں سے بلند وبالا ہے۔ (النمل : ٣) ٣۔ اللہ غائب اور حاضر کو جاننے والا ہے اللہ شریکوں کی شراکت سے بلند ہے۔ (المومنون : ٩٢) ٤۔ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور بھی الٰہ ہے ؟ اللہ ان کے شرک سے بالا ہے۔ (النمل : ٦٣) ٥۔ اللہ نے تمہیں پیدا کیا، رزق دیا، تمہیں مارے گا اور تمہیں زندہ کرے گا۔ کیا تمہارے شرکا میں سے بھی کوئی ہے جو یہ کام کرسکے ؟ اللہ مشرکوں کے شرک سے پاک ہے۔ (الروم : ٤٠) ٦۔ قیامت کے دن آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپٹے ہوں گے۔ اللہ لوگوں کے شرک سے پاک و برتر ہے۔ (الزمر : ٦٧)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر ١ تا ٢ مشرکین مکہ اس معاملے میں جلدی کرتے تھے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس طرح اقوام سابقہ کی ہلاکت کی بات کرتے ہیں ، ہم پر بھی دنیا یا آخرت کا عذاب لے آئیں۔ مکہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی گزر رہی تھی اور جوں جوں وقت گزرتا جاتا ہے وہ اپنے اس مطالبے پر زیادہ زور دیتے۔ بلکہ مذاق کرنے لگتے اور خندہ و استہزاء میں بہت ہی آگے بڑھ جاتے۔ وہ اس تاثر کا اظہار کرتے کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں خواہ مخواہ ڈراتے ہیں ، جو ڈراوے وہ دیتے ہیں ان کا کوئی وجود نہیں ہے۔ اس لیے وہ محض اوہام پر ایمان نہیں لا سکتے ہیں ، نہ ایسی چیز کے سامنے سر تسلیم خم کرسکتے ہیں جن کا وجود ہی نہ ہو۔ اللہ ان کو جو مہلت دے رہا تھا اور مواقع فراہم کر رہا تھا اس میں گہری حکمت اور رحمت تھی اور وہ اسے سمجھ نہیں پا رہے تھے۔ مزید یہ قرآن کریم جو آیات کونیہ پیش کر رہا تھا اور خود قرآن جو عقلی دلائل پیش کر رہا تھا وہ اس پر غوروفکر نہ کرتے تھے ، حالانکہ یہ دلائل قلب و نظر پر جو اثرات چھوڑتے تھے ، وہ تخویف بذریعہ عذاب سے زیادہ کارگر ہو سکتے تھے۔ انسان کو اللہ نے عقل و خرد سے نوازا ہے ، اس کے شایان شان تو یہ ہے کہ وہ ان دلائل پر غور کرے ، محض ڈراوے سے تسلیم کرنا تو ان لوگوں کے لئے ہے جو عقل و خرد کے پہلو سے کمزور ہوں۔ ذراوے سے حریت ارادہ پر بھی زد پڑتی ہے۔ ایسے حالات میں فرمایا : اتی امر اللہ (١٦ : ١) “ اللہ کا فیصلہ آگیا ”۔ یعنی اللہ فیصلہ کرچکے ہیں ، ان کا ارادہ متوجہ ہوگیا ہے جو وقت صدور اللہ نے مقرر کیا ہے اس میں ان اوامرو احکام اور فیصلوں کا صدور ہوجائے گا۔ لہٰذا : فلا تستعجلوہ (١٦ : ١) “ جلدی نہ مچاؤ ”۔ اللہ کے فیصلے اس کی مشیت کے مطابق ہوتے ہیں۔ تمہاری طرف سے شتابی کرنا اللہ کے فیصلوں پر اثر انداز نہیں ہو سکتا۔ تمہاری طرف سے درازی مہلت کی امیدیں بھی ان کو موخر نہیں کرسکتیں۔ عذاب آتا ہے یا قیامت برپا ہوتی ہے ، اس کا فیصلہ ہوگیا ہے۔ اس فیصلے کا وقوع اور نفاذ اپنے مقررہ وقت پر بہرحال ہوگا۔ اس میں تقدیم و تاخیر ممکن نہیں ہے۔ ایک شخص اپنی حالت پر جس قدر جمنے کی کوشش بھی کرے یہ فیصلہ کن انداز گفتگو اسے بہرحال متاثر کرتا ہے ، چاہے وہ استکبار کی وجہ سے اپنے تاثر کو ظاہر نہ کرے۔ جس قدر انداز فیصلہ کن ہے اسی طرح یہ حقیقت بھی اٹل ہے کہ اللہ کا حکم جب آتا ہے تو وہ اٹل ہوتا ہے ۔ بس صرف اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ اللہ کا ارادہ کسی امر سے متعلق ہوجائے بس وہ امر واقع ہوجاتا ہے۔ چشم زدن میں وہ وجود میں آجاتا ہے۔ لہٰذا یہ زور دار انداز کلام کسی شاعرانہ مبالغہ آرائی پر بھی مبنی نہیں ہے۔ جس طرح انداز کلام شعور کو متاثر کرتا اسی طرح اللہ کے فیصلے واقعی صورت حالات میں انقلاب برپا کردیتے ہیں۔ رہے مشرکین مکہ کے اعمال شرکیہ اور عقائد شرکیہ اور ان کے وہ تمام تصورات جو اعمال شرکیہ اور عقائد شرکیہ پر مبنی ہیں تو اللہ کی ذات ان سے پاک ہے۔ سبحنہ وتعالیٰ عما یشرکون (١٦ : ١) “ پاک ہے وہ اور بالا و برتر ہے اس شرک سے جو یہ لوگ کر رہے ہیں ”۔ اللہ تعالیٰ پاک ہے تمام ان مشرکوں سے جن میں یہ لوگ مبتلا ہیں۔ یادر ہے کہ شرک میں کوئی انسان تب ہی مبتلا ہوتا ہے جب وہ فکر اعتبار سے گرا پڑا ہو اور اس کے تصورات کسی دلیل پر مبنی نہ ہوں۔ اللہ کے احکام واوامر آگئے ، جو شرک سے پاک ہیں اور امر دینے والے باری تعالیٰ بھی شرک سے پاک ہیں اور اہل مکہ اللہ تعالیٰ کو جو مقام دیتے ہیں وہ اس سے بہت بلند ہیں۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ لوگوں کو ان کے گمراہانہ خیالات میں ڈوبا ہوا نہیں چھوڑتے ۔ اللہ تعالیٰ آسمانوں سے فرشتے بھیجتے ہیں اور یہ فرشتے ایسے پیغام کے حامل ہوتے ہیں جو انسانوں کی حیات نو اور نجات اخروی کے پروگرام پر مشتمل ہوتا ہے۔ ینزل الملئکۃ ۔۔۔۔۔۔ من عبادہ (١٦ : ٢) “ وہ اس روح کو اپنے جس بندے پر چاہتا ہے اپنے حکم سے ملائکہ کے ذریعے نازل فرما دیتا ہے ” اور یہ اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ اللہ آسمانوں سے فقط بارش ہی نہیں برساتا جو ان کے جسم کے لئے سازو سامان فراہم کرتی ہے بلکہ وہ ملائکہ کو انسان کی روحانی غذا دے کر بھی بھیجتا ہے۔ قرآن کریم اور اسلام کو روح کہنا نہایت ہی معنی خیز ہے۔ پیغام قرآن ایک سوسائٹی کو اسی طرح زندہ کرتا ہے جس طرح ایک انسان کے جسم میں روح ڈال کر زندہ کیا جاتا ہے۔ اس پیغام سے نفس و ضمیر زندہ ہوتا ہے۔ عقل و شعور کو جلا ملتی ہے اور سوسائٹی اس طرح زندہ اور صحت مند ہوتی ہے کہ اس سے ہر قسم کے فساد ختم ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا آسمانوں سے انسانی زندگی کے لئے جو برکات و انعامات نازل ہوتے ہیں ، یہ ان میں سے اعلیٰ و افضل ہے۔ یہ نعمت عظمیٰ وہ مخلوق لے کر آتی ہے جو پاک طینت ہے۔ جو اللہ کے بندوں میں سے برگزیدہ افراد پر نازل ہوتی ہے ، جو افضل العباد ہوتے ہیں اور اس روح کائنات کا خلاصہ کیا ہے۔ لا الہ الا انا فاتقون (١٦ : ٢) “ میرے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے لہٰذا تم مجھ ہی سے ڈرو ”۔ اللہ وحدہ لا شریک حاکم و معبود ہیں۔ یہ تمام عقیدہ عقائد کی روح ہے ، یہ نفس انسانی کی زندگی ہے ، یہ وہ تصور ہے جس سے سوسائٹی زندہ و توانا ہوتی ہے اور اس کے سوا جو تصورات ہیں انسانی سوسائٹی کے لئے مہلک اور تباہ کن ہیں۔ جو شخص اللہ وحدہ کی ذات پر ایمان نہیں رکھتا وہ حیران و پریشان ، تباہ و برباد ہوتا ہے۔ اسے ہر طرف سے ایک باطل عقیدہ اپنی طرف کھینچ رہا ہوتا ہے ، اوہام پر مبنی باہم تناقص تصورات ہر طرف سے دامن گیر ہوتے ہیں اور اس کا نفس ہر وقت وساوس ، ان جانے خوف اور وہم کی آماجگاہ بنا رہتا ہے اور وہ کبھی بھی کسی ایک سمت میں کسی متعین ہدف کی طرف نہیں بڑھ سکتا۔ افکار پریشان اور اعمال بےترتیب کے اندر گھرا ہوتا ہے۔ اسلام کی تعبیر روح سے کرنا دراصل ان تمام مفہومات کا اظہار ہے اور سورة کے آغاز میں جہاں اللہ تعالیٰ اپنے تمام انعامات کا ذکر فرماتے ہیں ، اسلام کو روح حیات قرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی نظریہ حیات دراصل وہ نعمت عظمیٰ ہے ، جس کے بغیر انسان اللہ کی دوسرے نعمتوں سے بھی کماحقہ مستفید نہیں ہو سکتا۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر یہ نعمت کسی کو نہ دی گئی ہو تو اس کے لئے دوسرے انعامات بھی اپنی قدرو قیمت کھو دیتے ہیں کیونکہ یہ نعمت ہی دراصل انسان کو حیات جاوداں بخشتی ہے۔ اس آیت میں ڈراوے اور انذار کو وحی و رسالت کا اصل مشن قرار دیا گیا ہے اس لیے کہ اس سورة کے پورے مضامین مکذبین ، مشرکین اور اللہ کی نعمتوں کے منکر اور ناشکرے طبقات کے گرد گھومتے ہیں۔ نیز اس میں ان لوگوں پر بھی تنقید کی گئی ہے جو حلال کو حرام قرار دیتے ہیں جو بہت بڑا جرم ہے اور شرک ہے ، نیز اللہ کے ساتھ عہد کر کے توڑنے والوں پر بھی اس سورة میں تنقید ہے ، نیز جہاں ان لوگوں سے بھی بحث کی گئی ہے جو اسلام کو قبول کرنے کے بعد مرتد ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا آغاز سورة میں یہ کہنا کہ لوگوں کو ان گھناؤنے جرائم سے ڈراؤ، ایک مناسب آغاز کلام سے کہ لوگو احتیاط کرو ، اللہ سے ڈرو ، اور آخرت کا خوف کرو۔ ٭٭٭ اس تمہید کے بعد لوگوں کے سامنے وہ دلائل و شواہد پیش کئے جاتے ہیں جو اس پوری کائنات میں بکھرے پڑے ہیں ، جو توحید باری تعالیٰ پر دلالت کرتے ہیں۔ پھر اللہ کے بعض انعامات کا ذکر ہے جو منعم حقیقی کے احسان پر دلالت کرتے ہیں۔ ان نشانات و انعامات کا ذکر بکثرت اور فوج در فوج ہے۔ آغاز تخلیق ارض و سما اور تخلیق حضرت انسان سے ہوتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

قیامت کا آنا یقینی ہے، انسان بڑا جھگڑالو ہے یہاں سے سورة نحل شروع ہے اس میں عموماً اللہ کی توحید بیان کی گئی ہے اور توحید کے دلائل بیان فرمائے ہیں اور مشرکین کی تردید فرمائی ہے اور اللہ تعالیٰ کی نعمتیں یاد دلائی ہیں، اس میں ایک جگہ شہد کی مکھی کے گھر بنانے اور پھلوں کو چوسنے اور اس سے شہد پیدا ہونے کا تذکرہ فرمایا ہے، شہد کی مکھی کو عربی میں نحل کہتے ہیں اسی مناسبت سے اس سورت کا نام سورة النحل رکھا گیا۔ مذکورہ بالا آیت میں معاد یعنی قیامت اور توحید و رسالت اور آسمان و زمین کی تخلیق اور انسانوں کی پیدائش کا تذکرہ فرمایا ہے اول تو یہ فرمایا (اَتآی اَمْرُاللّٰہِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْہُ ) (اللہ کا حکم آپہنچا لہٰذا تم اس کے بارے میں جلدی نہ مچاؤ) جب مشرکین کے سامنے ایمان نہ لانے پر اور شرک اختیار کرنے پر عذاب آنے کا تذکرہ ہوتا تھا تو کہتے تھے کہ عذاب آنے والا نہیں یہ تو خالی دھمکیاں ہیں ہمیں تو عذاب آتا ہوا نظر نہیں آتا، اور جب قیامت کی بات سامنے آتی تھی تو اس کا بھی انکار کرتے تھے اور عذاب کے بارے میں کہتے تھے کہ عذاب آنا ہے تو کیوں نہیں آجاتا، ابھی آجائے اور جلدی آجائے، ان کو تنبیہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اللہ کا حکم آپہنچا یعنی اس کا آنا یقینی ہے اور جس چیز کا آنا یقینی ہو وہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی چیز پہنچی ہو، کسی چیز کے آنے میں دیر لگنا اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ نہیں آئے گی، دنیا کی جتنی زندگی گزر گئی اس کے اعتبار سے اب قیامت کے آنے میں قابل ذکر دیر نہیں رہی، یہ امت آخر الامم ہے اس کے بعد کوئی امت نہیں ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا بعثت انا والساعۃ کھاتین (یعنی میں اور قیامت دونوں اس طرح سے بھیجے گئے ہیں جیسے آپس میں یہ دونوں انگلیاں ملی ہوئی ہیں اور ان میں بیچ کی انگلی اشارہ والی انگلی ہے ذرا سی آگے بڑھی ہوئی ہے) اتنی بات ہے کہ میں اس سے پہلے آگیا۔ (رواہ البخاری) بعض مفسرین نے (اَمْرُاللّٰہِ ) سے تکذیب کرنے والوں کا عذاب مراد لیا ہے صاحب معالم التنزیل (ص ١٧ ج ٢) لکھتے ہیں کہ نضر بن حارث نے یوں کہا تھا اللّٰھُمَّ اِنْ کَانَ ھٰذَا ھُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِکَ فَاَمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَۃً مِّنَ السَّمَآءِ (کہ اے اللہ اگر یہ (یعنی دین اسلام) حق ہے آپ کی طرف سے ہے (تو اس کے قبول نہ کرنے پر) ہم پر آسمان سے پتھر برسا دیجیے، اس نے عذاب جلدی آنے کا مطالبہ کیا لہٰذا عذاب آگیا اور وہ (اور اسکے ساتھی) غزوہ بدر کے موقع پر مقتول ہوگئے۔ پھر فرمایا (سُبْحٰنَہٗ وَ تَعٰلٰی عَمَّا یُشْرِکُوْنَ ) (وہ پاک ہے اور اس سے برتر ہے جو وہ شرک کرتے ہیں) مشرکین اللہ تعالیٰ کے لیے شریک قرار دیتے تھے اور غیر اللہ کو بھی عبادت کا مستحق جانتے تھے اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی تنزیہ بیان فرمائی اور صاف بتادیا کہ اللہ تعالیٰ اس سے پاک ہے کہ اس کا کوئی شریک ہو اور اس سے برتر ہے کہ کوئی اس کے برابر اور مستحق عبادت ہو، یہ مضمون جگہ جگہ قرآن میں واضح طور پر بیان فرمایا ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

2:۔ حصہ اول۔ نفی شرک فی التصرف۔ یہ مقصود سورت کا ذکر ہے۔ یعنی تم دعوت توحید کا انکار، پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب کرتے اور عذاب مانگتے ہو لو تیار ہوجاؤ عذاب الٰہی آنے کو ہے۔ ” اَمْرُ اللّٰهِ “ یعنی اللہ کا عذاب۔ وامر اللہ عقابہ لمن اقام علی الشرک و تکذیب رسولہ (قرطبی ج 10 ص 65) ۔ 3:۔ اللہ تعالیٰ شریکوں سے پاک ہے لہذا تم بھی اسے شریکوں سے پاک سمجھو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک مت بناؤ کیونکہ یہ شرک ہی عذاب کا سبب ہے۔ ” عَمَّا یُشْرِکُوْنَ “ میں مَا سے معبودانِ باطلہ مراد ہیں اور اس کے بعد ” فَلَا تُشْرِکُوْا بِهٖ اَحَدًا “ محذوف ہے یعنی اللہ تعالیٰ ہر شریک سے پاک ہے لہذا کسی کو اس کا شریک نہ بناؤ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

1 ۔ اللہ تعالیٰ کا حکم آپہنچا سو اے منکرو اس کے لئے جلدی نہ کرو اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس ان کے شرک سے پاک اور بلند وبالا تر ہے۔ یعنی ان لوگوں کے اعمال کی سزا کا وقت قریب آگیا اور چونکہ اس وقت کا آنا ایک امر یقینی ہے اور اس کے وقوع میں کوئی شک کی گنجائش نہیں اس لئے فرمایا کہ وہ آ ہی گیا اور جو چیز یقینا آنے والی ہے اس کے لئے بےکار جلدی نہ بچائو اور اس کے لئے جلدی کا مطالبہ نہ کرو اور جب اعمال بد جس میں کفر و شرک بھی داخل ہیں ان اعمال کی سزا یقینی طور پر ملنے والی ہے تو شرک سے باز آ جائو ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ یہ لوگ شرک کرتے ہیں وہ ان کے شرک سے پاک اور بلند وبالا تر ہے۔