Surat un Nahal

Surah: 16

Verse: 11

سورة النحل

یُنۡۢبِتُ لَکُمۡ بِہِ الزَّرۡعَ وَ الزَّیۡتُوۡنَ وَ النَّخِیۡلَ وَ الۡاَعۡنَابَ وَ مِنۡ کُلِّ الثَّمَرٰتِ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّقَوۡمٍ یَّتَفَکَّرُوۡنَ ﴿۱۱﴾

He causes to grow for you thereby the crops, olives, palm trees, grapevines, and from all the fruits. Indeed in that is a sign for a people who give thought.

اسی سے وہ تمہارے لئے کھیتی اور زیتون اور کھجور اور انگور اور ہر قسم کے پھل اگاتا ہے بے شک ان لوگوں کے لئے تو اس میں بڑی نشانی ہے جو غور و فکر کرتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

يُنبِتُ لَكُم بِهِ الزَّرْعَ وَالزَّيْتُونَ وَالنَّخِيلَ وَالاَعْنَابَ وَمِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ ... With it He causes crops to grow for you, olives, date palms, grapes, and every kind of fruit. meaning, with this one kind of water, He makes the earth sprout plants with different tastes, colors, scents and shapes. For this reason He says, ... إِنَّ فِي ذَلِكَ لايَةً لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ Verily, in this there is indeed an evident proof and a manifest sign for people who give thought. meaning, this is a sign and a proof that there is no god besides Allah, as He says: أَمَّنْ خَلَقَ السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضَ وَأَنزَلَ لَكُمْ مِّنَ السَّمَأءِ مَأءً فَأَنبَتْنَا بِهِ حَدَايِقَ ذَاتَ بَهْجَةٍ مَّا كَانَ لَكُمْ أَن تُنبِتُواْ شَجَرَهَا أَإِلَـهٌ مَّعَ اللَّهِ بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَعْدِلُونَ Is not He (better than your gods) Who created the heavens and the earth, and sends water down for you from the sky, from which We cause wonderful gardens full of beauty and delight to grow! You are not able to cause the growth of their trees. Is there any ilah (god) with Allah! Nay, but they are a people who make equals (to Him)! (27:60)

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

11۔ 1 اس میں بارش کے وہ فوائد بیان کئے گئے ہیں، جو ہر مشاہدے اور تجربے کا حصہ ہیں وہ محتاج وضاحت نہیں۔ نیز ان کا ذکر پہلے آچکا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١] سابقہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے ان جانوروں کا ذکر کیا جن سے انسان لحمی غذائیں، روغن اور دوسرے فوائد حاصل کرتا ہے۔ ان دو آیات میں ایسی چیزوں کا ذکر کیا ہے جو ہمارے جسم کے لئے نباتاتی غذاؤں کا کام دیتی ہیں۔ اور ان آیات میں جس بات کی طرف غور و فکر کرنے کی توجہ دلائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمان سے بارش برساتا ہے اسی پانی سے تم خود بھی سیراب ہوتے ہو اور تمہارے ہی لیے زمین بھی سیراب ہوتی اور تمہارے لیے پانی کا ذخیرہ بھی محفوظ رکھتی ہے۔ پھر یہی ایک ہی قسم کا پانی، ایک ہی زمین، ایک ہی ہوا اور ایک ہی سورج ہے لیکن زمین سے ایک نہیں بلکہ لاکھوں قسموں کی نباتات اگ آتی ہیں۔ جھاڑیاں، جڑی بوٹیاں، غلے اور بےپھل اور پھل دار درخت پھر ان پودوں، غلوں اور پھلدار درختوں کی بھی بیشمار اقسام ہیں۔ جن میں سے کچھ تمہارے مویشیوں کی خوراک بنتی ہیں اور کچھ تمہاری خوراک کا کام دیتی ہیں۔ کیا یہ سمندروں سے بخارات کا اٹھنا، پھر بادلوں کی صورت میں رواں ہونا، پھر بارش کی شکل میں ان کا برسنا پھر اسی پانی کا زمین کو سیراب کرنا۔ زمین کا سب جانداروں کے لیے خوراک مہیا کرنا۔ پھر فالتو پانی کا ندی نالوں کی صورت میں بہہ کر دوسرے علاقوں کی زمین کو سیراب کرنا اور زائد پانی کا پھر سمندر میں جاگرنا۔ اور پھر سمندر سے بخارات بننا۔ اس پورے چکر میں تمہارے لیے بھی اور تمہارے مویشیوں کے لیے خوراک کا انتظام تو ہوگیا لیکن کیا یہ نظام از خود ہی چل رہا ہے ؟ یا اسے کوئی حکیم وخبیر ہستی چلا رہی ہے ؟ یا کیا اس پورے نظام میں اللہ کے سوا کسی دوسرے شریک کی کوئی مداخلت کہیں نظر آتی ہے ؟ اگرچہ اس پورے نظام کے لیے اللہ نے طبعی قوانین بنا دیئے ہیں پھر بھی اس سارے نظام کی باگ ڈور اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ ایک ہی مقام پر ایک مقررہ موسم میں کسی سال بارش بہت زیادہ ہوجاتی ہے اور کبھی بہت کم۔ اگر یہ محض طبعی قوانین کا کھیل ہوتا تو ایسا ہونا ناممکن تھا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

يُنْۢبِتُ لَكُمْ بِهِ الزَّرْعَ وَالزَّيْتُوْنَ ۔۔ : ایک ہی پانی، ایک ہی زمین، ایک ہی ہوا اور ایک ہی سورج کی تپش سے گندم اور جو وغیرہ کے زمین میں سیدھے یا الٹے دفن شدہ دانے سے کھیتی، گٹھلی سے زیتون، قلم سے انگور اور بیشمار کھیتیاں اور پھل پیدا فرمائے۔ لحمیات، نشاستہ، شکر، وٹامنز، دوائیں، لکڑی، الغرض ! زندگی کی ہر ضرورت کو پیدا کرنے والا کون ہے ؟ تم تو زمین میں دانے یا گٹھلیاں پھینک کر آگئے تھے اور کئی بیج تم نے ڈالے بھی نہیں تھے، یہ سب اگانے والا کون ہے ؟ اپنے اس بابے اور مشکل کشا کا نام تو بتاؤ۔ لطف یہ کہ اللہ تعالیٰ کے سوا ان چیزوں اور آئندہ ذکر ہونے والی چیزوں کا خالق ہونے کا کوئی دعوے دار بھی نہیں۔ ان تمام چیزوں میں اللہ کے بیشمار انعامات اور اس کی توحید اور قدرت کی بہت بڑی نشانی موجود ہے (لَاٰیَةًکی تنوین تعظیم کے لیے ہے) مگر ان کے لیے جو غور و فکر کریں، ان کے لیے نہیں جو سوچنے کی زحمت ہی نہ کریں۔ دیکھیے سورة رعد (٣، ٤) اور سورة واقعہ ( ٦٣ تا ٦٧) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

It will be noticed that all verses cited above point out to Divine bless¬ings and mention the creation of the universe with unprecedented wis¬dom. In them, those who ponder find significant indicators and proofs which lead them to perceive the truth of Tauhid, the truth that Allah Ta` ala is One. Therefore, while these blessings are being mentioned, they are tied up with a notice to pay attention, think, understand and ac¬cept advice. Consequently, at the end of verse 11, it was said: إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُ‌ونَ (Indeed, in that, there is a sign for a people who ponder). The reason is that the linkage of pastures, crops, trees and their flowers and fruits with the creativity and wisdom of Allah Ta` ala needs some reflection. If one ponders over a grain or pit, he will come to realize that simp¬ly putting it inside the land and watering it cannot automatically cause it to grow into a huge big tree with flowers of many colours opening up all over it. No tiller or farmer or land owner has made this happen. Their role in this process is nil. All this is linked with and tied to the creativity and wisdom of the Absolute Master. After that, when came the description of the night and day, the sun, the moon and the stars which have been made subservient by His com¬mand, it was said in the concluding sentence of verse 12: إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ (Indeed, in that, there are signs for a people who understand). Given here is the hint that these things are of course subservient to the command of Allah, an open fact which does not need a lot of thinking. Anyone having some reason in him would understand, because there was obviously some human input in the growth of vegetation and trees, but, in this case, there is none.

اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لِّقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ ان تمام آیات میں نعمائے الہیہ اور عجیب و غریب حکمت کے ساتھ تخلیق کائنات کا ذکر ہے جس میں غور وفکر کرنے والوں کو ایسے دلائل اور شواہد ملتے ہیں کہ ان سے حق تعالیٰ کی توحید کا گویا مشاہدہ ہونے لگتا ہے اسی لئے ان نعمتوں کا ذکر کرتے کرتے باربار اس پر متنبہ کیا گیا ہے اس آیت کے آخیر میں فرمایا کہ اس میں سوچنے والوں کے لئے دلیل ہے کیونکہ کھیتی اور درخت اور ان کے پھل پھول وغیرہ کا تعلق اللہ جل شانہ کی صنعت و حکمت کے ساتھ کسی قدر غور وفکر چاہتا ہے کہ آدمی یہ سوچے کہ دانہ یا گٹھلی زمین کے اندر ڈالنے اور پانی دینے سے تو خود بہ خود یہ نہیں ہوسکتا کہ اس میں سے ایک عظیم الشان درخت نکل آئے اور اس پر رنگا رنگ کے پھول لگنے لگیں اس میں کسی کا شتکار زمیندار کے عمل کا کوئی دخل نہیں یہ سب قادر مطلق کی صنعت و حکمت سے وابستہ ہے اور اس کے بعد لیل ونہار اور ستاروں کا اللہ تعالیٰ کے حکم کے تابع چلنے کا ذکر آیا تو آگے ارشاد فرمایا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يُنْۢبِتُ لَكُمْ بِهِ الزَّرْعَ وَالزَّيْتُوْنَ وَالنَّخِيْلَ وَالْاَعْنَابَ وَمِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ ۭاِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لِّقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ 11؀ نبت النَّبْتُ والنَّبَاتُ : ما يخرج من الأرض من النَّامِيات، سواء کان له ساق کا لشجر، أو لم يكن له ساق کالنَّجْم، لکن اختَصَّ في التَّعارُف بما لا ساق له، بل قد اختصَّ عند العامَّة بما يأكله الحیوان، وعلی هذا قوله تعالی: لِنُخْرِجَ بِهِ حَبًّا وَنَباتاً [ النبأ/ 15] ومتی اعتبرت الحقائق فإنّه يستعمل في كلّ نام، نباتا کان، أو حيوانا، أو إنسانا، والإِنْبَاتُ يستعمل في كلّ ذلك . قال تعالی: فَأَنْبَتْنا فِيها حَبًّا وَعِنَباً وَقَضْباً وَزَيْتُوناً وَنَخْلًا وَحَدائِقَ غُلْباً وَفاكِهَةً وَأَبًّا[ عبس/ 27- 31] ( ن ب ت ) النبت والنبات ۔ ہر وہ چیز جو زمین سے اگتی ہے ۔ اسے نبت یا نبات کہا جاتا ہے ۔ خواہ وہ تنہ دار ہو جیسے درخت ۔ یا بےتنہ جیسے جڑی بوٹیاں لیکن عرف میں خاص کر نبات اسے کہتے ہیں ہیں جس کے تنہ نہ ہو ۔ بلکہ عوام تو جانوروں کے چاراہ پر ہی نبات کا لفظ بولتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ لِنُخْرِجَ بِهِ حَبًّا وَنَباتاً [ النبأ/ 15] تاکہ اس سے اناج اور سبزہ پیدا کریں ۔ میں نبات سے مراد چارہ ہی ہے ۔ لیکن یہ اپانے حقیقی معنی کے اعتبار سے ہر پڑھنے والی چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور بناتات حیوانات اور انسان سب پر بولاجاتا ہے ۔ اور انبات ( افعال ) کا لفظ سب چیزوں کے متعلق اسستعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَأَنْبَتْنا فِيها حَبًّا وَعِنَباً وَقَضْباً وَزَيْتُوناً وَنَخْلًا وَحَدائِقَ غُلْباً وَفاكِهَةً وَأَبًّا[ عبس/ 27- 31] پھر ہم ہی نے اس میں اناج اگایا ور انگور اور ترکاری اور زیتون اور کھجوریں اور گھنے گھے باغ ور میوے ور چارہ ۔ زرع الزَّرْعُ : الإنبات، وحقیقة ذلک تکون بالأمور الإلهيّة دون البشريّة . قال : أَأَنْتُمْ تَزْرَعُونَهُ أَمْ نَحْنُ الزَّارِعُونَ [ الواقعة/ 64] ( ز ر ع ) الزرع اس کے اصل معنی انبات یعنی اگانے کے ہیں اور یہ کھیتی اگانا در اصل قدرت کا کام ہے اور انسان کے کسب وہنر کو اس میں دخل نہیں اسی بنا پر آیت کریمہ : أَأَنْتُمْ تَزْرَعُونَهُ أَمْ نَحْنُ الزَّارِعُونَ [ الواقعة/ 64] بھلا بتاؤ کہ جو تم بولتے ہو کیا اسے تم اگاتے ہو یا اگانے والے ہیں ۔ زيت زَيْتُونٌ ، وزَيْتُونَةٌ ، نحو : شجر وشجرة، قال تعالی: زَيْتُونَةٍ لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] ، والزَّيْتُ : عصارة الزّيتون، قال : يَكادُ زَيْتُها يُضِيءُ [ النور/ 35] ، وقد زَاتَ طعامَهُ ، نحو سمنه، وزَاتَ رأسَهُ ، نحو دهنه به، وازْدَاتَ : ادّهن . ( ز ی ت ) زیت وزیتونہ مثل شجر وشجرۃ ایک مشہور درخت کا نام ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ زَيْتُونَةٍ لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] زیتون کے درخت سے روشن ہو رہا ہے ۔ جو نہ شر قی ہے اور نہ غر بی الزبت زیتون کے تیل کو بھی کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ يَكادُ زَيْتُها يُضِيءُ [ النور/ 35] قریب ہے کہ اس کا تیل روشنی کرے ۔ اور زات طعامہ کے معنی ہیں اس نے طعام میں زیتون کا تیل ڈالا جیسے سمنھ اور دھنہ بہ کیطرح ذات راسہ کا محاورہ بھی استعمال ہوتا جس کے معنی ہیں ( اس نے سر میں تیل ڈالا جیسے سمنہ اور دجنہ بھ کیطرح ذات راء سہ کا محاورہ بھی استعمال ہوتا جس کے معنی ہیں ( اس نے سر میں تیل لگایا اور از دات بمعنی اذھب کے ہیں ۔ نخل النَّخْلُ معروف، وقد يُستعمَل في الواحد والجمع . قال تعالی: كَأَنَّهُمْ أَعْجازُ نَخْلٍ مُنْقَعِرٍ [ القمر/ 20] وقال : كَأَنَّهُمْ أَعْجازُ نَخْلٍ خاوِيَةٍ [ الحاقة/ 7] ، وَنَخْلٍ طَلْعُها هَضِيمٌ [ الشعراء/ 148] ، وَالنَّخْلَ باسِقاتٍ لَها طَلْعٌ نَضِيدٌ [ ق/ 10] وجمعه : نَخِيلٌ ، قال : وَمِنْ ثَمَراتِ النَّخِيلِ [ النحل/ 67] والنَّخْلُ نَخْل الدّقيق بِالْمُنْخُل، وانْتَخَلْتُ الشیءَ : انتقیتُه فأخذْتُ خِيارَهُ. ( ن خ ل ) النخل ۔ کھجور کا درخت ۔ یہ واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : كَأَنَّهُمْ أَعْجازُ نَخْلٍ خاوِيَةٍ [ الحاقة/ 7] جیسے کھجوروں کے کھوکھلے تنے ۔ كَأَنَّهُمْ أَعْجازُ نَخْلٍ مُنْقَعِرٍ [ القمر/ 20] اور کھجوریں جن کے خوشے لطیف اور نازک ہوتے ہیں ۔ وَالنَّخْلَ باسِقاتٍ لَها طَلْعٌ نَضِيدٌ [ ق/ 10] اور لمبی لمبی کھجوریں جن کا گا بھاتہ بہ تہ ہوتا ہے اس کی جمع نخیل آتی ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَمِنْ ثَمَراتِ النَّخِيلِ [ النحل/ 67] اور کھجور کے میووں سے بھی ۔ النخل ( مصدر کے معنی چھلنی سے آٹا چھاننے کے ہیں اور انتخلت الشئی کے معنی عمدہ چیز منتخب کرلینے کے ؛ عنب العِنَبُ يقال لثمرة الکرم، وللکرم نفسه، الواحدة : عِنَبَةٌ ، وجمعه : أَعْنَابٌ. قال تعالی: وَمِنْ ثَمَراتِ النَّخِيلِ وَالْأَعْنابِ [ النحل/ 67] ، وقال تعالی: جَنَّةٌ مِنْ نَخِيلٍ وَعِنَبٍ [ الإسراء/ 91] ، وَجَنَّاتٍ مِنْ أَعْنابٍ [ الرعد/ 4] ، ( عن ن ب ) العنب ( انگور ) یہ انگور کے پھل اور نفس کے لئے بھی بولا جات ا ہے اس کا واحد عنبۃ ہے اور جمع اعناب قرآن میں ہے : وَمِنْ ثَمَراتِ النَّخِيلِ وَالْأَعْنابِ [ النحل/ 67] اور کھجور اور انگور کے میووں سے بھی ۔ جَنَّةٌ مِنْ نَخِيلٍ وَعِنَبٍ [ الإسراء/ 91] کھجوروں اور انگوروں کا کوئی باغ ہو ۔ وَجَنَّاتٍ مِنْ أَعْنابٍ [ الرعد/ 4] اور انگوروں کے باغ ۔ ثمر الثَّمَرُ اسم لكلّ ما يتطعم من أحمال الشجر، الواحدة ثَمَرَة، والجمع : ثِمَار وثَمَرَات، کقوله تعالی: أَنْزَلَ مِنَ السَّماءِ ماءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَراتِ رِزْقاً لَكُمْ [ البقرة/ 22] ( ث م ر ) الثمر اصل میں درخت کے ان اجزاء کو کہتے ہیں جن کو کھایا جاسکے اس کا واحد ثمرۃ اور جمع ثمار وثمرات آتی ہے قرآن میں ہے :۔ أَنْزَلَ مِنَ السَّماءِ ماءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَراتِ رِزْقاً لَكُمْ [ البقرة/ 22] اور آسمان سے مبینہ پرسا کر تمہارے کھانے کے لئے انواع و اقسام کے میوے پیدا کیے ۔ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] فكر الْفِكْرَةُ : قوّة مطرقة للعلم إلى المعلوم، والتَّفَكُّرُ : جولان تلک القوّة بحسب نظر العقل، وذلک للإنسان دون الحیوان، قال تعالی: أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا فِي أَنْفُسِهِمْ ما خَلَقَ اللَّهُ السَّماواتِ [ الروم/ 8] ، أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا ما بصاحبِهِمْ مِنْ جِنَّةٍ [ الأعراف/ 184] ، إِنَّ فِي ذلِكَ لَآياتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ [ الرعد/ 3] ( ف ک ر ) الفکرۃ اس قوت کو کہتے ہیں جو علم کو معلوم کی طرف لے جاتی ہے اور تفکر کے معنی نظر عقل کے مطابق اس قوت کی جو لانی دینے کے ہیں ۔ اور غور فکر کی استعداد صرف انسان کو دی گئی ہے دوسرے حیوانات اس سے محروم ہیں اور تفکرفیہ کا لفظ صرف اسی چیز کے متعلق بولا جاتا ہے جس کا تصور دل ( ذہن میں حاصل ہوسکتا ہے ۔ قرآن میں ہے : أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا فِي أَنْفُسِهِمْ ما خَلَقَ اللَّهُ السَّماواتِ [ الروم/ 8] کیا انہوں نے اپنے دل میں غو ر نہیں کیا کہ خدا نے آسمانوں کو پیدا کیا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١١) جس کو تم اپنے مویشی کو چرنے کے لیے چھوڑتے ہو اور اس پانی سے تمہارے لیے انگور اور ہر ایک قسم کے پھل اگاتا ہے، ان قسم قسم کے پھلوں اور ان کے مختلف مزوں میں ان حضرات کے لیے جو کہ مخلوقات خداوندی میں غور کرتے ہیں، خالق کے لیے بہت سی عبرتیں اور دلیلیں موجود ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لِّقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ ) اللہ تعالیٰ کی شان خلاقی کے بیشمار انداز ہیں اس کی تخلیق میں لامحدود تنوع ‘ بوقلمونی اور رنگا رنگی ہے۔ چناچہ اب ایک دوسرے پہلو سے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا ذکر ہونے جا رہا ہے :

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

6: کھیتیوں سے اس پیداوار کی طرف اشارہ ہے جو انسان غذا کے طور پر استعمال کرتا ہے، جیسے گندم، سبزیاں وغیرہ اور زیتون ان اشیاء کا ایک نمونہ ہے جو کھانا پکانے اور کھانے کے لیے چکنائی کے طور پر استعمال ہوتی ہیں۔ اور کھجور، انگور اور باقی پھلوں سے اس پیداوار کی طرف اشارہ ہے جو مزید لذت حاصل کرنے کے کام آتی ہیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(16:11) ینبت۔ مضارع واحد مذکر غائب۔ انبات افعال سے وہ اگاتا ہے۔ بہ میں ہ ضمیر واحد مذکر غائب کا مرجع ماء ہے جو کہ سابقہ آیت میں ہے۔ الزرع۔ زرع یزرع (فتح) سے مصدر ہے اس کے اصل معنی انبات یعنی اگانے کے ہیں۔ لیکن یہاں مصدر بمعنی اسم مفعول مزروعآیا ہے یعنی کھیتی۔ اسی معنی میں اور جگہ آیا ہے فنخرج بہ زرعا۔ (32:27) پھر ہم اس (پانی) کے ذریعہ سے کھیتی نکالتے ہیں۔ زرع کے اصل معنی اگانے کے ہیں جو پونے سے مختلف ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری ہے کہ افرأیتم ما تحرثونء انتم تزرعونہ ام نحن الزارعون (56:24) بھلا بتائو تو کہ جو تم بوتے ہو کیا اسے تم اگاتے ہو یا ہم اگانے والے ہیں۔ یتفکرون۔ مضارع جمع مذکر غائب تفکر (تفعل) مصدر۔ وہ غور کرتے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 کہ ایک ہی پانی ایک ہی سورج ایک ہی زمین اور ایک ہی ہوا سے کیسے رنگ برنگ کے پھل پھول پیدا ہوتے رہتے ہیں ان میں غور و فکر کے اور بھی طریقے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ علم کے وقدرت کے کمال پر استدلال ہوسکتا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

گزشتہ آیات میں توحید کے دلائل بیان فرمائے اور درمیان میں بطور جملہ معترضہ سیدھے راستے کی تشریح فرما دی اگر کوئی شخص دلائل میں غور کرے گا تو وہ راہ مستقیم پر چلے گا اور راہ حق پالے گا۔ مذکورہ بالا آیات میں بھی چند دلائل توحید بیان فرمائے ہیں۔ اول : یہ کہ اللہ تعالیٰ شانہٗ آسمان سے پانی نازل فرماتا ہے اس پانی سے ایک تو یہ فائدہ ہے کہ اس میں سے بہت سا حصہ پینے کے کام آتا ہے، آسمان سے برسے ہوئے میٹھے پانی سے مخلوق سیراب ہوتی ہے اور اس پانی سے درخت بھی پیدا ہوتے ہیں، ان درختوں کے بہت سے فوائد ہیں جن میں سے ایک فائدہ یہ ہے کہ یہ درخت جانوروں کی خوراک بنتے ہیں، ان جانوروں کو درختوں میں چھوڑ دیتے ہیں جہاں وہ چارہ کھاتے ہیں، نیز اس پانی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کھیتی اور زیتون اور کھجور اور انگور اگاتا ہے اور ان کے علاوہ اور بھی طرح طرح کے پھل پیدا فرماتا ہے ان کے درخت بارش کے پانی سے سیراب ہوتے ہیں اور پھلتے پھولتے ہیں۔ بارش کے پانی کے مذکورہ فوائد و منافع بیان فرمانے کے بعد فرمایا (اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ ) (بلاشبہ اس میں نشانی ہے ان لوگوں کے لیے جو فکر کرتے ہیں۔ )

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

1 1 ۔ اور اسی پانی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کھیتی اور زیتون اور کھجوریں اور انگور اور ہر قسم کے پھل اگاتا ہے یقینا اس بارش کے برسانے اور نباتات کے اگانے میں غور و فکر کرنے اور سوچنے والوں کے لئے توحید کی بڑی دلیل موجود ہے۔ یعنی یہ کارخانہ نباتات سو ائے اس وحدہٗ لا شریک کے اور کسی کے بس میں نہیں۔