Surat un Nahal

Surah: 16

Verse: 113

سورة النحل

وَ لَقَدۡ جَآءَہُمۡ رَسُوۡلٌ مِّنۡہُمۡ فَکَذَّبُوۡہُ فَاَخَذَہُمُ الۡعَذَابُ وَ ہُمۡ ظٰلِمُوۡنَ ﴿۱۱۳﴾

And there had certainly come to them a Messenger from among themselves, but they denied him; so punishment overtook them while they were wrongdoers.

ان کے پاس انہی میں سے رسول پہنچا پھر بھی انہوں نے اسے جھٹلایا پس انہیں عذاب نے آدبوچا اور وہ تھے ہی ظالم ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

There has come to them a Messenger from among themselves, but they denied him, so the torment seized them while they were wrongdoers.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

113۔ 1 اس عذاب سے مراد وہی عذاب خوف وبھوک ہے جس کا ذکر اس سے پہلی آیت میں ہے، یا اس سے مراد کافروں کا وہ قتل ہے جو جنگ بدر میں مسلمانوں کے ہاتھوں ہوا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَقَدْ جَاۗءَهُمْ رَسُوْلٌ مِّنْهُمْ ۔۔ : یہ ان احسانات میں سے ایک بہت بڑا احسان تھا کہ اللہ تعالیٰ نے انھی میں سے ایک رسول ان کی طرف بھیجا۔ غالباً اسی لفظ کو بنیاد بنا کر اکثر مفسرین نے اس بستی سے مراد مکہ معظمہ لیا ہے، ورنہ اس کی تعیین کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے۔ پہلے رسولوں کی کوئی بستی بھی مراد ہوسکتی ہے اور ان کی طرف آنے والا رسول بھی۔ البتہ اس سے مکہ بالاولیٰ مراد ہے۔ یہاں جس بھوک اور خوف کا لباس چکھانے کا ذکر ہے اس کی تفصیل عبداللہ بن مسعود (رض) نے بیان فرمائی ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب لوگوں (کے ایمان لانے) سے گریز کو دیکھا تو آپ نے عرض کیا : ( اَللّٰہُمَّ سَبْعًا کَسَبْعِ یُوْسُفَ )” اے اللہ ! یوسف ( (علیہ السلام) ) کے سات سالوں جیسے سات سال مسلط فرما۔ “ تو انھیں ایسی قحط سالی نے آپکڑا جس نے ہر چیز کو تباہ و برباد کردیا، یہاں تک کہ وہ چمڑے، مردار اور لاشیں بھی کھا گئے، بھوک کی وہ شدت تھی کہ ان میں سے کوئی آسمان کی طرف دیکھتا تو اسے دھواں نظر آتا۔ [ بخاری، الاستسقاء، باب دعاء النبي (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : اجعلھا سنین۔۔ : ١٠٠٧ ] ادھر مسلمانوں کے ساتھ ہر وقت حالت جنگ کی وجہ سے باہر سے آنے والے لوگوں کی آمد بھی رک گئی اور خوف کی یہ حالت تھی کہ وہ ہر وقت مکہ میں اور مکہ سے باہر بھی مسلمانوں کے حملے سے خوف زدہ رہتے تھے۔ بہرحال شوکانی اور کئی مفسرین کہتے ہیں کہ ان آیات میں کسی متعین بستی کا ذکر نہیں ہے، محض ایک تباہ شدہ بستی کی مثال دے کر اہل مکہ کو متنبہ کیا گیا ہے کہ اگر تم نے ہماری نعمتوں خصوصاً رسول بھیجنے کی ناشکری کی تو تمہارے ساتھ بھی یہی معاملہ کیا جائے گا۔ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” ایسے بہت سے شہر ہوتے ہیں، پر احوال فرمایا مکہ کا۔ “ (موضح)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ جَاۗءَهُمْ رَسُوْلٌ مِّنْهُمْ فَكَذَّبُوْهُ فَاَخَذَهُمُ الْعَذَابُ وَهُمْ ظٰلِمُوْنَ ١١٣؁ جاء جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] ، ( ج ی ء ) جاء ( ض ) جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔ رسل وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ، ( ر س ل ) الرسل اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ كذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی: إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ، ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے أخذ الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف/ 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة/ 255] ( اخ ذ) الاخذ ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ { مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ } ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ { لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ } ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١١٣) اور ان کے پاس ان ہی میں سے ایک عربی رسول یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آئے تو جو احکامات آپ ان کے پاس لے کر آئے تھے، ان کو اس قوم نے جھٹلا دیا تب ان پر بھوک، قتل اور قید کا عذاب اللہ کی طرف سے نازل ہوا، جب کہ وہ کفر پر بالکل ہی کمر بستہ ہوگئے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

112. That habitation has not been specified here nor have the commentators definitely pointed out which that habitation was. However, there is a saying of Ibn Abbas (which seems to be correct) that the place referred to is Makkah itself. In that case, hunger and fear will mean the famine which prevailed over the people of Makkah for several years during the Prophethood of Muhammad (peace be upon him).

سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :112 یہاں جس بستی کی مثال پیش کی گئی ہے اس کی کوئی نشان دہی نہیں کی گئی ۔ نہ مفسرین یہ تعین کر سکے ہیں کہ یہ کونسی بستی ہے ۔ بظاہر ابن عباس رضی اللہ عنہ ہی کا یہ قول صحیح معلوم ہوتا ہے کہ یہاں خود مکے کا نام لیے بغیر مثال کے طور پر پیش کیا گیا ہے ۔ اس صورت میں خوف اور بھوک کی جس مصیبت کے چھا جانے کا یہاں ذکر کیا گیا ہے ، اس سے مراد وہ قحط ہوگا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد ایک مدت تک اہل مکہ پر مسلط رہا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(16:113) وہم ظلمون حال ہے فاخذہم العذاب سے۔ یعنی پس ان کو عذاب نے آلیا درآں حالیکہ وہ (اپنے ہی حق میں) ظلم کر رہے تھے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 غالباً اس آیت کو بنیاد بنا کر اکثر مفسرین نے اس بستی سے مراد مکہ معظمہ لیا ہے ورنہ اس کی تعیین کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے۔ اگر یہ صحیحی ہے تو جس عذاب یا بھوک اور خوف کے لباس کا یہاں ذکر کیا گیا ہے اس سے مراد وہ قحط ہے جس میں مکہ والے کئی برس تک مبتلا رہے ہیاں تک کہ وہ جلی ہوی ہڈیاں اور مردار جانور تک کھا گئے اور یہ قحط اس سے لئے واقع ہو کہ آنحضرت نے بد دعا فرمائی تھی کہ ا اے اللہ ان لوگوں پر اپنی سختی نازل فرما اور ان پر قحط اور خشک سالی کی صورت میں ایسا ہی عذاب بھیج جیسا یوسف کے زمانہ میں آیا تھا بعض مفسرین کہتے ہیں کہ ان آیات میں کسی متعین بستی کا تذکرہ نہیں ہعے۔ محض ایک تباہ شدہ بستی کی مثال دے کر اہل مکہ کو متنبہ کیا گیا ہے کہ اگر تم نے ہماری نعمتوں کی ناشکری کی تو تمہارے ساتھ یہی معاملہ کیا جائے گا۔ قاضی شوکانی نے اس دور سے رائے کو راجح قرار دیا ہے۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں : ایسے بہت سے شہر ہوتے ہیں پر احوال فرمایا مکہ کا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

113 ۔ اور بلا شبہ ان لوگوں کے پاس ایک رسول بھی ان ہی میں سے آیا پر ان بستی والوں نے اس رسول کو جھوٹا بتایا اور اس کی تکذیب کی اس پر ان کو عذاب نے آپکڑا اور ان کا حال یہ تھا کہ وہ ظلم کے عادی ہوچکے تھے۔ یعنی رسول بھی ہدایت کو آیا لیکن جب نہ مانے تو بالآخر عذاب نے آلیا اور وہ تھے بھی ظالم۔