Surat un Nahal

Surah: 16

Verse: 116

سورة النحل

وَ لَا تَقُوۡلُوۡا لِمَا تَصِفُ اَلۡسِنَتُکُمُ الۡکَذِبَ ہٰذَا حَلٰلٌ وَّ ہٰذَا حَرَامٌ لِّتَفۡتَرُوۡا عَلَی اللّٰہِ الۡکَذِبَ ؕ اِنَّ الَّذِیۡنَ یَفۡتَرُوۡنَ عَلَی اللّٰہِ الۡکَذِبَ لَا یُفۡلِحُوۡنَ ﴿۱۱۶﴾ؕ

And do not say about what your tongues assert of untruth, "This is lawful and this is unlawful," to invent falsehood about Allah . Indeed, those who invent falsehood about Allah will not succeed.

کسی چیز کو اپنی زبان سے جھوٹ موٹ نہ کہہ دیا کرو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے کہ اللہ پر جھوٹ بہتان باندھ لو ، سمجھ لو کہ اللہ تعالٰی پر بہتان بازی کرنے والے کامیابی سے محروم ہی رہتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَلاَ تَقُولُواْ لِمَا تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ هَـذَا حَلَلٌ وَهَـذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُواْ عَلَى اللّهِ الْكَذِبَ ... And do not describe what your tongues have lied about, saying: "This is lawful and this is forbidden," to invent lies against Allah. This includes everyone who comes up with an innovation (Bid`ah) for which he has no evidence from the Shariah, or whoever declares something lawful that Allah has forbidden, or whoever declares something unlawful that Allah has permitted, only because it suits his opinions or whim to do so. لِمَا تَصِفُ (describe what...), meaning, do not speak lies because of what your tongues put forth. Then Allah warns against that by saying: ... إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللّهِ الْكَذِبَ لاَ يُفْلِحُونَ Verily, those who invent lies against Allah, will never succeed. meaning, either in this world or the Hereafter. مَتَاعٌ قَلِيلٌ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

116۔ 1 یہ اشارہ ہے ان جانوروں کی طرف جو وہ بتوں کے نام وقف کر کے ان کو اپنے لئے حرام کرلیتے تھے، جیسے بحیرہ، سائبہ، وصیلہ اور حام وغیرہ۔ (دیکھئے (مَا جَعَلَ اللّٰهُ مِنْۢ بَحِيْرَةٍ وَّلَا سَاۗىِٕبَةٍ وَّلَا وَصِيْلَةٍ وَّلَا حَامٍ ۙ وَّلٰكِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا يَفْتَرُوْنَ عَلَي اللّٰهِ الْكَذِبَ ۭ وَاَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ ) 5 ۔ المائدہ :103) اور الا نعام (وَقَالُوْا مَا فِيْ بُطُوْنِ هٰذِهِ الْاَنْعَامِ خَالِصَةٌ لِّذُكُوْرِنَا وَمُحَرَّمٌ عَلٰٓي اَزْوَاجِنَا ۚ وَاِنْ يَّكُنْ مَّيْتَةً فَهُمْ فِيْهِ شُرَكَاۗءُ ۭ سَيَجْزِيْهِمْ وَصْفَهُمْ ۭاِنَّهٗ حَكِيْمٌ عَلِيْمٌ 139؁ قَدْ خَسِرَ الَّذِيْنَ قَتَلُوْٓا اَوْلَادَهُمْ سَفَهًۢا بِغَيْرِ عِلْمٍ وَّحَرَّمُوْا مَا رَزَقَهُمُ اللّٰهُ افْتِرَاۗءً عَلَي اللّٰهِ ۭ قَدْ ضَلُّوْا وَمَا كَانُوْا مُهْتَدِيْنَ 140؀ۧ وَهُوَ الَّذِيْٓ اَنْشَاَ جَنّٰتٍ مَّعْرُوْشٰتٍ وَّغَيْرَ مَعْرُوْشٰتٍ وَّالنَّخْلَ وَالزَّرْعَ مُخْتَلِفًا اُكُلُهٗ وَالزَّيْتُوْنَ وَالرُّمَّانَ مُتَشَابِهًا وَّغَيْرَ مُتَشَابِهٍ ۭ كُلُوْا مِنْ ثَمَرِهٖٓ اِذَآ اَثْمَرَ وَاٰتُوْا حَقَّهٗ يَوْمَ حَصَادِهٖ ڮ وَلَا تُسْرِفُوْا ۭ اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِيْنَ 141؀ۙ ) 6 ۔ الانعام :139 تا 141) کے حواشی)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١٩] حلت وحرمت کا اختیار سنبھالنا بھی شرک ہے :۔ ان آیات میں بتایا یہ گیا ہے کہ اشیاء کو حرام یا حلال قرار دینے کا اختیار کلیتاً اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ کسی دوسرے کو یہ اختیار نہیں کہ وہ اللہ کی حرام کردہ چیز کو حلال یا جائز قرار دے لے یا اس کی حلال کردہ چیزوں کو حرام بنا دے۔ اور جو لوگ یہ کام کرتے ہیں وہ جھوٹ بکتے ہیں۔ پہلے وہ اس قسم کے جھوٹ اختراع کرتے ہیں پھر انھیں اللہ کے ذمہ لگا کر یا اس کی طرف منسوب کرکے اپنے ایسے عقیدوں کو مذہبی تقدس کا جامہ پہنا دیتے ہیں۔ وہ حقیقتاً خدائی اختیارات اپنے ہاتھ میں لے کر شرک کا ارتکاب کرتے ہیں اور ایسے لوگوں کی اخروی نجات کی کوئی صورت نہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَا تَــقُوْلُوْا لِمَا تَصِفُ ۔۔ : ” اَلْسِنَۃٌ“ ” لِسَانٌ“ کی جمع ہے، یعنی جب اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے حلال و حرام کو خود واضح فرما دیا ہے تو اب اسی کے پابند رہو اور یہ جرأت مت کرو کہ تمہاری زبانیں جسے جھوٹ سے حلال کہہ دیں اسے حلال اور جسے حرام کہہ دیں اسے حرام قرار دے لو، اگر ایسا کرو گے تو یہ اللہ پر جھوٹ باندھنا ہوگا اور یہ بات یقینی ہے کہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ گھڑنے والے کبھی کامیاب نہیں ہوتے، اگر اس کے بدلے انھیں دنیا میں کچھ فائدہ حاصل بھی ہوجائے، خواہ پوری دنیا مل جائے، وہ بہت ہی تھوڑا سامان ہے، کیونکہ یہ سامان ہر حال میں ختم ہوجانے والا ہے، پھر ان کا ہمیشہ کا ٹھکانا جہنم ہے۔ مشرکین کے اپنے پاس سے حلال و حرام بنانے کی مثالوں کے لیے دیکھیے سورة مائدہ (١٠٣، ١٠٤) ، انعام (١٣٨ تا ١٤٠) اور سورة یونس (٥٩، ٦٠) ۔ حافظ ابن کثیر (رض) نے فرمایا، اس آیت میں ہر وہ شخص داخل ہے جو دین میں کوئی نئی بات (بدعت) ایجاد کرے، جس کی کوئی شرعی دلیل نہ ہو، یا محض اپنی عقل اور رائے سے اللہ کی حلال کردہ چیز کو حرام یا حرام کردہ چیز کو حلال ہونے کا فتویٰ دے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس فرمان کے صحیح ہونے پر تو ساری امت کا اتفاق ہے : ( مَنْ کَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ ) “ [ بخاری، العلم، باب إثم من کذب علی النبي (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : ١٠٧۔ مسلم، المقدمۃ : ٣ ] ” جس نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ بولا وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے (کیونکہ یہ درحقیقت اللہ پر جھوٹ ہے) ۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَا تَــقُوْلُوْا لِمَا تَصِفُ اَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ ھٰذَا حَلٰلٌ وَّھٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوْا عَلَي اللّٰهِ الْكَذِبَ ۭ اِنَّ الَّذِيْنَ يَفْتَرُوْنَ عَلَي اللّٰهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُوْنَ ١١٦۝ۭ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ وصف الوَصْفُ : ذكرُ الشیءِ بحلیته ونعته، والصِّفَةُ : الحالة التي عليها الشیء من حلیته ونعته، کالزِّنَةِ التي هي قدر الشیء، والوَصْفُ قد يكون حقّا وباطلا . قال تعالی: وَلا تَقُولُوا لِما تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ [ النحل/ 116] ( و ص ف ) الوصف کے معنی کسی چیز کا حلیہ اور نعت بیان کرنے کسے ہیں اور کسی چیز کی وہ حالت جو حلیہ اور نعمت کے لحاظ سے ہوتی ہے اسے صفۃ کہا جاتا ہے جیسا کہ زنۃ ہر چیز کی مقدار پر بولا جاتا ہے ۔ اور وصف چونکہ غلط اور صحیح دونوں طرح ہوسکتا ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَلا تَقُولُوا لِما تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ [ النحل/ 116] اور یونہی جھوٹ جو تمہاری زبان پر آئے مت کہہ دیا کرو ۔ لسن اللِّسَانُ : الجارحة وقوّتها، وقوله : وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي [ طه/ 27] يعني به من قوّة لسانه، فإنّ العقدة لم تکن في الجارحة، وإنما کانت في قوّته التي هي النّطق به، ويقال : لكلّ قوم لِسَانٌ ولِسِنٌ بکسر اللام، أي : لغة . قال تعالی: فَإِنَّما يَسَّرْناهُ بِلِسانِكَ [ الدخان/ 58] ، وقال : بِلِسانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ [ الشعراء/ 195] ، وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ [ الروم/ 22] فاختلاف الْأَلْسِنَةِ إشارة إلى اختلاف اللّغات، وإلى اختلاف النّغمات، فإنّ لكلّ إنسان نغمة مخصوصة يميّزها السّمع، كما أنّ له صورة مخصوصة يميّزها البصر . ( ل س ن ) اللسان ۔ زبان اور قوت گویائی کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي [ طه/ 27] اور میری زبان کی گرہ گھول دے ۔ یہاں لسان کے معنی قلت قوت گویائی کے ہیں کیونکہ وہ بندش ان کی زبان پر نہیں تھی بلکہ قوت گویائی سے عقدہ کشائی کا سوال تھا ۔ محاورہ ہے : یعنی ہر قوم را لغت دلہجہ جدا است ۔ قرآن میں ہے : فَإِنَّما يَسَّرْناهُ بِلِسانِكَ [ الدخان/ 58]( اے پیغمبر ) ہم نے یہ قرآن تمہاری زبان میں آسان نازل کیا ۔ بِلِسانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ [ الشعراء/ 195] فصیح عربی زبان میں ۔ اور آیت کریمہ : وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ [ الروم/ 22] اور تمہاری زبانوں اور نگوں کا اختلاف ۔ میں السنہ سے اصوات اور لہجوں کا اختلاف مراد ہے ۔ چناچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جس طرح دیکھنے میں ایک شخص کی کذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی: إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ، ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے صورت دوسرے سے نہیں ملتی اسی طرح قوت سامعہ ایک لہجہ کو دوسرے سے الگ کرلیتی ہے ۔ حلَال حَلَّ الشیء حلالًا، قال اللہ تعالی: وَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ حَلالًا طَيِّباً [ المائدة/ 88] ، وقال تعالی: هذا حَلالٌ وَهذا حَرامٌ [ النحل/ 116] ( ح ل ل ) الحل اصل میں حل کے معنی گرہ کشائی کے ہیں ۔ حل ( ض ) اشئی حلا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز کے حلال ہونا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ حَلالًا طَيِّباً [ المائدة/ 88] اور جو حلال طیب روزی خدا نے تم کو دی ہے اسے کھاؤ ۔ هذا حَلالٌ وَهذا حَرامٌ [ النحل/ 116] کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے حرم الحرام : الممنوع منه إمّا بتسخیر إلهي وإمّا بشريّ ، وإما بمنع قهريّ ، وإمّا بمنع من جهة العقل أو من جهة الشرع، أو من جهة من يرتسم أمره، فقوله تعالی: وَحَرَّمْنا عَلَيْهِ الْمَراضِعَ [ القصص/ 12] ، فذلک تحریم بتسخیر، وقد حمل علی ذلك : وَحَرامٌ عَلى قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها [ الأنبیاء/ 95] ، وقوله تعالی: فَإِنَّها مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ المائدة/ 26] ، وقیل : بل کان حراما عليهم من جهة القهر لا بالتسخیر الإلهي، وقوله تعالی: إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ [ المائدة/ 72] ، فهذا من جهة القهر بالمنع، وکذلک قوله تعالی: إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَهُما عَلَى الْكافِرِينَ [ الأعراف/ 50] ، والمُحرَّم بالشرع : کتحریم بيع الطعام بالطعام متفاضلا، وقوله عزّ وجلّ : وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْراجُهُمْ [ البقرة/ 85] ، فهذا کان محرّما عليهم بحکم شرعهم، ونحو قوله تعالی: قُلْ : لا أَجِدُ فِي ما أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّماً عَلى طاعِمٍ يَطْعَمُهُ ... الآية [ الأنعام/ 145] ، وَعَلَى الَّذِينَ هادُوا حَرَّمْنا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ [ الأنعام/ 146] ، وسوط مُحَرَّم : لم يدبغ جلده، كأنه لم يحلّ بالدباغ الذي اقتضاه قول النبي صلّى اللہ عليه وسلم : «أيّما إهاب دبغ فقد طهر» «1» . وقیل : بل المحرّم الذي لم يليّن، ( ح ر م ) الحرام وہ ہے جس سے روک دیا گیا ہو خواہ یہ ممانعت تسخیری یا جبری ، یا عقل کی رو س ہو اور یا پھر شرع کی جانب سے ہو اور یا اس شخص کی جانب سے ہو جو حکم شرع کو بجالاتا ہے پس آیت کریمہ ؛۔ وَحَرَّمْنا عَلَيْهِ الْمَراضِعَ [ القصص/ 12] اور ہم نے پہلے ہی سے اس پر ( دوائیوں کے ) دودھ حرام کردیتے تھے ۔ میں حرمت تسخیری مراد ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَحَرامٌ عَلى قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها [ الأنبیاء/ 95] اور جس بستی ( والوں ) کو ہم نے ہلاک کردیا محال ہے کہ ( وہ دنیا کی طرف رجوع کریں ۔ کو بھی اسی معنی پر حمل کیا گیا ہے اور بعض کے نزدیک آیت کریمہ ؛فَإِنَّها مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ المائدة/ 26] کہ وہ ملک ان پر چالیس برس تک کے لئے حرام کردیا گیا ۔ میں بھی تحریم تسخیری مراد ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ منع جبری پر محمول ہے اور آیت کریمہ :۔ إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ [ المائدة/ 72] جو شخص خدا کے ساتھ شرگ کریگا ۔ خدا اس پر بہشت کو حرام کردے گا ۔ میں بھی حرمت جبری مراد ہے اسی طرح آیت :۔ إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَهُما عَلَى الْكافِرِينَ [ الأعراف/ 50] کہ خدا نے بہشت کا پانی اور رزق کا فروں پر حرام کردیا ہے ۔ میں تحریم بواسطہ منع جبری ہے اور حرمت شرعی جیسے (77) آنحضرت نے طعام کی طعام کے ساتھ بیع میں تفاضل کو حرام قرار دیا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛ وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْراجُهُمْ [ البقرة/ 85] اور اگر وہ تمہارے پاس قید ہوکر آئیں تو بدلادے کر ان کو چھڑی ابھی لیتے ہو حالانکہ ان کے نکال دینا ہی تم پر حرام تھا ۔ میں بھی تحریم شرعی مراد ہے کیونکہ ان کی شریعت میں یہ چیزیں ان پر حرام کردی گئی ۔ تھیں ۔ نیز تحریم شرعی کے متعلق فرمایا ۔ قُلْ لا أَجِدُ فِي ما أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّماً عَلى طاعِمٍ يَطْعَمُهُ ... الآية [ الأنعام/ 145] الآیۃ کہو کہ ج و احکام مجھ پر نازل ہوئے ہیں ان کو کوئی چیز جسے کھانے والا حرام نہیں پاتا ۔ وَعَلَى الَّذِينَ هادُوا حَرَّمْنا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ [ الأنعام/ 146] اور یہودیوں پر ہم نے سب ناخن والے جانور حرام کردیئے ۔ سوط محرم بےدباغت چمڑے کا گوڑا ۔ گویا دباغت سے وہ حلال نہیں ہوا جو کہ حدیث کل اھاب دبغ فقد طھر کا مقتضی ہے اور بعض کہتے ہیں کہ محرم اس کوڑے کو کہتے ہیں ۔ جو نرم نہ کیا گیا ہو ۔ فری الفَرْيُ : قطع الجلد للخرز والإصلاح، والْإِفْرَاءُ للإفساد، والِافْتِرَاءُ فيهما، وفي الإفساد أكثر، وکذلک استعمل في القرآن في الکذب والشّرک والظّلم . نحو : وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء/ 48] ، ( ف ری ) القری ( ن ) کے معنی چمڑے کو سینے اور درست کرنے کے لئے اسے کاٹنے کے ہیں اور افراء افعال ) کے معنی اسے خراب کرنے کے لئے کاٹنے کے ۔ افتراء ( افتعال کا لفظ صلاح اور فساد دونوں کے لئے آتا ہے اس کا زیادہ تر استعمال افسادی ہی کے معنوں میں ہوتا ہے اسی لئے قرآن پاک میں جھوٹ شرک اور ظلم کے موقعوں پر استعمال کیا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء/ 48] جس نے خدا کا شریک مقرر کیا اس نے بڑا بہتان باندھا ۔ فلح الفَلْحُ : الشّقّ ، وقیل : الحدید بالحدید يُفْلَح أي : يشقّ. والفَلَّاحُ : الأكّار لذلک، والفَلَاحُ : الظَّفَرُ وإدراک بغية، وذلک ضربان : دنیويّ وأخرويّ ، فالدّنيويّ : الظّفر بالسّعادات التي تطیب بها حياة الدّنيا، وهو البقاء والغنی والعزّ ، ( ف ل ح ) الفلاح کے معنی پھاڑ نا کے ہیں مثل مشہور ہے الحدید بالحدید یفلح لوہالو ہے کو کاٹتا ہے اس لئے فلاح کسان کو کہتے ہیں ۔ ( کیونکہ وہ زمین کو پھاڑتا ہے ) اور فلاح کے معنی کامیابی اور مطلب وری کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے دینوی اور اخروی ۔ فلاح دنیوی ان سعادتوں کو حاصل کرلینے کا نام ہے جن سے دنیوی زندگی خوشگوار بنتی ہو یعنی بقاء لمال اور عزت و دولت ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١١٦) اور جن چیزوں کے بارے میں محض تمہارا زبانی جھوٹا دعوی ہے ان کے بارے میں مت کہہ دیا کرو کہ مثلا یہ کھیتی اور جانور مردوں پر حلال ہیں اور عورتوں پر حرام ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ پر محض بہتان لگا دو گے۔ جو لوگ اللہ پر بہتان لگاتے ہیں وہ عذاب الہی سے فلاح اور نجات نہیں پائیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١١٦ (وَلَا تَــقُوْلُوْا لِمَا تَصِفُ اَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ ھٰذَا حَلٰلٌ وَّھٰذَا حَرَامٌ) حلال اور حرام کا فیصلہ کرنے کا حق صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ یہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے اس لیے اس بارے میں غیر محتاط رویہ اختیار نہیں کرنا چاہیے کہ بغیر علم دلیل اور سند کے جو منہ میں آیا کہہ دیا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

116. This verse clearly shows that none but Allah has the right to declare a thing to be lawful or unlawful. Or, in other words, the right of making laws exclusively rests with Allah. Therefore, any person who will dare to decide about the lawful and the unlawful will transgress his powers. Of course, a person, who acknowledges the divine law as the final authority, may deduce from it whether a certain thing or action is lawful or unlawful. The arrogation of the right of determining the lawful and the unlawful has been declared to be a falsehood on Allah for two reasons: (1) Such a person, so to say, claims that what he declares to be lawful or unlawful, disregarding the authority of the divine Book, has been made lawful or unlawful by God. (2) He means to claim that Allah has given up the authority of making lawful and unlawful and has thus left man free to make his own laws for the conduct of life. It is obvious that each of these claims will be a falsehood and a false imputation to Allah.

سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :116 یہ آیت صاف تصریح کرتی ہے کہ خدا کے سوا تحلیل و تحریم کا حق کسی کو بھی نہیں ، یا بالفاظ دیگر قانون ساز صرف اللہ ہے ۔ دوسرا جو شخص بھی جائز اور ناجائز کا فیصلہ کرنے کی جرأت کرے گا وہ اپنے حد سے تجاوز کرے گا ، الا یہ کہ وہ قانون الہی کو سند مان کر اس کے فرامین سے استنباط کرتےہوئے یہ کہے کہ فلاں چیز یا فلاں فعل جائز ہے اور فلاں ناجائز ۔ اس خود مختارانہ تحلیل و تحریم کو اللہ پر جھوٹ اور افترا اس لیے فرمایا گیا کہ جو شخص اس طرح کے احکام لگاتا ہے اس کا یہ فعل دو حال سے خالی نہیں ہو سکتا ۔ یا وہ اس بات کا دعوی کرتا ہے کہ جسے وہ کتاب الہی کی سند سے بے نیاز ہو کر جائز یا ناجائز کہہ رہا ہے اسے خدا نے جائز یا ناجائز ٹھیرایا ہے ۔ یا اس کا دعوی یہ ہے کہ اللہ نے تحلیل و تحریم کے اختیارات سے دست بردار ہو کر انسان کو خود اپنی زندگی کی شریعت بنانے کے لیے آزاد چھوڑ دیا ہے ۔ ان میں سے جو دعوی بھی وہ کرے وہ لامحالہ جھوٹ اور اللہ پر افترا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١١٦۔ حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) اور سلف نے اس آیت کی تفسیر میں کہا ہے کہ مشرکین مکہ نے سانڈ اور جانور اپنی طرف سے حرام جو ٹھہرا رکھے تھے جس کا ذکر سورت انعام میں گزر چکا ہے اصل آیت اس حکم میں نازل ہوئی ہے حاصل معنے آیت کے یہ ہیں کہ شریعت اللہ کے حکم کا نام ہے اس لئے جب تک اللہ یا رسول وقت جو اللہ کی طرف سے پیغام ہدایت لے کر آتے ہیں کسی چیز کو حلال یا حرام یا جائز ناجائز بیان نہ کریں امت میں سے کسی شخص کو اللہ تعالیٰ نے یہ حق نہیں دیا کہ اپنی طرف سے کسی چیز کے حرام یا حلال ٹھہرادے۔ چناچہ مسند بزار اور مستدرک حاکم کے حوالہ سے ابودرداء (رض) کی معتبر روایت اس باب میں اوپر گزر چکی ہے ١ ؎۔ اس صورت میں یہ اللہ پر بہتان ہے کہ ایک بات اللہ نے فرمائی ہی نہیں اور خواہ مخواہ آدمی اپنے منصوبہ سے اس کو اللہ کا حکم ٹھہرا دے۔ یہ منصب تو اللہ تعالیٰ نے رسولوں کو ہی دیا ہے کہ بذریعہ وحی کے اللہ کی مرضی یا نامرضی پہچان کر یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ چیز اللہ تعالیٰ کے نزدیک جائز ہے یا ناجائز نہیں ہے آیت کے اس حکم میں تمام بدعتیں قولی و فعلی واعتقادی داخل ہیں کیونکہ بدعت وہی چیز ہے جس کا پتہ شریعت کے حکم سے تو لگتا نہیں اور لوگ اس کو شریعت کا حکم جان کر کرتے ہیں چناچہ صحیحین کی حضرت عائشہ (رض) کی حدیث میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدعت کی تعریف جو فرمائی ہے ٢ ؎۔ اس کا حاصل یہی ہے کہ دین میں ایسی بات کا نکالنا جس کا پتہ قرآن اور حدیث میں نہ ہو اور فقہ کے ان مفتیوں کے فتوے جن کی تائید کسی حکم شریعت سے نہیں ہوتی یا کوئی حکم شریعت کسی فتوے کے مخالف ہے سب کے سب اس حکم میں داخل ہیں کیونکہ جب حکم شریعت ٹھہرانے کا حق خاص اللہ اور رسول ہی کو حاصل ہے تو جس عالم کے فتوے کی تائید حکم شریعت سے نہ ہو اس طرح کے فتوے کو کس سند سے حکم شریعت کہا جاسکتا ہے اسی واسطے ترمذی، نسائی، ابوداؤد اور ابن ماجہ میں بریدہ (رض) سے جو روایت ہے اس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شریعت میں فتویٰ دینے والے عالموں کی تین قسمیں ٹھہرا کر ایک قسم کے لوگوں کو جنتی اور دو قسم کے لوگوں کو جہنمی فرمایا ہے ٣ ؎۔ یہ حدیث مستدرک حاکم میں بھی ہے اور حاکم نے اس کو صحیح کہا ہے ٤ ؎۔ حاصل مطلب اس حدیث کا یہ ہے کہ شریعت کے قاضی تین طرح کے شخص ہیں ایک وہ کہ جو شریعت میں کوئی حکم یا فتویٰ دیوے وہ انجانی سے نہ ہو بلکہ خوب تلاش کے بعد شریعت کے حکم کے موافق حق فتویٰ اور حکم دیوے دوسرا وہ کہ شریعت کا حکم اس کو معلوم تو ہو مگر کسی دنیا کے لالچ یا رعایت کے سبب سے خلاف حکم شریعت کے فتویٰ یا حکم دیوے تیسرا وہ کہ اصل حکم شریعت کا تو اس کو معلوم نہیں مگر اپنی رائے سے ایک بات کو شریعت کا حکم ٹھہرا کر فتویٰ یا حکم دیوے پہلی قسم کا قاضی اور مفتی جنتی ہے اور پچھلی دونوں قسموں کے قاضی اور مفتی جہنمی ٥ ؎۔ ترمذی میں حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جس نے قرآن شریف کی تفسیر بغیر سند شرعی کے اپنی عقل سے کی یا حدیث کی روایت اٹکل سے بغیر خوب یاد کے کردی اس کا ٹھکانا دوزخ میں تیار ہے۔ ٦ ؎۔ اس حدیث کی سند میں ایک راوی سہل بن عبد اللہ کو بعضے علماء نے ضعیف قرار دیا ہے لیکن ابن معین نے اس کو معتبر کہا ہے۔ ترمذی کی دوسری سند میں سہل بن عبد اللہ نہیں ہے۔ اس سند کو ترمذی نے حسن کہا ہے ٧ ؎۔ ابوداؤد میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس کے ایک ٹکڑے کا حاصل یہ ہے کہ ایک شخص ایک عالم سے شرعی کوئی مسئلہ پوچھے اور وہ عالم اس شخص کو غلط مسئلہ بتا دیوے اور ان پڑھ شخص اس مسئلہ پر عمل کرلیوے تو اس غلط عمل کا وبال اس غلط مسئلہ بتلانے والے عالم پر رہے گا ابوداؤد نے اس حدیث کی سند پر کچھ اعتراض نہیں کیا ٨ ؎۔ علاوہ اس کے یہ حدیث مسند امام احمد میں بھی ہے جس کی سند معتبر ہے۔ صحیح مسلم میں ابن سیرین سے روایت ہے کہ مسلمان شخص کو دین کا مسئلہ کسی عالم سے حاصل ہو تو اس کو ذرا جانچ لینا چاہیے کہ اس عالم نے مسئلہ کے بتلاتے میں کوئی غلطی تو نہیں کی ہے غرض حاصل بہت سی احادیث اور آثار کار یہ ہے کہ عالم کو شریعت کا مسئلہ بتلانے میں اس بات کی بڑی احتیاط چاہیے کہ حکم شریعت میں کوئی غلطی نہ ہوجائے اور ان پڑھ لوگوں کو ذرا اس بات کی احتیاط چاہیے کہ شریعت کے مسئلہ کو ایک دو جگہ کے چار عالموں سے پوچھ لیا کریں تاکہ حکم شریعت میں کچھ غلطی ہو تو نکل جاوے ان پڑھ سے ان پڑھ لوگوں کو معاملات دنیا میں دیکھا جاتا ہے کہ ایک سودا وہ لیتے ہیں تو دس دکانیں پھر کرلیتے ہیں پھر دین میں ایسی کاہلی کیوں کر جائز ہوسکتی ہے کہ اڑتے اڑاتے ٹھکانے اور بےٹھکانے جس سے جو بات سن لی اسی کو اپنا دین قرار دے لیا کیا دین دنیا سے بھی گھٹ کی چیز ہے۔ حدیث اور تفسیر کی کتابوں کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہود کے عالم لوگوں پر تو اللہ کی تنگی اس سبب سے ہوئی کہ توریت میں جو جو تبدیلیاں انہوں نے کرلیں تھیں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تشریف لانے اور قرآن شریف کے نازل ہونے کے بعد بھی وہ ان تبدیلیوں پر جمے رہے اور عام ان پڑھ یہود پر اس سبب سے بلا آئی کہ باوجود حق بات کے معلوم ہوجانے کے وہ اپنے عالموں کے غلط قول پر اڑے رہے علماء نے اس بحث کی ذیل میں یہ بیان لکھا ہے کہ صحیح حدیث میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ جو فرمایا کہ یہود نے جو کچھ کیا ہے وہ سب میری امت میں ہوگا بلکہ یہود کے بہتر فرقے تھے۔ میری امت کے تہتر فرقے ہوں گے ٩ ؎۔ اس حدیث کی رو سے یہ بھی خدا اور رسول کی خفگی کے قابل ایک فرقہ ہے جو یہود میں بھی تھا اور اس امت میں بھی ہے کہ شریعت کی ایک حق بات معلوم ہوجانے کے بعد کسی عالم یا استاد یا پیر کے غلط قول پر اڑے رہتے ہیں نجات عاقبت کے چاہنے والے مسلمان کو لازم ہے کہ اللہ رسول کی اطاعت پر کسی عالم استاد پیر کی اطاعت کو نہ مقدم گنے کیوں کہ عاقبت کی نجات اللہ کی مرضی کے موافق کام کرنے پر منحصر ہے اور اللہ کی مرضی کا بتلانا خاص صاحب وحی کا منصب ہے۔ ١ ؎ زیر آیات سابقہ۔ ٢ ؎ مشکوٰۃ ص ٢٧ باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ۔ ٣ ؎ مشکوٰۃ ص ٣٢٤ باب العمل فی التعتاء الخ والترغیب ص ٨٠ ج ٢ باب ترغیب من ولی شیئا من امور المسلمین الخ۔ ٤ ؎ المستدرک ص ٩٠ ج ٤۔ ٥ ؎ ص ١١٩ ج ٢ باب ماجاء فی الذی یفسر القرآن برایہ۔ ٦ ؎ سہل بن عبد اللہ حضرت جندب (رض) کی روایت کی سند میں ہے جو حضرت ابن عباس (رض) کی حدیث مذکور کے بعد ہے (ح، ح) ٧ ؎ یعنی وہی حدیث جن کا حوالہ ابھی اوپر گزرا۔ ٨ ؎ ص ٥١٤ باب التوقف فی الفتیا از کتاب العلم۔ ٩ ؎ جامع ترمذی ٨٨۔ ٨٩ ج ٢ باب افتراق ھذہ الامۃ۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(16:116) ولا تقولوا لما تصف السنتکم الکذب ھذا حلال وھذا حرام اس میں لام تعلیل کے لئے ہے ما مصدریہ ہے الکذب تصف کا مفعول۔ اور ھذا حلل وھذا حرام مقول القول یعنی ای لا تقولوا ھذا حلل وھذا حرام لاجل وصف السنتکم الکذب (روح المعانی) لتفتروا۔ اس میں لام عاقبت کا ہے یعنی نتیجۃً تم (اللہ تعالیٰ پر) تہمت اور بہتان کا ارتکاب کرو گے۔ تفتروا۔ تم افتراء کرو۔ تم جھوٹ باندھ لو۔ افتراء (افتعال) سے مضارع جمع مذکر حاضر۔ نون اعرابی لام کی وجہ سے گرگیا ہے ۔ لا یفلحون۔ مضارع منفی جمع مذکر غائب افلاح (افعال) سے وہ کامیاب نہیں ہوں گے وہ فلاح نہیں پائیں گے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 دوسرا ترجمہ یوں بھی ہوسکتا ہے اپنی زبانوں کے جھوٹ بنا لینے سے یہ مت کہو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے 4 اس سے ملوم ہوگا کہ تحلیل و تحریم کا حق صرف اللہ تعالیٰ کو ہے یا اس کے دیئے ہوئے اختیار کی بنا پر اس کے رسول کو کسی دوسرے کا اس حق کو استعمال کرنا اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حرام کے بارے میں مزید احکامات اور یہودیوں کے کردار پر تبصرہ۔ اہل کتاب نے بالخصوص یہودیوں کے علما نے پیٹ پوجا اور معاشرے کے بڑے لوگوں کی خوشنودی کے لیے بہت سی حلال چیزوں کو حرام اور حرام کو حلال کرلیا تھا۔ جب اس جرم کی نشاندہی کی جاتی تو ان کے علما اس قدر مردہ ضمیر ہوگئے کہ اپنی حرام خوری پر پردہ ڈالنے کے لیے سرعام یہ بات کہتے کہ یہ چیزیں اللہ تعالیٰ نے ہی حرام اور حلال قرار دی ہیں۔ اس سے منع کرتے ہوئے انہیں انتباہ کیا گیا ہے کہ اپنی مرضی سے حرام و حلال کی فہرست تیار کر کے اللہ تعالیٰ کے ذمہ نہ لگاؤ۔ یہ اللہ تعالیٰ پر صریح جھوٹ بولنے کے مترادف ہے۔ جو لوگ اپنی مرضی سے حرام کردہ چیزوں کو حلال اور حلال کو حرام قرار دے کر اللہ تعالیٰ کے ذمہ لگاتے ہیں وہ جھوٹے ہیں یقیناً وہ کبھی فلاح نہیں پائیں گے۔ یہ لوگ محض لذت دہن اور دنیا کے مفاد کے لیے ایسا کر رہے ہیں انہیں یاد ہونا چاہیے کہ دنیا اور اس کی ہر چیز آخرت کے مقابلے میں، مدت اور مقدار کے اعتبار سے عارضی اور تھوڑی ہے۔ اس کے باوجود جو لوگ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھتے ہیں ان کے لیے اذیت ناک عذاب ہوگا۔ ( عَنْ عَدِیِّ بْنِ حَاتِمٍ (رض) قَالَ أَتَیْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَفِی عُنُقِی صَلِیبٌ مِنْ ذَہَبٍ فَقَالَ یَا عَدِیُّ اطْرَحْ عَنْکَ ہَذَا الْوَثَنَ مِنْ عُنُقِکَ قَالَ فَطَرَحْتُہٗ ، وَانْتَہَیْتُ إِلَیْہِ وَہُوْ یَقْرَاأ فِیْ سُوْرَۃِ بَرَاءَ ۃَ فَقَرَاأ ہٰذِہِ الْآیَۃُ (اتَّخَذُوا أَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ أَرْبَابًا مِن دُون اللَّہِ ) قَالَ قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ، إِنَّا لَسْنَا نَعْبُدُہُمْ فَقَالَ األَیْسَ یُحَرُِّْمُوْنَ مَا اأَحَلَّ اللّٰہُ فَتُحَرِّمُوْنَہٗ ، وَیُحِلُّوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ فَتُحِلُّوْنَہٗ ؟ قَالَ قُلْتُ بَلٰی قَالَ فَتِلْکَ عِبَادَتُہُمْ )[ تفسیر قر طبی : ج ١٤ رواہ الترمذی : باب وَمِنْ سُورَۃِ التَّوْبَۃِ ] ” حضرت عدی (رض) بیان کرتے ہیں۔ میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور میرے گلے میں سونے کی صلیب لٹک رہی تھی۔ آپ نے فرمایا اے عدی اس بت کو اتار پھینکو تو میں نے اسے اتار پھینکا اور آپ کے قریب آگیا اور آپ سورة توبہ کی تلاوت فرما رہے تھے۔ آپ نے آیت تلاوت کی (اتخذوا أحبارہم ورہبانہم أربابًا من دون اللہ) تو میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول ہم تو انکی عبادت نہیں کرتے تھے۔ آپ نے فرمایا کیا جسے وہ حرام قراردیتے تھے اسے تم حرام نہیں سمجھتے تھے اور جسے وہ حلال قرار دیتے اسے تم حلال نہیں سمجھتے تھے ؟ میں نے کہا ہاں ! اللہ کے رسول آپ نے فرمایا یہی تو انکی عبادت ہے۔ “ یہودی حلال و حرام کی من ساختہ فہرست اللہ تعالیٰ کے ذمہ لگاتے ہیں۔ جس کی نفی کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ ہم نے مذکورہ بالا چار چیزیں حرام کرنے کے ساتھ یہودیوں کی نخوت اور بغاوت کی وجہ سے یہ چیزیں بھی حرام کیں تھیں۔ جن کا تذکرہ آپ کے سامنے ہم پہلے کرچکے ہیں۔ جن کی تفصیل سورة الانعام کی آیت ١٤٦ میں یوں بیان کی گئی ہے۔ ہم نے یہودیوں پر ہر ناخن والا جانور حرام کیا نیز ان پر گائے اور بکری کی چربی بھی حرام کی تھی اِلَّایہ کہ ان جانوروں کی پشت اور آنتوں کے ساتھ چپکی ہو یا ہڈیوں کے ساتھ چمٹی ہوئی ہو یہ ان کی مسلسل بغاوت کی سزا تھی۔ جو کچھ ہم نے بیان کیا ہے یقیناً وہ سچ ہے۔ ہم نے یہودیوں پر کوئی زیادتی نہیں کی۔ یہ خود ہی اپنے آپ پر ظلم کرنے والے تھے۔ ظاہر ہے جو قوم اپنے آپ پر مسلسل ظلم کرنے پر تل جائے اسے کوئی بھی تباہی کے گھاٹ سے نہیں بچا سکتا۔ (عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِنَّ اللّٰہَ طَیِّبٌ لَا یَقْبَلُ اِلَّا طَیِّبًا وَاِنَّ اللّٰہَ اَمَرَ الْمُؤْمِنِیْنَ بِمَآ اَمَرَبِہِ الْمُرْسَلِیْنَ فَقَالَ (یَآاَیُّہَا الرُّسُلُ کُلُوْا مِنَ الطَّیِّبَاتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا) [ المومنون : ٥١] وَقَالَ یَا اَیُّھَاالَّذِیْنَ آمَنُوْا کُلُوْا مِنْ طَیِّبَاتِ مَا رَزَقْنٰکُمْ ثُمَّ ذَکَرَ الرَّجُلَ یُطِیْلُ السَّفَرَ اَشْعَثَ اِغْبَرَ یَمُدُّیَدَیْہِ اِلَی السَّمَآءِ یَارَبِّ وَمَطَعَمُہٗ حَرَامٌ وَّمَشْرَبُہٗ حَرَامٌ وَمَلْبَسُہٗ حَرَامٌ وَّغُذِیَ بالحَرَامِ فَاَنّٰی یُسْتَجَابُ لِذٰلِکَ ) [ رواہ مسلم : باب قَبُول الصَّدَقَۃِ مِنَ الْکَسْبِ الطَّیِّبِ وَتَرْبِیَتِہَا ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ بیشک اللہ تعالیٰ پاک ہے اور پاک صاف کے علاوہ کسی چیز کو قبول نہیں کرتا۔ اور اللہ تعالیٰ نے مومنین کو ان باتوں کا حکم دیا ہے جن باتوں کا اس نے اپنے رسولوں کو حکم دیا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ ” میرے رسولو ! پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور صالح عمل کرو۔ “ اے ایمان والو ! جو رزق ہم نے تمہیں عطا کیا ہے اس میں سے پاکیزہ چیزیں کھاؤ۔ “ پھر آپ نے ایک ایسے شخص کا ذکر فرمایا جو لمبا سفر طے کرتا ہے۔ پراگندہ بال ہے اور اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف اٹھائے دعا کرتا ہے۔ یارب ! یارب ! جب کہ اس کا کھانا حرام ‘ اس کا پینا حرام ‘ اس کا لباس حرام اور حرام غذا سے اس کی نشوونما ہوئی اس حالت میں اس کی دعا کیسے قبول ہوسکتی ہے ؟ “ مسائل ١۔ یہودیوں پر بعض چیزیں حرام کیں تھیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ ٣۔ لوگ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں۔ ٤۔ یہودیوں پر جو چیزیں حرام تھیں ان میں سے بعض کے متعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مطلع کیا گیا۔ ٥۔ اپنی طرف سے کسی چیز کو حرام و حلال قرار نہیں دینا چاہیے۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ کے ذمے جھوٹ لگانے والے فلاح نہیں پائیں گے۔ ٨۔ اللہ تعالیٰ کے نافرمانوں کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ تفسیر باالقرآن اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنے والوں کا انجام : ١۔ اللہ کے ذمے جھوٹ لگانے والے فلاح نہیں پائیں گے ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ (النحل : ١١٦۔ ١١٧) ٢۔ جو شخص اللہ پر جھوٹ باندھے گا وہی ظالم ہے۔ (آل عمران ؛ ٩٤) ٣۔ اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے۔ (الاعراف : ٣٧) ٤۔ اس شخص نے نقصان اٹھایا جس نے اللہ پر جھوٹ بولا۔ (طٰہٰ : ٦١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ تمہاری زبانیں جو جھوٹے طور پر بعض چیزوں کے بارے میں کہتی ہیں کہ یہ حرام ہے اور یہ حلال ہے ان کو حلال و حرام نہ سمجھو۔ یہ افتراء علی اللہ ہے۔ نیز تم جو ایسا کہتے ہو کہ یہ حرام ہے اور یہ حلال ہے بغیر دلیل شرعی کے جھوٹ بھی ہے۔ ایسے لوگ ظٓہر ہے کہ دنیا کے چند روزہ زندگی میں ضرورعیش و عشرت کرلیں گے لیکن آخرت میں ان کے لئے عذاب ہے اور یہ لوگ سخت گھاٹے میں ہوں گے۔ ان آیات کے باوجود ، بعض لوگ اسلامی ممالک میں قانون سازی کا کام کرتے ہیں اور ایسی قانون سازی کرتے ہیں جو قرآن و سنت کے صریح خلاف ہوتی ہے اور پھر بھی یہ امید رکھتے ہیں کہ انہیں دنیا و آخرت میں کامیابی ہوگی بلکہ عذاب عظیم کے مستحق ہوں گے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

تحلیل اور تحریم کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہے مشرکین مکہ کا طریقہ تھا کہ انہوں نے اپنے پاس سے اشیاء کی حلت و حرمت تجویز کر رکھی تھی۔ جانوروں کی تحلیل و تحریم کے بارے میں بہت سی باتیں ان کی خود تراشیدہ تھیں جس کا ذکر سورة انعام کے رکوع نمبر ١٦ میں اور سورة مائدہ کے رکوع نمبر ١٤ میں بیان فرمایا ہے یہاں اس پر تنبیہ فرمائی کہ جن چیزوں کو تم نے خود سے حلال قرار دے رکھا ہے ان کے بارے میں اپنے پاس سے حلال و حرام مت کہو، حلال و حرام قرار دینے کا اختیار اللہ تعالیٰ ہی کو ہے اس کے اختیار کو اپنے لیے استعمال کرو گے تو یہ اللہ تعالیٰ پر بہتان باندھنا ہوگا کسی شرعی دلیل ہی سے اللہ کی پیدا فرمودہ اشیاء کو حلال یا حرام کہا جاسکتا ہے اپنی طرف سے خود تجویز نہیں کرسکتے۔ جب شرعی دلیل نہیں ہے تو اپنی طرف سے حرام و حلال تجویز کرنا حرام ہے، اللہ تعالیٰ پر افترا کرنے والے کامیاب نہ ہوں گے دنیا و آخرت میں سزا کے مستحق ہوں گے، یہ جو دنیاوی زندگی گزار رہے ہیں جس میں طرح طرح سے اللہ کی نافرمانی کرتے ہیں اور ان میں بعض نافرمانیوں کی وجہ سے جو کوئی لذت یا دنیاوی نفع پہنچ جاتا ہے یہ چند روزہ ہے تھوڑا سا عیش ہے ذرا سی زندگی ہے اس کے بعد آخرت میں ان لوگوں کے لیے درد ناک عذاب ہے جو اللہ تعالیٰ پر تہمت باندھتے ہیں اس کی پیدا کردہ چیزوں کو اپنی طرف سے حلال و حرام قرار دیتے ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

95:۔ یہ ماقبل پر متفرع ہے بطور لف و نشر غیر مرتب۔ ” ھٰذَا حَلٰلٌ“ یہ نذر غیر اللہ پر اور ” ھٰذَا حَرَامٌ“ تحریمات غیر اللہ پر متفرع ہے یعنی یہ جو تم اپنی طرف سے تحریم و تحلیل کرتے ہو یہ محض تمہاری کذب بیانی اور اللہ تعالیٰ پر افتراء ہے کیونکہ تحلیل و تحریم کا اختیار تو صرف اللہ تعالیٰ کو ہے اور کسی کو نہیں ان التحلیل والتحریم انما ھو للہ عز و جل ولیس لاحد ان یقول او یصرح بہذا فی عین من الاعیان الا ان یکون الباری تعالیٰ یخبر بذلک عنہ (قرطبی ج 10 ص 196) ۔ لہذا جو شخص کسی چیز کو حلال یا حرام بتاتا ہے گویا وہ یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو حلال یا حرام کیا ہے۔ مشرکین نے اپنی طرف سے محرمات اور محللات میں اضافہ کردیا تھا اس پر اللہ تعالیٰ نے شدید انکار فرمایا۔ انھم کانوا یحرمون البحیرۃ والسائبۃ والوصیلۃ والحام وکانوا یقولون ما فی بطون ھذہ النعام خالصۃ لذکورنا و محرم علی ازواجنا فقد زادوا فی المحرمات وزادوا ایضا فی المحلات و ذلک لانھم حللوا لمیتۃ والدم و لحم الخنزیر وما اھل بہ لغیر اللہ تعالیٰ فاللہ تعالیٰ بین ان المھرماتھی ھذہ الاربعۃ و بین ان الاشیاء التی یقولون ان ھذا حلال وھذا حرام کذب و افتراء علی (کبیر ج 5 ص 531) ۔ 96:۔ ” ان الذین یفترون “ تا ” عزاب الیم “ ان لوگوں کے لیے تخویف اخروی ہے جو اللہ پر افتراء کرتے اور خواہش نفس سے از خود تحریمات کرتے ہیں وہ آخرت میں فلاح نہیں پائیں گے اور انہیں دردناک عذاب دیا جائے گا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

116 ۔ اور جن چیزوں کے بارے میں تمہاری زبانیں بغیر کسی دلیل کے محض جھوٹے دعوے کیا کرتی ہیں تم ان کی نسبت یوں مت کہہ دیا کرو کہ یہ چیز حلال ہے اور یہ چیز حرام ہے اس کہنے کا نتیجہ اور انجام یہ ہوگا کہ تم اللہ تعالیٰ پر جھوٹی تہمت اور جھوٹا بہتان لگا دو گے اور بلا شبہ جو لوگ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ پر جھوٹی افترا پردازی کے مرتکب ہوتے ہیں وہ فلاح نہیں پاتے اور ان کو کبھی فلاح نصیب نہیں ہوتی ۔ مکہ کے کافر یہ اختراع کیا کرتے تھے کہ بہائم میں سے کسی کو حلال کرلیتے کسی کو حرا م کرلیتے ۔ جیسا کہ سورة انعام میں گزر چکا ہے اس کو منع فرمایا اور چونکہ کسی جانور کو حلال یا حرام کرنا اللہ تعالیٰ ہی کا حق ہے۔ اس لئے اس کہنے کا حاصل یہ ہے کہ اس کو اللہ نے حلال کیا ہے اور اس کو اللہ نے حرام کیا ہے حالانکہ یہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹی افترا پردازی ہے اس نے حرام نہیں کیا اور تم کہتے ہو کہ یہ حرام ہے یا اس نے حلا ل نہیں کیا اور تم کہتے ہو کہ یہ حلال ہے اور جو لوگ اللہ تعالیٰ پر بہتان اور طوفان باندھیں اور جھوٹی تہمتیں لگائیں وہ اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہوتے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں ، سورة انعام میں ذکر آچکا۔ 12