Surat un Nahal

Surah: 16

Verse: 118

سورة النحل

وَ عَلَی الَّذِیۡنَ ہَادُوۡا حَرَّمۡنَا مَا قَصَصۡنَا عَلَیۡکَ مِنۡ قَبۡلُ ۚ وَ مَا ظَلَمۡنٰہُمۡ وَ لٰکِنۡ کَانُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ یَظۡلِمُوۡنَ ﴿۱۱۸﴾

And to those who are Jews We have prohibited that which We related to you before. And We did not wrong them [thereby], but they were wronging themselves.

اور یہودیوں پر جو کچھ ہم نے حرام کیا تھا اسے ہم پہلے ہی سے آپ کو سنا چکے ہیں ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ وہ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے رہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Some Good Things were Forbidden for the Jews After mentioning that He has forbidden us to eat dead meat, blood, the flesh of swine, and any animal which is slaughtered as a sacrifice for others than Allah, and after making allowances for cases of necessity - which is part of making things easy for this Ummah, because Allah desires ease for us, not hardship - Allah then mentions what He forbade for the Jews in their laws before they were abrogated, and the restrictions, limitations and difficulties involved therein. He tells us: وَعَلَى الَّذِينَ هَادُواْ حَرَّمْنَا مَا قَصَصْنَا عَلَيْكَ مِن قَبْلُ ... And for those who are Jews, We have forbidden such things as We have mentioned to you before. meaning in Surah Al-An`am, where Allah says: وَعَلَى الَّذِينَ هَادُواْ حَرَّمْنَا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ وَمِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَمِ حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ شُحُومَهُمَا إِلاَّ مَا حَمَلَتْ ظُهُورُهُمَا أَوِ الْحَوَايَا أَوْ مَا اخْتَلَطَ بِعَظْمٍ ذَلِكَ جَزَيْنَاهُم بِبَغْيِهِمْ وِإِنَّا لَصَادِقُونَ And unto those who are Jews, We forbade every (animal) with undivided hoof, and We forbade them the fat of the ox and the sheep except what adheres to their backs or their Hawaya, or is mixed up with a bone. Thus We recompensed them for their rebellion. And verily, We are Truthful. (6:146) Hence Allah says here: ... وَمَا ظَلَمْنَاهُمْ ... And We did not wrong them, meaning, in the restrictions that We imposed upon them. ... وَلَـكِن كَانُواْ أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ but they wronged themselves. meaning, they deserved that. This is like the Ayah: فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِينَ هَادُواْ حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ طَيِّبَـتٍ أُحِلَّتْ لَهُمْ وَبِصَدِّهِمْ عَن سَبِيلِ اللَّهِ كَثِيراً Because of the wrong committed of those who were Jews, We prohibited certain good foods which had been lawful for them - and (also) for their hindering many from Allah's way. (4:160) Then Allah tells us, honoring and reminding believers who have sinned of His blessings, that whoever among them repents, He will accept his repentance, as He says:

دوسروں سے منسوب ہر چیز حرام ہے اوپر بیان گزرا کہ اس امت پر مردار ، خون ، لحم ، خنزیر اور اللہ کے سوا دوسروں کے نام سے منسوب کردہ چیزیں حرام ہیں ۔ پھر جو رخصت اس بارے میں تھی اسے ظاہر فرما کر جو آسانی اس امت پر کی گئی ہے اسے بیان فرمایا ۔ یہودیوں پر ان کی شریعت میں جو حرام تھا اور جو تنگ اور حرج ان پر تھا اسے بیان فرما رہا ہے کہ ہم نے ان کی حرمت کی چیزوں کو پہلے ہی سے تجھے بتا دیا ہے ۔ سورہ انعام کی آیت ( وَعَلَي الَّذِيْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا مَا قَصَصْنَا عَلَيْكَ مِنْ قَبْلُ ۚ وَمَا ظَلَمْنٰهُمْ وَلٰكِنْ كَانُوْٓا اَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُوْنَ ١١٨؁ ) 16- النحل:118 ) میں ان حرام چیزوں کا ذکر ہو چکا ہے ۔ یعنی یہودیوں پر ہم نے تمام ناخن والے جانوروں کو حرام کر دیا تھا اور گائے اور بکری کی چربی کو سوائے اس چربی کے جو ان کی پیٹھ پر لگی ہو یا انتڑیوں پر یا ہڈیوں سے ملی ہوئی ہو ، یہ بدلہ تھا ان کی سرکشی کا ہم اپنے فرمان میں بالکل سچے ہیں ۔ ہم نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا تھا ہاں وہ خود ناانصاف تھے ۔ ان کے ظلم کی وجہ سے ہم نے وہ پاکیزہ چیزیں جو ان پر حلال تھیں ، حرام کر دیں دوسری وجہ ان کا راہ حق سے اوروں کو روکنا بھی تھا ۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے اس رحم و کرم کی خبر دیتا ہے جو وہ گنہگار مومنوں کے ساتھ کرتا ہے کہ ادھر اس نے توبہ کی ، ادھر رحمت کی گود اس کے لئے پھیل گئی ۔ بعض سلف کا قول ہے کہ جو اللہ کی نافرمانی کرتا ہے وہ جاہل ہی ہوتا ہے ۔ توبہ کہتے ہیں گناہ سے ہٹ جانے کو اور اصلاح کہتے ہیں اطاعت پر کمر کس لینے کو پس جو ایسا کرے اس کے گناہ اور اس کی لغزش کے بعد بھی اللہ اسے بخش دیتا ہے اور اس پر رحم فرماتا ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

118۔ 1 دیکھئے سورة الا نعام، (وَعَلَي الَّذِيْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا كُلَّ ذِيْ ظُفُرٍ ۚ وَمِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَمِ حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ شُحُوْمَهُمَآ اِلَّا مَا حَمَلَتْ ظُهُوْرُهُمَآ اَوِ الْحَوَايَآ اَوْ مَا اخْتَلَطَ بِعَظْمٍ ۭذٰلِكَ جَزَيْنٰهُمْ بِبَغْيِهِمْ ڮ وَاِنَّا لَصٰدِقُوْنَ ) 6 ۔ الانعام :146) کا حاشیہ، نیز سورة نساء۔ (فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِيْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ طَيِّبٰتٍ اُحِلَّتْ لَهُمْ وَبِصَدِّهِمْ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ كَثِيْرًا) 4 ۔ النساء :160) میں بھی اس کا ذکر ہے

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٢١] اصلا چار ہی چیزیں حرام ہیں :۔ یہاں سورة انعام کی آیت نمبر ١٤٦ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو سورة نحل سے بہت پہلے نازل ہوچکی تھی۔ ترتیب نزولی کے لحاظ سے سورة انعام کا نمبر ٥٥ ہے جبکہ اس سورة نحل کا نمبر ٧٠ ہے۔ کفار مکہ کا اعتراض یہ تھا کہ بنی اسرائیل کی شریعت میں تو ان چار چیزوں کے علاوہ اور بھی کئی چیزیں حرام ہیں جنہیں تم مسلمانوں نے حلال کر رکھا ہے۔ اگر موسوی شریعت بھی اللہ کی طرف سے ہے تو تم اس کی خلاف ورزی کیوں کر رہے ہو ؟ اور اگر موسوی شریعت اور تمہاری شریعت دونوں ہی اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہیں تو ان میں تضاد کیوں ہے ؟ اسی اعتراض کا یہاں جواب دیا جارہا ہے جو یہ ہے کہ بنیادی طور پر جو چیزیں اللہ نے حرام کی ہیں اور جن کا سب کتابوں میں ذکر موجود ہے وہ یہی چار چیزیں ہیں اور یہودیوں پر جو زائد اشیاء حرام کی گئیں تو وہ ان کی اپنی نافرمانیوں اور زیادتیوں کی بنا پر حرام کی گئی تھیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَعَلَي الَّذِيْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا ۔۔ : حافظ ابن کثیر (رض) نے فرمایا، اللہ تعالیٰ نے جب مسلمان پر حرام کردہ چیزوں مردار اور خون وغیرہ کا ذکر فرمایا اور صرف مجبوری کے وقت انھیں جائز قرار دینے کا ذکر فرمایا، تاکہ امت پر آسانی رہے تو اس کے بعد یہودیوں پر ان چیزوں کے حرام کرنے کا ذکر فرمایا، جن کا ذکر پہلے سورة نساء (١٦٠) اور سورة انعام (١٤٦) میں گزر چکا ہے، جو پاکیزہ اور حلال ہونے کے باوجود ان کی سرکشی اور ظلم کی وجہ سے ان پر حرام کی گئی تھیں اور اس اصر و اغلال میں شامل تھیں جو ان کی سرکشی کی وجہ سے ان پر لادے گئے تھے۔ پھر ہمارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آنے پر ان کی حرمت ختم ہوئی اور صرف وہ چیزیں حرام کی گئیں جن کا حرام کرنا بطور سزا نہیں بلکہ بطور مصلحت و رحمت تھا۔ وَمَا ظَلَمْنٰهُمْ وَلٰكِنْ كَانُوْٓا ۔۔ : اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة نساء (١٦٠، ١٦١) اس سے یہودیوں کے اس دعویٰ کی بھی تردید ہوگئی کہ ان پر حرام کردہ چیزیں ہمیشہ سے حرام چلی آرہی ہیں، اس لیے ہمیشہ کے لیے حرام ہیں۔ مزید دیکھیے سورة آل عمران (٩٣) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَعَلَي الَّذِيْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا مَا قَصَصْنَا عَلَيْكَ مِنْ قَبْلُ ۚ وَمَا ظَلَمْنٰهُمْ وَلٰكِنْ كَانُوْٓا اَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُوْنَ ١١٨؁ قصص الْقَصُّ : تتبّع الأثر، يقال : قَصَصْتُ أثره، والْقَصَصُ : الأثر . قال تعالی: فَارْتَدَّا عَلى آثارِهِما قَصَصاً [ الكهف/ 64] ، وَقالَتْ لِأُخْتِهِقُصِّيهِ [ القصص/ 11] ( ق ص ص ) القص کے معنی نشان قد م پر چلنے کے ہیں ۔ محاورہ ہے ۔ قصصت اثرہ یعنی میں اس کے نقش قدم پر چلا اور قصص کے معنی نشان کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَارْتَدَّا عَلى آثارِهِما قَصَصاً [ الكهف/ 64] تو وہ اپنے اپنے پاؤں کے نشان دیکھتے دیکھتے لوٹ گئے ۔ وَقالَتْ لِأُخْتِهِ قُصِّيهِ [ القصص/ 11] اور اسکی بہن کہا کہ اس کے پیچھے پیچھے چلی جا ۔ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں نفس الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، ( ن ف س ) النفس کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١١٨) صرف یہودیوں پر ہم نے وہ چیزیں حرام کردیں تھیں جس کا بیان ہم آپ سے اس سورت سے پہلے سورة انعام میں کرچکے ہیں، چربیاں اور گوشت جو چیزیں ہم نے ان حرام کی تھیں ان کو حرام کرکے ہم نے ان پر کوئی زیادتی نہیں کی تھی لیکن انہوں نے گناہ کر کے خود ہی اپنے آپ کو نقصان پہنچایا جس کی وجہ سے یہ چیزیں اللہ تعالیٰ نے ان پر حرام فرمائیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١١٨ (وَعَلَي الَّذِيْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا مَا قَصَصْنَا عَلَيْكَ مِنْ قَبْلُ ) اس بارے میں تفصیل سورة آل عمران : ٩٣ ‘ النساء : ١٤٠ اور الانعام : ١٤٦ میں گزر چکی ہے۔ حضرت یعقوب نے اپنی مرضی سے اپنے اوپر اونٹ کا گوشت حرام کرلیا تھا ‘ جس کی تعمیل بعد میں وہ پوری قوم کرتی رہی۔ اس کے علاوہ مختلف حیوانات کی چربی بھی بنی اسرائیل پر حرام کردی گئی تھی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

118. This refers to: “And We prohibited all animals with claws to those people who had adopted Judaism.” (Surah Al-Anaam, Ayat 146). In this (verse 118) Allah has stated that certain things were made unlawful because of the disobedience of the Jews. Here a question arises. Which of the two Surahs, Al-Anaam or An-Nahl, was first revealed? This is because in (verse 118), a reference has been made to (verse 146 of Al-Anaam). Also in (verse 119 of Al-Anaam): “And why should you not eat that thing over which Allah’s name has been mentioned, when He has already given you a detail of those things that have been declared to be unlawful for you except in case of extremity?” a reference has been made to (verse 115 of An- Nahl). This is because these are the only two Makki Surahs in which details of unlawful things have been given. As regards to the question, we are of the opinion that An-NahI was revealed earlier than Al-Anaam, for (verse 119 )of the latter contains a reference to( verse 115) of the former. It appears that after the revelation of Surah Al-Anaam, the disbelievers raised objections in regard to these verses of An-Nahl. So they were referred to (verse 146 of Al-Anaam) in which a few things were made unlawful, especially for the Jews. As this answer concerned An-Nahl, so (verse 118), though it was revealed after the revelation of Al-Anaam, was inserted as a parenthetical clause in An-Nahl. 119. “Abraham was a whole community by himself” for at that time he was the only Muslim in the whole world who was upholding the banner of Islam, while the rest of the world was upholding the banner of unbelief. As that servant of Allah performed the mission which is ordinarily carried out by a whole community, he was not one person but an institution in himself.

سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :118 اشارہ ہے سورہ انعام کی آیت وَعَلَی الَّذِیْنَ ھَادُوْ ا حَرَّمْنَا کُلَّ ذِیْ ظُفُرِ ، الاٰ یَۃ ( آیت نمبر ۱٤٦ ) کی طرف ، جس میں بتایا گیا ہے کہ یہودیوں پر ان کی نافرمانیوں کے باعث خصوصیت کے ساتھ کون کون سی چیزیں حرام کی گئی تھیں ۔ اس جگہ ایک اشکال پیش آتا ہے ۔ سورہ نحل کی اس آیت میں سورہ انعام کی ایک آیت کا حوالہ دیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ سورہ انعام اس سے پہلے نازل ہو چکی تھی ۔ لیکن ایک مقام پر سورہ انعام میں ارشاد ہوا ہے کہ وَمَالَکُمْ اَلَّا تَاْ کُلُوْ ا مِمَّا ذَکِرَ الْمُ اللہِ عَلَیْہ وَقَدْ فَصَّلَ لَکُمْ مَّا حَرَّ مَ عَلَیْکُمْ ( آیت نمبر ۱۱۹ ) ۔ اس میں سورہ نحل کی طرف اشارہ ہے ، کیونکہ مکی سورتوں میں سورہ انعام کے سوا بس یہی ایک سورۃ ہے جس میں حرام چیزوں کی تفصیل بیان ہوئی ہے ۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان میں سے کون سی سورۃ پہلے نازل ہوئی تھی اور کون سی بعد میں؟ ہمارے نزدیک اس کا صحیح جواب یہ ہے کہ پہلے سورہ نحل نازل ہوئی تھی جس کا حوالہ سورہ انعام کی مذکورہ بالا آیت میں دیا گیا ہے ۔ بعد میں کسی موقع پر کفار مکہ نے سورہ نحل کی ان آیتوں پر وہ اعتراضات وارد کیے جو ابھی ہم بیان کر چکے ہیں ۔ اس وقت سورہ انعام نازل ہو چکی تھی ۔ اس لیے ان کو جواب دیا گیا کہ ہم پہلے ، یعنی سورہ انعام میں بتا چکے ہیں کہ یہودیوں پر چند چیزیں خاص طور پر حرام کی گئی تھیں ۔ اور چونکہ یہ اعتراض سورہ نحل پر کیا گیا تھا اس لیے اس کا جواب بھی سورہ نحل ہی میں جملہ معترضہ کے طور پر درج کیا گیا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

51: بتلانا یہ مقصود ہے کہ کفار مکہ اپنے آپ کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دین کا پیرو کہتے تھے، حالانکہ جن حلال چیزوں کو ان مشرکین نے حرام کر رکھا تھا۔ وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے وقت ہی سے حلال چلی آتی تھیں۔ البتہ ان میں سے صرف چند چیزوں کو یہودیوں پر بطور سزا حرام کردیا گیا تھا۔ جیسا کہ سورۃ نساء آیت 16 میں گذر چکا ہے۔ باقی سب چیزیں اس وقت سے آج تک حلال ہی چلی آتی ہیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١١٨۔ ١١٩۔ اس آیت میں اللہ پاک نے یہود کے حال کا بیان فرمایا کہ ان پر جو جو چیزیں حرام اور جو جو چیزیں حلال کی گئیں تھیں ان کا ذکر پہلے سورت انعام کی آیت وعلی الذین ھادوا حرمنا کل ذی ظفر ومن البقر و الفنم حرمنا علیھم شحومہما الا ماحملت ظھورھما (٦: ٤٦) میں گزر چکا ہے پھر فرمایا کہ یہ بات اللہ کی طرف سے بطور ظلم کے نہیں تھی بلکہ ان ہی یہود کی بغاوت اور ظلم کا نتیجہ تھا کہ بطور عذاب کے بہت سی چیزیں ان پر حرام کردی گئیں تھیں کیونکہ خدا ظالم نہیں ہے جو ناحق کسی پر حلال شئے کو حرام کرتا۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوذر (رض) کی حدیث گزر چکی ہے ١ ؎۔ کہ ظلم اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات پاک پر حرام ٹھہرا لیا ہے یہ حدیث وما ظلمناھم کی گویا تفسیر ہے پھر یہ فرمایا کہ جو لوگ بسبب جہالت اور نادانی کے برے کام کے مرتکب ہوجاتے ہیں اور پھر جب انہیں سمجھ بوجھ آگئی اور خدا کے خوف سے ڈر کر توبہ کی تو خدا ان سے درگزر بھی کردیتا ہے۔ کیوں کہ اللہ پاک غفور الرحیم ہے۔ مشرکین مکہ نے جس طرح اپنی طرف سے حرام حلال کا قاعدہ ٹھہرا رکھا تھا اسی طرح یہود نے بھی اپنی طرف سے حرام حلال ٹھہرا رکھا تھا۔ مثلاً سور کو یہود اور مشرکین مکہ دونوں حلال سمجھتے تھے حالانکہ ملت ابراہیمی اور شریعت موسوی میں سور کے حلال ہونے کا کہیں حکم نہیں ہے غرض سورت انعام میں بھی اس عقلی حرام و حلال کے تذکرے میں مشرکین مکہ اور یہود کا ذکر تھا یہاں بھی مختصر طور پر اسی سلسلہ سے ذکر فرمایا یہود کی شرارت کی سزا میں جو چیزیں ان پر حرام ہوئیں ان میں مردار جانوروں کی چربی بھی تھی۔ لیکن یہود لوگ اس سزا کے بعد بھی اپنی شرارت سے باز نہیں آئے چربی کو پگھلا کر بیچا کرتے تھے۔ چناچہ صحیح بخاری و مسلم میں جابر بن عبد اللہ (رض) سے جو روایت ہے اس شرارت کا ذکر اس میں تفصیل سے ہے ٢ ؎۔ آخر نتیجہ یہود کی شرارتوں کا یہ ہوا کہ مدینے کے گردونوح میں یہود کے تین قبیلے رہتے تھے ان میں سے دو کو تو جلا وطنی نصیب ہوئی اور ایک قبیلہ کو قتل کردیا گیا اس تفسیر میں ان تینوں قبیلوں کا حال تفصیل سے ایک جگہ گزر چکا ہے حاصل کلام یہ ہے کہ یہود کے ذکر سے مشرکین مکہ کی یہ تنبیہ منظور ہے کہ شرارت کی وجہ سے جو حال یہود کا ہوا وہی حال ان کا ہوگا اللہ سچا ہے اللہ کا کلام سچا ہے مشرکین مکہ کی یہ تنبیہ منظور ہے کہ شرارت کی وجہ سے جو حال یہود کا ہوا وہی حال ان کا ہوگا اللہ سچا ہے اللہ کا کلام سچا ہے مشرکین مکہ اس تنبیہ کے بعد بھی جب اپنی شرارتوں سے باز نہ آئے تو ان شرارتوں کی سزا بدر کی لڑائی اور فتح مکہ کے وقت جو کچھ ہوئی اس کا ذکر کئی جگہ گزر چکا ہے صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے ابو سعید خدری (رض) کی شفاعت کی بڑی حدیث کا ذکر ایک جگہ گزر چکا ہے کہ سب شفاعتوں کے بعد خود اللہ تعالیٰ ایسے کلمہ گو دوزخیوں کو جنت میں داخل کرے گا جنہوں نے دنیا میں عمر بھر کوئی نیک کام نہیں کیا۔ یہ حدیث اللہ تعالیٰ کے غفور رحیم ہونے کی گویا تفسیر ہے۔ ١ ؎ صحیح مسلم ص ٣١٩ ج ٢ باب تحریم الظلم۔ ٢ ؎ مشکوٰۃ ص ٢٤١ باب الکب ولھب الحلال۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(16:118) وعلی الذین ھادوا حرمنا ما قصصنا علیک من قبل کا اشارہ سورة الانعام کی آیت 146 کی طرف ہے۔ جہاں ارشاد باری تعالیٰ ہے :۔ وعلی الذین ھادوا حرمنا کل ذی ظفر ومن البقر والغنم حرمنا علیہم شحومھما الا ما حملت ظہورھما او الحوایا او ما اختلط بعظم ذلک جزینہم ببغیہم انا لصدقون۔ (6:146) اور جو لوگ کہ یہودی ہوئے ان پر ہم نے سب کھر والے جانور حرام کر دئیے تھے اور گائے اور بکری میں سے ہم نے ان پر ان دونوں کی چربیاں حرام کی تھی بجز اس (چربی) کے جو ان کی پشتوں پر یا ان کی انتڑیوں میں لگی ہوئی ہو یا جو ہڈیوں سے ملی ہوئی ہو۔ ہم نے یہ سزا ان کو ان کی شرارت پر دی تھی اور ہم ہی یقینا سچے ہیں۔ من قبل یا حرمنا سے متعلق ہے۔ اس صورت میں ترجمہ ہوگا۔ اس سے قبل ہم نے یہودیوں پر وہ چیزیں حرام کی تھیں جن کا ذکر ہم نے تجھ سے کیا ہے۔ یا یہ قصصنا سے متعلق ہے اور ترجمہ یوں ہے ہم نے یہودیوں پر وہ چیزیں حرام قرار دے دی تھیں جن کا ذکر ہم تجھ سے قبل ازیں کرچکے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 مطلب یہ ہے کہ اسلامی شریعت سے زائد یہودیوں کی شریعت میں جو چیزیں حرام پائی جاتی ہیں ان سے کوئی یہ نہ مجھے کہ یہ چیزیں ہمیشہ کے لئے بلکہ یہ تو وقتی طور پر یہودیوں کی اپنی شرارت اور سرکشی کی بدولت ان پر حرام کی گئی تھیں ورنہ ان کی حرمت ابدی نہیں ہے۔ (کذافی شوکانی دیکھئے سورة انعام)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

بنی اسرائیل پر یہ چیزین اس لئے حرام کی گئی تھیں کہ وہ مسلسل نافرمانی اور حدود سے تجاوز کرتے تھے اور یہ ان کی جانب سے خود پنے آپ پر ظلم تھا۔ اب اگر کسی نے برے کام پر اصرار نہ کیا اور جہالت سے سچے دل سے تائب ہوگیا تو اللہ غفور الرحیم ہے۔ اس کی رحمت کا دروازہ کھلا ہے۔ یہ آیت عام ہے یہودیوں کے لئے بھی تھی اور ان کے بعد آج مسلمانوں کے لئے بھی ہے۔ نیز آج یہودی اور غیر یہودی کافر اگر تائب ہوجائیں تو ان کے بھی تمام گناہ بخشے جائیں گے۔ اس مناسبت سے کہ بعض چیزیں یہودیوں پر کیوں حرام کی گئیں اور یہ کہ اہل مکہ کا دعویٰ یہ تھا کہ وہ دین ابراہیم پر ہیں اور جن چیزوں کو انہوں نے اپنے الہوں کے نام پر حرام قرار دیا ہے وہ احکام ان کو دین ابراہیم سے ملے ہیں۔ یہاں روئے سخن ابراہیم (علیہ السلام) اور دین ابراہیم کی طرف مڑ جاتا ہے کہ آپ کیا تھے اور آپ کا دین کیا تھا اور یہ کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حقیقی دین ابراہیم پر ہیں اور یہ کہ یہودیوں پر جو مخصوص چیزیں ان کے جرائم کی وجہ سے حرام ہوئیں وہ دین ابراہیم میں حرام نہ تھیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد ارشاد فرمایا (وَ عَلَی الَّذِیْنَ ھَادُوْا حَرَّمْنَا مَا قَصَصْنَا عَلَیْکَ مِنْ قَبْلُ ) (اور ہم نے یہودیوں پر وہ چیزیں حرام کردی تھیں جن کا بیان ہم پہلے آپ سے کرچکے ہیں) سورة انعام کے رکوع نمبر ١٨ میں اس کا ذکر ہے آیت شریفہ (وَ عَلَی الَّذِیْنَ ھَادُوْا حَرَّمْنَا کُلَّ ذِیْ ظُفُرٍ ) کا مطالعہ کرلیا جائے، چونکہ ان کی شرارتیں اور معصیتیں بہت زیادہ تھیں اور ظلم کرتے تھے اللہ کی راہ سے روکتے تھے اور سود کھاتے تھے اس لیے پاکیزہ چیزیں ان پر حرام کردی گئی تھیں جس کا ذکر سورة النساء کے رکوع نمبر ٢٢ میں فرمایا ہے آیت کریمہ (فَبِظُلْمٍ مِنَ الَّذِیْنَ ھَادُوْا) کی تفسیر ملاحظہ کرلی جائے چونکہ یہ سزا ان کے کرتوتوں کی وجہ سے دی گئی تھی اس لیے فرمایا (وَ مَا ظَلَمَھُمُ اللّٰہُ وَ لٰکِنْ اَنْفُسَھُمْ یَظْلِمُوْنَ )

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

97:۔ یہ سوال مقدر کا جواب ہے۔ سوال یہ تھا کہ اگر یہ چیزیں حلال ہیں تو پھر یہودیوں پر کیوں حرام کی گئیں۔ یہود پر اونٹ کا گوشت حرام تھا اور یہ بحیرہ، سائبہ، وصیلہ اور حام سب اونٹ ہی کی قسمیں ہیں۔ تو اس کا جواب دیا گیا کہ یہ چیزیں اصل میں تھیں تو حلال مگر ہم نے یہود کو ان کی سرکشی کی سزا دینے کے لیے یہ جانور ان پر حرام کردئیے۔ ” ما قصصنا علیک من قبل “ سے سورة انعام کی اس آیت کی طرف اشارہ ہے۔ ” و علی الذین ھادوا حرمنا کل ذی ظفر الایۃ “ (انعام رکوع 18) ۔ ” و ما طلمناھم الخ “ اور یہ حلال چیزیں ان پر حرام کر کے ہم نے ان پر کوئی زیادتی نہیں کی بلکہ یہ ان کی سرکشی اور بغاوت کی سزا ہے جیسا کہ سورة انعام کی آیت مذکورہ کے آخر میں فرمایا۔ ” ذلک جزینھم ببغیھم و انا لصدقون “ اور سورة نساء رکوع 22 میں فرمایا ” فبظلم من الذین ھادوا حرمنا علیھم طیبت احلت لھم و بصدھم عن سبیل اللہ “۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

118 ۔ اور اے پیغمبر ہم نے صرف ان لوگوں پر جو یہودی تھے یہ چیزیں حرام کردی تھیں جن کا ذکر ہم اس سے پہلے یعنی سورة انعام میں آپ سے کرچکے ہیں اور ہم نے ان یہود کے ساتھ کوئی زیادتی اور ناانصافی نہیں کی بلکہ وہی خود اپنے اوپر ظلم کیا کرتے تھے ۔ یعنی یہی لوگ ملت ابراہیمی کی مخالفت کی وجہ سے اپنے اوپر ظلم کیا کرتے تھے ۔ ان کی اس مخالفت کے باعث ہم نے ان پر بعض چیزیں حرام کردی تھیں۔ فبظلم من الذین ھادو احرمنا علیھم طیبات احلت لھم یہی ان کا ظلم تھا کہ وہ انبیاء سابقین کی مخالفت کیا کرتے تھے ۔ خلاصہ یہ ہے کہ یہود پر جو بعض چیزیں حرام ہوئی تھیں وہ تحریم ہماری جانب سے تھی اور کفار مکہ جو کچھ کر رہے ہیں وہ محض اپنی جانب سے اختراع کر رہے ہیں اس لئے ایک کو دوسرے پر قیاس کرنا غلط ہے۔