Surat un Nahal

Surah: 16

Verse: 120

سورة النحل

اِنَّ اِبۡرٰہِیۡمَ کَانَ اُمَّۃً قَانِتًا لِّلّٰہِ حَنِیۡفًا ؕ وَ لَمۡ یَکُ مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ ﴿۱۲۰﴾ۙ

Indeed, Abraham was a [comprehensive] leader, devoutly obedient to Allah , inclining toward truth, and he was not of those who associate others with Allah .

بیشک ابراہیم پیشوا اور اللہ تعالٰی کے فرمانبردار اور ایک طرفہ مخلص تھے ۔ وہ مشرکوں میں سے نہ تھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah says: إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَانِتًا لِلّهِ حَنِيفًا وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ

جد از انبیاء حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ و السلام ہدیات کے امام امام حنفا ، والد انبیاء ، خلیل الرحمان ، رسول جل وعلا ، حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ و التسلیم کی تعریف بیان ہو رہی ہے اور مشرکوں یہودیوں اور نصرانیوں سے انہیں علیحدہ کیا جا رہا ہے ۔ امتہ کے معنی امام کے ہیں جن کی اقتدا کی جائے قانت کہتے ہیں اطاعت گزار فرماں بردار کو ، حنیف کے معنی ہیں شرک سے ہٹ کر توحید کی طرف آ جانے والا ۔ اسی لئے فرمایا کہ وہ مشرکوں سے بیزار تھا ۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جب امت قانت کے معنی دریافت کئے گئے تو فرمایا لوگوں کو بھلائی سکھانے والا اور اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ماتحتی کرنے والا ۔ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں امت کے معنی ہیں لوگوں کے دین کا معلم ۔ ایک مرتبہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ حضرت معاذ امت قانت اور حنیف تھے اس پر کسی نے اپنے دل میں سوچا کہ عبداللہ غلطی کر گئے ایسے تو قرآن کے مطابق حضرت خلیل الرحمن تھے ۔ پھر زبانی کہا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کو امت فرمایا ہے تو آب نے فرمایا جانتے بھی ہو امت کے کیا معنی ؟ اور قانت کے کیا معنی ؟ امت کہتے ہیں اسے جو لوگوں کو بھلائی سکھائے اور قانت کہتے ہیں اسے جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں لگا رہے ۔ بیشک حضرت معاذ ایسے ہی تھے ۔ حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں وہ تنہا امت تھے اور تابع فرمان تھے ۔ وہ اپنے زمانہ میں تنہا موحد و مومن تھے ۔ باقی تمام لوگ اس وقت کافر تھے ۔ قتادہ فرماتے ہیں وہ ہدایت کے امام تھے اور اللہ کے غلام تھے ۔ اللہ کی نعمتوں کے قدر دان اور شکر گزار تھے اور رب کے تمام احکام کے عامل تھے جیسے خود اللہ نے فرمایا جد از انبیاء حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ و السلام ہدیات کے امام٭٭ امام حنفائ ، والد انبیائ ، خلیل الرحمان ، رسول جل وعلا ، حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ و التسلیم کی تعریف بیان ہو رہی ہے اور مشرکوں یہودیوں اور نصرانیوں سے انہیں علیحدہ کیا جا رہا ہے ۔ امتہ کے معنی امام کے ہیں جن کی اقتدا کی جائے قانت کہتے ہیں اطاعت گذار فرماں بردار کو ، حنیف کے معنی ہیں شرک سے ہٹ کر توحید کی طرف آ جان والا ۔ اسی لئے فرمایا کہ وہ مشرکوں سے بیزار تھا ۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جب امت قانت کے معنی دریافت کئے گئے تو فرمایا لوگوں کو بھلای سکھانے والا اور اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ماتحتی کرنے والا ۔ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں امت کے معنی ہیں لوگوں کے دین کا معلم ۔ ایک مرتبہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ حضرت معاذ امت قانت اور حنیف تھے اس پر کسی نے اپنے دل میں سوچا کہ عبداللہ غلطی کر گئے ایسے تو قرآن کے مطابق حضرت خلیل الرحمن تھے ۔ پھر زبانی کہا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کو امت فرمایا ہے تو آب نے فرمایا جانتے بھی ہو امت کے کیا معنی ؟ اور قانت کے کیا معنی ؟ امت کہتے ہیں اسے جو لوگوں کو بھلائی سکھائے اور قانت کہتے ہیں اسے جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں لگا رہے ۔ بیشک حضرت معاذ ایسے ہی تھے ۔ حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں وہ تنہا امت تھے اور تابع فرمان تھے ۔ وہ اپنے زمانہ میں تنہا موحد ومومن تھے ۔ باقی تمام لوگ اس وقت کافر تھے ۔ قتادہ فرماتے ہیں وہ ہدایت کے امام تھے اور اللہ کے غلام تھے ۔ اللہ کی نعمتوں کے قدرداں اور شکر گزار تھے اور رب کے تمام احکام کے عامل تھے جیسے خود اللہ نے فرمایا وابراہیم الذی وفی وہ ابراہیم جس نے پورا کیا یعنی اللہ کے تمام احکام کو تسلیم کیا ۔ اور ان پر علم بجا لایا ۔ اسے اللہ نے مختار اور مصطفی بنالیا ۔ جیسے فرمان ہے ولقد اتینا ابراہیم رشدہ الخ ہم نے پہلے ہی سے ابراہیم کو رشد و ہدایت دے رکھی تھی اور ہم اسے خوب جانتے تھے ۔ اسے ہم نے راہ مستقیم کی رہبری کی تھی صرف ایک اللہ وحدہ لا شریک لہ کی وہ عبادت واطاعت کرتے تھے اور اللہ کی پسندیدہ شریعت پر قائم تھے ۔ ہم نے انہیں دین دنیا کی خبر کا جامع بنایا تھا اپنی پاکیزہ زندگی کے تمام ضروری اوصاف حمیدہ ان میں تھے ۔ ساتھ ہی آخرت میں بھی نیکوں کے ساتھی اور صلاحیت والے تھے ۔ ان کا پاک ذکر دنیا میں بھی باقی رہا اور آخرت میں بڑے عظیم الشان درجے ملے ۔ ان کے کمال ، ان کی عظمت ، ان کی محبت ، توحید اور ان کے پاک طریق پر اس سے بھی روشنی پڑتی ہے کہ اے خاتم رسل اے سیدالانبیاءتجھے بھی ہمارا حکم ہو رہا ہے کہ ملت ابراہیم حنیف کی پیروی کر جو مشرکوں سے بری الذمہ تھا ۔ سورہ انعام میں ارشاد ہے ۔ قل اننی ہدانی ربی الا صراط مستقیم الخ کہہ دے کہ مجھے میرے رب نے صراط مستقیم کی رہبری کی ہے ۔ مضبوط اور قائم دین ابراہیم حنیف کی جو مشرکوں میں نہ تھا ۔ پھر یہودیوں پر انکار ہو رہا ہے اور فرمایا جا رہا ہے ۔ آیت ( وابراہیم الذی وفی ) وہ ابراہیم جس نے پورا کیا یعنی اللہ کے تمام احکام کو تسلیم کیا ۔ اور ان پر علم بجا لایا ۔ اسے اللہ نے مختار اور مصطفی بنا لیا ۔ جیسے فرمان ہے ( وَلَـقَدْ اٰتَيْنَآ اِبْرٰهِيْمَ رُشْدَهٗ مِنْ قَبْلُ وَكُنَّا بِهٖ عٰلِمِيْنَ 51؀ۚ ) 21- الأنبياء:51 ) ہم نے پہلے ہی سے ابراہیم کو رشد و ہدایت دے رکھی تھی اور ہم اسے خوب جانتے تھے ۔ اسے ہم نے راہ مستقیم کی رہبری کی تھی صرف ایک اللہ وحدہ لا شریک لہ کی وہ عبادت و اطاعت کرتے تھے اور اللہ کی پسندیدہ شریعت پر قائم تھے ۔ ہم نے انہیں دین دنیا کی خبر کا جامع بنایا تھا اپنی پاکیزہ زندگی کے تمام ضروری اوصاف حمیدہ ان میں تھے ۔ ساتھ ہی آخرت میں بھی نیکوں کے ساتھی اور صلاحیت والے تھے ۔ ان کا پاک ذکر دنیا میں بھی باقی رہا اور آخرت میں بڑے عظیم الشان درجے ملے ۔ ان کے کمال ، ان کی عظمت ، ان کی محبت ، توحید اور ان کے پاک طریق پر اس سے بھی روشنی پڑتی ہے کہ اے خاتم رسل اے سید الانبیاء تجھے بھی ہمارا حکم ہو رہا ہے کہ ملت ابراہیم حنیف کی پیروی کر جو مشرکوں سے بری الذمہ تھا ۔ سورہ انعام میں ارشاد ہے ۔ آیت ( قُلْ اِنَّنِيْ هَدٰىنِيْ رَبِّيْٓ اِلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ ڬ دِيْنًا قِــيَمًا مِّلَّةَ اِبْرٰهِيْمَ حَنِيْفًا ۚ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ ١٦١؁ ) 6- الانعام:161 ) کہہ دے کہ مجھے میرے رب نے صراط مستقیم کی رہبری کی ہے ۔ مضبوط اور قائم دین ابراہیم حنیف کی جو مشرکوں میں نہ تھا ۔ پھر یہودیوں پر انکار ہو رہا ہے اور فرمایا جا رہا ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

120۔ 1 اُ مَّۃٌ کے معنی پیشوا اور قائد کے بھی ہیں۔ جیسا کہ ترجمے سے واضح ہے اور امت بمعنی امت بھی ہے، اس اعتبار سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا وجود ایک امت کے برابر تھا۔ (امت کے معانی کے لئے (وَلَىِٕنْ اَخَّرْنَا عَنْهُمُ الْعَذَابَ اِلٰٓى اُمَّةٍ مَّعْدُوْدَةٍ لَّيَقُوْلُنَّ مَا يَحْبِسُهٗ ۭ اَلَا يَوْمَ يَاْتِيْهِمْ لَيْسَ مَصْرُوْفًا عَنْهُمْ وَحَاقَ بِهِمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ يَسْتَهْزِءُوْنَ ) 11 ۔ ہود :8) کا حاشیہ دیکھئے)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٢٣] سیدنا ابراہیم کی صفات اور مشرکین کے افعال :۔ مشرکین مکہ چونکہ اپنے آپ کو سیدنا ابراہیم کا پیرو کار بتاتے تھے اسی نسبت سے اللہ تعالیٰ نے یہاں سیدنا ابراہیم کا ذکر اور ان کے اوصاف بیان فرمائے ان کی سب سے نمایاں اور پہلی صفت یہ ہے کہ وہ باطل کے مقابلہ میں اکیلے ہی ڈٹ گئے تھے۔ ایک طرف کفر و شرک کی علمبردار پوری کی پوری قوم تھی دوسری طرف توحید کا علمبردار صرف فرد واحد تھا۔ اور اس نے اتنا کام کر دکھایا جتنا ایک پوری امت یا ادارے کا ہوتا ہے یہ تو ان کے عزم و ثبات کا حال تھا اور عقائد و اعمال کا یہ حال تھا کہ انہوں نے ہر طرح کے سہارے چھوڑ کر ایک اللہ ہی کی طرف رجوع کرلیا تھا اور اللہ کی فرمانبرداری کا یہ حال تھا کہ وہ اسی کے ہی ہو کے رہ گئے تھے اور اس راہ میں انھیں اپنی جان تک کی پروا نہ رہی تھی اور شرک تو انہوں نے نبوت سے پہلے بھی کبھی نہ کیا تھا۔ بعد میں تو کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اب تم خود سوچ لو کہ تم ان کے پیروکار ہونے کے دعوے میں کس قدر حق بجانب ہو۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا ۔۔ : ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی : (قَالُوْا بَلْ وَجَدْنَآ اٰبَاۗءَنَا كَذٰلِكَ يَفْعَلُوْن) [ الشعراء : ٨٤ ] ” اور پیچھے آنے والوں میں میرے لیے سچی ناموری رکھ۔ “ اس لیے مشرکین مکہ، یہود اور نصاریٰ میں سے ہر ایک ابراہیم (علیہ السلام) کی عزت و تکریم کرنے والا اور ان کی ملت کا متبع ہونے کا دعوے دار تھا، چناچہ فرمایا : (وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْاٰخِرِيْنَ ١٠٨؀ۖسَلٰمٌ عَلٰٓي اِبْرٰهِيْمَ ) [ الصافات : ١٠٨، ١٠٩ ] ” اور پیچھے آنے والوں میں اس کے لیے یہ بات چھوڑی کہ ابراہیم پر سلام ہو۔ “ یعنی بعد میں آنے والے سب لوگ ان پر سلام بھیجیں گے، اس لیے اللہ نے ابراہیم (علیہ السلام) کی صفات اور ان کا منہج بیان فرمایا، جس سے واضح ہو رہا ہے کہ ان لوگوں میں سے کوئی بھی ملت ابراہیم پر قائم نہیں ہے۔ اُمَّةً : اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کی پہلی صفت ” اُمَّةً “ بیان فرمائی۔ اس آیت میں لفظ ” اُمَّةً “ کا معنی پیشوا اور امام بھی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (اِنِّىْ جَاعِلُكَ للنَّاسِ اِمَامً ) [ البقرۃ : ١٢٤ ] ” بیشک میں تجھے لوگوں کا امام بنانے والا ہوں۔ “ اور یہ بھی کہ وہ اکیلے ہی ایک امت (جماعت) تھے، کیونکہ اکیلے ہی میں اتنے کمالات تھے جو ایک جماعت میں ہوتے ہیں اور اکیلے شخص نے اتنا کام کیا جو ایک امت کے برابر تھا۔ تیسرا معنی یہ کہ ایک مدت تک اکیلے ہی وہ اور ان کی بیوی امت مسلمہ تھے، جیسا کہ جبار مصر اور سارہ[ کے واقعہ میں ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے سارہ[ سے کہا کہ اس وقت اس سرزمین میں میرے اور تمہارے سوا کوئی مومن نہیں، سو تم ایمان میں میری بہن ہو۔ [ بخاری : ٣٣٥٨ ] دوسری صفت ” قَانِتًا لِّلّٰهِ “ بیان فرمائی، یعنی اللہ کے فرماں بردار نہایت عاجزی کے ساتھ، کیونکہ ان دونوں کے مجموعی مفہوم کو قنوت کہتے ہیں۔ ” حَنِيْفًا “ تیسری صفت ہے، ” حَنَفٌ“ کا معنی ہے ایک طرف جھک جانا، یعنی تمام باطل دینوں سے ہٹ کر حق کی طرف مائل ہونے والا، تمام خداؤں کا انکار کرکے صرف ایک اللہ کی طرف ہوجانے والا۔ جس کی قولی، بدنی اور مالی عبادت، زندگی اور موت سب ایک اللہ کے لیے تھے۔ دیکھیے سورة انعام (١٦١ تا ١٦٣) ۔ وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ : یہ مشرکین مکہ اور یہود و نصاریٰ پر تعریض اور ان سب کے ابراہیمی ہونے کے دعویٰ کی نفی کا اظہار ہے کہ وہ تو مشرکوں میں سے نہیں تھے، جب کہ تم سب بتوں کو یا قبروں کو، عزیر یا عیسیٰ (علیہ السلام) کو اور اپنے احبارو رہبان کو رب بنا کر شرک میں گرفتار ہوچکے ہو۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Sequence of Verses Refuted in the previous verses was the root of Shirk and Kufr which is rejection of the reality of Allah&s Oneness and the rejection of the mandate given by Him to His prophet. Also refuted there were some off-shoots of Kufr and Shirk in the form of legalizing the illegal and illegalizing the legal, a virtual reversal of Divinely ordained arrangements. Since the Mushriks of Makkah who were the first direct addressees of the Holy Qur’ an and who, despite their infidelity and idol-worship, claimed that they were adherents of the great community of Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) and that what they did was all in accordance with his teachings, it was also taken up as due. The rejection of their position came on the basis of what they already believed in. So, in the first (120) of the five verses cited above, it was said that Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) was the foremost universal leader of nations with the high station of a prophet and messenger of Allah. This proves that he was a great prophet and messenger. Then, by saying: وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِ‌كِينَ (and he was not among the Mushriks...121) along with it, his being a torch bearer of the most perfect belief in the Oneness of Allah was confirmed. And in the second verse (121), by saying that he was grateful to Allah and was on the straight path, a warning signal was given to his adversaries who claimed to be his followers - how could they, being as ungrateful as they were, had the cheek to call themselves his adherents and followers? After that it was said in the third verse (122) that Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) was successful in Dunya and &Akhirah and then it was said in the fourth verse (123) that the prophetic mission of Sayyidna Muhammad al-Musta¬fa (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was true and that he was truly committed to the ideal of the authentic community of Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) . After having stated these two premises, the instruction given was: your claim cannot be correct without faith in and obedience to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . In the fifth verse (124): إِنَّمَا جُعِلَ السَّبْتُ (The Sabbath was appointed only for those...) the hint given is that good things you, on your own, have made unlawful for yourself were really not unlawful in the community of Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) . Commentary The word: اُمَّہ (ummah) has a few other meanings, but the well-known sense is that of community, nation, or group of people. At this place, this is what it means - as reported from Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) . The sense is that Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) is, in his person, a community, a nation, almost a compendium of their perfections and merits. There is another meaning of the word: اُمَّہ (ummah), that of the leader of a community, someone imbibing in his person many perfections. Some commentators have taken exactly this meaning of the word at this place. And the word: قَانِت (qanit) in verse 120 means obedient to the command (of his Creator). Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) has distinct status in these two qualities. As for being a leader, people from all famous Faiths of the world believe in him and consider it an honour to be the followers of his community. Of course, the Jews, the Christians and the Muslims revere him. Even the Mushriks of Arabia, despite their idol-worship, felt proud to believe in him and in (supposedly) following his way (the way of someone who was the foremost idol-breaker in human annals) ! As for the signal distinction of his being &qanit& (obedient), it becomes crystal clear from the trials this &friend& (khalil) of Allah has gone through. Imagine the fire of Namrud (Nimrod), the Command to go elsewhere leaving behind his family in a wilderness, and then, his being ready to sacrifice his very dear son. All these are singularities because of which Allah Ta’ ala has honoured him with such epithets.

خلاصہ تفسیر : ربط آیات : پچھلی آیات میں اصول شرک و کفر یعنی انکار توحید و انکار رسالت پر رد اور کفر و شرک کے بعض فروع یعنی تحلیل حرام اور تحریم حلال پر رد وابطال کی تفصیل تھی اور مشرکین مکہ مکرمہ جو قرآن کریم کے پہلے اور بلاواسطہ مخاطب تھے اپنے کفر وبت پرستی کے باوجود دعوی یہ کرتے تھے کہ ہم ملت ابراہیمی کے پابند ہیں اور ہم جو کچھ کرتے ہیں یہ سب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی تعلیمات ہیں اس لئے مذکورہ چار آیتوں میں ان کے اس دعوے کی تردید اور انہی کے مسلمات سے ان کے جاہلانہ خیالات کا ابطال اس طرح کیا گیا کہ مذکورہ پانچ آیتوں میں سے پہلی آیت میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا تمام اقوام عالم کا مسلم مقتدا ہونا بیان فرمایا جو نبوت و رسالت کا اعلی مقام ہے اس سے ان کا عظیم الشان نبی و رسول ہونا ثابت ہوا اس کے ساتھ ہی مَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ سے ان کا کامل توحید پر ہونا بیان فرمایا۔ اور دوسری آیت میں ان کا شکرگزار اور صراط مستقیم پر ہونا بیان فرما کر ان کو تنبیہ کی کہ تم اللہ تعالیٰ کی ناشکری کرتے ہوئے اپنے کو ان کا متبع کس زبان سے کہتے ہو ؟ تیسری آیت میں ان کا دنیا وآخرت میں کامیاب و بامراد ہونا اور چوتھی آیت میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت و رسالت کے اثبات کے ساتھ آپ کا صحیح ملت ابراہیم (علیہ السلام) کا پابند ہونا بیان فرما کر یہ ہدایت کی گئی کہ اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو تو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان اور آپ کی اطاعت کے بغیر یہ دعوی صحیح نہیں ہوسکتا۔ پانچویں آیت اِنَّمَا جُعِلَ السَّبْتُ میں اشارہ یہ بیان فرمایا کہ ملت ابراہیمی میں اشیاء طیبہ حرام نہیں تھیں جن کو تم نے خود اپنے اوپر حرام کرلیا ہے مختصر تفسیر آیات مذکورہ کی یہ ہے۔ بیشک ابراہیم (علیہ السلام جن کو تم بھی مانتے ہو) بڑے مقتدا (یعنی نبی اولو العزم اور امت عظیمہ کے متبوع ومقتدا) اللہ تعالیٰ کے (پورے) فرمانبردار تھے (ان کا کوئی عقیدہ یا عمل اپنی خواہش نفسانی سے نہ تھا پھر تم اس کے خلاف محض اپنے نفس کی پیروی سے اللہ کے حرام کو حلال اور حلال کو حرام کیوں ٹھہراتے ہو اور وہ) بالکل ایک (خدا) کی طرف ہو رہے تھے (اور مطلب ایک طرف ہونے کا یہ ہے کہ) وہ شرک کرنے والوں میں سے نہ تھے (تو پھر تم شرک کیسے کرتے ہو اور وہ) اللہ کی نعمتوں کے (بڑے) شکر گذار تھے (پھر تم شرک و کفر میں مبتلا ہو کر ناشکری کیوں کرتے ہو غرض ابراہیم (علیہ السلام) کی یہ شان اور طریقہ تھا اور وہ ایسے مقبول تھے کہ) اللہ تعالیٰ نے ان کو منتخب کرلیا تھا اور ان کو سیدھے راہ پر ڈال دیا تھا اور ہم نے ان کو دنیا میں بھی خوبیاں (مثل نبوت و رسالت میں منتخب ہونا اور ہدایت پر ہونا وغیرہ) دی تھیں اور وہ آخرت میں بھی (اعلی درجہ کے) اچھے لوگوں میں ہوں گے (اس لئے تم سب کو انہی کا طریقہ اختیار کرنا چاہئے اور وہ طریقہ اب منحصر ہے طریقہ محمدیہ ہیں جس کا بیان یہ ہے کہ) پھر ہم نے آپ کے پاس وحی بھیجی کہ آپ ابراہیم (علیہ السلام) کے طریقہ پر جو کہ بالکل ایک (خدا) کی طرف ہو رہے تھے چلئے (اور چونکہ اس زمانہ کے وہ لوگ جو ملت ابراہیمی کے اتباع کے مدعی تھے کچھ نہ کچھ شرک میں مبتلا تھے۔ اس لئے مکرر فرمایا کہ) وہ شرک کرنے والوں میں سے نہ تھے (تاکہ بت پرستوں کے ساتھ یہود و نصاریٰ کے موجودہ طریقہ پر بھی رد ہوجائے جو شرک سے خالی نہ تھے اور چونکہ یہ لوگ تحریم طیبات کی جاہلانہ و مشرکانہ رسوم میں مبتلا تھے اس لئے فرمایا کہ) پس ہفتہ کی تعظیم (یعنی ہفتہ کے روز مچھلی کے شکار کی ممانعت جو تحریم طیبات کی ایک فرد ہے وہ تو) صرف انہی لوگوں پر لازم کی گئی تھی جنہوں نے اس میں (عملا) خلاف کیا تھا (کہ کسی نے مانا اور عمل کیا کسی نے اس کے خلاف کیا مراد اس سے یہود ہیں کہ تحریم طیبات کی یہ صورت مثل دوسری صورتوں کے صرف یہود کے ساتھ مخصوص تھی ملت ابراہیمی میں یہ چیزیں حرام نہیں تھیں آگے احکام الہیہ میں اختلاف کرنے کے متعلق فرماتے ہیں کہ) بیشک آپ کا رب قیامت کے دن ان میں باہم (عملا) فیصلہ کر دے گا جس بات میں یہ (دنیا میں) اختلاف کیا کرتے تھے۔ معارف و مسائل : لفظ امت چند معانی کے لئے استعمال ہوتا ہے مشہور معنی جماعت اور قوم کے ہیں حضرت ابن عباس (رض) سے اس جگہ یہی معنی منقول ہیں اور مراد یہ ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) تنہا ایک فرد ایک امت اور قوم کے کمالات و فضائل کے جامع ہیں اور ایک معنی لفظ امت کے مقتدائے قوم اور جامع کمالات کے بھی آتے ہیں بعض مفسرین نے اس جگہ یہی معنی لئے ہیں اور قانت کے معنی تابع فرمان کے ہیں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ان دونوں وصفوں میں خاص امتیاز رکھتے ہیں مقتدا ہونے کا تو یہ عالم ہے کہ پوری دنیا کے تمام مشہور مذاہب کے لوگ سب آپ پر اعتقاد رکھتے ہیں اور آپ کی ملت کے اتباع کو عزت وفخر جانتے ہیں یہود نصاری مسلمان تو ان کی تعظیم و تکریم کرتے ہی ہیں مشرکین عرب بت پرستی کے باوجود اس بت شکن کے معتقد اور ان کی ملت پر چلنے کو اپنا فخر جانتے ہیں اور قانت ومطیع ہونے کا خاص امتیاز ان امتحانات سے واضح ہوجاتا ہے جن سے اللہ کے یہ خلیل گذرے ہیں آتش نمرود اہل و عیال کو لق ودق جنگل میں چھوڑ کر چلے جانے کا حکم پھر آرزؤں سے حاصل ہونے والے بیٹے کی قربانی پر آمادگی یہ سب وہ امتیازات ہیں جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو ان القاب سے معزز فرمایا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِّلّٰهِ حَنِيْفًا ۭ وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ ١٢٠؀ۙ قنت القُنُوتُ : لزوم الطّاعة مع الخضوع، وفسّر بكلّ واحد منهما في قوله تعالی: وَقُومُوا لِلَّهِ قانِتِينَ [ البقرة/ 238] ، وقوله تعالی: كُلٌّ لَهُ قانِتُونَ [ الروم/ 26] قيل : خاضعون، وقیل : طائعون، وقیل : ساکتون ولم يعن به كلّ السّكوت، وإنما عني به ما قال عليه الصلاة والسلام : «إنّ هذه الصّلاة لا يصحّ فيها شيء من کلام الآدميّين، إنّما هي قرآن وتسبیح» «1» ، وعلی هذا قيل : أيّ الصلاة أفضل ؟ فقال : «طول القُنُوتِ» «2» أي : الاشتغال بالعبادة ورفض کلّ ما سواه . وقال تعالی: إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً قانِتاً [ النحل/ 120] ، وَكانَتْ مِنَ الْقانِتِينَ [ التحریم/ 12] ، أَمَّنْ هُوَ قانِتٌ آناءَ اللَّيْلِ ساجِداً وَقائِماً [ الزمر/ 9] ، اقْنُتِي لِرَبِّكِ [ آل عمران/ 43] ، وَمَنْ يَقْنُتْ مِنْكُنَّ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ [ الأحزاب/ 31] ، وقال : وَالْقانِتِينَ وَالْقانِتاتِ [ الأحزاب/ 35] ، فَالصَّالِحاتُ قانِتاتٌ [ النساء/ 34] . ( ق ن ت ) القنوت ( ن ) کے معنی خضوع کے ساتھ اطاعت کا التزام کرنے کے ہیں اس بناء پر آیت کریمہ : وَقُومُوا لِلَّهِ قانِتِينَ [ البقرة/ 238] اور خدا کے آگے ادب کھڑے رہا کرو ۔ میں برض نے قانیتین کے معنی طائعین کئے ہیں یعنی اطاعت کی ھالت میں اور بعض نے خاضعین یعنی خشوع و خضوع کے ساتھ اسی طرح آیت کریمہ كُلٌّ لَهُ قانِتُونَ [ الروم/ 26] سب اس کے فرمانبردار ہیں ۔ میں بعض نے قنتون کے معنی خاضعون کئے ہیں اور بعض نے طائعون ( فرمانبرادار اور بعض نے ساکتون یعنی خاموش اور چپ چاپ اور اس سے بالکل خاموش ہوکر کھڑے رہنا مراد نہیں ہے بلکہ عبادت گذاری میں خاموشی سے ان کی مراد یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ( 87 ) کہ نماز ( تلاوت قرآن اور اللہ کی تسبیح وتحمید کا نام ہے اور اس میں کسی طرح کی انسانی گفتگو جائز نہیں ہے ۔ اسی بناء پر جب آپ سے پوچھا گیا کہ کونسی نماز افضل تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ( 88 ) طول القنوت یعنی عبادت میں ہمہ تن منصروف ہوجانا اور اس کے ماسوا ست توجہ پھیرلینا قرآن میں ہے ۔ إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً قانِتاً [ النحل/ 120] بت شک حضرت ابراھیم لوگوں کے امام اور خدا کے فرمابنرداری تھے ۔ اور مریم (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : وَكانَتْ مِنَ الْقانِتِينَ [ التحریم/ 12] اور فرمانبرداری میں سے تھیں ۔ أَمَّنْ هُوَ قانِتٌ آناءَ اللَّيْلِ ساجِداً وَقائِماً [ الزمر/ 9] یا وہ جو رات کے وقتقں میں زمین پریشانی رکھ کر اور کھڑے ہوکر عبادت کرتا ہے ۔ اقْنُتِي لِرَبِّكِ [ آل عمران/ 43] اپنے پروردگار کی فرمانبرداری کرنا ۔ وَمَنْ يَقْنُتْ مِنْكُنَّ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ [ الأحزاب/ 31] اور جو تم میں سے خدا اور اسکے رسول کی فرمنبردار رہے گی ۔ وَالْقانِتِينَ وَالْقانِتاتِ [ الأحزاب/ 35] اور فرمانبرداری مرد اور فرمانبردار عورتیں ۔ فَالصَّالِحاتُ قانِتاتٌ [ النساء/ 34] تو جو نیک بیبیاں ہیں وہ مردوں کے حکم پر چلتی ہیں حنف الحَنَفُ : هو ميل عن الضّلال إلى الاستقامة، والجنف : ميل عن الاستقامة إلى الضّلال، والحَنِيف هو المائل إلى ذلك، قال عزّ وجلّ : قانِتاً لِلَّهِ حَنِيفاً [ النحل/ 120] ( ح ن ف ) الحنف کے معنی گمراہی سے استقامت کی طرف مائل ہونے کے ہیں ۔ اس کے بالمقابل حنف ہے جس کے معنی ہیں استقامت سے گمراہی کی طرف مائل ہونا ۔ الحنیف ( بروزن فعیل) جو باطل کو چھوڑ کر استقامت پر آجائے قرآن میں ہے :۔ قانِتاً لِلَّهِ حَنِيفاً [ النحل/ 120] اور خدا کے فرمانبردار تھے جو ایک کے ہور ہے تھے ۔ شرك وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان : أحدهما : الشِّرْكُ العظیم، وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] ، والثاني : الشِّرْكُ الصّغير، وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] ، ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ دین میں شریک دو قسم پر ہے ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ دوم شرک صغیر کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٢٠) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بڑے رہنما تھے اور اللہ تعالیٰ کے پورے فرمانبردار تھے اور سچے مسلمان تھے اور وہ مشرکین کے ساتھ ان کے دین پر نہیں تھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٢٠ (اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِّلّٰهِ حَنِيْفًا ۭ وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ ) اَمَّ یَوُمُّ کے لغوی معنی قصد کرنے کے ہیں۔ سورة یوسف (آیت ٤٥) میں اُمَّۃ کا لفظ وقت اور مدت کے لیے بھی استعمال ہوا ہے (وَادَّکَرَ بَعْدَ اُمَّۃٍ ) ۔ وقت اور زمانے کے بھی ہم پیچھے چلتے ہیں تو گویا اس کا قصد کرتے ہیں۔ اسی طرح راستے پر چلتے ہوئے بھی انسان اس کا قصد کرتا ہے۔ اس حوالے سے لفظ اُمَّۃ وقت اور راستے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ اسی طرح جب بہت سے لوگ ایک نظریے کا قصد کر کے اکٹھے ہوجائیں تو انہیں بھی اُمَّۃ کہا جاتا ہے ‘ یعنی ہم مقصد لوگوں کی جماعت۔ چناچہ اسی معنی میں سورة البقرۃ کی آیت ١٤٣ میں فرمایا گیا : (وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ ) ۔ اس لحاظ سے آیت زیرنظر میں لفظ امت کا مفہوم یہ ہوگا کہ حضرت ابراہیم ایک راستہ بنانے والے ‘ اور ایک ریت ڈالنے والے تھے ‘ اور اس طرح آپ اپنی ذات میں گویا ایک امت تھے۔ جب دنیا میں کوئی مسلمان نہ تھا اور پوری دنیا کفر کے راستے پر گامزن تھی تو آپ تن تنہا اسلام کے علمبردار تھے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

119. “Abraham was a whole community by himself” for at that time he was the only Muslim in the whole world who was upholding the banner of Islam, while the rest of the world was upholding the banner of unbelief. As that servant of Allah performed the mission which is ordinarily carried out by a whole community, he was not one person but an institution in himself.

سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :119 یعنی وہ اکیلا انسان بجائے خود ایک امت تھا ۔ جب دنیا میں کوئی مسلمان نہ تھا تو ایک طرف وہ اکیلا اسلام کا علمبردار تھا اور دوسری طرف ساری دنیا کفر کی علمبردار تھی ۔ اس اکیلے بندہ خدا نے وہ کام کیا جو ایک امت کے کرنے کا تھا ۔ وہ ایک شخص نہ تھا بلکہ ایک پورا ادارہ تھا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٢٠۔ ١٢٣۔ عرب اپنے کو ملت ابراہیمی پر کہتے تھے۔ اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کی نو صفتیں بیان فرمائیں تاکہ مشرکین مکہ قائل ہوں کہ ان میں ابراہیم (علیہ السلام) کی کوئی بھی صفت نہیں ہے پہلی صفت ابر اہیم (علیہ السلام) کی یہ ہے کہ ابراہیم اپنے اکیلے دم سے بجائے ایک امت کے تھے ان کے زمانہ میں سارے لوگ کافر تھے صرف ابراہیم (علیہ السلام) حق پرست تھے۔ مجاہد کہتے ہیں کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے وقت میں اکیلے آپ ہی مومن تھے۔ اس لئے اللہ پاک نے ان کے حق میں یہ فرمایا کہ ابراہیم اپنے دم سے خود ایک امت تھے دوسری صفت ابر اہیم (علیہ السلام) کی اللہ پاک نے یہ بیان کی کہ قانت تھے جس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کے پکے فرماں بردار تھے خدا کے ہر ایک امر کے مطیع اور ہر نبی سے باز رہنے والے تیسری صفت یہ بیان کی کہ ضعیف تھے جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی ذات میں کوٹ کوٹ کر توحید بھری ہوئی تھی۔ چوتھی صفت یہ بیان کی کہ وہ اپنی عمر کے کسی حصہ میں بھی شرک کرنے والوں میں نہیں تھے۔ بچپن اور کم سنی میں اپنی فطری عقل سے یہ قرار کیا کہ بت یا دوسرے معبودات جس کو مشرکین معبود مانتے ہیں وہ انہیں دوست نہیں رکھتے اور صاف کہہ دیا کہ لا احب الا فلین پھر اس پر اکتفا نہیں کیا بلکہ بت خانہ میں گھس کر بتوں کو توڑ ڈالا جس کے سبب سے آگ میں ڈالے گئے پانچویں صفت یہ بیان کی کہ خدا کی نعمتوں کے نہایت شکر گزار بندے تھے آپ کا قاعدہ تھا کہ بغیر مہمان کے کسی روز کھانا نہیں کھاتے تھے ایک روز کا ذکر ہے کہ کوئی مہمان آپ کے یہاں نہیں آیا آپ نے کھانے کے وقت سے زیادہ دیر تک انتظار کیا کہ شاید کوئی مہمان آجائے اتنے میں چند فرشتے انسان کی صورت میں آپ کے یہاں وارد ہوئے آپ نے انہیں کھانے کو بلایا انہوں نے ایک بہانہ آپ کے سامنے پیش کیا کہ ہمیں جذام ہے یہ سن کر ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اب تو ہم پر واجب ہوگیا کہ ہم تمہارے ساتھ کھانا کھائیں کیونکہ خدا کا یہ نہایت شکر ہے کہ اس نے ہمیں اس مرض سے محفوظ رکھا اور تم اس بلا میں گرفتار ہو چھٹی صفت یہ بیان کی کہ ابراہیم (علیہ السلام) کو اللہ پاک نے اپنی مخلوق کی ہدایت کے لئے منتخب کیا ساتویں صفت یہ بیان فرمائی کہ ابراہیم (علیہ السلام) کو اللہ جل شانہ نے دین اسلام کے سیدھے رستے کی ہدایت کی آٹھویں صفت یہ بیان کی کہ اللہ پاک نے ابراہیم (علیہ السلام) کو دنیا میں بہتری بخشی کہ سارے مذاہب و ملت کے لوگ آپ کو اچھے نام سے یاد کرتے ہیں کیا یہود کیا نصاری اور عرب کو تو خاص کر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی وجہ سے فخر حاصل ہے نویں صفت یہ بیان فرمائی کہ جس طرح دنیا میں ابراہیم (علیہ السلام) پر خدا کا فضل رہا ویسے ہی آخرت میں بھی خدا ان پر مہربان اور جنت میں ابراہیم (علیہ السلام) کو بڑا درجہ عطا کیا جاوے گا یہ صفات حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بیان فرما کر اللہ جل شانہ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کیا کہ اسی لئے اللہ نے تم پر وحی کے ذریعہ سے یہ حکم نازل کیا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کی ملت اور طریقے کو اختیار کرو وہ طریقہ شرک سے بالکل الگ ہے صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے ١ ؎۔ جس کے ایک ٹکڑے کا حاصل یہ ہے کہ دنیا میں جو شخص نیک راہ نکالے اس کو نیک راہ نکالنے کا اجر جدا دیا جاوے گا اور جتنے آدمی اس نیک راہ پر چلیں گے ان سب کے برابر اجر اس نیک راہ نکالنے والے کو جدا دیا جاوے گا حضرت ابرا ہیم (علیہ السلام) نے اپنی اولاد میں سے نبی آخر الزمان کے پیدا ہونے کی جو دعا کی تھی اس کا ذکر سورت بقرہ میں اور انہوں نے اپنی اولاد کے حق میں بت پرستی سے بچنے کی جو دعا کی تھی اس کا ذکر سورت ابراہیم میں گزر چکا ہے۔ مسند امام احمد کے حوالہ سے عرباض بن ساریہ (رض) کی معتبر حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے ٢ ؎۔ جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی پیدائش کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا کا اثر فرمایا ہے صحیح مسلم کے حوالہ سے جابر (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ کے بعد فرمایا کہ جزیرہ عرب کی بت پرستی سے شیطان اب مایوس ہوگیا۔ حاصل کلام یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ایک دعا کے اثر سے نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پیدا ہونا اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ہی دوسری دعا کے اثر سے بنی اسماعیل کی بت پرستی سے شیطان کا مایوس ہوجانا اس سب کا اجر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ملنے والا ہے جو بت پرستی سے بچنے والی ایک امت کے اجر کے برابر ہے اسی واسطے اجر کے حساب سے اکیلے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ایک امت فرمایا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد ابراہیمی گھرانہ سے کہیں نبوت کے باہر نہ جانے کا وعدہ جو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے کیا اس کا ذکر سورت بقرہ میں گزر چکا اور اس وعدہ کا ظہور سب کی آنکھوں کے سامنے ہے کہ ایک مدت تک اسحاق بن ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں نبوت رہی اور پھر اسماعیل بن ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں نبوت کا خاتمہ ہوا۔ یہ حالت واتیناہ فی الدنیا حسنہ کی گویا تفسیر ہے معراج کی صحیح حدیثوں میں ہے کہ معراج کی رات حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابراہیم (علیہ السلام) کو سب انبیاء سے اوپر ساتویں آسمان پر دیکھا یہ حالت وانہ فی الاخوۃ لمن الصالحین کی گویا تفسیر ہے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دین ابراہیمی پر چلنے کا جو حکم ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن شریف سے دین ابراہیمی کے جو مسئلے منسوخ نہیں ہوئے ان پر چلنا چاہیے۔ ١ ؎ جلد ہذا ص ٣٦٠۔ ٢ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٥٩١ ج ٢۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(16:120) امۃ۔ یعنی اللہ کی عبادت و فرمانبرداری اور طاعات وحسنات میں پوری ایک جماعت کے برابر اور قائم مقام۔ دوسرے معنی میں امام یا مقتدا کے ہیں جو امور خیر میں بطور نمونہ کام دے۔ علمبردار صداقت وحق۔ نیز جو دنیا بھر سے الگ تھلگ ہو۔ اس قوم کو بھی امۃ کہتے ہیں جس کی طرف کوئی رسول بھیجا گیا ہو۔ جماعت ۔ طریقہ۔ دین اور مدت کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ ہر وہ جماعت کہ جس میں کسی قسم کا کوئی رابطۂ اشتراک موجود ہے اسے بھی امت کہا جاتا ہے خواہ یہ اتحادواشتراک مذہبی وحدت کی بنا پر ہو یا جغرافیائی اور عصری وحدت کی وجہ سے ہو۔ قانتا۔ قنوت سے اسم فاعل۔ حالت نصب۔ فرماں بردار۔ اطاعت گذار۔؎ القنوت (باب نصر) کے معنی خضوع کے ساتھ اطاعت کا التزام کرنے کے ہیں جیسے کہ وقوموا للہ قنتین (2:238) اور خدا کے حضور ادب سے کھڑے رہا کرو۔ خشوع اور خضوع اور خاموشی کے ساتھ۔ حنیفا۔ یکسوئی سے حق کی طرف مائل ہونے والا۔ سب سے بےتعلق ہو کر ایک خدا کا ہو رہنے والا۔ حنیف کی جمع حنفائ۔ ہر وہ شخص جو بیت اللہ کا حج کرتا اور ختنہ کراتا۔ عرب کے لوگ اسے حنیف کہہ کر پکارتے تھے۔ یعنی یہ دین ابراہیم کا پابند ہے۔ امۃ۔ قانتا۔ حنیفا۔ شاکرا بوجہ عمل کان منصوب ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

(رکوع نمبر ١٦) اسرارومعارف مشرکین عرب ہوں یا یہود ونصاری ان کا خود کو ابراہیم (علیہ السلام) کا متبع قرار دینا اور ان عقائد و اعمال کے ساتھ ہرگز زیب نہیں دیتا کہ وہ تو بلاشبہ ایک بہت عظیم پیشوا اور اللہ کریم کے اطاعت گذار بندے تھے ان کا تو کوئی عقیدہ یا عمل خود ساختہ نہ تھا جبکہ تمہارا سارا مذہب ایجاد بندہ ہے اور وہ تو ہرگز شرک نہیں کرتے تھے جس پر تمہارے مذاہب کی بنیاد ہے نیز وہ اللہ کے انعامات پر اس کا شکر ادا کرنے والے تھے اور اللہ کے چنے ہوئے بندے تھے ، کہ ساری عمر معاشرے حکومت اور ہر طاغوت سے ٹکر لی مگر اللہ جل جلالہ کی اطاعت کا دامن نہ چھوڑا ، اولاد وازواج اور گھر بار کی محبت انہیں اللہ جل جلالہ کی راہ میں ہجرت سے مانع نہ ہوسکی ، اہلیہ اور لخت جگر کو ویران صحرا میں چھوڑ دیا تو اللہ جل جلالہ نے انہیں منتخب فرما کر ایک عالم کا پیشوا ومقتداء کردیا ، اور دار دنیا میں بہت بلند مقام بخشا جبکہ دار آخرت میں بھی وہ اللہ جل جلالہ کے پسندیدہ اور نیک بندوں میں ہوں گے ، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اے حبیب وحی فرمائی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ملت پہ کاربند ہوں یعنی اللہ جل جلالہ کی اطاعت اسی جذبے اور طریقے سے کریں کہ ان کا طریق اطاعت مثالی تھا کہ وہ بالکل سیدھے اور کھرے تھے اور ہرگز ہر گز شرک کرنے والوں میں سے نہ تھے جیسا کہ یہ لوگ مبتلا ہیں نہ وہ رسومات میں گرفتار تھے جس طرح ان لوگوں نے ایجاد کر رکھی ہیں اور یہ حلال و حرام یا دنوں کی تخصیص ابراہیم (علیہ السلام) پر لازم نہ تھی نہ وہ کرتے تھے جیسا کہ یہ لوگ کرتے ہیں ۔ (بغیر ارشاد نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دنوں کو باعث برکت یا عہد بنا لینا ویسا ہی ہے جیسا حرام حلال اپنی طرف سے ایجاد کرنا اور یہ سخت جرم ہے) مثلا ہفتہ کی خاص تعظیم ہی کو لیں تو بھلا انہیں اس کا حکم کس نے دیا وہ تو انہیں خاص لوگوں کے ساتھ خاص تھا جنہوں نے اس میں اختلاف کیا کسی نے مانا اور کسی سے نہ مانا یا حیلے حوالے کئے اور تباہ ہوگئے نیز اس کا حقیقی بدلہ تو قیامت کے روز پائیں گے اور سارے اختلافات کا فیصلہ ہوجائے گا تو ثابت ہوا کہ دنوں کی تخصیص یا عہد قرار دینا بھی اتنا ہی بڑا جرم ہے جتنا اپنی طرف سے چیزوں کو حلال یا حرام ٹھہرانا ہے ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کام دعوت الی اللہ ہے لہذا لوگوں کو بڑی حکمت سے اور نصیحت کرنے کے انداز میں اپنے رب کی طرف دعوت دیجئے ۔ (طریق دعوت) یہاں یہ بات طے ہوگئی کہ نبوت کا مقصد اصلی لوگوں کو اللہ جل جلالہ کی طرف بلانا ہے ، اسلامی ریاست کا قیام ، فوج ، اور جہاد ، عدلیہ اور انتظامیہ یہ سب کچھ صرف اس ایک کام کے حصول کی خاطر ہے ، لہذا جہاں یہ سب کچھ تو ہو مگر قوانین اللہ جل جلالہ کے رائج نہ ہوں اور ریاست و حکومت مذہب کو لوگوں کا ذاتی معاملہ کہہ کر الگ ہوجائے اور تمام کوششیں یعنی فوج اور سول سب محض چند افراد کے اقتدار کے تحفظ کی خاطر ہوں ایسی ریاست نہ اسلامی ہے نہ اسے اسلامی کہا جائے گا اور اسے اسلامی بنانا بقدر استطاعت ہر مسلمان کا پہلا فرض ہے کہ اصل کام دین کا احیاء بندوں کو اللہ جل جلالہ کے قریب کرنا اور صرف اس کی بندگی پہ لگانا ہے ، اب اس کے لیے اسلوب کیا ہوگا بہت حکمت اور دانشمندی سے دعوت دی جائے گی نیز موعظہ حسنہ یعنی بہترین نصیحت کے انداز میں کہ نصیحت کا انداز ایسا ہوتا ہے جس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ نصیحت کرنے والا جیسے نصیحت کر رہا ہے خود اس کی بہتری کی فکر میں ہے لہذا بات کرنے میں اسلوب ایسا ہو کہ سننے والا یہ سمجھ سکے کہ اللہ جل جلالہ کی اطاعت کرنا خود میری ضرورت ہے اور میرے ہی بھلے کی بات ہے ، یہ شخص دین کے نام پر اپنے آپ کو میرے اوپر مسلط نہیں کر رہا ، تو دو باتیں دعوت کی جان ہیں ، اول حکمت یعنی ضرورت ، موقع اور حالات کا تقاضا دیکھ کر بات کی جائے اس میں یہ سب شامل ہے کہ لوگ کس طرح کی نافرمانی میں گرفتار میں وہ شرک ہے یا کفر ہے یا بدعات میں پھنسے ہیں ، پھر ان کی عملی استعداد کیا ہے ، کس انداز کی بات سمجھ سکیں گے ان کا دنیاوی مقام و مرتبہ کیسا ہے غرض مخاطب کی ضرورت اور حالت کا پورا لحاظ رکھا جائے گا ، اور بات موعظہ حسنہ میں کی جائے گی موعظہ خود نصیحت کا نام ہے جس میں مخاطب کی بہتری اور بھلائی مقدم ہو جبکہ اس پر حسنہ کا اضافہ بھی ہے کہ یہ کام بہت ہی خوبصورت اور مخلصانہ انداز میں کیا جائے ، اور تیسری بات مجادلہ یعنی بحث ومناظرہ ہے کہ مخاطب یا ان کا کوئی فرد اپنی بات کو سچا اور داعی کی بات کو غلط ثابت کرنے کے لیے بحث کرتا ہے ، یا مناظرہ کرتا ہے تو اس میں بھی بحث کے حسن کو ہاتھ سے نہ جانے دیا جائے ، مباحثہ یا مناظرہ کا حسن یہ ہے کہ حق کو ثابت کرنے کے لیے سب کام ہو ، محض دوسرے فریق کو رسوا کرنے یا اپنا علمی مقام و مرتبہ منوانے کے لیے نہ ہو نیز بات کرنے میں پورا ادب واحترام رکھا جائے ، اور طعنہ زنی نہ کی جائے کتاب اللہ میں اس کی مثالیں موجود ہیں خصوصا فرعون جیسے ظالم اور قطعی کافر اور اپنے آپ کو خدا کہلوانے والے جابر کو بھی دعوت دینے کے لیے موسیٰ وہارون (علیہم السلام) کو فرمایا بات مزیدار لہجے میں کیجئے گا ، لہذا اس سے بڑا بدبخت کون ہوگا جو اللہ جل جلالہ کے دین کو پہنچانے اللہ جل جلالہ کی عظمت کی بجائے اپنی بڑائی منوانا چاہئے اس میں علماء اور مقتدا یعنی پیران کرام کے لیے بہت زیادہ توجہ کی ضرورت ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کام دعوت الی اللہ ہے اس کے بعد کون گمراہی اختیار کرتا ہے اور کون ہدایت کا راستہ اپناتا یہ سب اللہ کریم کے علم میں ہے ، اس راہ میں مشکلات کا آنا تو لازمی ہے کفار یا معاندین جسمانی ایذا پہنچانے سے بھی نہ چوکیں گے لہذا اگر ایسی صورت ہو تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی بدلہ لینا درست ہے مگر اسی حد تک کہ جب آپ قابو پائیں تو اتنی ہی ایذا کو دی جائے لیکن اگر اس حال پر صبر اختیار کیا جائے اور درگذر سے کام لیا جائے اور صبر کرنے والے کے لیے بھی بہت اعلی بات ہے اور جہاں تک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات عالی کا تعلق ہے تو آپ کو تو صبر ہی زیبا ہے کہ اللہ جل جلالہ کی توفیق آپ کے ساتھ ہے کفار ومشرکین کی ایذاؤں پہ اور مؤمنین کے ساتھ ان کی زیادتیوں پہ قطعا دلگیر نہ ہوں کہ ان کی یہ حیلہ سازیاں آپ کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گی ، (معیت ذاتی) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فیض پانے والوں کو تو احسان یعنی کیفیات قلبی کے اعتبار سے نہایت خلوص کے ساتھ قرب الہی اور تقوی یعنی تعلق باللہ حاصل ہے اور ایسے لوگوں کو اللہ کی ذاتی معیت حاصل ہوتی ہے جس کا حاصل یہ ہے دنیا داروں کی سازشیں ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں ۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 120 تا 124 امۃ پیشوا، رہنما، مقتدا۔ قانت فرماں بردار۔ حنیفا سب سے کٹ کر ایک اللہ کا ہونے والا۔ لم یک نہ تھا۔ شاکر شکر کرنے والا۔ انعمہ اس کی نعمتوں کا۔ اجتبی اس نے منتخب کیا۔ اوحینا ہم نے وحی کی۔ اتبع پیروی کیجیے، پیچھے چلیے۔ ملۃ ملت ، دینی طریقہ۔ جعل مقرر کیا گیا ہے۔ السبت ہفتہ کا دن۔ تشریح :- آیت نمبر 120 تا 124 اس حقیقت سے انکار ممکن ہی نہیں ہے کہ جو قوم ، سست، کاہل اور بےعمل ہوجاتی ہے اس میں بعض ایسی خرابیاں پیدا ہوجاتی ہیں جو ان کو دوسروں کی نظروں میں حقیر و ذلیل کردیتی ہیں مثلاً (1) بات بات پر بحث و مباحثہ، کٹ حجتی ، کج بحثی کرنا۔ (2) اور اپنے بزرگوں اور محترم شخصیات کی طرف نسبت کر کے فخر و غرور کرنا۔ مکہ کے کفار و مشرکین اور خصوصاً بنی اسرائیل کو اس بات پر بڑا ناز تھا کہ وہ ابراہیمی ہیں وہی اللہ کے محبوب، پیارے اور سچے مسلمان ہیں ان کے علاوہ سب کے سب کافر ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ حضرت ابراہیم جن کی عظمتوں پر انہیں ناز ہے وہ واقعی توحید کے پیکر اپنی ذات میں ایک امت، ایک جماعت اور ایک انجمن تھے۔ دین و دنیا کی وہ کونسی خوبی اور بھلائی ہے جو ان میں موجود نہ تھی۔ ابراہیم خلیل اللہ ، ابو الانبیا اور اللہ کے فرماں بردار بندے ہیں، ہر طرف سے کٹ کر وہ صرف ایک اللہ کو خلاق ومالک ماننے والے اللہ کی نعمتوں پر شکر ادا کرنے والے۔ صراط مستقیم پر گامزن ۔ اللہ کے منتخب بندے۔ حق و صداقت کے لئے خاندان کے عزت و عظمت ، راحت و آرام کو قربان کرنے والے۔ آخرت میں تمام عظمتوں کے مستحق تھے اور ہیں۔ ان ہی طریقوں پر وحی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چلایا اور ان کو ملت ابراہیمی کو اپنانے کا حکم دیا۔ حضرت محمد نے اسی توحید کے راستے کو اپنایا اور ہر طرح کے کفر و شرک سے نفرت کا اظہار فرمایا۔ ارشاد ہے کہ یہ تو حضرت ابراہیم خلیل اللہ تھے اور دوسری طرف ان کے راستے پر چلنے والے ان کے پیروکار نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے جاں نثار صحابہ ہیں۔ فرمایا کہ تیسری طرف وہ ہیں جنہوں نے ہفتے کے دن کی عظمت کو خود ہی متعین کر کے اس کو دین کا جزو بنا لیا اور اس میں بھی طرح طرح کے اختلافات ہیں۔ ان اختلافات کا فیصلہ تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرما دیں گے۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ لوگ کس منہ سے اپنے آپ کو دین ابراہیمی کا پیکر اور متبع کہتے ہیں جب کہ ان میں حضرت ابراہیم جیسی کوئی بات نہیں ہے۔ اس کے برخلاف حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ماننے والے مومنین حضرت ابراہمی کی ملت اور دین کے پیروکار ہیں۔ فرمایا کہ نجات درحقیقت ان کی نسبتوں پر فخر کرنے سے حاصل نہ ہوگی بلکہ ان جیسے طریقے اختیار کرنے میں ہوگی۔ اب جب کہ وہ تبی تشریف لے آئے ہیں جو حضرت ابراہیم خلیل اللہ کے پیروکار ہیں تو ان کا راستہ ہی کامیابی کا راستہ ہے آپ کے علاوہ جس راستے کو بھی اختیار کیا جائے گا وہ نجات اور کامیابی کا راستہ نہ ہوگا۔ ۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ یعنی بنی الوالعزم امت عظیمہ کے متبوع۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اے لوگو ! اگر تم اپنے رب کی رحمت اور بخشش کے طلب گار ہو تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اتباع کرو۔ بیشک ان کی طرح تمہیں اکیلا ہی کیوں نہ رہنا پڑے۔ لیکن یاد رکھنا جس پر اللہ کی رحمت ہو اسے اپنے آپ کو اکیلا نہیں سمجھانا چاہیے۔ کفار مکہ اور اہل کتاب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنا پیشوا سمجھتے تھے۔ اس لیے سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی ذات اور ان کی خدمات کے حوالے سے کفار مکہ اور اہل کتاب کو سمجھا یا گیا ہے کہ بات بات پر جس شخصیت کا تم حوالہ دیتے ہو اس گرامی قدر شخصیت کا عقیدہ اور کردار سنو۔ ابراہیم (علیہ السلام) اپنی ذات اور خدمات کے حوالے سے ایک پیشوا کی حیثیت رکھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے انتہا درجے کے فرمانبردار تھے۔ وہ دین اور اللہ کی عبادت میں بھی نہایت یکسو تھے۔ مشرکین کے ساتھ ان کا کوئی واسطہ نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں پر اس کے غایت درجہ شکر گزار تھے۔ ان اوصاف حمیدہ کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے خاص بندوں میں ایک خصوصی مقام سے نوازتے ہوئے ہر حالت میں صراط مستقیم پر گامزن رہنے کی ہمت عطا فرمائی تھی۔ دنیا میں انہیں ہر قسم کی خیر سے نوازا اور آخرت میں یقیناً وہ صالحین کے ساتھی ہوں گے۔ ١۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ایک امت کی حیثیت سے : اہل لغت نے امت کے کئی معنی ذکر کئے ہیں۔ جن میں جامع اور اہم معانی یہ ہیں۔ والدہ، قوم، عوام، تمام فضائل حمیدہ کا حامل انسان۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کا فرمان ہے کہ امت کا معنی ہے ” مُعَلِّمُ الْخَیْرِ “ (صحیح بخاری : کتاب التفسیر، سورة النحل) اس اعتبار سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) میں وہ تمام اوصاف پائے جاتے ہیں جو ایک کامیاب قائد میں ہونے چاہییں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تنہا ہونے کے باوجود دنیا میں وہ کام کرگئے جو ایک کامیاب قوم اور قائد کیا کرتا ہے اسی وجہ سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) دنیا کی ان شخصیات میں سرفہرست ہیں جن کے اثرات قیامت تک باقی رہیں گے۔ دنیا میں کوئی آسمانی مذہب ایسا نہیں جو انہیں اپنا رہنما تسلیم نہیں کرتا۔ مذہب کے حوالے سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ایک سند کی حیثیت رکھتے ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک امت قرار دیا ہے۔ ٢۔ انتہا درجے کی فرمانبرداریوں کی ایک جھلک : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو حکم ہوا کہ اپنے رب کے تابع فرمان ہوجاؤ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ایسے تابع فرمان ہوئے کہ انہوں نے ہر چیز اپنے رب کے حکم پر نچھاور کردی۔ ١۔ عقیدۂ توحید کی خاطر آگ میں چھلانگ لگا دی۔ ٢۔ عقیدہ توحید کی بنا پر دنیا کی ٹھاٹ باٹ، گھر بار اور ہمیشہ کے لیے عراق کی سرزمین کو چھوڑ دیا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے حکم پر اپنی اہلیہ اور اپنے نو نہال کو مکہ کی سر زمین پر چھوڑا۔ ٤۔ خواب میں اشارہ پا کر حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے حل قوم نازک پر چھری چلادی۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ کے حکم پر بیت اللہ تعمیر کیا۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق حج ادا کیا اور اس کے مناسک بیان فرمائے۔ ٧۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) میں خصوصی مقام کے حامل : ٨۔ ہر حال میں صراط مستقیم پر گامزن رہنے والے : ٩۔ دنیا کے حوالے سے معتبر اور معزز شخصیت : ١٠۔ آخرت میں انبیاء کرام (علیہ السلام) کی جماعت کے ممتاز ترین رکن : ١١۔ تمام لوگوں کے امام قرار پائے۔ مسائل ١۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار تھے۔ ٢۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) مؤاحد تھے مشرک نہ تھے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے والے تھے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابر اہیم (علیہ السلام) کو صراط مستقیم پر گامزن کیا تھا۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں بھی انہیں بھلائی کے ساتھ نوازا تھا۔ ٦۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) آخرت میں نیکو کاروں میں ہیں۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قرآن کریم حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بطور نمونہ ہدایت ، مجسمہ انابت اور صبرو شکر کا پیکر اور مطیع اور عبادت گزار بنا کر پیش کرتا ہے۔ یہاں کہا جاتا ہے کہ وہ امت تھے ، یعنی ان کے اندر جو اطاعت ، انابت اور شکر و برکت تھی وہ پوری امت کے برابر تھی۔ یا اس کا مفہوم یہ ہوگا کہ امام ہدایت تھے…مفسرین سے دونوں مفہوم مروی ہیں۔ اور دونوں مفہوم ایک دوسرے کے قریب ہیں۔ کیونکہ جو امام ہدایت کی راہ دکھائے وہی امت کا قائد ہوتا ہے اور ایسے امام کو ان تمام لوگوں کے اعمال کا ثواب بھی ملے گا جن کو اس نے ہدایت کا راستہ دکھایا۔ اس طرح یہ راہنما بذات خود ایک امت بن جاتا ہے۔ وہ فرد واحد نہیں رہتا۔ قائنا للہ (٦١ : ٠٢١) کا مفہوم ہے اطاعت گزار ، خشوع کرنے والا اور عبادت کرنے والا۔ حنیفا (٦١ : ٠٢١) کا مفہوم ہے حق کی طرف متوجہ ہونے والا۔ سچائی کا قلبی میلان رکھنے والا۔ ولم یک من المشرکین (٦١ : ٠٢١) ” وہ مشرکین میں سے نہ تھے “۔ لہٰذا مشرکین کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنا تعلق ان سے ظاہر کریں۔ نہ اپنے آپ کو ان کے ذریعے متبرک بنائیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اوصاف عالیہ اور ان کی ملت کے اتباع کا حکم سیدنا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا قرآن مجید میں جگہ جگہ ذکر ہے۔ انہوں نے اللہ کی راہ میں بڑی تکلیفیں اٹھائیں توحید کی دعوت دینے اور شرک کی تردید کرنے کی وجہ سے انہیں آگ تک میں ڈالا گیا اور اللہ تعالیٰ شانہ نے ان کو نواز دیا۔ سورة بقرہ میں ارشاد ہے (وَ اِذِابْتَلآی اِبْرٰھٖمَ رَبُّہٗ بِکَلِمٰتٍ فَاَتَمَّھُنَّ قَالَ اِنِّیْ جَاعِلُکَ للنَّاسِ اِمَامًا) (اور جب ابراہیم کو ان کے رب نے چند کلمات کے ذریعہ آزمایا تو انہوں نے ان کو پورا کردیا، ان کے رب نے فرمایا کہ میں تم کو لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں) اللہ تعالیٰ نے انہیں جن کلمات یعنی جن احکام کا حکم دیا انہیں پورا کیا اللہ نے آپ کو نبوت سے سرفراز فرمایا ان پر صحیفے نازل فرمائے پھر ان کی نسل اور ذریت میں امامت کو جاری فرمایا یعنی ان کے بعد جتنے بھی نبی آئے وہ سب انہیں کی نسل میں سے تھے اور ان کی شریعت کا اتباع کرتے تھے اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ ابراہیم کی ملت کا اتباع کرو جیسا کہ آیت بالا میں مذکور ہے چونکہ ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد تشریف لانے والے انبیاء کرام (علیہ السلام) سب ان کی شریعت کا اتباع کرنے والے تھے اور ان کی امتیں اپنے نبیوں کا اتباع کرتی تھیں اس لیے ابراہیم (علیہ السلام) اپنے بعد کے تمام انبیاء کرام اور ان کی امتوں کے امام اور مقتدیٰ ہوگئے ان کو آیت بالا میں مقتدیٰ اور سورة بقرہ میں لوگوں کا امام بتایا چونکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ملت توحید ہی توحید ہے اور فرمانبرداری ہی فرمانبرداری ہے اس لیے سورة بقرہ میں اس شخص کو بیوقوف بتایا جو ملت ابراہیمی سے ہٹے، ارشاد ہے (وَ مَنْ یَّرْغَبُ عَنْ مِّلَّۃِ اِبْرٰھٖمَ اِلَّا مَنْ سَفِہَ نَفْسَہٗ وَلَقَدِ اصْطَفَیْنٰہُ فِی الدُّنْیَا وَ اِنَّہٗ فِی الْاٰخِرَۃِ لَمِنَ الصّٰلِحِیْنَ اِذْ قَالَ لَہٗ رَبُّہٗٓ اَسْلِمْ قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ) (اور ملت ابراہیمی سے وہی رو گردانی کرے گا جس نے اپنے نفس کو احمق بنایا، اور بیشک ہم نے ان کو دنیا میں منتخب کرلیا اور وہ آخرت میں صالحین میں سے ہیں جب فرمایا ان کے رب نے فرمایا فرمانبردار ہوجاؤ، تو انہوں نے عرض کیا کہ میں رب العلمین کا فرمانبردار ہوں۔ ) ملت ابراہیمی اس وقت ملت محمدیہ میں منحصر ہے اور آنحضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی اس کے داعی ہیں، جو لوگ اس سے بیزار ہیں وہ لوگ مشرک، بت پرست، بےحیا، بےشرم، بداخلاق، بداعمال، دھوکے باز اور زمین میں فساد کرنے والے اور قوموں کو لڑانے والے ہیں، اور جس قدر بھی دنیا میں قبائح اور برے کام ہیں سب انہیں لوگوں میں پائے جاتے ہیں جو ملت ابراہیمی سے ہٹے ہوئے ہیں گو کمزور ایمان والے مسلمانوں میں بھی معاصی ہیں لیکن اول تو انہیں گناہ سمجھتے ہوئے کرتے ہیں دوسرے توبہ کرتے رہتے ہیں اور ہر حال میں گناہ حماقت ہی سے ہوتا ہے۔ حج کرنا اور حج میں صفا مروہ کی سعی کرنا منیٰ میں قربانیاں کرنا، اور عید الاضحی میں پورے عالم میں قربانیاں ہونا، اور ختنہ کرنا یہ سب ابراہیم (علیہ السلام) کی ملت میں سے ہیں جو سیدنا محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت میں آئی ہیں۔ آیت بالا میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو قانت بھی بتایا ہے، یہ کلمہ لفظ ” قنوت “ سے ماخوذ ہے جو فرمانبرداری اور عبادت گزاری کے معنی میں آتا ہے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) فرمانبردار بھی تھے اور عبادت گزار بھی، سورة آل عمران نے فرمایا (مَا کَانَ اِبْرٰھِیْمُ یَھُوْدِیًّا وَّ لَا نَصْرَانِیًّا وَّ لٰکِنْ کَانَ حَنِیْفًا مُّسْلِمًا وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ) (ابراہیم نہ یہودی تھے اور نہ نصرانی تھے لیکن وہ حنیف تھے اور فرمانبردار تھے اور مشرکین میں سے نہ تھے۔ ) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو قرآن مجید میں ” حنیف “ فرمایا ہے۔ اس کا مادہ ح۔ ن۔ ف ہے امام راغب لکھتے ہیں الحنف ھو المیل عن الضلال الی الاستقامۃ والحنیف ھو المائل الی ذلک (ص ١٣٣) یعنی حنف یہ ہے کہ گمراہی سے ہٹتے ہوئے حق پر استقامت ہو، اور حنیف وہ ہے جس میں یہ صفت پائی جائے، تفسیر در منثور ص ١٤٠ ج ١ میں مسند احمد اور الادب المفرد (للبخاری) سے نقل کیا ہے کہ عرض کیا گیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کو کون سا دین پسند ہے ؟ آپ نے فرمایا الحنفیۃ السمعۃ یعنی وہ دین اللہ کو محبوب ہے جس میں باطل سے بچتے ہوئے حق کو اپنایا گیا ہو اور جس پر عمل کرنے میں دشواری نہیں ہے۔ (اس سے دین اسلام مراد ہے۔ ) یہود و نصاریٰ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف اپنی نسبت کرتے ہیں حالانکہ مشرک بھی ہیں، قرآن پاک میں جگہ جگہ ارشاد فرمایا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) مشرک نہ تھے۔ سورة بقرہ میں اور سورة آل عمران میں فرمایا (وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ) اور یہاں سورة نحل میں (وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ) بھی فرمایا اور (وَ لَمْ یَکُ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ) بھی فرمایا، مشرکین مکہ بھی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے اپنا انتساب رکھتے تھے اس میں ان کی بھی تردید ہے کہ تم مشرک ہو اور وہ موحد تھے تمہارا ان کا کیا جوڑ ہے ؟ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی صفات بیان کرتے ہوئے (شَاکِرًا لِّاَنْعُمِہٖ ) بھی فرمایا یعنی وہ اللہ کی نعمتوں کے شکر گزار تھے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر عام و خاص سب ہی بندے کرتے ہیں خلیل اللہ ( علیہ السلام) بدرجہ اولیٰ شکر گزار تھے اس میں اہل مکہ کو توجہ دلائی ہے کہ دیکھو تمہیں نعمتوں کا شکر گزار ہونا لازم ہے، تمہارے باپ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جنہوں نے مکہ بسایا ہے اور مکہ میں بسنے والوں کے لیے ہر طرح کے پھلوں کے لیے دعا کی موحد تھے تم بھی موحد ہوجاؤ۔ شرک چھوڑو، تمہارے جد اعلیٰ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نعمتوں کے شکر گزار بھی تھے، تم نعمتوں کی قدر دانی بھی نہیں کرتے (ناشکری کا وبال بھوک اور خوف کی صورت میں بھگت چکے ہو اور اب ناشکری چھوڑو اور ایمان قبول کرو۔ )

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

99:۔ خاتمہ :۔ جب دونوح حصوں میں شرک اعتقادی (شرک فی التصرف) اور شرک فعلی کی نفی مفصل طریق پر بیان ہوچکی اور اس پر دلائل عقلیہ اور دلیل وحی بھی مذکور ہوچکی تو آخر میں دونوں مضمونوں پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے دلیل نقلی کا ذکر کیا گیا۔ ” امۃ “ بروزن فعلۃ بمعنی مفعول ہے ای ماموما اور تاء مبالغہ کے لیے ہے یعنی سب سے بڑا پیشوا یا امۃ بمعنی جماعت ہے اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر اس کا اطلاق اس لیے کیا گیا کیونکہ ان کی ذات میں اس قدر خیر و برکت تھی جتنی ایک کثیر جماعت میں ہوتی ہے۔ قال ابن عباس (رض) ای کان عندہ (علیہ السلام) من الخیر ماکان عند امۃ وھی الجماعۃ الکثیرۃ۔۔۔ وقیل الامۃ ھنا فعلۃ بمعنی مفعول کالرحلۃ بمعنی المرحول الیہ (روح ج 14 ص 249) ۔ یعنی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنے زمانے میں سب سے بڑئے پیشوائے دین اور خیر و صلاح کے جامع تھے۔ ” قانتا للہ “ اللہ تعالیٰ کے بڑے فرمانبردار، ” حنیفا “ تمام باطل دینوں سے منحرف ہو کر صرف دین توحید و ماننے والے، ” و لم یک من المشرکین “ اور ہر قسم کا شرک ( شرک فی التصرف اور شرک فعلی) کرنے والوں سے بیزار اور دور تھے۔ ” شاکر لانعمہ “ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے والے، حاجات میں اللہ ہی کو پکارنے والے اور اللہ ہی کی نذریں نیازیں دینے والے۔ ” اجتباہ “ اللہ تعالیٰ نے آپ کو منتخب فرما لیا اور صراط مستقیم (راہ توحید) کی طرف آپ کی راہنمائی فرمائی۔ ” و اتیناہ الخ “ دنیا میں ہم نے ان کو یہ رتبہ بلند عطا کیا کہ قیامت تک آنے والے تمام لوگ خواہ وہ کسی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں انہیں اپنا پیشوا مانیں گے اور آخرت میں وہ صالحین کے بلند درجات میں ہوں گے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

120 ۔ بلا شبہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) مقتدا اور بھلائی کی تعلیم دینے والا اللہ تعالیٰ کا فرماں بردار تھا وہ سب سے یکسو ہوکر ایک خدا کا ہوگیا تھا اور وہ شرک کرنے والوں میں سے نہ تھا۔