Sequence of Verses Refuted in the previous verses was the root of Shirk and Kufr which is rejection of the reality of Allah&s Oneness and the rejection of the mandate given by Him to His prophet. Also refuted there were some off-shoots of Kufr and Shirk in the form of legalizing the illegal and illegalizing the legal, a virtual reversal of Divinely ordained arrangements. Since the Mushriks of Makkah who were the first direct addressees of the Holy Qur’ an and who, despite their infidelity and idol-worship, claimed that they were adherents of the great community of Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) and that what they did was all in accordance with his teachings, it was also taken up as due. The rejection of their position came on the basis of what they already believed in. So, in the first (120) of the five verses cited above, it was said that Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) was the foremost universal leader of nations with the high station of a prophet and messenger of Allah. This proves that he was a great prophet and messenger. Then, by saying: وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ (and he was not among the Mushriks...121) along with it, his being a torch bearer of the most perfect belief in the Oneness of Allah was confirmed. And in the second verse (121), by saying that he was grateful to Allah and was on the straight path, a warning signal was given to his adversaries who claimed to be his followers - how could they, being as ungrateful as they were, had the cheek to call themselves his adherents and followers? After that it was said in the third verse (122) that Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) was successful in Dunya and &Akhirah and then it was said in the fourth verse (123) that the prophetic mission of Sayyidna Muhammad al-Musta¬fa (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was true and that he was truly committed to the ideal of the authentic community of Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) . After having stated these two premises, the instruction given was: your claim cannot be correct without faith in and obedience to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . In the fifth verse (124): إِنَّمَا جُعِلَ السَّبْتُ (The Sabbath was appointed only for those...) the hint given is that good things you, on your own, have made unlawful for yourself were really not unlawful in the community of Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) . Commentary The word: اُمَّہ (ummah) has a few other meanings, but the well-known sense is that of community, nation, or group of people. At this place, this is what it means - as reported from Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) . The sense is that Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) is, in his person, a community, a nation, almost a compendium of their perfections and merits. There is another meaning of the word: اُمَّہ (ummah), that of the leader of a community, someone imbibing in his person many perfections. Some commentators have taken exactly this meaning of the word at this place. And the word: قَانِت (qanit) in verse 120 means obedient to the command (of his Creator). Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) has distinct status in these two qualities. As for being a leader, people from all famous Faiths of the world believe in him and consider it an honour to be the followers of his community. Of course, the Jews, the Christians and the Muslims revere him. Even the Mushriks of Arabia, despite their idol-worship, felt proud to believe in him and in (supposedly) following his way (the way of someone who was the foremost idol-breaker in human annals) ! As for the signal distinction of his being &qanit& (obedient), it becomes crystal clear from the trials this &friend& (khalil) of Allah has gone through. Imagine the fire of Namrud (Nimrod), the Command to go elsewhere leaving behind his family in a wilderness, and then, his being ready to sacrifice his very dear son. All these are singularities because of which Allah Ta’ ala has honoured him with such epithets.
خلاصہ تفسیر : ربط آیات : پچھلی آیات میں اصول شرک و کفر یعنی انکار توحید و انکار رسالت پر رد اور کفر و شرک کے بعض فروع یعنی تحلیل حرام اور تحریم حلال پر رد وابطال کی تفصیل تھی اور مشرکین مکہ مکرمہ جو قرآن کریم کے پہلے اور بلاواسطہ مخاطب تھے اپنے کفر وبت پرستی کے باوجود دعوی یہ کرتے تھے کہ ہم ملت ابراہیمی کے پابند ہیں اور ہم جو کچھ کرتے ہیں یہ سب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی تعلیمات ہیں اس لئے مذکورہ چار آیتوں میں ان کے اس دعوے کی تردید اور انہی کے مسلمات سے ان کے جاہلانہ خیالات کا ابطال اس طرح کیا گیا کہ مذکورہ پانچ آیتوں میں سے پہلی آیت میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا تمام اقوام عالم کا مسلم مقتدا ہونا بیان فرمایا جو نبوت و رسالت کا اعلی مقام ہے اس سے ان کا عظیم الشان نبی و رسول ہونا ثابت ہوا اس کے ساتھ ہی مَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ سے ان کا کامل توحید پر ہونا بیان فرمایا۔ اور دوسری آیت میں ان کا شکرگزار اور صراط مستقیم پر ہونا بیان فرما کر ان کو تنبیہ کی کہ تم اللہ تعالیٰ کی ناشکری کرتے ہوئے اپنے کو ان کا متبع کس زبان سے کہتے ہو ؟ تیسری آیت میں ان کا دنیا وآخرت میں کامیاب و بامراد ہونا اور چوتھی آیت میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت و رسالت کے اثبات کے ساتھ آپ کا صحیح ملت ابراہیم (علیہ السلام) کا پابند ہونا بیان فرما کر یہ ہدایت کی گئی کہ اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو تو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان اور آپ کی اطاعت کے بغیر یہ دعوی صحیح نہیں ہوسکتا۔ پانچویں آیت اِنَّمَا جُعِلَ السَّبْتُ میں اشارہ یہ بیان فرمایا کہ ملت ابراہیمی میں اشیاء طیبہ حرام نہیں تھیں جن کو تم نے خود اپنے اوپر حرام کرلیا ہے مختصر تفسیر آیات مذکورہ کی یہ ہے۔ بیشک ابراہیم (علیہ السلام جن کو تم بھی مانتے ہو) بڑے مقتدا (یعنی نبی اولو العزم اور امت عظیمہ کے متبوع ومقتدا) اللہ تعالیٰ کے (پورے) فرمانبردار تھے (ان کا کوئی عقیدہ یا عمل اپنی خواہش نفسانی سے نہ تھا پھر تم اس کے خلاف محض اپنے نفس کی پیروی سے اللہ کے حرام کو حلال اور حلال کو حرام کیوں ٹھہراتے ہو اور وہ) بالکل ایک (خدا) کی طرف ہو رہے تھے (اور مطلب ایک طرف ہونے کا یہ ہے کہ) وہ شرک کرنے والوں میں سے نہ تھے (تو پھر تم شرک کیسے کرتے ہو اور وہ) اللہ کی نعمتوں کے (بڑے) شکر گذار تھے (پھر تم شرک و کفر میں مبتلا ہو کر ناشکری کیوں کرتے ہو غرض ابراہیم (علیہ السلام) کی یہ شان اور طریقہ تھا اور وہ ایسے مقبول تھے کہ) اللہ تعالیٰ نے ان کو منتخب کرلیا تھا اور ان کو سیدھے راہ پر ڈال دیا تھا اور ہم نے ان کو دنیا میں بھی خوبیاں (مثل نبوت و رسالت میں منتخب ہونا اور ہدایت پر ہونا وغیرہ) دی تھیں اور وہ آخرت میں بھی (اعلی درجہ کے) اچھے لوگوں میں ہوں گے (اس لئے تم سب کو انہی کا طریقہ اختیار کرنا چاہئے اور وہ طریقہ اب منحصر ہے طریقہ محمدیہ ہیں جس کا بیان یہ ہے کہ) پھر ہم نے آپ کے پاس وحی بھیجی کہ آپ ابراہیم (علیہ السلام) کے طریقہ پر جو کہ بالکل ایک (خدا) کی طرف ہو رہے تھے چلئے (اور چونکہ اس زمانہ کے وہ لوگ جو ملت ابراہیمی کے اتباع کے مدعی تھے کچھ نہ کچھ شرک میں مبتلا تھے۔ اس لئے مکرر فرمایا کہ) وہ شرک کرنے والوں میں سے نہ تھے (تاکہ بت پرستوں کے ساتھ یہود و نصاریٰ کے موجودہ طریقہ پر بھی رد ہوجائے جو شرک سے خالی نہ تھے اور چونکہ یہ لوگ تحریم طیبات کی جاہلانہ و مشرکانہ رسوم میں مبتلا تھے اس لئے فرمایا کہ) پس ہفتہ کی تعظیم (یعنی ہفتہ کے روز مچھلی کے شکار کی ممانعت جو تحریم طیبات کی ایک فرد ہے وہ تو) صرف انہی لوگوں پر لازم کی گئی تھی جنہوں نے اس میں (عملا) خلاف کیا تھا (کہ کسی نے مانا اور عمل کیا کسی نے اس کے خلاف کیا مراد اس سے یہود ہیں کہ تحریم طیبات کی یہ صورت مثل دوسری صورتوں کے صرف یہود کے ساتھ مخصوص تھی ملت ابراہیمی میں یہ چیزیں حرام نہیں تھیں آگے احکام الہیہ میں اختلاف کرنے کے متعلق فرماتے ہیں کہ) بیشک آپ کا رب قیامت کے دن ان میں باہم (عملا) فیصلہ کر دے گا جس بات میں یہ (دنیا میں) اختلاف کیا کرتے تھے۔ معارف و مسائل : لفظ امت چند معانی کے لئے استعمال ہوتا ہے مشہور معنی جماعت اور قوم کے ہیں حضرت ابن عباس (رض) سے اس جگہ یہی معنی منقول ہیں اور مراد یہ ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) تنہا ایک فرد ایک امت اور قوم کے کمالات و فضائل کے جامع ہیں اور ایک معنی لفظ امت کے مقتدائے قوم اور جامع کمالات کے بھی آتے ہیں بعض مفسرین نے اس جگہ یہی معنی لئے ہیں اور قانت کے معنی تابع فرمان کے ہیں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ان دونوں وصفوں میں خاص امتیاز رکھتے ہیں مقتدا ہونے کا تو یہ عالم ہے کہ پوری دنیا کے تمام مشہور مذاہب کے لوگ سب آپ پر اعتقاد رکھتے ہیں اور آپ کی ملت کے اتباع کو عزت وفخر جانتے ہیں یہود نصاری مسلمان تو ان کی تعظیم و تکریم کرتے ہی ہیں مشرکین عرب بت پرستی کے باوجود اس بت شکن کے معتقد اور ان کی ملت پر چلنے کو اپنا فخر جانتے ہیں اور قانت ومطیع ہونے کا خاص امتیاز ان امتحانات سے واضح ہوجاتا ہے جن سے اللہ کے یہ خلیل گذرے ہیں آتش نمرود اہل و عیال کو لق ودق جنگل میں چھوڑ کر چلے جانے کا حکم پھر آرزؤں سے حاصل ہونے والے بیٹے کی قربانی پر آمادگی یہ سب وہ امتیازات ہیں جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو ان القاب سے معزز فرمایا ہے۔