Surat un Nahal

Surah: 16

Verse: 121

سورة النحل

شَاکِرًا لِّاَنۡعُمِہٖ ؕ اِجۡتَبٰہُ وَ ہَدٰىہُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ ﴿۱۲۱﴾

[He was] grateful for His favors. Allah chose him and guided him to a straight path.

اللہ تعالٰی کی نعمتوں کے شکر گزار تھے ، اللہ نے انہیں اپنا برگزیدہ کر لیا تھا اور انہیں راہ راست سجھا دی تھی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

شَاكِرًا لاَِّنْعُمِهِ اجْتَبَاهُ ... Verily, Ibrahim was (himself) an Ummah, obedient to Allah, a Hanif (monotheist), and he was not one of the idolators.(He was) thankful for His favors. He (Allah) chose him He selected him, as Allah says: وَلَقَدْ ءَاتَيْنَأ إِبْرَهِيمَ رُشْدَهُ مِن قَبْلُ وَكُنَّا بِهِ عَـلِمِينَ And before, We indeed gave Ibrahim his integrity, and We were indeed most knowledgeable about him. (21:51). Then Allah says: ... وَهَدَاهُ إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ and guided him to a straight path. which means to worship Allah alone, without partners or associate, in the manner that He prescribed and which pleases Him.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٢٤] سیدنا ابراہیم کو اللہ نے نبوت عطا فرمائی اور پاکیزہ رزق بھی تو انہوں نے فرمانبرداری کا حق ادا کرکے ان نعمتوں کا شکر ادا کیا اور تم پر اللہ نے جو ظاہری انعامات کیے وہ تمہیں معلوم ہیں اور باطنی یہ ہے کہ تم میں نبی آخرالزمان کو مبعوث کیا تو تم نے اللہ کی ان نعمتوں کی کیا قدر کی ؟ پھر تمہاری سیدنا ابراہیم سے کیا نسبت یا مماثلت ہوسکتی ہے ؟۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

شَاكِرًا لِّاَنْعُمِهٖ : شکر نعمت زبان سے بھی ہوتا ہے اور عمل سے بھی۔ اللہ تعالیٰ نے شہادت دی ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ کے شکر نعمت، اس کے احکام کی اطاعت، اس کے امتحانات میں کامیابی اور اس کے حقوق کی ادائیگی سب کو پورا کردیا، چناچہ فرمایا : (ۙوَاِبْرٰهِيْمَ الَّذِيْ وَفّيٰٓ ) [ النجم : ٣٧ ] ” اور ابراہیم جس نے پورا حق ادا کردیا۔ “ اور دیکھیے سورة بقرہ (١٢٤) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

شَاكِرًا لِّاَنْعُمِهٖ ۭ اِجْتَبٰىهُ وَ هَدٰىهُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَــقِيْمٍ ۝ ١٢ ١ نعم النِّعْمَةُ : الحالةُ الحسنةُ ، وبِنَاء النِّعْمَة بِناء الحالةِ التي يكون عليها الإنسان کالجِلْسَة والرِّكْبَة، والنَّعْمَةُ : التَّنَعُّمُ ، وبِنَاؤُها بِنَاءُ المَرَّة من الفِعْلِ کا لضَّرْبَة والشَّتْمَة، والنِّعْمَةُ للجِنْسِ تقال للقلیلِ والکثيرِ. قال تعالی: وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل/ 18] ( ن ع م ) النعمۃ اچھی حالت کو کہتے ہیں ۔ اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو کسی حالت کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے : ۔ جلسۃ ورکبۃ وغیرہ ذالک ۔ اور نعمۃ کے معنی تنعم یعنی آرام و آسائش کے ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو مرۃ ہے جو مرۃ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے : ۔ ضر بۃ وشتمۃ اور نعمۃ کا لفظ اسم جنس ہے جو قلیل وکثیر کیلئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل/ 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔ اجتباء : الجمع علی طریق الاصطفاء . قال عزّ وجل : فَاجْتَباهُ رَبُّهُ [ القلم/ 50] ، وقال تعالی: وَإِذا لَمْ تَأْتِهِمْ بِآيَةٍ قالُوا : لَوْلا اجْتَبَيْتَها [ الأعراف/ 203] ، أي : يقولون : هلّا جمعتها، تعریضا منهم بأنک تخترع هذه الآیات ولیست من اللہ . واجتباء اللہ العبد : تخصیصه إياه بفیض إلهيّ يتحصل له منه أنواع من النعم بلا سعي من العبد، وذلک للأنبیاء وبعض من يقاربهم من الصدیقین والشهداء، كما قال تعالی: وَكَذلِكَ يَجْتَبِيكَ رَبُّكَ [يوسف/ 6] ، فَاجْتَباهُ رَبُّهُ فَجَعَلَهُ مِنَ الصَّالِحِينَ [ القلم/ 50] ، وَاجْتَبَيْناهُمْ وَهَدَيْناهُمْ إِلى صِراطٍ مُسْتَقِيمٍ [ الأنعام/ 87] ، وقوله تعالی: ثُمَّ اجْتَباهُ رَبُّهُ فَتابَ عَلَيْهِ وَهَدى [ طه/ 122] ، وقال عزّ وجل : يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَنْ يَشاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَنْ يُنِيبُ [ الشوری/ 13] ، وذلک نحو قوله تعالی: إِنَّا أَخْلَصْناهُمْ بِخالِصَةٍ ذِكْرَى الدَّارِ [ ص/ 46] . الاجتباء ( افتعال ) کے معنی انتخاب کے طور پر کسی چیز کو جمع کرنے کے ہیں لہذا آیت کریمہ : ۔ وَإِذا لَمْ تَأْتِهِمْ بِآيَةٍ قالُوا : لَوْلا اجْتَبَيْتَها [ الأعراف/ 203] اور جب تم ان کے پاس ( کچھ دنوں تک ) کوئی آیت نہیں لاتے تو کہتے ہیں کہ تم نے ( اپنی طرف سے ) کیوں نہیں بنائی ہیں کے معنی یہ ہوں گے کہ تم خد ہی ان کو تالیف کیوں نہیں کرلیتے دراصل کفار یہ جملہ طنزا کہتے تھے کہ یہ آیات اللہ کی طرف سے نہیں ہیں بلکہ تم کود ہی اپنے طور بنالیتے ہو ۔ اور اللہ تعالیٰ کا کسی بندہ کو جن لینا کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ وہ اسے اپنے فیض کے لئے برگزیدہ کرلیتا ہے جسے گونا گون نعمتیں جدو جہد کے بغیر حاصل ہوجاتی ہیں یہ انبیاء کے ساتھ خاص ہے اور صدیقوں اور شہدوں کے لئے جوان کئ قریب درجہ حاصل کرلیتے ہیں ۔ جیسا کہ یوسف کے متعلق فرمایا : ۔ وَكَذلِكَ يَجْتَبِيكَ رَبُّكَ [يوسف/ 6] اور اسی طرح خدا تمہیں برگزیدہ ( ممتاز ) کرے گا ۔ فَاجْتَباهُ رَبُّهُ فَجَعَلَهُ مِنَ الصَّالِحِينَ [ القلم/ 50] پھر پروردگار نے ان کو برگزیدہ کر کے نیکو کاروں میں کرلیا ۔ وَاجْتَبَيْناهُمْ وَهَدَيْناهُمْ إِلى صِراطٍ مُسْتَقِيمٍ [ الأنعام/ 87] ان کو برگزیدہ بھی کیا تھا اور سیدھا رستہ بھی دکھا یا تھا ۔ ثُمَّ اجْتَباهُ رَبُّهُ فَتابَ عَلَيْهِ وَهَدى [ طه/ 122] پھر ان کے پروردگار نے ان کو نواز اتو ان پر مہر بانی سے توجہ فرمائی اور سیدھی راہ بتائی ۔ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَنْ يَشاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَنْ يُنِيبُ [ الشوری/ 13] جس کو چاہتا ہے اپنی بارگاہ کا برگزیدہ کرلیتا ہے اور جو اس کی طرف رجوع کرے اسے اپنی طرف رستہ دکھا دیتا ہے اس احتیاء کو دوسرے مقام پر اخلاص سے تعبیر فرمایا ہے ۔ إِنَّا أَخْلَصْناهُمْ بِخالِصَةٍ ذِكْرَى الدَّارِ [ ص/ 46] ہم نے ان کو ایک ( صفت ) خاص ( اخرت ) کے گھر کی یا سے ممتاز کیا تھا ۔ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ صرط الصِّرَاطُ : الطّريقُ المستقیمُ. قال تعالی: وَأَنَّ هذا صِراطِي مُسْتَقِيماً [ الأنعام/ 153] ، ويقال له : سِرَاطٌ ، وقد تقدّم . سرط السِّرَاطُ : الطّريق المستسهل، أصله من : سَرَطْتُ الطعامَ وزردته : ابتلعته، فقیل : سِرَاطٌ ، تصوّرا أنه يبتلعه سالکه، أو يبتلع سالکه، ألا تری أنه قيل : قتل أرضا عالمها، وقتلت أرض جاهلها، وعلی النّظرین قال أبو تمام : 231- رعته الفیافي بعد ما کان حقبة ... رعاها وماء المزن ينهلّ ساكبه «2» وکذا سمّي الطریق اللّقم، والملتقم، اعتبارا بأنّ سالکه يلتقمه . ( ص ر ط ) الصراط ۔ سیدھی راہ ۔ قرآن میں ہے : وَأَنَّ هذا صِراطِي مُسْتَقِيماً [ الأنعام/ 153] اور یہ کہ میرا سیدھا راستہ یہی ہے ۔ اسے سراط ( بسین مھملہ ) پڑھا جاتا ہے ملاحظہ ہو ( س ر ط) السراط کے معنی آسان راستہ ، کے آتے ہیں اور اصل میں سرطت الطعام وزاردتہ سے مشتق ہے جس کے معنی طعام کو نگل جانے کے ہیں ۔ اور راستہ کو صراط اس لئے کہاجاتا ہے کہ وہ راہر کو گویا نگل لیتا ہے یار ہرد اس کو نگلتا ہوا چلایا جاتا ہے ۔ مثل مشہور ہے ۔ قتل ارضا عالھا وقتلت ارض جاھلھا کہ واقف کار رہر و توزمین کو مار ڈالتا ہے لیکن ناواقف کو زمین ہلاک کردیتی ہے ۔ ابو تمام نے کہا ہے ۔ رعتہ الفیما فی بعد ماکان حقبۃ رعاھا اذا ماالمزن ینھل ساکبہ اس کے بعد کو اس نے ایک زمانہ دراز تک سرسبز جنگلوں میں گھاس کھائی اب اس کو جنگلات نے کھالیا یعنی دبلا کردیا ۔ اسی طرح راستہ کو لقم اور ملتقم بھی کہا جاتا ہے اس لحاظ سے کہ گویا ر ہرو اس کو لقمہ بنالیتا ہے۔ الاسْتِقَامَةُ يقال في الطریق الذي يكون علی خطّ مستو، وبه شبّه طریق المحقّ. نحو : اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة/ 6] واسْتِقَامَةُ الإنسان : لزومه المنهج المستقیم . نحو قوله :إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت/ 30] الاستقامۃ ( استفعال ) کے معنی راستہ خط مستقیم کی طرح سیدھا ہونے کے ہیں اور تشبیہ کے طور پر راہ حق کو بھی صراط مستقیم کہا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔ اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة/ 6] ہم کو سہدھے راستے پر چلا ۔ اور کسی انسان کی استقامت کے معنی سیدھی راہ پر چلنے اور اس پر ثابت قدم رہنے کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت/ 30] جس لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار خدا پے پھر وہ اس پر قائم رہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٢١) اور اللہ تعالیٰ نے جو ان پر انعامات فرمائے تھے وہ اس کے بڑے شکر گزار تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کو نبوت اورا سلام کے لیے جن لیا تھا اور ان کو سیدھے پسندیدہ راستے یعنی دین اسلام پر ثابت قدمی عطا فرمائی تھی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(16:121) انعمہ ۔ مضاف مضاف الیہ۔ اس کی نعمتیں۔ اس کے احسانات ۔ نعمۃ کی جمع اجتبہ۔ اجتبی یجتبی اجتباء (افتعال) سے ماضی واحد مذکر غائب ہُ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب۔ اس نے اس کو پسند کیا۔ اس نے اس کو چھانٹ لیا۔ منتخب کرلیا۔ مجتبی برگزیدہ۔ منتخب شدہ۔ پسند کیا ہوا۔ پسندیدہ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

شاکر الانعمہ (٦١ : ١٢١) ” وہ اللہ کی نعمتوں پر شکر گزار تھے “۔ قول کے ساتھ بھی اور عمل کے ساتھ بھی۔ جبکہ مشرکین مکہ زبانی طور پر بھی اللہ کے انعامات کی ناشکری کرتے ہیں اور عملاً بھی کفران نعمت کرتے ہیں۔ اس طرح کہ وہ اللہ کے انعامات میں دوسروں کو شریک کرتے ہیں۔ اور محض اوہام اور خواہشات کے نتیجے میں اللہ کی بعض نعمتوں کو اپنے اوپر حرام کرتے ہیں۔ اجتبہ (٦١ : ١٢١) ” اللہ نے انہیں چن لیا “۔ وھدہ الی صراط مستقیم (٦١ : ١٢١) ” اور اسے صراط مستقیم کی طرف ہدایت دی “ اور صراط مستقیم خالص اور سیدھی توحید کی راہ ہے۔ یہ ہیں حضرت ابراہیم جن کے ساتھ یہودی بھی تعلق جوڑتے ہیں اور جن کے ساتھ مشرکین مکہ بھی اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (اِجْتَبٰہُ وَ ھَدٰیہُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ) اس میں یہ بتایا کہ اللہ نے انہیں چن لیا اور صراط مستقیم کی ہدایت دی، جس کسی پر جو کوئی اللہ کا انعام ہے وہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے جس کو خیر کا امام بنایا اور مقتدیٰ بنا کر انعام عطا فرمایا یہ سب فضل ہی فضل ہے، وہ جسے چاہے اپنا بنا لے ہدایت دینا بھی اسی کی طرف سے ہے وہ جس پر فضل فرماتا ہے ہدایت دیتا ہے سورة حج میں فرمایا (اَللّٰہُ یَصْطَفِیْ مِنَ الْمَلآءِکَۃِ رُسُلًا وَّ مِنَ النَّاسِ ) (اللہ منتخب فرماتا ہے فرشتوں میں سے احکام پہنچانے والے اور انسانوں میں سے بھی) حضرت آدم (علیہ السلام) کے لیے فرمایا (ثُمَّ اجْتَبٰہُ رَبُّہٗ فَتَابَ عَلَیْہِ وَ ھَدٰی) پھر ان کے رب نے ان کو چن لیا سو ان کی توبہ قبول فرمائی اور ہدایت پر قائم رکھا۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بارے میں ارشاد فرمایا (وَ کَذٰلِکَ یَجْتَبِیْکَ رَبُّکَ وَ یُعَلِّمُکَ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِ ) (اور اسی طرح تیرا رب تجھے چن لے گا اور تجھے خوابوں کی تعبیر کا علم دے گا) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے خطاب کرکے فرمایا (یٰمُوْسٰٓی اِنِّی اصْطَفَیْتُکَ بِرِسٰلٰتِیْ وَ بِکَلَامِیْ ) (اے موسیٰ میں نے تمہیں لوگوں کے مقابلے میں اپنی پیغمبری اور ہم کلامی کے ساتھ چن لیا۔ ) امت محمدیہ کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا (وَ جَاھِدُوْا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِھَادِہٖ ھُوَ اجْتَبٰکُمْ وَ مَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ ) (اور اللہ کے راستے میں جہاد کرو جیسا کہ جہاد کا حق ہے اس نے تمہیں چن لیا اور تم پر دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی۔ ) اللہ تعالیٰ پر کسی کا کچھ واجب نہیں جس کو جو کچھ عطا فرمایا یہ سب اس کا کرم ہے کسی کو دینی مقتدیٰ بنایا ہو یا کوئی دنیاوی عہدہ عنایت فرمایا ہو یہ سب اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

121 ۔ وہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا بڑا شکر ادا کرنے والا تھا اللہ تعالیٰ نے اس کو چن لیا تھا اور اسی نے ابراہیم (علیہ السلام) کو سیدھی راہ کی طرف ڈال دیا تھا اور سیدھی راہ کی طرف ڈال دیا تھا اور سیدھی راہ کی طرف چلنے کی اسی نے رہنمائی فرمائی تھی ، چونکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ذات گرامی مسلمہ فریقین تھی اہل کتاب بھی ان کا احترام کرتے تھے اور مکہ والے بھی ملت ابراہیمی کا دعوے کرتے تھے اور مکہ والے ان کی اولاد میں تھے اس لئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ذکر فرمایا اور وہ ابراہیم (علیہ السلام) جن کو تم بھی مانتے ہو۔ وہ اللہ کے پیغمبر تھے اور خیرو بھلائی کے معلم تھے اور وہ اللہ کے فرمانبردار تھے وہ مشرکوں میں سے نہ تھے مگر تم نبوت میں بھی الجھتے ہو اپنے نفس کی پیروی کرتے ہو خدا نے جس کو حرام کیا اسکو حلال کہتے ہو اور خدا نے جس کو حلال فرمایا اسکو حرام بتاتے ہو وہ ایک خدا کا ہوگیا تھا تم بےشمارمعبودوں کی پرستش میں مبتلا ہو اور شرک کرنے میں خاص شہرت کے مالک ہو وہ شکر گزار تھے تم ناسپاس ہو وہ راہ یافتہ تھے تم گمراہ ہو اور چونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے پیغمبر تھے اس لئے وہ خدا تعالیٰ کے چیدہ اور برگزیدہ بندوں میں سے تھے تم انہی کی اولاد میں ہو لیکن ان کے طریقہ اور ان کی ملت کے خلاف تم نے کفر و شرک کے طریقہ اختیار کر رکھے ہیں ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے یعنی حلال حرام میں اور دین کی باتوں میں اصل ملت ابراہیم (علیہ السلام) ہے اور عرب کے لوگ کہتے ہیں آپ کو حنیف اور شرک کرتے ہیں اس کی راہ پر نہیں ۔ 12