Surat un Nahal

Surah: 16

Verse: 122

سورة النحل

وَ اٰتَیۡنٰہُ فِی الدُّنۡیَا حَسَنَۃً ؕ وَ اِنَّہٗ فِی الۡاٰخِرَۃِ لَمِنَ الصّٰلِحِیۡنَ ﴿۱۲۲﴾ؕ

And We gave him good in this world, and indeed, in the Hereafter he will be among the righteous.

ہم نے اس دنیا میں بھی بہتری دی تھی اور بیشک وہ آخرت میں بھی نیکوکاروں میں ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَاتَيْنَاهُ فِي الْدُّنْيَا حَسَنَةً ... And We gave him good in this world, meaning, `We granted him all that a believer may require for a good and complete life in this world.' ... وَإِنَّهُ فِي الاخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ and in the Hereafter he shall be of the righteous. Concerning the Ayah: وَاتَيْنَاهُ فِي الْدُّنْيَا حَسَنَةً (And We gave him good in this world), Mujahid said: "This means a truthful tongue."

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاٰتَيْنٰهُ فِي الدُّنْيَا حَسَـنَةً : یعنی دنیا میں حیات طیبہ کے لیے جن چیزوں کی ضرورت ہے وہ انھیں عطا فرمائیں، مثلاً دین حق کی ہدایت، نبوت کی نعمت، صالح اولاد، سیرت حسنہ، وافر مال و دولت اور سچی ناموری وغیرہ۔ وَاِنَّهٗ فِي الْاٰخِرَةِ لَمِنَ الصّٰلِحِيْنَ : خود ابراہیم (علیہ السلام) نے دعا کی تھی جو اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی : (وَّاَلْـحِقْنِيْ بالصّٰلِحِيْنَ ) [ الشعراء : ٨٣ ] ” مجھے نیک بندوں کے ساتھ ملا دے۔ “ یوسف (علیہ السلام) نے بھی یہی دعا کی تھی : (تَوَفَّنِيْ مُسْلِمًا وَّاَلْحِقْنِيْ بالصّٰلِحِيْنَ ) [ یوسف : ١٠١ ] ” مجھے مسلم ہونے کی حالت میں فوت کر اور مجھے نیک لوگوں کے ساتھ ملا دے۔ “ 3 معلوم ہوا کہ نیک ہونا بھی اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے، مگر قیامت کو صالحین کا ساتھ ملنا ایک مزید نعمت ہے، اس لیے ہمارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دنیا سے رخصت ہوتے وقت آخری الفاظ یہی تھے : ( اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِيْ وَأَلْحِقْنِيْ بالرَّفِیْقِ الْأَعْلٰی ) [ ترمذی، أبواب الدعوات، باب : ٣٤٩٦۔ ابن ماجہ : ١٦١٩۔ سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ : ٦؍٦٤١، ٦٤٢، ح : ٢٧٧٥ ] ” اے اللہ ! مجھے بخش دے اور مجھے سب سے اونچے ساتھی کے ساتھ ملا دے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاٰتَيْنٰهُ فِي الدُّنْيَا حَسَـنَةً ۭ وَاِنَّهٗ فِي الْاٰخِرَةِ لَمِنَ الصّٰلِحِيْنَ ١٢٢؀ۭ دنا الدّنوّ : القرب بالذّات، أو بالحکم، ويستعمل في المکان والزّمان والمنزلة . قال تعالی: وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام/ 99] ، وقال تعالی: ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم/ 8] ، هذا بالحکم . ويعبّر بالأدنی تارة عن الأصغر، فيقابل بالأكبر نحو : وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَ «1» ، وتارة عن الأرذل فيقابل بالخیر، نحو : أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة/ 61] ، دنا اور یہ قرب ذاتی ، حکمی ، مکانی ، زمانی اور قرب بلحاظ مرتبہ سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام/ 99] اور کھجور کے گابھے میں سے قریب جھکے ہوئے خوشے کو ۔ اور آیت کریمہ :۔ ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم/ 8] پھر قریب ہوئے اور آگے بڑھے ۔ میں قرب حکمی مراد ہے ۔ اور لفظ ادنیٰ کبھی معنی اصغر ( آنا ہے۔ اس صورت میں اکبر کے بالمقابل استعمال ہوتا ہ ۔ جیسے فرمایا :۔ وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَاور نہ اس سے کم نہ زیادہ ۔ اور کبھی ادنیٰ بمعنی ( ارذل استعمال ہوتا ہے اس وقت یہ خبر کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة/ 61] بھلا عمدہ چیزیں چھوڑ کر ان کے عوض ناقص چیزیں کیوں چاہتے ہو۔ حسنة والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله، والسيئة تضادّها . وهما من الألفاظ المشترکة، کالحیوان، الواقع علی أنواع مختلفة کالفرس والإنسان وغیرهما، فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] ، أي : خصب وسعة وظفر، وَإِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ أي : جدب وضیق وخیبة «1» ، يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِكَ قُلْ : كُلٌّ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] والفرق بين الحسن والحسنة والحسنی أنّ الحَسَنَ يقال في الأعيان والأحداث، وکذلک الحَسَنَة إذا کانت وصفا، وإذا کانت اسما فمتعارف في الأحداث، والحُسْنَى لا يقال إلا في الأحداث دون الأعيان، والحسن أكثر ما يقال في تعارف العامة في المستحسن بالبصر، يقال : رجل حَسَنٌ وحُسَّان، وامرأة حَسْنَاء وحُسَّانَة، وأكثر ما جاء في القرآن من الحسن فللمستحسن من جهة البصیرة، وقوله تعالی: الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ [ الزمر/ 18] ، أي : الأ بعد عن الشبهة، ( ح س ن ) الحسن الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ میں حسنتہ سے مراد فراخ سالی وسعت اور نا کامی مراد ہے الحسن والحسنتہ اور الحسنی یہ تین لفظ ہیں ۔ اور ان میں فرق یہ ہے کہ حسن اعیان واغراض دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے اسی طرح حسنتہ جب بطور صفت استعمال ہو تو دونوں پر بولا جاتا ہے اور اسم ہوکر استعمال ہو تو زیادہ تر احدث ( احوال ) میں استعمال ہوتا ہے اور حسنی کا لفظ صرف احداث کے متعلق بو لاجاتا ہے ۔ اعیان کے لئے استعمال نہیں ہوتا ۔ اور الحسن کا لفظ عرف عام میں اس چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو بظاہر دیکھنے میں بھلی معلوم ہو جیسے کہا جاتا ہے رجل حسن حسان وامرءۃ حسنتہ وحسانتہ لیکن قرآن میں حسن کا لفظ زیادہ تر اس چیز کے متعلق استعمال ہوا ہے جو عقل وبصیرت کی رو سے اچھی ہو اور آیتکریمہ : الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ [ الزمر/ 18] جو بات کو سنتے اور اچھی باتوں کی پیروی کرتے ہیں ۔ صالح الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] ( ص ل ح ) الصالح ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٢٢) اور ہم نے ان کو دنیا میں بھی خوبیاں جیسے اولاد صالحہ، ان کی عمدہ تعریف اور تمام انسانوں میں ان کا ذکر اور ثناء حسن دی تھیں اور جنت میں بھی وہ انبیاء کرام کے ساتھ ہوں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(16:122) اتینہ۔ ماضی جمع متکلم۔ ایتاء (افعال) سے ہُ ضمیر واحد مذکر غائب ہم نے اس کو دیا۔ اتی مادہ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 انہوں نے خود دعا کی تھی۔ والحقی بالصالحین یعنی مجھے نیک بندوں سے ملا دے (سعراء 83) سو اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ دعا قبول فرمائی (شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ پس ایسے مقبول کا جو طریقہ ہوگا وہ بالکل مقبول ہوا اسکو اختیار کرنا چاہیے اور وہ اب منحصر ہے طریقہ محمدیہ میں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (وَاٰتَیْنٰہُ فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً ) (اور ہم نے ان کو دنیا میں حسنہ سے نوازا) حسنہ اچھی حالت اچھی خصلت کو کہا جاتا ہے بعض حضرات نے اس کا ترجمہ یہ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو خوبیاں عطا فرمائیں، اور بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ اس سے اچھی اولاد مراد ہے اور بعض حضرات نے فرمایا کہ نبوت سے سرفراز فرمانا مراد ہے بعض حضرات کا قول ہے کہ اس سے ان کی دعاء کی مقبولیت مراد ہے، انہوں نے یوں دعا کی تھی۔ (وَاجْعَلْ لِّیْ لِسَانَ صِدْقٍ فِی الْاٰخِرِیْنَ ) (اور میرے لیے آئندہ آنے والوں میں اچھا ذکر جاری رکھئے) دنیا میں جتنے بھی ادیان ہیں سب کے ماننے والے حضرات ابراہیم (علیہ السلام) کو مانتے ہیں اور اچھا کہتے ہیں، ہر نماز میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود پڑھتے ہوئے جو درود ابراہیمی پڑھا جاتا ہے اس میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ذکر جمیل اور ثناء حسن بھی ہے جو اسلام کے باقی رہنے تک باقی ہے۔ (وَ اِنَّہٗ فِی الْاٰخِرَۃِ لَمِنَ الصّٰلِحِیْنَ ) (اور بلاشبہ آخرت میں وہ صالحین میں سے ہوں گے) سورة بقرہ (رکوع نمبر ١٦) میں بھی یہ الفاظ گزرے ہیں، اللہ جل شانہ نے ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں گواہی دی کہ وہ قیامت کے دن بھی صالحین میں سے ہوں گے، ثابت قدم صاحب استقامت اور خیر و صلاح سے متصف ہونے والوں میں شمار ہوں گے وہاں بھی ان کی رفعت عیاں ہوگی، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن لوگ قبروں سے ننگے اٹھائے جائیں گے تو سب سے پہلے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو کپڑے پہنائے جائیں گے۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص ٤٨٣) اور ایک حدیث میں یوں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ سب سے پہلے ابراہیم کو کپڑے پہنائے جائیں گے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہوگا کہ میرے خلیل کو کپڑے پہناؤ چناچہ جنت کے دو سفید کپڑے لائے جائیں گے وہ انہیں پہنائے جائیں گے پھر اس کے بعد مجھے کپڑے پہنائے جائیں گے۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص ٤٩٣ از دارمی)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

122 ۔ اور ہم نے ابراہیم کو دنیا میں بھی خوبیوں اور بھلائیوں سے نوازا تھا اور بلا شبہ وہ آخرت میں بھی اعلیٰ مرتبے کے لوگوں میں سے ہوگا ۔ دنیا کی خوبیاں یہ کہ سب کے مقتدانیک اولاد اور مقبولیت عامہ اور آخرت میں طبقات انبیاء میں ہونا اور والحقنی بالصالحین کی دعا کا قبول ہونا ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں دنیا کی خوبی آسودگی اور قبولیت سارے جہان میں ۔ 12