Surat un Nahal

Surah: 16

Verse: 123

سورة النحل

ثُمَّ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ اَنِ اتَّبِعۡ مِلَّۃَ اِبۡرٰہِیۡمَ حَنِیۡفًا ؕ وَ مَا کَانَ مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ ﴿۱۲۳﴾

Then We revealed to you, [O Muhammad], to follow the religion of Abraham, inclining toward truth; and he was not of those who associate with Allah .

پھر ہم نے آپ کی جانب وحی بھیجی کہ آپ ملت ابراہیم حنیف کی پیروی کریں ، جو مشرکوں میں سے نہ تھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

ثُمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا ... Then, We have sent the revelation to you: "Follow the religion of Ibrahim (he was a) Hanif... meaning, `because of his perfection, greatness, and the soundness of his Tawhid and his way, We revealed to you, O Seal of the Messengers and Leader of the Prophets,' ... أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ Follow the religion of Ibrahim (he was a) Hanif and he was not of the idolators. This is like the Ayah in Surah Al-An`am: قُلْ إِنَّنِى هَدَانِى رَبِّى إِلَى صِرَطٍ مُّسْتَقِيمٍ دِينًا قِيَمًا مِّلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ Say: "Truly, my Lord has guided me to a straight path, a right religion, the religion of Ibrahim, (he was a) Hanif and he was not of the idolators." (6:161)

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

123۔ 1 مِلَّۃَ کے معنی ایسا دین جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے کسی نبی کے ذریعے لوگوں کے لئے شروع کے موافق اور ضروری قرار دیا ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باوجود اس بات کے کہ آپ تمام انبیاء سمیت اولاد آدم کے سردار ہیں، آپ کو ملت ابراہیمی کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے، جس سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی امتیازی اور خصوصی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ ایسے اصول میں تمام انبیاء کی شریعت اور ملت ایک ہی رہی جس میں رسالت کے ساتھ توحید وعقبیٰ و بنیادی حیثیت حاصل ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٢٥] چار بنیادی اشیاء ہی سیدنا ابراہیم کی شریعت میں حرام تھیں :۔ یعنی اگر آج کوئی ملت ابراہیمی کا پیرو کار موجود ہے تو وہ صرف یہ نبی آخر الزمان ہے جسے ہم نے ملت ابراہیمی کی اتباع کا حکم دیا ہے۔ اس کے علاوہ نہ مشرکین مکہ سیدنا ابراہیم کے پیرو کار ہیں اور نہ یہود اور نہ نصاریٰ حالانکہ یہ سب اپنا سلسلہ سیدنا ابراہیم سے ملانا چاہتے ہیں اور اسے باعث فخر سمجھتے ہیں۔ کیونکہ یہ لوگ مشرک ہیں اور سیدنا ابراہیم مشرک نہ تھے۔ مشرکین مکہ کا شرک تو واضح ہے۔ یہود کا شرک یہ تھا کہ انہوں نے سیدنا عزیر کو اللہ کا بیٹا بنایا۔ نیز کئی حلال چیزوں کو اپنے اوپر حرام قرار دے لیا جس کی پاداش میں اللہ نے بھی وہ چیزیں ان پر حرام کردی تھیں۔ اور نصاریٰ بھی مشرک ہیں جنہوں نے ایک کے بجائے تین چار خدا بنا رکھے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ثُمَّ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ اَنِ اتَّبِعْ ۔۔ : یعنی حلال و حرام اور دین سے متعلق تمام معاملات میں اصل نہ یہودیت ہے، نہ نصرانیت ہے اور نہ شرک کہ جس کا ارتکاب یہ کفار مکہ کر رہے ہیں، بلکہ اصل ابراہیم (علیہ السلام) کی ملت ہے جو خالص توحید سے عبارت تھی اور اس میں وہ چیزیں حرام نہ تھیں جو بعد میں یہودیوں پر ان کی شرارت کی وجہ سے حرام کردی گئیں، اس لیے آپ کے لیے پیروی کے لائق اگر کوئی ملت ہے تو وہ صرف ملت ابراہیمی ہے۔ (ابن کثیر) لفظ ” ثُمَّ “ یہاں حقیقی ترتیب کے لیے نہیں بلکہ ترتیب ذکری کے لیے ہے اور آخر میں ابراہیم (علیہ السلام) کے فضائل میں سے یہ ایک بہت بڑی فضیلت بیان فرمائی ہے، یعنی ان فضائل کے ساتھ پھر ابراہیم (علیہ السلام) کی اس فضیلت کو دیکھو کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (جو اگرچہ ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد سے ہیں، مگر ساری اولاد آدم کے سردار ہیں) کو بھی یہی حکم دیا گیا کہ آپ نے ملت ابراہیم کی پیروی کرنی ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ملت ابراہیم کے پیروکار ہونے میں جہاں ابراہیم (علیہ السلام) کی فضیلت ظاہر ہے وہیں ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عظمت بھی ظاہر ہے کہ آپ کو ملت ابراہیم کی پیروی کا حکم ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے باعث فضیلت ٹھہرا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The Holy Prophet being on the way of Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) : Understanding the Chemistry of Adherence When Sayyidna Ibrahim I appeared, Allah Ta’ ala blessed him with a Shari&ah and its Injunctions. When the Last of the Prophets (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ap¬peared, his Shari&ah too - with the exception of some particular Injunc¬tions - was laid out in accordance with it. Though, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is preferred as more distinguished (afdal) of all blessed prophets and mes¬sengers, but at this place, there are two wise considerations in asking the preferred (afdal) to follow the one not so preferred (mafdul) in the present context. (1) Since that Shari&ah has come into the world earlier and is already known and recognized and as the last Shari&ah was also to be in accord with that, therefore, this similarity of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) to the way of Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) was expressed through the word: اِتِّبَاع (ittiba&: following). (2) As said by ` Allamah al-Zamakhshari (au¬thor of Tafsir Al-Kashshaf), this command to follow too is a special tribute out of the many honours and tributes attributed to the &friend& of Allah, Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) . That it is so special has been hinted through the use of the word: ثُمَّ (thumma: Then - 123). The sense being conveyed is: Certainly great are all those merits and perfections of the person of Sayy¬idna Ibrahim (علیہ السلام) as they are, but the most superior of all these is the fact that Allah Ta’ ala has asked his preferred-most and the dearest rasul to follow his way.

نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے ملت ابراہیمی کا اتباع : حق تعالیٰ نے جو شریعت و احکام حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو عطا فرمائے تھے خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت بھی بعض خاص احکام کے علاوہ اس کے مطابق رکھی گئ اور اگرچہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمام انبیاء ورسل (علیہم السلام) سے افضل ہیں مگر یہاں افضل کو مفضول کے اتباع کا حکم دینے میں دو حکمتیں ہیں۔ اول تو یہ کہ وہ شریعت پہلے دنیا میں آ چکی ہے اور معلوم و معروف ہوچکی ہے آخری شریعت بھی چونکہ اس کے مطابق ہونے والی تھی اس لئے اس کو اتباع کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے دوسرے بقول علامہ زمخشری یہ حکم اتباع بھی منجملہ اکرام و اعزاز خلیل اللہ کے ایک خاص اعزاز ہے اور اس کی خصوصیت کی طرف لفظ ثم سے اشارہ کردیا گیا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کے تمام فضائل و کمالات ایک طرف اور ان سب پر فائق یہ کمال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے سب سے افضل رسول وحبیب کو ان کی ملت کے اتباع کا حکم فرمایا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ثُمَّ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ اَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ اِبْرٰهِيْمَ حَنِيْفًا ۭ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ ١٢٣؁ وحی أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی، ( و ح ی ) الوحی کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔ اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے تبع يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلك قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] ، ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے ملل المِلَّة کالدّين، وهو اسم لما شرع اللہ تعالیٰ لعباده علی لسان الأنبیاء ليتوصّلوا به إلى جوار الله، والفرق بينها وبین الدّين أنّ الملّة لا تضاف إلّا إلى النّبيّ عليه الصلاة والسلام الذي تسند إليه . نحو : فَاتَّبِعُوا مِلَّةَ إِبْراهِيمَ [ آل عمران/ 95] ، وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف/ 38] ولا تکاد توجد مضافة إلى الله، ولا إلى آحاد أمّة النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم، ولا تستعمل إلّا في حملة الشّرائع دون آحادها، ( م ل ل ) الملۃ ۔ دین کی طرح ملت بھی اس دستور نام ہے جو اللہ تعالیٰ نے انبیاء کی زبان پر بندوں کے لئے مقرر فرمایا تا کہ اس کے ذریعہ وہ قریب خدا وندی حاصل کرسکیں ۔ دین اور ملت میں فرق یہ ہے کی اضافت صرف اس نبی کی طرف ہوتی ہے جس کا وہ دین ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ فَاتَّبِعُوا مِلَّةَ إِبْراهِيمَ [ آل عمران/ 95] پس دین ابراہیم میں پیروی کرو ، وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف/ 38] اور اپنے باپ دادا کے مذہب پر چلتا ہوں ۔ اور اللہ تعالیٰ یا کسی اذا دامت کی طرف اسکی اضافت جائز نہیں ہے بلکہ اس قوم کی طرف حیثیت مجموعی مضاف ہوتا ہے جو اس کے تابع ہوتی ہے ۔ شرك وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان : أحدهما : الشِّرْكُ العظیم، وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] ، والثاني : الشِّرْكُ الصّغير، وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] ، ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ دین میں شریک دو قسم پر ہے ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ دوم شرک صغیر کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٢٣) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پھر ہم نے آپ کو حکم دیا کہ آپ دین ابراہیمی پر قائم رہیے جو کہ سچے مسلمان تھے اور وہ مشرکین کے دین پر نہیں تھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

120. This is the complete answer to the first objection (E.N. 117) raised by the disbelievers. This has two parts. (1) There is no contradiction in the divine law as you seem to presume on the apparent variance in the Jewish and the Islamic Law. As a matter of fact a few things had been made unlawful especially for the Jews as punishment to them because of their disobedience; therefore, there was no reason why others should be deprived of those good things. (2) Prophet Muhammad (peace be upon him) was commanded to follow the way of Abraham and not the way of the Jews, and they themselves knew that these things were not unlawful in the law of Abraham. For instance, the Jews did not eat the flesh of camel but this was lawful according to Abraham. Likewise, ostrich, hare, duck, etc. were unlawful in the Jewish law, but they were lawful according to Abraham. Incidentally the disbelievers of Makkah have been warned that neither they nor the Jews had any relationship with Prophet Abraham for he was not a mushrik while both of them were practicing shirk. Prophet Muhammad (peace be upon him) and his followers were the only true followers of Prophet Abraham (peace be upon him) for there was no tinge of shirk in their creed or in their practice.

سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :120 یہ معترضین کے پہلے اعتراض کا مکمل جواب ہے ۔ اس جواب کے دو اجزا ہیں ۔ ایک یہ کہ خدا کی شریعت میں تضاد نہیں ہے ، جیسا کہ تم نے یہودیوں کے مذہبی قانون اور شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے ظاہری فرق کو دیکھ کر گمان کیا ہے ، بلکہ دراصل یہودیوں کو خاص طور پر ان کی نافرمانیوں کی پاداش میں چند نعمتوں سے محروم کیا گیا تھا جن سے دوسروں کو محروم کرنے کی کوئی وجہ نہیں ۔ دوسرا جزء یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جس طریقے کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے وہ ابراہیم علیہ السلام کا طریقہ ہے اور تمہیں معلوم ہے کہ ملت ابراہیمی میں وہ چیزیں حرام نہ تھیں جو یہودیوں کے ہاں حرام ہیں ۔ مثلا یہودی اونٹ نہیں کھاتے ، مگر مِلّتِ ابراہیمی میں وہ حلال تھا ۔ یہودیوں کے ہاں شتر مرغ ، بطخ ، خرگوش وغیرہ حرام ہیں ، مگر ملت ابراہیمی میں یہ سب چیزیں حلال تھیں ۔ اس جواب کے ساتھ ساتھ کفار مکہ کو اس بات پر بھی متنبہ کر دیا گیا کہ نہ تم کو ابراہیم علیہ السلام سے کوئی واسطہ ہے نہ یہودیوں کو ، کیونکہ تم دونوں ہی شرک کر رہے ہو ۔ ملّتِ ابراہیمی کا اگر کوئی صحیح پیرو ہے تو وہ یہ نبی اور اس کے ساتھی ہیں جن کے عقائد اور اعمال میں شرک کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 یعنی حلال و حرام اور دین سے متعلق تمام معاملات میں اصل چیز نہ یہودیت و نصرانیت ہے اور نہ شرک جس کا ارتکاب یہ کفار مکہ کر رہے ہیں۔ بلکہ اصل حضرت ابراہیم کی ملت ہے جو خلاص توحید سے عبارت تھی اور اس میں وہ چیزیں حرام نہ تھیں جو بعد میں یہودیوں پر ان کی شرارت کے بدولت حرام قرار دی گئیں۔ اس لئے آپ کے لئے پیروی کے لائق اگر کوئی چیز ہے تو وہ صرف ملت ابراہیم ہے۔ (کذافی ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اوصاف حمیدہ اور ان کا مرتبہ ومقام ذکر کرنے کے بعد ان کی ملت کی اتباع کا حکم۔ اللہ تعالیٰ نے ہر پیغمبر کو ظاہری اور جوہری صلاحیتیوں کے اعتبار سے منفرد پیدا کیا تھا۔ ہر پیغمبر اپنے دور کے انسانوں میں سیرت اور صورت کے حوالے سے بھی ممتاز ہوتا تھا۔ ان اوصاف کے ساتھ ہر رسول میں کچھ ایسی خوبیاں ودیعت کی جاتی تھیں۔ جن کی بنا پر ہر رسول دوسرے سے منفرد ہوتا تھا۔ جس کا تذکرہ یوں کیا گیا ہے : ” یہ رسول ہیں ہم نے انہیں ایک ایک دوسرے پر فضیلت دی ان میں کچھ ایسے تھے جن سے اللہ تعالیٰ نے کلام فرمایا اور کچھ وہ تھے جن کے درجات بلند کیے اور حضرت عیسیٰ بن مریم کو روشن نشانیاں عطا کرنے کے ساتھ جبرایل امین (علیہ السلام) کے ذریعے مدد کی گئی۔ “ (البقرۃ : ٢٥٣) اسی اصول کے تحت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے ایسی خوبیاں عنایت فرمائیں جو انہیں دوسرے انبیاء (علیہ السلام) سے منفرد اور ممتاز کرتی ہیں۔ سب کے سب انبیاء کرام (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے تابع فرماں، اپنے عقیدہ اور کام میں یکسو اور مشرکوں کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہ تھا۔ انبیاء عظام (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے، اس کے محبوب اور ہر حال میں صراط مستقیم پر قائم رہنے والے تھے۔ ان میں ایسے انبیاء بھی موجود ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے دیگر نعمتوں کے ساتھ سیاسی اقتدار بھی عنایت فرمایا تھا۔ اس طرح وہ دنیا کے حوالے سے بھی منفرد اور ممتاز تھے آخرت میں یقیناً وہ صالحین سے ہوں گے۔ اس مرتبہ ومقام کے باوجود کوئی نبی ایسا نہیں جس کی اتباع کا سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی امت کو حکم دیا گیا ہو۔ یہ مقام و مرتبہ صرف سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کو حاصل ہوا۔ جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ” جب ابراہیم کو اس کے رب نے کئی باتوں میں آزمایا وہ ان میں پورے اترے۔ فرمایا کہ میں تمہیں لوگوں کا امام بناؤں گا۔ ابراہیم نے عرض کی کیا میری اولاد سے بھی یہی وعدہ ہے ؟ ارشاد ہوا کہ ظالموں سے میرا کوئی وعدہ نہیں۔ “ (البقرۃ : ١٢٤) جہاں تک ملت ابراہیم (علیہ السلام) کا معاملہ ہے دین اسلام کے تمام بنیادی مسائل اور احکام ملت ابراہیم کا تسلسل ہیں۔ قربانی کے بارے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے استفسار ہوا تو ارشاد فرمایا کہ یہ تمہارے باپ ابراہیم (علیہ السلام) کی سنت ہے۔ حج اسلام کا بنیادی رکن ہے اس کے مناسک حج پر توجہ فرمائیں تو معلوم ہوگا کہ صفا مروہ کی سعی، زمزم کا پانی، اللہ کے حضور قربانی ذبح کرنا، شیطان کو کنکریاں مارنا یہ مناسک ملت ابراہیم (علیہ السلام) کے ترجمان ہیں۔ (عَنْ زَیْدِ بْنِ أَرْقَمَ قَالَ قَالَ أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ مَا ہٰذِہِ الأَضَاحِیُّ قَالَ سُنَّۃُ أَبِیْکُمْ إِبْرَاہِیْمَ قَالُوْا فَمَا لَنَا فِیْہَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ بِکُلِّ شَعَرَۃٍ حَسَنَۃٌ قَالُوْا فَالصُّوْفُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ بِکُلِّ شَعَرَۃٍ مِّنَ الصُّوفِ حَسَنَۃٌ )[ رواہ ابن ماجۃ : باب الاضحیۃ ] ” حضرت زید بن ارقم (رض) بیان کرتے ہیں صحابہ کرام (رض) نے عرض کی اے اللہ کے رسول ! یہ قربانیاں کیا ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ تمہارے باپ ابراہیم (علیہ السلام) کی سنت ہے۔ صحابہ (رض) نے پھر پوچھا اے اللہ کے رسول ! ہمارے لیے اس میں کیا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہر ایک بال کے بدلے نیکی۔ صحابہ (رض) نے عرض کی جانور کی اون کا کیا حکم ہے ؟ آپ نے فرمایا اون کے بھی ہر بال کے بدلے نیکی ملے گی۔ مسائل ١۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ملت ابراہیم (علیہ السلام) کی پیروی کا حکم دیا گیا تھا۔ ٢۔ ابراہیم (علیہ السلام) مشرکوں میں سے نہ تھے۔ تفسیر بالقرآن ملت ابراہیم (علیہ السلام) کی اتباع کا حکم اور اس کی اتباع : ١۔ پھر ہم نے آپ کی طرف وحی کی کہ آپ ملت ابراہیم کی پیروی کریں۔ (النحل : ١٢٣) ٢۔ فرما دیجیے اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے کہ تم ابراہیم کی ملت کی پیروی کرو۔ (آل عمران : ٩٥) ٣۔ ملت ابراہیم کی تابعداری کیجیے وہ یکسو تھا۔ (النساء : ١٢٥) ٤۔ ابراہیم کے دین سے کون روگردانی کرسکتا ہے سوائے اس کے کہ جو نادان ہو۔ (البقرۃ : ١٣٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ثم اوحینا الیک ان اتبع ملۃ ابرھیم حنیفا وما کان من المشرکین (٦١ : ٣٢١) ” اور پھر ہم نے تیری طرف وحی کی کہ یکسو ہو کر ابراہیم کے طریقے پر چلو اور وہ مشرکین میں سے نہ تھا “۔ پس ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ حقیقی رابطہ اس دین جدید کا ہے۔ رہا یہ سوال کہ سبت کی تحریم یعنی ہفتے کے دن دنیاوی کاموں کی ممانعت تو یہ صرف یہودیوں کے ساتھ مخصوص معاملہ تھا۔ اس میں بھی انہوں نے اختلافات کیے۔ سبت کی تحریم کا بھی دین ابراہیم سے تعلق نہیں ہے لہذا سبت کی تحریم دین محمد میں بھی نہیں ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

100:۔ دلیل نقلی کے بعد ہر دو مضمونوں پر دلیل وحی کا ذکر کیا گیا کہ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ اب آپ کو حکم دیا جاتا ہے کہ آپ ملت ابراہیم (علیہ السلام) کی پیروی کریں جو ہر قسم کے شرک سے بیزار تھے۔ اے مشرکین مکہ ! خوب سن لو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جنہیں تم اپنا پیشوا مانتے ہو وہ شرک فی التصرف اور شرک فعلی سے بیزار تھے اور مجھے بھی حکم ہوا ہے کہ ملت ابراہیمی کی پیروی کروں اس لیے میرا یہ دعوی سراپا درست اور حق ہے۔ اسے مان لو۔ غیر اللہ کو پکارنا بھی چھوڑ دو اور غیر اللہ کی نذریں نیازیں دینے سے بھی باز آجاؤ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

123 ۔ پھر اے پیغمبرہم نے آپ کی جانب یہ وحی بھیجی کہ آپ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے طریقے اور ان کی ملت پر چلئے جو سب سے کٹ کر یکسو ہوچکا تھا اور وہ شرک کرنے والوں میں سے نہ چونکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ملت ملت ابراہیمی تھی اس لئے اس پر چلنے کا حکم دیا گیا ۔ ملت اور شریعت کا فرق ہم پوری تفصیل کے ساتھ پہلے پارے کی تیسیر میں عرض کرچکے ہیں وہاں ملاحظہ کرلیا جائے۔ یہاں مطلب ی ہے کہ نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہ یہودی ہیں نہ نصرانی اور نہ مشرک ہیں بلکہ اپنے داد ا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ملت پر ہیں ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی درمیان میں یہود و نصاریٰ مو افق ان کے حال کے اور حکم بھی ہوئے آخری پیغمبر بھی اسی ملت پر آئے۔ 12