Surat un Nahal

Surah: 16

Verse: 126

سورة النحل

وَ اِنۡ عَاقَبۡتُمۡ فَعَاقِبُوۡا بِمِثۡلِ مَا عُوۡقِبۡتُمۡ بِہٖ ؕ وَ لَئِنۡ صَبَرۡتُمۡ لَہُوَ خَیۡرٌ لِّلصّٰبِرِیۡنَ ﴿۱۲۶﴾

And if you punish [an enemy, O believers], punish with an equivalent of that with which you were harmed. But if you are patient - it is better for those who are patient.

اور اگر بدلہ لو بھی تو بالکل اتنا ہی جتنا صدمہ تمہیں پہنچایا گیا ہو اور اگر صبر کر لو تو بیشک صابروں کے لئے یہی بہتر ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Command for Equality in Punishment Allah says: وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُواْ بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُم بِهِ وَلَيِن صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِّلصَّابِرينَ And if you punish them, then punish them with the like of that with which you were afflicted. But if you have patience with them, then it is better for those who are patient. Allah commands justice in punishment and equity in settling the cases of rights. Abdur-Razzaq recorded that Ibn Sirin said concerning the Ayah, عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُواْ بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُم بِهِ (then punish them with the like of that with which you were afflicted), "If a man among you takes something from you, then you should take something similar from him." This was also the opinion of Mujahid, Ibrahim, Al-Hasan Al-Basri, and others. Ibn Jarir also favored this opinion. Ibn Zayd said: "They had been commanded to forgive the idolators, then some men became Muslim who were strong and powerful. They said, `O Messenger of Allah, if only Allah would give us permission, we would sort out these dogs!' Then this Ayah was revealed, then it was latter abrogated by the command to engage in Jihad."

قصاص اور حصول قصاص قصاص میں اور حق کے حاصل کرنے میں برابری اور انصاف کا حکم ہو رہا ہے ۔ امام ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ فرماتے ہیں اگر کوئی تم سے کوئی چیز لے لے تو تم بھی اس سے اسی جیسی لے لو ۔ ابن زید رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ پہلے تو مشرکوں سے درگزر کرنے کا حکم تھا ۔ جب ذرا حیثیت دار لوگ مسلمان ہوئے تو انہوں نے کہا کہ اگر اللہ کی طرف سے بدلے کی رخصت ہو جائے تو ہم بھی ان کتوں سے نبڑ لیا کریں اس پر یہ آیت اتری آخر یہ بھی جہاد سے منسوخ ہو گئی ۔ حضرت عطا بن یسار رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں سورہ نحل پوری مکے شریف میں اتری ہے مگر اس کی تین آخری آیتیں مدینے شریف میں اتری ہیں ۔ جب کہ جنگ احد میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ شہید کر دئے گئے اور آپ کے اعضائے جسم بھی شہادت کے بعد کاٹ لئے گئے جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے بےساختہ نکل گیا کہ اب جب مجھے اللہ تعالیٰ ان مشرکوں پر غلبہ دے تو میں ان میں سے تیس شخصوں کے ہاتھ پاؤں اسی طرح کاٹوں گا ۔ مسلمانوں کے کان میں جب اپنے محترم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ پڑے تو ان کے جوش بہت بڑھ گئے اور کہنے لگے کہ واللہ ہم ان پر غالب آ کر ان کی لاشوں کے وہ ٹکڑے ٹکڑے کریں گے کہ عربوں نے کبھی ایسا دیکھا ہی نہ ہو گا اس پر یہ آیتیں اتریں ( سیرت ابن اسحاق ) لیکن یہ روایت مرسل ہے اور اس میں ایک راوی ایسا بھی ہے جن کا نام ہی نہیں لیا گیا ، مبہم چھوڑا گیا ۔ ہاں دوسری سند سے یہ متصل بھی مروی ہے ۔ بزار میں ہے کہ جب حضرت حمزہ بن عبد المطلب رحمۃ اللہ علیہ شہید کر دئے گئے ۔ آپ پاس کھڑے ہو کر دیکھنے لگے آہ ! اس سے زیادہ دل دکھانے والا منظر اور کیا ہو گا کہ محترم چچا کی لاش کے ٹکڑے آنکھوں کے سامنے بکھرے پڑے ہیں ۔ آپ کی زبان مبارک سے نکلا کہ آپ پر اللہ کی رحمت ہو ، جہاں تک میرا علم ہے ، میں جانتا ہوں کہ آپ رشتے ناتے کے جوڑنے والے نیکیوں کو لپک کر کرنے والے تھے ۔ واللہ دوسرے لوگوں کے درد و غم کا خیال نہ ہوتا تو میں تو آپ کے اس جسم کو یونہی چھوڑ دیتا یہاں تک کہ آپ کو اللہ تعالیٰ درندوں کے پیٹوں میں سے نکالتا یا اور کوئی ایسا ہی کلمہ فرمایا جب ان مشرکوں نے یہ حرکت کی ہے تو واللہ میں بھی ان میں کے ستر شخصوں کی یہی بری حالت بناؤں گا ۔ اسی وقت حضرت جبرائیل علیہ السلام وحی لے کر آئے اور یہ آیتیں آتری تو آپ اپنی قسم کے پورا کرنے سے رک گئے اور قسم کا کفارہ ادا کر دیا ۔ لیکن سند اس کی بھی کمزور ہے ۔ اس کے راوی صالح بشیر مری ہیں جو ائمہ اہل حدیث کے نزدیک ضعیف ہیں بلکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ تو انہیں منکر الحدیث کہتے ہیں ۔ شعبی اور ابن جریج کہتے ہیں کہ مسلمانوں کی زبان سے نکلا تھا کہ ان لوگوں نے جو ہمارے شہیدوں کی بےحرمتی کی ہے اور ان کے اعضاء بدن کاٹ دئیے ہیں واللہ ہم بھی ان سے اس کا بدلہ لے کر ہی چھوڑیں گے ۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں یہ آیتیں اتاریں ۔ مسند احمد میں ہے کہ جنگ احد میں ساٹھ انصاری شہید ہوئے اور چھ مہاجر رضی اللہ عنہم اجمعین تو اصحاب رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی زبان سے نکل گیا کہ جب ہم ان مشرکوں پر غلبہ پائیں تو ہم بھی ان کے ٹکڑے کئے بغیر نہ رہیں گے ۔ چنانچہ فتح مکہ والے دن ایک شخص نے کہا کہ آج کے دن کے بعد قریش پہچانے بھی نہ جائیں گے ۔ اسی وقت ندا ہوئی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں کو پناہ دیتے ہیں سوائے فلاں فلاں کے ( جن کے نام لئے گئے ہیں ) اس پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت فرمایا کہ ہم صبر کرتے ہیں اور بدلہ نہیں لیتے ۔ اس آیت کریمہ کی مثالیں قرآن کریم میں اور بھی بہت سی ہیں ۔ اس میں عدل کی مشروعیت بیان ہوئی ہے اور افضل طریقے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ جیسے آیت ( جَزَاۗءُ سَـيِّئَةٍۢ بِمِثْلِهَا ۙ وَتَرْهَقُھُمْ ذِلَّةٌ ۭ مَا لَھُمْ مِّنَ اللّٰهِ مِنْ عَاصِمٍ 27؀ ) 10- یونس:27 ) میں کہ برائی کا بدلہ لینے کی رخصت عطا فرما کر پھر فرمایا ہے کہ جو درکزر کر لے اور اصلاح کر لے اس کا اجر اللہ تعالیٰ پر ہے اسی طرح آیت ( والجروح قصاص ) میں بھی زخموں کا بدلہ لینے کی اجازت دے کر فرمایا ہے کہ جو بطور صدقہ معاف کر دے یہ معافی اس کے گناہوں کا کفارہ ہو جائے گی ۔ اسی طرح اس آیت میں بھی برابر بدلہ لینے کے جواز کا ذکر فرما کر پھر ارشاد ہوا ہے کہ اگر صبر کر لو تو یہ بہت ہی بہتر ہے ۔ پھر صبر کی مزید تاکید کی اور ارشاد فرمایا کہ یہ ہر ایک کے بس کا کام نہیں یہ ان ہی سے ہو سکتا ہے جن کی مدد پر اللہ ہو اور جنہیں اس کی جانب سے توفیق نصیب ہوئی ہو ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ اپنے مخالفین کا غم نہ کھا ، ان کی قسمت میں ہی مخالفت لکھ دی گئی ہے نہ ان کے فن فریب سے آزردہ خاطر ہو ۔ اللہ تجھے کافی ہے ، وہی تیرا مدد گار ہے ، وہی تجھے ان سب پر غالب کرنے والا ہے اور ان کی مکاریوں اور چلاکیوں سے بچانے والا ہے ۔ ان کی عداوت اور ان کے برے ارادے تیرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ۔ ملائیکہ اور مجاہدین اللہ تعالیٰ کی مدد اور اس کی تائید ہدایات اور اس کی توفیق ان کے ساتھ ہے ، جن کے دل اللہ کے ڈر سے اور جن کے اعمال احسان کے جوہر سے مال مال ہوں ۔ چنانچہ جہاد کے موقعہ پر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی طرف وحی اتاری تھے کہ آیت ( اَنِّىْ مَعَكُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ۭسَاُلْقِيْ فِيْ قُلُوْبِ الَّذِيْنَ كَفَرُوا الرُّعْبَ فَاضْرِبُوْا فَوْقَ الْاَعْنَاقِ وَاضْرِبُوْا مِنْهُمْ كُلَّ بَنَانٍ 12۝ۭ ) 8- الانفال:12 ) میں تمہارے ساتھ ہوں پس تم ایمانداروں کو ثابت قدم رکھو ، اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہما السلام سے فرمایا تھا آیت ( قَالَ لَا تَخَافَآ اِنَّنِيْ مَعَكُمَآ اَسْمَعُ وَاَرٰى 46؁ ) 20-طه:46 ) تم خوف نہ کھاؤ میں تمہارے ساتھ ہوں ، دیکھتا سنتا ہوں ۔ غار میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا تھا آیت ( اِذْ يَقُوْلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا 40؀ ) 9- التوبہ:40 ) غم نہ کرو اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے ۔ پس یہ ساتھ تو خاص تھا ۔ اور مراد اس سے تائید و نصرت الہٰی کا ساتھ ہونا ہے ۔ اور عام ساتھ کا بیان آیت ( وھو معکم اینما کنتم واللہ بما تعملون بصیر ) اور آیت ( يَكُوْنُ مِنْ نَّجْوٰى ثَلٰثَةٍ اِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ وَلَا خَمْسَةٍ اِلَّا هُوَ سَادِسُهُمْ وَلَآ اَدْنٰى مِنْ ذٰلِكَ وَلَآ اَكْثَرَ اِلَّا هُوَ مَعَهُمْ اَيْنَ مَا كَانُوْا ) 58- المجادلة:7 ) اور آیت ( وما یکون فی شان ) الخ میں ہے یعنی اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہے ، جہاں بھی تم ہو اور وہ تمہارے اعمال دیکھنے والا ہے اور جو تین شخص کوئی سرگوشی کرنے لگیں ان میں چوتھا اللہ تعالیٰ ہوتا ہے اور پانچ میں چھٹا وہ ہوتا ہے اور اس سے کم و بیش میں بھی جہاں وہ ہوں ، اللہ ان کے ساتھ ہوتا ہے اور تم کسی حال میں ہو یا تلاوت قرآن میں ہو یا تم اور کوئی کام میں لگے ہوئے ہو ہم تم پر شاہد ہوتے ہیں پس ان آیتوں میں ساتھ سے مراد سننے دیکھنے کا ساتھ ہے تقویٰ کے معنی ہیں حرام کاموں اور گناہ کے کاموں کو اللہ کے فرمان پر ترک کر دینے کے ۔ اور احسان کے معنی ہیں پروردگار کی اطاعت و عبادت کو بجا لانا ۔ جن لوگوں میں یہ دونوں صفتیں ہوں وہ اللہ تعالیٰ کی حفظ و امان میں رہتے ہیں ، جناب باری ان کی تائید اور مدد فرماتا رہتا ہے ۔ ان کے مخالفین اور دشمن ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے بلکہ اللہ تعالیٰ انہیں ان سب پر کامیابی عطا فرماتا ہے ۔ ابن ابی حاتم میں حضرت محمد بن حاطب رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان لوگوں میں سے تھے جو باایمان پرہیزگار اور نیک کار ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

126۔ 1 اس میں اگرچہ بدلہ لینے کی اجازت ہے بشرطیکہ تجاوز نہ ہو، ورنہ یہ خود ظالم ہوجائے گا، تاہم معاف کردینے اور صبر اختیار کرنے کو بہتر قرار دیا گیا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٢٩] بدلہ لینے میں انصاف ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے :۔ اس آیت کی تفسیر میں درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے : سیدنا ابی بن کعبص فرماتے ہیں کہ احد کے دن انصار کے چونسٹھ اور مہاجرین کے چھ آدمی شہید ہوگئے ان میں سیدنا حمزہ بھی تھے جن کا کفار نے مثلہ کیا۔ چناچہ انصار نے کہا۔ اگر ہمیں ان پر کبھی فتح ہوئی تو ہم بھی ان سے یہی سلوک کریں گے پھر جب مکہ فتح ہوا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (وَاِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِهٖ ۭوَلَىِٕنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِّلصّٰبِرِيْنَ ١٢٦۔ ) 16 ۔ النحل :126) ۔ کسی شخص نے کہا۔ && آج کے بعد قریش نہ رہیں گے && مگر آپ نے فرمایا، && چار شخصوں کے علاوہ باقی سب قریش سے ہاتھ روک لو && (ترمذی۔ کتاب التفسیر) واضح رہے کہ یہ سورت اگرچہ مکی ہے تاہم یہ چند آیات مدینہ میں اس وقت نازل ہوئیں جب احد کے میدان میں مسلمانوں کی لاشوں کا مثلہ کیا گیا۔ اور انصار نے بدلہ لینے کا عہد کیا تھا۔ جیسا کہ حدیث بالا سے ظاہر ہوتا ہے اور ربط مضمون کے لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہوگا کہ دعوت و تبلیغ کی راہ میں اگر تمہیں سختیاں اور تکلیفیں پہنچائی جائیں۔ پھر تمہیں ان پر کسی وقت قدرت حاصل ہو تو تمہیں ان سے بدلہ لینے کی اجازت ہے مگر اس بدلہ میں زیادتی ہرگز نہ ہونی چاہیے۔ اور اگر تم برداشت کرکے درگزر کردو تو یہ بات بدلہ لینے سے بہت زیادہ بہتر ہے اور تبلیغ دین کے سلسلہ میں درگزر کا نتیجہ تمہارے حق میں بہت بہتر ثابت ہوگا۔ بہرحال اس آیت میں حکم عام ہے جس کا اطلاق ہر ایسے موقع پر ہوسکتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِهٖ : واؤ عطف سے معلوم ہوا کہ اس کا تعلق پچھلی آیت سے ہے کہ اگر کوئی تم پر زیادتی کرے تو بدلے میں اتنی زیادتی تم بھی کرو۔ اس آیت سے دو مسئلے واضح طور پر ثابت ہوتے ہیں، ایک یہ کہ قتل وغیرہ کا قصاص اسی طریقے سے لینا جس طریقے سے قاتل نے قتل کیا ہے، جائز ہے اور اس کی تائید اس یہودی سے قصاص والی حدیث سے بھی ہوتی ہے جس نے ایک بچی کا سر دو پتھروں میں کچل دیا تھا، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے بھی اسی طرح قتل کرنے کا حکم دیا۔ [ دیکھیے مسلم، القسامۃ والمحاربین، باب ثبوت القصاص فی القتل۔۔ : ١٧؍١٦٧٢ ] اسی طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم سے آپ کے چرواہوں کو قتل کرنے والے اور اونٹنیاں لے جانے والے مجرموں کو بھی قصاص میں اسی طرح آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیری گئیں، جیسا کہ انھوں نے کیا تھا۔ [ دیکھیے بخاری، الحدود، باب المحاربین من أہل الکفر و الردۃ : ٦٨٠٢ ] اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق ظالم کے ظلم کے برابر بدلہ جائز ہے زیادہ نہیں، فرمایا : (فَمَنِ اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ ) [ البقرۃ : ١٩٤ ] ” پس جو تم پر زیادتی کرے سو تم اس پر زیادتی کرو، اس کی مثل جو اس نے زیادتی کی۔ “ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو مثلہ کرنے سے منع فرمایا اس سے مراد قصاص کے علاوہ صورتیں ہیں اور ابن ماجہ کی روایت (٢٦٦٧) ( لَا قَوَدَ إِلاَّ بالسَّیْفِ ) (قصاص تلوار کے سوا جائز نہیں) ثابت نہیں، بلکہ ضعیف ہے، تفصیلی بحث ارواء الغلیل (٧؍٢٨٥، ٢٨٩، ح : ٢٢٢٩) میں ملاحظہ فرمائیں۔ دوسرا مسئلہ یہ ثابت ہوا کہ اگر کوئی شخص کسی کے مال میں خیانت کرے، یا اس کا مال یا کوئی چیز لے کر واپس نہ دے، پھر مظلوم کو اس کا مال یا کوئی چیز ہاتھ آجائے، یا وہ اس کے پاس امانت رکھے تو اسے اپنے مال کے برابر اس میں سے رکھ لینا جائز ہے۔ امام بخاری (رض) نے ” کِتَابُ الْمَظَالِمِ “ میں ” بَابُ قِصَاصِ الْمَظْلُوْمِ إِذَا وَجَدَ مَالَ ظَالِمِہِ “ (مظلوم کا قصاص لینا جب اسے اس پر ظلم کرنے والے کا مال مل جائے) میں اسی آیت سے ابن سیرین (رح) کا یہ استدلال نقل فرمایا ہے اور مزید احادیث سے اسے مدلل کیا ہے۔ بعض لوگ ایک روایت کی بنا پر اسے منع کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( أَدِّ الْأَمَانَۃَ إِلٰی مَنِ اءْتَمَنَکَ وَلاَ تَخُنْ مَنْ خَانَکَ ) [ أبوداوٗد، البیوع، باب في الرجل یأخذ حقہ من تحت یدہ : ٣٥٣٥ ] ” جو شخص تمہارے پاس امانت رکھے اس کی امانت ادا کرو اور جو تمہاری خیانت کرے اس کی خیانت مت کرو۔ “ اگرچہ اس حدیث پر کلام ہے، مگر صحیح ماننے کی صورت میں بھی اپنا مال واپس لینے کو خیانت نہیں کہا جاسکتا۔ حافظ ابن حزم (رض) نے ” المحلٰی “ کی ” کتاب التفلیس “ کے آخر میں اس مسئلہ پر نہایت عمدہ بحث تحریر فرمائی ہے، جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ وَلَىِٕنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِّلصّٰبِرِيْنَ : کیونکہ اللہ تعالیٰ ظالم سے انھیں ان کا بدلہ خود لے کر دے گا اور اپنے ہاں سے انھیں صبر کا اجر عظیم عطا فرمائے گا، اللہ نے فرمایا : (وَالَّذِيْنَ اِذَآ اَصَابَهُمُ الْبَغْيُ هُمْ يَنْتَصِرُوْنَ 39؀ وَجَزٰۗؤُا سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا ۚ فَمَنْ عَفَا وَاَصْلَحَ فَاَجْرُهٗ عَلَي اللّٰهِ ۭ اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الظّٰلِمِيْنَ ) [ الشوری : ٣٩، ٤٠ ] ” اور وہ لوگ کہ جب ان پر زیادتی واقع ہوتی ہے وہ بدلہ لیتے ہیں۔ اور کسی برائی کا بدلہ اس کی مثل ایک برائی ہے، پھر جو معاف کر دے اور اصلاح کرلے تو اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے، بیشک وہ ظالموں سے محبت نہیں کرتا۔ “ صحیح بخاری میں ابراہیم نخعی کا قول ہے کہ وہ (صحابہ کرام) ذلت قبول کرنے کو ناپسند کرتے تھے، مگر جب قدرت پالیتے تو معاف کردیتے تھے۔ [ دیکھیے بخاری، المظالم، باب الانتصار من الظالم، بعد ح : ٢٤٤٦ ] شاہ عبد القادر (رض) نے ” اُدْعُ اِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ “ سے لے کر یہاں تک کا خلاصہ بیان فرمایا : ” پہلے جو فرمایا سمجھاؤ بھلی طرح سے، اس میں رخصت دی کہ بدی کے بدلے بدی بری نہیں، مگر صبر زیادہ بہتر ہے۔ “ (موضح)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Causing Pain to a Man of Da&wah: Revenge is Permissible, but Patience is Better. The next three verses (126, 127, 128) carry another important instruction for those who present the message of Truth before people. It tells them about what they have to do in unusual conditions. There are occa¬sions when they have to face people who are hard-hearted and very ig¬norant. No matter how softly and politely one explains things to them and no matter how much goodwill one has for them in his heart, they would, even then, go in a fit of anger, use bad language and cause pain. There are times when they would go beyond that and hurt the preacher physically or would not even mind killing. So, a remedial measure was in order. For this purpose, by saying: وَإِنْ عَاقَبْتُمْ (And if you were to harm them in retaliation, harm them to the measure you were harmed. And if you opt for patience, it is definitely much better for those who are patient - 126), these noble workers in the way of Allah were given the legal right that it was permissible for them to retaliate against injustice done to them. But, this was to be subject to the condition that retaliation should not ex¬ceed the measure of injustice done. In other words, assess the injustice inflicted on you, retaliate only to that measure and ensure that no excess occurs. And at the end of the verse, given there is the advice: Though, you do have the right to retaliate, but be patient and do not retaliate. It is better. The Background in which this Verse was Revealed and How it was Implemented by the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and his noble Sahabah (رض) According to the majority of commentators, this verse is Madani. It was revealed in relation to the shahadah of seventy sahabah and about the event in which Sayyidna Hamzah (رض) was killed and his body was subjected to post-killing mutilations (muthlah). The narration in Sahih al-Bukhari is in accordance with it. Darqutni has reported from Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) as follows: |"In the battle of Uhud when the Mushriks marched back, the dead bodies of seventy leading sahabah were found. Also in¬cluded there was Sayyidna Hamzah (رض) ، the revered uncle of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . Since the Mushriks were particularly angry with him, therefore, once he was killed by them, they took out their anger on his dead body. His nose, ears and other parts of the body were cut and the abdomen was slit open. The very sight of it shocked the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and he said that, to avenge Hamzah, he would have seventy men from the Mush¬riks subjected to a &muthlah& similar to what they have done to Hamzah. It was in the background of this event that these three verses were revealed (126, 127, 128) |". (Tafsir Qurtubi) It appears in some narrations that these cruel people had meted out the same treatment of &muthlah& (mutilation) in the case of other sahabah as well. (As reported by al-Tirmidhi, Ahmad, and Ibn Khuzaimah and Ibn Hibban in their Sahihs from Sayyidna Ubaiyy ibn Ka` b (رض) In this matter, being extremely grieved, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) had de¬clared his determination to subject seventy Mushriks in retaliation for his sahabah irrespective of their exact number, and this was not in accord with the principle of justice and equity Allah Ta` ala intended to stand established in this world through him. Therefore, two things were done. (1) He was alerted and told that the right of retaliation was there but it had to match the measure of injustice done. Retaliating against seventy for a few, irrespective of their number, is not right. (2) Then, he was to be the model of morals at their best. Therefore, given to him was the good counsel: Though, you are allowed to retaliate evenly but, should you set aside this option and be patient and generous to the unjust, that would be much better. Thereupon, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said, |"Now, patient we shall be. We shall not take any revenge from anyone|" - and he paid out a kaffarah (expiation) for his oath. (Mazhari from al-Baghawi) When, on the eve of the Conquest of Makkah, having all those Mushriks of Makkah under his control, it was certainly the time to do what he had declared on the battlefield of Uhud that he would do. But, it was precisely at the time of the revelation of the cited verses that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) had forsaken his earlier intention and had, instead, decided to observe patience. Therefore, at the time of the Conquest of Makkah, the course of patience was taken in accordance with the imperative of these verses. Perhaps, it is on this basis that it has been mentioned in some narration that these verses were revealed at the time of the Conquest of Makkah. And it is also not too far out to believe that the revelation of these verses was repeated, that is, initially they were revealed at the battle of &Uhud and then, when came the Conquest of Makkah, they were revealed again. (as narrated by al-Mazhari from Ibn al-Hassar) RULING: This verse has told us about the Law of Even Retaliation when avenging. Therefore, Muslim jurists say that in the event a person kills someone, the killed will be avenged by killing the killer. One who inflicts injury will have an even injury inflicted on him. Against one who cuts off someone&s hand and feet, and then kills him, the guardian of the killed will be given the right that he too should first cut off the killer&s hands and feet and then kill him. Yes, if someone kills someone else by hitting him with a rock, or kills him by injuring him with arrows, then, it is not possible to determine the correct measure of the way of killing, that is, how many strikes did it take to make this killing take place, and how much pain has been in¬flicted on the person killed. In this matter, there is no measure of determining real equalization. Therefore, he will have to be killed invariably with a sword. (AI-Jassas) RULING: Though the verse has been revealed in relation to physical pain and loss, but its words are general which includes the inflicting of financial loss. Therefore, Muslim jurists have said that a person who usurps مَال mal (money, property etc.) belonging to another person, then, this other person has the right to forcibly take away from him his mal in accordance with his right, or take it by stealth on condition that the مَال mal taken is from the genus of his right, for example, if cash has been taken, then, he can take, in lieu of it, the same amount of cash from him, by usurpation or theft. If things usurped are like grains, corn or cloth, then, similar grains, corn or cloth can be taken back. But, one cannot take another kind in lieu of the kind taken from him, for example, one cannot forcibly take cloth or some other article of use in lieu of cash. However, some fu¬qaha.& (Muslim jurists) have permitted it unconditionally - whether it be from the entitled kind or from some other. Some details of these rules have been covered by al-Qurtubi in his Tafsir while more comprehensive details appear in books of Fiqh. Mentioned in verse 126: وَإِنْ عَاقَبْتُمْ , (And if you were to harm...) was the general law in which avenging harm done with even harm was declared to be permissible for all Muslims, but taking the option of patience was recommended as definitely much better. And in the next verse (127), the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has been addressed in a special manner and prompted to be patient because, in view of his great dignity and high station, the later response was certainly more appropriate and becoming for him as compared with others. Therefore, it was said: وَاصْبِرْ‌ وَمَا صَبْرُ‌كَ إِلَّا بِاللَّـهِ (And be patient. And your patience is bestowed by none but Allah). It means: &As for you, you just do not even contemplate a revenge. Take to Sabr (pa¬tience) as your only option.& And then, he was also told that his Sabr will come with the help of Allah alone, that is, observing Sabr will be made easy for him.

داعی حق کو کوئی ایذاء پہونچائے تو بدلہ لینا بھی جائز ہے مگر صبر بہتر ہے : اس کے بعد کی تین آیتوں میں داعیان حق کے لئے ایک اور اہم ہدایت ہے وہ یہ کہ بعض اوقات ایسے سخت دل جاہلوں سے سابقہ پڑتا ہے کہ ان کو کتنی ہی نرمی اور خیرخواہی سے بات سمجھائی جائے وہ اس پر بھی مشتعل ہوجاتے ہیں زبان درازی کر کے ایذاء پہونچاتے ہیں اور بعض اوقات اس سے بھی تجاوز کر کے ان کو جسمانی تکلیف پہونچانے بلکہ قتل تک سے بھی گریز نہیں کرتے ایسے حالات میں دعوت حق دینے والوں کو کیا کرنا چاہئے۔ اس کے لئے وَاِنْ عَاقَبْتُمْ الخ میں ایک تو ان حضرات کو قانونی حق دیا گیا کہ جو آپ پر ظلم کرے آپ کو بھی اس سے اپنا بدلہ لینا جائز ہے مگر اس شرط کے ساتھ کہ بدلہ لینے میں مقدار ظلم سے تجاوز نہ ہو جتنا ظلم اس نے کیا ہے اتنا ہی بدلہ لیا جائے اس میں زیادتی نہ ہونے پائے اور آخر آیت میں مشورہ دیا کہ اگرچہ آپ کو انتقام لینے کا حق ہے لیکن صبر کریں اور انتقام نہ لیں تو یہ بہتر ہے۔ آیات مذکورہ کا شان نزول اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) و صحابہ کی طرف سے تعمیل حکم : جمہور مفسرین کے نزدیک یہ آیت مدنی ہے غزوہ احد میں ستر صحابہ کی شہادت اور حضرت حمزہ (رض) کو قتل کر کے مثلہ کرنے کے واقعہ میں نازل ہوئی صحیح بخاری کی روایت اسی کے مطابق ہے دارقطنی نے بروایت ابن عباس نقل کیا ہے کہ : غزوہ احد میں جب مشرکین لوٹ گئے تو صحابہ کرام (رض) اجمعین میں سے ستر اکابر کی لاشیں سامنے آئیں جن میں آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عم محترم حضرت حمزہ (رض) بھی تھے چونکہ مشرکین کو ان پر بڑا غیظ تھا اس لئے ان کو قتل کرنے کے بعد ان کی لاش پر اپنا غصہ اس طرح نکالا کہ ان کی ناک کان اور دوسرے اعضاء کاٹے گئے پیٹ چاک کیا گیا رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس منظر سے سخت صدمہ پہنچا اور آپ نے فرمایا کہ میں حمزہ کے بدلے میں مشرکین کے ستر آدمیوں کا اسی طرح مثلہ کروں گا جیسا انہوں نے حمزہ کو کیا ہے اس واقعہ میں یہ تین آیات نازل ہوئیں وَاِنْ عَاقَبْتُمْ الخ (تفسیر قرطبی) بعض روایات میں ہے کہ دوسرے حضرات صحابہ کرام (رض) اجمعین کے ساتھ بھی ان ظالموں نے اسی طرح کا معاملہ مثلہ کرنے کا کیا تھا (کما رواہ الترمذی واحمد وابن خزیمہ وابن حبان فی صحیحہما عن ابی بن کعب) اس میں چونکہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرط غم میں بلا لحاظ تعداد ان صحابہ کے بدلے میں ستر مشرکین کے مثلہ کرنے کا عزم فرمایا تھا جو اللہ کے نزدیک اس اصول عدل و مساوات کے مطابق نہ تھا جس کو آپ کے ذریعے دنیا میں قائم کرنا منظور تھا اس لئے ایک تو اس پر متنبہ فرمایا گیا کہ بدلہ لینے کا حق تو ہے مگر اسی مقدار اور پیمانہ پر جس مقدار کا ظلم ہے بلالحاظ تعداد چند کا بدلہ ستر سے لینا درست نہیں دوسرے آپ کو مکارم اخلاق کا نمونہ بنانا مقصود تھا اس لئے یہ نصیحت کی گئی کہ برابر سرابر بدلہ لینے کی اگرچہ اجازت ہے مگر وہ بھی چھوڑ دو اور مجرموں پر احسان کرو تو یہ زیادہ بہتر ہے۔ اس پر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اب ہم صبر ہی کریں گے کسی ایک سے بھی بدلہ نہیں لیں گے اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کردیا (مظہری عن البغوی) فتح مکہ کے موقع پر جب یہ تمام مشرکین مغلوب ہو کر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) اجمعین کے قبضہ میں تھے یہ موقع تھا کہ اپنا وہ عزم و ارادہ پورا کرلیتے جو غزوہ احد کے وقت کیا تھا مگر آیات مذکورہ کے نزول کے وقت ہی رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے ارادے کو چھوڑ کر صبر کرنے کا فیصلہ کرچکے تھے اس لئے فتح مکہ کے وقت ان آیات کے مطابق صبر کا عمل اختار کیا گیا شاید اسی بنا پر بعض روایات میں یہ مذکور ہوا ہے کہ یہ آیتیں فتح مکہ کے وقت نازل ہوئی تھیں اور یہ بھی کچھ بعید نہیں کہ ان آیات کا نزول مکرر ہوا ہو اول غزوہ احد میں نازل ہوئیں اور پھر فتح مکہ کہ وقت دوبارہ نازل ہوئیں (کما حکاہ المظہری عن ابن الحصار) مسئلہ : اس آیت نے بدلہ لینے میں مساوات کا قانون بتایا ہے اسی لئے حضرات فقہاء نے فرمایا کہ جو شخص کسی کو قتل کر دے اس کے بدلے میں قاتل کو قتل کیا جائے گا جو زخمی کر دے تو اتنا ہی زخم اس کرنے والے کو لگایا جائے گا جو کسی ہاتھ یا پاؤں کاٹے پھر قتل کردے۔ البتہ اگر کسی نے پتھر مار کر کسی کو قتل کیا یاتیروں سے زخمی کر کے قتل کیا تو اس میں نوعیت قتل کی صحیح مقدار متعین نہیں کی جاسکتی کہ کتنی ضربوں سے یہ قتل واقع ہوا ہے اور مقتول کو کتنی تکلیف پہنچی ہے اس معاملہ میں حقیقی مساوات کا کوئی پیمانہ نہیں ہے اس لئے اس کو تلوار ہی سے قتل کیا جائے گا (جصاص) مسئلہ : آیت کا نزول اگرچہ جسمانی تکالیف اور جسمانی نقصان پہونچانے کے متعلق ہوا ہے مگر الفاظ عام ہیں جس میں مالی نقصان پہنچانا بھی داخل ہے اسی لئے حضرات فقہاء نے فرمایا کہ جو شخص کسی سے اس کا مال غصب کرے تو اس کو بھی حق حاصل ہے کہ حق کے مطابق اس سے مال چھین لے یا یا چوری کر کے لے لے بشرطیکہ جو مال لیا ہے وہ اپنے حق کی جنس سے ہو مثلا نقد روپیہ لیا ہے تو اس کے بدلے میں اتنا ہی نقد روپیہ اس سے غصب یا چوری کے ذریعے لے سکتا ہے غلہ کپڑا وغیرہ لیا ہے تو اسی طرح کا غلہ کپڑا لے سکتا ہے مگر اس جنس کے بدلے میں دوسری جنس نہیں لے سکتا مثلا روپے کے بدلے میں کپڑا یا کوئی دوسری استعمالی چیز زبردستی نہیں لے سکتا اور بعض فقہا نے مطلقا اجازت دی ہے خواہ جنس حق سے ہو یا کسی دوسری جنس سے اس مسئلہ کی کچھ تفصیل قرطبی نے اپنی تفسیر میں لکھی ہے اور تفصیلی بحث کتب فقہ میں مذکور ہے۔ آیت وَاِنْ عَاقَبْتُمْ میں عام قانون مذکور تھا جس میں سب مسلمانوں کے لئے برابر کا بدلہ لینا جائز مگر صبر کرنا افضل و بہتر بتلایا گیا ہے اس کے بعد کی آیت میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خصوصی خطاب فرما کر صبر کرنے کی تلقین و ترغیب دی گئی ہے کیونکہ آپ کی شان عظیم اور منصب بلند کے لئے دوسروں کی نسبت سے وہی زیادہ موزوں و مناسب ہے اس لئے فرمایا واصْبِرْ وَمَا صَبْرُكَ اِلَّا باللّٰہ یعنی آپ تو انتقام کا ارادہ ہی نہ کریں صبر ہی کو اختیار کریں اور ساتھ ہی یہ بھی بتلا دیا کہ آپ کا صبر اللہ تعالیٰ ہی کی مدد سے ہوگا یعنی صبر کرنا آپ کے لئے آسان کردیا جائے گا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِهٖ ۭوَلَىِٕنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِّلصّٰبِرِيْنَ ١٢٦؁ عاقب والعاقِبةَ إطلاقها يختصّ بالثّواب نحو : وَالْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ [ القصص/ 83] ، وبالإضافة قد تستعمل في العقوبة نحو : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا [ الروم/ 10] ، ( ع ق ب ) العاقب اور عاقبتہ کا لفظ بھی ثواب کے لئے مخصوص ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ [ القصص/ 83] اور انجام نیک تو پرہیز گاروں ہی کا ہے ۔ مگر یہ اضافت کی صورت میں کبھی آجاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا [ الروم/ 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ مثل والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] . ( م ث ل ) مثل ( ک ) المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔ صبر الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب/ 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر» ( ص ب ر ) الصبر کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب/ 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر» ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں خير الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه : الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] ، ( خ ی ر ) الخیر ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ اور خیر دو قسم پر ہے ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

ظلم و زیادتی کا بدلہ کتنا لیا جائے ؟ قول باری ہے (وان عاقبتم فعاقبوا بمثل ماعوقبتم بہ ولئن صبرتھم لھو خیر للصابرین اور اگر تم لوگ بدلہ لو تو بس اسی قدر لے لو جس قدر تم پر زیادتی کی گئی ہو لیکن اگر تم صبر کرو تو یقینا یہ صبر کرنے والوں ہی کے حق میں بہتر ہے) شعبی، قتادہ اور عطاء بن یسار سے مروی ہے رجب مشرکین نے احد میں شہید ہونے والے مسلمانوں کا مثلہ کیا تو مسلمانوں نے یہ کہا اگر ہمیں اللہ تعالیٰ ان مشرکین پر غلبہ عطا کرے گا تو ہم اس سے بڑھ کر ان کا مثلہ کریں گے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ مجاہد اور ابن سیرین کا قول ہے کہ آیت ہر اس شخص کے بارے میں ہے جو غصے کی حالت میں یا کسی اور وجہ کی بنا پر ظلم و زیادتی کر بیٹھے۔ اس سے صرف اتنا ہی بدلہ لیا جائے گا جتنا اس نے ظلم کیا ہوگا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ہمارے نزدیک کسی سبب کے پس منظر میں آیت کا نزول ان تمام صورتوں میں اس کے عموم کے اعتبار سے مانع نہیں ہوتا جو آیت کے الفاظ کے دائرے میں آتی ہوں۔ اس لئے آیت کو ان تمام صورتوں کے لئے استعمال کرنا واجب ہے جو آیت کے مقتضیٰ کے تحت آتی ہیں چناچہ جو شخص کسی کو قتل کرے گا اس کے بدلے میں اسے قتل کردیا جائے گا جو شخص کسی کو زخمی کرے گا اسے بھی اسی طرح زخمی کردیا جائے گا۔ اگر کسی نے کسی کا پہلے ہاتھ کاٹا ہو اور پھر قتل کردیا ہو تو مقتول کے دلی کو یہ حق ہوگا کہ پہلے اس کا ہاتھ کاٹے اور پھر قتل کر دے۔ آیت کا اقتضاء یہ بھی ہے کہ کسی شخص نے اگر کسی کا پتھر سے سر کچل کر ہلاک کردیا ہو یا ٹکٹکی پر باندھ کر تیر برسا کر اسے قتل کردیا ہو تو قاتل کو تلوار مار کر قتل کردیا جائے گا اس لئے کہ اسے بدلے کے طور پر اس صورت میں قتل کرنا ممکن نہیں جس صورت میں اس نے مقتول کی جان لی تھی کیونکہ ہمیں اس امر کا پوری طرح علم نہیں ہتا کہ قاتل نے مقتول کو کتنی ضربات لگائی تھیں اور مقتول کو کس قدر تکلیف برداشت کرنی پڑی تھی۔ ہمارے لئے تو صرف یہ ممکن ہے کہ تلوار کے ذریعے قاتل کی جان لے کر مقتول کے قتل کا بدلہ لے لیا جائے۔ اس لئے اس صورت میں آیت کے حکم پر اسی طریقے سے عمل پیرا ہونا واجب ہوگا۔ اس میں پہلا طریقہ استعمال نہیں کیا جائے گا۔ آیت کی اس پر بھی دلالت ہو رہی ہے کہ اگر کسی نے کسی کا مال استعمال میں لا کر ختم کردیا ہو تو اس پر اس کا مثل واجب ہوگا۔ اگر کوئی شخص کسی شخص کا س اگر ان (ایک قسم کی مضبوط لکڑی) غصب کر کے اسے اپنے مکان میں لگا دے یا گندم غصب کر کے اسے پیس لے ، تو ان دونوں صورتوں میں ان کا مثل اس پر واجب ہوگا۔ اس لئے کہ گندم میں کیلی یعنی ناپ کے ذریعے مثل کا حصول ممکن ہے اور لکڑی میں اس کی قیمت کے ذریعے مثل حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اس پر آیت کی دلالت موجود ہے۔ آیت اس پر بھی دلالت کرتی ہے کہ قاتل اور مجرم کو معاف کردینا قصاص لینے سے افضل ہے چناچہ ارشاد ہے (ولئن صبر تم لھو خیر للصابرین)

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٢٦) اور اگر تم ان کی اموات کا بدلہ لینے لگو تو اسی قدر بدلہ لو جتنا کہ تمہارے ساتھ برتاؤ کیا گیا ہے اور اگر صبر کرو اور بدلہ نہ لو تو یہ چیز آخرت میں بڑے ثواب کا باعث ہے۔ شان نزول : (آیت ) ”۔ وان عاقبتم فعاقبوابمثل “۔ (الخ) امام حاکم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اور بیہقی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے دلائل میں اور بزار رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ابوہریر (رض) سے روایت کیا ہے کہ جس وقت حضرت حمزہ (رض) شہید کر دے گئے تو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے پاس کھڑے ہوئے تھے اور مشرکین نے حضرت حمزہ (رض) کا مثلہ یعنی ناک دکان ڈالے تھے تو آپ نے یہ منظر دیکھ کر فرمایا میں ان کے بدلے میں کفار میں سے ستر آدمیوں کو قتل کروں اور تو آپ اسی حالت میں کھڑے تھے تو جبریل امین سورة نحل کی ان آخری آیتوں کو لے کر تشریف لائے یعنی اگر بدلہ لینے لگو تو اتنا ہی بدلہ لو جتنا کہ تمہارے ساتھ برتاؤ کیا گیا سو ان آیتوں کے نزول کے بعد رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا ارادہ بدل دیا۔ نیز امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے تحسین کے ساتھ اور امام حاکم نے ابی بن کعب (رض) سے روایت کیا ہے کہ غزوہ احد میں انصار میں سے چونسٹھ اور مہاجرین میں سے چھ حضرات شہید ہوئے ان میں حضرت حمزہ (رض) بھی تھے، سب کا مثلہ کردیا گیا تھا یہ منظر دیکھ کر انصار کہنے لگے کہ اگر آج کے کی طرح کسی دن ہمیں ان ان پر موقع مل گیا تو ہم ان کی اس سے زیادہ بری حالت کردی گے چناچہ جب فتح مکہ کا دن آیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ اس حدیث سے آیت کا نزول فتح مکہ تک موخر معلوم ہوتا ہے اور اس سے پہلے جو حدیث روایت کی ہے اس سے یہ بات معلوم ہو رہی ہے کہ یہ آیت غزوہ احد میں نازل ہوئی ہے۔ غرض کہ ابن حصار نے تمام روایتوں میں اس طرح تطبیق دی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بندوں کو یہ بات یاد دلانے کے لیے اس آیت کو دوبارہ نازل فرمایا ہے چناچہ اولا مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی اور پھر غزوہ احد میں اور پھر فتح مکہ کے دن نازل ہوئی ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٢٦۔ معتبر سند سے ترمذی، نسائی، مستدرک حاکم اور دلائل النبوت میں بیہقی نے ابوہریرہ (رض) اور ابی بن کعب (رض) کی روایت سے جو شان نزول اس آیت کی بیان کی ہے۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ جنگ احد میں چونسٹھ آدمی انصار اور چھ آدمی مہاجر یہ سب ستر شخص جو شہید ہوئے تو سوا ایک حنظلہ بن عامر (رض) کے اور سب شہدا کی لاشوں کے ساتھ مشرکین نے بڑی بےرحمی کا برتاؤ کیا۔ شہیدوں کے ناک کان شرمگاہ کاٹ ڈالے پیٹ پھاڑ ڈالے حنظلہ بن ابو عامر (رض) سے مشرکین اس سبب سے برائی سے پیش نہیں آئے کہ حنظلہ کے باپ ابو عامر مشرکین کے لشکر میں ابو سفیان کے ساتھ تھے غرض جب مشرکوں نے مسلمانوں کے شہداء کی لاشوں کے ساتھ یہ بد سلوکی کی تو اس پر مسلمانوں نے یہ کہا تھا کہ ہم بھی جب کبھی موقع پاویں گے تو جو کچھ مشرکوں نے کیا ہے اس سے بڑھ کر ہم ان کے مقتولوں کا برا درجہ کریں گے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی حضرت امیر حمزہ کی لاش کو کان، ناک، کٹا اور پیٹ پھٹا جب دیکھا تھا تو قسم کھا کر یہ فرمایا تھا کہ امیر حمزہ کے عوض میں ستر مشرکوں کے کان، ناک میں کاٹوں گا اس پر اللہ تعالیٰ نے فتح مکہ کے وقت یہ آیت نازل فرمائی ١ ؎۔ حاصل معنے آیت کے یہ ہیں کہ ایذا کے بعد اگر کوئی صبر کرے تو صبر بہت بہتر ہے اور اگر بدلا بھی لیا جاوے تو اس قدر بدلہ لیا جاوے جس قدر ایذا دشمنوں کی طرف سے پہنچی ہے۔ اس سے بڑھ کر بدلا لینا اللہ کے انصاف میں منع ہے۔ اس آیت کے اترنے کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی قسم کا کفارہ دیا اور فرمایا کہ ہم کو صبر منظور ہے۔ سوا اس شان نزول کے بعضے مفسروں نے آیت کی اور شان نزول بیان کر کے آیت کو حکم جہاد سے منسوخ جو ٹھہرایا ہے اس شان نزول سے یہ شان نزول جو اوپر بیان ہوئی ہے زیادہ صحیح ہے اسی واسطے ابو جعفر ابن جریر طبری نے اپنی تفسیر میں اس شان نزول کو پسندیدہ اور قوی ٹھہرایا ہے ٢ ؎۔ ہرم بن حیان ایک تابعی بزرگان دین میں سے جب وفات کے قریب پہنچے تو ان کے رشتہ داروں اور دوستوں نے کہا کہ کچھ وصیت فرمائیے انہوں نے کہا کہ بڑی وصیت تو مال کی ہوتی ہے مال تو میرے پاس نہیں ہے لیکن سورت نحل کی آخر کی آیتوں کی میں تم کو وصیت کرتا ہوں ان بزرگ کی وصیت کا حاصل وہی ہے جو حاصل آیت کے معنے میں بیان ہوا اللہ کی بردباری کی عادت کی۔ ابو موسیٰ اشعری (رض) کی حدیث صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے اوپر ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کون بردبار ہوسکتا ہے کہ لوگ شرک کرتے اور اللہ تعالیٰ ان کے رزق اور ان کی صحت میں خلل نہیں ڈالتا ٣ ؎، اور احادیث میں بھی غصہ کے وقت بردباری اور تحمل کی بڑی فضیلت آئی ہے جس طرح آگے کی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے پرہیز گار اور نیک بندوں کے ساتھ ہونے کا ذکر فرمایا ہے اسی طرح قرآن شریف میں جہاں کہیں اللہ کا اپنے بندوں کے ساتھ ہونے کا ذکر ہے اہل سنت کے نزدیک اس کے معنے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے علم اور مدد سے بندوں کے ساتھ ہے اللہ کی ذات پاک کا ہر جگہ ہونا اور ہر شے میں ہونا فرقہ جہمیہ کا اعتقاد ہے۔ اہل سنت اس کے قائل نہیں ہیں چناچہ امام احمد بن حنبل نے فرقہ جہمیہ کے عقیدوں کے غلط ٹھہرانے میں خاص ایک کتاب لکھی ہے جس میں بہت سی آیتیں اور عقلی دلیلوں سے جہمیہ فرقہ کو قائل کیا گیا ہے چناچہ مثلاً آیت قد احاط بکل شئی علما (٦٦: ١٢) کے موافق اہل سنت کے مذہب کی بنا پر اللہ تعالیٰ کے علم کو ہر جگہ تسلیم کر کے عقلی طور پر بعضے مقامات کی بحث کی ہے جہاں اللہ تعالیٰ کے بالذات موجود ہونے کے اعتقاد کو بڑی گستاخی اور بےادبی کا اعتقاد ثابت کیا ہے جیسے مثلاً صحیح مسلم کی جابر (رض) کی حدیث میں ہے کہ شیطان سمندر میں اپنا تخت بچھا کر بیٹھا ہے ٤ ؎۔ اب اوپر کی آیت کے موافق اللہ تعالیٰ اپنے علم کی رو سے تو وہاں موجود ہے لیکن نعوذ باللہ منہا اس تخت پر اللہ تعالیٰ کے بالذات موجود ہونے کا اعتقاد کسی مسلمان کو زیبا نہیں ہے۔ ایسی نقلی اور عقلی مثالیں اس کی کتاب میں بہت سی ہیں جن سے جہمی فرقہ کے مذہب کی غلطی اچھی طرح ثابت ہوتی ہے۔ ١ ؎ جامع ترمذی ص ٤١ ج ٢ تفسیر سورت النحل۔ ٢ ؎ تفسیر ابن جریر ص ١٩٧ ج ١٤۔ ٣ ؎ مشکوٰۃ ص ١٣ کتاب الایمان۔ ٤ ؎ مشکوٰۃ ص ١٨ باب فے الوسوسۃ۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(16:126) فعاقبوا امر۔ جمع مذکر حاضر۔ تم (ان کو) سزا دو ۔ عوقبتم۔ ماضی مجہول جمع مذکر حاضر۔ تمہیں سزادی گئی۔ تمہیں ایذا پہنچائی گئی

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 اس سے زیادتی نہ کرو 8 اللہ تعالیٰ خود ظالم سے ان کا بدلہ لے گا اور اپنے ہاں سے انہیں صبر کرنے کا اجر عظیم عطا فرمائیگا شاہ صاحب لکھتے ہیں : پہلے جو فرمایا کہ سمجھائو بھلی طرح اس میں رخصت دی کہ بدی کے بدلے بدی بری نہیں، پھر صبر اور بہتر ہے۔ (موضح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : مبلغ کو ہر حال میں حکمت اور حوصلہ سے کام لینا چاہیے اگر وہ انتہائی ظلم پر صبر و حوصلہ نہیں کرسکتا تو اسے ظلم سے بڑھ کر بدلہ لینے کی اجازت نہیں۔ مفسرین کا خیال ہے سورة النحل کی آخری تین آیات مدنی دور میں نازل ہوئیں جبکہ باقی پوری کی پوری سورة مکی دور میں نازل ہوئی تھی۔ آخری آیات کا شان نزول بیان کرتے ہوئے حضرت ابی بن کعب (رض) فرماتے ہیں کہ احد کے موقع پر انصار کے چونسٹھ اور مہاجرین کے چھ آدمی شہید ہوئے تھے۔ ان میں سید الشّہداء حضرت حمزہ (رض) بھی شہید ہوئے تھے۔ جن کے جسد اطہر کی بےحرمتی کرتے ہوئے کفار نے ان کے کان، ہونٹ، ناک کاٹنے کے ساتھ آنکھیں نکال دیں جس پر مسلمانوں نے ردّ عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا جب ہمیں کفار پر غلبہ ہوا تو ہم بھی ان کی لاشوں کا مثلہ کریں گے۔ اس پر مسلمانوں کو اس بات کی اجازت دی گئی ہے کہ اگر تم بدلہ لینا چاہو تو پھر اتنا ہی بدلہ لے سکتے ہو جتنا تم پر ظلم کیا گیا ہے۔ البتہ صبر کرو گے تو صبر کرنے والوں کے لیے یہ نہایت ہی بہتر بات ہے۔ اس آیت سے بعض لوگوں نے یہ استدلال کیا ہے کہ اگر کسی مبلغ پر ظلم ہو تو وہ ظلم کا بدلہ لے سکتا ہے لیکن تبلیغ کے میدان میں اگر مبلغ صبر سے کام لے تو یہ بات نہایت ہی مفید ثابت ہوتی ہے۔ جس کی تاریخ اسلام میں ہزاروں مثالیں موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سروردوعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہاڑ سے بڑھ کر استقامت، سمندر سے زیادہ کشادہ دلی اور زمین سے بڑھ کر وسعت ظرفی اور صبر و ہمت کی توفیق عنایت فرمائی تھی۔ لیکن ایک انسان ہونے کے ناطے کبھی کبھار آپ کا دل بھرجاتا اور یہ بات سوچنے پر مجبور ہوجاتے کہ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ میں ان کی دنیا کی بھلائی اور آخرت کی بہتری کے لیے ہر چیز قربان کیے ہوئے ہوں۔ مگر لوگ میری خیر خواہی کا جواب ظلم اور بدکلامی کے ساتھ دے رہے ہیں۔ اس پر آپ کا دل پریشان ہوتا اور آپ کا سینہ پسیج جاتا تھا، جس پر آپ کو تسلی دی گئی کہ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کو ان لوگوں کے مکر و فریب، زیادتی اور بدکلامی پر زیادہ پریشان اور غمزدہ نہیں ہونا چاہیے۔ یقین رکھیں کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو ہر حال میں اپنے رب سے ڈرتے ہوئے اچھے اعمال اور دوسروں کے ساتھ احسان کا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ طائف میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وعظ اور تبلیغ کے لیے تشریف لے گئے تھے۔ وہاں کے باشندوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کیچڑ پھینکا۔ آوازے لگائے، اتنے پتھر مارے کہ حضور لہو سے تر بہ تر اور بےہوش ہوگئے۔ پھر بھی یہی فرمایا کہ میں ان لوگوں کی ہلاکت نہیں چاہتا۔ کیوں کہ اگر یہ ایمان نہیں لاتے تو امید ہے کہ ان کی اولاد مسلمان ہوجائے گی۔ (رحمۃ اللعالمین) مسائل ١۔ صبر اللہ کی توفیق سے حاصل ہوتا ہے۔ ٢۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کفار پر غم نہ کرنے کی تلقین کی گئی۔ ٣۔ کسی کی چالوں سے تنگ دل نہیں ہونا چاہیے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ متقین کے ساتھ ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ صبر اور تقویٰ اختیار کرنے والوں کے ساتھ ہے : ١۔ یقیناً اللہ متقین کے ساتھ ہے۔ (النحل : ١٢٨) ٢۔ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (البقرۃ : ١٥٣) ٣۔ اللہ سے ڈر جاؤ اور جان لو اللہ متقین کے ساتھ ہے۔ (البقرۃ : ١٩٤) ٤۔ اگر لوگ ایمان لائیں اور تقوی اختیار کریں تو اللہ کے ہاں ان کے لیے بہترین اجر ہے۔ (البقرۃ : ١٠٣) ٥۔ تقوی اختیار کرنے والوں اور نیکی کرنے والوں کو اللہ پسند فرماتا ہے۔ (المائدۃ : ٩٣) ٦۔ اللہ تقویٰ اختیار کرنے والوں کو نجات عطا فرماتا ہے۔ (الزمر : ٦١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وان عاقبتم فعاقبوا بمثل ما عوقبئتم بہ (٦١ : ٦٢١) ” اگر تم بدلہ لو تو اسی قدر لے لو جس قدر تم پر زیادتی کی گئی “۔ یہ دعوت اسلامی کے طریقہ کار سے باہر کی کوئی چیز نہیں ہے بلکہ اس کے اندر داخل ہے۔ دعوت اسلامی کا دفاع کرنا اور اس معاملے میں اعتدال کا رویہ اپنانا ، یہ تحریک اسلامی کے وقار اور عزت کا باعث ہوگا۔ لوگوں کے دلوں میں یہ کوئی بےوقعت دعوت نہ ہوگی۔ کوئی ایسی دعوت جس کا وقار نہ ہو ، لوگ اسے ہرگز قبول نہیں کرتے۔ نہ لوگوں کو یہ یقین آتا ہے کہ یہ دعوت دین ہے۔ نیز اللہ کا یہ منشا نہیں ہے کہ وہ دعوت اسلامی کو یوں بےوقار اور لاچار چھوڑ دے جو اپنے عزت و وقار کا دفاع نہ کرسکتی ہو۔ اس لئے اہل ایمان جب تک کہ وہ اللہ کے دین کے داعی ہوں ، ذلت ہرگز برداشت نہیں کرسکتے۔ نیز داعی کا منصب یہ ہے کہ وہ اس کرہ ارض پر سچائی کا امین ہے۔ اس نے لوگوں کے درمیان عدل و انصاف قائم کرنا ہے ، اور اس نے ہی انسانیت کی قیادت راہ راست کی طرف کرنی ہے۔ وہ یہ کام ہرگز نہیں کرسکتے اگر ان کو سزا دی جائے اور وہ بدلہ نہ لے سکیں اور وہ دست درازی کرنے والے کی مناسب سرزنش نہ کرسکیں۔ اس سلسلے میں مناسب جواب اور سرزنش کا اصول ، اصول قصاص ہوگا۔ قرآن کا اصل منشا تو یہ ہے کہ انسان عفو و درگزر سے کام لے۔ لیکن عفو و درگزر اس وقت ہوتا ہے جب انسان انتقام اور بدلہ لینے پر قدرت رکھتا ہو اور ایسے حالات میں عفو و درگزر کا بہت ہی اچھا اثر ہوتا ہے اور دعوت کو بہت فائدہ بھی ہوتا ہے۔ اگر بعض افراد پر دست درازی ہو لیکن دعوت کو فائدہ ہو تو اشخاص پر تعدی کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ لیکن اگر عفو و درگزر سے دعوت الیٰ اللہ کی توہین ہوتی ہو اور اس کے وقار پر حرف آتا ہو تو اس صورت میں قصاص کا اصول ہی بہتر ہے۔ چونکہ صبر اور درگزر کرنے سے داعی اپنے جذبات اور جذبہ انتقام پر کنٹرول کرنا سیکھتا ہے اس لئے قرآن کریم اس فعل اور اس کے اجر کو اللہ اور آخرت سے وابستہ کرتا ہے۔ ولئن صبرتم لھو خیر للصبرین (٦٢١) واصبر وما صبرک انا باللہ (٧٢١) (٦١ : ٦٢١۔ ٧٢١) ” لیکن اگر تم صبر کرو تو یقینا یہ صبر کرنے والوں ہی کے حق میں بہتر ہے اور صبر کرو ، تمہارا صبر اللہ ہی کے لئے ہے “۔ یہ اللہ ہی ہے جو صبر اور ضبط نفس کی توفیق دیتا ہے اور اس میں انسان کا مددگار ہوتا ہے اور یہ جذبہ للبیت ہی ہے جو انسان کو ذاتی انتقام اور قصاص اور بدلہ لینے کے مقابلے میں صبر پر آمادہ کرتا ہے۔ قرآن کریم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے نصیحت کے انداز میں یہ اصول وضع کر رہا ہے اور آپ کے ہر دعوت دین دینے والے کے لئے یہی ضابطہ عمل ہے کہ اگر لوگ ہدایت کی راہ پر نہیں آتے تو وہ پریشان نہ ہو۔ اس کا فرض وہی ہے جو وہ ادا کر رہا ہے۔ ہدایت و ضلالت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ہدایت و ضلالت سنت الہٰیہ کے مطابق ہے اور سنت الہٰیہ وہ استعداد ہے جو ہدایت و ضلالت کے لئے اللہ نے نفوس انسانیہ کے اندر ودیعت کردی ہے۔ نیز یہ کہ مخالفین کی مکاریوں کی وجہ سے داعی دل تنگ نہ ہو۔ کیونکہ وہ تو داعی ہے۔ اللہ اس کا محافظ ہے۔ وہی مخالفین کی مکاریوں اور ریشہ دوانیوں کا جواب دے گا۔ اللہ کسی داعی کو اس کے مخالفین کے حوالے نہیں کرتا بشرطیکہ وہ دعوت میں مخلص ہے ، اللہ کے لئے کام کر رہا ہے اور اس کے پیش نظر کوئی ذاتی مفاد نہیں ہے۔ یہ جو اس کو اذیت دی جا رہی ہے یہ اس کے صبر کا امتحان ہے۔ اللہ کی نصرت آنے میں دیر اس لئے ہو رہی ہے کہ اللہ پر اس کے بھروسے اور یقین کو آزمایا جارہا ہے لیکن اچھا انجام یقینی ہے اور فتح اس کے قدم چومنے سے والی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

بدلہ لینے کا اصول اور صبر کرنے کی فضیلت ان آیات میں بدلہ لینے کا اصول بتایا ہے اور صبر کی فضیلت بتائی ہے اور متقین و محسنین کے بارے میں فرمایا کہ اللہ جل شانہ ان کے ساتھ ہے صاحب معالم التنزیل تحریر فرماتے ہیں کہ یہ آیات شہداء احد کے بارے میں نازل ہوئیں۔ غزوہ احد میں جو مسلمان شہید ہوئے کافروں نے ان کے ناک کان کاٹ دئیے تھے اور پیٹ پھاڑ دئیے تھے جب مسلمانوں نے یہ حال دیکھا تو کہنے لگے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے آئندہ ہمیں ان پر غلبہ دے دیا تو ہم بھی ان کے مقتولین کے ساتھ ناک کان کاٹنے کا معاملہ کریں گے اور وہ معاملہ کریں گے جو اہل عرب میں سے کسی نے کسی کے ساتھ نہ کیا ہو۔ انہی شہداء میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا حضرت حمزہ بن عبد المطلب بھی تھے۔ ان کے بھی ناک کان کاٹے گئے تھے آپ نے انہیں دیکھ کر فرمایا کہ اگر آئندہ اللہ نے مجھے کامیابی دی یعنی کافروں پر غلبہ دیا تو حمزہ کا بدلہ ان کے ستر آدمیوں کے ناک کان کاٹ کردیں گے، اس پر اللہ جل شانہ نے آیت کریمہ (وَ اِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِہٖ ) میں یہ ارشاد فرمایا کہ اگر تمہیں بدلہ لینا ہو تو اسی جیسا بدلہ لے سکتے ہو جیسا کہ تمہارے ساتھ زیادتی کی گئی ہے۔ بدلہ میں زیادتی کرنا جائز نہیں، فرمایا (وَ لَءِنْ صَبَرْتُمْ لَھُوَ خَیْرٌ لِّلصّٰبِرِیْنَ ) (اور اگر تم صبر کرلو تو البتہ وہ صبر کرنے والوں کے لیے بہتر ہے) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ بس ہم صبر کریں گے اور بدلے لینے کا ارادہ ترک فرما دیا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

103:۔ اگر مشرکین پر آپ لوگوں کو غلبہ حاصل ہوجائے اور وہ تمہارے ہاتھ آجائیں تو ان پر زیادتی اور ظلم وتعدی ہرگز نہ کرنا البتہ جس قدر انہوں نے تمہیں تکلیف دی اس کے مطابق بدلہ لے لینے کی اجازت ہے اور اگر تم بدلہ بھی نہ لو بلکہ صبر کرو اور معاف کردو تو یہ تمہارے لیے بہت بہتر ہے اس کا بدلہ بےحساب اجر وثواب کی صورت میں تم اللہ کے یہاں پاؤ گے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

126 ۔ تبلیغ کے طریقے سکھانے کی اس راہ میں مشکلات پیش آئیں ۔ ان کا حکم فرمایا کہ کفار کی جانب سے اس دعوت حق کے بدلے میں ظلم کئے جائیں تو برداشت کرو اور اگر انتقام لینا چاہو اور بدلے کی قدرت حاصل ہو تب بھی اس کا خیال رکھو کہ زیادتی نہ ہو ۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے کہ اگر ایذا پہنچانے والوں سے تم بدلہ لینے لگو تو اسی قدر اور اتنا ہی بدلہ لو جتنا اور جس قدر ان کی جانب سے تم کو تکلیف پہنچائی گئی ہو اور دکھ دیا گیا ہو اور اگر عزیمت پر عمل کرتے ہوئے صبر کرو اور بدلے کا خیال چھوڑ دو تو یہ صبر کرنا یقینا صبر کرنے والوں کے لئے اور برداشت کرنے والوں کے حق میں بہت ہی بہتر بات ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں پہلے جو فرمایا سمجھائو بھلی طرح اس میں رخصت دی کہ بدی کے بدل بدی بھی بری نہیں پر صبر کرو تو بہتر ہے۔ 12