Surat un Nahal

Surah: 16

Verse: 127

سورة النحل

وَ اصۡبِرۡ وَ مَا صَبۡرُکَ اِلَّا بِاللّٰہِ وَ لَا تَحۡزَنۡ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا تَکُ فِیۡ ضَیۡقٍ مِّمَّا یَمۡکُرُوۡنَ ﴿۱۲۷﴾

And be patient, [O Muhammad], and your patience is not but through Allah . And do not grieve over them and do not be in distress over what they conspire.

آپ صبر کریں بغیر توفیق الٰہی کے آپ صبر کر ہی نہیں سکتے اور ان کے حال پر رنجیدہ نہ ہوں اور جو مکرو فریب یہ کرتے رہتے ہیں ان سے تنگ دل نہ ہوں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُكَ إِلاَّ بِاللّهِ ... And be patient, and your patience will not be but by the help of Allah. This emphasizes the command to be patient and tells us that patience cannot be acquired except by the will, help, decree and power of Allah. Then Allah says: ... وَلاَ تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ ... And do not grieve over them, meaning, those who oppose you, for Allah has decreed that this should happen. ... وَلاَ تَكُ فِي ضَيْقٍ ... and do not be distressed, means do not be worried or upset. ... مِّمَّا يَمْكُرُونَ by their plots. meaning; because of the efforts they are putting into opposing you and causing you harm, for Allah is protecting, helping, and supporting you, and He will cause you to prevail and defeat them. إِنَّ اللّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَواْ وَّالَّذِينَ هُم مُّحْسِنُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

127۔ 1 اس لئے کہ اللہ تعالیٰ ان کے مکروں کے مقابلے میں اہل ایمان وتقویٰ اور محسنین کے ساتھ ہے اور جس کے ساتھ اللہ ہو، اسے اہل دنیا کی سازشیں نقصان نہیں پہنچا سکتیں، جیسا کہ ما بعد کی آیت میں ہے

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٣٠] مخالفین حق کے مظالم و شدائد کو ٹھنڈے دل سے برداشت کیے جانا کوئی سہل کام نہیں۔ اللہ ہی اس کی توفیق عطا فرمائے تو ہوسکتا ہے تاہم آپ ان کی معاندانہ سرگرمیوں سے دل میں گھٹن محسوس نہ کیجئے۔ اللہ یقیناً آپ کو صبر کی توفیق دے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُكَ اِلَّا باللّٰهِ : آخر میں پھر صبر کا حکم دیا، ساتھ ہی متنبہ فرمایا کہ اگر صبر جیسا مشکل اور عظیم کام کرلو تو اسے اپنا کمال مت سمجھنا، بلکہ یقین رکھنا کہ یہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی عنایت سے ممکن ہوا، تمہیں اس کا فائدہ اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ اللہ کی نعمت سے غافل نہ ہو، اس کے سامنے عاجز و منکسر رہو اور ہر وقت اس سے دعا کرتے رہو۔ وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ ۔۔ : نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی قوم کے ایمان نہ لانے پر اتنا غم ہوتا کہ شاید اپنی جان گھلا لیں گے، اس پر اللہ تعالیٰ نے تسلی دی کہ نہ آپ ان پر غم کریں اور نہ ان کی سازشوں سے دل تنگ ہوں۔ ” ضَيْقٍ “ اور ” ضِیْقٌ“ دونوں کا ایک ہی معنی ہے۔ دیکھیے سورة شعراء (٣) اور سورة کہف (٦) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُكَ اِلَّا بِاللّٰهِ وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَلَا تَكُ فِيْ ضَيْقٍ مِّمَّا يَمْكُرُوْنَ ١٢٧؁ حزن الحُزْن والحَزَن : خشونة في الأرض وخشونة في النفس لما يحصل فيه من الغمّ ، ويضادّه الفرح، ولاعتبار الخشونة بالغم قيل : خشّنت بصدره : إذا حزنته، يقال : حَزِنَ يَحْزَنُ ، وحَزَنْتُهُ وأَحْزَنْتُهُ قال عزّ وجلّ : لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران/ 153] ( ح ز ن ) الحزن والحزن کے معنی زمین کی سختی کے ہیں ۔ نیز غم کی وجہ سے جو بیقراری سے طبیعت کے اندر پیدا ہوجاتی ہے اسے بھی حزن یا حزن کہا جاتا ہے اس کی ضد فوح ہے اور غم میں چونکہ خشونت کے معنی معتبر ہوتے ہیں اس لئے گم زدہ ہوے کے لئے خشنت بصررہ بھی کہا جاتا ہے حزن ( س ) غمزدہ ہونا غمگین کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران/ 153] تاکہ جو چیز تمہارے ہاتھ سے جاتی رہے اس سے تم اندو ہناک نہ ہو ضيق الضِّيقُ : ضدّ السّعة، ويقال : الضَّيْقُ أيضا، والضَّيْقَةُ يستعمل في الفقر والبخل والغمّ ونحو ذلك . قال تعالی: وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود/ 77] ، أي : عجز عنهم، وقال : وَضائِقٌ بِهِ صَدْرُكَ [هود/ 12] ( ض ی ق ) الضیق والضیق کتے معنی تنگی کے ہیں اور یہ سعتہ کی ضد ہے اور ضیقتہ کا لفظ فقر بخل غم اور اس قسم کے دوسرے معانی میں استعمال ہوتا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود/ 77] کے معنی یہ ہیں کہ وہ انکے مقابلہ سے عاجز ہوگئے ۔ اور آیت ؛۔ وَضائِقٌ بِهِ صَدْرُكَ [هود/ 12] اور اس ( خیال سے سے تمہارا دل تنگ ہو ۔ مكر المَكْرُ : صرف الغیر عمّا يقصده بحیلة، وذلک ضربان : مکر محمود، وذلک أن يتحرّى بذلک فعل جمیل، وعلی ذلک قال : وَاللَّهُ خَيْرُ الْماكِرِينَ [ آل عمران/ 54] . و مذموم، وهو أن يتحرّى به فعل قبیح، قال تعالی: وَلا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ [ فاطر/ 43] ( م ک ر ) المکر ک ے معنی کسی شخص کو حیلہ کے ساتھ اس کے مقصد سے پھیر دینے کے ہیں یہ دو قسم پر ہے ( 1) اگر اس سے کوئی اچھا فعل مقصود ہو تو محمود ہوتا ہے ورنہ مذموم چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَاللَّهُ خَيْرُ الْماكِرِينَ [ آل عمران/ 54] اور خدا خوب چال چلنے والا ہے ۔ پہلے معنی پر محمول ہے ۔ اور دوسرے معنی کے متعلق فرمایا : ۔ وَلا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ [ فاطر/ 43] اور بری چال کا وبال اس کے چلنے والے پر ہی پڑتا ہے :

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٢٧) اور اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کفار کی تکالیف پر صبر کیجیے اور آپ کا صبر کرنا خاص اللہ ہی کی توفیق خاص سے ہے اور ان مذاق اڑانے والوں کی ہلاکت پر غم نہ کیجیے اور جو کچھ یہ تدبیریں کیا کرتے ہیں اس سے دل چھوٹا نہ کیجیے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٢٧ (وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُكَ اِلَّا باللّٰهِ ) یہ حکم براہ راست رسول اللہ کے لیے ہے اور آپ کی وساطت سے تمام مسلمانوں کے لیے بھی۔ اس سلسلے میں حقیقت یہ ہے کہ اللہ پر جس قدر اعتماد ہوگا جیسا اس پر توکل ہوگا جتنا پختہ اس کے وعدوں پر یقین ہوگا اسی انداز میں انسان صبر بھی کرسکے گا۔ (وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَلَا تَكُ فِيْ ضَيْقٍ مِّمَّا يَمْكُرُوْنَ ) یہ لوگ اپنے کرتوتوں کے سبب عذاب کے مستحق ہوچکے ہیں۔ چناچہ آپ ان کے انجام کے بارے میں بالکل رنجیدہ اور فکر مند نہ ہوں اور نہ ہی ان کی سازشوں اور گھٹیا معاندانہ سرگرمیوں کے بارے میں سوچ کر آپ اپنا دل میلا کریں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٢٧۔ ١٢٨۔ اس سے اوپر کی آیت میں اللہ پاک نے مومنوں کو خطاب کیا تھا کہ جب کوئی تم پر ظلم کرے اور تم کسی وقت اس پر قابو پا کر بدلہ لینا چاہو تو اسی قدر بدلہ لو جتنا اس نے ظلم کیا تھا ایسا نہ ہو کہ اس سے تجاوز کرو بلکہ بہتر تو یہ ہے کہ صبر کرو اس آیت میں خاص کر سرور کائنات حضرت رسول مقبول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم فرمایا کہ آپ صبر اختیار کریں اور اس کی تاکید فرمائی اور اس بات کی خبر دی کہ خداوند جل جلالہ کی مدد کے بغیر صبر ہاتھ نہیں آتا آپ اگر صبر کریں گے تو خدا ہی کی مدد سے کرسکیں گے اور پھر آپ کو اس بات سے منع فرمایا کہ جو شخص آپ کے خلاف کرے تو اس سے رنجیدہ ہوجاویں کیونکہ یہ بھی خدا ہی کی طرف سے مقدر ہوچکا تھا جو کچھ احد کی لڑائی میں ہوا اور پھر کفار کے مکرو فریب کرنے سے غمگین ہونے کو منع فرمایا کہ اگر یہ مکرو فریب کرتے ہیں تو کرنے دو خدا تو تمہارے ساتھ ہے ان کے مکرو فریب سے تمہیں کیا نقصان ہوگا۔ اللہ پاک متقی اور خالص نیت سے نیک عمل کرنے والے لوگوں کے ساتھ ہے۔ صحیح بخاری و مسلم میں ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تکلیف کے وقت جو شخص صبر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس شخص کی غیب سے مدد کرتا ہے ١ ؎۔ جس سے تکلیف کی برداشت اس شخص پر آسان ہوجاتی ہے یہ حدیث اصبر وما صبرک الا باللہ کی گویا تفسیر ہے جس میں اللہ کے رسول نے آیت کے ٹکڑے کا مطلب اچھی طرح سمجھا دیا ہے۔ اسلام کی ترقی کو روکنے کے لئے مشرکین مکہ طرح طرح کے مکرو فریب کرتے تھے۔ چناچہ اسی سورت میں ان کے ایک فریب کا ذکر قتادہ کے صحیح قول کے حوالہ سے گزر چکا ہے کہ یہ لوگ حج کے موسم میں مکہ کے چاروں طرف آدمی بٹھلا دیتے تھے تاکہ وہ مکہ کے آنے والے مسافروں سے قرآن اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مذمت بیان کر کے انہیں اسلام کی طرف مائل نہ ہونے دیویں اسی واسطے فرمایا کہ ان مشرکوں کی سرکشی پر نہ کچھ رنجیدہ ہونا چاہیے نہ ان کا مکرو فریب کچھ اندیشہ کے قابل ہے پرہیز گار اور نیک لوگوں کے ساتھ اللہ ہے وہ ان کی مدد کرے گا اور اس کی مدد کے آگے کسی کا مکرو فریب کچھ چل نہیں سکتا اللہ سچا ہے اللہ کا وعدہ سچا ہے مکہ کے چاروں طرف آدمی بٹھلا کر جن مکہ کے مسافروں کو ان مشرکوں نے اسلام سے روکنا چاہا اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے موافق ایسی مدد کی کہ انہی مکہ کے مسافروں کے ذریعہ سے اہل اسلام کی جماعت بڑھا دی۔ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے عبادہ بن الصامت (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے ٢ ؎۔ جس میں منیٰ کی گھاٹی کی بیعت اسلام کا قصہ ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ایک سال موسم حج میں قبیلہ اوس و خزرج کے کچھ لوگ مدینہ سے مکہ آئے اور منیٰ کی گھاٹی میں انہوں نے اسلام قبول کیا اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان میں سے بارہ شخصوں کو نقیب مقرر کیا تھا کہ وہ مدینہ اور اطراف مدینہ میں اسلام کو پھیلا دیں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہجرت سے پہلے مدینہ اور اطراف مدینہ میں چودہ پندرہ سو آدمیوں کی جماعت اہل اسلام کی قائم ہوگئی حاصل کلام یہ ہے کہ ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ جو فرمایا تھا کہ اللہ کے رسول اور ان کے ساتھ کے اہل اسلام کی غیب سے ایسی مدد ہوگی جس سے ان مشرکین کا مکرو فریب کچھ نہیں چل سکے گا عبادۃ بن الصامت (رض) کی یہ حدث اس وعدہ کے ظہور کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ مکہ کے چاروں طرف آدمی بٹھلا کر جن لوگوں کو مشرکین مکہ نے اسلام سے روکنا چاہا تھا مدد الٰہی سے وہی لوگ اسلام کے ایسے مددگار بن گئے کہ قیامت تک ان کا نام انصار اور دین کے مددگار قرار پا گیا۔ معتبر سند سے عطیہ سعدی (رض) کی روایت ایک جگہ گزر چکی ہے کہ کوئی شخص متقیوں کے درجہ کو نہیں پہنچ سکتا جب تک بےڈر کی چیز کو ڈر کی چیز کی دہشت سے نہ چھوڑ دے یہ حدیث متقیوں کے حال کی گویا تفسیر ہے احسان کے معنے حسن سلوک کے بھی ہیں اور حسن عبادت کے بھی ہیں ان آیتوں میں محسنون کا لفظ خالص نیت سے عبادت کرنے والوں کے لئے ہے کہ حسن عبادت کا یہی مطلب ہے صحیح مسلم کے حوالہ سے حضرت عمر (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حسن عبادت کے معنوں میں جو احسان ہے اس کی تفسیر یوں فرمائی ہے کہ آدمی عبادت کرتے وقت یہ خیال کرے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے اگر یہ مرتبہ آدمی کو میسر نہ ہو تو اتنا خیال ضرور ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو دیکھ رہا ہے ٣ ؎۔ اگرچہ سورت آل عمران میں احد کی لڑائی کا قصہ بیان کردیا گیا ہے لیکن اس آیت اور اس سے اوپر کی آیت میں مختصر طور پر احد کی لڑائی کا ذکر آیا ہے اس سبب سے مناسب معلوم ہوا کہ یہاں بھی اور لڑائی کے قصہ کا مختصر طور پر ذکر کردیا جاوے۔ احد کی لڑائی کا سبب یہ ہے کہ جب ٢ ھ میں بدر کی لڑائی ہو کر مسلمانوں کی فتح ہوئی تو مشرکین مکہ کو مسلمانوں کو اس فتح اور اپنی شکست کا بڑا رنج تھا اس لئے بدر کی لڑائی کے تیرہ مہینے کے بعد مشرکین مکہ پھر لڑائی کے ارادہ سے آئے اور احد کے مقام پر لڑائی ہوئی۔ یہ لڑائی ایسے ڈھنگ سے تھی کہ احد پہاڑ مسلمانوں کی پشت پر تھا۔ لڑائی کے شروع ہونے سے پہلے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لشکر اسلام کی پشت کی حفاظت کے عندیہ سے پچاس تیر اندازوں کو اس پہاڑ پر تعینات کردیا تھا تاکہ مشرک لوگ دھوکا دے کر لشکر اسلام کی پشت کی طرف سے حملہ کرنا چاہیں تو یہ تیر انداز ان کو روکیں۔ اول اول مشرکوں نے لشکر اسلام کی پشت کی طرف سے تین دفعہ حملہ کرنا چاہا لیکن ان تیر اندازوں نے بڑی جرأت سے مشرکوں کے تینوں دفعہ کے حملہ کو روکا مگر جب ان تیر اندازوں نے دیکھا کہ مسلمان غالب ہوا چاہتے ہیں تو ان تیر اندازوں نے اپنی تعیناتی کی جگہ چھوڑ دی اور لوٹ لوٹ کہتے ہوئے لشکر اسلام میں جاملے۔ مشرکوں نے موقع پاکر لشکر اسلام کی پشت پر سے بھی حملہ کردیا اور مسلمانوں کے پیر اکھاڑ دئیے آخر ستر آدمی مسلمانوں کے شہید ہوئے حضرت امیر حمزہ (رض) اور نامی گرامی صحابہ بھی انہیں ستر میں شریک ہیں۔ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دانت ٹوٹ گیا اور آپ کی ناک میں اور گھٹنے کو بھی صدمہ پہنچا اور آپ ایک گڑھے میں گر پڑے جس سے شیطان نے غل مچا دیا کہ رسول وقت شہید ہوگئے۔ اسی مسلمانوں کی شکست کے بعد مشرکوں نے مسلمانوں کی لاشوں کے ساتھ وہ بدسلوکی کا برتاؤ کیا جس کا ذکر اوپر کی آیت کی تفسیر میں گزرا اور اسی بدسلوکی کے برتاؤں کو دیکھ کر اللہ کے رسول اور مسلمانوں کو وہ جوش آیا جس کا ذکر اوپر کی آیت کی تفسیر میں ہے اور اسی جوش کے مٹانے کے لئے اس آیت میں صبر کا حکم نازل ہوا۔ ١ ؎ الترغیب ص ٢٦٣ ج ٢ الترغیب فے الصبر الخ۔ ٢ ؎ تفسیر ہذا جلد دوم ص ١٥٩۔ ٣ ؎ مشکوٰۃ ص ١١ کتاب الایمان۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(16:127) وما صبرک الا باللہ اور آپ کا صبر بدوں توفیق من اللہ نہیں ہے ۔ یعنی صبر کی توفیق بھی خدا تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے۔ ولاتک۔ فعل نہی واحد مذکر حاضر۔ کون مصدر۔ تو نہ ہو ۔ تو مت ہو۔ ضیق۔ ضیق۔ سعۃ (وسعت و کشادگی) کی ضد ہے۔ اور ضیق بھی بولا جاتا ہے۔ ضبقۃ کا استعمال فقر۔ بخل۔ غم اور اسی قسم کے معنوں میں ہوتا ہے مثلاً آیۃ ہذا ولاتک فی ضیق تو تنگ دل مت ہو۔ تو غم نہ کھا ۔ ضاق یضیق تنگ ہونا۔ یمکرون۔ مضارع جمع مذکر غائب مکر سے ۔ وہ چالیں چلتے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 یعنی کافروں کی گمراہی اور بری حرکات کا

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ اس لیے آپ تسلی رکھیں کہ صبر میں آپ کو دشواری نہ ہوگی۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (وَ اصْبِرْ وَ مَا صَبْرُکَ اِلَّا باللّٰہِ ) (اور آپ صبر کیجیے اور آپ کا صبر کرنا صرف اللہ ہی کی توفیق سے ہے) (وَ لَا تَحْزَنْ عَلَیْھِمْ ) (اور مخالفت کرنے والوں پر غم نہ کیجیے) (وَ لَا تَکُ فِیْ ضَیْقٍ مِّمَّا یَمْکُرُوْنَ ) (اور یہ لوگ جو تدبیریں کرتے ہیں ان کے بارے میں تنگ دل نہ ہوجائیے) آپ اپنا کام جاری رکھیں ان کی تدبیریں دھری رہ جائیں گی۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

104:۔ یہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تین طرح سے تسلی ہے۔ یعنی آپ صبر سے کام لیں اور مشرکین کے ایمان نہ لانے اور ان کے ضد وعناد پر ڈٹے رہنے سے آپ غمین اور دل برداشتہ نہ ہوں اور نہ ان کے مکر و فریب سے پریشان ہوں ” ان اللہ مع الذین اتقوا الخ “ جملہ ماقبل کے لیے تعلیل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ان لوگوں کا ساتھ دیتا اور ان لوگوں کی مدد کرتا ہے جو تمام برائیوں سے اجتناب کریں اور اعمال صالحہ بجا لائیں یا محسنین سے مخلصین مراد ہے یعنی ان کا ہر کام اخلاص نیت سے ہو اور ان کی زندگی کی تمام تگ و دو محض رضائے الٰہی کے لیے ہو۔ ای ھو و لی الذین اجتنبوا السیئات و ولی العاملین بالطاعات قیل من اتقی فی افعالہ واحسن فی اعمالہ کان اللہ معہ فی احوالہ ومعینہ نصرتہ فی المامور و عصمتہ فی المحظور (مدارک ج 2 ص 236) اور اس میں شک نہیں کہ آپ بدرجٔ اتم ان خوبیوں کے حامل ہیں اور آپ کے ساتھی بھی علی حسب المراتب ان خوبیوں سے متصف ہیں اس لیے لا محالہ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت اور امداد و اعانت آپ کے شامل حال ہوگی۔ لہذا آپ صبر و استقامت کے ساتھ اشاعت توحید اور پیغام الٰہی کی تبلیغ میں لگے رہیں۔ واخر دعوانا ان الحمد للہ رب العلمین۔ ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم۔ و تب علینا انک انت التواب الرحیم۔ سورة نحل ختم ہوئی

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

127 ۔ آگے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب فرمایا اور پیغمبر آپ تو بجائے انتقام کے صبر ہی کیجئے اور آپ کا صبر کرنا بھی اللہ تعالیٰ کی توفیق اور اسی کی مدد سے ہوسکتا ہے اور آپ ان کی مخالفت پر غم نہ کیجئے اور غمگین نہ ہو جئے اور یہ لوگ جو آپ کی مخالفت میں فریب آمیزیں تدبیریں کرتے رہتے ہیں ان سے آپ تنگ دل نہ ہوا کیجئے۔ پہلے لوگوں کی تین قسمیں بیان کی گئیں کیونکہ کچھ اہل علم اور سمجھدار ہیں کچھ عوام ہیں اور کچھ ضدی اور ہٹ دھرم ہیں۔ پہلے گروہ کے لئے حکمت دوسرے کے لئے مواعظہ حسنہ اور تیسرے گروہ کے لئے مناظرہ اور مجادلہ۔ ان طرف تبلیغ کے بعد زیادتی کرنے والوں کے ساتھ برتائو کا طریقہ بتایا اس میں رخصت بھی بتائی اور انتقام کو مثل کے ساتھ مقید کیا اور عزیمت بھی سکھائی اور اپنے پیغمبر کے لئے بھلائی اور احسان کا طریقہ پسند کیا اور صبر کا حکم دیا جو عزیمت ہے اور اپنے رسول کو تسلی دی اور آخر میں عزیمت پر عمل کرنیوالوں کا مرتبہ بتایا ۔