Surat un Nahal

Surah: 16

Verse: 21

سورة النحل

اَمۡوَاتٌ غَیۡرُ اَحۡیَآءٍ ۚ وَ مَا یَشۡعُرُوۡنَ ۙ اَیَّانَ یُبۡعَثُوۡنَ ﴿٪۲۱﴾  8

They are, [in fact], dead, not alive, and they do not perceive when they will be resurrected.

مردے ہیں زندہ نہیں انہیں تو یہ بھی شعور نہیں کہ کب اٹھائے جائیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

أَمْواتٌ غَيْرُ أَحْيَاء ... (They are) dead, not alive, means, they are inanimate and lifeless, they do not hear, see, or think. ... وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ and they know not when they will be resurrected. meaning, they do not know when the Hour will come, so how can anyone hope for any benefit or reward from these idols! They should hope for it from the One Who knows all things and is the Creator of all things.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

21۔ 1 مردہ سے مراد، وہ جماد (پتھر) بھی ہیں جو بےجان اور بےشعور ہیں۔ اور فوت شدہ صالحین بھی ہیں۔ کیونکہ مرنے کے بعد اٹھایا جانا (جس کا انھیں شعور نہیں وہ تو جماد کی بجائے صالحین ہی پر صادق آسکتا ہے۔ ان کو صرف مردہ ہی نہیں کہا بلکہ مزید وضاحت فرما دی کہ ' وہ زندہ نہیں ہیں ' اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے معلوم ہوا کہ موت وارد ہونے کے بعد، دنیاوی زندگی کسی کو نصیب نہیں ہوسکتی نہ دنیا سے کوئی تعلق ہی باقی رہتا ہے۔ 21۔ 2 پھر ان سے نفع کی اور ثواب و جزا کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے ؟

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

] ٢٢ [ من دون اللہ سے مراد صرف بت نہیں :۔ ان دو آیات سے صاف واضح ہے کہ یہاں ایسے معبودوں کو ذکر نہیں کیا جارہا جو بےجان ہیں مثلاً سورج، چاند، ستارے، شجر و حجر اور لکڑی یا پتھر یا مٹی وغیرہ کے بت۔ کیونکہ ان کے لیے بعث بعد الموت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اور جاندار یا ذوی العقول میں سے فرشتوں، فوت شدہ انبیاء، اولیاء اور صالحین کو خدائی صفات میں شریک بنایا جاتا رہا ہے۔ ان میں فرشتوں پر ( اَمْوَاتٌ غَیْرُاَحْیَاءٍ ) کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ وہ زندہ ہیں مرتے نہیں۔ باقی صرف اصحاب قبور رہ جاتے ہیں جن پر ( اَمْوَاتٌ غَیْرُاَحْیَاءٍ ) کا بھی اطلاق ہوسکتا ہے اور ان کے لیے بعث بعد الموت بھی ضروری ہے گویا (اَلَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ ) سے مراد وہ انبیاء، اولیاء، شہداء اور صالحین ہیں جنہیں ان کی وفات کے بعد فریاد رس، غوث، داتا، گنج بخش وغیرہ وغیرہ القاب دے ڈالے گئے۔ اور صفات الوہیت میں انہیں اللہ کا شریک بنا لیا گیا۔ اس قسم کا شرک بھی عرب میں عام پایا جاتا تھا۔ چناچہ سیدہ عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ یہود پر لعنت کرے جنہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا اور اگر مجھے یہ ڈر نہ ہوتا کہ لوگ آپ کی قبر کو سجدہ گاہ بنالیں گے تو آپ کی قبر مرجع خاص و عام بنادی جاتی۔ (بخاری، کتاب المغازی۔ باب مرض النبی ﷺ) اور مسلم کتاب الصلوۃ میں جو حدیث سیدنا جندب ص سے مروی ہے اس میں یہود کی تخصیص نہیں۔ نیز انبیاء کی قبروں کے ساتھ صالحین کی قبروں کو سجدہ گاہ بنانے کا ذکر ہے۔ اس حدیث کا ترجمہ یہ ہے کہ ” توجہ سے سنو ! تم سے پہلے لوگوں نے اپنے نبیوں اور بزرگوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا تھا۔ میں تمہیں ایسی باتوں سے منع کرتا ہوں “ نیز سیدنا ابن عباس ص سے مروی درج ذیل حدیث بخاری، احمد، مسلم، نسائی سب کتب حدیث میں موجود ہے۔ آپ نے کہا کہ یہ سب لوگ (و د، سواع، یغوث، یعوق، نسر) قوم نوح کے اولیاء اللہ تھے۔ جب وہ مرگئے تو لوگ ان کی قبروں پر اعتکاف کرنے لگے۔ پھر ان کے مجسمے بنائے اور ان کی عبادت کرنے لگے۔ پھر یہی بت قبائل عرب میں پھیل گئے۔ ان احادیث سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ دور نبوی میں صرف بتوں ہی کی خدائی کو تسلیم نہیں کیا جاتا تھا بلکہ فوت شدہ بزرگوں کو بھی صفات الوہیت میں شریک بنایا جاتا تھا۔ اور ان آیات میں اسی قسم کے معبودوں کی حاجت روائی یا مشکل کشائی کے لیے پکارنے کا ذکر کیا گیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وہ مخلوق تھے اور جو مخلوق ہو وہ نہ الٰہ ہوسکتی ہے اور نہ صفات الوہیت میں شریک بن سکتی ہے یعنی ایسے لوگ جنہیں یہ بھی علم نہیں کہ خود انہیں کب اٹھایا جائے گا، وہ نہ تو تمہاری پکار سن سکتے ہیں اور نہ ہی فریاد رسی کرسکتے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَمْوَاتٌ غَيْرُ اَحْيَاۗءٍ ۚ : دوسرا وصف یہ کہ وہ مردہ ہیں زندہ نہیں۔ اس آیت میں ” اَمْوَاتٌ“ سے مراد وہ (نیک یا بد) مردہ لوگ ہیں جن کی مشرک لوگ عبادت کرتے تھے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وَمَا يَشْعُرُوْنَ ۙ اَيَّانَ يُبْعَثُوْنَ ) ” اور وہ یہ شعور نہیں رکھتے کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے۔ “ اٹھائے جانے کے شعور کا لفظ جمادات (بتوں اور قبروں) پر صادق نہیں آتا، بلکہ صاحب عقل انسانوں، جنوں اور فرشتوں ہی پر صادق آتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے صرف مردہ کہنے پر اکتفا نہیں فرمایا، بلکہ فرمایا : (غَيْرُ اَحْيَاۗءٍ ) ” زندہ نہیں ہیں۔ “ اس سے قبر پرستوں کا واضح رد ہوگیا جو کہتے ہیں کہ قبروں میں دفن شدہ بزرگ مردہ نہیں زندہ ہیں اور ہم زندوں ہی کو پکارتے ہیں، اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے ثابت ہوگیا کہ موت وارد ہونے کے بعد دنیوی زندگی کسی کو نصیب نہیں ہوتی، نہ دنیا سے ان کا کوئی تعلق ہی باقی رہتا ہے، پھر ان سے کسی نفع یا نقصان کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے ؟ وَمَا يَشْعُرُوْنَ ۙ اَيَّانَ يُبْعَثُوْنَ : یہ تیسرا وصف ہے کہ انھیں اپنے اٹھائے جانے کا وقت بھی معلوم نہیں۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ معبود کے لیے یوم بعث کا جاننا ضروری ہے۔ (روح المعانی) اور یہ بات کہ مردے کب اٹھائے جائیں گے اللہ کے سوا کسی کو معلوم نہیں۔ دیکھیے سورة اعراف (١٨٧) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَمْوَاتٌ غَيْرُ اَحْيَاۗءٍ ۚ وَمَا يَشْعُرُوْنَ ۙ اَيَّانَ يُبْعَثُوْنَ 21۝ۧ موت أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة : فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات . نحو قوله تعالی: يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] . الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا [ مریم/ 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] . الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة . نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] . الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة، وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ بِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] . الخامس : المنامُ ، فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] ( م و ت ) الموت یہ حیات کی ضد ہے لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں ۔ اول قوت نامیہ ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔ دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم/ 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔ چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی مینٍ مراد ہیں ۔ پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے غير أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] ، ( غ ی ر ) غیر اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے حيى الحیاة تستعمل علی أوجه : الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] ، الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا، قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] ، الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی: أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة، وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري، فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ. ( ح ی ی ) الحیاۃ ) زندگی ، جینا یہ اصل میں حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔ ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔ ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات/ 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔ شعور الحواسّ ، وقوله : وَأَنْتُمْ لا تَشْعُرُونَ [ الحجرات/ 2] ، ونحو ذلك، معناه : لا تدرکونه بالحواسّ ، ولو في كثير ممّا جاء فيه لا يَشْعُرُونَ : لا يعقلون، لم يكن يجوز، إذ کان کثير ممّا لا يكون محسوسا قد يكون معقولا . شعور حواس کو کہتے ہیں لہذا آیت کریمہ ؛ وَأَنْتُمْ لا تَشْعُرُونَ [ الحجرات/ 2] اور تم کو خبر بھی نہ ہو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تم حواس سے اس کا ادرک نہیں کرسکتے ۔ اور اکثر مقامات میں جہاں لایشعرون کا صیغہ آیا ہے اس کی بجائے ۔ لایعقلون کہنا صحیح نہیں ہے ۔ کیونکہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو محسوس تو نہیں ہوسکتی لیکن عقل سے ان کا ادراک ہوسکتا ہے ۔ أَيَّانَ عبارة عن وقت الشیء، ويقارب معنی متی، قال تعالی: أَيَّانَ مُرْساها [ الأعراف/ 187] ، أَيَّانَ يَوْمُ الدِّينِ [ الذاریات/ 12] من قولهم : أي، وقیل : أصله : أيّ أوان، أي : أيّ وقت، فحذف الألف ثم جعل الواو ياء فأدغم فصار أيّان . و : ( ایان ) ایان ( کب ) کسی شے کا وقت دریافت کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے اور یہ قریب قریب متی) کے ہم معنی ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ أَيَّانَ مُرْساها [ الأعراف/ 187] کہ اس ( قیامت ) کا وقوع کب ہوگا ۔{ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ } ( سورة النحل 21) ان کو بھی یہ معلوم نہیں کہ کب اٹھائے جائیں گے { أَيَّانَ يَوْمُ الدِّينِ } ( سورة الذاریات 12) کہ جزا کا دن کب ہوگا ۔ لفظ ایان دراصل امی سے مشتق ہے اور بعض کے نزدیک اس کی اصل ائ اوان ہے جس کے معنی ہیں کونسا وقت ، ، الف کو حذف کرکے واؤ کو یاء اور پھر اسے یاء میں ادغام کرکے ایان بنا لیا گیا ہے ۔ بعث أصل البَعْث : إثارة الشیء وتوجيهه، يقال : بَعَثْتُهُ فَانْبَعَثَ ، ويختلف البعث بحسب اختلاف ما علّق به، فَبَعَثْتُ البعیر : أثرته وسيّرته، وقوله عزّ وجل : وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام/ 36] ، أي : يخرجهم ويسيرهم إلى القیامة، ( ب ع ث ) البعث ( ف ) اصل میں بعث کے معنی کسی چیز کو ابھارنے اور کسی طرف بیجھنا کے ہیں اور انبعث در اصل مطاوع ہے بعث کا مگر متعلقات کے لحاظ سے اس کے معنی مختلف ہوتے رہتے ہیں مثلا بعثت البعیر کے معنی اونٹ کو اٹھانے اور آزاد چھوڑ دینا کے ہیں اور مردوں کے متعلق استعمال ہو تو قبروں سے زندہ کرکے محشر کی طرف چلانا مراد ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام/ 36] اور مردوں کو تو خدا ( قیامت ہی کو ) اٹھایا جائے گا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢١ (اَمْوَاتٌ غَيْرُ اَحْيَاۗءٍ ۚ وَمَا يَشْعُرُوْنَ ۙ اَيَّانَ يُبْعَثُوْنَ ) جن اولیاء اللہ کے ناموں پر انہوں نے بت بنا رکھے ہیں وہ اب اس دنیا میں نہیں ہیں وہ فوت ہوچکے ہیں اور انہیں کچھ معلوم نہیں کہ قیامت کب برپا ہوگی اور کب انہیں دوبارہ اٹھایا جائے گا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

19. The words employed here to refute man made deities clearly indicate that these deities were deceased prophets, saints, martyrs and pious and other extraordinary beings buried in their graves and not angels, jinns, devils or idols. For the angels and devils are alive: therefore, the words, “They are dead, not living” cannot apply to them, and it is out of the question to say about idols of stone or wood that “They do not know at all when they shall again be raised to life” in the Hereafter. As regards the objection to this version that there were no such deities in Arabia, this is based on the lack of knowledge of the history of the pre- Islamic period. It is well known that there was a large number of Jews and Christians living among many clans of Arabia, who used to invoke and worship their Prophets, saints, etc. It is also a fact that many gods of the mushriks of Arabia were human beings, whose idols they had set up for worship after their death. According to a tradition cited in Bukhari on the authority of Ibn Abbas: “Wadd, Sua, Yaghuth, Yauq, and Nasr were pious human beings, whom the succeeding generations had made gods.” In another tradition, related by Aishah: “Asaf and Nailah were human beings.” There are also traditions to the same effect about Lat, Munat and Uzza. So much so that according to some traditions of the mushriks, Lat and Uzza were the beloved ones of Allah who used to pass His winter with Lat and summer with Uzza. But Allah is absolutely free from such absurd things they attribute to Him.

سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :19 یہ الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ یہاں خاص طور پر جن بناوٹی معبودوں کی تردید کی جا رہی ہے وہ فرشتے ، یا جن ، یا شیاطین ، یا لکڑی پتھر کی مورتیاں نہیں ہیں ، بلکہ اصحاب قبور ہیں ۔ اس لیے کہ فرشتے اور شیاطین تو زندہ ہیں ، ان پر اَمْواتٌ غَیْرُ اَحْیَآءٍ کے الفاظ کا اطلاق نہیں ہو سکتا ۔ اور لکڑی پتھر کی مورتیوں کے معاملہ میں بعث بعد الموت علماؤں کا کوئی سوال نہیں ہے ، اس لیے مَا یَشْعُرُوْنَ اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ کے الفاظ انہیں بھی خارج از بحث کر دیتے ہیں ۔ اب لا محالہ اس آیت میں اَلَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ سے مراد وہ انبیاء ، اولیاء ، شہداء ، صالحین اور دوسرے غیر معمولی انسان ہی ہیں جن کو غالی معتقدین داتا ، مشکل کشا ، فریاد رس ، غریب نواز ، گنج بخش ، اور نامعلوم کیا کیا قرار دے کر اپنی حاجت روائی کے لیے پکارنا شروع کر دیتے ہیں ۔ اس کے جواب میں اگر کوئی یہ کہے کہ عرب میں اس نوعیت کے معبود نہیں پائے جاتے تھے تو ہم عرض کریں گے کہ یہ جاہلیت عرب کی تعریف سے اس کی ناواقفیت کا ثبوت ہے ۔ کون پڑھا لکھا نہیں جانتا ہے کہ عرب کے متعدد قبائل ، ربیعہ ، کلب ، تغلِب ، قُضَاعَہ ، کِنانہ ، حَرث ، کعب ، کِندَہ وغیرہ میں کثرت سے عیسائی اور یہودی پائے جاتے تھے ، اور یہ دونوں مذاہب بری طرح انبیاء اولیاء اور شہدا کی پرستش سے آلودہ تھے ۔ پھر مشرکین عرب کے اکثر نہیں تو بہت سے معبود وہ گزرے ہوئے انسان ہی تھے جنہیں بعد کی نسلوں نے خدا بنا لیا تھا ۔ بخاری میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ ودّ ، سُواع ، یغوث ، یعُوق ، نسر ، یہ سب صالحین کے نام ہیں جنہیں بعد کے لوگ بت بنا بیٹھے ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ اِساف اور نائلہ دونوں انسان تھے ۔ اسی طرح کی روایات لات اور مُناۃ اور عُزّیٰ کے بارے میں موجود ہیں ۔ اور مشرکین کا یہ عقیدہ بھی روایات میں آیا ہے کہ لات اور عزّیٰ اللہ کے ایسے پیارے تھے کہ اللہ میاں جاڑا لات کے ہاں اور گرمی عزّیٰ کے ہاں بسر کرتے تھے ۔ سُبْحٰنَہ وَ تَعَالیٰ عَمَّا یَصِفُوْنَ ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

12: اس سے وہ بت مراد ہیں جن کی وہ پوجا کرتے تھے۔ فرمایا گیا ہے کہ وہ کسی کو پیدا تو کیا کرتے؟ خود پیدا کیے گئے ہیں اور نہ ان میں جان ہے نہ انہیں یہ احساس ہے کہ ان کے پجاریوں کو مرنے کے بعد کب زندہ کیا جائے گا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(16:21) ایان۔ کب ۔ متی کے قریب المعنی ہے بعض کے نزدیک یہ اصل میں ای ادان تھا۔ (کونسا وقت ہے) الف کو حذف کر کے وائو کو یاء کیا پھر یاء کو یاء میں مدغم کیا۔ ایان بن گیا۔ یبعثون۔ مضارع مجہول جمع مذکر غائب۔ وہ اٹھائے جائیں گے۔ بعث مصدر۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 یعنی ان بتوں کو یہ بھی معلوم نہیں کہ ان کے پوجنے والے مرنے کے بعد دوبارہ کب زندہ ہوں گے ؟ اس مفہوم کے اعتبار سے ” یشعرون “ میں ” ھم “ ضمیر معبودوں کے لئے اور یبعثون کی ضمیر ان کے پوجنے والے کافروں کے لئے ہوگی۔ (شوکانی) شاہ صاحب لکھتے ہیں : شاید یہ ان کو فرمایا جو مرے بزرگوں کو پوجتے ہیں۔ (موضح) اس صورت میں دونوں ضمیریں معبودوں کے لئے ہوں گی۔ معلوم ہوا کہ معبود کے لئے یوم بعث کا جاننا ضروری ہے۔ (کذافی الروح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ خواہ داما جیسے بت یا فی الحال جیسے جو مرچکے یا فی المآل جیسے جو مریں گے مثلا فرشتے اور جن اور عیسیٰ علیہ السلام۔ 4۔ یعنی بعض کو علم ہی نہیں، اور بعض کو تعیین معلوم نہیں، اور معبود کو تو علم محیط چاہئے خصوصا بعث کا کہ اس پر جزا ہوگی عبادت وعدم عبادت کی، تو اس کا علم تو معبود کے لئے بہت ہی مناسب ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

، پھر فرمایا (اَمْوَاتٌ غَیْرُ اَحْیَآءٍ ) (یعنی یہ بت جنہیں تم نے معبود بنا رکھا ہے بےجان ہیں زندہ نہیں ہیں) تم ان کی عبادت کیسے کرنے لگے ؟ (وَمَا یَشْعُرُوْنَ اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ ) (اور ان باطل معبودوں کو خبر نہیں کہ کب اٹھائے جائیں گے) ایمان اور عبادت کا سب سے بڑا انعام داخلہ جنت کی صورت میں موت کے بعد نصیب ہوگا اور یہ قیامت آنے پر موقوف ہے ان بےجان بتوں کو کچھ بھی خبر نہیں کہ مردے کب اٹھائے جائیں گے اگر ان سے موت کے بعد کسی طرح کا کوئی فائدہ حاصل ہونے کی امید رکھتے ہو تو یہ تمہاری غلطی ہے، جسے اعمال کا بدلہ دینا ہے وہ اللہ تعالیٰ شانہٗ ہے اسے معلوم ہے کہ قیامت کب قائم ہوگی تمہارے معبود جاہل محض ہیں، انہیں نہ کچھ علم ہے نہ قیامت کا پتہ ہے نہ قیامت کے آنے کی خبر ہے یہ موت کے بعد تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے قال ابن کثیر ص ٥٦٥ ج ٢ ای لا یدرون متی تکون الساعۃ فکیف یرتجی عند ھذہ نفع او ثواب او جزاء انما یرجی ذلک من الذی یعلم کل شئ وھو خالق کل شی یعنی وہ نہیں جانتے کہ قیامت کب ہوگی پس یہ لوگ ان سے نفع یا ثواب یا جزاء کی امید کیسے رکھتے ہیں ان چیزوں کی امید تو اس ذات سے لگائی جاتی ہے جو ہر شے کا علم رکھتی ہے اور وہی ہر شے کی خالق ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

21 ۔ وہ مردے میں بےجان زندہ نہیں ہیں اور ان کو یہ بھی خبر نہیں کہ قیامت کب آئے گی اور مردے کب اٹھائے جائیں گے ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں شاید یہ ان کو فرمایا جو مرے ہوئے بزرگوں کو پوجتے ہیں ۔ 12 خلاصہ۔ یہ کہ نہ جن کا علم محیط اور جو خود مخلوق وہ خالق کے برابر کیسے ہوسکتے ہیں اور عبادت میں خدا تعالیٰ کے شریک کیونکر ہوسکتے ہیں۔