Surat un Nahal

Surah: 16

Verse: 22

سورة النحل

اِلٰـہُکُمۡ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ ۚ فَالَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡاٰخِرَۃِ قُلُوۡبُہُمۡ مُّنۡکِرَۃٌ وَّ ہُمۡ مُّسۡتَکۡبِرُوۡنَ ﴿۲۲﴾

Your god is one God. But those who do not believe in the Hereafter - their hearts are disapproving, and they are arrogant.

تم سب کا معبود صرف اللہ تعالٰی اکیلا ہے اور آخرت پر ایمان نہ رکھنے والوں کے دل منکر ہیں اور وہ خود تکبر سے بھرے ہوئے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

None is to be worshipped except Allah Allah tells: إِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ ... Your god is one God. Allah tells that there is none to be worshipped besides Him, the One, the Unique, the Lone, the Self-Sufficient. ... فَالَّذِينَ لاَ يُوْمِنُونَ بِالاخِرَةِ قُلُوبُهُم مُّنكِرَةٌ ... But for those who believe not in the Hereafter, their hearts are in denial, and He tells that the hearts of the disbelievers deny that and are astonished by that: أَجَعَلَ الاٌّلِهَةَ إِلَـهاً وَحِداً إِنَّ هَـذَا لَشَىْءٌ عُجَابٌ "Has he made the gods (all) into One God! Verily, this is a curious thing!" (38:5) وَإِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَحْدَهُ اشْمَأَزَّتْ قُلُوبُ الَّذِينَ لاَ يُوْمِنُونَ بِالاٌّخِرَةِ وَإِذَا ذُكِرَ الَّذِينَ مِن دُونِهِ إِذَا هُمْ يَسْتَبْشِرُونَ And when Allah alone is mentioned, the hearts of those who do not believe in the Hereafter are filled with disgust, and when those besides Him are mentioned, behold, they rejoice! (39:45) ... وَهُم مُّسْتَكْبِرُونَ and they are proud. meaning they are too proud to worship Allah, and their hearts reject the idea of singling Him out, as Allah says: إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِى سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَخِرِينَ Verily! Those who scorn My worship they will surely enter Hell in humiliation! (40:60) So here, Allah says;

اللہ ہی معبود برحق ہے ، اس کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں ، وہ واحد ہے ، احد ہے ، فرد ہے ، صمد ہے ۔ کافروں کے دل بھلی بات سے انکار کر تے ہیں وہ اس حق کلمے کو سن کر سخت حیرت زدہ ہو جاتے ہیں ۔ اللہ واحد کا ذکر سن کر ان کے دل مرجھا جاتے ہیں ۔ ہاں اوروں کا ذکر ہو تو کھل جاتے ہیں یہ اللہ کی عبادت سے مغرور ہیں ۔ نہ ان کے دل میں ایمان نہ عبادت کے عادی ۔ ایسے لوگ ذلت کے ساتھ جہنم میں داخل ہوں گے ۔ یقینا اللہ تعالیٰ ہر چھپے کھلے کا عالم ہے ہر عمل پر جزا اور سزا دے گا وہ مغرور لوگوں سے بیزار ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

22۔ 1 یعنی ایک اللہ کا ماننا منکرین اور مشرکین کے لئے بہت مشکل ہے وہ کہتے ہیں ' اس نے تمام معبودوں کو ایک ہی معبود کردیا یہ تو بڑی ہی عجیب بات ہے ' دوسرے مقام پر فرمایا جب ایک اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو منکرین آخرت کے دل تنگ ہوجاتے ہیں اور جب اللہ کے سوا دوسرے معبودوں کا ذکر آجاتا ہے تو خوش ہوتے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٣] آخرت کا انکار تکبر ہے :۔ تکبر اس لحاظ سے ہے کہ یوم جزاء و سزا کے قائم ہونے سے انکار دراصل اللہ تعالیٰ کی دو صفات کا انکار ہے۔ ایک اللہ کا عادل ہونا دوسرے قادر مطلق ہونا اور جو شخص اتنے واضح اور فطری دلائل کو دیکھتے ہوئے بھی اللہ کی قدرت مطلقہ سے انکار کرتا ہے تو اس سے بڑھ کر اور اکڑ باز کون ہوسکتا ہے ؟ جبکہ رسول اللہ نے تکبر کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ تکبر یہ ہے کہ حق بات کو ٹھکرا دیا جائے اور دوسروں کو حقیر سمجھا جائے۔ (مسلم، کتاب الایمان۔ باب تحریم الکبر و بیانہ)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِلٰـهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ ۔۔ : گزشتہ تمام دلائل اور احسانات بیان کرنے کے بعد ان کا نتیجہ اور خلاصہ بیان فرمایا کہ تمہارا معبود جس کی عبادت حق ہے، وہ ایک ہی ہے۔ ” وَّاحِدٌ“ کا مطلب ہے کہ وہ ایک ہے، کوئی اس کا ثانی یا شریک نہیں، نہ ذات میں نہ صفات میں۔ آگے وہ اسباب بیان کیے جو انسان کو توحید سے پھسلا کر شرک کی طرف لے جاتے ہیں، یہ اسباب درج ذیل ہیں : 1 ان میں سے پہلا سبب آخرت پر ایمان نہ ہونا ہے۔ آیت میں مشرکین ہی کو ” فَالَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بالْاٰخِرَةِ “ فرمایا ہے، اگر یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ نے زندہ کرکے باز پرس کرنی ہے اور وہاں جزا و سزا صرف اس کے ہاتھ میں ہوگی، کسی دوسرے کا دخل نہ ہوگا تو آدمی کسی اور کو کس طرح اس کے ساتھ شریک کرسکتا ہے۔ اس لیے آخرت کے منکر اللہ اکیلے کا ذکر سن ہی نہیں سکتے، جیسا کہ فرمایا : (وَاِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَحْدَهُ اشْمَاَزَّتْ قُلُوْبُ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بالْاٰخِرَةِ ۚ وَاِذَا ذُكِرَ الَّذِيْنَ مِنْ دُوْنِهٖٓ اِذَا هُمْ يَسْتَبْشِرُوْنَ ) [ الزمر : ٤٥ ] ” اور جب اس اکیلے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان لوگوں کے دل تنگ پڑجاتے ہیں جو آخرت پر یقین نہیں رکھتے اور جب ان کا ذکر ہوتا ہے جو اس کے سوا ہیں تو وہ بہت خوش ہوجاتے ہیں۔ “ 2 دوسرا سبب یہ کہ ان کے دل انکار کرنے والے ہیں، وہ نہ کسی دلیل کو مانتے ہیں نہ اللہ کی تمام نعمتیں جاننے کے باوجود کوئی نعمت تسلیم کرتے ہیں، جیسا کہ فرمایا : (يَعْرِفُوْنَ نِعْمَتَ اللّٰهِ ثُمَّ يُنْكِرُوْنَهَا ) [ النحل : ٨٣ ] ” وہ اللہ کی نعمت کو پہچانتے ہیں، پھر اس کا انکار کرتے ہیں۔ “ وہ مسخ ہوچکے ہیں اور ان پر مہر لگ چکی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (خَتَمَ اللّٰهُ عَلٰي قُلُوْبِهِمْ وَعَلٰي سَمْعِهِمْ ۭ وَعَلٰٓي اَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ) [ البقرۃ : ٧ ] ” اللہ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر مہر لگا دی اور ان کی نگاہوں پر بھاری پردہ ہے۔ “ حذیفہ (رض) کی حدیث میں ان کی مثال الٹے کوزے کی دی گئی ہے، جس میں کوئی چیز داخل نہیں ہوتی، چناچہ وہ دل نہ نیکی کو نیکی سمجھتے ہیں نہ برائی کو برائی، سوائے ان کی اپنی خواہش کے جس کی محبت انھیں پلا دی گئی ہے۔ [ مسلم، الإیمان، باب رفع الأمانۃ و الإیمان۔۔ : ١٤٤ ] 3 تیسرا سبب ان کا استکبار یعنی اپنے آپ کو بہت بڑا سمجھنا ہے۔ ان کا تکبر انھیں کوئی خیر خواہی کی بات نہ سننے دیتا ہے نہ ماننے دیتا ہے اور یہی ان کی تمام بیماریوں کی جڑ ہے اور یہ ایسی خطرناک چیز ہے کہ عبداللہ بن مسعود (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرتے ہیں، آپ نے فرمایا : ( لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مَنْ کَانَ فِيْ قَلْبِہِ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ مِنْ کِبْرٍ ، قَالَ رَجُلٌ إِنَّ الرَّجُلَ یُحِبُّ أَنْ یَکُوْنَ ثَوْبُہُ حَسَنًا، وَنَعْلُہُ حَسَنَۃً. قَالَ إِنَّ اللّٰہَ جَمِیْلٌ یُحِبُّ الْجَمَالَ ، الْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ ) [ مسلم، الإیمان، باب تحریم الکبر و بیانہ : ٩١ ]” وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کے دل میں ذرہ برابر کبر ہوگا۔ “ ایک آدمی نے کہا : ” آدمی پسند کرتا ہے کہ اس کا کپڑا اچھا ہو، اس کا جوتا اچھا ہو۔ “ آپ نے فرمایا : ” بیشک اللہ تعالیٰ جمیل ہے، جمال کو پسند کرتا ہے، کبر حق کو تسلیم نہ کرنا اور لوگوں کو حقیر جاننا ہے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِلٰـهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ ۚ فَالَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ قُلُوْبُهُمْ مُّنْكِرَةٌ وَّهُمْ مُّسْـتَكْبِرُوْنَ 22؀ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ قلب قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] . ( ق ل ب ) قلب الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ نكر الإِنْكَارُ : ضِدُّ العِرْفَانِ. يقال : أَنْكَرْتُ كذا، ونَكَرْتُ ، وأصلُه أن يَرِدَ علی القَلْبِ ما لا يتصوَّره، وذلک ضَرْبٌ من الجَهْلِ. قال تعالی: فَلَمَّا رَأى أَيْدِيَهُمْ لا تَصِلُ إِلَيْهِ نَكِرَهُمْ [هود/ 70] ، فَدَخَلُوا عَلَيْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف/ 58] وقد يُستعمَلُ ذلک فيما يُنْكَرُ باللّسانِ ، وسَبَبُ الإِنْكَارِ باللّسانِ هو الإِنْكَارُ بالقلبِ لکن ربّما يُنْكِرُ اللّسانُ الشیءَ وصورتُه في القلب حاصلةٌ ، ويكون في ذلک کاذباً. وعلی ذلک قوله تعالی: يَعْرِفُونَ نِعْمَتَ اللَّهِ ثُمَّ يُنْكِرُونَها[ النحل/ 83] ، فَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ ( ن ک ر ) الانکار ضد عرفان اور انکرت کذا کے معنی کسی چیز کی عدم معرفت کے ہیں اس کے اصل معنی انسان کے دل پر کسی ایسی چیز کے وارد ہونے کے ہیں جسے وہ تصور میں نہ لاسکتا ہو لہذا یہ ایک درجہ جہالت ہی ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلَمَّا رَأى أَيْدِيَهُمْ لا تَصِلُ إِلَيْهِ نَكِرَهُمْ [هود/ 70] جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے کی طرف نہین جاتے ( یعنی وہ کھانا نہین کھاتے ۔ تو ان کو اجنبی سمجھ کر دل میں خوف کیا ۔ فَدَخَلُوا عَلَيْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف/ 58] تو یوسف (علیہ السلام) کے پاس گئے تو یوسف نے ان کو پہچان لیا اور وہ اس کو نہ پہچان سکے ۔ اور کبھی یہ دل سے انکار کرنے پر بولا جاتا ہے اور انکار لسانی کا اصل سبب گو انکار قلب ہی ہوتا ہے ۔ لیکن بعض اوقات انسان ایسی چیز کا بھی انکار کردیتا ہے جسے دل میں ٹھیک سمجھتا ہے ۔ ایسے انکار کو کذب کہتے ہیں ۔ جیسے فرمایا ۔ يَعْرِفُونَ نِعْمَتَ اللَّهِ ثُمَّ يُنْكِرُونَها[ النحل/ 83] یہ خدا کی نعمتوں سے واقف ہیں مگر واقف ہوکر ان سے انکار کرتے ہیں ۔ فَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [ المؤمنون/ 69] اس وجہ سے ان کو نہیں مانتے ۔ الاسْتِكْبارُ والْكِبْرُ والتَّكَبُّرُ والِاسْتِكْبَارُ تتقارب، فالکبر الحالة التي يتخصّص بها الإنسان من إعجابه بنفسه، وذلک أن يرى الإنسان نفسه أكبر من غيره . وأعظم التّكبّر التّكبّر علی اللہ بالامتناع من قبول الحقّ والإذعان له بالعبادة . والاسْتِكْبارُ يقال علی وجهين : أحدهما : أن يتحرّى الإنسان ويطلب أن يصير كبيرا، وذلک متی کان علی ما يجب، وفي المکان الذي يجب، وفي الوقت الذي يجب فمحمود . والثاني : أن يتشبّع فيظهر من نفسه ما ليس له، وهذا هو المذموم، وعلی هذا ما ورد في القرآن . وهو ما قال تعالی: أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة/ 34] . ( ک ب ر ) کبیر اور الکبر والتکبیر والا ستکبار کے معنی قریب قریب ایک ہی ہیں پس کہر وہ حالت ہے جس کے سبب سے انسان عجب میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ اور عجب یہ ہے کہ انسان آپنے آپ کو دوسروں سے بڑا خیال کرے اور سب سے بڑا تکبر قبول حق سے انکار اور عبات سے انحراف کرکے اللہ تعالیٰ پر تکبر کرنا ہے ۔ الاستکبار ( استتعال ) اس کا استعمال دوطرح پر ہوتا ہے ۔ ا یک یہ کہ انسان بڑا ببنے کا قصد کرے ۔ اور یہ بات اگر منشائے شریعت کے مطابق اور پر محمل ہو اور پھر ایسے موقع پر ہو ۔ جس پر تکبر کرنا انسان کو سزا وار ہے تو محمود ہے ۔ دوم یہ کہ انسان جھوٹ موٹ بڑائی کا ) اظہار کرے اور ایسے اوصاف کو اپنی طرف منسوب کرے جو اس میں موجود نہ ہوں ۔ یہ مدموم ہے ۔ اور قرآن میں یہی دوسرا معنی مراد ہے ؛فرمایا ؛ أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة/ 34] مگر شیطان نے انکار کیا اور غرور میں آگیا

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٢) اس بات کو اچھی طرح سمجھ لو کہ تمہارا سچا معبود ایک ہی ہے یہ بت وغیرہ نعوذ باللہ تمہارے معبود نہیں جو لوگ مرنے کے بعد زندگی پر ایمان نہیں لاتے، ان کے دل ہی توحید سے منکر ہورہے ہیں اور وہ ایمان لانے سے تکبر کرتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(فَالَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بالْاٰخِرَةِ قُلُوْبُهُمْ مُّنْكِرَةٌ وَّهُمْ مُّسْـتَكْبِرُوْنَ ) اس نکتے کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جن لوگوں کے دلوں میں آخرت کا یقین نہیں ہے وہ حق بات کو قبول کرنے سے کیوں جھجکتے ہیں اور ان کے اندر استکبار کیوں پیدا ہوجاتا ہے۔ اس سلسلے میں قرآن کا فلسفہ یہ ہے کہ جو شخص فطرت سلیمہ کا مالک ہے اس کے اندر اچھائی اور برائی کی تمیز موجود ہوتی ہے۔ اس کا دل اس حقیقت کا قائل ہوتا ہے کہ اچھائی کا اچھا بدلہ ملنا چاہیے اور برائی کا برا ع ” گندم از گندم بروید ‘ جو زجو ! “ یہی فلسفہ یا تصور منطقی طور پر ایمان بالآخرت کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ مگر دنیا میں جب پوری طرح نیکی کی جزا اور برائی کی سزا ملتی ہوئی نظر نہیں آتی تو ایک صاحب شعور انسان لازماً سوچتا ہے کہ اعمال اور اس کے نتائج کے اعتبار سے دنیوی زندگی ادھوری ہے اور اس دنیا میں انصاف کی فراہمی کماحقہ ممکن ہی نہیں۔ مثلاً اگر ایکّ ستر سالہ بوڑھا ایک نوجوان کو قتل کر دے تو اس دنیا کا قانون اسے کیا سزا دے گا ؟ ویسے تو یہاں انصاف تک پہنچنے کے لیے بہت سے کٹھن مراحل طے کرنے پڑتے ہیں ‘ لیکن اگر یہ تمام مراحل طے کر کے انصاف مل بھی جائے تو قانون زیادہ سے زیادہ اس بوڑھے کو پھانسی پر لٹکا دے گا۔ لیکن کیا اس بوڑھے کی جان واقعی اس نوجوان مقتول کی جان کے برابر ہے ؟ نہیں ایسا ہرگز نہیں ہے۔ وہ نوجوان تو اپنے خاندان کا واحد سہارا تھا ‘ اس کے چھوٹے چھوٹے بچے یتیم ہوئے ‘ ایک نوجوان عورت بیوہ ہوئی ‘ خاندان کا معاشی سہارا چھن گیا۔ اس طرح اس کے لواحقین اور خاندان کے لیے اس قتل کے اثرات کتنے گھمبیر ہوں گے اور کہاں کہاں تک پہنچیں گے ‘ اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ دوسری طرف وہ بوڑھا شخص جو اپنی طبعی عمر گزار چکا تھا ‘ جس کے بچے خود مختار زندگیاں گزار رہے ہیں ‘ جس کی کوئی معاشی ذمہ داری بھی نہیں ہے ‘ اس کے پھانسی پر چڑھ جانے سے اس کے پس ماندگان پر ویسے اثرات مرتب نہیں ہوں گے جیسے اس نوجوان کی جان جانے سے اس کے پس ماندگان پر ہوئے تھے۔ ایسی صورت میں دنیا کا کوئی قانون مظلوم کو پورا پورا بدلہ دے ہی نہیں سکتا۔ ایسی مثالیں عقلی اور منطقی طور پر ثابت کرتی ہیں کہ یہ دنیا نا مکمل ہے۔ اس دنیا کے معاملات اور افعال کا ادھورا پن ایک دوسری دنیا کا تقاضا کرتا ہے جس میں اس دنیا کے تشنہ تکمیل رہ جانے والے معاملات پورے انصاف کے ساتھ اپنے اپنے منطقی انجام کو پہنچیں۔ اب ایک ایسا شخص جو فطرت سلیمہ کا مالک ہے ‘ اس کے شعور میں نیکی اور بدی کا ایک واضح اور غیر مبہم تصور موجود ہے ‘ وہ لازمی طور پر آخرت کے بارے میں مذکورہ منطقی نتیجے پر پہنچے گا اور پھر وہ قرآن کے تصور آخرت کو قبول کرنے میں بھی پس و پیش نہیں کرے گا ‘ مگر اس کے مقابلے میں ایک ایسا شخص جس کے شعور میں نیکی اور بدی کا واضح تصور موجود نہیں ‘ وہ قرآن کے تصور آخرت پر بھی دل سے یقین نہیں رکھتا اور فکر آخرت سے بےنیاز ہو کر غرور اور تکبر میں بھی مبتلا ہوچکا ہے ‘ اس کا دل پیغامِ حق کو قبول کرنے سے بھی منکر ہوگا۔ ایسے شخص کے سامنے حکیمانہ درس اور عالمانہ وعظ سب بےاثر ثابت ہوں گے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

20. That is, those who do not believe in the life in the Hereafter, have become so irresponsible, carefree and intoxicated with the life of this world, that they feel no hesitation or pang in denying any reality, and they put no value on or attach no worth to truth. That is why, they are not prepared to impose any moral restraint on themselves and feel no need to investigate as to whether the way, they are following is right or wrong.

سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :20 یعنی آخرت کے انکار نے ان کو اس قدر غیر ذمہ دار ، بے فکر ، اور دنیا کی زندگی میں مست بنا دیا ہے کہ اب انہیں کسی حقیقت کا انکار کر دینے میں باک نہیں رہا ، کسی صداقت کی ان کے دل میں قدر باقی نہیں رہی ، کسی اخلاقی بندش کو اپنے نفس پر برداشت کرنے کے لیے وہ تیار نہیں رہے ، اور انہیں یہ تحقیق کرنے کے پروا ہی نہیں رہی کہ جس طریقے پر وہ چل رہے ہیں وہ حق ہے بھی یا نہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢٢۔ ٢٣۔ اللہ پاک نے اس سے پہلے کی آیتوں میں بتوں کے معبود ہونے میں طرح طرح کی خرابی بیان فرما کر اب یہ فرمایا کہ تم لوگوں کا معبود وہی اکیلا خدا ہے جس نے ساری چیزیں دنیا میں پیدا کی ہیں دنیا میں تو چاہے تو لوگ جس کو معبود ٹھہرا لو مگر آخرت میں کوئی جھوٹا معبود نظر نہیں آئے گا اکیلا خدا ہی خدا ہوگا اور سارے جہان کا حساب و کتاب اسی کے ہاتھ میں ہوگا پھر اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس بات کی خبر دی کہ کفار جو اپنے عقیدہ پر جمے ہوئے ہیں اور بتوں کی عبادت نہیں چھوڑتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ آخرت کے دن کا یقین ان کے دلوں میں نہیں ہے آخرت کا یہ لوگ انکار کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ قیامت وغیرہ کچھ بھی نہیں ہے جو کچھ ہے دنیا کی زندگی اور مالداری ہے پھر جب مرگئے تو مرنے کے بعد زندہ ہونا کیسا اسی خیال نے ان کو گمراہ کر رکھا ہے اور حق بات کے قبول کرنے سے یہ لوگ منہ موڑتے ہیں اگر آخرت کا خوف ان کے دل میں ہوتا اور یہ اس بات کو سمجھ لیتے کہ آخرت میں اکیلے اللہ سے کام پڑنے والا ہے دنیا کی مالداری اور یہ بت وہاں کچھ کام نہ آویں گے تو پھر آخرت کی درستی کی کسی بات کے ماننے میں ان کی مکڑائی باقی نہ رہتی لیکن ان کے آخرت کے انکار سے اللہ تعالیٰ کے انتظار میں کچھ فرق نہیں آتا ان کے دل کی چھپی ہوئی مکڑائیاں اور ان کے ہاتھ پیر کے ظاہری سب کام اس کو معلوم ہیں اور اس طرح کی مکڑائی کرنے والے اس کو بالکل ناپسند ہیں اس لئے عقبیٰ میں یہ لوگ اپنے کئے کی پوری سزا پاویں گے مشرکین مکہ اپنی مالداری کے غرور میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھ کے مسلمانوں کو حقیر جانتے تھے۔ چناچہ سورت الزخرف میں آوے گا کہ ولید بن مغیرہ اور عروۃ بن مسعود ان دو مالدار شخصوں کا حوالہ دے کر کہا کرتے تھے کہ اگر نبوت سچی ہوتی تو ان مالدار دونوں شخصوں میں سے کسی کو ہوتی اور تنگدست مسلمانوں کو دیکھ کر یہ کہا کرتے تھے کہ اگر دین اسلام سچا ہوتا تو ان تنگ دست لوگوں کے اسلام لانے سے پہلے ہم مالدار لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہوتے کیوں کہ اللہ نے اپنی مہربانی سے جس طرح ہم کو دنیا میں خوشحال کیا ہے عقبیٰ میں بھی ہم اس کی مہربانی کے زیادہ مستحق ہیں چناچہ اس کا تفصیلی ذکر سورت الاحقاف میں آوے گا مشرکوں کی اس بات کا جواب تو اللہ تعالیٰ نے سورت الزخرف میں یہ دیا ہے کہ دنیا فانی کا مال و متاع اللہ کے نزدیک کچھ قابل قدر چیز نہیں ہے اس لئے اس کو اللہ کی مہربانی کا نتیجہ خیال کرنا بڑی غلطی ہے اور یہاں اتنا ہی فرمایا کہ ان لوگوں کی مالداری کے غرور نے ان کو عقبیٰ کی باتوں کے انکار پر آمادہ کیا ہے۔ پہلے صاحب شریعت بنی نوح (علیہ السلام) سے لے کر فرعون تک جو پہلی امتیں اسی طرح کے غرور کی باتوں کے سبب سے غارت ہوئیں جن کے قصے پہلے گزر چکے ہیں وہ سب قصے ان اللہ لا یحب المتکبرین کی گویا تفسیر ہیں جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے مغرور لوگوں کو پسند نہیں کرتا اس لئے اس نے ایسی بہت سی پہلی امتوں کو طرح طرح کے عذابوں سے ہلاک کردیا۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے انس بن مالک (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دنیا کے مالدار گنہگار لوگوں کو قیامت کے دن جب دوزخ میں ڈالا جاوے گا تو دوزخ میں ڈالتے ہی فرشتے ان سے پوچھیں گے کہ دنیا کی جس مالداری کے غرور نے تم کو عقبیٰ کے اس عذاب سے غافل رکھا آج اس عذاب کے آگے اس مالداری کی راحت تمہیں کچھ یاد ہے یہ لوگ قسم کھا کر جواب دیں گے کہ نہیں۔ اسی طرح نیک تنگدست لوگ جب جنت میں جاویں گے تو ان سے بھی فرشتے پوچھیں گے کہ جنت کی ان نعمتوں کے آگے دنیا کی تنگدستی تمہیں کچھ یاد ہے کہ نہیں تو وہ لوگ بھی قسم کھا کر جواب دیویں گے کہ نہیں ١ ؎۔ اس حدیث کو آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ان مشرکوں کو جس مالداری کے غرور نے عقبیٰ کی باتوں سے غافل رکھا عقبیٰ کے عذاب کے آگے وہ مالداری ان کو یاد بھی نہ رہے گی اور جن تنگدست مسلمانوں کو یہ مشرک حقیر جانتے تھے اور وہ مسلمان اپنی تنگدستی پر صبر کرتے تھے اللہ تعالیٰ عقبیٰ میں ان کو جنت کی وہ نعمتیں دیوے گا کہ ان کو بھی دنیا کی وہ تنگدستی بالکل خواب و خیال ہوجاوے گی۔ ١ ؎ مشکوٰۃ ص ٥٠٢ باب صفۃ الجنتہ واھلھا۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(16:22) منکرۃ۔ اسم فاعل واحد مؤنث۔ انکار مصدر منکر واحد مذکر۔ یہاں بمعنی جمع آیا ہے۔ انکار کرنے والے۔ مستکبرون۔ اسم فاعل۔ جمع مذکر۔ مستکبر واحد استکبار (استفعال) سے مصدر۔ اپنے آپ کو بڑا سمجھنے والے۔ مغرور۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 اس غرور میں آ کر نہ وہ اللہ کو مانتے ہیں اور نہ رسول کو یہ ان کے انکار آخرت کا لازمی نتیجہ ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

(رکوع نمبر ٣) اسرارومعارف اتنی بڑی کائنات کا خالق مالک اور پالنے والا جب اکیلا ہے تو وہی تمہارا معبود بھی ہے جو اکیلا عبادت کے لائق ہے ، اور جو لوگ اس کی واحدانیت پر یقین نہیں کرتے ان کے قلوب تباہ ہوچکے ہیں اور انکار کی مصیبت میں مبتلا ہیں کہ ۔ (قلب کی بیماری وصحت) قلب انسانی کا سب سے مہلک مرض عظمت الہی سے غافل ہو کر دوسروں سے امیدیں وابستہ کرنے میں ہے یعنی شرک اور اس کی صحت مندی کی علامت محبت الہی ہے لہذا جب قلب تباہ ہوتا ہے تو انسان میں تکبر پیدا ہوجاتا ہے جس کا اظہار منکرین کے کردار سے ہو رہا ہے اور بلاشبہ اللہ جل جلالہ سے ان کی کوئی بات چھپی ہوئی نہیں وہ سب جانتا ہے جو یہ ظاہرا کرتے ہیں یا چھپ کر اور یہ جان لو کہ اللہ جل جلالہ تکبر کرنے والوں کو کبھی اچھا نہیں جانتا ان کا حال یہ ہے کہ نہ صرف خود گمراہ ہیں بلکہ اگر کوئی پوچھے کہ رب کریم نے کیا نازل فرمایا تو کہہ دیتے ہیں محض قصہ کہانی ہے پہلے لوگ بھی اس طرح کے دعوے کرتے تھے اور خود کو نبی بتاتے اور یہی کہانیاں دہرایا کرتے تھے اب انہوں نے نقل کرنا شروع کردیا تو یوں انہیں گمراہ کرکے اپنے گناہوں کے ساتھ ان کی گمراہی کا سبب کا بوجھ بھی اپنے اوپر لاد رہے ہیں اور یہ خواہ مخواہ کا بوجھ جہالت کے باعث اپنے اوپر لا د رہے ہیں جو کہ بہت ہی برا ہے

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 22 تا 25 منکرۃ انکار کرنے والے۔ لا جرم یقینا ، قطعاً ۔ لایحب پسند نہیں کرتا ہے۔ ماذا کیا ؟ (حرف سوال) اساطیر (اسطورۃ) قصے، کہانیاں۔ لیحملوا تاکہ وہ اٹھائیں۔ اوزاراً (وزر) بوجھ۔ ساء برا ہے۔ تشریح : آیت نمبر 22 تا 25 سورۃ النحل کے آغاز سے ہی اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کا بیان ہو رہا ہے اس پوری کائنات اور اس کے ذرے ذرے کا پیدا کرنے والا خلاق و رازق صرف اللہ ہی ہے۔ یہاں سے یہ ارشاد فرمایا جا رہا ہے کہ وہ رب جس نے ہر چیز کو پیدا کیا وہ اپنی ذات میں اس طرح ” واحد “ یعنی ایک ہے جس کے ساتھ کوئی شریک نہیں ہے۔ جو لوگ اللہ کی ذات اور صفات میں دوسروں کو شریک کرتے اور ایمان نہیں لاتے وہ جہالت کی اس انتہا پر پہنچ چکے ہیں جہاں سامنے کی ایک حقیقت اور ایک معقول بات کو بھی وہ ماننے سے انکار کر رہے ہیں اور تکبر سے اپنی گردنیں اکڑا کر چلتے ہیں۔ دین اسلام اور نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف سازشیں کرتے رہتے ہیں۔ ان کا گمان یہ ہے کہ ان کی حرکتوں کو دیکھنے والا اور سننے والا کوئی نہیں ہے حالانکہ چھپ چھپ کر باتیں کی جائیں یا کھلم کھلا۔ عاجزی کی جائے یا تکبر وہ اللہ سب کے حالات دلوں کی کیفیات اور کفار کی سازشوں سے اچھی طرح واقف ہے۔ اسے معلوم ہے کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ جب کچھ اجنبی لوگ ان کفار سے قرآن کریم کے متعلق پوچھتے ہیں کہ قرآن کیسی کتاب ہے ؟ تو وہ لوگوں کی نظر میں قرآن کریم کی حیثیت کو کم کرنے کے لئے کہتے ہیں کہ یہ تو گزشتہ قوموں کے قصے کہانیاں ہیں جو قرآن میں نقل کردیئے گئے ہیں۔ اسی طرح وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق بھی ایسی بےسروپا باتیں کرتے ہیں جس سے قرآن کریم اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق بدگمانیاں پیدا ہوجائیں۔ وہ چاہتے تھے کہ کوئی شخص حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قریب نہ جائے۔ کیونکہ جب وہ ان کے قریب جائیں گے تو ان کی سیرت سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکیں گے۔ قرآن کریم کی تلاوت سنیں گے تو ان کے دل متاثر ہوئے بغیر نہ رہیں گے لہٰذا ان کی پوری کوشش ہوتی کہ کسی طرح سننے والے کو اچھی طرح گمراہ کردیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اپنی سرداری اور خاندانی بڑائیوں کے گھمنڈ میں یہ جس طرح اللہ کے کلام اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان میں گستاخیاں کر کے لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں اس کا اور وہ خود جس گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں دونوں کی گمراہی کا بوجھ دوگنا وہ اپنے سر پر لے کر چل رہے ہیں وہ کل قیامت کے دن اتنے بوجھ کیسے اٹھا سکیں گے ؟ اس دن ان کو اس بات کا احساس ہوگا۔ کہ وہ اپنے سر پر کتنے ناقابل برداشت بوجھ لے کر آئے ہیں فرمایا کہ وہ لاعلمی اور جہالت کا فائدہ اٹھا کر لوگوں کو گمراہ تو کرسکتے ہیں لیکن وہ ذلت دور نہیں ہوگی کہ جب ان کے فریب کے پردے چاک ہوجائیں گے اور سچائی کا چہرہ نکھر کر سامنے آجائے گا۔ کیونکہ کوئی بھی سچائی جھوٹ کے پر فریب پردوں میں عرصہ تک چھپانا مشکل ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : دلائل کے ساتھ باطل معبودوں کی نفی کرتے ہوئے اللہ کا ایک الٰہ ہونا ثابت کیا گیا ہے۔ اہل علم جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا حقیقی نام اللہ اور الٰہ ہے۔ لفظ الٰہ اور اللہ میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ الٰہ اللہ تعالیٰ کا نام ہونے کے ساتھ اس کی صفت کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے۔ اگر الٰہ کو صرف صفت کے معنیٰ میں لیا جائے تو یہ ایسا لفظ اور نام ہے جو اللہ تعالیٰ کی تمام بڑی بڑی صفات کا ترجمان ہے۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اللہ تعالیٰ کی مختلف صفات کا معنی لفظ الٰہ کے ذریعے ادا کیا گیا ہے۔ چناچہ یہاں پہلی آیات میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں لاتے ان کے دل اس حقیقت سے انکار کرتے ہیں اور آخرت کے انکار کی وجہ سے یہ متکبر ہوگئے ہیں۔ حالانکہ آخرت میں شک کرنے کی رائی برابر گنجائش نہیں انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو کچھ وہ چھپاتے اور جس کا وہ اظہار کرتے ہیں۔ یقیناً اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ یہاں توحید اور عقیدۂ آخرت کو یکجا اس لیے بیان کیا گیا ہے کہ عقیدۂ توحید اس وقت تک کامل اور اکمل نہیں ہوسکتا جب تک انسان موت کے بعد اٹھنا اور اٹھنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونا اور اپنے برے بھلے اعمال کی سزا اور جزا پر یقین نہ رکھے۔ کیوں کہ جو شخص آخرت کا انکار کرتا ہے اس کا منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو موت کے بعد زندہ کرنے پر قادر نہیں سمجھتا اور نہ ہی وہ اللہ تعالیٰ کو عادل اور منصف مانتا ہے حالانکہ اس کے عدل کا تقاضا یہ ہے کہ وہ ایک دن لوگوں کو زندہ کرے اور وہاں نیک لوگوں کو پوری پوری جزا دے اور مجرموں کو ٹھیک ٹھیک سزا دی جائے۔ پوری پوری جزا اور سزا کا عمل قیامت کے بغیر ممکن نہیں کیونکہ دنیا میں انبیاء (علیہ السلام) اور صالحین کی خدمات کا صلہ کما حقہ کوئی نہیں دے سکتا۔ اسی طرح ہی کتنے قاتل ہیں جنہیں دنیا میں ایک مقتول کے بدلے قتل کیا گیا۔ جب کہ باقی مقتول اور مظلوم لوگوں کی سزا اسے نہیں دی جاسکتی۔ ایسے مجرم کو قیامت کے دن ہی ٹھیک ٹھیک سزا دی جائے گی۔ انہیں خبر ہونی چاہیے کہ جو کچھ دنیا میں چھپاتے اور ظاہر کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے لہٰذا کان کھول کر سن لیں ! کہ دنیا میں انہیں ڈھیل دینے کا یہ معنیٰ نہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں پسند کرتا ہے۔ ہرگز نہیں اللہ تعالیٰ متکبرین کو ہرگز پسند نہیں کرتا۔ (عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَا یَدْخُلُ الجَنَّۃَ مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہٖ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ مِنْ کِبْرٍ فَقَالَ رَجُلٌ اِنَّ الرَّجُلَ یُحِبُّ اَنْ یَّکُوْنَ ثَوْبُہٗ حَسَنًا وَ نَعْلُہٗ حَسَنًا قَالَ اِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی جَمِیْلٌ یُّحِبُّ الجَمَالَ اَلْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَ غَمْطُ النَّاسِ )[ رواہمسلم : باب تحریم الکبر وبیانہ ] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص کے دل میں رائی کے دانے کے برابر تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہیں ہو سکے گا۔ ایک آدمی نے عرض کی ایک شخص پسند کرتا ہے کہ اس کے کپڑے اور جوتے اچھے ہوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ خوبصورت ہے خوبصورتی کو پسند فرماتا ہے۔ تکبر حق بات کو چھپانا اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔ “ مسائل ١۔ الٰہ حق ایک ہی ہے۔ ٢۔ آخرت پر ایمان نہ لانے والوں کے دل منکر ہیں اور وہ تکبر کرتے ہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ظاہر اور پوشیدہ کو جانتا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ تفسیر بالقرآن الہٰ ایک ہی ہے ١۔ تمہارا الٰہ ایک ہی ہے اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں وہ رحمن ورحیم ہے (البقرۃ۔ ١٦٣) ٢۔ یقیناً اللہ ایک ہی الٰہ ہے وہ اولاد سے پاک ہے آسمان و زمین کی ہر چیز اسی کے لیے ہے (النساء۔ ١٧١) ٣۔ اسکے سوا کوئی الٰہ نہیں مگر وہ اکیلا ہی ہے ( المائدۃ : ٧٣) ٤۔ کہہ دیجیے اللہ ایک ہی الٰہ ہے اور میں تمہارے شرک سے بری ہوں۔ (الانعام : ١٩) ٥۔ اللہ نے فرمایا دو الٰہ نہ بناؤ یقیناً الٰہ ایک ہی ہے۔ (النحل : ٥١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

درس نمبر ١٢٠ ایک نظر میں درس سابق میں ہمیں بتایا گیا کہ خالق کائنات کی اس عظیم مخلوق میں بیشمار آیات و نشانات موجود ہیں۔ اس عظیم تخلیق میں حضرت انسان کے فائدے ہی فائدے ہیں اور یہ کہ خالق حقیقی انسان کے ظاہر و باطن کا علم رکھتا ہے ۔ جبکہ جن ہستیوں اور اشیاء کو تم الٰہ سمجھتے ہو ، ان کی کوئی تخلیق نہیں ہے۔ وہ خود مخلوق ہیں ، وہ کسی چیز کا علم و شعور نہیں رکھتے ، بلکہ وہ مردہ ہیں اور ان کو اب اس جہان میں زندگی حاصل نہیں ہو سکتی ، یا وہ حیات کے قابل ہی نہیں ہیں۔ نیز ان ہستیوں کو اس قدر بھی معلوم نہیں ہے کہ سزاء و جزاء و جزاء کے لئے ان کو کب اٹھایا جائے گا۔ یہ تمام دلائل قطعاً اس بات کو ثابت کردیتے ہیں کہ یہ ہستیاں عبادت کے لائق نہیں ہیں اور یہ کہ عقیدۂ شرک سرے سے باطل اور لغو ہے۔ اس سورة میں عقیدۂ توحید کے بیان کا یہ پہلا دور تھا جس میں قیام قیامت کی طرف بھی اشارہ تھا۔ اس سبق میں بھی وہ مضمون ہے جو ہم نے پچھلے سبق میں چھوڑا۔ بیان توحید کا یہ دوسرا دور ہے ، اس کا آغاز اس دعویٰ سے ہوتا ہے کہ تمہارا الٰہ بس ایک ہی الٰہ ہے۔ اور جو لوگ صرف ایک ہی الٰہ کو نہیں مانتے درحقیقت ان کے دل منکر ہیں۔ چونکہ انکار ان کے دلوں کے زند جاگزیں ہے اسی لیے اس کائنات کے شواہد و افرہ کے ہوتے ہوئے بھی وہ اقرار نہیں کرتے۔ دل میں انکار کی جاگزینی کے ساتھ ساتھ یہ لوگ غرور اور کبر کی بیماری میں مبتلا ہیں اور یہ کبر بھی انہیں حقیقت کو تسلیم کرنے سے روکتا ہے۔ یہ مضمون ایک موثر منظر پر یوں ختم ہوجاتا ہے کہ اس کائنات میں تمام سائے در حقیقت ذات کبریا کے سامنے سجدہ ریز ہیں۔ اس کائنات کے تمام جانور بھی اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ ملائکہ بھی الٰہ واحد کے سامنے جھکتے ہیں جن کی ذات استکبار سے خالی اور جن کے قلوب خوف سے پاک ہیں اور ہر وقت بلا کسی چوں و چرا کے اللہ کے احکام بجا لاتے ہیں اور اطاعت امر کے یہ مظہر مستکبرین کے استکبار کے بالمقابل بیان ہوئے جو اس سبق کے آغاز میں بیان ہوا۔ اس سبق کے آغاز اور اختتام کے درمیان قرآن مجید ان مستکبرین کے نقطہ نظر کو بھی قارئین کے سامنے رکھتا ہے کہ ان کا موقف کیا ہے ؟ یہ کہ وحی اور قرآن کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ یہ پرانے قصے ہیں اور یہ کہ وہ کیوں شرک کرتے ہیں ؟ وہ ان چیزوں کو کیوں حرام قرار دیتے ہیں جن کو اللہ نے حرام قرار نہیں دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی مرضی ہے ، اگر اللہ نہ چاہتا تو وہ کب ایسا کرسکتے۔ قیامت کے بارے میں ان کا موقف یہ ہے کہ وہ کڑی کڑی قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ اللہ ہرگز مردوں کو دوبارہ زندہ نہ کرے گا۔ ان کے ان تمام مزعومات کو اس سبق میں سختی سے رد کیا جاتا ہے اور رد کا انداز یہ ہے کہ جب قیامت کے روز یہ اٹھیں گے تو یہ بذات خود اپنے ان نظریات کا صاف صاف انکار کردیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہلاک شدہ امتوں کے بعض واقعات بطور مثال پیش کئے جاتے ہیں اور ان کو ڈرایا جاتا ہے کہ تم پر بھی رات اور دن کی کسی گھڑی میں اسی طرح عذاب آسکتا ہے جبکہ آپ کو کوئی توقع نہ ہوگی اور بعض صورتیں ایسی بھی ہو سکتی ہیں کہ تم کو عذاب کی توقع ہوگی اور تم انتظار کر رہے ہوگے۔ اس کے بالمقابل اس سبق میں مومنین کے موقف اور نظریات کی ایک جھلک بھی دکھائی جاتی ہے ، خصوصاً جبکہ موت اور بعث بعد الموت کے وقت ان کا مکالمہ فرشتوں سے ہوگا ۔ اس طرح یہ سبق ختم ہوتا ہے جس میں خشوع و خضوع اور اطاعت وامتنال امر الٰہی کے مناظر بھی ہیں اور انکار کے بھی اور یہ پوری کائنات ، اس کے سائے ، فرشتے اور گردش لیل و نہار اور ارض و سما سب کے سب امتثال امر الٰہی کے نشانات ہیں۔ آیت نمبر ٢٢ تا ٢٣ ترجمہ : یہاں اللہ وحدہ پر ایمان اور یوم آخرت پر ایمان کو یکجا کیا گیا ہے بلکہ اللہ وحدہ پر ایمان کا لازمی نتیجہ آخرت پر ایمان کو قرار دیا گیا ہے کیونکہ اللہ وحدہ کی بندگی کا براہ راست تعلق عقیدۂ آخرت اور جزاء وسزا کے قیام سے ہے۔ صرف اسی صورت میں خالق حقیقی کی حکمت تخلیق کا اظہار اور مکمل انصاف ہو سکتا ہے۔ الھکم الہ واحد ( ١٦ : ٢٢) “ تمہارا خدا بس ایک ہی خدا ہے ”۔ اس سورة میں تخلیق باری کے جو نشانات گنوائے گئے۔ اللہ کے جن جن انعامات کا ذکر ہوا ، اور اللہ کے علم و حکمت کی جن باتوں کو بیان کیا گیا ، وہ سب اس حقیقت عظیہ کی متقاضی ہیں کہ اللہ ایک ہے ، اس کے آثار اس کائنات کے قوانین قدرت اور نوامیس فطرت میں عیاں ہیں ، اور ان کے درمیان مکمل ہم آہنگی اور باہم تعاون اور توافق پایا جاتا ہے اور یہ تمام قوانین ہمقدم ہیں۔ لہٰذا جو لوگ اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتے وہ آخرت کو تسلیم نہیں کرتے۔ جو لوگ اللہ کی تخلیق ، اس کی وحدانیت اور اس کی حکمت اور عدل پر ایمان لاتے ہیں ، اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ وہ پھر قیام قیامت پر ایمان لائیں ۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو اس کا سبب دلائل و نشانات کی کمی نہیں ہے کہ وہ ایسا نہیں کرتے بلکہ انکار کی علت خود ان کی ذات کے اندر پوشیدہ ہے۔ ان کے مزاج میں انکار ہے اور ان کے دل انکار کرنے والے ہیں۔ ان کے دل و دماغ میں پہلے سے انکار بیٹھا ہوا ہے۔ اس لیے وہ دلائل وبراہین کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے اور دلائل وبراہین کی طرف توجہ کیوں نہیں کرتے ؟ اس لیے کہ وہ مستکبرین ہیں اور اپنے آپ کو بہت بڑی چیز سمجھتے ہیں۔ وہ نہ دلائل کو تسلیم کرتے ہیں اور نہ حضرت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قیادت کو تسلیم کرتے ہیں۔ دراصل یہ لوگ اللہ کی بندگی کرنا نہیں چاہتے۔ لہٰذا انکار کرتے ہیں اور اس کا حقیقی سبب خود ان کے نفوس کے اندر ہے۔ اللہ جس نے تمام انسانوں کو پیدا کیا ہے وہ اپنی مخلوق کے ہر کل پرزے سے واقف ہے ، وہ ان امور سے بھی واقف ہے جو پوشیدہ ہیں اور ان سے بھی جو ظاہر ہیں وہ لاریب سب کچھ جانتا ہے اور ان کے اس رویے کو ناپسند بھی کرتا ہے۔ انہ لا یحب المسکتبرین (١٦ : ٢٣) “ اور اللہ ان لوگوں کو ہرگز پسند نہیں کرتا جو غرور نفس میں مبتلا ہیں ”۔ ایک متکبر دل سے یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ اس کائنات کے دلائل و شواہد پر مطمین ہوجائے اور سر تسلیم خم کر دے۔ چناچہ وہ اللہ کی طرف سے ناپسندیدہ لوگ ہیں کیونکہ وہ غرور نفس میں مبتلا ہیں اور اللہ ان کے حالات اور حقیقت سے خوب واقف ہے اور ان کے ہر ظاہر و باطن سے بھی واقف ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

تمہارا معبود ایک ہی ہے وہ ظاہر اور پوشیدہ سب کو جانتا ہے گمراہ کرنے والے دوسرے کے بوجھ بھی اٹھائے ہوئے ہوں گے مشرکین کی تردید اور ان کے معبودان باطلہ کی حالت بیان فرمانے کے بعد (کہ وہ مخلوق ہیں بےجان ہیں بےعلم ہیں) معبود حقیقی یعنی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت بیان فرمائی اور فرمایا (اِلٰھُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ) (کہ تمہارا معبود حقیقی ایک ہی ہے) صرف اسی کو معبود مانو، اس کے بعد آخرت کے منکرین کے بارے میں فرمایا کہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں لاتے ان کے دل اس کے ماننے سے انکاری ہیں اور وہ تکبر کرنے والے ہیں، یہ تکبر انہیں حق قبول کرنے سے روکتا ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

19:۔ یہ اصل دعوی کا اعادہ ہے اور پہلے دونوں ثمروں پر متفرع ہے یعنی جب ثابت ہوگیا کہ ساری کائنات کا خالق اور سب کچھ کرنے والا اور سب کچھ جاننے والا صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے تو اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ تم سب کا معبود برحق اور کارساز صرف ایک اللہ تعالیٰ ہی ہے اور دعاء اور پکار کے لائق بھی صرف وہی ہے۔ (اِلٰھُکُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ) لا یشار کہ شیء فی شیء وھو تصریح بالمدعی و تمحیض للنتیجۃ عقب اقامۃ الحجۃ (ابو السعود ج 5 ص 448) ۔ 20:۔ ” فَالَّذِیْنَ لَایُوْمِنُوْنَ “ تا ” اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْتَکْبِرِیْنَ “ زجر مع تخویف اخروی۔ جو لوگ مسئلہ توحید کو نہیں مانتے اور سرکشی کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو خوب جانتا ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

22 ۔ ان سب دلائل مذکورہ سے یہ ثابت ہوا کہ تمہارا معبود برحق تو ایک ہی ہے وہی یکتا اور یگانہ ہے پھر حق واضح ہوجانے پر بھی جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں لاتے اور اعتقاد نہیں رکھتے ان کے دل منکر ہو رہے ہیں اور وہ لوگ بڑے سرکش ہیں ۔ یعنی اتنی وضاحت کے بعد بھی ان کے دل ایسے ناکارہ ہیں کہ ایک حق بات کا انکار کرتے چلے جاتے ہیں اور یہ بات بھی ظاہر ہوگئی کہ یہ لوگ بڑے متکبر اور سرکش ہونے کی وجہ سے حق کے مقابلے میں سرکشی کا اظہار کر رہے ہیں۔