Surat un Nahal

Surah: 16

Verse: 26

سورة النحل

قَدۡ مَکَرَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ فَاَتَی اللّٰہُ بُنۡیَانَہُمۡ مِّنَ الۡقَوَاعِدِ فَخَرَّ عَلَیۡہِمُ السَّقۡفُ مِنۡ فَوۡقِہِمۡ وَ اَتٰىہُمُ الۡعَذَابُ مِنۡ حَیۡثُ لَا یَشۡعُرُوۡنَ ﴿۲۶﴾

Those before them had already plotted, but Allah came at their building from the foundations, so the roof fell upon them from above them, and the punishment came to them from where they did not perceive.

ان سے پہلے کے لوگوں نے بھی مکر کیا تھا ، ( آخر ) اللہ نے ( ان کے منصوبوں ) کی عمارتوں کو جڑوں سے اکھیڑ دیا اور ان ( کے سروں ) پر ( ان کی ) چھتیں اوپر سے گر پڑیں اور ان کے پاس عذاب وہاں سے آگیا جہاں کا انہیں وہم و گمان بھی نہ تھا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Discussion about what the previous Peoples did, and what was done to Them Allah says, قَدْ مَكَرَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ... Those before them indeed plotted, Al-Awfi reported that Ibn Abbas said: "This refers to Namrud (Nimrod), who built the tower." Others said that it refers to Bukhtanassar (Nebuchadnezzar). The correct view is that this is said by way of example, to refute what was done by those who disbelieved in Allah and associated others in worship with Him. As Nuh said, وَمَكَرُواْ مَكْراً كُبَّاراً "And they have hatched a mighty scheme." (71:22) meaning, they used all sorts of ploys to misguide their people, and tempted them to join them in their Shirk via all possible means. On the Day of Resurrection their followers will say to them: بَلْ مَكْرُ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ إِذْ تَأْمُرُونَنَأ أَن نَّكْفُرَ بِاللَّهِ وَنَجْعَلَ لَهُ أَندَاداً "Nay, but it was your plotting by night and day, when you ordered us to disbelieve in Allah and set up rivals to Him!" (34:33) ... فَأَتَى اللّهُ بُنْيَانَهُم مِّنَ الْقَوَاعِدِ ... but Allah struck at the foundation of their building. meaning, He uprooted it and brought their efforts to naught. This is like the Ayah: كُلَّمَأ أَوْقَدُواْ نَاراً لِّلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ Every time they kindled the fire of war, Allah extinguished it. (5:64) and, فَأَتَـهُمُ اللَّهُ مِنْ حَيْثُ لَمْ يَحْتَسِبُواْ وَقَذَفَ فِى قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ يُخْرِبُونَ بُيُوتَهُمْ بِأَيْدِيهِمْ وَأَيْدِى الْمُوْمِنِينَ فَاعْتَبِرُواْ يأُوْلِى الاٌّبْصَـرِ But Allah's (torment) reached them from a place where they were not expecting it, and He cast terror into their hearts so that they destroyed their own dwellings with their own hands and the hands of the believers. So then take admonition, O you with eyes (to see). (59:2) Allah says here: ... فَأَتَى اللّهُ بُنْيَانَهُم مِّنَ الْقَوَاعِدِ فَخَرَّ عَلَيْهِمُ السَّقْفُ مِن فَوْقِهِمْ وَأَتَاهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَيْثُ لاَ يَشْعُرُونَ

نمرود کا تذکرہ بعض تو کہتے ہیں اس مکار سے مراد نمرود ہے جس نے بالاخانہ تیار کیا تھا ۔ سب سے پہلے سب سے بڑی سرکشی اسی نے زمین میں کی ۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ہلاک کرنے کو ایک مچھر بھیجا جو اس کے نتھنے میں گھس گیا اور چار سو سال تک اس کا بھیجا چاٹتا رہا ، اس مدت میں اسے اس وقت قدرے سکون معلوم ہوتا تھا جب اس کے سر پر ہتھوڑے مارے جائیں ، خوب فساد پھیلایا تھا ۔ بعض کہتے ہیں اس کے سر پر ہتھوڑے پڑتے رہتے تھے ۔ اس نے چار سو سال تک سلطنت بھی کی تھی اور خوب فساد پھیلایا تھا ۔ بعض کہتے ہیں اس سے مراد بخت نصر ہے یہ بھی بڑا مکار تھا لیکن اللہ کو کوئی کیا نقصان پہنچا سکتا ہے؟ گو اس کا مکر پہاڑوں کو بھی اپنی جگہ سے سرکا دینے والا ہو ۔ بعض کہتے ہیں یہ تو کافروں اور مشرکوں نے اللہ کے ساتھ جو غیروں کی عبادت کی ان کے عمل کی بربادی کی مثال ہے جیسے حضرت نوح علیہ السلام نے فرمایا تھا آیت ( وَمَكَرُوْا مَكْرًا وَّمَكَرْنَا مَكْرًا وَّهُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ ) 27 ۔ النمل:50 ) ان کافروں نے بڑا ہی مکر کیا ، ہر حیلے سے لوگوں کو گمراہ کیا ، ہر وسیلے سے انہیں شرک پر آمادہ کیا ۔ چنانچہ ان کے چیلے قیامت کے دن ان سے کہیں گے کہ تمہارا رات دن کا مکر کہ ہم سے کفر و شرک کے لیے کہنا ، الخ ۔ ان کی عما رت کی جڑ اور بنیاد سے عذاب الٰہی آیا یعنی بالکل ہی کھو دیا اصل سے کاٹ دیا جیسے فرمان ہے جب لڑائی کی آگ بھڑکانا چاہتے ہیں اللہ تعالیٰ اسے بجھا دیتا ہے ۔ اور فرمان ہے ان کے پاس اللہ ایسی جگہ سے آیا جہاں کا انہیں خیال بھی نہ تھا ، ان کے دلوں میں ایسا رعب ڈال دیا کہ یہ اپنے ہاتھوں اپنے مکانات تباہ کرنے لگے اور دوسری جانب سے مومنوں کے ہاتھوں مٹے ، عقل مندو ! عبرت حاصل کرو ۔ یہاں فرمایا کہ اللہ کا عذاب ان کی عمارت کی بنیاد سے آ گیا اور ان پر اوپر سے چھت آ پڑی اور نا دانستہ جگہ سے ان پر عذاب اتر آیا ۔ قیامت کے دن کی رسوائی اور فضیحت ابھی باقی ہے ، اس وقت چھپا ہوا سب کھل جائے گا ، اندر کا سب باہر آ جائے گا ۔ سارا معاملہ طشت ازبام ہو جائے گا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہر غدار کے لئے اس کے پاس ہی جھنڈا گاڑ دیا جائے گا جو اس کے غدر کے مطابق ہو گا اور مشہور کر دیا جائے گا کہ فلاں کا یہ غدر ہے جو فلاں کا لڑکا تھا ۔ اسی طرح ان لوگوں کو بھی میدان محشر میں سب کے سامنے رسوا کیا جائے گا ۔ ان سے ان کا پروردگار ڈانٹ ڈپٹ کر دریافت فرمائے گا کہ جن کی حمایت میں تم میرے بندوں سے الجھتے رہتے تھے وہ آج کہاں ہیں ؟ تمہاری مدد کیوں نہیں کرتے ؟ آج بےیار و مددگار کیوں ہو ؟ یہ چپ ہو جائیں گے ، کیا جواب دیں ؟ لا چار ہو جائیں گے ، کون سی جھوٹی دلیل پیش کریں ؟ اس وقت علماء کرام جو دنیا اور آخرت میں اللہ کے اور مخلوق کے پاس عزت رکھتے ہیں جواب دیں گے کہ رسوائی اور عذاب آج کافروں کو گھیرے ہوئے ہیں اور ان کے معبودان باطل ان سے منہ پھیرے ہوئے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

26۔ 1 بعض مفسرین اسرائیلی روایات کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ اس سے مراد نمرود یا بخت نصر ہے، جنہوں نے آسمان پر کسی طرح چڑھ کر اللہ کے خلاف مکر کیا، لیکن وہ ناکام واپس آئے اور بعض مفسرین کا خیال میں یہ ایک کہانی ہے جس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ اللہ کے ساتھ کفر و شرک کرنے والوں کے عمل اسی طرح برباد ہونگے جس طرح کسی کے مکان کی بنیادیں متزلزل ہوجائیں اور وہ چھت سمیت گرپڑے۔ مگر زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ اس سے مقصود ان قوموں کے انجام کی طرف اشارہ کرنا ہے، جن قوموں نے پیغمبروں کی تکذیب پر اصرار کیا اور بالآخر عذاب الٰہی میں گرفتار ہو کر گھروں سمیت تباہ ہوگئے، مثلاً قوم عاد وقوم لوط وغیرہ۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا من حیث لم یحتسبوا۔ 26۔ 2 ' پس اللہ (کا عذاب) ان کے پاس ایسی جگہ سے آیا جہاں سے ان کو وہم و گمان بھی نہ تھا ' 26۔ 3 بس اللہ کا عذاب ان کے پاس ایسی جگہ سے آیا جہاں سے ان کو وہم و گمان بھی نہ تھا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٦] قریش کی اسلام دشمن سرگرمیاں :۔ قریش مکہ صرف یہی نہیں کہ لوگوں میں غلط پروپیگنڈا کرکے انھیں اسلام سے دور رکھنے کی کوشش کرتے تھے۔ بلکہ اسلام کو روکنے کے لیے کئی طرح کی تدبیریں کرتے رہتے تھے۔ وہ اسلام لانے والوں پر ناروا سختیاں کرتے، انھیں تنگ کرتے۔ بیت اللہ میں داخلہ اور بالخصوص طواف پر پابندیاں قرآن بلند آواز سے پڑھنے پر پابندیاں اور دھمکیاں اور پھر معاشرتی بائیکاٹ، یہ سب کچھ وہ اس لیے کر رہے تھے کہ اسلام اور اس کی دعوت کا کلی طور پر استیصال کردیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ان سے پہلے لوگ بھی دعوت حق کے مقابلے میں ایسی ہی چالیں چلتے رہے اور ان چالوں کے اونچے اور مضبوط محل کھڑے کردیئے۔ لیکن جب اللہ کا عذاب آیا تو ان کی چالوں کے محل بنیادوں ہی سے اکھڑ کر زمین پر آرہے۔ وہ خود اپنی ہی چالوں میں ایسے پھنس گئے جس کا انھیں وہم و گمان بھی نہ ہوسکتا تھا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَدْ مَكَرَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ : مکر کا معنی خفیہ اور مضبوط تدبیر یا کسی دوسرے کو حیلے کے ساتھ اس کے مقصد سے روکنا ہے، یہ خیر کے لیے ہو تو قابل تعریف ہے، شر کے لیے ہو تو قابل مذمت۔ اس آیت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اہل ایمان کو تسلی دی گئی ہے کہ اس سے پہلے لوگوں نے بھی رسولوں کے خلاف خفیہ تدبیریں اور سازشیں جتنی کرسکتے تھے کیں مگر بری طرح ناکام ہوئے۔ فَاَتَى اللّٰهُ بُنْيَانَهُمْ مِّنَ الْقَوَاعِدِ ۔۔ : ” بُنْیَانٌ بَنَی یَبْنِيْ “ (ض) کا مصدر بمعنی اسم مفعول ہے، بنائی ہوئی عمارت۔ ” الْقَوَاعِدِ “ ” قَاعِدَۃٌ“ کی جمع ہے، بنیادیں۔ اس کی تفسیر دو طرح سے کرتے ہیں، ایک تو یہ کہ یہ ایک تمثیل ہے، یعنی ایک معنوی چیز کو نظر آنے والی چیز کے ساتھ تشبیہ دے کر بات سمجھائی گئی ہے، یعنی جس طرح کوئی شخص ایک عمارت بنائے تو دوسرا کوئی شخص خفیہ طریقے سے اس کی بنیادوں کو اس طرح کھوکھلا کر دے کہ عمارت کی چھت گرپڑے اور بنانے والے اپنے ہی مکان کی چھت کے نیچے آ کر ہلاک ہوجائیں۔ اسی طرح کفار نے رسولوں اور اہل ایمان کے خلاف مکر (سازش) کے محل تعمیر کیے، مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے ان محلوں کی بنیادیں اس طرح ہلا دیں کہ ان کی چھتیں بھی انھی پر گرپڑیں۔ جس طرح کہتے ہیں کہ جو دوسرے کے لیے کنواں کھودتا ہے وہ خود ہی اس میں گرپڑتا ہے۔ یہاں واقعی کنواں ہونا ضروری نہیں۔ کئی مفسرین نے یہ معنی کیا ہے اور رازی نے اسے ترجیح دی ہے۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ رسولوں کے خلاف سازشیں کرنے والے جن عمارتوں میں رہتے تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کی بنیادوں کو زلزلے کا ایسا جھٹکا دیا، یا سیلاب میں ایسا گھیرا کہ ان کی چھتیں ان کے اوپر گرپڑیں اور وہ ان کے نیچے آ کر ہلاک ہوگئے، اس طرح اللہ کے عذاب نے انھیں ایسی جگہ سے آگھیرا جہاں سے وہ گمان بھی نہ رکھتے تھے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ( فَكُلًّا اَخَذْنَا بِذَنْۢبِهٖ ۚ فَمِنْهُمْ مَّنْ اَرْسَلْنَا عَلَيْهِ حَاصِبًا ۚوَمِنْهُمْ مَّنْ اَخَذَتْهُ الصَّيْحَةُ ۚ وَمِنْهُمْ مَّنْ خَسَفْنَا بِهِ الْاَرْضَ ۚ وَمِنْهُمْ مَّنْ اَغْرَقْنَا) [ العنکبوت : ٤٠ ] ” تو ہم نے ہر ایک کو اس کے گناہ میں پکڑ لیا پھر ان میں سے کوئی وہ تھا جس پر ہم نے پتھراؤ والی ہوا بھیجی اور ان میں سے کوئی وہ تھا جسے چیخ نے پکڑ لیا اور ان میں سے کوئی وہ تھا جسے ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور ان میں سے کوئی وہ تھا جسے ہم نے غرق کردیا۔ “ امام المفسرین طبری (رض) نے اس معنی کو ترجیح دی ہے اور فرمایا کہ جب الفاظ کے ظاہر معنی مراد لیے جاسکتے ہیں اور اس میں کوئی خرابی نہیں، تو تمثیل کی طرف جانے کی کیا ضرورت ہے، چناچہ اس میں کیا چیز ناممکن ہے کہ کئی کفار اپنے مکانوں کی چھتوں کے نیچے آ کر مرگئے ہوں، جنھیں وہ نہایت مضبوط سمجھتے تھے۔ کچھ عرصہ پہلے رمضان ١٤٢٦ ھ میں کشمیر کے ہولناک زلزلے میں بیشمار کئی منزلہ مکان زمین میں دھنس گئے، بہت سے اپنے مکینوں پر گرپڑے اور اس کے بعد رمضان ١٤٣١ ھ میں پاکستان میں سیلاب کی وجہ سے شہروں کے شہر بری طرح متاثر ہوئے، حتیٰ کہ تقریباً نصف پاکستان سیلاب کی زد میں آگیا، یہ سب کچھ ہمارے سامنے ہے۔ [ اَللّٰھُمَّ لَا تَقْتُلْنَا بِغَضَبِکَ وَلَا تُھْلِکْنَا بِعَذَابِکَ وَ عَافِنَا قَبْلَ ذٰلِکَ ]

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَدْ مَكَرَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَاَتَى اللّٰهُ بُنْيَانَهُمْ مِّنَ الْقَوَاعِدِ فَخَــرَّ عَلَيْهِمُ السَّقْفُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَاَتٰىهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَيْثُ لَا يَشْعُرُوْنَ 26؀ مكر المَكْرُ : صرف الغیر عمّا يقصده بحیلة، وذلک ضربان : مکر محمود، وذلک أن يتحرّى بذلک فعل جمیل، وعلی ذلک قال : وَاللَّهُ خَيْرُ الْماكِرِينَ [ آل عمران/ 54] . و مذموم، وهو أن يتحرّى به فعل قبیح، قال تعالی: وَلا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ [ فاطر/ 43] ( م ک ر ) المکر ک ے معنی کسی شخص کو حیلہ کے ساتھ اس کے مقصد سے پھیر دینے کے ہیں یہ دو قسم پر ہے ( 1) اگر اس سے کوئی اچھا فعل مقصود ہو تو محمود ہوتا ہے ورنہ مذموم چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَاللَّهُ خَيْرُ الْماكِرِينَ [ آل عمران/ 54] اور خدا خوب چال چلنے والا ہے ۔ پہلے معنی پر محمول ہے ۔ اور دوسرے معنی کے متعلق فرمایا : ۔ وَلا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ [ فاطر/ 43] اور بری چال کا وبال اس کے چلنے والے پر ہی پڑتا ہے : أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے قعد القُعُودُ يقابل به القیام، والْقَعْدَةُ للمرّة، والقِعْدَةُ للحال التي يكون عليها الْقَاعِدُ ، والقُعُودُ قد يكون جمع قاعد . قال : فَاذْكُرُوا اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ النساء/ 103] ، الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ آل عمران/ 191] ، والمَقْعَدُ : مكان القعود، وجمعه : مَقَاعِدُ. قال تعالی: فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر/ 55] أي في مکان هدوّ ، وقوله : مَقاعِدَ لِلْقِتالِ [ آل عمران/ 121] كناية عن المعرکة التي بها المستقرّ ، ويعبّر عن المتکاسل في الشیء بِالْقَاعدِ نحو قوله : لا يَسْتَوِي الْقاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ [ النساء/ 95] ، ومنه : رجل قُعَدَةٌ وضجعة، وقوله : وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجاهِدِينَ عَلَى الْقاعِدِينَ أَجْراً عَظِيماً [ النساء/ 95] وعن التّرصّد للشیء بالقعود له . نحو قوله : لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِراطَكَ الْمُسْتَقِيمَ [ الأعراف/ 16] ، وقوله : إِنَّا هاهُنا قاعِدُونَ [ المائدة/ 24] يعني متوقّفون . وقوله : عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمالِ قَعِيدٌ [ ق/ 17] أي : ملك يترصّده ويكتب له وعليه، ويقال ذلک للواحد والجمع، والقَعِيدُ من الوحش : خلاف النّطيح . وقَعِيدَكَ الله، وقِعْدَكَ الله، أي : أسأل اللہ الذي يلزمک حفظک، والقاعِدَةُ : لمن قعدت عن الحیض والتّزوّج، والقَوَاعِدُ جمعها . قال : وَالْقَواعِدُ مِنَ النِّساءِ [ النور/ 60] ، والْمُقْعَدُ : من قَعَدَ عن الدّيون، ولمن يعجز عن النّهوض لزمانة به، وبه شبّه الضّفدع فقیل له : مُقْعَدٌ «1» ، وجمعه : مُقْعَدَاتٌ ، وثدي مُقْعَدٌ للکاعب : ناتئ مصوّر بصورته، والْمُقْعَدُ كناية عن اللئيم الْمُتَقَاعِدِ عن المکارم، وقَوَاعدُ البِنَاءِ : أساسه . قال تعالی: وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْراهِيمُ الْقَواعِدَ مِنَ الْبَيْتِ [ البقرة/ 127] ، وقَوَاعِدُ الهودج : خشباته الجارية مجری قواعد البناء . ( ق ع د ) القعود یہ قیام ( کھڑا ہونا کی ضد ہے اس سے قعدۃ صیغہ مرۃ ہے یعنی ایک بار بیٹھنا اور قعدۃ ( بکسر ( قاف ) بیٹھنے کی حالت کو کہتے ہیں اور القعود قاعدۃ کی جمع بھی ہے جیسے فرمایا : ۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ النساء/ 103] تو کھڑے اور بیٹھے ہر حال میں خدا کو یاد کرو ۔ الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ آل عمران/ 191] جو کھڑے اور بیٹھے ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں ۔ المقعد کے معنی جائے قیام کے ہیں اس کی جمع مقاعد ہے قرآن میں ہے : ۔ فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر/ 55]( یعنی ) پاک مقام میں ہر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاہ کی بار گاہ میں ۔ یعنی نہایت پر سکون مقام میں ہوں گے اور آیت کریمہ : ۔ مَقاعِدَ لِلْقِتالِ [ آل عمران/ 121] لڑائی کیلئے مور چوں پر میں لڑائی کے مورچے مراد ہیں جہاں سپاہی جم کر لڑتے ہیں اور کبھی کسی کام میں سستی کرنے والے کو بھی قاعدۃ کہا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ لا يَسْتَوِي الْقاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ [ النساء/ 95] جو مسلمان ( گھروں میں ) بیٹھ رہتے اور لڑنے سے جی چراتے ہیں اور کوئی عذر نہیں رکھتے ۔ اسی سے عجل قدعۃ ضجعۃ کا محاورہ جس کے معنی بہت کاہل اور بیٹھنے رہنے والے آدمی کے ہیں نیز فرمایا : ۔ وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجاهِدِينَ عَلَى الْقاعِدِينَ أَجْراً عَظِيماً [ النساء/ 95] خدا نے مال اور جان سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھنے والوں پر درجے میں فضیلت بخشی ہے ۔ اور کبھی قعدۃ لہ کے معیً کیس چیز کے لئے گھات لگا کر بیٹھنے اور انتظار کرنے کے بھی آتے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِراطَكَ الْمُسْتَقِيمَ [ الأعراف/ 16] میں بھی سیدھے رستے پر بیٹھوں گا ۔ نیز فرمایا : ۔ إِنَّا هاهُنا قاعِدُونَ [ المائدة/ 24] ہم یہیں بیٹھے رہینگے یعنی یہاں بیٹھ کر انتظار کرتے رہینگے اور آیت کر یمہ : ۔ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمالِ قَعِيدٌ [ ق/ 17] جو دائیں بائیں بیٹھے ہیں ۔ میں قعید سے مراد وہ فرشتہ ہے جو ( ہر وقت اعمال کی نگرانی کرتا رہتا ہے اور انسان کے اچھے برے اعمال میں درج کرتا رہتا ہے یہ واحد وجمع دونوں پر بولا جاتا ہے اسے بھی قعید کہا جاتا ہے اور یہ نطیح کی جد ہے ۔ یعنی میں اللہ تعالیٰ سے تیری حفاظت کا سوال کرتا ہوں ۔ القاعدۃ وہ عورت جو عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے نکاح اور حیض کے وابل نہ رہی ہو اس کی جمع قواعد ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَالْقَواعِدُ مِنَ النِّساءِ [ النور/ 60] اور بڑی عمر کی عورتیں ۔ اور مقعدۃ اس شخص کو بھی کہا جاتا ہے جو ملازمت سے سبکدوش ہوچکا ہو اور اپاہج آدمی جو چل پھر نہ سکے اسے بھی مقعد کہہ دیتے ہیں اسی وجہ سے مجازا مینڈک کو بھی مقعد کہا جاتا ہے اس کی جمع مقعدات ہے اور ابھری ہوئی چھاتی پر بھی ثدی مقعد کا لفظ بولا جاتا ہے اور کنایہ کے طور پر کمینے اور خمیس اطوار آدمی پر بھی مقعدۃ کا طلاق ہوتا ہے قواعد لبنآء عمارت کی بنیادیں قرآن میں ہے : ۔ وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْراهِيمُ الْقَواعِدَ مِنَ الْبَيْتِ [ البقرة/ 127] اور جب ابراہیم بیت اللہ کی بنیادی اونچی کر رہے تھے قواعد الھودج ( چو کھٹا ) ہودے کی لکڑیاں جو اس کے لئے بمنزلہ بنیاد کے ہوتی ہیں ۔ خر فَكَأَنَّما خَرَّ مِنَ السَّماءِ [ الحج/ 31] ، وقال تعالی: فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ [ سبأ/ 14] ، وقال تعالی: فَخَرَّ عَلَيْهِمُ السَّقْفُ مِنْ فَوْقِهِمْ [ النحل/ 26] ، فمعنی خَرَّ سقط سقوطا يسمع منه خریر، والخَرِير يقال لصوت الماء والرّيح وغیر ذلک ممّا يسقط من علوّ. وقوله تعالی: خَرُّوا سُجَّداً [ السجدة/ 15] ( خ ر ر ) خر ( ن ) خر یر ا کے معنی کسی چیز کے آواز کے ساتھ نیچے گرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَكَأَنَّما خَرَّ مِنَ السَّماءِ [ الحج/ 31] جب عصا گر پرا تب جنوں کو معلوم ہوا ۔ تو وہ گویا ایسا ہے جیسے آسمان سے گر پڑے ۔ فَخَرَّ عَلَيْهِمُ السَّقْفُ مِنْ فَوْقِهِمْ [ النحل/ 26] اور چھت ان پر ان کے اوپر سے گر پڑی الخریر پانی وغیرہ کی آواز کو کہتے ہیں جو اوپر سے گر رہاہو اور آیت کریمہ : ۔ خَرُّوا سُجَّداً [ السجدة/ 15] تو سجدے میں گر پڑتے میں خرو ا کا لفظ دو معنوں پر دلالت کرتا ہے یعنی ( 1) گرنا اور ( 2 ) ان سے تسبیح کی آواز کا آنا ۔ اور اس کے بعد آیت سے تنبیہ کی ہے کہ ان کا سجدہ ریز ہونا اللہ تعالیٰ کی تسبیح کے ساتھ تھا نہ کہ کسی اور امر کے ساتھ ۔ سقف سَقْفُ البیت، جمعه : سُقُفٌ ، وجعل السماء سقفا في قوله تعالی: وَالسَّقْفِ الْمَرْفُوعِ [ الطور/ 5] ، وقال تعالی: وَجَعَلْنَا السَّماءَ سَقْفاً مَحْفُوظاً [ الأنبیاء/ 32] ، وقال : لِبُيُوتِهِمْ سُقُفاً مِنْ فِضَّةٍ [ الزخرف/ 33] ، والسَّقِيفَةُ : كلّ مکان له سقف، کالصّفّة، والبیت، والسَّقَفُ : طول في انحناء تشبيها بالسّقف ( س ق ف ) سقف البیت مکان کی چھت کر کہتے ہیں اس کی جمع سقف ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ لِبُيُوتِهِمْ سُقُفاً مِنْ فِضَّةٍ [ الزخرف/ 33]( ہم ) ان کے گھروں کی چھتیں چاندی کی بنادیتے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَالسَّقْفِ الْمَرْفُوعِ [ الطور/ 5] اور اونچی چھت کی ۃ قسم میں مراد آسمان ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَجَعَلْنَا السَّماءَ سَقْفاً مَحْفُوظاً [ الأنبیاء/ 32] میں آسمان کو محفوظ چھت فرمایا ہے ۔ اور ہر وہ جگہ جو مسقف ہو اسے سقیفہ کہا جاتا ہے جیسے صفۃ ( چبوترہ ) مکان وغیرہ ۔ اور چھت کے ساتھ تشبیہ دے کر ہر اس لمبی چیز فوق فَوْقُ يستعمل في المکان، والزمان، والجسم، والعدد، والمنزلة، وذلک أضرب : الأول : باعتبار العلوّ. نحو : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة/ 63] ، مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ [ الزمر/ 16] ، وَجَعَلَ فِيها رَواسِيَ مِنْ فَوْقِها [ فصلت/ 10] ، ويقابله تحت . قال : قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ [ الأنعام/ 65] الثاني : باعتبار الصّعود والحدور . نحو قوله :إِذْ جاؤُكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ [ الأحزاب/ 10] . الثالث : يقال في العدد . نحو قوله : فَإِنْ كُنَّ نِساءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ [ النساء/ 11] . الرابع : في الکبر والصّغر مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] . الخامس : باعتبار الفضیلة الدّنيويّة . نحو : وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ [ الزخرف/ 32] ، أو الأخرويّة : وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ البقرة/ 212] ، فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ آل عمران/ 55] . السادس : باعتبار القهر والغلبة . نحو قوله : وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام/ 18] ، وقوله عن فرعون : وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف/ 127] ( ف و ق ) فوق یہ مکان ازمان جسم عدد اور مرتبہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے اور کئی معنوں میں بولا جاتا ہے اوپر جیسے فرمایا ۔ وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة/ 63] اور کوہ طور کو تم پر اٹھا کھڑا کیا ۔ مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ [ الزمر/ 16] کے اوپر تو آگ کے سائبان ہوں گے ۔ وَجَعَلَ فِيها رَواسِيَ مِنْ فَوْقِها [ فصلت/ 10] اور اسی نے زمین میں اس کے پہاڑ بنائے ۔ اس کی ضد تحت ہے جس کے معنی نیچے کے ہیں چناچہ فرمایا ۔ قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ [ الأنعام/ 65] کہ وہ اس پر بھی قدرت رکھتا ہے کہ تم پر اوپر کی طرف سے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے عذاب بھیجے ۔ 2 صعود یعنی بلند ی کی جانب کے معنی میں اس کی ضدا سفل ہے جس کے معنی پستی کی جانب کے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ إِذْ جاؤُكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ [ الأحزاب/ 10] جب وہ تمہارے اوپر اور نیچے کی جانب سے تم پر چڑھ آئے ۔ 3 کسی عدد پر زیادتی کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَإِنْ كُنَّ نِساءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ [ النساء/ 11] اگر اولاد صرف لڑکیاں ہی ہوں ( یعنی دو یا ) دو سے زیادہ ۔ 4 جسمانیت کے لحاظ سے بڑا یا چھوٹا ہونے کے معنی دیتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] مچھر یا اس سے بڑھ کر کسی چیز مثلا مکھی ۔ مکڑی کی مثال بیان فرمائے ۔ 5 بلحاظ فضیلت دنیوی کے استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا ۔ وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ [ الزخرف/ 32] اور ایک دوسرے پر درجے بلند کئے ۔ اور کبھی فضلیت اخروی کے لحاظ سے آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ البقرة/ 212] لیکن جو پرہیز گار ہیں وہ قیامت کے دن ان پر پر فائق ہوں گے ۔ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ آل عمران/ 55] کافروں پر فائق ۔ 6 فوقیت معنی غلبہ اور تسلط کے جیسے فرمایا : ۔ وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام/ 18] اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے ۔ وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف/ 127] فرعون سے اور بےشبہ ہم ان پر غالب ہیں ۔ حيث حيث عبارة عن مکان مبهم يشرح بالجملة التي بعده، نحو قوله تعالی: وَحَيْثُ ما كُنْتُمْ [ البقرة/ 144] ، وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ [ البقرة/ 149] . ( ح ی ث ) حیث ( یہ ظرف مکان مبنی برضم ہے ) اور ) مکان مبہم کے لئے آتا ہے جس کی مابعد کے جملہ سے تشریح ہوتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَحَيْثُ ما كُنْتُمْ [ البقرة/ 144] اور تم جہاں ہوا کرو شعور الحواسّ ، وقوله : وَأَنْتُمْ لا تَشْعُرُونَ [ الحجرات/ 2] ، ونحو ذلك، معناه : لا تدرکونه بالحواسّ ، ولو في كثير ممّا جاء فيه لا يَشْعُرُونَ : لا يعقلون، لم يكن يجوز، إذ کان کثير ممّا لا يكون محسوسا قد يكون معقولا . شعور حواس کو کہتے ہیں لہذا آیت کریمہ ؛ وَأَنْتُمْ لا تَشْعُرُونَ [ الحجرات/ 2] اور تم کو خبر بھی نہ ہو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تم حواس سے اس کا ادرک نہیں کرسکتے ۔ اور اکثر مقامات میں جہاں لایشعرون کا صیغہ آیا ہے اس کی بجائے ۔ لایعقلون کہنا صحیح نہیں ہے ۔ کیونکہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو محسوس تو نہیں ہوسکتی لیکن عقل سے ان کا ادراک ہوسکتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٦) جیسا کہ یہ لوگ آپ کی مخالفت کیلیے بڑی بڑی تدبیری کرتے ہیں جو لوگ ان سے پہلے گزرے ہیں انہوں نے اپنے انبیاء کرام کے مقابلہ کے لیے بڑی بڑی تدبیریں کرتے ہیں جو لوگ ان سے پہلے گزرے ہیں، انہوں نے اپنے انبیاء کرام کے مقابلہ کے لیے بڑی بڑی تدبیریں کیں جیسا کہ نمرود جبار کہ اس نے آسمان پر جانے کے لیے سیڑھی بنائی تھی، پھر اللہ تعالیٰ نے ان کا بنابنایا گھر (سیڑھی) جڑ سے ڈھا دیا تو گویا ان پر اوپر سے وہ سیڑھی آپڑی اور یہ انہدام کا عذاب ان پر ایسی حالت میں آیا کہ ان کو خیال بھی نہ تھا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٦ (قَدْ مَكَرَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ ) ان سے پہلے بھی مختلف اقوام کے لوگوں نے ہمارے انبیاء و رسل کی مخالفت کی تھی اور ان کی دعوت کو ناکام کرنے کے لیے طرح طرح کے حربے آزمائے تھے اور سازشیں کی تھیں۔ (فَاَتَى اللّٰهُ بُنْيَانَهُمْ مِّنَ الْقَوَاعِدِ فَخَــرَّ عَلَيْهِمُ السَّقْفُ مِنْ فَوْقِهِمْ ) جب اللہ تعالیٰ کا فیصلہ آیا تو مخالفین کی تمام سازشوں کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکا گیا اور ان کی بستیوں کو تلپٹ کردیا گیا۔ سدوم اور عامورہ کی بستیوں کے بارے میں ہم پڑھ آئے ہیں : (فَلَمَّا جَاۗءَ اَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِيَهَا سَافِلَهَا) (ہود : ٨٢) ” پھر جب آگیا ہمارا حکم تو ہم نے کردیا اس کے اوپر والے حصے کو اس کا نیچے والا “۔ یعنی اس کو تہ وبالا کردیا۔ اس سلسلے میں قرآن حکیم کے اندر تو صرف انہی چند اقوام کا ذکر آیا ہے جن سے اہل عرب واقف تھے ‘ ورنہ رسول تو ہر علاقے اور ہر قوم میں آتے رہے ہیں ‘ ازروئے الفاظ قرآنی : (وَلِکُلِّ قَوْمٍ ہَادٍ ) (الرعد) ” اور ہر قوم کے لیے ایک راہنما ہے۔ “ خود ہندوستان کے علاقے میں بھی بہت سے انبیاء ورسل کے مبعوث ہونے کے آثار ملتے ہیں۔ ہریانہ ‘ ضلع حصار ‘ جس علاقے میں میرا بچپن گزرا وہاں مختلف مقامات پر سیاہ رنگ کی راکھ کے بڑے بڑے ٹیلے موجود تھے جن کی کھدائی کے دوران بستیوں کے آثار ملتے تھے۔ ایسے معلوم ہوتا ہے جیسے یہ اپنے زمانے کی پر رونق بستیاں تھیں ان کے باشندوں نے اپنے رسولوں کی نافرمانیاں کیں اور انہیں عذاب خداوندی نے جلا کر بھسم کر ڈالا۔ جس طرح پومپیائی پر لاوے کی بارش ہوئی اور پوری بستی جلتے ہوئے لاوے کے اندر دب گئی۔ اس علاقے میں دریائے سرسوتی بہتا تھا جو ہندوستان کا ایک بہت بڑا دریا تھا اور اسے مقدس مانا جاتا تھا (دریائے گنگا بہت بعد کے زمانے میں وجود میں آیا) آج دریائے سرسوتی کا کچھ پتا نہیں چلتا کہ یہ کہاں کہاں سے گزرتا تھا اور ماہرین آثار قدیمہ اس کی گزر گاہ تلاش کر رہے ہیں۔ یہ سب آثار بتاتے ہیں کہ ہندوستان کے اندر مختلف زمانوں میں انبیاء و رسل آئے اور ان کی نافرمانیوں کے سبب ان کی قومیں اللہ کے عذاب کا شکار ہوئیں۔ ان آثار کی شہادتوں کے علاوہ کچھ ایسے مکاشفات بھی ہیں کہ مشرقی پنجاب کے جس علاقے میں شیخ احمد سرہندی کا مدفن ہے اس علاقے میں تیس انبیاء مدفون ہیں۔ واللہ اعلم !

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢٦۔ تفسیر مقاتل بن حیان تفسیر عبد الرزاق اور تفسیر ابن ابی حاتم میں حضرت عبد اللہ بن عباس اور زید بن اسلم سے روایت ہے کہ یہ نمرود کی عمارت کا حال ہے ١ ؎۔ پانچ ہزار گز اونچی اونچی عمارت بابل میں نمرود نے اس ارادہ سے بنائی تھی کہ آسمان پر چڑھ کر خدا سے مقابلہ اور لڑائی کرے آخر سخت آندھی اور زلزلہ سے وہ عمارت گری اور ہزاروں آدمی نمرود کے لشکر کے دب کر مرگئے چار سو برس تک نمرود زمین میں بڑے بڑے ظلم اور ستم کرتا رہا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں ڈالا طرح طرح کے جبر کر کے لوگوں کو ملت ابراہیمی سے روکتا رہا آخر اس ذلت سے ہلاک ہوا کہ حکم الٰہی سے مچھر اس کی ناک کے نتھنے سے دماغ میں گھس گیا ہر وقت وہ مچھر اس کے دماغ میں کاٹتا تھا اور وہ لوگوں سے تسکین کے لئے اپنے سر پر جوتیاں اور دوہتڑ پٹواتا تھا جتنے عرصہ تک اس نے دنیا میں ظلم کیا تھا وہی چار سو برس کے عرصہ تک جوتیاں کھاتا اور ذلت سے جیتا رہا پھر ہلاک ہوگیا اس قصہ کے ذکر فرمانے میں قریش کو یہ تنبیہہ ہے کہ یہ لوگ اپنے دعوے میں جس ملت ابراہیمی پر اپنے آپ کو بتلاتے ہیں جس زمانہ میں اللہ تعالیٰ کو اس ملت ابراہیمی کا دنیا میں پھیلانا منظور تھا اتنے بڑے جابر صاحب حکومت بادشاہ نمرود نے ملت ابراہیمی کا پھیلنا روکا آخر کو ذلت پائی اور ملت ابراہیمی ایسی پھیلی کہ آج تک موجود ہے اب دین محمدی کا پھیلانا اللہ کو منظور ہے تم جو موسم حج میں مکہ کے ناکوں پر آدمی بٹھا کر باہر سے جو لوگ مکہ میں آتے ہیں ان کو بہکاتے ہو اور دین محمدی کے اختیار کرنے والوں کو روکتے ہو دیکھو نمرود کی طرح ذلت اٹھاؤ گے اور آخر ہوگا وہی جو اللہ کے ارادہ میں ہے اللہ سچا ہے اور اللہ کا وعدہ سچا ہے آخر وہی ہوا کہ مکہ میں دین محمدی کے روکنے والے جتنے شخص تھے ابو جہل ولید بن مغیرہ وغیرہ یہ سب ذلت کی موت سے مارے گئے اور آخرت کا عذاب اپنے سر لے گئے اور دین محمدی کو جو عروج ہوا وہ سب کی آنکھوں کے سامنے ہے اور جن بتوں کی حمایت کے جوش میں یہ مشرک لوگ دین محمدی کا پھیلنا نہیں چاہتے تھے فتح مکہ کے دن ان کی جو ذلت ہوئی اس کا قصہ صحیح بخاری کی عبد اللہ بن مسعود (رض) کی اور صحیح مسلم کی ابوہریرہ (رض) کی روایتوں سے گزر چکا ہے۔ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے ابو موسیٰ اشعری (رض) کی روایت اوپر گزر چکی ہے۔ جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ جب تک چاہتا ہے ظالم لوگوں کو ظلم سے باز آنے کے لئے مہلت دیتا ہے پھر جب پکڑ لیتا ہے تو بالکل ہلاک کردیتا ہے اس حدیث کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ چار سو برس تک اللہ تعالیٰ نے نمرود کو مہلت دی جب وہ اس مہلت میں اپنے ظلم و ستم سے باز نہ آیا تو اس کو اس ذلت سے ہلاک کردیا جس کا ذکر اوپر گزرا۔ واتاھم العذاب من حیث لا یشعرون۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو عمارت نمرود نے بڑی مضبوطی سے بنائی تھی اس کا ایسی جلدی گر جانا اور نمرود جیسے صاحب حکومت صاحب لشکر بادشاہ کا اس طرح کی ذلت و خواری سے ہلاک ہونا اس وقت کے لوگوں کی سمجھ سے باہر ایک بات تھی۔ ١ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٥٦٦ ج ٢ و الدر المنثور ص ١١٧ ج ٤۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(16:26) مکر۔ اس نے (یہاں بمعنی جمع۔ انہوں نے) خفیہ تدبیر چلی۔ القواعد ۔ اس کی بنیادیں ۔ اس کی واحد القاعدہ ہے، جس چیز کسی چیز کا قعود ہو یعنی قیام ہو۔ وہ قاعدہ ہے۔ القواعد۔ بمعنی عمر رسیدہ عورتیں ہو تو اس کا واحد القاعدہ ہے جیسے کہ والقواعد من النساء (24:60) عورتوں میں سے بڑی بوڑھی عورتیں ہیں۔ خر۔ ماضی واحد مذکر غائب (باب ضرب) خر مصدر۔ وہ گرپڑا۔ شرکایٔ۔ مضاف مضاف الیہ۔ میرے شریک (تمہارے زعم کے مطابق) کنتم تشاقون فی۔ جن کی بابت تم جھگڑا کیا کرتے تھے۔ ماضی استمراری ۔ جمع مذکر حاضر۔ مشاقۃ وشقاق مصدر بمعنی مخالفت کرنا۔ عداوت کرنا۔ جھگڑنا۔ ضد کرنا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 اس میں ان کافروں کو وعید سنائی گئی ہے جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نیچا دکھانے کے لئے مکر و فریب کی عمارتیں کھڑی کر رہے تھے کہ ان کا حشر بھی وہی ہونے والا ہے جو پہلے لوگوں کا ہوا۔ لہٰذا وہ یا تو اپنی شرارتوں سے باز آجائیں یا اپنے آپ کو عذاب الٰہی کے لئے تیار رکھیں (روح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

(رکوع نمبر ٤) اسرارومعارف جہاں تک اپنی حفاظت اقتدار اور غلبے کا تعلق ہے جس کے خاطر یہ دوسروں کو بھی گمراہ کرنے سے نہیں چوکتے تو اس کی مثالیں سامنے ہیں کہ ان سے پہلی کافر قوموں نے بہت تدبیریں کی تھیں اور بڑے دنیاوی اسباب جمع کئے تھے مگر تقدیر باری کے سامنے پیش نہ گئی اللہ کریم نے انہیں ایسے برباد کیا کہ بنیادوں تک سے اکھیڑ دیا اور ان کی چھتیں انہی پر گر گئیں یعنی جو تدبیریں حفاظت کیلئے کی تھیں وہی تباہی کا باعث بن گئیں اور عذاب الہی نے ایسا پکڑا کہ وہ سمجھ ہی نہ پائے کہ یہ مصیبت کدھر سے آرہی ہے یہ تو دنیا کا حال تھا اصل خرابی تو میدان حشر میں ہوگی جب انہیں تمام عالم کے روبرو رسوا کیا جائے گا اور پوچھا جائے گا کہ وہ معبودان باطلہ کیا ہوئے کہاں گئے وہ عہدے اور مال منال جن کی خاطر اللہ کریم کی نافرمانی اور کفر کو اختیار کرلیا تھا اور اسی پر مصر تھے کہ ٹلنے کا نام نہیں لیتے تھے ان کا یہ حال دیکھ کر اہل حق کہہ اٹھیں گے کہ آج رسوائی اور عذاب کی حد ہوگئی اور کفار اپنے اصلی ٹھکانے پر پہنچے ، ایسے لوگ جن کی موت ہی کفر پر آتی ہے تب وہ بھی اطاعت کریں گے اور کہیں گے کہ ہم نے تو جو بھلا جانا وہی کیا کوئی برائی نہیں کی اب بھی بات ماننے اور اطاعت کے لیے تیار ہیں تو ارشاد ہوگا کیوں نہی بہت خوب کہتے ہو مگر جان لو تمہارا کوئی عمل ایسا نہیں جو اللہ کریم کے ذاتی علم میں نہ ہو لہذا دھوکا نہ دے سکو گے چلو جاؤ دوزخ کے دروازوں میں سے اپنی سزا کے مطابق داخل ہوجاؤ جہاں سے تمہیں کبھی باہر نہیں آنا بلکہ ہمیشہ وہیں رہو گے اور کتنا ہی برا ٹھکانہ ہے جہاں انہیں ان کا تکبر لے گیا ، (تبلیغ دین پر انعامات کا وعدہ) یہی بات جب اہل حق سے پوچھی جائے کہ تمہارے پروردگار نے کیا نازل فرمایا تو کہتے ہیں بہترین بات کو دو عالم کی بھلائی اور کامیابی کی بات ہے لہذا ایسی نیکی کرنے والوں کے لیے یا اللہ کی بات اللہ کے بندوں تک پہچاننے والوں کیلئے دار دنیا میں بھی بھلائی ہے اللہ جل جلالہ کی رضا اور سکون قلبی جیسی دولت ہے اور آخرت تو ہے ہی ایسے لوگوں کی بہترین اور اہل تقوی کا گھر آخرت میں کتنا ہی بہترین ہے یا رہے یہاں تبلیغ دین سے مراد دین پر عمل کرتے ہوئے اسے اللہ کریم کی مخلوق تک پہچانا ہے ورنہ تبلیغ کے نام پر رسومات کا رواج نہ درست ہے نہ انعامات کے وعدہ کا سزاوار وہ ٹھکانہ خوبصورت اور ہمیشہ رہنے والے باغ ہیں جن کے تابع ہیں بہنے والی نہریں اور ایسے عجیب باغ کہ اہل جنت جس چیز کی خواہش کریں گے ان میں موجود پائیں گے ، اللہ کریم پرہیزگاروں کو ایسے ہی انعامات سے نوازے گا ، ایسے لوگ جن کی موت حق پر آتی ہے اور فرشتے اسلام کی پاکیزگی اور ایمان کی طہارت پر ان کی ارواح قبض کرتے ہیں انہیں فرشتے کہتے ہیں کہ تم پر سلامتی ہو ، ہماری تو ذمہ داری ہے کہ تمہارا تعلق حیات ۔ (موت کے فورا بعد داخلے سے قبر کی وہ حالت مراد ہے جو اہل جنت کی ہوگی جس میں قبر کو جنت کا باغ فرمایا گیا ہے) دنیا کا قطع کرتے ہیں مگر جنت تمہاری راہ دیکھ رہی ہے لہذا سیدھے جنت میں داخل ہوجاؤ یہ تمہاری اطاعت کا انعام ہے ، یہ کفار فرشتوں کی آمد کے منتظر ہیں یا اللہ جل جلالہ کا فیصلہ سننے کا انتظار کر رہے ہیں کہ توجہ کرکے ایمان قبول نہیں کرتے یہی حال ان سے پہلے کفار کا تھا کہ کفر پر ہی مر گئے مگر توبہ کی توفیق نہ ہوئی تو ایسا کرکے خود اپنے اوپر ظلم کر رہے ہیں اللہ جل جلالہ نے تو ان سے کوئی زیادتی نہیں کی عقل و شعور بخشا نبی اور کتاب بھیجی حق کی طرف دعوت دی مگر ان کی اپنی بداعمالی ان کے راستے کی دیوار بن گئی بالآخر ان کے گناہوں کا نتیجہ ان کے سامنے آیا اور جس عذاب کا مذاق اڑایا کرتے تھے اسی کے شکار ہوئے ،

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 26 تا 29 بنیان گھر۔ القواعد بنیادیں۔ خر گر پڑا۔ سقف چھت۔ فوق اوپر۔ یخزی وہ ذلیل و رسوا کرے گا۔ این کہاں ؟ شرکاءی میرے شریک۔ تشاقون تم لڑتے ہو۔ اوتوا العلیم جن کو علم دیا گیا۔ تتوفی جان نکالتے ہیں۔ القوا انہوں نے ڈالا۔ اسلم صلح کا پیغام۔ مثویٰ ٹھکانا۔ المتکبرین بڑائی کرنے والے۔ تشریح آیت نمبر 26 تا 29 گزشتہ آیات میں جس مضمون کو شروع کیا گیا تھا اس کی تکمیل کی جا رہی ہے ساری دنیا کو اور خصا طور پر مکہ کے ان لوگوں سے خطاب کیا جا رہا ہے جو حج وغیرہ کے موقعوں پر آنے والے بیخبر لوگوں کے سامنے قرآن کریم اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات کے متعلق حقارت سے ذکر کرتے تاکہ اجنبی آدمی کے دل میں شدید بدگمانی پیدا ہوجائے مثلاً قرآن کریم کے متعلق کہتے کہ اس میں کونسی نئی بات ہے وہی پرانے قصے ہیں جن قصوں کو قرآن نے نقل کردیا ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق کبھی کہتے کہ ان پر کسی جنوں یا جن کا سایہ ہوگیا ہے اسی لئے وہ ایسی باتیں کرتے ہیں (نعوذ باللہ) ایسے لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ وہ لوگ جو تکبر اور غرور کرتے ہوئے دین کے راستے میں رکاوٹیں ڈال رہے ہیں اور لوگوں کو گم راہ کر رہے ہیں وہ ایک ایسے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں جس کے بوجھ کو وہ قیامت کے دن اٹھا نہ سکیں گے فرمایا کہ یہی مکر و فریب ان سے پہلے کے لوگ بھی کرچکے ہیں۔ اللہ نے ان کو اتنی سختی سے پکڑا کہ وہ عاجز و بےبس ہو کر رہ گئے۔ اللہ نے ان کو ان کی بنیادں سے اکھاڑ کر پھینک دیا اور ان کو اور ان کی اونچی اونچی بلڈنگوں، مکانات اور تہذیب و تمدن کو اس طرح توڑ پھوڑ کر رکھ دیا کہ آج ان کا وجود تک نہیں رہا ہے۔ ان کے کھنڈرات اس بات کا کھلا ہوا ثبوت ہیں کہ ان پر اللہ نے شدید عذاب نازل کر کے ان کی زندگیوں اور تہذیب و تمدن کو نشان عبرت بنا دیا ہے۔ انہوں نے دین اسلام کے خلاف جو بھی تدبیریں کیں اللہ نے ان تدبیروں کو ان پر ہی الٹ دیا۔ یہ تو اس دنیا کی ذلت و رسوائی ہے لیکن جب قیامت میں وہ اللہ کے سامنے پہنچیں گے تو اس سے بھی زیادہ ذلت و رسوائی میں مبتلا کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ سوال فرمائیں گے تم نے قرآن کریم اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق بہت سی جھوٹی باتی کی تھیں تاکہ تمہارے ہاتھوں کے بنائے ہوئے جھوٹے معبودوں کی عظمت بڑھ جائے۔ فرمایا جائے گا کہ وہ اللہ کے شریک کہاں ہیں جن پر تم نازل کیا کرتے تھے ؟ اور ان کے لئے لوگوں سے جھکڑتے تھے اور اللہ کے سچے نبیوں کو جھٹلاتے تھے۔ آج وہ تمہاری مدد کو کیوں نہیں آجاتے ؟ ان کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہوگا۔ وہ تو کچھ نہ بول سکیں گے لیکن جن کو اللہ تعالیٰ نے صحیح علم عطا فرمایا تھا وہ کہیں گے کہ اے رب العالمین آج کے دن ساری ذلت و رسوائی ان لوگوں کے لئے ہے جنہوں نے کفر و شرک کیا تھا اور ایمان قبول نہیں کیا تھا وہ لوگ جنہوں نے اپنے اوپر ظلم و ستم کی انتہا کردی تھی۔ جب فرشتے ان کی جان نکالنے آئیں گے تو وہ کہیں گے کہ ہم نے درحقیقت کوئی کفر اور شرک نہیں کیا تھا نہ ہماری مجال تھی۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ اللہ کو ہر چیز کا علم ہے وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ تم دنیا میں کیا کیا کرتے رہے تھے۔ آخر اللہ تعالیٰ ان تکبر اور غرور کرنے والوں کے لئے فرشتوں کو حکم دیں گے کہ ان کو لے جا کر جہنم میں جھونک دو یہ اسی قابل ہیں اور یہ کسی رحم کے مستحق نہیں ہیں اب یہ ہمیشہ ہمیشہ اسی جہنم میں رہیں گے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گمراہوں اور ان کے راہنماؤں کا دنیا میں انجام۔ ” لفظ مکر “ کے بارے میں کئی بار وضاحت ہوچکی ہے کہ اگر اس لفظ کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو اس کا معنی تدبیر اور منصوبہ بندی ہوتا ہے۔ اگر مکر کی نسبت کسی برے کام اور شخص کی طرف ہو تو پھر اس کا معنی فریب، دھوکا، سازش اور شرارت ہوتا ہے۔ جرائم پیشہ لوگوں، کفار اور مشرکین کی شروع سے یہ عادت رہی ہے کہ وہ لوگوں کو حق سے دور رکھنے اور اپنا ہمنوا بنانے کے لیے مختلف قسم کی سازشیں، شرارتیں اور ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔ ان میں غلط قسم کے الزامات اور مختلف قسم کا پروپیگنڈہ ہر دور میں انبیاء کرام (علیہ السلام) اور داعیانِ حق کے خلاف کیا گیا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے حق کو اس طرح غالب کرتا ہے جس سے حق کے منکروں کے بنے ہوئے جال، الزامات اور ان کے جھوٹے پروپیگنڈے کی بنیاد پر کھڑی کی گئیں عمارتیں ریزہ ریزہ ہو کر دھڑام جاتی ہیں۔ گویا کہ ان کی بنائی ہوئی عمارتیں اور محلات انہی کے اوپر آگرتے ہیں۔ بالآخر اللہ کے عذاب نے انہیں ایسی حالت میں آلیا جس کے بارے میں وہ تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کا اچانک عذاب آنے کی چند مثالیں : ١۔ مجرموں پر عذاب اس طرف سے آیا جدھر سے ان کو خیال بھی نہ تھا۔ (النحل : ٢٦) ٢۔ قوم ثمود کو زلزلے نے آپکڑا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔ (الاعراف : ٧٨) ٣۔ قوم لوط کو سورج نکلنے سے پہلے پہلے ایک آواز نے آلیا۔ (الحجر : ٧٣) ٤۔ اگر کفار کے پاس اچانک اللہ کا عذاب آئے تو وہ اسے ٹال نہ سکیں گے۔ (الانبیاء : ٤٠) ٥۔ کفار کے پاس اچانک عذاب آئے گا اور وہ شعور بھی نہیں رکھیں گے۔ (الشعراء : ٢٠٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر ٢٦ تا ٢٩ قد مکرالذین من قبلھم (١٦ : ٢٦) “ ان سے پہلے بھی بہت سے لوگ (حق کو نیچا دکھانے کے لیے ) ایسے ہی مکاریاں کرچکے ہیں ”۔ قرآن کریم ان کے پروپیگنڈے کو ایک ایسی عمارت سے تعبیر کرتا ہے جس کی بنیادیں بھی ہیں اور ستون بھی اور چھت بھی ہے۔ اس میں یہ بتلانا مقصود ہے کہ ان کا پروپیگنڈا بڑ اگہرا ، مضبوط ، پختہ اور ضخیم تھا لیکن اللہ کی قوت اور تدبیر کے مقابلے میں یہ کامیاب نہ ہوا۔ فاقی اللہ بنیانھم من القواعد فخر علیھم الشقف من فوقھم (١٦ : ٢٦) “ تو دیکھ لو کہ اللہ نے ان کے مکر کی عمارت جڑ سے اکھاڑ پھینکی اور اس کی چھت اوپر سے ان کے سر پر آرہی ”۔ یہ ایک ایسا منظر اور ایسی تصویر کشی ہے جس سے مکمل تباہی کا منظر آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔ یہ تباہی اوپر سے بھی آتی ہے اور نیچے سے بھی آتی ہے کیونکہ جن بنیادوں پر یہ عمارت کھڑی تھی وہی گر گئیں اور اوپر سے چھت ان پر اس طرح آگری کہ وہ دب گئے اور دفن ہو کر رہ گئے۔ واتھم العذاب من حیث لا یشعرون (١٦ : ٢٦) “ اور ایسے رخ سے ان پر عذاب آیا جدھر سے اس کے آنے کے ان کو گمان تک نہ تھا ”۔ ہم کیا دیکھتے ہیں کہ جس عمارت کو انہوں نے نہایت ہی پختہ کر کے تعمیر کیا تھا اور ان کو پورا بھروسہ تھا کہ وہ اس میں پناہ لیں گے وہی ان کا مقبرہ بن گئی اور وہ ان پر ایسی ہلاکت لائی کہ اوپر سے بھی اور نیچے سے بھی ان پر تباہی آئی۔ وہ عمارت انہوں نے اس قدر مضبوط بنائی تھی کہ اس کی کسی جہت سے بھی ان کو تباہی کا ڈر نہ تھا۔ تبایہ و بربادی کا یہ ایک مکمل منظر ہے۔ یہ مکر کرنے والوں کے مکر اور مخالفانہ تدابیر کرنے والوں کی تدابیر کے ساتھ معنی خیز مذاق ہے۔ جو لوگ تحریک اسلامی کی راہ روکنے کے لئے مکر کرتے ہیں یہ سوچتے ہیں کہ ان کے مکر کا کوئی توڑ نہ ہوگا اور یہ کہ ان کی تدابیر ناکام نہ ہوں گی حالانکہ اللہ ان کی تمام مکاریوں اور تدابیر کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ یہ منظر قریش کے دور کے بھی دیکھا گیا ۔ ان سے پہلے بھی تاریخ نے بھی بارہا دیکھا اور بعد کے ادوار میں بھی دیکھا گیا۔ دعوت اسلامی آج تک اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔ مکر کرنے والے جس قدر چاہیں تدابیر سوچیں ، جس قدر چاہیں ، مکاریاں کریں۔ تحریک اسلامی کے کارکن ان تاریخی مناظر کو بار بار پڑھ کر دیکھتے ہیں جس طرح قرآن کریم نے منظر کشی فرمائی۔ فاتی اللہ بنیانھم ۔۔۔۔۔ لا یشعرون (١٦ : ٢٦) “ تو دیکھ لو کہ اللہ نے ان کے مکر کی عمارت جڑ سے اکھاڑ پھینکی اور اس کی چھت اوپر سے ان کے سر پر آرہی اور ایسے رخ سے ان پر عذاب آیا جدھر سے اس کے آنے کا ان کو گمان تک نہ تھا ”۔ یہ تو ان کا انجام ہوا اس دنیا میں اور اس کرۂ ارض پر۔ لیکن تم ثم یوم القیمۃ یخزیھم ویقول این شرکاءی الذین کنتم تشاقون فیھم (١٦ : ٢٧) “ پھر قیامت کے روز اللہ انہیں ذلیل و خوار کرے گا اور ان سے کہے گا اب بتاؤ کہاں ہیں وہ شریک جن کے لئے تم اہل حق سے جھگڑے کیا کرتے تھے ”۔ قرآن کریم یہاں مشاہد قیامت سے ایک منظر تصویر کشی کر رہا ہے۔ یہ مکار مستکبرین اس منظر میں نہایت ہی شرمندگی کی حالت میں ہیں۔ ان کا تکبر کافور ہوچکا ہے اور ان کی مکاریوں کے دن لد گئے ہیں۔ اب وہ اس ذات کبریا کے دربار میں ہیں جو تخلیق کا بھی مالک ہے اور فیصلے بھی اب اسی کے چلتے ہیں۔ اللہ اب ان کو مزید شرمندہ اور خوار کرنے کے لئے سوال کرتے ہیں۔ این شرکاءی الذین کنتم تشاقون فیھم (١٦ : ٢٧) “ کہاں ہیں میرے وہ شریک جن کے بارے میں تم جھگڑتے رہتے تھے ”۔ جن جعلی شریکوں کے متعلق تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اہل ایمان سے جھگڑتے تھے وہ کہاں تھے۔ جو لوگ عقیدۂ توحید کے قائل تھے تم ان سے مناظرے کیا کرتے تھے۔ یہاں یہ لوگ گم سم کھڑے ہیں۔ شرمندگی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ لیکن فرشتے ، رسول ، اہل علم اور اہل ایمان کو اب بولنے کی اجازت ہوگی کیونکہ یہ لوگ تو اب کامیاب ہوچکے ہوں گے لہٰذا بولنا اب ان کا حق ہوگا۔ قال الذین ۔۔۔۔۔ علی الکفرین (١٦ : ٢٧) “ جن لوگوں کو دنیا میں علم حاصل تھا وہ کہیں گے ، آج رسوائی اور بدبختی ہے کافروں کے لئے ”۔ فی الواقعہ آج رسوائی اور بدبختی صرف کافروں کے لئے ہے۔ الذین تتوفھم الملئکۃ ظالمی انفسھم (١٦ : ٢٨) “ انہی کافروں کے لئے جو اپنے نفس پر ظلم کرتے ہوئے جب ملائکہ کے ہاتھوں گرفتار ہوئے ”۔ اب قرآن کریم ان لوگوں کو ایک قدم پیچھے لے جاتا ہے ، قیامت سے قبل ان لوگوں کی موت کا وقت قریب ہے ، ملائکہ ان کی روح قبض کرتے ہیں ، ان کے جسم سے ان کی روح کو نہایت ہی کرختگی کے ساتھ کھینچ کر نکالا جاتا ہے ، اس لیے کہ یہ لوگ ایمان و یقین سے محروم تھے۔ انہوں نے اپنی روحی کو ہلاکت میں ڈال دیا تھا۔ پھر ان کی جانیں آگ اور دائمی کے عذاب کے حوالے ہوگئیں۔ جب ان لوگوں کی موت قریب آئی اور ابھی تو زمین میں یہ جھوٹ ، مکر اور فریب کا کاروبار کر رہے تھے تودیکھو کہ یہ کس قدر ساؤ ہوگئے ہیں۔ فالقوا السلم ما کنا نعمل من سوء (١٦ : ٢٨) “ تو یہ لوگ فوراً ڈگیں ڈال دیتے ہیں اور کہتے ہیں “ ہم تو کوئی قصور نہیں کر رہے تھے ”۔ یہ مستکبرین اب تو سلامتی کے پیغامبر بن گئے ہیں ، وہ تو اس سر تسلیم خم کرنے اور اطاعت کرنے کی پیشکش کر رہے ہیں۔ یہ بھی ان کا جھوٹ ہے اور یہ جھوٹ ان کے دنیاوی سلسلہ جھوٹ کا حصہ ہے۔ یہ نہایت ہی عاجزی سے کہتے ہیں۔ ما کنا نعمل من سوء (١٦ : ٢٨) “ ہم تو قصور نہیں کر رہے تھے ”۔ یہ بھی نہایت ہی شرمساری اور ذلت کا منظر ہے۔ ان مستکبرین کو دیکھو اور ان کی اس حالت کو دیکھو۔ لیکن اللہ کی طرف سے جواب آئے گا “ ہاں ” اور یہ جواب علیم وخبیر کی طرف سے ہوگا۔ بلیٰ ان اللہ علیم بما کنتم تعملون (١٦ : ٢٨) “ ہاں اللہ تمہارے کرتوتوں سے خوب واقف ہے ”۔ لہٰذا اب یہاں جھوٹ ، مغالطہ اور ملمع کاری نہیں چل سکتی۔ اب ان کے فیصلے اور جزاء کا وقت آتا ہے ۔ یہ متکبرین کی جزاء ہے۔ فادخلوا ابواب ۔۔۔۔۔ المتکبرین (١٦ : ٢٩) “ اب جاؤ، جہنم کے دروازوں میں گھس جاؤ۔ وہیں تم کو ہمیشہ رہنا ہے ”۔ پس حقیقت یہ ہے کہ بڑا ہی برا ٹھکانا ہے متکبروں کے لئے ”۔ اب فریق بالمقابل ، وہ لوگ ہیں جنہوں نے تقویٰ کی راہ اختیار کی۔ یہ لوگ متکبرین اور مستکبرین کے مد مقابل ہیں شروع سے انتہا تک۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

معاندین سابقین کے عذاب کا تذکرہ، قیامت کے دن کافروں کی رسوائی اور بدحالی، متکبرین کا برا ٹھکانہ ہے مشرکین مکہ جو قرآن مجید کے اولین مخاطب تھے اسلام اور داعی اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف طرح طرح کی تدبیریں سوچتے تھے اور آپس میں مشورے کرتے تھے۔ (وَ قَدْ مَکَرَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ ) میں ان لوگوں کی مکاری کا تذکرہ فرمایا جو پہلی امتوں میں گزرے ہیں، یہ لوگ حضرات انبیاء (علیہ السلام) کے خلاف سازشیں کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ شانہٗ نے ان کا کیا کرایا سب برباد کردیا جیسے کوئی شخص عمارت بنائے اور پھر اس کی بنیادیں اور ستون گرپڑیں اور پھر اوپر سے چھت گرجائے، ان کی بنائی ہوئی تعمیر بھی برباد ہوئی اور خود بھی اس میں دب کر رہ گئے اپنے مقاصد میں ناکام ہوئے اور اس طرح ان پر عذاب آگیا جس کا انہیں خیال بھی نہ تھا، آیت کریمہ سے عام اقوام مراد لی جائیں تو کسی خاص قوم یا کسی خاص شخص کی تعیین کی ضرورت نہیں رہتی کثیر تعداد میں ایسی قومیں گزری ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں کی مخالفت کی اور ان کی تدبیریں ناکام ہوئیں اور ان پر عذاب آیا اور برباد و ہلاک ہوئے۔ صاحب روح المعانی لکھتے ہیں۔ واختار جماعۃ بناۂ علی التمثیل حسبما سمعت وعلیہ فالمراد علی المختار من الذین کفروا من قبل ما یشمل جمیع الماکرین الذین ھدم علیھم بنیانھم وسقط فی ایدیھم ایک جماعت نے اس کو ترجیح دی ہے کہ اس کی بناء تمثیل پر ہے پس مختار قول کے مطابق اس سے مراد سابقہ اقوام کے کافر ہیں جو ان تمام مکاروں کو شامل ہے جن کی تعمیریں خود ان کے اپنے اوپر گرپڑیں اور انہیں کے ہاتھوں گریں۔ (ص ١٣٦ ج ١٤) اور حافظ ابن کثیر نے بھی (ص ٥٦٦ ج ٢) یہ بات لکھی ہے حیث قال ھذا من باب المثل بالابطال ما صنعتہ ھولاء الذین کفروا باللّٰہ واشرکوا فی عبادتہ جو یہ فرمایا یہ ان کافروں کی ان مکاریوں کے ابطال کے لیے ہے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کا کفر کیا اور دوسروں کو اس کی عبادت میں شریک کیا۔ لیکن خود صاحب روح المعانی اور حافظ ابن کثیر نے اور علامہ بغوی نے معالم التنزیل میں حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ (وَ قَدْ مَکَرَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ ) سے نمرود بن کنعان مراد ہے جس نے شہر بابل میں ایک محل بنایا تھا جس کی اونچائی پانچ ہزار ہاتھ اور چوڑائی تین ہزار ہاتھ تھی اس کا مقصد یہ تھا کہ آسمان پر چڑھے اور وہاں کے حالات معلوم کرکے آسمان والوں سے قتال کرے، اللہ تعالیٰ نے ایک ہوا بھیج دی جس نے اس محل کو گرا دیا اور اس کی چھت نمرود پر اور اس کے اتباع پر گر پڑی جس سے وہ ہلاک ہوگئے۔ صاحب روح المعانی نے ایک قول یہ بھی لکھا ہے کہ خود نمرود اس وقت ہلاک نہیں ہوا تھا بلکہ محل کی بربادی کے بعد زندہ رہا اور اللہ تعالیٰ نے اسے ایک مچھر کے ذریعے ہلاک فرما دیا جو اس کے دماغ میں پہنچ گیا تھا۔ حافظ ابن کثیر نے یہ بھی لکھا ہے کہ اس سے بخت نصر مراد ہے اس نے بھی مکاری کی تھی اور اونچا محل بنایا تھا پھر وہ محل برباد ہوگیا یہ سب اسرائیلی روایات ہیں اگر محل بنانے والی بات درست ہو تو یہ ایسا ہی ہے جیسے فرعون نے اپنے وزیر سے کہا تھا (یَاھَامَانُ ابْنِ لِیْ صَرْحًا لَّعَلِّیْٓ اَبْلُغُ الْاَسْبَابَ اَسْبَاب السَّمٰوٰتِ فَاَطَّلِعَ اِِلٰی اِِلٰہِ مُوْسٰی وَاِِنِّیْ لاََظُنُّہٗ کَاذِبًا) (اے ہامان بنا دے میرے لیے ایک عمارت شاید میں آسمان پر جانے کی راہوں تک پہنچ جاؤ پھر موسیٰ کے معبود کو دیکھوں اور میں تو اسے جھوٹا ہی سمجھتا ہوں) فرعون کی تدبیریں بھی فیل ہوئیں، قارون بھی اپنے گھر سمیت زمین میں دھنسایا گیا عاد وثمود بھی برباد ہوئے اور دنیا میں عذاب چکھ لیا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

22:۔ یہ تخویف دنیوی ہے۔ مشرکین مکہ سے پہلے سرکش قوموں نے انبیاء (علیہم السلام) کے خلاف منصوبے بنائے مگر ان کے منصوبے خود ان کی اپنی ہلاکت کا باعث بنتے۔ ” فَاَتَی اللّٰهُ بُنْیَانَھُمْ الخ “ یہ اقوام گذشتہ کی تباہی و ہلاکت کی تمثیل ہے یعنی ان کی مثال ان لوگوں کی سی ہے جو ستونوں پر ایک عمارت بنائیں اور اس کی چھت ستونوں پر سے گر پڑے اور بنانے والے اپنی ہی بنائی ہوئی چھت کے نیچے دب کر مرجائیں۔ کحال قوم بنوا بنیانًا و مدوہ بالاساطین فاتی البنیان من الاساطین بان ضعضعت فسقط علیھم السقف و ماتوا وھلکوا الخ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

26 ۔ جو لوگ ان سے پہلے ہو گزرے ہیں انہوں نے بڑی بڑی مکاریاں اور پر فریب تدبیریں کی تھیں سو اللہ تعالیٰ کا عذاب ان کی عمارت کی بنیادوں پر پہنچا اور اوپر سے ان پر عمارت کی چھت گر پڑی اور ان مکاروں پر وہ عذاب وہاں سے آیا جہاں سے ان کو گمان بھی نہ تھا۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے بندوں کو گمراہ کرنے کی جو تدبیریں کیا کرتے تھے اور شرارتوں کے جو حال بچھاتے تھے اور جو محل تیارے کئے تھے وہ سب ان ہی پر الٹ پڑے اور ان کی پر فریب تدبیروں کی جڑیں ہلا دیں اور جو گھروندا انہوں نے اپنی شرارتوں کا بنا یا تھا وہ سب انہی پر گرا پڑا اور خلاف توقع ان پر عذاب خداوندی کچھ اس طرح آیا کہ ان کو خیال اور گمان بھی نہ تجھا۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں چنائی پر پہنچا نے سے اور چھت گر پڑ ی یعنی ان کے فریب اور دغا اکھاڑ ماری ۔ 12 مفسرین نے دو باتیں کیں تھیں بعض حضرات نے بابل کے کسی خاص واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے اور بعض نے عموم اختیار کیا ہے اور دین حق کے خلاف ریب آمیز دائوں پیچ کرنے والوں کی تمثیل فرمائی ہے ہم نے راجح قول اختیار کرلیا ہے۔