Surat un Nahal

Surah: 16

Verse: 38

سورة النحل

وَ اَقۡسَمُوۡا بِاللّٰہِ جَہۡدَ اَیۡمَانِہِمۡ ۙ لَا یَبۡعَثُ اللّٰہُ مَنۡ یَّمُوۡتُ ؕ بَلٰی وَعۡدًا عَلَیۡہِ حَقًّا وَّ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿ۙ۳۸﴾

And they swear by Allah their strongest oaths [that] Allah will not resurrect one who dies. But yes - [it is] a true promise [binding] upon Him, but most of the people do not know.

وہ لوگ بڑی سخت سخت قسمیں کھا کھا کر کہتے ہیں کہ مردوں کو اللہ تعالٰی زندہ نہیں کرے گا ۔ کیوں نہیں ضرور زندہ کرے گا یہ تو اس کا برحق لازمی وعدہ ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے نہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Resurrection after Death is true, there is Wisdom behind it, and it is easy for Allah Allah says: وَأَقْسَمُواْ بِاللّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ لاَ يَبْعَثُ اللّهُ مَن يَمُوتُ ... And they swear by Allah with their strongest oaths, that Allah will not raise up one who dies. meaning that they made oaths swore fervently that Allah would not resurrect the one who died. They ... considered that to be improbable, and did not believe the Messengers when they told them about that, swearing that it could not happen. Allah said, refuting them: ... بَلَى ... Yes, meaning it will indeed happen, ... وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا ... a promise (binding) upon Him in truth, - meaning it is inevitable, ... وَلـكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لاَ يَعْلَمُونَ but most of mankind know not. means, because of their ignorance they oppose the Messengers and fall into disbelief. Then Allah mentions His wisdom and the reason why He will resurrect mankind physically on the Day of Calling (between the people of Fire and of Paradise). He says,   Show more

قیامت یقینا قائم ہو گی کیونکہ کافر قیامت کے قائل نہیں اس لئے دوسروں کو بھی اس عقیدے ہٹانے کے لئے وہ پوری کوشش کرتے ہیں ایمان فروشی کر کے اللہ کی تاکیدی قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ مردوں کو زندہ نہ کرے گا ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قیامت ضرور آئے گی اللہ کا یہ وعدہ بر حق ہے لیکن اکثر لوگ ... بوجہ اپنی جہالت اور لا علمی کے رسولوں کے خلاف کر تے ہیں ، اللہ کی باتوں کو نہیں مانتے اور کفر کے گڑھے میں گرتے ہیں ۔ پھر قیامت کے آنے اور جسموں کے دوبارہ زندہ ہونے کی بعض حکمتیں ظاہر فرماتا ہے جن میں سے ایک یہ ہے کہ دنیوی اختلافات میں حق کیا تھا وہ ظاہر ہو جائے ، بروں کو سزا اور نیکوں کو جزا ملے ۔ کافروں کا اپنے عقیدے ، اپنے قول ، اپنی قسم میں جھوٹا ہونا کھل جائے ۔ اس وقت سب دیکھ لیں گے کہ انہیں دھکے دے کر جہنم میں جھونکا جائے گا اور کہا جائے گا کہ یہی ہے وہ جہنم جس کا تم انکار کرتے رہے اب بتاؤ یہ جادو ہے یا تم اندھے ہو ؟ اس میں اب پڑے رہو ۔ صبر سے رہو یا ہائے وائے کرو ، سب برابر ہے ، اعمال کا بدلہ بھگتنا ضروری ہے ۔ اللہ ہر چیز پر قادر ہے پھر اپنی بے اندازہ قدرت کا بیان فرماتا ہے کہ جو وہ چاہے اس پر قادر ہے کوئی بات اسے عاجز نہیں کر سکتی ، کوئی چیز اس کے اختیار سے خارج نہیں ، وہ جو کرنا چاہے فرما دیتا ہے کہ ہو جا اسی وقت وہ کام ہو جاتا ہے ۔ قیامت بھی اس کے فرمان کا عمل ہے جیسے فرمایا ایک آنکھ جھپکنے میں اس کا کہا ہو جائے گا تم سب کا پیدا کرنا اور مرنے کے بعد زندہ کر دینا اس پر ایسا ہی ہے جیسے ایک کو اسھر کہا ہو جا ادھر ہو گیا ۔ اس کو دوبارہ کہنے یا تاکید کرنے کی بھی ضرورت نہیں اس کے ارادہ سے مراد جدا نہیں ۔ کوئی نہیں جو اس کے خلاف کر سکے ، اس کے حکم کے خلاف زبان ہلا سکے ۔ وہ واحد و قہار ہے ، وہ عظمتوں اور عزتوں والا ہے ، سلطنت اور جبروت والا ہے ۔ اس کے سوا نہ کوئی معبود نہ حاکم نہ رب نہ قادر ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ابن آ دم مجھے گالیاں دیتا ہے اسے ایسا نہیں چاہئے تھا ۔ وہ مجھے جھٹلا رہا ہے حلانکہ یہ بھی اسے لائق نہ تھا ۔ اس کا جھٹلانا تو یہ ہے کہ سخت قسمیں کھا کر کہتا ہے کہ اللہ مردوں کو پھر زندہ نہ کرے گا میں کہتا ہوں یقینا زندہ ہوں گے ۔ یہ بر حق وعدہ ہے لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں اور اس کا مجھے گالیان دینا یہ ہے کہ کہتا ہے اللہ تین میں کا تیسرا ہے حالانکہ میں احد ہوں ، میں اللہ ہوں ، میں صمد ہوں ، جس کا ہم جنس کوئی اور نہیں ۔ ابن ابی حاتم میں تو حدیث موقو فا مروی ہے ۔ بخاری و مسلم میں دو سرے لفظوں کے ساتھ مرفو عا روایت بھی آئی ہے ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

38۔ 1 کیونکہ مٹی میں مل جانے کے بعد ان کا دوبارہ جی اٹھنا، انھیں مشکل اور ناممکن نظر آتا تھا۔ اسی لئے رسول جب انھیں بعث بعد الموت کی بابت کہتا تو اسے جھٹلاتے ہیں، اس کی تصدیق نہیں کرتے بلکہ اس کے برعکس یعنی دوبارہ زندہ نہ ہونے پر قسمیں کھاتے ہیں، قسمیں بھی بڑی تاکید اور یقین کے ساتھ۔ 38۔ 2 اس جہالت ... اور بےعلمی کی وجہ سے رسولوں کی تکذیب و مخالفت کرتے ہوئے دریاے کفر میں ڈوب جاتے ہیں۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٩] جب انھیں ان کے برے انجام سے ڈرایا جاتا ہے تو ضد اور چڑ میں آکر اللہ کی پختہ قسمیں بھی کھانے لگتے ہیں کہ دوبارہ جی اٹھنے کی بات سراسر لغو اور خلاف عقل بات ہے۔ حالانکہ ان کا یہ دعویٰ ہی خلاف عقل اور جہالت پر مبنی ہے۔ کیونکہ کائنات کی ایک ایک چیز اس بات کی شہادت دے رہی ہے کہ اللہ جو کچھ چاہتا ہے ... اسے کرنے کی پوری قدرت رکھتا ہے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاَقْسَمُوْا باللّٰهِ جَهْدَ اَيْمَانِهِمْ ۔۔ : قسم ” حلف “ کو کہتے ہیں، کیونکہ یہ اس وقت اٹھائی جاتی ہے جب لوگ تقسیم ہوجائیں، کچھ لوگ بات کو صحیح کہتے ہیں کچھ غلط۔ ” جَهْدَ “ کا معنی مشقت ہے، ” جَھَدَ فُلاَنٌ دَابَّتَہُ وَأَجْھَدَھَا “ جب اپنی سواری پر اس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ ڈال دے۔ ” جَھَدَ ال... رَّجُلُ فِيْ کَذَا “ جب آدمی کسی کام میں اپنی انتہائی کوشش صرف کر دے۔ اس کا باب ” فَتَحَ یَفْتَحُ “ ہے۔ (طنطاوی) ” أَیْمَانٌ“ ” یَمِیْنٌ“ کی جمع ہے ” قسمیں۔ “ یعنی انھوں نے زیادہ سے زیادہ تاکید کے ساتھ نہایت پکی قسم کھائی کہ جو مرجائے اللہ تعالیٰ اسے دوبارہ زندہ نہیں کرے گا۔ مرنے کے بعد نہ کوئی دوسری زندگی ہے نہ حساب کتاب، اس لیے عذاب کا کیا ڈر ؟ مشرکین کی عقل پر تعجب ہے کہ ایک طرف اللہ تعالیٰ کی اتنی تعظیم کہ اس کے نام کی پکی قسمیں کھائی جا رہی ہیں، دوسری طرف اس کی اتنی بےقدری کہ اسے اتنا بےبس اور عاجز کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنی پہلی دفعہ بنائی ہوئی چیز کو بھی دوبارہ نہیں بنا سکتا۔ بَلٰى وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا : ” بَلٰی “ کا لفظ کسی نفی کی نفی کے لیے ہوتا ہے، جس سے مراد اس چیز کا اثبات ہوتا ہے۔ انھوں نے کہا، قیامت نہیں آئے گی۔ فرمایا، کیوں نہیں ! یعنی ضرور آئے گی۔ ” وَعْدًا “ ” وَعَدَ “ مقدر کا مفعول مطلق ہے، برائے تاکید اور ” حَقّاً “ اس کی صفت ہے، یعنی ” وَعَدَ اللّٰہُ وَعْدًا حَقًّا۔ “ ” عَلَیْہ “ کا لفظ اس وعدے کی مزید تاکید کے لیے ہے کہ یہ اس پر لازم ہے۔ مگر یہ اس نے خود اپنے فضل و کرم سے اپنے آپ پر لازم کیا ہے، ورنہ کس کی مجال ہے کہ اللہ تعالیٰ پر کوئی چیز لازم کرے۔ یعنی تمہارے انکار کرنے اور زور دار قسمیں کھانے سے اللہ کا پکا وعدہ ٹل نہیں سکتا، وہ تو ضرور پورا ہو کر رہے گا، البتہ تم ایسی واضح حقیقت کا انکار کرکے اپنی جہالت کا ثبوت دے رہے ہو۔ وَّلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ : اس میں اس اقلیت کی تعریف ہے جو علم رکھتے ہیں اور جن کا ایمان ہے کہ آخرت اور حساب کتاب حق ہے اور اس اکثریت کی مذمت ہے، جو یہ ایمان نہیں رکھتے، اللہ تعالیٰ نے کئی مقامات پر ان کی تردید فرمائی۔ دیکھیے سورة تغابن (٧) اور سورة یس (٧٨) ۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ جَهْدَ اَيْمَانِهِمْ ۙ لَا يَبْعَثُ اللّٰهُ مَنْ يَّمُوْتُ ۭ بَلٰى وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا وَّلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ 38؀ۙ قْسَمَ ( حلف) حلف، وأصله من الْقَسَامَةُ ، وهي أيمان تُقْسَمُ علی أولیاء المقتول، ثم صار اسما لكلّ حلف . قال : وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ...  جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ الأنعام/ 109] ، أَهؤُلاءِ الَّذِينَ أَقْسَمْتُمْ [ الأعراف/ 49] ، وقال : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ وَلا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ [ القیامة/ 1- 2] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج/ 40] ، إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّها مُصْبِحِينَ [ القلم/ 17] ، فَيُقْسِمانِ بِاللَّهِ [ المائدة/ 106] اقسم ( افعال کے معنی حلف اٹھانے کے ہیں یہ دروصل قسامۃ سے مشتق ہے اور قسیا مۃ ان قسموں کو کہا جاتا ہے جو او لیائے مقتول پر تقسیم کی جاتی ہیں پھر مطلق کے معنی استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ الأنعام/ 109] اور یہ خدا کی سخت سخت قسمیں کھاتے ہیں ۔ أَهؤُلاءِ الَّذِينَ أَقْسَمْتُمْ [ الأعراف/ 49] کیا یہ وہی لوگ ہیں جن کے مارے میں تم قسمیں کھایا کرتی تھے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ وَلا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ [ القیامة/ 1- 2] ہم کو روز قیامت کی قسم اور نفس لوامہ کی ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج/ 40] ہمیں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم ۔ إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّها مُصْبِحِينَ [ القلم/ 17] جب انہوں نے قسمیں کھا کھا کر کہا کہ ہم صبح ہوتے اس کا میوہ توڑلیں گے ۔ فَيُقْسِمانِ بِاللَّهِ [ المائدة/ 106] اور دونوں خدا کی قسمیں کھائیں ۔ ماسمعتہ وتقاسما باہم قسمیں اٹھانا ۔ قرآن میں ہے : وَقاسَمَهُما إِنِّي لَكُما لَمِنَ النَّاصِحِينَ [ الأعراف/ 21] اور ان کی قسم کھاکر کہا کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں ۔ جهد الجَهْدُ والجُهْد : الطاقة والمشقة، وقیل : الجَهْد بالفتح : المشقة، والجُهْد : الوسع . وقیل : الجهد للإنسان، وقال تعالی: وَالَّذِينَ لا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ [ التوبة/ 79] ، وقال تعالی: وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور/ 53] ، أي : حلفوا واجتهدوا في الحلف أن يأتوا به علی أبلغ ما في وسعهم . والاجتهاد : أخذ النفس ببذل الطاقة وتحمّل المشقة، يقال : جَهَدْتُ رأيي وأَجْهَدْتُهُ : أتعبته بالفکر، والجِهادُ والمجاهدة : استفراغ الوسع في مدافعة العدو، والجِهَاد ثلاثة أضرب : - مجاهدة العدو الظاهر . - ومجاهدة الشیطان . - ومجاهدة النفس . وتدخل ثلاثتها في قوله تعالی: وَجاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهادِهِ [ الحج/ 78] ، وَجاهِدُوا بِأَمْوالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة/ 41] ، إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا بِأَمْوالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ الأنفال/ 72] ، وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «جاهدوا أهواء کم کما تجاهدون أعداء کم» «1» . والمجاهدة تکون بالید واللسان، قال صلّى اللہ عليه وسلم «جاهدوا الکفار بأيديكم وألسنتکم» «2» . ( ج ھ د ) الجھد والجھد کے معنی وسعت و طاقت اور تکلف ومشقت کے ہیں ۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ الجھد ( فتح جیم کے معنی مشقت کے ہیں اور الجھد ( ( بضم جیم ) طاقت اور وسعت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ الجھد کا لفظ صرف انسان کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں وَالَّذِينَ لا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ [ التوبة/ 79] اور جنہیں اپنی محنت ومشقت ( کی کمائی ) کے سوا کچھ میسر نہیں ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور/ 53] کے معنی یہ ہیں کہ وہ بڑی زور زور سے قسمیں کھاکر کہتے ہیں کے وہ اس میں اپنی انتہائی کوشش صرف کریں گے الاجتھاد ( افتعال ) کے معنی کسی کام پر پوری طاقت صرف کرنے اور اس میں انتہائی مشقت اٹھانے پر طبیعت کو مجبور کرنا کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے میں نے غور ومحکر سے اپنی رائے کو مشقت اور تعب میں ڈالا ۔ الجھاد والمجاھدۃ دشمن کے مقابلہ اور مدافعت میں اپنی انتہائی طاقت اور وسعت خرچ کرنا اور جہا دتین قسم پر ہے ( 1 ) ظاہری دشمن یعنی کفار سے جہاد کرنا ( 2 ) شیطان اور ( 3 ) نفس سے مجاہدہ کرنا اور آیت کریمہ : ۔ وَجاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهادِهِ [ الحج/ 78] کہ اللہ کی راہ میں پوری طرح جہاد کرو ۔۔۔۔۔ تینوں قسم جہاد پر مشتمل ہے ۔ نیز فرمایا :۔ وَجاهِدُوا بِأَمْوالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة/ 41] کہ خدا کی راہ میں اپنے مال وجان سے جہاد کرو ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا بِأَمْوالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ الأنفال/ 72] جو لوگ ایمان لائے اور وطن چھوڑ گئے اور خدا کی راہ میں اپنے مال وجان سے جہاد کرتے رہے ۔ اور حدیث میں ہے (66) کہ جس طرح اپنے دشمن سے جہاد کرتے ہو اسی طرح اسی خواہشات سے بھی جہاد کیا کرو ۔ اور مجاہدہ ہاتھ اور زبان دونوں کے ساتھ ہوتا ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا (67) کہ کفار سے ہاتھ اور زبان دونوں کے ذریعہ جہاد کرو ۔ بعث أصل البَعْث : إثارة الشیء وتوجيهه، يقال : بَعَثْتُهُ فَانْبَعَثَ ، ويختلف البعث بحسب اختلاف ما علّق به، فَبَعَثْتُ البعیر : أثرته وسيّرته، وقوله عزّ وجل : وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام/ 36] ، أي : يخرجهم ويسيرهم إلى القیامة، ( ب ع ث ) البعث ( ف ) اصل میں بعث کے معنی کسی چیز کو ابھارنے اور کسی طرف بیجھنا کے ہیں اور انبعث در اصل مطاوع ہے بعث کا مگر متعلقات کے لحاظ سے اس کے معنی مختلف ہوتے رہتے ہیں مثلا بعثت البعیر کے معنی اونٹ کو اٹھانے اور آزاد چھوڑ دینا کے ہیں اور مردوں کے متعلق استعمال ہو تو قبروں سے زندہ کرکے محشر کی طرف چلانا مراد ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام/ 36] اور مردوں کو تو خدا ( قیامت ہی کو ) اٹھایا جائے گا ۔ موت أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة : فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات . نحو قوله تعالی: يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] . الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا [ مریم/ 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] . الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة . نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] . الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة، وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ بِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] . الخامس : المنامُ ، فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] ( م و ت ) الموت یہ حیات کی ضد ہے لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں ۔ اول قوت نامیہ ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔ دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم/ 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔ چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی معنی مراد ہیں ۔ پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے وعد الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] ، ( وع د ) الوعد ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خرٰا و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٨) اور یہ لوگ بڑے زور لگا لگا کر اللہ کی قسمیں کھاتے ہیں کہ مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ دوبارہ زندہ نہیں کریں گے کیوں نہیں، مرنے کے بعد ضرور زندہ کرے گا اس دوبارہ زندہ کرنے کے وعدہ کو تو اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لازم کر رکھا ہے، لیکن مکہ والے نہ اس چیز کو جانتے ہیں اور نہ اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ شان نزو... ل : (آیت ) ” واقسموا باللہ جہد “۔ (الخ) ابن جریر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور ابن ابی حاتم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ابوالعالیہ سے روایت کیا ہے کہ مسلمانوں میں سے ایک شخص کا مشرکین میں سے کسی پر کچھ قرض تھا، چناچہ مسلمان اس پر تقاضا کے لیے آیا اور درمیان گفتگو کہنے لگا کہ قسم ہے اس ذات کی کہ جو مرنے کے بعد زندہ کرے گا، یہ سن کر وہ مشرک کہنے لگا کیا تو یہ سمجھتا ہے کہ تو مرنے کے بعد پھر دوبارہ زندہ کیا جائے گا، میں اللہ تعالیٰ کی بڑا زور لگا کر قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جو مرجاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو دوبارہ زندہ نہ کرے گا، اس پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٨ (وَاَقْسَمُوْا باللّٰهِ جَهْدَ اَيْمَانِهِمْ ۙ لَا يَبْعَثُ اللّٰهُ مَنْ يَّمُوْتُ ) مشرکین مکہ اگرچہ عمومی طور پر مرنے کے بعد دوسری زندگی کے قائل تھے مگر ان کا اس سلسلہ میں عقیدہ یہ تھا کہ جن بتوں کی وہ پوجا کرتے ہیں وہ قیامت کے دن اللہ کے سامنے ان کے سفارشی ہوں گے اور اس طرح روز حشر کی تم... ام سختیوں سے وہ انہیں بچا لیں گے۔ لیکن ان کے ہاں ایک طبقہ ایسا بھی تھا جو بعث بعد الموت کا منکر تھا۔ ان لوگوں کے اس عقیدہ کا تذکرہ قرآن میں متعدد بار ہوا ہے۔ سورة الانعام میں ان لوگوں کا قول اس طرح نقل کیا گیا ہے : (وَقَالُوْٓا اِنْ هِىَ اِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوْثِيْنَ ) ” اور وہ کہتے ہیں کہ نہیں ہے یہ ہماری زندگی مگر صرف دنیا کی اور ہم (دوبارہ) اٹھائے نہیں جائیں گے۔ “  Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٣٨۔ تفسیر ابن جریر تفسیر ابن ابی حاتم اور تفسیر ابن جوزی میں ابی العالیہ سے روایت ہے کہ ایک شخص مسلمان کا ایک شخص مشرک پر کچھ قرضہ آتا تھا وہ مسلمان شخص اس مشرک سے جب اپنا قرضہ مانگنے گیا تو باتوں باتوں میں کچھ حشر اور قیامت کا ذکر آگیا اس مشرک نے کہا کہ اس نے بڑی گہری قسم کھائی اس پر اللہ تعالیٰ نے...  یہ آیت نازل فرمائی ١ ؎۔ حاصل معنے آیت کے یہ ہیں کہ جو لوگ حشر کے منکر ہیں وہ بیوقوف ہیں دنیا میں نیک و بد کی جزا و سزا کا انتظام یہ لوگ آنکھوں سے دیکھتے ہیں پھر ان کے خیال میں یہ بات کیوں کر جم گئی ہے کہ خدا کی بادشاہت میں جزا اور سزا کا دن نہیں ٹھہرا ہے رہا یہ خیال کہ شاید دنیا میں ہی نیک و بد کی جزا اور سزا ہوجاتی ہو یہ خیال غلط ہے آنکھوں کے سامنے بہت سے بد عمر بھر خوشحالی سے گزارتے ہیں اور نیک طرح طرح کی تکلیف سے اسی سے خود معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں جزا سزا ختم نہیں ہے اور یہ شبہ کہ مٹی ہو کر کیوں کر پھر پیدا ہوں گے اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے یہ دیا کہ اللہ کے حکم میں سب کچھ ہے اس کے حکم سے جس طرح خلاف عقل پہلے یہ لوگ پیدا ہوگئے۔ دوسری دفعہ پیدا ہونا کیا مشکل ہے دوسری دفعہ کی پیدائش میں لوگ عقل لڑاتے ہیں اپنی پہلی پیدائش کو تو ذرا غور کریں کہ اس میں کون کون سی بات عقل کے موافق ہے۔ بخاری میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے حدیث قدسی کی روایت ہے ٢ ؎، جس کا ٹکڑا یہ ہے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے انسان مجھ کو جھٹلاتا ہے میں کہتا ہوں کہ جزا سزا کے لئے مر کر پھر جینا اور پہلے کی دفعہ کی طرح پھر ایک دفعہ نیست سے ہست سب کو کرتا اور انسان اس کا منکر ہے۔ مسند امام احمد بن حنبل، ابن ماجہ اور مستدرک حاکم میں معتبر سند سے بشر بن حجاش (رض) سے حدیث قدسی کی روایت ہے ٣ ؎۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دن اپنی ہتھیلی پر تھوک کر لوگوں کو دکھایا اور فرمایا خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس طرح کی ذلیل چیز سے انسان کو میں نے پیدا کیا ہے اور اب انسان کو یہ غرور ہے کہ طرح طرح کی اترانے کی باتیں بناتا ہے اور عمر بھر مال جوڑ جوڑ کر رکھتا ہے مرتے وقت جب خیرات کا وقت ہاتھ سے نکل جاتا ہے تو خیرات کے حصے لگاتا ہے آگے کی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات پاک کی قسم کھا کر فرمایا ہے کہ قیامت کے دن اس طرح کی سب باتوں کی پرسش ہر انسان سے کی جاوے گی اور یہ بھی فرمایا ہے کہ زمین پر جیسے جیسے قول اور فعل لوگ کرتے ہیں اگر اس کا مواخذہ دنیا میں ہی کیا جاوے تو کوئی جاندار زمین پر پھرتا نظر نہ آوے پہلی امتوں کی طرح ایک دم سے سب ہلاک ہوجاویں لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی بردباری سے لوگوں کو چھوڑ رکھا ہے چناچہ صحیحین کی ابو موسیٰ اشعری (رض) کی حدیث گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کوئی بردبار نہیں ہے لوگ اللہ کا بیٹا ٹھہراتے ہیں اور اللہ ان کو رزق اور تندرستی دیتا ہے ٤ ؎۔ مگر سزا جزا کے لئے ایک دن مقرر ہے اس کی فکر ہر مسلمان کو لازم ہے۔ ١ ؎ تفسیر ابن جریر ص ٥۔ ١ ج ١٤, والدرالمنثور ص ١١٨ ج ٤۔ ٢ ؎ جلد ہذا ص ٣٠٣ پر آچکا ہے۔ ٣ ؎ دیکھئے جلد ہذا ص ٣١٠۔ ٤ ؎ مشکوٰۃ ص ١٣ کتاب الایمان۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(16:38) جھد ۔ پوری کوشش۔ طاقت۔ مشقت۔ جھد یجھد سے مصدر ۔ جس کے معنی ہیں پورے طور پر کوشش اور مشقت کرنا۔ ایمانہم۔ مضاف مضاف الیہ۔ ان کی قسمیں جھد ایمانہم۔ پورے شدومد سے قسمیں کھانا۔ یعنی وہ بڑے شد ومد سے پکی قسمیں کھا کر کہتے ہیں۔ لا یبعث۔ مضارع منفی۔ واحد مذکر غائب۔ نہیں اٹھائے گا۔ بلی وعدا علیہ ح... قا۔ بلی بمعنی بلی یبعثہم۔ ہاں وہ ضرور اٹھائے گا۔ وعدا مصدر تاکید کے لئے لایا گیا ہے ۔ حقا ای واجب علیہ۔ یعنی وعدہ جس کا پورا کرنا اس کے ذمہ ہے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 یعنی مرنے کے بعد نہ کوئی دوسری زندگی ہے اور نہ حساب و کتاب اس لئے عذاب کا کیا ڈر ؟ 3 یعنی تمہارے انکار کرین اور زور دار قسمیں کھانے سے اللہ کا پکا وعدہ ٹل نہیں سکتا۔ وہ تو ضرور پورا ہو کر رہے گا البتہ تم ایسی واضح حقیقت کا انکار کر کے اپنی جہالت کا ثبوت دے رہے ہو۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 38 تا 40 اقسموا انہوں نے قسم کھائی۔ جھد ایمان قسموں میں زور دار۔ لایبعث دوبارہ نہیں اٹھائے گا۔ اردنا ہم نے ارادہ کیا۔ تشریح : آیت نمبر 38 تا 40 نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ہے کہ کسی کے جھوٹا ہونے کی سب سے بڑی دل یل یہ ہے کہ وہ بات بات پر قسم کھاتا ہے۔ حقی... قت یہ ہے کہ جس کو قسمیں کھانے کی عادت پڑجائے وہ بڑی سے بڑی سچائی کو جھٹلانے سے بھی باز نہیں آتا۔ بخاری و مسلم میں ایک روایت نقل کی گئی ہے کہ ایک صحابی رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کسی کافر پر کچھ قرض تھا وہ مسلمان صحابی اس سے قرض واپس کرنے کا مطالبہ کرتے تو وہ ٹال مٹول سے کام لیتا اور آخر کار اس نے قرض واپس کرنے سے انکار کردیا۔ صحابی رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہا کہ مجھے تو آخرت پر یقین ہے وہاں ایک ایک بات کا بدلہ ملے گا۔ اس کافر نے اللہ کی قسم (جوان کے نزدیک سب سے اہم قسم ہوتی تھی) کھا کر کہا کہ جب انسان گل سڑ کر ختم ہوجائے گا تو اس کو دوبارہ اٹھایا جانا ممکن ہی نہیں ہے۔ بخاری و مسلم میں یہ بھی آتا ہے کہ اس کا فر نے (مذاق اڑاتے ہوئے) کہا اچھا دوبارہ زندہ کیا جاؤں گا ؟ تب وہاں مجھ سے قرض وصول کرلینا۔ یہ اور اسی طرح کی بہت سی باتوں پر وہ مذاق اڑاتے اور آخرت کا انکار کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے ہی لوگوں کے لئے فرمایا کہ جو لوگ اللہ کی قسمیں کھا کر یہ کہتے ہیں کہ جب آدمی مر جائے گا تو اس کا دوبارہ اٹھ کھڑا ہونا یعنی زندہ ہونا ممکن ہی نہیں ہے۔ فرمایا کہ کیوں نہیں یہ تو اللہ کا سچا وعدہ ہے جو پورا ہو کر رہے گا۔ اس حقیقت سے اکثر لوگ ناواقف ہیں اور جہالت کے اندھیروں میں دھکے کھا رہے ہیں۔ وہ قیامت کا دن ایسا ہوگا۔ کہ صرف مرنے والے ہی دوبارہ پیدا نہیں ہوں گے بلکہ دنیا میں وہ جن باتوں کا اور دین حق کا انکار رتے تھے اس کا پورا پورا حساب لیا اجئے گا۔ اس دن ان کافروں کو پتہ چل جائے گا کہ وہ اپنے عقیدے اور فکر میں کس قدر بڑی غلطی پر تھے۔ فرمایا کہ شاید ان کا یہ خیال ہے کہ ایسا کس طرح ممکن ہوگا۔ یعنی جب ہم مر کر مٹی ہوجائیں گے اور ذرہ ذرہ بن کر بکھر جائیں گے تو ہمارے اجزا کو کیسے جمع کیا جائے گا فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جب کسی کام کو کرنا چاہتا ہے تو اس کے کرنے میں اسباب اور چیزوں کا محتاج نہیں ہے بلکہ وہ حکم دیتا ہے کہ ” ہوجا “ تو وہ چیز ہوجاتی ہے۔ اس تفصیل سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ نے ایک ایسا دن مقرر کیا ہوا ہے جس میں ابتدائے کائنات سے قیامت تک جتنے بھی انسان ہیں ان کو اپنے حکم سے دوبارہ زندہ کرے گا اور ایک ایک بات کا حساب و کتاب لے کر اس کے لئے فیصلے فرمائے گا۔ اس میں کسی طرح کے شک کی گنجائش نہیں ہے۔ ویسے بھی اگر دیکھا جائے تو دنیا کی اس مختصر سی زندگی میں انسان کے کئے ہوئے اعمال کا پورا بدلہ مل ہی نہیں سکتا عقل کا بھی یہی تقاضا ہے کہ ایک اور جہاں ہو جہاں حق و صداقت پر چلنے والوں کو ان کا پورا پورا بدلہ ملے اور جنہوں نے کفر و شرک اور بدعات میں اپنا وقت گذارا ہے ان کو ان کے گناہوں کی پوری پوری سزا دی جائے۔ ہر مومن کا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ قیامت آئے گی اور تمام انسانوں کے بھلے برے اعمال کا فیصلہ کر کے ان کو جنت یا جہنم کی ابدی زندگی میں داخل کیا جائے گا۔ کافر یہ سمجھتا ہے کہ بس یہ دنیا کی زندگی ہی سب کچھ ہے۔ مرنے کے بعد دوبارہ اٹھایا جانا ممکن ہی نہیں ہے۔ ان آیات میں ان دونوں نظریات اور ان کے نتائج کو بیان فرمایا گیا ہے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ گمراہ لوگوں کو ہدایت اس لیے نصیب نہیں ہوتی کیونکہ یہ اللہ کے حضور پیش ہونے کا انکار کرتے ہیں۔ ہدایت پانے اور گناہوں سے بچنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ انسان یہ عقیدہ رکھے کہ اگر میں ایمان لانے کے بعد اچھے اعمال کروں گا تو میرا رب مجھے آخرت میں اس کی جزادے گا۔ اگر م... یں نے ایمان لانے سے انکار کیا اور برے اعمال اختیار کیے تو مرنے کے بعد مجھے اس کی سخت سزا دی جائے گی۔ جب آدمی اس عقیدہ کا انکار کرتا ہے تو پھر وہ کفرو شرک اور جرائم کرنے میں دلیر ہوجاتا ہے۔ اسی دلیری کے پیش نظر آخرت کے منکر قسمیں اٹھا اٹھا کے کہتے تھے کہ اللہ کی قسم ! جو مرگیا اللہ تعالیٰ اسے کبھی نہیں اٹھائے گا۔ یہاں ان کی قسموں اور عقیدے کی نفی کے لیے چار دلائل دیے گئے ہیں۔ ١۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان اور اس کا وعدہ ہے کہ میں ضرور قیامت برپا کروں گا اور اس دن نیکوں کو پوری پوری جزا ملے گی اور نافرمانوں کو ٹھیک ٹھیک سزا دی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان اور اس کا وعدہ سچا ہے۔ لیکن آخرت کے منکر نہیں مانتے۔ ٢۔ قیامت اس لیے بھی برپا کی جائے گی تاکہ اس دن لوگوں کے انبیاء ( علیہ السلام) اور صالحین کے ساتھ اور دیگر اختلافات کا فیصلہ کیا جائے۔ اگر حق اور باطل کے درمیان فیصلہ نہ ہو تو انبیاء اور صالحین اپنے حق سے محروم رہ جائیں گے اور ظالم دنیا میں مزیدظلم کرتے رہیں گے۔ یہاں حق سے مراد ” اللہ کی فرمانبردای ہے “۔ (یونس : ١٠٦۔ لقمان : ١٣) ٣۔ قیامت کا آنا اس لیے بھی ضروری ہے تاکہ اس کا انکار کرنے والے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں کہ جو کچھ انبیاء ( علیہ السلام) فرمایا کرتے تھے وہ سچ ہے اور جو کچھ ہم کہتے اور کرتے تھے وہ سراسر جھوٹ تھا۔ ٤۔ منکرین قیامت کا یہ عقیدہ جھوٹا ثابت کیا جائے گا کہ مرنے کے بعد ان کی بوسیدہ ہڈیوں کو اللہ تعالیٰ دوبارہ زندہ نہیں کرسکتا۔ اس کی تردید کے لیے یہاں صرف اتنا کہنا مناسب سمجھا گیا۔ اس بنیاد پر تمہارا آخرت کا انکار کرنا درحقیقت اللہ تعالیٰ کی خالقیت اور اس کی قوت و سطوت کا انکار کرنا ہے۔ تمہیں دوبارہ زندہ کر کے اپنے حضور پیش کرنا اس کے لیے کیونکر مشکل ہوسکتا ہے حالانکہ جب کسی کام کرنے کا ارادہ فرماتا ہے تو وہ صرف ” کن “ کہتا ہے یعنی ہوجا اور وہ کام اللہ تعالیٰ کے ارادہ اور فرمان کے عین مطابق پورا ہوجاتا ہے۔ مسائل ١۔ کفار قسمیں اٹھا، اٹھا کر لوگوں کو یقین دلاتے ہیں کہ مرنے کے بعد ہمیں دوبارہ زندہ نہیں کیا جائے گا۔ ٢۔ قیامت برپا کرنا اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے جو پورا ہو کر رہے گا۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے برپا ہونے کے دلائل : ١۔ اللہ کا قیامت قائم کرنے کا وعدہ برحق ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ (النحل : ٣٨) ٢۔ قیامت قریب ہے۔ (الانبیاء : ١) ٣۔ قیامت کے دن اللہ پوچھے گا آج کس کی بادشاہی ہے ؟ (المومن : ١٦) ٤۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ لوگوں کے اعمال کے بارے میں بتائے گا جو وہ کیا کرتے تھے۔ (المجادلۃ : ٧) ٥۔ قیامت کے دن کوئی کسی کو فائدہ نہیں دے سکے گا۔ (الانفطار : ١٩) ٦۔ اے لوگو ! اللہ سے ڈر جاؤ بیشک قیامت کا زلزلہ بہت ہی سخت ہوگا۔ (الحج : ١)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب منکرین اور مستکبرین کی تیسری کٹ حجتی :۔ آیت نمبر ٣٨ تا ٤٠ جب سے اللہ نے اپنے رسول بھیجے ہیں اور انہوں نے بعث بعد موت سے ڈرایا ہے اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کام شروع ہوا تو اکثر لوگ بعث بعد الموت کے عقیدے کے بارے میں خلجان میں مبتلا رہے ہیں۔ اہل قریش بھی اللہ کے نام کی سخت سے سخت قسمی... ں کھا کر یہ کہتے تھے کہ اللہ مرنے کے بعد کسی کو دوبارہ زندہ نہ کرے گا۔ یہ لوگ اللہ کے وجود کے تو قائل تھے لیکن اس بات کے قائل نہ تھے کہ اللہ تعالیٰ مردوں کو قبروں سے اپنی اصلی حالت میں دوبارہ اٹھائے گا۔ یہ لوگ سمجھتے تھے کہ یہ کام تو بہت ہی مشکل ہے کہ جب انسان گل سڑ کر ذرے ذرے ہوجائے تو پھر کس طرح جمع ہوگا۔ لیکن ان لوگوں نے اس بات پر غور نہ کیا کہ اللہ نے پہلی بار کس طرح ان ذرات کو حیات بخشی۔ یہ لوگ قدرت الٰہیہ کو بھی اچھی طرح نہ سمجھ سکے اور خدا کی قدرت کو انسانی قدرت پر قیاس کیا۔ اللہ کے لئے کسی چیز کا ایجاد کرنا کچھ ممکن نہیں ہے۔ اللہ جب چاہتا ہے تو کسی چیز کو کہتا ہے کہ ہوجا ، پھر وہ ہوجاتی ہے۔ نیز انہوں نے یہ بھی نہ سوچا سکہ بعث بعد الموت کی حکمت کیا ہے۔ بیشمار امور اس جہان میں ایسے ہیں جو اپنے قدرتی انجام تک نہیں پہنچتے۔ اس جہان میں حق و باطل کے بارے میں لوگوں کے درمیان سخت اختلاف پایا جاتا ہے۔ ہدایت و ضلالت کے بارے میں لوگوں کے تصورات مختلف ہیں۔ خیروشر کا معیار مختلف ہے۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے درمیان ان امور کا فیصلہ اس جہان میں ہی نہیں چکاتا کیونکہ مشیت کا تقاضا یہ تھا کہ لوگوں کو اس جہاں میں مہلت و امتیاز دیا جائے اور یہاں ہی سب کو جزاء و سزا نہ دے دی جائے۔ ان امور کا فیصلہ قیامت میں بعث بعد الموت کے وقت ہوتا ہے۔ قرآن کریم اس کا فرانہ کٹ حجتی کو آغاز ہی میں رد کردیتا ہے اور اس غلطی اور غلط سوچ کو اللہ تعالیٰ یوں دور کرتا ہے کہ بلی وعدا علیہ حقا (١٦ : ٣٨) ” یہ تو ایک وعدہ ہے جس کا پورا کرنا اس نے اپنے اوپر واجب کرلیا ہے “۔ اور جب اللہ کسی بات کا ارادہ کرلے تو اس کی خلاف ورزی کسی حال میں بھی نہیں ہوتی۔ ولکن اکثر الناس لا یعلمون (١٦ : ٣٨) ” مگر اکثر لوگ جانتے نہیں “ کہ اللہ کے عہد کی حقیقت کیا ہوتی ہے یعنی وہ اٹل ہوتا ہے۔ پھر اللہ کے اس فیصلے کے پیچھے ایک گہری حکمت بھی ہے۔ لیبین لھم الذی ۔۔۔۔۔ کانوا کذبین (١٦ : ٣٩) ” اور ایسا ہونا اس لئے ضروری ہے کہ اللہ ان کے سامنے اس حقیقت کو کھول دے جس کے بارے میں یہ اختلاف کر رہے ہیں ، اور منکرین حق کو معلوم ہوجائے کہ وہ جھوٹے تھے۔ کس بات میں ؟ اس بات میں کہ وہ ہدایت پر ہیں۔ اس بات میں کہ وہ رسول کو جھوٹا سمجھتے تھے ، اس بات میں کہ ان کے نزدیک قیام قیامت ممکن نہیں ہے۔ نیز اپنے اعمال و اعتقادات وغیرہ ہیں۔ رہا اس کا عملاً قیام تو وہ کوئی مشکل نہیں۔ انما قولنا۔۔۔۔۔۔ کن فیکون (١٦ : ٤٠) ” ہمیں کسی چیز کو وجود میں لانے کے لئے اس سے زیادہ کچھ کرنا نہیں ہوتا کہ اسے حکم دیں کہ ہوجا اور بس وہ ہوجاتی ہے “۔ اور قیام قیامت بھی ایسے ہی حالات میں سے ایک حالت ہے جوں ہی ارادہ الٰہی اس طرف متوجہ ہوا وہ برپا ہوجائے گی۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

منکرین کا قسم کھانا کہ اللہ تعالیٰ موت کے بعد زندہ کرکے نہ اٹھائے گا، ان کی اس بات کی تردید اور اس کا اثبات کہ اللہ تعالیٰ کے ” کن “ فرما دینے سے ہر چیز وجود میں آجاتی ہے گزشتہ آیات میں مشرکین کا ذکر تھا جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسروں کو بھی عبادت میں شریک کرتے تھے اور توحید کے منکر تھے، حضرت انبیاء...  کرام (علیہ السلام) نے ان کو سمجھایا لیکن وہ نہ مانے پھر تکذیب کے نتیجہ میں ہلاک ہوئے، ان آیات میں منکرین بعث کا ذکر ہے۔ مشرکین اور دوسرے کفار بعث اور حشر یعنی قیامت کا انکار کرتے تھے اور انکار بھی سطحی انداز میں نہیں بلکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی زور دار قسم کھا کر یوں کہا کہ جو لوگ مرجاتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں دوبارہ زندہ نہ فرمائے گا، ان کے جواب میں فرمایا بلیٰ جس کے معنی یہ ہیں کہ تمہارا انکار کرنا اور قسم کھانا یہ سب جھوٹ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرمایا ہے کہ وہ بندوں کو ضرور زندہ فرمائے گا، یہ اس کا پختہ وعدہ ہے اس کے خلاف کبھی نہیں ہوسکتا، لیکن بہت سے لوگ نہیں جانتے، نہ جاننا اور ان کا نہ ماننا اس بات کی دلیل نہیں کہ اللہ تعالیٰ شانہٗ نے جو وعدہ فرمایا ہے وہ پورا نہ ہو، قیامت ضرور قائم ہوگی قبروں سے ضرور اٹھیں گے فیصلے ہوں گے، اللہ تعالیٰ شانہٗ واضح طور پر ان چیزوں کو بیان فرما دیں گے جن کے بارے میں لوگ دنیا میں اختلاف کیا کرتے تھے اور حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بات بتاتے تھے اور اللہ تعالیٰ کے فیصلے سناتے تھے اور یہ کافر ان کو نہیں مانتے تھے، نیز اس دن کافروں کو بھی اپنے جھوٹا ہونے کا یقین ہوجائے گا، کفر اختیار کرکے جو یہ کہتے تھے کہ اللہ ہم سے ناراض ہے تو ہمیں جبراً روک کیوں نہیں دیتا اور یوں کہتے تھے کہ قیامت قائم نہ ہوگی اور رسولوں کے بارے میں کہتے تھے کہ یہ اللہ کے رسول نہیں ہیں ان سب باتوں میں ان کا جھوٹا ہونا ظاہر ہوجائے گا۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

31:۔ یہ بھی شکوہ ہے یعنی یہ مشرکین ایک طرف شرک کرتے اور غیر اللہ کو متصرف و کارساز جان کر غائبانہ پکارتے ہیں اور ساتھ ہی بڑے شد و مد کے ساتھ حشر و نشر کا بھی انکار کرتے ہیں۔ ” بَلیٰ وَعْدًا عَلَیْهِ الخ “ یہ مشرکین کے قول کا رد ہے فرمایا کیوں نہیں وہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرنے کا وعدہ فرما چکا ہے ... جسے وہ لامحالہ پورا کرے گا۔ ” لِیُبَیِّنَ لَھُمْ الخ “ اس میں حشر و نشر اور بعثت اخروی کی حکمت بیان کی گئی ہے کہ حشر و نشر اس لیے ہوگا تاکہ حق و باطل کے اختلاف کا آخری اور قطعی فیصلہ کیا جاسکے کیونکہ جب اہل حق کو جنت میں اور اہل شرک کو دوزخ میں داخل کردیا جائے گا۔ تو اس وقت توحید کے حق ہونے اور شرک کے باطل ہونے میں مشرکین کو بھی اختلاف باقی نہیں رہے گا۔ نیز قیامت کا دن اس لیے بپا ہوگا تاکہ مشرکین پر واضح ہوجائے کہ وہ انکار توحید اور انکار حشر میں جھوٹے تھے۔ اس میں کافروں کے لیے تخویف اخروی بھی ہے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

38 ۔ اور دین حق کے منکر بڑی تاکید کے ساتھ اس بات پر اللہ تعالیٰ کی قسمیں کھاتے ہیں کہ جو شخص مرجاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو زندہ کر کے نہیں اٹھائے گا ہاں وہ ضرور زندہ کر کے اٹھائے گا یہ دوبارہ زندہ کرنا اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے جس کو پورا کرنا اس نے اپنے ذمے لازم کر رکھا ہے لیکن اکثر لوگ اس زندگی کو نہیں...  جانتے اور اس دوسری زندگی پر یقین نہیں لاتے۔  Show more