Surat un Nahal

Surah: 16

Verse: 49

سورة النحل

وَ لِلّٰہِ یَسۡجُدُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ مِنۡ دَآبَّۃٍ وَّ الۡمَلٰٓئِکَۃُ وَ ہُمۡ لَا یَسۡتَکۡبِرُوۡنَ ﴿۴۹﴾

And to Allah prostrates whatever is in the heavens and whatever is on the earth of creatures, and the angels [as well], and they are not arrogant.

یقیناً آسمان و زمین کے کل جاندار اور تمام فرشتے اللہ تعالٰی کے سامنے سجدے کرتے ہیں اور ذرا بھی تکبر نہیں کرتے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَلِلّهِ يَسْجُدُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الاَرْضِ مِن دَابَّةٍ ... And to Allah prostrate all that are in the heavens and all that are in the earth, of the moving creatures, As Allah says: وَللَّهِ يَسْجُدُ مَن فِى السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضِ طَوْعًا وَكَرْهًا وَظِلَـلُهُم بِالْغُدُوِّ وَالاٌّصَالِ And to Allah (alone) all who are in the heavens and the earth fall in prostration, willingly or unwillingly, and so do their shadows in the mornings and in the afternoons. (13:15) ... وَالْمَليِكَةُ وَهُمْ لاَ يَسْتَكْبِرُونَ and the angels, and they are not proud. means, they prostrate to Allah and are not too proud to worship Him.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٨] فرشتوں کی الوہیت کا رد :۔ تمام مخلوقات میں سے فرشتوں کا بالخصوص الگ ذکر فرمایا۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ اکثر ممالک میں اور اسی طرح عرب ممالک میں بھی فرشتوں کو معبود سمجھا جاتا رہا ہے۔ ان فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی اولاد قرار دیا جاتا اور انھیں اللہ تعالیٰ یا بڑے خدا کا نائب اور کائنات میں بعض خاص امور کے تصرف کرنے والے اور اس کام میں اللہ کے مددگار سمجھا جاتا تھا۔ مصری اور یونانی اور ہندی تہذیب میں انہی فرشتوں کو یا ان کی ارواح کو دیوی دیوتاؤں کے نام سے پکارا جاتا ہے مثلاً بارش کا مالک فلاں دیوتا ہے۔ دولت کی مالک فلاں دیوی ہے اور محبت کی فلاں وغیرہ وغیرہ۔ اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کے اس باطل عقیدہ کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ فرشتے موجود ضرور ہیں اور مدبرات امر بھی ہیں لیکن اللہ کے حکم کے سامنے مجبور محض ہیں۔ اپنی مرضی سے کچھ بھی تصرف نہ کرتے ہیں نہ کرسکتے ہیں۔ پھر یہی نہیں بلکہ وہ اللہ کے بندے ہیں اور بندے اور غلام بن کر رہتے ہیں۔ اسی کی عبادت اور تسبیح و تقدیس کرتے رہتے ہیں اور اس بات میں قطعاً عار محسوس نہیں کرتے۔ پھر اس سے ڈرتے بھی رہتے ہیں اور اپنے خالق ومالک کی نافرمانی کر ہی نہیں سکتے۔ پھر اگر اللہ کو منظور نہ ہو تو وہ تمہاری احتیاج کیسے پوری کرسکتے ہیں لہذا اصل حکمرانی اللہ ہی کے لیے ثابت ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلِلّٰهِ يَسْجُدُ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ ۔۔ : پہلے ان چیزوں کا سجدہ بیان فرمایا جو زمین میں پائی جاتی ہیں، اب یہاں زمین و آسمان میں پائے جانے والے تمام جان دار، خصوصاً فرشتوں کا سجدہ بیان کرکے متنبہ فرمایا کہ ایسی مقرب ہستیاں بھی اللہ تعالیٰ کے سامنے سربسجود ہیں اور ان میں کوئی تکبر یا غرور نہیں پایا جاتا، لہٰذا ان کے متعلق یہ سمجھنا قطعی غلط ہے کہ وہ اللہ کی بیٹیاں ہیں اور ان کا اللہ تعالیٰ کے اختیارات میں کوئی حصہ ہے۔ (شوکانی)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلِلّٰهِ يَسْجُدُ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ مِنْ دَاۗبَّـةٍ وَّالْمَلٰۗىِٕكَةُ وَهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُوْنَ 49؀ دأب الدَّأْب : إدامة السّير، دَأَبَ في السّير دَأْباً. قال تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دائِبَيْنِ [إبراهيم/ 33] ، والدّأب : العادة المستمرّة دائما علی حالة، قال تعالی: كَدَأْبِ آلِ فِرْعَوْنَ [ آل عمران/ 11] ، أي : کعادتهم التي يستمرّون عليها . ( د ء ب ) الداب کے معنی مسلسل چلنے کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ داب السیر دابا ۔ وہ مسلسل چلا ۔ قرآن میں ہے وَسَخّرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دائِبَيْنِ [إبراهيم/ 33] اور سورج اور چاند کو تمہارے لئے کام میں لگا دیا کہ دونوں ( دن رات ) ایک دستور پر چل رہے ہیں ۔ نیز داب کا لفظ عادۃ مستمرہ پر بھی بولا جاتا ہے جیسے فرمایا :۔ كَدَأْبِ آلِ فِرْعَوْنَ [ آل عمران/ 11] ان کا حال بھی فرعونیوں کا سا ہے یعنی انکی اسی عادت جس پر وہ ہمیشہ چلتے رہے ہیں ۔ ملك ( فرشته) وأما المَلَكُ فالنحویون جعلوه من لفظ الملائكة، وجعل المیم فيه زائدة . وقال بعض المحقّقين : هو من المِلك، قال : والمتولّي من الملائكة شيئا من السّياسات يقال له : ملک بالفتح، ومن البشر يقال له : ملک بالکسر، فكلّ مَلَكٍ ملائكة ولیس کلّ ملائكة ملکاقال : وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة/ 17] ، عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة/ 102] ( م ل ک ) الملک الملک علمائے نحو اس لفظ کو ملا ئکۃ سے ماخوذ مانتے ہیں اور اس کی میم کو زائد بناتے ہیں لیکن بعض محقیقن نے اسے ملک سے مشتق مانا ہے اور کہا ہے کہ جو فرشتہ کائنات کا انتظام کرتا ہے اسے فتحہ لام کے ساتھ ملک کہا جاتا ہے اور انسان کو ملک ہیں معلوم ہوا کہ ملک تو ملا ئکۃ میں ہے لیکن کل ملا ئکۃ ملک نہیں ہو بلکہ ملک کا لفظ فرشتوں پر بولا جاتا ہے کی طرف کہ آیات ۔ وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة/ 17] اور فرشتے اس کے کناروں پر اتر آئیں گے ۔ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة/ 102] اور ان باتوں کے بھی پیچھے لگ گئے جو دو فرشتوں پر اتری تھیں ۔ الاسْتِكْبارُ والْكِبْرُ والتَّكَبُّرُ والِاسْتِكْبَارُ تتقارب، فالکبر الحالة التي يتخصّص بها الإنسان من إعجابه بنفسه، وذلک أن يرى الإنسان نفسه أكبر من غيره . وأعظم التّكبّر التّكبّر علی اللہ بالامتناع من قبول الحقّ والإذعان له بالعبادة . والاسْتِكْبارُ يقال علی وجهين : أحدهما : أن يتحرّى الإنسان ويطلب أن يصير كبيرا، وذلک متی کان علی ما يجب، وفي المکان الذي يجب، وفي الوقت الذي يجب فمحمود . والثاني : أن يتشبّع فيظهر من نفسه ما ليس له، وهذا هو المذموم، وعلی هذا ما ورد في القرآن . وهو ما قال تعالی: أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة/ 34] . ( ک ب ر ) کبیر اور الکبر والتکبیر والا ستکبار کے معنی قریب قریب ایک ہی ہیں پس کہر وہ حالت ہے جس کے سبب سے انسان عجب میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ اور عجب یہ ہے کہ انسان آپنے آپ کو دوسروں سے بڑا خیال کرے اور سب سے بڑا تکبر قبول حق سے انکار اور عبات سے انحراف کرکے اللہ تعالیٰ پر تکبر کرنا ہے ۔ الاستکبار ( استتعال ) اس کا استعمال دوطرح پر ہوتا ہے ۔ ا یک یہ کہ انسان بڑا ببنے کا قصد کرے ۔ اور یہ بات اگر منشائے شریعت کے مطابق اور پر محمل ہو اور پھر ایسے موقع پر ہو ۔ جس پر تکبر کرنا انسان کو سزا وار ہے تو محمود ہے ۔ دوم یہ کہ انسان جھوٹ موٹ بڑائی کا ) اظہار کرے اور ایسے اوصاف کو اپنی طرف منسوب کرے جو اس میں موجود نہ ہوں ۔ یہ مذموم ہے ۔ اور قرآن میں یہی دوسرا معنی مراد ہے ؛فرمایا ؛ أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة/ 34] مگر شیطان نے انکار کیا اور غرور میں آگیا۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٩) (اور وہ سایہ دار چیزیں بھی) اللہ تعالیٰ کی مطیع وفرمانبردار ہیں اور چاند وسورج ستارے اور حیوانات و پرندے اور وہ فرشتے بھی جو کہ آسمان و زمین میں ہیں سب اللہ تعالیٰ کے سامنے سربسجود ہیں اور وہ اطاعت خداوندی سے تکبر نہیں کرتے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

42. That is, not only all things on the earth alone but also all things in the heavens, including all those whom people have been regarding as gods and goddesses, and considering to be closely related to Allah are subservient to God, and have no share whatsoever in His Godhead. Incidentally, it implies the existence of living creatures not only on the earth but in the planets, too.

سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :42 یعنی زمین ہی کی نہیں ، آسمانوں کی بھی وہ تمام ہستیاں جن کو قدیم زمانے سے لے کر آج تک لوگ دیوی ، دیوتا اور خدا کے رشتہ دار ٹھیراتے آئے ہیں دراصل غلام اور تابعدار ہیں ۔ ان میں سے بھی کسی کا خداوندی میں کوئی حصہ نہیں ۔ ضمنا اس آیت سے ایک اشارہ اس طرف بھی نکل آیا ہے کہ جاندار مخلوقات صرف زمین ہی میں نہیں ہیں بلکہ عالم بالا کے سیاروں میں بھی ہیں ۔ یہی بات سورہ شوریٰ آیت ۲۹ میں بھی ارشاد ہوئی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٤٩۔ ٥٠۔ ترمذی میں حضرت عمر (رض) سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ظہر کی چار سنتیں بڑے ثواب کی چیزیں ہیں ان چار رکعتوں کا ثواب گویا تہجد کا سا ثواب ہے اسی ذکر کے سلسلہ میں آپ نے فرمایا کہ زوال کے بعد سب چیزیں اللہ پاک کے نام کی تسبیح پڑھتی ہیں یہ فرما کر پھر آپ نے اوپر کی آیت پڑھی ١ ؎۔ غرض فرشتے انسان جن پہاڑ درخت دیوار سب کے اوپر اللہ کی عظمت اور بڑائی کا اثر ہے پہاڑ درخت اور سب چیزوں کا سایہ زوال سے پہلے سیدھے ہاتھ کی طرف اور سورج ڈھلنے کے بعد الٹے ہاتھ کی طرف جو آجاتا ہے یہ اللہ تعالیٰ نے سایہ کے لئے سجدہ مقرر کیا ہے اور یہی اس کی عبادت ہے اس حدیث کی روایت میں علی بن عاصم منفرد ہے لیکن تقریب میں اس کو صدوق کہا ہے اور امام احمد بن حنبل نے اس کو ناقابل اعتراض ٹھہرایا ہے ٢ ؎۔ اس حدیث میں دوپہر کے وقت اصل چیزوں کی تسبیح کا بھی ذکر ہے اگرچہ معتبر سند سے مسند بزار اور مستدرک حاکم میں عبد اللہ بن عمرو بن العاص (رض) کی جو حدیث ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان چیزوں کی تسبیح سبحان اللہ وبحمدہ ہے لیکن عام لوگوں کی سمجھ میں وہ تسبیح نہیں آسکتی ٣ ؎۔ چناچہ تفصیل سے یہ ذکر سورت بنی اسرائیل میں آوے گا۔ مسند امام احمد ترمذی ابن ماجہ اور مستدرک حاکم کے حوالہ سے ابوذر (رض) کی معتبر روایت اوپر گزر چکی ہے ٤ ؎۔ اور یہ بھی گزر چکا ہے کہ آیت میں فرشتوں کے سجدہ کا جو ذکر ہے وہ حدیث اس کی گویا تفسیر ہے اس آیت سے آگے اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کا ذکر فرمایا ہے ان آیتوں کا اور آگے کی آیتوں کا حاصل مطلب یہ ہے کہ بےجان چیزوں کو اپنے خالق کے پہچاننے کی سمجھ ہے جو انسان اپنے آپ کو جاندار سمجھدار سمجھتے ہیں اور پھر اپنے خالق کو چھوڑ کر دوسری چیزوں کی پرستش کرتے ہیں وہ بےجان چیزوں سے بد تر ہیں۔ ١ ؎ جامع ترمذی ص ٤ تفسر سورت النحل۔ ٢ ؎ تہذیب التہذیب ص ٣٤٧ ج ٧۔ ٣ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٤٢ ج ٣ تفسیر سورت بنی اسرائیل لیکن بروایت مسند امام احمد۔ ٤ ؎ یعنی صفحہ سابق پر۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 یعنی دنیا کی ہر چیز پہاڑ، درخت اور انسان وغیرہ۔ جس کا سایہ بڑھتا، گھٹتا اور ڈھلتا ہے۔ تکوینی طور پر اللہ تعالیٰ ہی کی فرمانبرداری میں مصروف ہے اور وہ قانون قدرت سے سرموانحراف نہیں کرسکتی۔ یہاں جملہ ایشیا پر ذوی العقول کو غلبہ دے کر ” داخرون “ فرما ای ہے۔ (از روح) شاہ صاحب اس سجدہ کی کیفیت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ہر چیز ٹھیک دوپہر میں کھڑی ہے۔ اس کا سایہ بھی کھڑا ہے۔ جب دن ڈھلا، سایہ بھی جھکا، پھر جھکتے جھکتے شام تک زمین پر پڑگیا جیسے نماز میں کھڑے سے رکوع اور رکوع سے سجدہ اس طرح ہر چیز اپنے سایہ سے نماز ادا کرتی ہے۔ (کذا فی الموضح) 5 پہلے ان چیزوں کا سجدہ بیان فرمایا جو زمین میں پائی جاتی ہیں۔ اب یہاں زمین و آسمان میں پائے جانے والے تمام جاندار خصوصاً فرشتوں کا سجدہ بیان کر کے متنبہ فرمایا کہ ایسی مقرب ہستیاں بھی اللہ تعالیٰ کے سامنے سربسجود ہیں اور ان میں کوئی تکبر یا غرور نہیں پایا جاتا لہٰذا ان کے متعلق یہ سمجھنا قطعی غلط ہے کہ وہ اللہ کی بٹیاں ہیں اور ان کا خدا کی خدائی میں کوئی حصہ ہے۔ شوکانی

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

49 ۔ آگے آسمان اور زمین کی دوسری چیزوں کی اطاعت کا ذکر فرمایا اور جتنی چیزیں آسمانوں میں ہیں اور جتنے جان دار زمین میں ہیں سب اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتے ہیں اور اس کے تابع اور فرماں بردار ہیں اور فرشتے بھی اس کے مطیع اور منقاد ہیں اور اس کے لئے سجدہ ریز ہیں اور وہ فرشتے غرور وتکبر نہیں کرتے۔