Surat un Nahal

Surah: 16

Verse: 50

سورة النحل

یَخَافُوۡنَ رَبَّہُمۡ مِّنۡ فَوۡقِہِمۡ وَ یَفۡعَلُوۡنَ مَا یُؤۡمَرُوۡنَ ﴿٪ٛ۵۰﴾  12

They fear their Lord above them, and they do what they are commanded.

اور اپنے رب سے جو ان کے اوپر ہے ، کپکپاتے رہتے ہیں اور جو حکم مل جائے اس کی تعمیل کرتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

يَخَافُونَ رَبَّهُم مِّن فَوْقِهِمْ ... They fear their Lord above them, means, they prostrate out of fear of their Lord, may He be glorified. ... وَيَفْعَلُونَ مَا يُوْمَرُونَ and they do what they are commanded. meaning they continually obey Allah, doing what He tells them to do and avoiding that which He forbids.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

50۔ 1 اللہ کے خوف سے لرزاں و ترساں رہتے ہیں۔ 50۔ 2 اللہ کے حکم سے سرتابی نہیں کرتے بلکہ جس کا حکم دیا جاتا ہے، بجا لاتے ہیں، جس سے منع کیا جاتا ہے، اس سے دور رہتے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٩] جب اس کائنات کی تخلیق اور انتظام میں کسی دوسرے کا کچھ بھی حصہ نہیں تو پھر وہ تمہیں کیسے فائدہ یا نقصان پہنچا سکتے ہیں اور اگر ان دونوں باتوں میں وہ بےبس اور عاجز ہیں تو پھر تمہیں ان سے ڈرنے کی کیا ضرورت ہے ؟ ڈرنا تو اس سے چاہیئے جو اس کائنات میں تصرف کرسکتا ہو۔ اور وہ صرف اکیلا اللہ تعالیٰ ہی ہے لہذا عبادت بھی صرف اسی کی خالصتاً کرنا چاہیے، اپنی تمام تر حاجات کو اسی کے سامنے پیش کرنا چاہیے اور یہی راستہ معقول سمجھا جاسکتا ہے۔ سجدہ تلاوت واجب نہیں :۔ اس آیت پر سجدہ کرنا چاہیے تاہم سجدہ تلاوت واجب نہیں ہے۔ چناچہ ربیعہ بن عبداللہ بن ہدیر تیمی کہتے ہیں کہ ایک دفعہ سیدنا عمر نے جمعہ کے دن منبر پر سورة نحل پڑھی۔ جب سجدے کی آیت پر پہنچے تو منبر پر سے اترے اور سجدہ کیا اور لوگوں نے بھی ان کے ساتھ سجدہ کیا۔ دوسرے جمعہ کو پھر یہی سورة پڑھی۔ جب سجدہ کی آیت پر پہنچے تو کہنے لگے : && لوگو ! ہم سجدہ کی آیت پڑھتے چلے جاتے ہیں پھر جو کوئی سجدہ کرے اس نے اچھا کیا اور جو کوئی نہ کرے اس پر کوئی گناہ نہیں اور سیدنا عمر نے سجدہ نہیں کیا اور نافع نے ابن عمر (رض) سے نقل کیا کہ اللہ تعالیٰ نے سجدہ تلاوت فرض نہیں کیا اسے ہماری خوشی پر رکھا۔ (بخاری، کتاب الصلوۃ۔ باب من رای ان اللہ عزوجل لم یوجب السجود)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

يَخَافُوْنَ رَبَّهُمْ مِّنْ فَوْقِهِمْ ۔۔ : ” مِّنْ فَوْقِهِمْ “ ” رَبَّهُمْ “ سے حال ہے، یعنی وہ اپنے رب سے ڈرتے ہیں، اس حال میں کہ وہ ان کے اوپر ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ عرش کے اوپر ہے اور تمام اہل السنہ کا اس پر اتفاق ہے۔ یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ ہے، درست نہیں، کیونکہ یہ ” اَلرَّحْمٰن عَلیٰ الْعَرْشِ اسْتَویٰ “ کے خلاف ہے۔ ہاں، یہ یاد رکھنا چاہیے کہ قرآن و حدیث کی رو سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ عرش کے اوپر ہے، مگر کس طرح ہے، یہ معلوم نہیں، نہ صحابہ میں سے کسی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کی کیفیت پوچھی، اس لیے امام مالک (رض) نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ کا عرش پر مستوی ہونا معلوم ہے، اس کی کیفیت معلوم نہیں، اس لیے اس کی کیفیت کے متعلق سوال کرنا بدعت ہے۔ “ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نہ اوپر ہے نہ نیچے، نہ دائیں نہ بائیں، نہ آگے نہ پیچھے، بلکہ وہ لا مکان ہے، یعنی کسی جگہ بھی نہیں، کیونکہ عرش اور مکان تو اس کی مخلوق ہے، اگر اسے عرش پر یا کسی مکان میں مانیں تو وہ اپنی مخلوق کا محتاج ٹھہرے گا۔ اللہ تعالیٰ کے اوپر کی جانب ہونے یا عرش پر ہونے کے منکرین میں سے بعض لوگ تو یہاں تک بڑھ گئے کہ انھوں نے کہا یہ کہنا ہی جائز نہیں کہ اللہ تعالیٰ کہاں ہے ؟ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ہدایت دے، ان کی بات قرآن کی ان متعدد آیات جن میں اللہ تعالیٰ کا عرش پر ہونا یا اوپر کی جانب ہونا بیان ہوا ہے، کے صریح خلاف ہے۔ ان کی بات کا نتیجہ تو یہی ہے کہ درحقیقت اللہ تعالیٰ موجود ہی نہیں۔ رہی یہ بات کہ اس سے اللہ کا عرش یا مکان کا محتاج ہونا لازم آتا ہے تو یہ بات فضول ہے، کیونکہ بہت سی نیچے والی چیزیں اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے اوپر والی چیز کی محتاج ہوتی ہیں، مثلاً چھت کے نیچے پنکھا یا بلب وغیرہ۔ اللہ تعالیٰ کی مثل تو کوئی چیز نہیں، سو عرش اور مکان اللہ تعالیٰ کے مخلوق ہو کر بھی اپنی پیدائش اور وجود میں اللہ کے محتاج ہیں، اللہ تعالیٰ کسی کا محتاج نہیں، کیونکہ وہ ان کے پیدا کرنے سے پہلے بھی ہمیشہ سے موجود ہے۔ ہاں، اس کی کوئی صفت یا اس کی ذات کسی مخلوق کی صفت یا ذات کی مثل نہیں۔ جن لوگوں نے اس سوال پر کہ ” اللہ کہاں ہے “ ناجائز ہونے کا فتویٰ لگایا وہ سوچ لیں کہ ان کا فتویٰ کس کس ہستی پر لگتا ہے۔ صحیح مسلم میں معاویہ بن حکم السلمی (رض) سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں : ( کَانَتْ لِيْ جَارِیَۃٌ تَرْعَی غَنَمًا لِيْ قِبَلَ أُحُدٍ وَالْجَوَّانِیَّۃِ ، فَاطَّلَعْتُ ذَاتَ یَوْمٍ فَإِذَا الذِّءْبُ قَدْ ذَھَبَ بِشَاۃٍ عَنْ غَنَمِھَا، وَأَنَا رَجُلٌ مِنْ بَنِيْ آدَمَ ، آسَفُ کَمَا یَأْسَفُوْنَ ، لٰکِنِّيْ صَکَکْتُھَا صَکَّۃً ، فَأَتَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَعَظَّمَ ذٰلِکَ عَلَيَّ ، قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ! أَفَلاَ أُعْتِقُھَا ؟ قَالَ اءْتِنِیْ بِھَا، فَأَتَیْتُہُ بِھَا، فَقَالَ لَھَا أَیْنَ اللّٰہُ ؟ قَالَتْ فِي السَّمَاءِ قَالَ مَنْ أَنَا ؟ قَالَتْ أَنْتَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ، قَالَ أَعْتِقْھَا، فَإِنَّھَا مُؤْمِنَۃٌ ) [ مسلم، المساجد، باب تحریم الکلام فی الصلاۃ۔۔ : ٥٣٧ ] ” میری ایک لونڈی تھی جو احد اور جوانیہ (پہاڑ) کی طرف میری بھیڑ بکریاں چرایا کرتی تھی۔ میں نے ایک دن دیکھا کہ بھیڑیا اس کی بھیڑوں میں سے ایک بھیڑ لے گیا تھا، میں بنی آدم ہی میں سے ایک آدمی ہوں، مجھے اسی طرح غصہ آتا ہے جیسے انھیں غصہ آتا ہے، لیکن میں نے اسے (بس) ایک تھپڑ مارا، پھر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا تو آپ نے اسے مجھ پر بہت بڑا (گناہ) قرار دیا۔ میں نے کہا : ” یا رسول اللہ ! کیا میں اسے آزاد نہ کر دوں ؟ “ فرمایا : ” اسے میرے پاس لے کر آؤ۔ “ میں اسے آپ کے پاس لے کر آیا، آپ نے اس سے فرمایا : ” اللہ کہاں ہے ؟ “ اس نے کہا : ” آسمان میں۔ “ آپ نے فرمایا : ” میں کون ہوں ؟ “ اس نے کہا : ” آپ اللہ کے رسول ہیں۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اسے آزاد کر دو ، یہ مومنہ ہے۔ “ اس صحیح حدیث کے مطابق یہ سوال کرنے والے کہ ” اللہ کہاں ہے “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اور اس لونڈی کو مومنہ قرار دے رہے ہیں، جس کا جواب یہ ہے کہ آسمان پر ہے۔ اب اس سوال کو ناجائز کہنے والے اور اللہ تعالیٰ کو لا مکان کہنے والے سوچ لیں کہ ان کا فتویٰ کس کس پر لگتا ہے اور اگر وہ اپنے آپ کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا امتی سمجھتے ہیں تو فوراً ان غلط عقائد سے توبہ کریں۔ ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن منہ دکھانے کے قابل بھی نہ رہیں۔ اہل علم نے اللہ تعالیٰ کے لیے اوپر کی جانب ہونے کے ثبوت کے لیے قرآن و حدیث کے دلائل پر مشتمل کئی کتابیں لکھی ہیں۔ دیکھیے حافظ ذہبی (رض) کی کتاب ” اَلْعَلُوُّ لِلْعَلِيِّ الْغَفَّارِ “ اور ابن قیم (رض) کی کتاب ” اَلْجُیُوْشُ الإِْسْلاَمِیَّۃُ “ ، اسی طرح مشہور مسلم فلسفی ابن رشد نے ” مَنَاہِجُ الدَّوْلَۃِ “ میں اس موضوع پر بہت لمبی تفصیل لکھی ہے۔ 3 ربیعہ بن عبداللہ بن ہدیر کہتے ہیں کہ وہ عمر بن خطاب (رض) کے ساتھ خطبہ جمعہ میں حاضر تھے۔ انھوں نے منبر پر سورة النحل پڑھی، سجدے کا مقام آیا تو اترے اور سجدہ کیا، لوگوں نے بھی سجدہ کیا، یہاں تک کہ اگلا جمعہ آیا تو انھوں نے وہی سورت پڑھی، سجدے کا مقام آیا تو فرمایا : ” لوگو ! ہم سجدے کی آیت پڑھتے ہیں تو جس نے سجدہ کیا اس نے درست کیا اور جس نے سجدہ نہیں کیا اس پر کوئی گناہ نہیں “ اور عمر (رض) نے سجدہ نہیں کیا۔ [ بخاری، سجود القرآن، باب من رأی أن اللّٰہ عز و جل لم یوجب السجود : ١٠٧٧ ] اس سے معلوم ہوا کہ سجدہ والی آیت پر سجدہ کریں تو ثواب ہے، مگر یہ ضروری اور فرض نہیں۔ البتہ اس میں شک نہیں کہ سجدہ نہ کرنے سے سجدہ کرنے کا ثواب حاصل نہ ہوگا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يَخَافُوْنَ رَبَّهُمْ مِّنْ فَوْقِهِمْ وَيَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُوْنَ 50؀۞ۧ خوف الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] ( خ و ف ) الخوف ( س ) کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ فوق فَوْقُ يستعمل في المکان، والزمان، والجسم، والعدد، والمنزلة، وذلک أضرب : الأول : باعتبار العلوّ. نحو : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة/ 63] ، مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ [ الزمر/ 16] ، وَجَعَلَ فِيها رَواسِيَ مِنْ فَوْقِها [ فصلت/ 10] ، ويقابله تحت . قال : قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ [ الأنعام/ 65] الثاني : باعتبار الصّعود والحدور . نحو قوله :إِذْ جاؤُكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ [ الأحزاب/ 10] . الثالث : يقال في العدد . نحو قوله : فَإِنْ كُنَّ نِساءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ [ النساء/ 11] . الرابع : في الکبر والصّغر مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] . الخامس : باعتبار الفضیلة الدّنيويّة . نحو : وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ [ الزخرف/ 32] ، أو الأخرويّة : وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ البقرة/ 212] ، فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ آل عمران/ 55] . السادس : باعتبار القهر والغلبة . نحو قوله : وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام/ 18] ، وقوله عن فرعون : وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف/ 127] ( ف و ق ) فوق یہ مکان ازمان جسم عدد اور مرتبہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے اور کئی معنوں میں بولا جاتا ہے اوپر جیسے فرمایا ۔ وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة/ 63] اور کوہ طور کو تم پر اٹھا کھڑا کیا ۔ مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ [ الزمر/ 16] کے اوپر تو آگ کے سائبان ہوں گے ۔ وَجَعَلَ فِيها رَواسِيَ مِنْ فَوْقِها [ فصلت/ 10] اور اسی نے زمین میں اس کے پہاڑ بنائے ۔ اس کی ضد تحت ہے جس کے معنی نیچے کے ہیں چناچہ فرمایا ۔ قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ [ الأنعام/ 65] کہ وہ اس پر بھی قدرت رکھتا ہے کہ تم پر اوپر کی طرف سے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے عذاب بھیجے ۔ 2 صعود یعنی بلند ی کی جانب کے معنی میں اس کی ضدا سفل ہے جس کے معنی پستی کی جانب کے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ إِذْ جاؤُكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ [ الأحزاب/ 10] جب وہ تمہارے اوپر اور نیچے کی جانب سے تم پر چڑھ آئے ۔ 3 کسی عدد پر زیادتی کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَإِنْ كُنَّ نِساءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ [ النساء/ 11] اگر اولاد صرف لڑکیاں ہی ہوں ( یعنی دو یا ) دو سے زیادہ ۔ 4 جسمانیت کے لحاظ سے بڑا یا چھوٹا ہونے کے معنی دیتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] مچھر یا اس سے بڑھ کر کسی چیز مثلا مکھی ۔ مکڑی کی مثال بیان فرمائے ۔ 5 بلحاظ فضیلت دنیوی کے استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا ۔ وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ [ الزخرف/ 32] اور ایک دوسرے پر درجے بلند کئے ۔ اور کبھی فضلیت اخروی کے لحاظ سے آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ البقرة/ 212] لیکن جو پرہیز گار ہیں وہ قیامت کے دن ان پر پر فائق ہوں گے ۔ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ آل عمران/ 55] کافروں پر فائق ۔ 6 فوقیت معنی غلبہ اور تسلط کے جیسے فرمایا : ۔ وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام/ 18] اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے ۔ وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف/ 127] فرعون سے اور بےشبہ ہم ان پر غالب ہیں ۔ فعل الفِعْلُ : التأثير من جهة مؤثّر، وهو عامّ لما کان بإجادة أو غير إجادة، ولما کان بعلم أو غير علم، وقصد أو غير قصد، ولما کان من الإنسان والحیوان والجمادات، والعمل مثله، ( ف ع ل ) الفعل کے معنی کسی اثر انداز کی طرف سے اثر اندازی کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ تاثیر عمدگی کے ساتھ ہو یا بغیر عمدگی کے ہو اور علم سے ہو یا بغیر علم کے قصدا کی جائے یا بغیر قصد کے پھر وہ تاثیر انسان کی طرف سے ہو یا دو سے حیوانات اور جمادات کی طرف سے ہو یہی معنی لفظ عمل کے ہیں ۔ أمر الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته : إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود/ 123] ( ا م ر ) الامر ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔ { وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ } ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٠) اور وہ اپنے رب سے ڈرتے ہیں جو کہ ان پر بالادست ہے اور فرشتوں کو جو حکم دیا جاتا ہے اس کو وہ کرتے اور پہنچاتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٠ (يَخَافُوْنَ رَبَّهُمْ مِّنْ فَوْقِهِمْ وَيَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُوْنَ ) یہ خصوصی طور پر فرشتوں کے بارے میں فرمایا گیا ہے۔ جیسے سورة التحریم میں فرمایا گیا : (لَا یَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَآ اَمَرَہُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ ) ” وہ اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے جو حکم وہ انہیں دیتا ہے اور وہی کرتے ہیں جو حکم انہیں دیا جاتا ہے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

23: یہ آیتِ سجدہ ہے۔ یعنی جو شخص بھی یہ آیت عربی زبان میں پڑھے، اُس پر سجدہ کرنا واجب ہوجاتا ہے۔ اِسے ’’سجدۂ تلاوت‘‘ کہتے ہیں، جو نماز کے سجدے کے علاوہ ہے۔ البتہ صرف ترجمہ پڑھنے سے یا آیت کو پڑھے بغیر صرف دیکھنے سے سجدہ واجب نہیں ہوتا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(16:50) من فوقہم۔ ان کے اوپر سے۔ خداوند تعالیٰ کی بالادستی اور اس کے علو مرتبت اور فضیلت کے اظہار کے لئے ہے۔ جیسے کہ اور جگہ آیا ہے وھو القاہر فوق عبادہ (6:18) اور وہ اپنے بندوں کے اوپر غالب ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 یعنی من فوقھم ربھم سے حال ہے۔ ای کونہ تعالیٰ من فوقھم اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یخافون کے متعلق ہو اور مضاف محذوف ہو۔ ای عذاب ربہم اس سے بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ فوق العرش ہے اور تمام اہل حدیث کا اس پر اتفاق ہے (وحیدی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

50 ۔ وہ فرشتے اپنے پروردگار سے ڈرتے رہتے ہیں جو ان کے اوپر ہے اور ان پر بالا دست ہے اور وہ فرشتے وہی کام کرتے ہیں جس کا ان کو حکم دیا جاتا ہے ، ان آیتوں میں تمام مخلوق کی فرماں برداری اور تذلل و عاجزی کا ذکر فرمایا اور اس تذلل و عاجزی کو سجدہ سے تعبیر کیا ہے ۔ نیاز مندی کے مختلف طریقے ہیں کوئی قیام میں ہے کوئی رکوع میں ہے کوئی زمین پر رینگ کر سجدے کی حالت پیدا کر رہا ہے اور کچھ نہں تو سایہ سے نیاز مندی کا اظہارہو رہا ہے جو متکبر ہیں اور خداوند کریم کو سجدہ کرنے سے اجتناب کرتے ہیں وہ بھی خدا کے حکم سے باہر نہیں نکل سکتے۔ غرض ! ہر چیز کے حال و قال سے نیاز مندی اور تذلل ٹپک رہی ہے اور یہ ہی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اللہ تعالیٰ کی توحید کے لئے کافی ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں پہلے کھڑی چیزوں کا سجدہ بیان ہوا یہ جانوروں کا اور فرشتوں کا مغرور لوگوں کو سجدہ میں سر رکھنا زمین پر مشکل پڑتا ہے نہیں جانتے کہ بندے کی بڑائی اسی میں ہے۔ 12 پھر فرماتے ہیں ہر بندے کے دل میں ہے کہ میرے اوپر اللہ ہے آپ کو نیچے سمجھتا ہے یہ سجدہ فرشتوں کا بھی ہے اور سب کا ہے۔ 12