Surat un Nahal

Surah: 16

Verse: 62

سورة النحل

وَ یَجۡعَلُوۡنَ لِلّٰہِ مَا یَکۡرَہُوۡنَ وَ تَصِفُ اَلۡسِنَتُہُمُ الۡکَذِبَ اَنَّ لَہُمُ الۡحُسۡنٰی ؕ لَا جَرَمَ اَنَّ لَہُمُ النَّارَ وَ اَنَّہُمۡ مُّفۡرَطُوۡنَ ﴿۶۲﴾

And they attribute to Allah that which they dislike, and their tongues assert the lie that they will have the best [from Him]. Assuredly, they will have the Fire, and they will be [therein] neglected.

اور وہ اپنے لئے جو ناپسند رکھتے ہیں اللہ کے لئے ثابت کرتے ہیں اور ان کی زبانیں جھوٹی باتیں بیان کرتی ہیں کہ ان کے لئے خوبی ہے نہیں نہیں ، دراصل ان کے لئے آگ ہے اور یہ دوزخیوں کے پیش رو ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَيَجْعَلُونَ لِلّهِ مَا يَكْرَهُونَ ... They assign to Allah that which they dislike (for themselves), meaning, daughters, and partners, who are merely His servants, yet none of them would like to have someone sharing in his wealth. ... وَتَصِفُ أَلْسِنَتُهُمُ الْكَذِبَ أَنَّ لَهُمُ الْحُسْنَى ... and their tongues assert the lie that the better things will be theirs. This is a denunciation of their claims that better things will be theirs in this world, and in the Hereafter. Allah tells us about what some of them said, as in the Ayat: وَلَيِنْ أَذَقْنَا الاِنْسَـنَ مِنَّا رَحْمَةً ثُمَّ نَزَعْنَاهَا مِنْهُ إِنَّهُ لَيَيُوسٌ كَفُورٌ وَلَيِنْ أَذَقْنَاهُ نَعْمَأءَ بَعْدَ ضَرَّاءَ مَسَّتْهُ لَيَقُولَنَّ ذَهَبَ السَّيِّيَاتُ عَنِّي إِنَّهُ لَفَرِحٌ فَخُورٌ And if We give man a taste of mercy from Us, and then take it from him, verily! He is hopelessly, ungrateful. But if We let him taste of goodness after harm has touched him, he is sure to say: "Ills have departed from me." Surely, he is cheerful, and boastful (ungrateful to Allah). (11:9-10) وَلَيِنْ أَذَقْنَـهُ رَحْمَةً مِّنَّا مِن بَعْدِ ضَرَّاءَ مَسَّتْهُ لَيَقُولَنَّ هَـذَا لِى وَمَأ أَظُنُّ السَّاعَةَ قَأيِمَةً وَلَيِن رُّجِّعْتُ إِلَى رَبِّى إِنَّ لِى عِندَهُ لَلْحُسْنَى فَلَنُنَبِّيَنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ بِمَا عَمِلُواْ وَلَنُذِيقَنَّهُمْ مِّنْ عَذَابٍ غَلِيظٍ And if We give him a taste of mercy from Us, after some adversity has touched him, he is sure to say: "This is due to me; I do not think that the Hour will occur. But if I am brought back to my Lord, then, with Him, there will surely be the best for me." Then, We will certainly show the disbelievers what they have done, and We shall make them taste severe torment. (41:50) أَفَرَأَيْتَ الَّذِى كَفَرَ بِـَايَـتِنَا وَقَالَ لاوتَيَنَّ مَالاً وَوَلَداً Have you seen the one who disbelieved in Our Ayat and said: "I shall certainly be given wealth and children (if I came back to life)." (19:77) Allah tells us about one of the two men: دَخَلَجَنَّتَهُ وَهُوَ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهِ قَالَ مَأ أَظُنُّ أَن تَبِيدَ هَـذِهِ أَبَداً وَمَأ أَظُنُّ السَّاعَةَ قَايِمَةً وَلَيِن رُّدِدتُّ إِلَى رَبِّى لاَجِدَنَّ خَيْراً مِّنْهَا مُنْقَلَباً He went into his garden while wronging himself. He said: "I do not think that this will ever perish. And I do not think that the Hour will ever come, and if indeed I am brought back to my Lord, (on the Day of Resurrection), then surely, I shall find better than this when I return to Him." (18:35-36) These people combined bad deeds with the false hopes of being rewarded with good for those bad deeds, which is impossible. Thus Allah refuted their false hopes, when He said: ... لااَ جَرَمَ ... No doubt, meaning, truly it is inevitable that, ... أَنَّ لَهُمُ الْنَّارَ ... for them is the Fire, meaning, on the Day of Resurrection. ... وَأَنَّهُم مُّفْرَطُونَ and they will be forsaken. Mujahid, Sa`id bin Jubayr, Qatadah and others said: "This means they will be forgotten and neglected there." This is like the Ayah: فَالْيَوْمَ نَنسَـهُمْ كَمَا نَسُواْ لِقَأءَ يَوْمِهِمْ هَـذَا So today We forget them just as they forgot meeting on this day of theirs. (7:51) It was also reported from Qatadah that, مُّفْرَطُونَ (they will be forsaken) means, `they are hastened into the Fire.' There is no contradiction between the two, because they will be hastened into the Fire on the Day of Resurrection, then they will be forgotten there, i.e., left to dwell there for eternity.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

62۔ 1 یعنی بیٹیاں۔ یہ تکرار تاکید کے لئے ہے۔ 62۔ 2 یہ ان کی دوسری خرابی کا بیان ہے کہ وہ اللہ کے ساتھ ناانصافی کا معاملہ کرتے ہیں ان کی زبانیں یہ جھوٹ بولتی ہیں کہ ان کا انجام اچھا ہے، ان کے لئے بھلائیاں ہیں اور دنیا کی طرح ان کی آخرت بھی اچھی ہوگی۔ 62۔ 3 یعنی یقیناً ان کا انجام ' اچھا ' ہے اور وہ ہے جہنم کی آگ، جس میں وہ دوزخیوں کے پیش رو پہلے جانے والے ہوں گے۔ فَرَط کے یہی معنی حدیث سے بھی ثابت ہیں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ' اَ نَا فَرَطُکُمْ عَلَی الْحَوْضِ ' (صحیح بخاری) ' میں حوض کوثر پر تمہارا پیش رو ہوں گا ' ایک دوسرے معنی مفرَطُوْنَ کے یہ کئے گئے ہیں کہ انھیں جہنم میں ڈال کر فراموش کردیا جائے گا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٩] مشرک مکروہ باتیں اللہ کے لئے تجویز کرتے ہیں :۔ یہ مشرک اپنے لیے بیٹیوں کے وجود کو باعث ننگ و عار سمجھتے ہیں مگر اللہ کے لیے وہی تجویز کرتے ہیں۔ خود یہ برداشت نہیں کرتے کہ ان کی جائیداد یا مال و دولت میں کوئی اجنبی آکر شریک ہوجائے لیکن اللہ کی کائنات میں اس کے شریک بنانا پسند کرتے ہیں۔ خود یہ پسند نہیں کرتے کہ ان کا مذاق اڑایا جائے مگر اللہ کی آیات کا مذاق اڑا کر خوش ہوتے ہیں۔ کرتوت تو ان کے یہ ہیں اور زبانی دعوے یہ ہیں کہ اللہ ان پر مہربان ہے تبھی تو اس نے ہمیں خوشحال بنایا ہے اور اگر قیامت قائم ہوئی بھی تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ اس وقت ہم پر مہربان نہ ہو۔ لہذا ہمارے لیے یہاں دنیا میں بھلائی ہے اور آخرت میں بھی بھلائی ہی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ لوگ جھوٹ بکتے ہیں۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ دوزخ کی آگ ایسے لوگوں کی انتظار میں ہے اور سب سے پہلے یہی لوگ اس کا لقمہ بنیں گے۔ اور کچھ مشرک جو آخرت کا بھی موہوم سا اعتقاد رکھتے تھے، دعویٰ سے کہتے تھے کہ ہم ان فرشتوں یا اللہ کی بیٹیوں کی اس لیے پوجا کرتے ہیں کہ یہ ہمارے وسیلے ہیں لہذا آخرت میں ہمارے لیے بھلائی ہی بھلائی ہے۔ جس کا اللہ نے یوں جواب دیا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَيَجْعَلُوْنَ لِلّٰهِ مَا يَكْرَهُوْنَ : مثلاً یہ مشرک اپنے لیے پسند نہیں کرتے کہ ان کی ملکیت کا کوئی دوسرا بھی مالک بنے، مگر اللہ کی ملکیت میں دوسروں کو شریک کرتے ہیں۔ (دیکھیے روم : ٢٨) اپنے قاصد کی تکریم چاہتے ہیں مگر اللہ کا پیغام لانے والوں سے ٹھٹھا کرتے ہیں، اپنے لیے گالی برداشت نہیں کرتے مگر اللہ کو گالی دیتے ہیں، مثلاً یہ کہنا کہ اللہ کی اولاد ہے، اس کے لیے گالی ہے اور کئی بدبخت ایسے ہیں کہ اللہ نے انھیں سب کچھ دیا اس کے باوجود وہ اللہ تعالیٰ کو صاف گالیاں دیتے ہیں، پھر اپنے لیے بیٹے اور اللہ کے لیے بیٹیاں تجویز کرتے ہیں۔ غرض جو کچھ وہ اپنے غلاموں کی طرف سے اپنے لیے پسند نہیں کرتے، اللہ کے غلام بلکہ مخلوق ہو کر وہ ساری بدتمیزیاں اس کے ساتھ کرتے ہیں، وہ پھر بھی صبر کرتا ہے اور مہلت دیتا ہے۔ (سبحان اللہ) وَتَصِفُ اَلْسِـنَتُهُمُ الْكَذِبَ : کہتے ہیں کہ ہمیں دنیا میں چین اور خوش حالی ملی ہے، اس سے اللہ تعالیٰ کا ہم پر خوش ہونا ثابت ہوتا ہے، اس لیے اگر آخرت واقعی ہوئی تو وہاں ہمیں یہ سب کچھ ملے گا۔ دیکھیے سورة مریم (٧٧ تا ٨٠) ، سورة حٰمٓ السجدہ (٥٠) اور سورة کہف (٣٦) ۔ وَاَنَّهُمْ مُّفْرَطُوْنَ :” مُّفْرَطُوْنَ “ باب افعال سے اسم مفعول ہے۔ ” فَرَطٌ“ اسے کہتے ہیں جسے کوئی قوم اپنے سے پہلے بھیج دے، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( أَنَا فَرَطُکُمْ عَلَی الْحَوْضِ ) [ بخاری، الرقاق، باب في الحوض : ٦٥٧٥، عن ابن مسعود (رض) ] ” میں حوض پر تم سے پہلے جا کر تمہارے لیے ضروریات کا بندوبست کرنے والا ہوں۔ “ یعنی کوئی شک نہیں کہ انھی کے لیے آگ ہے اور یہ مشرک دوسرے گناہ گاروں سے پہلے وہاں پہنچائے جانے والے ہیں۔ ” مُّفْرَطُوْنَ “ کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ وہ دوزخ میں جھونک دیے جانے کے بعد وہیں چھوڑ دیے جائیں گے اور انھیں قطعی فراموش کردیا جائے گا، وہیں پڑے سڑتے رہیں گے، فرمایا : (وَقِيْلَ الْيَوْمَ نَنْسٰـىكُمْ كَمَا نَسِيْتُمْ لِقَاۗءَ يَوْمِكُمْ ھٰذَا ) [ الجاثیۃ : ٣٤ ] ” اور کہہ دیا جائے گا کہ آج ہم تمہیں بھلا دیں گے جیسے تم نے اپنے اس دن کے ملنے کو بھلا دیا۔ “ عرب کہتے ہیں : ” مَا أَفْرَطْتُ وَرَاءِيْ أَحَدًا “ ” میں نے اپنے پیچھے کسی کو نہیں چھوڑا۔ “ مفسرین نے دونوں معانی بیان کیے ہیں اور دونوں باتیں ایک ہی وقت میں ہوسکتی ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَيَجْعَلُوْنَ لِلّٰهِ مَا يَكْرَهُوْنَ وَتَصِفُ اَلْسِـنَتُهُمُ الْكَذِبَ اَنَّ لَهُمُ الْحُسْنٰى ۭ لَا جَرَمَ اَنَّ لَهُمُ النَّارَ وَاَنَّهُمْ مُّفْرَطُوْنَ 62؀ كره قيل : الْكَرْهُ والْكُرْهُ واحد، نحو : الضّعف والضّعف، وقیل : الكَرْهُ : المشقّة التي تنال الإنسان من خارج فيما يحمل عليه بِإِكْرَاهٍ ، والکُرْهُ : ما يناله من ذاته وهو يعافه، وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ [ التوبة/ 33] ( ک ر ہ ) الکرہ ( سخت ناپسند یدگی ) ہم معنی ہیں جیسے ضعف وضعف بعض نے کہا ہے جیسے ضعف وضعف بعض نے کہا ہے کہ کرۃ ( بفتح الکاف ) اس مشقت کو کہتے ہیں جو انسان کو خارج سے پہنچے اور اس پر زبر دستی ڈالی جائے ۔ اور کرہ ( بضم الکاف ) اس مشقت کو کہتے ہیں جو اسے نا خواستہ طور پر خود اپنے آپ سے پہنچتی ہے۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ [ التوبة/ 33] اور اگر چہ کافر ناخوش ہی ہوں ۔ وصف الوَصْفُ : ذكرُ الشیءِ بحلیته ونعته، والصِّفَةُ : الحالة التي عليها الشیء من حلیته ونعته، کالزِّنَةِ التي هي قدر الشیء، والوَصْفُ قد يكون حقّا وباطلا . قال تعالی: وَلا تَقُولُوا لِما تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ [ النحل/ 116] ( و ص ف ) الوصف کے معنی کسی چیز کا حلیہ اور نعت بیان کرنے کسے ہیں اور کسی چیز کی وہ حالت جو حلیہ اور نعمت کے لحاظ سے ہوتی ہے اسے صفۃ کہا جاتا ہے جیسا کہ زنۃ ہر چیز کی مقدار پر بولا جاتا ہے ۔ اور وصف چونکہ غلط اور صحیح دونوں طرح ہوسکتا ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَلا تَقُولُوا لِما تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ [ النحل/ 116] اور یونہی جھوٹ جو تمہاری زبان پر آئے مت کہہ دیا کرو ۔ لسن اللِّسَانُ : الجارحة وقوّتها، وقوله : وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي [ طه/ 27] يعني به من قوّة لسانه، فإنّ العقدة لم تکن في الجارحة، وإنما کانت في قوّته التي هي النّطق به، ويقال : لكلّ قوم لِسَانٌ ولِسِنٌ بکسر اللام، أي : لغة . قال تعالی: فَإِنَّما يَسَّرْناهُ بِلِسانِكَ [ الدخان/ 58] ، وقال : بِلِسانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ [ الشعراء/ 195] ، وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ [ الروم/ 22] فاختلاف الْأَلْسِنَةِ إشارة إلى اختلاف اللّغات، وإلى اختلاف النّغمات، فإنّ لكلّ إنسان نغمة مخصوصة يميّزها السّمع، كما أنّ له صورة مخصوصة يميّزها البصر . ( ل س ن ) اللسان ۔ زبان اور قوت گویائی کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي [ طه/ 27] اور میری زبان کی گرہ گھول دے ۔ یہاں لسان کے معنی قلت قوت گویائی کے ہیں کیونکہ وہ بندش ان کی زبان پر نہیں تھی بلکہ قوت گویائی سے عقدہ کشائی کا سوال تھا ۔ محاورہ ہے : یعنی ہر قوم را لغت دلہجہ جدا است ۔ قرآن میں ہے : فَإِنَّما يَسَّرْناهُ بِلِسانِكَ [ الدخان/ 58]( اے پیغمبر ) ہم نے یہ قرآن تمہاری زبان میں آسان نازل کیا ۔ بِلِسانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ [ الشعراء/ 195] فصیح عربی زبان میں ۔ اور آیت کریمہ : وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ [ الروم/ 22] اور تمہاری زبانوں اور نگوں کا اختلاف ۔ میں السنہ سے اصوات اور لہجوں کا اختلاف مراد ہے ۔ چناچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جس طرح دیکھنے میں ایک شخص کی صورت دوسرے سے نہیں ملتی اسی طرح قوت سامعہ ایک لہجہ کو دوسرے سے الگ کرلیتی ہے ۔ صدق وکذب الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ص دق) الصدق ۔ الکذب یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ جرم ( لاجرم) وقیل : جَرَمَ وجَرِمَ بمعنی، لکن خصّ بهذا الموضع «جرم» كما خصّ عمر بالقسم، وإن کان عمر وعمر «7» بمعنی، ومعناه : ليس بجرم أنّ لهم النار، تنبيها أنهم اکتسبوها بما ارتکبوه إشارة إلى قوله تعالی: وَمَنْ أَساءَ فَعَلَيْها [ الجاثية/ 15] . وقد قيل في ذلك أقوال، أكثرها ليس بمرتضی عند التحقیق «1» . وعلی ذلک قوله عزّ وجل : فَالَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ قُلُوبُهُمْ مُنْكِرَةٌ وَهُمْ مُسْتَكْبِرُونَ [ النحل/ 22] ، لا جَرَمَ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يُسِرُّونَ وَما يُعْلِنُونَ [ النحل/ 23] ، وقال تعالی: لا جَرَمَ أَنَّهُمْ فِي الْآخِرَةِ هُمُ الْخاسِرُونَ [ النحل/ 109] ( ج ر م ) الجرم ( ض) لا جَرَمَ أَنَّهُمْ فِي الْآخِرَةِ هُمُ الْخاسِرُونَ [ النحل/ 109] کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے لااصل میں محذوف پر داخل ہوا ہے جیسا کہ میں لا آتا ہے اور جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع ( بتقادب ) (89) لاوابیک ابنۃ العامری اور جرم فعل ماضی ہے جس کے معنی اکسبیا جنی ٰ کے ہیں اس کے بعد ان لھم النار ( جملہ ) موضع مفعول میں ہے اور معنی یہ ہیں کہ اس نے اپنے لئے ( دوزخ کی آگ ) حاصل کی ۔ بعض نے کہا ہے جرم اور جرم کے ایک ہی معنی ہیں لیکن لا کے ساتھ جرم آتا ہے جیسا کہ قسم کے ساتھ عمرو کا لفظ مختض ہے اگرچہ عمر و عمر کے معنی ایک ہی ہیں اور معنی یہ ہے کہ ان کے لئے آگ کا ہونا کسی کا جرم نہیں ہوگا بلکہ یہ ان کے عملوں کی سزا ہوگی اور انہوں نے خود ہی اسے اپنے لئے حاصل کیا ہوگا جیسا کہ آیت وَمَنْ أَساءَ فَعَلَيْها [ الجاثية/ 15] اور جو برے کام کرے گا ۔ تو ان کا ضرو اسی کو ہوگا ۔ میں اشارہ پایا جاتا ہے ۔ اس کی تفسیر میں اور بھی بہت سے اقوال منقول ہیں ۔ لیکن ان میں سے اکثر تحقیق کی رو سے صحیح نہیں ہیں اور اسی معنی کے لحاظ سے فرمایا :۔ فَالَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ قُلُوبُهُمْ مُنْكِرَةٌ وَهُمْ مُسْتَكْبِرُونَ [ النحل/ 22] لا جَرَمَ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يُسِرُّونَ وَما يُعْلِنُونَ [ النحل/ 23] تو جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل انکار کررہے ہیں اور جو ظاہر کرتے ہیں خدا ضرور اس کو جانتا ہے ۔ لا جَرَمَ أَنَّهُمْ فِي الْآخِرَةِ هُمُ الْخاسِرُونَ [ النحل/ 109] کچھ شک نہیں کہ یہ آخرت میں خسارہ اٹھانے والے ہوں گے نار والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] ، ( ن و ر ) نار اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ فرط فَرَطَ : إذا تقدّم تقدّما بالقصد يَفْرُطُ ، ما فَرَّطْتُمْ فِي يُوسُفَ [يوسف/ 80] . ( ف ر ط ) فرط یفرط ( ن ) کے معنی قصدا آگے بڑھ جانے کے ہیں ما فَرَّطْتُمْ فِي يُوسُفَ [يوسف/ 80] تم یوسف کے بارے میں قصؤر کرچکے ہو ۔ افرطت القریۃ مشکیزہ کو پانی سے خوب بھر دیا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٢) (العیاذ باللہ) اللہ تعالیٰ کے لیے بیٹیاں تجویز کرتے ہیں جن کو خود اپنے لیے ناپسند کرتے ہیں اور پھر اس پر اپنی زبان سے جھوٹے دعوے کرتے جاتے ہیں کہ ہمارے لیے لڑکے یا یہ کہ ہمارے لیے جنت ہے، ان لوگوں کے لیے جنت کہاں سے ہوتی، یقینی بات ہے کہ ان کے لیے جہنم ہے اور یہ سب سے پہلے اس میں ڈالے جائیں گے یا یہ کہ یہ دوزخ کی طرف منسوب کیے جائیں گے اور یا یہ کہ یہ قول وفعل میں حد سے تجاوز کررہے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٢ (وَيَجْعَلُوْنَ لِلّٰهِ مَا يَكْرَهُوْنَ ) یعنی ان میں سے کوئی بھی خود بیٹی کا باپ بننا پسند نہیں کرتا مگر اللہ کے ساتھ بیٹیاں منسوب کرتے ہوئے یہ لوگ ایسا کچھ نہیں سوچتے۔ (وَتَصِفُ اَلْسِـنَتُهُمُ الْكَذِبَ اَنَّ لَهُمُ الْحُسْنٰى) یہ لوگ اس زعم میں ہیں کہ دنیا میں انہیں عزت ‘ دولت اور سرداری ملی ہوئی ہے ‘ تو یہ دلیل ہے اس بات کی کہ اللہ ان سے خوش ہے اور انہیں یہ خوش فہمی بھی ہے کہ اگر اس نے یہاں انہیں یہ سب کچھ دیا ہے تو آخرت میں بھی وہ ضرور انہیں اپنی نعمتوں سے نوازے گا۔ چناچہ دنیا ہو یا آخرت ان کے لیے تو بھلائی ہی بھلائی ہے۔ (لَا جَرَمَ اَنَّ لَهُمُ النَّارَ وَاَنَّهُمْ مُّفْرَطُوْنَ ) دنیا میں ان کی رسی دراز کرنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ اللہ کی نافرمانی میں جس حد تک جری ہو کر آگے بڑھ سکتے ہیں بڑھتے چلے جائیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(16:62) تصف السنتہم الکذب۔ ان کی زبانیں جھوٹ بکتی ہیں کہ ان لہم الحسنی کہ ان کے لئے بھلائی ہی مقدر ہے۔ لاجرم۔ یقینا اور حقاً کا ہم معنی ہے۔ ضروری ۔ یقینی۔ ناگزیر۔ مفرطون۔ اسم مفعول ۔ جمع مذکر۔ افراط (افعال) مصدر۔ آگے بھیجے ہوئے۔ آگے روانہ کئے جانے والے۔ فرط یفرط (باب نصر) آگے بڑھ جانا۔ اور افرط فلان اعجلہ۔ کسی کو آگے جلدی بھیجنا۔ مفرطون۔ ای مقدمون ومعجلون۔ جلدی آگے بھیجے جانے والے۔ وانہم مفرطون۔ اور ان کو (دوزخ میں) پہلے بھیجا جائے گا۔ افراط (باب افعال) زیادتی کرنا۔ عمداً وقصداً آگے بڑھنا۔ تجاوز کرنا۔ اور باب تفعیل سے تفریط کوتاہی کرنا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 جیسے بیٹیاں یا اپنی ملکیت ہیں کسی دوسرے کی شرکت یا گستاخی اور بدتمیزی کا معاملہ۔ (ابن کثیر) 11 کہتے ہیں کہ ہم دنیا میں بھی چین اور خوشحلای کے حقدار ہیں اور اگر آخرت آئی تو وہاں بھی انعام واکرام کے مستحق ہونگے۔ (ابن کثیر) 12 یا دوزخ میں جھنک دیئے جانے کے بعد انہیں قطعی فراموش کردیا جائیگا۔ اور وہ وہاں پڑے جلتے رہیں گے۔ مفسرین نے مفرطون کے یہ دونوں معنی بیان کئے ہیں اور دونوں میں کسی قسم کی منافات نہیں ہے۔ (ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ کافر، مشرک اور مجرم لوگ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی مہلت سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے بارے میں ہرزہ سرائی کرتے ہیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ کافر، مشرک اور مجرم لوگ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی مہلت سے فائدہ اٹھا کر اپنے عقائد اور جرائم سے توبہ کرتے۔ لیکن یہ لوگ اس مدت سے حقیقی فائدہ اٹھانے کے بجائے اس قدر دلیر ہوگئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے لیے بیٹیاں تجویز کرتے ہیں اور اپنے لیے بیٹے پسند کرتے ہیں۔ جو سراسر زیادتی اور جھوٹ ہے۔ اس زیادتی اور کذب بیانی کے باوجود یہ خیال کرتے ہیں کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے ہمیں دنیا کے اسباب و وسائل دے رکھے ہیں۔ اسی طرح آخرت میں بھی ہمیں سب کچھ مل جائے گا۔ گویا کہ دنیا میں بھی ہم ایمانداروں سے بہتر ہیں اور آخرت میں بھی ان سے بہتر ہوں گے۔ یہ ایسی دیدہ دلیری اور لاف زنی ہے، جس کی سزادہکتی ہوئی آگ ہے، جس میں انہیں دھکیلا جائے گا۔ مزید ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ اپنی ذات کبریا کی قسم اٹھا کر فرماتا ہے کہ اے رسول ! ہم نے آپ سے پہلے بھی رسول بھیجے۔ جن کے ساتھ کفار، مشرکین اور مجرم لوگوں نے یہی وطیرہ اختیار کیا۔ جس کی وجہ یہ ہے شیطان ان کے نظریات اور کردار کو ان کے لیے خوبصورت بنا کر پیش کرتا ہے۔ ان لوگوں کا شیطان ہی ولی اور سرپرست ہے جو انہیں ایسی باتیں بتلاتا ہے۔ اس پاداش میں انہیں اذیت ناک عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔ مسائل ١۔ مشرکین اللہ تعالیٰ کے ذمہ وہ باتیں اور چیزیں لگاتے ہیں۔ جنہیں اپنے لیے پسند نہیں کرتے۔ ٢۔ مشرکین جھوٹ بولتے ہیں۔ ٣۔ مشرکین کے لیے خیر نہیں بلکہ ان کے لیے آگ ہے۔ ٤۔ شیطان انسان کو اس کے غلط اعمال خوشنما کر کے پیش کرتا ہے۔ ٥۔ شیطان کے پیروکاروں کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے والوں کا انجام : ١۔ ان کی زبانیں جھوٹ کہتی ہیں کہ ان کے لیے بھلائی ہے حالانکہ ان کے لیے آگ ہے۔ (النحل : ٦٢) ٢۔ اللہ پر جھوٹ باندھنے والے ظالم ہیں۔ (آل عمران : ٩٤) ٣۔ اس سے بڑا ظالم کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے یا اس کی آیات کو جھٹلاتا ہے۔ (الانعام : ٢١) ٤۔ جھوٹ باندھنے والے نقصان اٹھائیں گے۔ (طٰہٰ : ٦١) ٥۔ قیامت کے دن جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہوگی۔ (ھود : ١٨) ٦۔ اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہے ؟ جو اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے اور اسکی آیات کو جھٹلاتا ہے۔ (الانعام : ٩٣) ٧۔ اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہے ؟ جو اللہ پر افتراء بازی کرتا ہے اور اس کی آیات کی تکذیب کرتا ہے۔ یقیناً مجر م فلاح نہیں پائیں گے۔ (یونس : ١٧) ٨۔ اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہے ؟ جو اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے اور حق کو جھٹلاتا ہے، کیا ایسے لوگوں کا ٹھکانہ جہنم نہیں ہے ؟ (العنکبوت : ٦٨)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر ٦٢ انداز بیان یوں ہے کہ گویا ان کی زبانیں بذات خود مجسمہ کذب ہیں یا یہ جھوٹ کی تصویر ہیں۔ بذات خود ان کی زبان کے لوتھڑے سے جھوٹ ٹپکتا ہے۔ جیسا کہ ضرب المثل ہے “ اس کا قد خوبصورتی کی تعریف کرتا ہے۔ اور اس کی آنکھ حور کی مدح خواں ہے ”۔ گویا اس کا قد ہی مظہر ہے کہ وہ خوبصورت اور سمارٹ ہے اور اس کی آنکھ اسی طرح ہے جس طرح حورعین۔ اسی انداز بیان کے مطابق کہا گیا کہ “ ان کی زبانیں جھوٹ کی تعریف کر رہی ہیں ”۔ گویا وہ مجسمہ جھوٹ ہیں کیونکہ یہ زبانیں ہر وقت جھوٹ بولتی رہتی ہیں اس لیے وہ بذات خود جھوٹ ہیں۔ ان کا جھوٹ کیا ہے ؟ یہ دعویٰ کہ ان کے لئے کوئی اچھا ہی انجام ہے لیکن عقیدہ یہ ہے کہ جو بات خود اپنے لیے پسند نہیں کرتے وہ خدائے کبریا کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ البتہ وہ سچائی جس سے وہ دوچار ہونے والے ہیں۔ آیت کی تکمیل سے قبل ہی ان کو بتا دی جاتی ہے اور وہ لاریب اور بلاشبہ اس سے دوچار ہوں گے ، وہ یہ ہے کہ ان لوگوں کی سزا آگ ہے اور وہ بغیر کسی تاخیر کے سب سے پہلے اس میں ڈالے جائیں گے۔ مفرطون کے معنی ہیں معجلون ، اور مفرط وہ شخص ہوتا ہے جسے سب سے پہلے بھیجا جائے بغیر کسی تاخیر کے۔ ٭٭٭ اے پیغمبر یہ لوگ پہلے ظالم اور تجاوز کرنے والے نہیں ہیں اور یہ سب سے پہلے ناشکرے نہیں ہیں۔ ان سے پہلے بھی تاریخ عالم میں بہت سے بےراہ رو اور ناشکرے گزرے ہیں۔ شیطان نے ان کو گمراہ کیا اور ان کے لئے ان کے نظریات اور اعمال کو خوبصورت بنایا۔ شیطان ان کا نگراں بن گیا ، اور ان کو اپنی مرضی کے مطابق چلاتا پھراتا رہا اور تم سے پہلے بھی اللہ نے ایسے لوگوں کو شیطانی چنگل سے چھڑانے کے لئے رسول بھیجے تا کہ وہ ان کو سچ اور حق بتا دیں اور ان اختلافات کو اچھی طرح حل کردیں جن میں ان کے درمیان اختلاف واضح ہوگیا تھا تا کہ یہ حل ان کے لئے ہدایت و رحمت کا باعث ہو ، خصوصاً ان لوگوں کے لئے جو ایمان لے آئیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(وَ تَصِفُ اَلْسِنَتُھُمُ الْکَذِبَ اَنَّ لَھُمُ الْحُسْنٰی) اور ان کی زبانیں جھوٹا دعویٰ کرتی ہیں کہ ان کے لیے بھلائی ہے (یعنی وہ شرک بھی کرتے ہیں اور ساتھ ہی یوں بھی کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہم سے خوش ہے اور وہ ہمیں ہمیشہ اچھے حال میں رکھے گا) ایسا کہنے والوں میں وہ لوگ بھی تھے جو کافر تھے لیکن فی الجملہ قیامت قائم ہونے کے بھی قائل تھے جیسا کہ ہندوستان کے ہندو نرگ سرگ کا عقیدہ رکھتے ہیں ایسے لوگوں کا خیال رکھتے ہوئے بعض حضرات نے الحسنی سے جنت بھی مراد لی ہے اور منکرین کا کلام برسبیل فرض بھی ہوسکتا ہے اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ کافر یوں کہتے ہیں کہ بالفرض قیامت موت کے بعد اگر جنت و دوزخ کا معاملہ ہوگیا جیسا کہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہتے ہیں تو ہمیں جنت ہی ملے گی، جھوٹے دعوے کرنے والوں کی تردید کرتے ہوئے فرمایا (لَا جَرَمَ اَنَّ لَھُمُ النَّارَ ) (یہ بات لازمی ہے کہ ان کے لیے دوزخ ہے اور یہ بات بھی لازمی ہے کہ انہیں دوزخ میں دوسرے لوگوں سے پہلے جلدی بھیج دیا جائے گا۔ )

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

47:۔ یہ ” و یجعلون للہ البنات “ کا اعادہ برائے بعد عہد ہے۔ مشرکین کے ایک جھوٹے دعوے کی قباحت و شناعت کو واضح کرنے کے لیے ان کی مذکورہ بالا شرارت کو دوبارہ بیان کیا گیا یعنی ایک طرف تو وہ اللہ تعالیٰ کی ذات پاکیزہ پر اتنا بڑا بہتان باندھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے بیٹیاں ہیں حالانکہ خود بیٹیوں کو پسند کرتے یا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی الوہیت میں معبود باطلہ کو شریک کرتے ہیں حالانکہ اپنے دائرہ اقتدار میں کسی کی شرکت گوارا نہیں کرتے ” ما یکرھون لانفسہم من البنات و من شرکاء فی ریاستھم الخ “ (مدارک ج 2 ص 224) ۔ اور دوسری طرف یہ جھوٹا دعوی کرتے ہیں کہ وہ جنت کے وارث ہوں گے یعنی اگر بالفرض قیامت آ بھی گئی تو انہیں آخرت میں بھی جنت ملے گی کیونکہ دنیا میں بھی انہیں جنت کی سی عیش حاصل ہے۔ ان لھم الحسنی عند اللہ وھی الجنۃ ان کان البعث حقا (مدارک) انکار علیھم فی دعوھم مع ذلک ان لھم الحسنی فی الدنیا وان کان ثم معاد ففیہ ایضا لھم الحسنی (ابن کثیر ج 2 ص 573) ۔ 48:۔ یہ ” تصف السنتکم الْکذب “ میں الکذب کا بیان ہے۔ ” لاجرم الخ “ یہ تخویف اخروی ہے اور مشرکین کے دعوی باطلہ کا رد ہے یعنی ان کے لیے جنت نہیں بلکہ لامحالہ وہ دوزخ میں جائیں گے۔ ” وانھم مفرطون “ اور انہیں سب سے پہلے دوزخ میں داخل کیا جائیگا اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ یعجل بھم یوم القیمۃ الی النار و ینسون فیھا ای یخلدون (ابن کثیر ج 2 ص 575) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

62 ۔ اور اللہ تعالیٰ کے لئے وہ امور اور وہ چیزیں تجویز کرتے ہیں جن کو اپنا جی نہ چاہے اور جن کو خود ناپسند کرتے ہیں اور اس پر ان کی زبانیں یہ جھوٹا دعویٰ کرتی ہیں اور جھوٹی جھوٹی باتیں بنائیں ہیں کہ ان کے لئے ہر طرح کی خوبی اور بھلائی ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہے کہ ان کے لئے بھلائی کہاں رکھی ہے ان کے لئے تو قیامت میں جہنم ہے اور بلا شبہ یہ اس میں سب سے پہلے بڑھائے جائیں گے۔ یعنی ایسی تو باتیں کرتے ہیں کہ بیٹی کو خود پسند نہ کریں اور خدا پر بیٹیوں کا الزام لگائیں سڑ ی گلی چیزیں اور باسی روٹی خدا کی راہ میں دیں پھر یہ توقع کریں کہ اگر قیامت آئی تو ہم کو وہاں بھی بھلائی ملے یعنی قیامت کا یقین تو ہے نہیں اور اگر وہ عالم واقع بھی ہوا تو وہاں بھی ہم کو مزے اور بھلائیاں ہوں گی۔ اس کا جواب فرمایا کہ اس دنیا پر اس عالم کو قیاس نہ کرو وہاں تو تمہارے لئے جہنم ہے اور اسی کی طرف بڑھائے جائو گے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یہ ان کو فرمایا جو ناکاری چیز اللہ کے نام دیں اس پر یقین کریں کہ ہم کو بہشت ملے گی اور دے روز بروز دوزخ میں بڑھتے ہیں۔ 12 خلاصہ۔ یہ کہ دوزخ سے قریب ہو رہے ہیں ۔ مفرطون کے معنی کئی طرح کئے گئے ہیں ہم نے ترجمہ اور تیسیر میں ظاہر کردیا ہے۔