Surat un Nahal

Surah: 16

Verse: 63

سورة النحل

تَاللّٰہِ لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلٰۤی اُمَمٍ مِّنۡ قَبۡلِکَ فَزَیَّنَ لَہُمُ الشَّیۡطٰنُ اَعۡمَالَہُمۡ فَہُوَ وَلِیُّہُمُ الۡیَوۡمَ وَ لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ﴿۶۳﴾

By Allah , We did certainly send [messengers] to nations before you, but Satan made their deeds attractive to them. And he is the disbelievers' ally today [as well], and they will have a painful punishment.

واللہ! ہم نے تجھ سے پہلے کی امتوں کی طرف بھی اپنے رسول بھیجے لیکن شیطان نے ان کے اعمال بد ان کی نگاہوں میں آراستہ کر دیئے وہ شیطان آج بھی ان کا رفیق بنا ہوا ہے اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Finding Consolation in the Reminder of Those Who came before Allah says, تَاللّهِ لَقَدْ أَرْسَلْنَا إِلَى أُمَمٍ مِّن قَبْلِكَ فَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ ... By Allah, We indeed sent (Messengers) to the nations before you, but Shaytan made their deeds seeming fair to them. Allah says, `He sent Messengers to the nations of the past, and they were rejected. You, O Muhammad, have an example in your brothers among the Messengers, so do not be distressed by your people's rejection. As for the idolators' rejection of the Messengers, the reason for this is that the Shaytan made their deeds attractive to them.' ... فَهُوَ وَلِيُّهُمُ الْيَوْمَ ... So today he (Shaytan) is their helper, meaning they will be suffering punishment while Shaytan is their only helper, and he cannot save them, so they have no one to answer their calls for help, ... وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ and theirs will be a painful torment. The Reason why the Qur'an was revealed Allah says,

شیطان کے دوست اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ تسلی رکھیں ۔ آپ کو آپ کی قوم کا جھٹلانا کوئی انوکھی بات نہیں کون سا نبی آیا جو جھٹلایا نہ گیا ؟ باقی رہے جھٹلانے والے وہ شیطان کے مرید ہیں ۔ برائیاں انہیں شیطانی وسو اس سے بھلائیاں دکھائی دیتی ہیں ۔ ان کا ولی شیطان ہے وہ انہیں کوئی نفع پہنچانے والا نہیں ۔ ہمیشہ کے لئے مصیبت افزا عذابوں میں چھوڑ کر ان سے الگ ہو جائے گا ۔ قرآن حق و باطل میں سچ جھوٹ میں تمیز کرانے والی کتاب ہے ، ہر جھگڑا اور ہر اختلاف کا فیصلہ اس میں موجود ہے ۔ یہ دلوں کے لئے ہدایت ہے اور ایماندار جو اس پر عامل ہیں ، ان کے لئے رحمت ہے ۔ اس قرآن سے کس طرح مردہ دل جی اٹھتے ہیں ، اس کی مثال مردہ زمین اور بارش کی ہے جو لوگ بات کو سنیں ، سمجھیں وہ تو اس سے بہت کچھ عبرت حاصل کر سکتے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

63۔ 1 جس کی وجہ سے انہوں نے بھی رسولوں کی تکذیب کی جس طرح پیغمبر قریش مکہ تیری تکذیب کر رہے ہیں۔ 63۔ 2 اَلْیَوْمَ سے یا تو زمانہ دنیا مراد ہے، جیسا کہ ترجمے سے واضح ہے، یا اس سے مراد آخرت ہے کہ وہاں بھی یہ ان کا ساتھی ہوگا۔ یعنی یہی شیطان جس نے پچھلی امتوں کو گمراہ کیا، آج وہ ان کفار مکہ کا دوست ہے اور انھیں تکذیب رسالت پر مجبور کر رہا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٠] پہلے رسولوں کی امتوں کو بھی یہی کچھ سوجھتا رہا۔ وہ بھی دنیا کی دل فریبیوں اور دلچسپیوں میں مگن اور مست ہوگئے اور شیطان انھیں بھی یہی پٹی پڑھاتا رہا کہ تمہارا پروردگار اس وقت تم پر بڑا مہربان ہے لیکن بالآخر وہ اللہ کی گرفت میں آگئے اور ان کا نام و نشان بھی صفحہ ئہستی سے مٹ گیا۔ اور آج شیطان ان مکہ کے کافروں کو یہی کچھ سجھا رہا ہے اور جو کچھ یہ ظلم اور زیادتیاں مسلمانوں سے کر رہے ہیں، انھیں نہایت اچھے کام بناکر ان کا جی خوش کر رہا ہے لیکن انجام ان کا بھی وہی ہونے والا ہے جو پہلے لوگوں کا ہوا تھا۔ اس آیت میں الیوم سے مراد قیامت کا دن بھی لیا جاسکتا ہے۔ یعنی قیامت کے دن بھی شیطان ہی ان کا لیڈر ہوگا جو انھیں جہنم کے دردناک عذاب میں جاپہنچائے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

تَاللّٰهِ لَقَدْ اَرْسَلْنَآ ۔۔ : اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات پاک کی قسم کھا کر فرمایا اور اپنی عظمت کے اظہار کے لیے جمع کا صیغہ استعمال کیا کہ ” ہم “ نے رسول بھیجے، ورنہ اللہ تعالیٰ تو ایک ہے۔ فَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطٰنُ اَعْمَالَهُمْ : تو شیطان جو ازلی دشمن تھا، اس نے ان کے وہی برے اعمال جو وہ کرتے تھے، مثلاً کفر و شرک اور دوسری کمینگیاں، وہ ان کے لیے ایسے خوش نما اور خوبصورت بنا دیے کہ انھوں نے سمجھا ہم بہت اچھے کام کر رہے ہیں، چناچہ اسی دھوکے میں انھوں نے رسولوں کی بات ماننے سے انکار کردیا۔ فَهُوَ وَلِيُّهُمُ الْيَوْمَ ۔۔ : تو وہی جو ہمیشہ کا دشمن تھا آج ان کا دوست بن گیا اور ظاہر ہے کہ جہاں ان کا دوست جائے گا اس کے ساتھ ہی وہ بھی عذاب الیم میں جائیں گے۔ ایک مطلب یہ بھی ہے کہ وہ شیطان جو پہلی کافر قوموں کا دوست بنا تھا آج ان کفار عرب کا بھی وہی دوست ہے اور ان کا نتیجہ بھی وہی ہے جو ان کا ہوا۔ مقصد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینا ہے کہ آپ ان کفار کی حرکتوں سے رنجیدہ اور کبیدہ خاطر نہ ہوں، پہلے بھی ایسے ہوتا رہا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

تَاللّٰهِ لَقَدْ اَرْسَلْنَآ اِلٰٓى اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِكَ فَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطٰنُ اَعْمَالَهُمْ فَهُوَ وَلِيُّهُمُ الْيَوْمَ وَلَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ 63؀ رسل وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ، ( ر س ل ) الرسل اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ الأُمّة : كل جماعة يجمعهم أمر ما إمّا دين واحد، أو زمان واحد، أو مکان واحد سواء کان ذلک الأمر الجامع تسخیرا أو اختیارا، وجمعها : أمم، وقوله تعالی: وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثالُكُمْ [ الأنعام/ 38] الامۃ ہر وہ جماعت جن کے مابین رشتہ دینی ہو یا وہ جغرافیائی اور عصری وحدت میں منسلک ہوں پھر وہ رشتہ اور تعلق اختیاری اس کی جمع امم آتی ہے اور آیت کریمہ :۔ { وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُمْ } ( سورة الأَنعام 38) اور زمین پر جو چلنے پھر نے والے ( حیوان ) دو پروں سے اڑنے والے پرند ہیں وہ بھی تمہاری طرح جماعتیں ہیں زين الزِّينَةُ الحقیقيّة : ما لا يشين الإنسان في شيء من أحواله لا في الدنیا، ولا في الآخرة، فأمّا ما يزينه في حالة دون حالة فهو من وجه شين، ( زی ن ) الزینہ زینت حقیقی ہوتی ہے جو انسان کے لئے کسی حالت میں بھی معیوب نہ ہو یعنی نہ دنیا میں اور نہ ہی عقبی ٰ میں اور وہ چیز جو ایک حیثیت سی موجب زینت ہو لیکن دوسری حیثیت سے موجب زینت نہ ہو وہ زینت حقیقی نہیں ہوتی بلکہ اسے صرف ایک پہلو کے اعتبار سے زینت کہہ سکتے ہیں شطن الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن/ 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام/ 112] ( ش ط ن ) الشیطان اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن/ 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام/ 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے عذب والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر، ( ع ذ ب ) العذاب سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا ألم الأَلَمُ الوجع الشدید، يقال : أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قال تعالی: فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَما تَأْلَمُونَ [ النساء/ 104] ، وقد آلمت فلانا، و عذاب أليم، أي : مؤلم . وقوله : لَمْ يَأْتِكُمْ [ الأنعام/ 130] فهو ألف الاستفهام، وقد دخل علی «لم» . ( ا ل م ) الالم کے معنی سخت درد کے ہیں کہا جاتا ہے الم یالم ( س) أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قرآن میں ہے :۔ { فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ } ( سورة النساء 104) تو جس طرح تم شدید درد پاتے ہو اسی طرح وہ بھی شدید درد پاتے ہیں ۔ اٰلمت فلانا میں نے فلاں کو سخت تکلیف پہنچائی ۔ اور آیت کریمہ :۔ { وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ } ( سورة البقرة 10 - 174) میں الیم بمعنی مؤلم ہے یعنی دردناک ۔ دکھ دینے والا ۔ اور آیت :۔ اَلَم یَاتِکُم (64 ۔ 5) کیا تم کو ۔۔ نہیں پہنچی ۔ میں الف استفہام کا ہے جو لم پر داخل ہوا ہے ( یعنی اس مادہ سے نہیں ہے )

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٣) بخدا آپ سے پہلے بھی دیگر امتوں کو شیطان نے ان کے اعمال کفریہ مستحسن کرکے دکھلائے اور وہ انبیاء کرام پر ایمان نہ لائے، وہ دنیا میں بھی ان کا رفیق تھا اور دوزخ میں بھی ان کے ساتھ ہوگا اور ان کے لیے آخرت میں دردناک عذاب مقرر ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٣ (تَاللّٰهِ لَقَدْ اَرْسَلْنَآ اِلٰٓى اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِكَ فَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطٰنُ اَعْمَالَهُمْ ) شیطان کے بہکاوے کے سبب وہ لوگ اس خوش فہمی میں رہے کہ ان کا کلچر ان کی تہذیب اور ان کی روایات سب سے اعلیٰ ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

26: یعنی یہ پٹی پڑھائی کہ تم جو اعمال کر رہے ہو وہی بہترین اعمال ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٦٣۔ ٦٥۔ اللہ پاک نے اپنی ذات مقدس کی قسم کھا کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تسلی دینے کو یہ آیتیں نازل فرمائیں اور فرمایا کہ تم ان مشرکوں کی باتوں سے تنگ دل نہ ہو ہم نے تم سے پہلے پہلی امتوں میں بھی رسول بھیجے ہیں جنہیں ان لوگوں نے اسی طرح جھٹلایا ہے جس طرح کفار مکہ تم کو جھٹلاتے ہیں اور شیطان نے ان کے کاموں کو ایسی زیب وزینت دی کہ وہ لوگ شیطان کے وسوسہ سے گمراہی میں پڑے رہے اور اپنی عقل و سمجھ سے انہوں نے کچھ کام نہ لیا اس واسطے دنیا میں بھی ان کا ساتھی یہی شیطان ہے جس کے بہکانے میں وہ پڑے رہے اور آخرت میں بھی اسی کے ساتھ بہت سخت عذاب کے سزا وار ہوں گے اللہ پاک نے اپنے کلام پاک کی نسبت فرمایا کہ جو کچھ ہم اتارتے ہیں وہ اس واسطے ہے کہ تم ان لوگوں کے اختلاف کی حقیقت کھول کر بتلا دو کہ توحید اور قیامت کا قائم ہونا اور احکام دین جس کے یہ لوگ منکر ہیں اور جو لوگ اس پر ایمان رکھتے ہیں ان کا فیصلہ ظاہر ہوجاوے کہ کون ان میں حق پر ہے اور کون جہالت میں پڑا ہوا ہے۔ پھر فرمایا کہ یہ قرآن پاک اس ایماندار بندے کے لئے ہدایت اور رحمت ہے جو اس کو پڑھتا ہے اور غور کرتا ہے پھر فرمایا کہ اگر یہ کفار اور مشرکین اس بات سے بےخوف ہوں کہ کیسی قیامت اور کیسی دوزخ اور بہشت اور پھر مرنے کے بعد زندہ ہونا کیسا تو ان لوگوں کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ خدا کو ہر طرح کی قدرت ہے ایک ذرا سی بات یہ ہے کہ زمین میں جب خشکی کی انتہا ہوجاتی ہے اور سارے درخت خشک ہو کر مردہ ہوجاتے ہیں تو وہ آسمان سے مینہ برسا کر زمین کو تروتازہ کردیتا ہے۔ اور پھر زمین گویا زندہ ہوجاتی ہے اور سارے درخت ہرے بھرے ہوجاتے ہیں اسی طرح اسے یہ بھی قدرت ہے کہ ہر جاندار کے فنا ہوجانے کے بعد اسے زندہ کر دے گا جو لوگ دل کے کان رکھتے ہیں اور اس کی مدد سے ہر ایک طرح کی باتوں کو سنتے ہیں اور غور کرتے ہیں ان کے واسطے یہ بہت بڑی دلیل ہے اور جو لوگ دل کے اندھے ہیں انہیں کسی دلیل سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ صحیح بخاری کے حوالہ سے حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کی روایت ایک جگہ گزر چکی ہے ١ ؎۔ کہ قوم نوح میں کچھ نیک لوگ مرگئے تھے جن کے مرجانے کا رنج ان کے رشتے داروں اور معتقدوں کو بہت تھا شیطان نے موقع پا کر پہلے تو ان لوگوں کے دل میں یہ وسوسہ ڈالا کہ ان نیک لوگوں کی شکل کی مورتیں بنا کر آنکھوں کے سامنے رکھ لی جاویں تو ان مورتوں کے ہر وقت دیکھ لینے سے وہ اصل نیک لوگ گویا آنکھوں کے سامنے آجاویں گے اور ان کی جدائی کا رنج کسی قدر کم ہوجاوے گا اور پھر کچھ عرصہ کے بعد ان مورتوں کی پوجا دنیا میں پھیلا دی یہ حدیث فزین لھم الشیطان اعمالھم کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ شیطان برے کاموں کو زیب وزینت دے کر ایسا کردیتا ہے کہ ان برے کاموں کی برائی لوگوں کو نظر نہیں آتی صحیح مسلم کے حوالہ سے عبد اللہ بن مسعود (رض) کی حدیث ٢ ؎ ایک جگہ گزر چکی ہے کہ ہر ایک شخص کے ساتھ ایک فرشتہ اور ایک شیطان رہتا ہے فرشتہ اس شخص کو نیک کاموں کی نصیحت کرتا ہے اور شیطان اس شخص کے دل میں برے کاموں کا وسوسہ ڈالتا رہتا ہے یہ حدیث فھو ولیھم الیوم کی گویا تفسیر ہے۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ مشرکین مکہ ہر وقت شیطانی وسوسہ کے موافق برے کاموں میں لگے رہتے تھے۔ اس لئے شیطان کو ان کا رفیق فرمایا صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے ابو سعید خدری (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن کی نصیحت کی مثال مینہ کے پانی کی اور اچھے برے لوگوں کی مثال اچھی بری زمین کی فرمائی ہے۔ یہ حدیث و ھدی ورحمۃ لقوم یؤمنون کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ مینہ کے پانی کی طرح اگرچہ قرآن کی نصیحت عام فائدہ کے لئے ہے مگر اس سے فائدہ وہی لوگ اٹھا سکتے ہیں جو اچھی زمین کی طرح علم الٰہی میں فرمانبردار قرار پاچکے ہیں اور جو لوگ علم الٰہی میں نافرمان ٹھہر چکے ہیں ان کے حق میں قرآن کی نصیحت ایسی رائیگاں ہے جس طرح بری زمین میں مینہ کا پانی رائیگاں جاتا ہے ان آیتوں میں مختصر طور پر مینہ کے پانی سے کھیتی کی پیداوار کا ذکر فرمایا گیا ہے لیکن سورت الاعراف کھیتی کے ذکر کے بعد یہ بھی فرمایا ہے کذلک نخرج الموتی لعلکم تذکرون جس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح اب مینہ کے پانی کے اثر سے کھیتی کی پیداوار ہوتی ہے اسی طرح دوسری صور سے پہلے ایک مینہ برسے گا جس کے اثر سے سب جسم تیار ہوجاویں گے پھر ان میں روحیں پھونک دی جاویں گی اور منکرین حشر اپنی آنکھوں کے سامنے حشر کو دیکھ لیویں گے۔ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی روایت ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں دوسرے صور سے پہلے اس مینہ کا اور اس سے جسموں کے تیار ہوجانے کا ذکر تفصیل سے ہے۔ ١ ؎ صحیح بخاری ص ١٨ ج ١ باب فضل من علم و علم ٢ ؎ مشکوٰۃ ص ٤٨١ باب النخ نے الصور۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(16:63) ارسلنا الی امم۔ ای ارسلنا رسلا الی امم۔ ہم نے رسولوں کو مختلف قوموں کی طرف بھیجا۔ اعمالہم۔ ای اعمال الکفرو التکذیب۔ انکار اور تکذیب کے اعمال۔ الیوم۔ سے مراد آج بھی ہوسکتا ہے یعنی رسول ِ اکرم کا زمانہ۔ اور اس سے مراد مطلقاً زمانہ دنیا بھی ہوسکتا ہے اور اس سے مراد ” آج قیامت کے دن “ بھی ہوسکتا ہے۔ ولہم عذاب الیم۔ ای ولہم عذاب الیم فی الاخرۃ اور (آخرت کے دن ) ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 13 یعنی کفر و شرک کے جن برے کاموں کا وہ ارتکاب کر رہے تھے۔ 14 وہ سمجھے کہ بہت اچھے کام کر رہے ہیں چناچہ اس گھمنڈ میں آ کر انہوں نے انبیاء کی بات ماننے سے انکار کردیا۔ 1 جو ان کے کسی کام نہیں آسکتا اور نہ ان کی فریاد کو پہنچ سکتا ہے۔ بعض مفسرین نے فھم ولیھم الیوم میں ھم ضمیر کا سرمرجع مکہ کو قرار دے کر اس جملہ کا یہ مطلب لیا ہے کہ شیطان جس نے پچھلے لوگوں کو بہکایا تھا وہی آج ان کفار مکہ کا رفیق ہے لہٰذا جو حشر ان کا ہوا وہی ان کا بھی ہوگا۔ اس آیت سے مقصد آنحضرت کو تسلی دینا ہے کہ آپ ان کفار کی حرکتوں سے نجیدہ اور کبیدہ خاطر نہ ہوں۔ (روح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ غرض یہ لاحقین بھی ان سابقین کی طرح کفر کررہے ہیں اور ان ہی کی طرح ان کو سزا بھی ہوگی آپ کیوں غم میں پڑے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر ٦٣ تا ٦٤ پس اس آخری رسول اور اس آخری کتاب کا کام یہ ہے کہ وہ ان تمام مسائل کا فیصلہ کر دے جن میں امم سابقہ اور کتب سابقہ کے ماننے والوں کے درمیان اختلافات واقعہ ہوگئے تھے اور وہ طائفہ طائفہ اور فرقہ فرقہ ہوگئے تھے کیونکہ اصل حقیقت تو عقیدۂ توحید ہے اور عقیدۂ توحید کے اوپر جو شبہات ، شرک اور تشبیہات کے رنگ چڑھ گئے وہ سب باطل ہیں۔ قرآن کریم آیا ہی اس لیے ہے کہ وہ ان تمام باطل تصورات کو صاف کر کے رکھ دے اور ان لوگوں کے لئے باعث رحمت و ہدایت ہو جن کے قلوب ایمان و ایقان کے لئے کھلے ہوں اور وہ گوہر ایمان کو قبول کرنے کے لئے تیار ہوں۔ ٭٭٭ یہاں قرآن کریم نے اللہ کی الوہیت اور حاکمیت پر وہ دلائل دینے شروع کر دئیے ہیں جو اس کائنات میں بالکل عیاں ہیں۔ پھر ان صفات اور صلاحیتوں کو بیان کیا گیا ہے جو اللہ نے انسان کی ذات کے اندر ودیعت کر رکھی ہیں اور پھر وہ انعامات و احسانات بیان کئے ہیں جو اللہ نے اس انسان پر کئے ہیں ، وہ اس کے اردگرد موجود ہیں اور اللہ کے سوا یہ نعمتیں کوئی اور ذات نہ پیدا کرسکتی ہے ، نہ فراہم کرسکتی ہے۔ اس سے قبل والی آیت میں کتاب الٰہی کے نزول کی بات ہوئی تھی اور یہ اللہ کی نازل کردہ کتابوں میں سے آخری کتاب ہے جو بھلائی پر مشتمل ہے اور اس میں انسان کی روحانی زندگی کا سامان ہے ، چناچہ اس مناسبت سے یہاں آسمانوں سے بارشیں برسانے کا ذکر کیا گیا جس میں انسانوں کی جسمانی زندگی کا سامان ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (تَاللّٰہِ لَقَدْ اَرْسَلْنَآ اِلآی اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِکَ ) (الآیۃ) اللہ کی قسم ہم نے امتوں کی طرف آپ سے پہلے رسول بھیجے جنہوں نے حق کی دعوت دی، شیطان نے ان کے اعمال کو مزین کرکے پیش کیا اور ان کے دلوں میں کفر و شرک کو اچھا کر دکھایا (لہٰذا انہوں نے شیطان ہی کی بات مانی اور حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کے ساتھ بری طرح پیش آئے، جس طرح ان حضرات نے صبر کیا آپ بھی صبر کریں اور یہ جان لیں کہ اللہ کے رسولوں کے ساتھ ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔ ) جب شیطان کی بات مانی تو وہ ہی دنیا میں ان کا ولی بنا اور آخرت میں بھی وہی ولی ہوگا اور اس کی دوستی انہیں لے ڈوبے گی اور اس کے ساتھ درد ناک عذاب میں مبتلا ہوں گے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

49:۔ زجر مع تخویف اخروی آپ سے پہلے ہم نے امم سابقہ کے پاس بہت سے رسول پیغام توحید دے کر بھیجے، جس طرح آپ کی قوم شیطان کے ورغلانے سے آپ کی تکذیب کر رہی ہے اسی طرح اقوام سابقہ کو بھی شیطان نے بہکایا پھسلایا اور مشرکانہ اعمال کو ان کے سامنے خوبصورت بنا کر پیش کیا اور انہیں انبیاء (علیہم السلام) کی تکذیب پر اکسایا۔ لہذا قیامت کے دن ان سب کا حامی شیطان ہوگا مگر وہ ان کی ذرہ بھر حمایت نہیں کرسکے گا اور وہ سب دردناک عذاب میں مبتلا کردئیے جائیں گے۔ ” و ما انزلنا علیک الخ “ یہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلی ہے ہم نے آپ کو کتاب دے کر بھیجا ہے تاکہ آپ مسئلہ توحید اور حشر و نشر وغیرہ کو کھول کر لوگوں تک پہنچائیں اور ان کی خوب تبلیغ و اشاعت فرمائیں اگر کوئی نہ مانے اس کی پرواہ نہ کریں۔ ع۔ ہیچ مارا باقبولے کار نیست۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

63 ۔ اور اے پیغمبر ! اللہ تعالیٰ کی قسم ہم نے ان قوموں کی جانب بھی رسول بھیجے تھے جو آپ سے پہلے ہوچکی ہیں پھر شیطان نے ان لوگوں کو ان کے اعمال قبیحہ کو خوف آراستہ اور خوش منظر کر کے دکھایا وہی شیطان آج بھی ان کا رفیق اور سرپرست بنا ہوا ہے اور ان کے لئے قیامت میں درد ناک عذاب مقرر ہے ۔ یعنی مختلف امتوں کی طرف رسولوں کا آنا پہلے ہی سے جاری ہے پھر جس چیز نے ان کو گمراہ کیا اور کفر پر قائم رکھا وہی شیطان ان کفار مکہ کو بھی گمراہ اور تباہ و برباد کررہا ہے دنیا میں تویوں نقصان پہنچا رہا ہے کہ کفر کی باتیں ان کو مستحسن اور خوش نما کر کے دکھا رہا ہے اور آخر میں یوں تباہی ہوگی کہ ان کے لئے سخت درد ناک عذاب مقرر ہے۔