Surat un Nahal

Surah: 16

Verse: 71

سورة النحل

وَ اللّٰہُ فَضَّلَ بَعۡضَکُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ فِی الرِّزۡقِ ۚ فَمَا الَّذِیۡنَ فُضِّلُوۡا بِرَآدِّیۡ رِزۡقِہِمۡ عَلٰی مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُہُمۡ فَہُمۡ فِیۡہِ سَوَآءٌ ؕ اَفَبِنِعۡمَۃِ اللّٰہِ یَجۡحَدُوۡنَ ﴿۷۱﴾

And Allah has favored some of you over others in provision. But those who were favored would not hand over their provision to those whom their right hands possess so they would be equal to them therein. Then is it the favor of Allah they reject?

اللہ تعالٰی ہی نے تم میں سے ایک کو دوسرے پر روزی میں زیادتی دے رکھی ہے ، پس جنہیں زیادتی دی گئی ہے وہ اپنی روزی اپنے ما تحت غلاموں کو نہیں دیتے کہ وہ اور یہ اس میں برابر ہوجائیں تو کیا یہ لوگ اللہ کی نعمتوں کے منکر ہو رہے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

There is a Sign and a Blessing in Matters of People's Livelihood Allah says, وَاللّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ فِي الْرِّزْقِ فَمَا الَّذِينَ فُضِّلُواْ بِرَادِّي رِزْقِهِمْ عَلَى مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَهُمْ فِيهِ سَوَاء ... And Allah honored some of you over others with wealth and properties. Then, those who are so honored will by no means hand over their wealth and properties to those (captives of war) whom their right hands possess, so that they may be equal with them in that. Allah explains to the idolators the ignorance and disbelief involved in their claim that Allah has partners while also admitting that these partners are His servants. In their Talbiyah for Hajj, they used to say, "Here I am, there are no partners for You except Your own partner, You own him and everything he owns." Allah says, denouncing them: `You would not accept for your servant to have an equal share in your wealth, so how is it that Allah would accept His servant to be His equal in divinity and glory As Allah says elsewhere: ضَرَبَ لَكُمْ مَّثَلً مِّنْ أَنفُسِكُمْ هَلْ لَّكُمْ مِّن مَّا مَلَكَتْ أَيْمَـنُكُمْ مِّن شُرَكَأءَ فِى مَا رَزَقْنَـكُمْ فَأَنتُمْ فِيهِ سَوَاءٌ تَخَافُونَهُمْ كَخِيفَتِكُمْ أَنفُسَكُمْ He sets forth a parable for you from yourselves: Do you have partners among those whom your right hands possess (i.e. your servant) to share as equals in the wealth We have granted you, those whom you fear as you fear each other! (30:28) Al-Awfi reported that Ibn Abbas mentioned this Ayah, saying, "Allah is saying - `If they did not want their servant to have a share with them in their wealth and wives, how can My servant have a share with Me in My power!' Thus Allah says: ... أَفَبِنِعْمَةِ اللّهِ يَجْحَدُونَ Do they then deny the favor of Allah! According to another report, Ibn Abbas said: "How can they accept for Me that which they do not accept for themselves!" أَفَبِنِعْمَةِ اللّهِ يَجْحَدُونَ Do they then deny the favor of Allah! meaning, they assign to Allah a share of the tilth and cattle which He has created. They denied His blessings and associated others in worship with Him. Al-Hasan Al-Basri said: "Umar bin Al-Khattab wrote this letter to Abu Musa Al-Ash`ari: `Be content with your provision in this world, for the Most Merciful has honored some of His servants over others in terms of provision as a test of both. The one who has been given plenty is being tested to see if he will give thanks to Allah and fulfill the duties which are his by virtue of his wealth..."' It was reported by Ibn Abi Hatim.

مشرکین کی جہالت کا ایک انداز مشرکین کی جہالت اور ان کے کفر کا بیان ہو رہا ہے کہ اپنے معبودوں کو اللہ کے غلام جاننے کے باوجود ان کی عبادت میں لگے ہوئے ہیں ۔ چنانچہ حج کے موقع پر وہ کہا کرتے تھے دعا ( لبیک لا شریک لک الا شریکا ھو لک تملکہ وما ملک تملکہ وما ملک یعنی اے اللہ میں تیرے پاس حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں مگر وہ جو خود تیرے غلام ہیں ان کا اور ان کی ماتحت چیزوں کا اصلی مالک تو ہی ہے ۔ پس اللہ تعالیٰ انہیں الزام دیتا ہے کہ جب تم اپنے غلاموں کی اپنی برابری اور اپنے مال میں شرکت پسند نہیں کرتے تو پھر میرے غلاموں کو میری الوہیت میں کیسے شریک ٹھیرا رہے ہو ؟ یہی مضمون آیت ( ضَرَبَ لَكُمْ مَّثَلًا مِّنْ اَنْفُسِكُمْ 28؀ ) 30- الروم:28 ) میں بیان ہوا ہے ۔ کہ جب تم اپنے غلاموں کو اپنے مال میں اپنی بیویوں میں اپنا شریک بنانے سے نفرت کرتے ہو تو پھر میرے غلاموں کو میری الوہیت میں کیسے شریک سمجھ رہے ہو ؟ یہی اللہ کی نعمتوں سے انکار ہے کہ اللہ کے لئے وہ پسند کرنا ، جو اپنے لئے بھی پسند نہ ہو ۔ یہ ہے مثال معبودان باطل کی ۔ جب تم خود اس سے الگ ہو پھر اللہ تو اس سے بہت زیادہ بیزار ہے ۔ رب کی نعمتوں کا کفر اور کیا ہو گا کہ کھیتیاں چوپائے ایک اللہ کے پیدا کئے ہوئے اور تم انہیں اس کے سوا اوروں کے نام سے منسوب کرو ۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو ایک رسالہ لکھا کہ اپنی روزی پر قناعت اختیار کرو اللہ تعالیٰ نے ایک سے زیادہ امیر کر رکھا ہے یہ بھی اس کی طرف سے ایک آزمائش ہے کہ وہ دیکھے کہ امیر امراء کس طرح شکر الہی ادا کر تے ہیں اور جو حقوق دوسروں کے ان پر جناب باری نے مقرر کئے ہیں کہاں تک انہیں ادا کرتے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

71۔ 1 یعنی جب تم اپنے غلاموں کو اتنا مال اسباب دنیا نہیں دیتے کہ تمہارے برابر ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ کب یہ پسند کرے گا کہ تم کچھ لوگوں کو، جو اللہ ہی کے بندے اور غلام ہیں اللہ کا شریک اور اس کے برابر قرار دے دو ، اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ معاشی لحاظ سے انسانوں میں جو فرق پایا جاتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے فطری نظام کے مطابق ہے۔ جسے جبری قوانین کے ذریعے ختم نہیں کیا جاسکتا کہ اشتراکی نظام میں ہے یعنی معاشی مساوات کی غیر فطری کوشش کی بجائے ہر کسی کو معاشی میدان میں کسب معاش کے لئے مساوی طور پر دوڑ دھوپ کے مواقع میسر ہونے چاہیں۔ 71۔ 2 کہ اللہ کے دئیے ہوئے مال میں سے غیر اللہ کے لیے نذر نیاز نکالتے ہیں اور یوں کفران نعمت کرتے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٠] شرک اللہ سے بےانصافی اور ناشکری ہے :۔ یہ خطاب مشرکوں سے ہے اور شرک کی تردید میں ایک عام فہم دلیل پیش کی گئی ہے یعنی تم میں سے ایک شخص صاحب مال و جائداد ہے اور اس کے کئی غلام بھی ہیں تو کیا وہ یہ گوارا کرے گا کہ اپنی ساری دولت اور جائداد اپنے غلاموں میں اس طرح تقسیم کردے کہ اس کا اپنا حصہ بھی ہر غلام کے برابر ہوجائے ؟ ظاہر ہے کہ کوئی مالک ایسا کام گوارا نہیں کرسکتا پھر اس سے اگلا سوال یہ ہے کہ جب تم لوگ اپنے لیے ایسی برابری برداشت کرنے کو تیار نہیں تو کیا اللہ ایسی برابری برداشت کرسکتا ہے ؟ جو ہر چیز کا مالک و مختار ہے اس نے تم کو یہ سب نعمتیں عطا فرمائیں۔ اب چاہئے تو یہ تھا کہ تم اسی کا شکریہ ادا کرتے اور اسی کی بندگی کرتے لیکن اس معاملہ میں تم لوگوں نے جو اللہ کے مملوک اور غلاموں کو اللہ کے ساتھ برابر کا شریک بنادیا ہے تو کیا اس سے بڑھ کر بھی اللہ کے ساتھ بےانصافی، اس کی احسان ناشناسی اور اس کی نعمتوں کا انکار ہوسکتا ہے ؟ مخلوق اور مملوک کبھی شریک نہیں بن سکتے :۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اگر کوئی مالک اپنے غلام کو کسی چیز کا مالک یا اس میں تصرف کا اختیار دے بھی دے۔ تو یہ سب کچھ عارضی طور پر ہوگا۔ حقیقتاً ان چیزوں کا مالک بھی اصل مالک ہی ہوگا۔ اسی لحاظ سے ہم کہتے ہیں کہ حقیقتاً ہر چیز کا مالک اللہ تعالیٰ ہے اور ہمارا کسی چیز کا مالک ہونا یا اس میں تصرف کا اختیار ہونا محض چند روزہ یا عارضی ہے اس سے ایک اہم نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مملوک ہونا اور شراکت دو چیزیں جمع نہیں ہوسکتیں۔ یعنی جو غلام ہے وہ شریک نہیں بن سکتا۔ غلام کو مالک بنانے کی صرف یہ صورت ممکن ہے کہ اسے پہلے آزاد کردیا جائے۔ اب وہ مالک تو بن جائے گا لیکن غلام نہ رہا۔ لامحالہ اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ چونکہ ہر چیز اللہ تعالیٰ کی مخلوق ومملوک ہے لہذا وہ صفات الوہیت میں اس کی شریک نہیں بن سکتی۔ اشتراکیت کا رد :۔ بعض اشتراکیت پسند حضرات نے اس آیت کا غلط مطلب لے کر بڑا اوٹ پٹانگ سانتیجہ اخذ کیا ہے ان حضرات کے نزدیک اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ && جو لوگ تم میں سے امیر ہیں انھیں چاہیے کہ وہ اپنا مال و دولت اپنے غلاموں میں بانٹ کر سب برابر ہوجائیں اور اگر تم ایسا نہ کرو گے تو اللہ کی نعمت کے منکر قرار پاؤ گے && اور اس طرح اشتراکیت یا کمیونزم کے لیے راستہ ہموار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اب ظاہر ہے کہ سیاق وسباق قطع نظر کرتے ہوئے درمیان میں سے ایک آیت لے کر اس سے اپنے نظریہ کے مطابق مطلب کشید کرنا بدترین قسم کی تحریف معنوی ہے۔ اس آیت سے پہلے بھی توحید کے اثبات اور شرک کی تردید کا بیان چل رہا ہے۔ اس آیت میں بھی یہی مضمون بیان ہوا ہے اور بعد کی آیات میں بھی یہی مضمون آرہا ہے۔ لہذا درمیان میں اس آیت کو اس کے اصل مفہوم سے جدا کرکے دور حاضر کے ایک باطل فلسفہ معیشت پر چسپاں کرنا انتہائی غیر معقول بات ہے۔ پھر یہ معنی اس لحاظ سے بھی غلط ہیں کہ اس آیت میں غلاموں کا ذکر ہے غریب طبقہ کا ذکر نہیں۔ جسے اشتراکیت پسند اپنی مطلب برآری کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاللّٰهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلٰي بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ ۔۔ : یعنی جب تم اپنے غلاموں کو اپنے رزق اور اختیار کا کوئی حصہ دے کر اپنے برابر کرنے کے لیے تیار نہیں، حالانکہ انسان ہونے میں وہ بالکل تمہاری طرح ہیں، پھر اللہ کے عبید (غلاموں) کو اس کے شریک کیوں بناتے ہو ؟ مکہ کے مشرکوں کی عقل کا ماتم کیجیے جو حج و عمرہ پر لبیک کہتے ہوئے یہ اقرار کرنے کے بعد کہ تیرا کوئی شریک نہیں، پھر کہتے سوائے ایک شریک کے، جس کا مالک بھی تو ہے، وہ مالک نہیں۔ [ مسلم، الحج، باب التلبیۃ و صفتہا۔۔ : ١١٨٥ ] جب وہ مملوک ہے تو شریک کیسے بن گیا ؟ تم اپنے لیے جو بات پسند نہیں کرتے وہ اللہ تعالیٰ کے لیے کیوں تسلیم کرتے ہو۔ 3 اس آیت سے کمیونسٹوں (اشتراکیوں) کے قول کی بھی واضح تردید ہوتی ہے کہ تمام لوگوں کے پاس ایک جیسا رزق ہونا چاہیے، جس کے پاس زائد ہو وہ چھین لینا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، یہ ممکن ہی نہیں، نہ کائنات کا نظام اس سے چل سکتا ہے نہ کبھی ایسا ہوا ہے، حتیٰ کہ کمیونسٹ حکام اور عوام کے معیار زندگی میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔ مزید کئی آیات سے اس کی تائید ہوتی ہے، دیکھیے سورة روم (٢٨) اور سورة زخرف (٣٢) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary In the previous verses, by referring to major manifestations of His knowledge and power and blessings which descend on human beings, Allah Ta` ala has the natural proof of His Oneness (Tauhid). By looking at it, even a person of ordinary commonsense would not accept that any created being can hold a share with Allah Ta’ ala in His attributes of knowledge and power, or in any of the others. In the present verse, this very subject of Tauhid has been brought into focus by citing the example of a case in mutual dealing. It is being said here that Allah Ta’ ala has not, in His infinite wis¬dom, and in view of His consideration for human good, made all human beings equals in terms of rizq or provision. Instead, He has given some of them preference over some others establishing different degrees therein. Someone was made so rich that he owns a lot of things, keeps a staff of all sorts of servers, spends as he wishes, and his servers too benefit through him. Then, someone was made to work for others who, far from spending on others, was cut out to receive his own expenditure from oth¬ers. Then, someone was made to be somewhere in the middle, neither so rich as to spend on others, nor so poor and needy as to be dependent upon others even in the necessities of life. Everyone is aware of the outcome of this natural distribution that he who was given preference in provision and made rich and need-free would never accept to distribute his wealth among his slaves and ser¬vants in a way that they too become his equals in wealth. Understand the drive of this argument by applying this example on polytheists. They too accept that the idols and other created things they worship are, after all, created and owned by Allah Ta’ ala. If so, how can they suggest that the created and the owned become equals to their Crea¬tor and Master? Do such people see all these signs and hear all these words, yet go on to ascribe partners and equals to Allah, the necessary result of which is that they reject the blessings given by Allah? Because, if they had admitted that all these blessings have been given by Allah Ta` ala without the intervention of any self-carved idol, icon, human being and Jinn, then, how could they have equated these things with Allah Ta` ala? The same subject has been taken up in the following verse of Surah Ar-Rum: كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنكُمْ We have given for you an example from your own people. Have those who are your subjects become sharers with you in the provision given to you by Us whereby you are equal in it? (30:28) The outcome of this too is: When you do not like to let your servants and your slaves whom you own become equal to yourself, how can you like for Allah that He, and things created and owned by Him, become equal to Him? The Difference in Degrees of Economic Status is Mercy for Mankind This verse makes it clear that the presence of different degrees economic status among human beings - that someone is poor, another rich and yet another somewhere in the middle - is not accidental. It is as dic¬tated by the wisdom of Allah Ta’ ala, as required by considerations for human good, and is mercy for mankind. If this state (of human society) were not to prevail and if all human beings were to become equal in wealth and possessions, it would have caused a breach of function in world order. Therefore, since the time the world became populated, all human beings have never been equal in terms of wealth and property, in any period, or age, nor can they be. Should such an equality were to be created compulsorily, it will take only a few days when disruption and disorder become openly visible through the entire spectrum of human dealings. Allah Ta’ ala has created human beings with varying degrees of temperaments as conditioned by intelligence, strength and functional ability. They have been further classified as low, high and average, a fact which cannot be rejected by any reasonable person. Similarly, it is also inevitable that there be different degrees in wealth and property as well so that every single person is rewarded in terms of individual capability. If the capable and the incapable were made equal, it wi11 discou¬rage the capable. When the capable person has to stay at par with the in-capable in economic pursuits, what other motivation would compel him to go on striving and achieving excellence? The necessary outcome of such an approach will be no other but the demise of excellence acquired through functional capability. Qur&anic Injunctions Against Concentration of Wealth Whereas the Creator of the universe gave preference to some over others in physical and rational faculties, and established variance in pro-vision, wealth and property, subject to it, He has also established a strong system of economic equilibrium which aims that no particular group or party or a few individuals take over the treasures of wealth and centers of economic activity. This system also guards against the conse¬quences of such a takeover which dries up the very field where capable people could thrive by utilizing their physical, intellectual and technical capabilities and advance economically. For this purpose, it was said in the Holy Qur’ an: كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنكُمْ. It means: (We made the law of distribution of wealth,) so that wealth does not come to be revolving among the rich from among you - Al-Hashar, 59:7. The widespread turbulence being experienced in the economic systems of the modern world is directly the result of bypassing this wise law given to us by Divine wisdom. On the one hand, there is the capitalist system in which some individuals or groups virtually take over the nerve centers of wealth through the medium of interest and gambling and go on to enslave the entire creation of Allah economically. They are rendered so helpless that they have no escape route left but to serve like slaves and work like dogs in order to get what they can to eke out a liv¬ing, no matter how miserable. In a situation so sordid, it is a far cry that they would ever be able to step into the field of industry or trade despite having the best of capabilities for this purpose. As a reaction to this tyranny of capitalists, there rises a counter system in the name of socialism or communism. Their slogan is the re¬moval of disparity between the rich and poor and the creation of equality between all. Masses of people already harassed by the injustices of the capitalist system go after the slogan. But, very soon, they discover that the slogan was nothing but deception. The dream of economic equality never came true. The poor person, despite poverty and hunger, had a cer¬tain human dignity, a certain right to do what he wished, but even that human dignity was snatched away by the system. In the communist system, the worth of a human person is no more than a part of its machines. Private ownership of property is simply out of question there. The factory worker owns nothing, not even the spouse and children. Everyone is a part of the state machine. When the machine starts, they have no choice but to start working on their jobs. Other than the so-called objectives of the state, the worker has no conscience or voice. The slightest grievance against the tyranny of the state and that unbear¬able labour on the job is counted as rebellion against the state the pun¬ishment for which is death. In short, hostility towards God and religion and adherence to bland materialism is the basic principle of communism. These are facts no communist can deny. The writings and doings of their commissars are proofs of this assertion for compiling relevant refer¬ences to these amounts to making a regular book out of them. The Holy Qur&an has provided a system in between the two extremes of tyrannical capitalism and Quixotic communism keeping it free from excess and deficiency so that no individual or group could, despite there being a naturally placed dissimilarity in provision and wealth, go on to make the creation of Allah at large their slaves only to condemn them to ever rising prices of commodities and virtual famines. By declaring inter¬est and gambling to be unlawful, it has demolished the foundations of il¬legitimate capitalism. Then, by making a categorical statement that the poor and needy have a right in the wealth of every Muslim, they were ad¬mitted as sharers, which is not supposed to be some favour done to them. In fact, it is the fulfillment of a duty. The verse: فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُومٌ. (in their wealth, there is a known right for the asking and the deprived - Al-Ma’ arij, 70:24) proves it. After that, by distributing the en-tire property of a deceased person over individual inheritors of the fami¬ly, it has eliminated the concentration of wealth. Natural streams, high seas and the self-growing produce of mountain forests were declared to be the common capital of the entire creation of Allah. No individual or group can take possession over them as something owned by them. This is not permissible. Contrary to this, in a capitalist system, these bless-ings are handled as something owned by capitalists only (under one or the other pretext). Since diversity and difference in intellectual and practical capabil¬ities is a natural phenomena, and the pursuit of economic gains through them also depends on these very capabilities, therefore, diversity or dis¬similarity in the ownership of wealth and property is also a dictate of wisdom. Whoever has the least sense of how things work in this world would find it hard to deny this truth. Even the champions of the slogan of equality could not go far enough with it. They had to abandon their claim of flat equality and were left with no choice but to introduce dissim¬ilarity and incentive-oriented policy in national economy. On May 5, 1960, speaking before the Supreme Soviet, Nikita Khurshev said: &We are against the movement to eliminate difference in wages. We are openly against the efforts to establish equality in emolu¬ments and to bring them at par. This is the teaching of Lenin. He taught that material motivations will be given full consider¬ation in a socialist society.& (Soviet World, p.346) That the dream of economic equality had translated itself into its ab¬sence since the very early stages, but it did not take much time to wit¬ness that this absence of equality and the disparity between the rich and the poor in the communist state of Russia had gone much beyond the general run of capitalist countries. Lyon Sidov writes: &Perhaps, there is no developed capitalist country where the dis¬parity in the wages of workers is as high as in Soviet Russia.& These few examples from the contemporary scene show how deniers were themselves compelled to confirm the truth of the verse: كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنكُمْ (And Allah has given some of you preference over others in provision - 71) and that (Allah does what He wills). As for comments under this verse, the purpose was limited to pointing out that the dissimilarity in provision and wealth is very natural and very much in accordance with considerations for human good. That which remains is the discussion of the Islamic Principles of Distribution of Wealth and how they distinctly differ from capitalism and communism both. Insha’ Allah, this will appear under comments on: نَحنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُم مَّعِيشَتَهُمْ (We have distributed among them their livelihood - Al-Zukhruf, 43:32) appearing in Ma` ariful-Qur’ an, Volume VII. An independent treatise on this subject entitled: &Islam Ka Nizam-e-Taqsim-e-Daulat& written by this humble writer should also be sufficient for this purpose. [ This is also available in its Engish translation made by Professor Hasan Askari under the title: DISTRIBUTION OF WEALTH IN ISLAM from the publishers, Maktaba-e-Darul-Uloom, Korangi, Karachi, Pakistan ]

خلاصہ تفسیر : اور (اثبات توحید کے ساتھ شرک کی قباحت ایک باہمی معاملہ کے ضمن میں سنو کہ) اللہ تعالیٰ نے تم میں بعضوں کو بعضوں پر رزق (کے باب) میں فضیلت دی ہے (مثلا کسی کو غنی اور غلاموں کا مالک بنایا کہ ان کے ہاتھ سے ان غلاموں کو بھی رزق پہنچتا ہے اور کسی کو غلام بنادیا کہ اس کو مالک ہی کے ہاتھ سے رزق پہنچتا ہے اور کسی کو نہ ایسا غنی بنایا کہ دوسرے غلاموں کو دے نہ غلام بنایا کہ اس کو کسی مالک کے ہاتھ سے پہنچے) سو جن لوگوں کو (رزق میں خاص) فضیلت دی گئی ہے (کہ ان کے پاس مال بھی ہے اور غلام بھی ہیں) وہ (لوگ) اپنے حصہ کا مال اپنے غلاموں کو اس طرح کبھی دینے والے نہیں کہ وہ (مالک ومملوک) سب اس میں برابر ہوجائیں (کیونکہ اگر غلام رکھ کردیا تو مال ان کی ملک ہی نہ ہوگا بلکہ بدستور یہی مالک رہیں گے اور اگر آزاد کر کے دیا تو مساوات ممکن ہے مگر وہ غلام نہ رہیں گے پس غلامی اور مساوات ممکن نہیں اسی طرح یہ بت وغیرہ جب باعتراف مشرکین خدا تعالیٰ کے مملوک ہیں تو باوجود مملوک ہونے کے معبودیت میں خدا کے مماثل کیسے ہوجائیں گے اس میں شرک کی انتہائی تقبیح ہے کہ جب تمہارے غلام تمہارے شریک رزق نہیں ہو سکتے تو اللہ تعالیٰ کے غلام اس کے شریک الوہیت کیسے ہو سکتے ہیں) کیا (یہ مضامین سن کر) پھر بھی (خدائے تعالیٰ کے ساتھ شرک کرتے ہیں جس سے عقلا یہ لازم آتا ہے کہ) خدا تعالیٰ کی نعمت کا (یعنی اس بات کا کہ خدا نے نعمت دی ہے) انکار کرتے ہیں۔ معارف و مسائل : اس سے پہلی آیات میں حق تعالیٰ نے اپنے علم وقدرت کے اہم مظاہر اور انسان پر مبذول ہونے والی نعمتوں کا تذکرہ فرما کر اپنی توحید کے فطری دلائل بیان فرمائے ہیں جن کو دیکھ کر ادنی سمجھ بوجھ والا آدمی بھی کسی مخلوق کو حق تعالیٰ کے ساتھ اس کی صفات علم وقدرت وغیرہ میں شریک نہیں مان سکتا اس آیت میں اسی مضمون توحید کو ایک باہمی معاملہ کی مثال سے واضح کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت بالغہ سے انسانی مصالح کے پیش نظر رزق میں سب انسانوں کو برابر نہیں کیا بلکہ بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اور مختلف درجات قائم فرمائے کسی کو ایسا غنی بنادیا جو ساز و سامان کا مالک ہے جشم وخدم غلام و خدمت گار رکھتا ہے وہ خود بھی اپنی منشاء کے مطابق خرچ کرتا ہے اور غلاموں، خدمت گاروں کو بھی اس کے ہاتھ سے رزق پہنچتا ہے اور کسی کو غلام و خدمت گار بنادیا کہ وہ دوسروں پر تو کیا خرچ کرتے ان کا اپنا خرچ بھی دوسروں کے ذریعہ پہنچتا ہے اور کسی کو متوسط الحال بنایا نہ اتنا غنی کہ دوسروں پر خرچ کرے نہ اتنا فقیر و محتاج کہ اپنی ضروریات میں بھی دوسروں کا دست نگر ہو۔ اس قدرتی تقسیم کا یہ اثر سب کے مشاہدہ میں ہے کہ جس کو رزق میں فضیلت دی گئی اور غنی بنایا گیا وہ کبھی اس کو گوارا نہیں کرتا کہ اپنے مال کو اپنے غلاموں، خدمت گاروں میں اس طرح تقسیم کر دے کہ وہ بھی مال میں اس کے برابر ہوجائیں۔ اس مثال سے سمجھو کہ جب مشرکین بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ بت اور دوسری مخلوقات جن کی وہ پرستش کرتے ہیں سب اللہ تعالیٰ کی مخلوق ومملوک ہیں تو یہ کیسے تجویز کرتے ہیں کہ یہ مخلوق ومملوک اپنے خالق ومالک کے برابر ہوجائیں کیا یہ لوگ یہ سب نشانیاں دیکھ کر اور یہ مضامین سن کر پھر بھی خدا تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک اور برابر قرار دیتے ہیں جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی نعمتوں کا انکار کرتے ہیں کیونکہ اگر یہ اقرار ہوتا کہ یہ سب نعمتیں صرف اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہیں ان میں کسی خود تراشیدہ بت کا یا کسی انسان اور جن کا کوئی دخل نہیں ہے تو پھر ان چیزوں کو اللہ تعالیٰ کے برابر کیسے قرار دیتے ؟ یہی مضمون سورة روم کی اس آیت میں بھی ارشاد ہوا ہے : (آیت) ضَرَبَ لَكُمْ مَّثَلًا مِّنْ اَنْفُسِكُمْ ۭ هَلْ لَّكُمْ مِّنْ مَّا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ مِّنْ شُرَكَاۗءَ فِيْ مَا رَزَقْنٰكُمْ فَاَنْتُمْ فِيْهِ سَوَاۗءٌ ( سورة روم آیت ٢٨) تمہارے لئے تم ہی میں سے ایک مثال دی ہے جو لوگ تمہارے زیر دست ہیں کیا وہ ہمارے دیئے ہوئے رزق میں تمہارے شریک ہیں کہ تم اس میں برابر ہوگئے ہو۔ اس کا حاصل بھی یہی ہے کہ تم اپنے مملوک غلاموں اور خدمت گاروں کو اپنے برابر کرنا ناپسند نہیں کرتے تو اللہ کے لئے یہ کیسے پسند کرتے ہو کہ وہ اس کی مخلوق ومملوک چیزیں اس کے برابر ہوجائیں۔ معاش میں درجات کا اختلاف انسانوں کے لئے رحمت ہے : اس آیت میں واضح طور پر یہ بھی بتایا گیا ہے کہ فقر وغنی اور معیشت میں انسانوں کے مختلف درجات ہونا کہ کوئی غریب ہے کوئی امیر کوئی متوسط الحال یہ کوئی اتفاقی حادثہ نہیں حق تعالیٰ کی حکمت بالغہ کا تقاضا ہے اور انسانی مصالح کا مقتضی اور انسانوں کے لئے رحمت ہے اگر یہ صورت نہ رہے اور مال و سامان میں سب انسان برابر ہوجائیں تو نظام عالم میں خلل اور فساد پیدا ہوجائے گا اسی لئے جب سے دنیا آباد ہوئی کسی دور اور کسی زمانے میں سب انسان مال و متاع کے اعتبار سے مساوی نہیں ہوئے اور نہ ہو سکتے ہیں اور اگر کہیں زبردستی ایسی مساوات پیدا کر بھی دی جائے تو چند ہی روز میں تمام انسانی کاروبار میں خلل اور فساد کا مشاہدہ ہوجائے گا حق تعالیٰ نے جیسے تمام انسانوں کو عقل و دماغ اور قوت و طاقت اور صلاحیت کار میں مختلف مزاجوں پر تقسیم کیا ہے اور ان میں ادنی اعلیٰ متوسط کی اقسام ہیں جس کا کوئی صاحب عقل انکار نہیں کرسکتا اسی طرح یہ بھی ناگزیر ہے کہ مال و متاع میں بھی یہ مختلف درجات قائم ہوں کہ ہر شخص اپنی اپنی صلاحیت کے اعتبار سے اس کا صلہ پائے اور اگر اہل صلاحیت اور نااہل کو برابر کردیا گیا تو اہل صلاحیت کی حوصلہ شکنی ہوگی جب معیشت میں اس کو نااہلوں کے برابر ہی رہنا ہے تو وہ کونسا داعیہ ہے جو اسے جدوجہد اور فکر وعمل پر مجبور کرے اس کا لازمی نتیجہ صلاحیت کار کو برباد کرنا ہوگا۔ ارتکاز دولت کے خلاف قرآنی احکام : البتہ خالق کائنات نے جہاں عقلی اور جسمانی قوتوں میں بعض کو بعض پر فضیلت دی اور اس کے تابع رزق اور مال میں تفاوت قائم فرمایا وہیں معاش کا یہ نظام محکم بھی قائم فرمایا کہ ایسا نہ ہونے پائے کہ دولت کے خزانوں اور کسب معاش کے مرکزوں پر چند افراد یا کوئی خاص جماعت قبضہ کرلے دوسرے اہل صلاحیت کے کام کرنے کا میدان ہی باقی نہ رہے کہ وہ اپنی عقلی اور جسمانی صلاحیتوں سے کام لے کر معاش میں ترقی کرسکیں اس کے لئے قرآن کریم سورة حشر میں ارشاد فرمایا (آیت) كَيْ لَا يَكُوْنَ دُوْلَةًۢ بَيْنَ الْاَغْنِيَاۗءِ مِنْكُم یعنی ہم نے تقسیم دولت کا قانون اس لئے بنایا کہ دولت صرف سرمایہ داروں میں منحصر ہو کر نہ رہ جائے۔ آج کل دنیا کے معاشی نظاموں میں جو افراتفری پھیلی ہوئی ہے وہ اس ربانی قانون حکمت کو نظر انداز کرنے ہی کا نتیجہ ہے ایک طرف سرمایہ دارانہ نظام ہے جس میں دولت کے مرکزوں پر سود وقمار کے راستہ سے چند افراد یا جماعتیں قابض ہو کر باقی ساری مخلوق کو اپنا معاشی غلام بنانے پر مجبور کردیتی ہیں ان کے لئے بجز غلامی اور مزدوری کے کوئی راستہ اپنی ضروریات حاصل کرنے کے لئے نہیں رہ جاتا وہ اپنی اعلی صلاحیتوں کے باوجود صنعت و تجارت کے میدان میں قدم نہیں رکھ سکتے۔ سرمایہ داروں کے اس ظلم وجور کے رد عمل کے طور پر ایک متضاد نظام اشتراکیت کمیونزم یا سوسلزم کے نام سے وجود میں آتا ہے جس کا نعرہ غریب و امیر کے تفاوت کو ختم کرنا اور سب میں مساوات پیدا کرنا ہے ظالمانہ سرمایہ داری کے مظالم سے تنگ آئے ہوئے عوام اس نعرہ کے پیچھے لگ جاتے ہیں مگر چند ہی روز میں وہ مشاہدہ کرلیتے ہیں کہ یہ نعرہ محض فریب تھا معاشی مساوات کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہوا اور غریب اپنی غربت اور فقرو فاقہ کے ساتھ بھی جو ایک انسانی احترام رکھتا تھا اپنی مرضی کا مالک تھا یہ احترام انسانیت بھی ہاتھ سے جاتا رہا نظام اشتراکیت میں انسان کی کوئی قدر قیمت مشین کے ایک پرزے سے زائد نہیں کسی جائداد کی ملکیت کا تو وہاں تصور ہی نہیں ہوسکتا اور جو معاملہ وہاں ایک مزدور کے ساتھ کیا جاتا ہے اس پر غور کریں تو وہ کسی چیز کا مالک نہیں اس کی اولاد اور بیوی بھی اس کی نہیں بلکہ سب ریاست کی مشین کے کل پرزے ہیں جن کو مشین اسٹارٹ ہوتے ہی اپنے کام پر لگ جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ریاست کے مفروضہ مقاصد کے سوا نہ اس کا کوئی ضمیر ہے نہ آواز ریاست کے جبر وتشدد اور ناقابل برداشت محنت سے کراہنا ایک بغاوت شمار ہوتا ہے جس کی سزا موت ہے خدا تعالیٰ اور مذہب کی مخالفت اور خالص مادہ پرستی نظام اشتراکیت کا بنیادی اصول ہے۔ یہ وہ حقائق ہیں جن سے کوئی اشتراکی انکار نہیں کرسکتا ان کے پیشواؤں کی کتابیں اور اعمال نامے اس کے شاہد ہیں کہ ان کے حوالوں کو جمع کرنا بھی ایک مستقل کتاب بنانے کے مترادف ہے۔ قرآن حکیم نے ظالمانہ سرمایہ داری اور احمقانہ اشتراکیت کی دونوں انتہاؤں کے درمیان افراط وتفریط سے پاک ایک ایسا نظام بنایا ہے کہ رزق اور دولت میں فطری تفاوت کے باوجود کوئی فرد یا جماعت عام مخلوق کو اپنا غلام نہ بنا سکے اور مصنوعی گرانی اور قحط میں مبتلا نہ کرسکے سود اور جوے کو حرام قرار دے کر ناجائز سرمایہ داری کی بنیاد مہندم کردی پھر ہر مسلمان کے مال میں غریبوں کا حق متعین کر کے شریک کردیا جو غریبوں پر احسان نہیں بلکہ ادائے فرض ہے ( آیت) فِيْٓ اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ لِّلسَّاۗىِٕلِ وَالْمَحْرُوْمِ اس پر شاہد ہے پھر مرنے کے بعد مرنے والے کی تمام ملکیت کو افراد خاندان میں تقسیم کر کے ارتکاز دولت کا خاتمہ کردیا قدرتی چشموں سمندروں اور پہاڑی جنگلوں کی خودرو پیداوار کو تمام خلق خدا کا مشترک سرمایہ قرار دے دیا جس پر کسی فرد یا جماعت کا قبضہ مالکانہ جائز نہیں جب کہ سرمایہ داری نظام میں یہ سب چیزیں صرف سرمایہ داروں کی ملکیت قرار دے دیگئی ہیں۔ چونکہ علمی عملی صلاحیتوں کا متفاوت اور مختلف ہونا ایک امر فطری ہے اور تحصیل معاش بھی انہی صلاحیتوں کے تابع ہے اس لئے مال و دولت کی ملکیت کا متفاوت ہونا بھی عین تقاضائے حکمت ہے جس کو دنیا کا کچھ بھی عقل و شعور ہے وہ اس کا انکار نہیں کرسکتا اور مساوات کے نعرے لگانے والے بھی چند قدم چلنے کے بعد اس مساوات کے دعوے کو چھوڑنے اور معیشت میں تفاوت وتفاضل پیدا کرنے پر مجبور ہوگئے۔ خرد شیف نے ٥ مئی کو سپریم سویٹ کے سامنے تقریر کرتے ہوئے کہا : ہم اجرتوں میں فرق مٹانے کی تحریک کے سختی سے مخالف ہیں ہم اجرتوں میں مساوات قائم کرنے اور ان کے ایک سطح پر لانے کے کھلے بندوں مخالف ہیں یہ لینن کی تعلیم ہے اس کی تعلیم یہ تھی کہ سوشلسٹ سماج میں مادی محرکات کا پورا لحاظ رکھا جائے گا۔ (سویٹ ورلڈ ص ٣٤٦) معاشی مساوات کے خواب کی یہ تعبیر عدم مساوات تو ابتداء ہی سے سامنے آگئی تھی مگر دیکھتی ہے دیکھتے یہ عدم مساوات اور امیر و غریب کا تفاوت اشتراکی مملکیت روس میں عام سرمایہ دار ملکوں سے بھی آگے بڑھ گیا۔ لیون شیڈو لکھتا ہے : شاید ہی کوئی ترقی یافتہ سرمایہ دار ملک ایسا ہو جہاں مزدوروں کی اجرتوں میں اتنا تفاوف ہو جتنا روس میں ہے۔ واقعات کی ان چند مثالوں نے آیت مذکورہ (آیت) وَاللّٰهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلٰي بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ کی جبری تصدیق منکرین کی زبانوں سے کرادی (آیت) وَاللّٰهُ يَفْعَلُ مَا يَشَاۗءُ یہاں اس آیت کے تحت تو صرف اتنا ہی بیان کرنا تھا کہ رزق ومال میں تفاوت قدرتی اور فطری اور عین مصالح انسان کے مطابق ہے باقی تقسیم دولت کے اسلامی اصول اور سرمایہ داری اور اشتراکیت دونوں سے اس کا امتیاز تو یہ انشاء اللہ تعالیٰ سورة زخرف پارہ نمبر ٢٥ (آیت) نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُمْ مَّعِيْشَتَهُمْ کے تحت میں آئے گا اور اس موضوع پر احقر کا ایک مستقل رسالہ اسلام کا نظام تقسیم دولت کے نام سے شائع ہوچکا ہے اس کا مطالعہ بھی کافی ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاللّٰهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلٰي بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ ۚ فَمَا الَّذِيْنَ فُضِّلُوْا بِرَاۗدِّيْ رِزْقِهِمْ عَلٰي مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُهُمْ فَهُمْ فِيْهِ سَوَاۗءٌ ۭ اَفَبِنِعْمَةِ اللّٰهِ يَجْحَدُوْنَ 71؀ فضل الفَضْلُ : الزّيادة عن الاقتصاد، وذلک ضربان : محمود : کفضل العلم والحلم، و مذموم : کفضل الغضب علی ما يجب أن يكون عليه . والفَضْلُ في المحمود أكثر استعمالا، والفُضُولُ في المذموم، والفَضْلُ إذا استعمل لزیادة أحد الشّيئين علی الآخر فعلی ثلاثة أضرب : فضل من حيث الجنس، کفضل جنس الحیوان علی جنس النّبات . وفضل من حيث النّوع، کفضل الإنسان علی غيره من الحیوان، وعلی هذا النحو قوله : وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء/ 70] ، إلى قوله : تَفْضِيلًا وفضل من حيث الذّات، کفضل رجل علی آخر . فالأوّلان جوهريّان لا سبیل للناقص فيهما أن يزيل نقصه وأن يستفید الفضل، کالفرس والحمار لا يمكنهما أن يکتسبا الفضیلة التي خصّ بها الإنسان، والفضل الثالث قد يكون عرضيّا فيوجد السّبيل علی اکتسابه، ومن هذا النّوع التّفضیل المذکور في قوله : وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل/ 71] ، لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء/ 12] ، يعني : المال وما يکتسب، ( ف ض ل ) الفضل کے منعی کسی چیز کے اقتضا ( متوسط درجہ سے زیادہ ہونا کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے محمود جیسے علم وحلم وغیرہ کی زیادتی مذموم جیسے غصہ کا حد سے بڑھ جانا لیکن عام طور الفضل اچھی باتوں پر بولا جاتا ہے اور الفضول بری باتوں میں اور جب فضل کے منعی ایک چیز کے دوسری پر زیادتی کے ہوتے ہیں تو اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں ( ۔ ) بر تری بلحاظ جنس کے جیسے جنس حیوان کا جنس نباتات سے افضل ہونا ۔ ( 2 ) بر تری بلحاظ نوع کے جیسے نوع انسان کا دوسرے حیوانات سے بر تر ہونا جیسے فرمایا : ۔ وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء/ 70] اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ ( 3 ) فضیلت بلحاظ ذات مثلا ایک شخص کا دوسرے شخص سے بر تر ہونا اول الذکر دونوں قسم کی فضیلت بلحاظ جو ہر ہوتی ہے ۔ جن میں ادنیٰ ترقی کر کے اپنے سے اعلٰی کے درجہ کو حاصل نہیں کرسکتا مثلا گھوڑا اور گدھا کہ یہ دونوں انسان کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے ۔ البتہ تیسری قسم کی فضیلت من حیث الذات چونکہ کبھی عارضی ہوتی ہے اس لئے اس کا اکتساب عین ممکن ہے چناچہ آیات کریمہ : ۔ وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل/ 71] اور خدا نے رزق ( دولت ) میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔ لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء/ 12] تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل ( یعنی روزی تلاش کرو ۔ میں یہی تیسری قسم کی فضیلت مراد ہے جسے محنت اور سعی سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ بعض بَعْضُ الشیء : جزء منه، ويقال ذلک بمراعاة كلّ ، ولذلک يقابل به كلّ ، فيقال : بعضه وكلّه، وجمعه أَبْعَاض . قال عزّ وجلّ : بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة/ 36] ( ب ع ض ) بعض الشئی ہر چیز کے کچھ حصہ کو کہتے ہیں اور یہ کل کے اعتبار سے بولا جاتا ہے اسلئے کل کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے : بعضہ وکلہ اس کی جمع ابعاض آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة/ 36] تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ رزق الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة «2» ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، ( ر ز ق) الرزق وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو ر آدی ۔ اسم فاعل جمع مذکر۔ بحالت ِ نصب وجر ّ ۔ اصل میں رادین تھا۔ ن اضافت کی وجہ سے ساقط ہوگیا۔ بحالت ِ رفع ر آدون کی جمع۔ رد ( مضاعف) سے اسم فاعل۔ اصل میں رادد تھا ۔ دو حرف ایک جنس کے اکٹھے ہوئے۔ پہلے کو ساکن کر کے دوسرے میں مدغم کیا۔ راد ہوگیا۔ رد یرد ( نصر) کے معنی ہیں۔ پھیرنا۔ واپس کرنا۔ پس اسم فاعل ر آد کے معنی ہوئے پھیرنے والا۔ واپس کرنے والا۔ سواء ومکان سُوىً ، وسَوَاءٌ: وسط . ويقال : سَوَاءٌ ، وسِوىً ، وسُوىً أي : يستوي طرفاه، ويستعمل ذلک وصفا وظرفا، وأصل ذلک مصدر، وقال : فِي سَواءِ الْجَحِيمِ [ الصافات/ 55] ، وسَواءَ السَّبِيلِ [ القصص/ 22] ، فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلى سَواءٍ [ الأنفال/ 58] ، أي : عدل من الحکم، وکذا قوله : إِلى كَلِمَةٍ سَواءٍ بَيْنَنا وَبَيْنَكُمْ [ آل عمران/ 64] ، وقوله : سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ [ البقرة/ 6] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ [ المنافقون/ 6] ، ( س و ی ) المسا واۃ مکان سوی وسواء کے معنی وسط کے ہیں اور سواء وسوی وسوی اسے کہا جاتا ہے جس کی نسبت دونوں طرف مساوی ہوں اور یہ یعنی سواء وصف بن کر بھی استعمال ہوتا ہے اور ظرف بھی لیکن اصل میں یہ مصدر ہے قرآن میں ہے ۔ فِي سَواءِ الْجَحِيمِ [ الصافات/ 55] تو اس کو ) وسط دوزخ میں ۔ وسَواءَ السَّبِيلِ [ القصص/ 22] تو وہ ) سیدھے راستے سے ۔ فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلى سَواءٍ [ الأنفال/ 58] تو ان کا عہد ) انہیں کی طرف پھینک دو اور برابر کا جواب دو ۔ تو یہاں علی سواء سے عاولا نہ حکم مراد ہے جیسے فرمایا : ۔ إِلى كَلِمَةٍ سَواءٍ بَيْنَنا وَبَيْنَكُمْ [ آل عمران/ 64] اے اہل کتاب ) جو بات ہمارے اور تمہارے دونوں کے درمیان یکساں ( تسلیم کی گئی ) ہے اس کی طرف آؤ ۔ اور آیات : ۔ سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ [ البقرة/ 6] انہیں تم نصیحت کرو یا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ۔ سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ [ المنافقون/ 6] تم ان کے لئے مغفرت مانگو یا نہ مانگوں ان کے حق میں برابر ہے ۔ نعم النِّعْمَةُ : الحالةُ الحسنةُ ، وبِنَاء النِّعْمَة بِناء الحالةِ التي يكون عليها الإنسان کالجِلْسَة والرِّكْبَة، والنَّعْمَةُ : التَّنَعُّمُ ، وبِنَاؤُها بِنَاءُ المَرَّة من الفِعْلِ کا لضَّرْبَة والشَّتْمَة، والنِّعْمَةُ للجِنْسِ تقال للقلیلِ والکثيرِ. قال تعالی: وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل/ 18] ( ن ع م ) النعمۃ اچھی حالت کو کہتے ہیں ۔ اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو کسی حالت کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے : ۔ جلسۃ ورکبۃ وغیرہ ذالک ۔ اور نعمۃ کے معنی تنعم یعنی آرام و آسائش کے ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو مرۃ ہے جو مرۃ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے : ۔ ضر بۃ وشتمۃ اور نعمۃ کا لفظ اسم جنس ہے جو قلیل وکثیر کیلئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل/ 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔ جحد الجُحُود : نفي ما في القلب إثباته، وإثبات ما في القلب نفيه، يقال : جَحَدَ جُحُوداً وجَحْداً قال عزّ وجل : وَجَحَدُوا بِها وَاسْتَيْقَنَتْها أَنْفُسُهُمْ [ النمل/ 14] ، وقال عزّ وجل : بِآياتِنا يَجْحَدُونَ [ الأعراف/ 51] . وتَجَحَّدَ تَخَصَّصَ بفعل ذلك، يقال : رجل جَحِدٌ: شحیح قلیل الخیر يظهر الفقر، وأرض جَحْدَة : قلیلة النبت، يقال : جَحَداً له ونَكَداً ، وأَجْحَدَ : صار ذا جحد . ( ج ح د ) حجد ( ف ) جحد وجحودا ( رجان بوجھ کر انکار کردینا ) معنی دل میں جس چیز کا اقرار ہو اس کا انکار اور جس کا انکار ہو اس کا اقرار کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَحَدُوا بِها وَاسْتَيْقَنَتْها أَنْفُسُهُمْ [ النمل/ 14] اور ان سے انکار کیا کہ انکے دل انکو مان چکے تھے بِآياتِنا يَجْحَدُونَ [ الأعراف/ 51] اور ہماری آیتوں سے منکر ہورہے تھے ۔ کہا جاتا ہے : ۔ رجل جحد یعنی کنجوس اور قلیل الخیر آدمی جو فقر کو ظاہر کرے ۔ ارض جحدۃ خشک زمین جس میں روئید گی نہ ہو ۔ محاورہ ہے : ۔ اسے خبر حاصل نہ ہو ۔ اجحد ۔ ( افعال ، انکار کرنا ۔ منکر ہونا ۔ جعل جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها، ( ج ع ل ) جعل ( ف ) یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔ نفس الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، ( ن ف س ) النفس کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے زوج يقال لكلّ واحد من القرینین من الذّكر والأنثی في الحیوانات الْمُتَزَاوِجَةُ زَوْجٌ ، ولكلّ قرینین فيها وفي غيرها زوج، کالخفّ والنّعل، ولكلّ ما يقترن بآخر مماثلا له أو مضادّ زوج . قال تعالی: فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى[ القیامة/ 39] ( ز و ج ) الزوج جن حیوانات میں نرا اور پایا جاتا ہے ان میں سے ہر ایک دوسرے کا زوج کہلاتا ہے یعنی نرا اور مادہ دونوں میں سے ہر ایک پر اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ حیوانات کے علا وہ دوسری اشیائیں سے جفت کو زوج کہا جاتا ہے جیسے موزے اور جوتے وغیرہ پھر اس چیز کو جو دوسری کی مما ثل یا مقابل ہونے کی حثیت سے اس سے مقترن ہو وہ اس کا زوج کہلاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى[ القیامة/ 39] اور خر کار اس کی دو قسمیں کیں ( یعنی مرد اور عورت ۔ حفد قال اللہ تعالی: وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْواجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل/ 72] ، جمع حَافِد، وهو المتحرّك المتبرّع بالخدمة، أقارب کانوا أو أجانب، قال المفسرون : هم الأسباط ونحوهم، وذلک أنّ خدمتهم أصدق، قال الشاعر : 118- حَفَدَ الولائد بينهنّ وفلان مَحْفُود، أي : مخدوم، وهم الأختان والأصهار، وفي الدعاء : «إليك نسعی ونحفد» وسیف مُحْتَفِد : سریع القطع، قال الأصمعي : أصل الحَفْد : مدارکة الخطو . ( ح ف د ) الحافد ۔ ہر اس شخص کی کہتے ہیں جو تبرعا تیزی گے ساتھ خدمت بجالائے خواہ وہ اجنبی ہو یا رشتہ دار ۔ اسی کی جمع حفدۃ آتی ہے قرآن میں ہے :۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْواجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل/ 72] اور عورتوں سے تمہارے بیٹے اور پوتے پیدا کئے ۔ مفسرین کا قول ہے کہ یہاں حفدۃ سے مراد اسباط پوتے نواسے وغیر ہم ہیں ۔ کیونکہ ان کی خدمت زیادہ سچی ہوتی ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( الکامل ) (114) حفدالولاثد بینھن فلان محفود فلاں محذوم ہے ۔ الغرض حفدۃ کا اطلاق سسر اور اولاد دونوں طرف کے رشتہ داروں پر ہوتا ہے ۔ اور دعا میں ہے ۔ ہم تیری طرف دوڑتے ہیں ۔ سیف محتفد قاطع تلوار ۔ اصمعی کہتے ہیں کہ اصل میں حفد کے معنی پھرتی اور جلدی کرنا کے ہیں ۔ طيب ( پاكيزه) يقال : طَابَ الشیءُ يَطِيبُ طَيْباً ، فهو طَيِّبٌ. قال تعالی: فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء/ 3] قوله تعالی: مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ [إبراهيم/ 24] ، وقوله : إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ [ فاطر/ 10] ، وَمَساكِنَ طَيِّبَةً [ التوبة/ 72] ، أي : طاهرة ذكيّة مستلذّة . ( ط ی ب ) طاب ( ض ) الشئی یطیب طیبا فھم طیب ( کے معنی کسی چیز کے پاکیزہ اور حلال ہونے کے ہیں ) قرآن میں ہے : تو ان کے سوا عورتیں تم کو پسند ہوں ان سے نکاح کرلو ۔ ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء/ 4] ہاں اگر وہ اپنی خوشی سے تم کو چھوڑدیں اسی معنی میں فرمایا ؛ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ [إبراهيم/ 24] پاک عمل کی مثال شجرۃ طیبہ کی ہے ۔ إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ [ فاطر/ 10] اسی کی طرف پاکیزہ کلمے پڑھتے ہیں ۔ بطل البَاطِل : نقیض الحق، وهو ما لا ثبات له عند الفحص عنه، قال تعالی: ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ هُوَ الْباطِلُ [ الحج/ 62] ( ب ط ل ) الباطل یہ حق کا بالمقابل ہے اور تحقیق کے بعد جس چیز میں ثبات اور پائیداری نظر نہ آئے اسے باطل کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں سے : ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ هُوَ الْباطِلُ [ الحج/ 62] یہ اس لئے کہ خدا کی ذات برحق ہے اور جن کو یہ لوگ خدا کے سوا کے پکارتے ہیں وہ لغو ہیں ۔ كفر ( ناشکري) الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وكُفْرُ النّعمة وكُفْرَانُهَا : سترها بترک أداء شكرها، قال تعالی: فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء/ 94] . وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ، فَأَبى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُوراً [ الفرقان/ 50] ويقال منهما : كَفَرَ فهو كَافِرٌ. قال في الکفران : لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّما يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] ، وقال : وَاشْكُرُوا لِي وَلا تَكْفُرُونِ [ البقرة/ 152] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ کفر یا کفر ان نعمت کی ناشکری کر کے اسے چھپانے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء/ 94] ؂ تو اس کی کوشش رائگاں نہ جائے گی ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا فَأَبى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُوراً [ الفرقان/ 50] مگر اکثر لوگوں نے انکار کرنے کے سوا قبول نہ کیا ۔ اور فعل کفر فھوا کافر ہر دو معانی کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ میس کفران کے متعلق فرمایا : ۔ لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّما يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] تاکہ مجھے آز مائے کر میں شکر کرتا ہوں یا کفران نعمت کرتا ہوم ۔ اور جو شکر کرتا ہے تو اپنے ہی فائدے کے لئے شکر کرتا ہے ۔ اور جو ناشکری کرتا ہے ۔ تو میرا پروردگار بےپروا اور کرم کر نیوالا ہے ۔ وَاشْكُرُوا لِي وَلا تَكْفُرُونِ [ البقرة/ 152] اور میرا احسان مانتے رہنا اور ناشکری نہ کرنا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

آقا اور اموال غلام کے بارے میں قول باری ہے (واللہ فضل بعضکم علی بعض فی الرزق فما الذین فضلوا برادی رزقھم علی ما کانکت ایمانھم۔ اور دیکھو، اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر رزق میں فضیلت عطا کی ہے۔ پھر جن لوگوں کو یہ فضیلت دی گئی ہے وہ ایسے نہیں ہیں کہ اپنا رزق اپنے غلاموں کی طرف پھیر دیا کرتے ہوں) حضرت ابن عباس (رض) اور مجاہد سے مروی ہے کہ یہ لوگ اپنے غلاموں کو اپنے اموال میں شریک نہیں کرتے تاکہ دونوں ان اموال میں برابر کے حصہ دار بن جائیں، اپنی ذات کے لئے تو وہ لوگ یہ بات پسند نہیں کرتے لیکن وہ لوگ میرے بندوں کو میری حکومت اور میرے ملک میں میرا شریک ٹھہراتے ہیں، ایک قول کے مطابق آقا اور غلام سب کے سب اس لحاظ سے یکساں ہیں کہ میں نے ان سب کو رزق دیا ہے نیز یہ کہ کسی آقا کے لئے اپنے غلام کو رزق دینا ممکن ہی نہیں ہے مگر صرف اس بنا پر کہ میں نے اسے رزق عطا کیا ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ آیت آقا اور غلام کے درمیان ملکیت کے لحاظ سے مساوات کے انتفاء پر دلالت کرتی ہے۔ اس میں دو وجوہ سے یہ دلیل موجود ہے کہ غلام کو کسی چیز کی ملکیت حاصل نہیں ہوتی۔ اول تو یہ کہ اگر غلام کے لئے اس چیز کی ملکیت جائز ہوتی جسے اس کا آقا اس کی ملکیت میں دے دیتا تو اس صورت میں آقا کے لئے اپنا مال اس کی ملکیت میں دے دینا جائز ہوتا اور اس طرح غلام اس مال کا مالک بن کر آقا کے ساتھ برابر کا حصہ دار بن جاتا۔ اس صورت میں غلاموں کی ملکیت آقا کی ملکیت کی طرح ہوجاتی بلکہ یہ بات جائز ہوتی کہ ملکیت کے لحاظ سے غلام اپنے آقا سے افضل ہوتا اور اس کی ملکیت کا دائرہ زیادہ وسیع ہوتا۔ اس بیان میں یہ دلیل موجود ہے کہ غلام کو کسی چیز کی ملکیت حاصل نہیں ہوتی خواہ آقا کوئی چیز اس کی ملکیت میں کیوں نہ دے۔ اس لئے کہ آیت ان دونوں کے درمیان ملکیت میں مساوات کی نفی کی مقتضیٰ ہے۔ اسے ایک اور پہلو سے دیکھئے، اللہ تعالیٰ نے آقا اور غلام کی اس صورت حال کو مشرکین کی بت پرستی کے لئے بطور مثال بیان فرمایا اور یہ بات سب کو معلوم تھی کہ بت کسی چیز کے مالک نہیں ہوتے یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ غلام بھی کسی چیز کا مالک نہیں ہوتا اس لئے کہ مثال میں غلام اور آزاد کے درمیان شراکت کی نفی کردی گئی ہے جس طرح اللہ اور بتوں کے درمیان اس چیز کی نفی کردی گئی ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧١) اہل نجران اس بات کے قائل تھے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے بیٹے ہیں، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ اللہ تعالیٰ نے بعض لوگوں کو بعض لوگوں پر رزق مال و دولت کے باب میں فضیلت دی ہے تو مال و دولت والے اپنے غلاموں کو اس طرح کبھی مال نہیں دیں گے، آقا اور غلام سب اس مال میں برابر ہوجائیں، اس چیز پر یہ لوگ کبھی راضی نہیں ہوسکتے کہ انکی ملکیت میں دوسرا شریک ہوجائے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں تو کیا میرے لیے اس چیز کو پسند کرتے و، جس کو اپنے لیے گوارا نہیں کرتے اور اتنے انعامات کے بعد بھی وحدانیت خداوندی کا انکار کرتے ہو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧١ (وَاللّٰهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلٰي بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ ) رزق سے مراد صرف مادی اسباب و وسائل ہی نہیں بلکہ اس میں انسان کی جسمانی و ذہنی صلاحیتیں بھی شامل ہیں۔ مادی وسائل کی کمی بیشی کے بارے میں تو کوئی سوشلسٹ یا کمیونسٹ اعتراض کرسکتا ہے کہ یہ غلط تقسیم اور غلط نظام کا نتیجہ ہے جس کا ذمہ دار خود انسان ہے مگر یہ امر اپنی جگہ اٹل حقیقت ہے کہ ہر انسان کی ذہنی استعداد اور جسمانی طاقت ایک سی نہیں ہوتی۔ جینز (genes) کے ذریعے وراثت میں ملنے والی تمام صلاحیتیں بھی سب انسانوں میں برابر نہیں ہوتیں پھر اس میں کسی کے اختیار و انتخاب کو بھی کوئی دخل نہیں ہے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے مادی اسباب و وسائل کے علاوہ ذاتی صلاحیتوں میں بھی مختلف انسانوں کو مختلف اعتبار سے ایک دوسرے پر فضیلت دی ہے۔ (فَمَا الَّذِيْنَ فُضِّلُوْا بِرَاۗدِّيْ رِزْقِهِمْ عَلٰي مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُهُمْ فَهُمْ فِيْهِ سَوَاۗءٌ) یعنی ایسا تو نہیں ہوتا کہ امراء اپنی دولت اور جائیدادیں اپنے غلاموں میں تقسیم کردیں اور انہیں بھی اپنے ساتھ ان جائیدادوں کا مالک بنا لیں۔ تو اگر تم لوگ اپنے غلاموں کو اپنے ساتھ اپنی ملکیت میں شریک نہیں کرتے تو کیا اللہ تمہارے جھوٹے معبودوں کو اپنے برابر کرلے گا ؟ اور یہ جو ان لوگوں کا خیال ہے کہ ایک بڑا خدا ہے اور کچھ چھوٹے چھوٹے خدا ہیں اور یہ چھوٹے خدا بڑے خدا سے ان کی سفارش کریں گے تو کیا اللہ پر ان میں سے کسی کی دھونس چل سکے گی یا اللہ ان میں سے کسی کو یہ اختیار دے گا کہ وہ اس سے اپنی کوئی بات منوالے ؟

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

62. It will be worthwhile to give deep thought to the meanings of this verse, for some modern commentators of the Quran have founded strange economic theories and systems on it. Their interpretation is an instance of perverting the meaning of the Quran by isolating verses from their context and treating it as a separate whole in order to formulate a new philosophy and law of Islamic Economics. In their opinion the verse implies this: Those people to whom Allah has given more provisions than others, should share these equally with their servants and slaves: otherwise they shall be guilty of ingratitude to Allah in regard to the wealth with which He had blessed them. This commentary on the verse is obviously wrong and farfetched because in the context it occurs there is no mention at all of any law of economics. The whole passage in which this verse occurs deals with the refutation of shirk and proof of Tauhid. The same themes are continued in the subsequent verses. There seems to be no reason why an economic law should have been inserted here, which would have been absolutely irrelevant, to say the least. On the contrary, when the verse is considered in its context, it becomes quite obvious that it is no more than the statement of a fact to prove the same theme that is contained in this passage. It argues like this: When you yourselves do not make your servants and slaves equal partners in your wealth, which in fact is given to you by Allah, how is it that you join other gods with God in your gratitude to Him for the favors with which He has blessed you. You know that these gods have no powers to bestow anything on anyone, and, therefore, have no right in your worship of Allah, for they are after all His slaves and servants. This interpretation of the verse under discussion is corroborated by (Surah Ar-Room, Ayat 28): “Allah sets forth to you an instance from your own selves. Do your slaves share with you the wealth We have bestowed on you so that you and they become equals in this? And do you fear them as you fear one another? Thus We make clear Our signs to those who use their common sense.” A comparison of the two verses makes it quite clear that these have been cited to bring home to the mushriks that they themselves do not associate their slaves with themselves in their wealth and status, but they have the impudence and folly to set up His own creature as partner with God. It appears that the erroneous interpretation has been strengthened by the succeeding sentence: What! do they then deny to acknowledge Allah’s favor? As this sentence immediately follows the similitude of the rich people and their slaves, they conclude that it will be ingratitude on the part of those, who possess more wealth not to share it equally with those who have less. As a matter of fact, everyone who has studied the Quran critically knows that ingratitude to Allah is to show gratitude to others than Allah for His blessings. This interpretation is so patently wrong that those who are well versed in the teachings of the Quran can have no misconception about it. And such verses as these can mislead only those who have a cursory knowledge of the Quran. Now that the significance of the ingratitude towards Allah’s blessing has become plain, the meaning of the verse will be quite clear, and it is this: When the Mushriks understand the implication of the difference between the master and his slave and observe this distinction in their own lives, why do they then persist in ignoring the immense difference between the Creator and His creatures and set up the latter as His partners and pay homage of gratitude to them for the blessings bestowed on them by Allah.

سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :62 زمانہ حال میں اس آیت سے جو عجیب و غریب معنی نکالے گئے ہیں وہ اس امر کی بدترین مثال ہیں کہ قرآن کی آیات کو ان کے سیاق و سباق سے الگ کر کے ایک ایک آیت کے الگ معنی لینے سے کیسی کیسی لا طائل تاویلوں کا دروازہ کھل جاتا ہے ۔ لوگوں نے اس آیت کو اسلام کے فلسفہ معیشت کی اصل اور قانون معیشت کی ایک اہم دفہ ٹھیرایا ہے ۔ ان کے نزدیک آیت کا منشاء یہ ہے کہ جن لوگوں کو اللہ نے رزق میں فضیلت عطا کی ہو انہیں اپنا رزق اپنے نوکروں اور غلاموں کی طرف ضرور لوٹا دینا چاہیے ، اگر نہ لوٹائیں گے تو اللہ کی نعمت کے منکر قرار پائیں گے ۔ حالانکہ اس پورے سلسلہ کلام میں قانون معیشت کے بیان کا سرے سے کوئی موقع ہی نہیں ہے ۔ اوپر سے تمام تقریر شرک کے ابطال اور توحید کے اثبات میں ہوتی چلی رہی ہے اور آگے بھی مسلسل یہی مضمون چل رہا ہے ۔ اس گفتگو کے بیچ میں یکایک قانون معیشت کی ایک دفہ بیان کر دینے کے بعد آخر کونسا تُک ہے ؟ آیت کو اس کے سیاق و سباق میں رکھ کر دیکھا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اسکے بالکل برعکس مضمون بیان ہو رہا ہے ۔ یہاں استدلال یہ کیا گیا ہے کہ تم خود اپنے مال میں اپنے غلاموں اور نوکروں کو جب برابر کا درجہ نہیں دیتے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حالانکہ یہ مال خدا کا دیا ہوا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو آخر کس طرح یہ بات تم صحیح سمجھتے ہو کہ جو احسانات اللہ نے تم پر کیے ہیں ان کے شکریے میں اللہ کے ساتھ اس کے بے اختیار غلاموں کو بھی شریک کر لو اور اپنی جگہ یہ سمجھ بیٹھو کہ اختیارات اور حقوق میں اللہ کے یہ غلام بھی اس کے ساتھ برابر کے حصہ دار ہیں؟ ٹھیک یہی استدلال ، اسی مضمون سے سورہ روم ، آیت نمبر ۲۸ میں کیا گیا ہے ۔ وہاں اس کے الفاظ یہ ہیں: ضَرَبَ لَکُمْ مَّثَلًا مِّنْ اَنْفُسِکُمْ ھَلْ لَّکُمْ مِّنْ مَّا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ مِّنْ شُرَکَآءَ فِیْ مَا رَزَقْنٰکُمْ فَاَنْتُمْ فِیْہِ سَوَ آ ءٌ تَخَا فُوْ نَھُمْ کَخِیْفَتِکُمْ اَنْفُسَکُمْ کَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْقِلُونَ ۔ اللہ تمہارے سامنے ایک مثال خود تمہاری اپنی ذات سے پیش کرتا ہے ۔ کیا تمہارے اس رزق میں جو ہم نے تمہیں دے رکھا ہے تمہارےغلام تمہارے شریک ہیں حتیٰ کہ تم اور وہ اس میں برابر ہوں؟ اور تم ان سے اسی طرح ڈرتے ہو جس طرح اپنے برابر والوں سے ڈرا کرتے ہو؟ اس طرح اللہ کھول کھول کر نشانیاں پیش کرتا ہے ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں“ ۔ دونوں آیتوں کا تقابل کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ دونوں میں ایک ہی مقصد کے لیے ایک ہی مثال سے استدلال کیا گیا ہے ۔ اور ان میں سے ہر ایک دوسری کی تفسیر کر رہی ہے ۔ شاید لوگوں کو غلط فہمی اَفَبِنِعْمَۃِ اللہِ یَجْحَدُوْنَ کے الفاظ سے ہوئی ہے ۔ انہوں نے تمثیل کے بعد متصلا یہ فقرہ دیکھ کر خیال کیا کہ ہو نہ ہو اس کا مطلب یہی ہوگا کہ اپنے زیر دستوں کی طرف رزق نہ پھیر دینا ہی اللہ کی نعمت کا انکار ہے حالانکہ جو شخص قرآن میں کچھ بھی نظر رکھتا ہے وہ اس بات کو جانتا ہے کہ اللہ کی نعمتوں کا شکریہ غیر اللہ کو ادا کرنا اس کتاب کی نگاہ میں اللہ کی نعمتوں کا انکار ہے ۔ یہ مضمون اس کثرت سے قرآن میں دہرایا گیا ہے کہ تلاوت و تدبر کی عادت رکھنے والوں کو تو اس میں اشتباہ پیش نہیں آسکتا ، البتہ انڈکسوں کی مدد سے اپنے مطلب کی آیات نکال کر مضامین تیار کرنے والے حضرات اس سے ناواقف ہو سکتے ہیں ۔ نعمت الہٰی کے انکار کا یہ مفہوم سمجھ لینے کے بعد اس فقرے کا یہ مطلب صاف سمجھ میں آجاتا ہے کہ جب یہ لوگ مالک اور مملوک کا فرق خوب جانتے ہیں ، اور خود اپنی زندگی میں ہر وقت اس فرق کو ملحوظ رکھتے ہیں ، تو کیا پھر ایک اللہ ہی کے معاملہ میں انہیں اس بات پر اصرار ہے کہ اس کے بندوں کو اس کا شریک ٹھیرائیں اور جو نعمتیں انہوں نے اس سے پائی ہیں ان کا شکریہ اس کے بندوں کو ادا کریں؟

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

30: مطلب یہ ہے کہ تم میں سے کوئی شخص ایسا نہیں کرتا کہ اپنے غلام کو اپنی دولت اس طرح دیدے کہ وہ دولت میں اس کے برابر ہوجائے۔ اب تم خود مانتے ہو کہ جن دیوتاؤں کو تم نے اللہ کا شریک بنا رکھا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کے مملوک یعنی غلام ہیں۔ پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اللہ نے انہیں اپنی خدائی اس طرح دے دی ہو کہ انہیں اللہ کے برابر معبود بننے کا حق حاصل ہوگیا ہو۔ 31: یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کر کے یہ دعوی کرتے ہیں کہ فلاں نعمت اللہ نے نہیں، بلکہ ان کے گھڑے ہوئے دیوتاؤں نے دی ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٧١۔ اللہ پاک نے مشرکوں کے غلط عقیدہ کے متعلق ایک دوسری دلیل بیان فرمائی کہ حق سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے بندوں میں بعضوں کو بعضوں پر فضیلت دے رکھی ہے کسی کو غنی و تونگر پیدا کیا ہے اور کسی کو فقیر و محتاج بنایا ہے اور جس طرح مال و دولت میں ایک کو ایک پر فضیلت دی ہے اسی طرح عقل و فہم ناتوانی کمزوری حسن بدصورتی صحت مرض میں بھی ایک کو ایک پر فضیلت دی ہے ایک کی عقل زیادہ ہے ایک کی کم ایک کا علم دوسرے سے بڑھ کر ہے ایک بیمار و کمزور ہے تو دوسرا صحیح اور صاحب قوت ہے۔ سورت الزخرف میں آوے گا ورفعنا بعضھم فوق بعض درجات لیتخذ بعضھم بعضا سخریا (٤٣/٢٢) ۔ مطلب یہ ہے کہ دنیا میں بعضوں کو خوشحال اور بعضوں کو تنگدست پیدا کرنے میں اتنی بڑی مصلحت ہے کہ اس پر تمام دنیا کا انتظام منحصر ہے کیونکہ خوشحال لوگوں کو تنگدست لوگوں سے طرح طرح کے کام لینے کی ضرورت اور تنگدست لوگوں کو خوشحال لوگوں کے طرح طرح کے کام کر کے ان سے اجرت کے پانے کی ضرورت اور یہ ایسی ضرورتیں ہیں کہ ان پر تمام دنیا کا انتظام منحصر ہے دنیا کے سب لوگ مالدار یا سب لوگ تنگدست ہوتے تو دنیا کا یہ انتظام کبھی نہ چل سکتا۔ معتبر سند سے مسند امام احمد میں ابی بن کعب (رض) سے اور ترمذی میں ابوہریرہ (رض) سے جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ توحید کا عہد لینے کے عالم ارواح میں جب اللہ تعالیٰ نے سب روحوں کو آدم (علیہ السلام) کی پشت سے نکالا تو آدم (علیہ السلام) کو یہ بھی جتلا دیا کہ دنیا میں مثلاً اتنے آدمی مالدار ہوں گے اور اتنے غریب اور اسی طرح اور حالتوں کو بھی جتلا دیا اس پر آدم (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کہ یا اللہ ان سب کو ایک حالت پر کیوں نہیں پیدا کیا اللہ تعالیٰ نے فرمایا اس میں یہ مصلحت ہے کہ اچھی حالت کے لوگ اپنے سے کم درجے کی حالت والوں کو دیکھ کر شکر ادا کریں ١ ؎۔ صحیح مسلم ترمذی اور ابن ماجہ میں عبد اللہ بن عمرو بن العاص (رض) سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس تنگدست آدمی نے تنگدستی پر صبرو قناعت کو اختیار کیا اس نے بڑی مراد پائی ٢ ؎۔ مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن ایسے شخص کو صبرو قناعت کا بڑا اجر ملے گا سورت الزخرف کی آیت اور ان حدیثوں کو اس آیت کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مصلحت کے موافق ان مشرکین مکہ کو مالدار پیدا کر کے ان کے غلام لونڈی کو ان کا محتاج بنا دیا اور یہ ظاہر بات ہے کہ یہ لوگ اپنے لونڈی غلاموں کو اپنی عزت اپنی مالداری کی حالت میں شریک نہیں کرنا چاہتے تو پھر وہ اللہ جو آسمان و زمین کا بادشاہ ہے اس کی تعظیم اور بادشاہت میں یہ لوگ دوسروں کو کیوں اور کس سند سے شریک ٹھہراتے ہیں اللہ تعالیٰ نے جو ان کو پیدا کیا ہے اور ان کو دنیا کی طرح طرح کی نعمتیں جو دی ہیں کیا اس کی شکر گزاری کے یہی ڈھنگ ہیں جو ان لوگوں نے اختیار کئے ہیں صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے عبد اللہ بن مسعود (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا اب اپنے پیدا کرنے والے کی تعظیم میں جو دوسروں کو شریک کرے تو اس سے بڑھ کر کوئی بات ناشکری اور وبال کی دنیا میں نہیں ہے ٣ ؎۔ اس حدیث کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل وہی ہے جو حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کے قول کے موافق اوپر بیان کیا گیا۔ ١ ؎ جامع ترمذی ص ١٣٣ ج ٢ تفسیر سورت الاعراف و مشکوٰۃ ص ٢٤ باب الایمان بالقدر۔ ٢ ؎ جامع ترمذی ص ٥٨ ج ٢ باب ماجاء فی الکفاف والصبر علیہ۔ ٣ ؎ مشکوٰۃ ص ١٦ باب الکبائر۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(16:71) فما الذین میں ما نافیہ ہے۔ ر آدی۔ اسم فاعل جمع مذکر۔ بحالت ِ نصب وجر ّ ۔ اصل میں رادین تھا۔ ن اضافت کی وجہ سے ساقط ہوگیا۔ بحالت ِ رفع ر آدون کی جمع۔ رد (مضاعف) سے اسم فاعل۔ اصل میں رادد تھا ۔ دو حرف ایک جنس کے اکٹھے ہوئے۔ پہلے کو ساکن کر کے دوسرے میں مدغم کیا۔ راد ہوگیا۔ رد یرد (نصر) کے معنی ہیں۔ پھیرنا۔ واپس کرنا۔ پس اسم فاعل ر آد کے معنی ہوئے پھیرنے والا۔ واپس کرنے والا۔ فما الذین فضلوا بر آدی رزقہم علی ما ملکت ایمانہم فہم فیہ سوآئ۔ پھر جن لوگوں کو رزق میں یہ فضیلت دی گئی ہے وہ ایسے نہیں ہیں کہ اپنا رزق اپنے غلاموں (مملوک) کی طرف پھیر دیں تا کہ وہ سب اس میں (اس رزق میں) برابر برابر ہوجائیں (برابر کے حصہ دار بن جائیں) ۔ (جب یہ لوگ اس رزق میں جو ان کا اپنا بھی نہیں ہے۔ کسی اور کا (یعنی اللہ کا) دیا ہوا ہے اپنے غلاموں کو شریک بنانا پسند نہیں کرتے۔ تو افبنعمۃ اللہ یجحدون کیا اللہ ہی کی نعمتوں کا انکار کرتے ہیں۔ (یعنی اس کی نعمتوں کا صرف اسی کے لئے شکریہ ادا نہیں کرتے بلکہ اس کے بندوں اور مٹی کے خود ساختہ بتوں کو اس کا شریک وسہیم ٹھہراتے ہیں) ۔ اس آیت کے تحت تفہیم القرآن میں تفصیلی نوٹ ملاحظہ ہو۔ یجحدون۔ مضارع جمع مذکر غائب جحد وجحود مصدر باب فتح۔ وہ انکار کرتے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 پھر اللہ کے عبید (غلاموں) کو اس کے شریک کیوں قرار دیتے ہو 4 یعنی کفران نعمت کر کے دوسروں کو اس کا شریک گردانتے ہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

(رکوع نمبر ١٠) اسرارومعارف اب اپنی تخلیق پر غور کرو تو توحید کے اثبات کی کتنی بڑی دلیل موجود ہے کہ اللہ کریم نے سب انسانوں کو مال و دولت میں بھی یکساں نہیں بنایا جیسے قد کاٹھ طاقت علم اور شعور میں سب ایک سے نہیں ایسے مالی اعتبار سے سب برابر نہیں بعض تو غلام اور خدم وحشم رکھتے ہیں اور اپنی پسند سے خرچ کرتے ہیں بلکہ دوسروں کو ان کی وساطت سے روزی ملتی ہے بعض مزدور ، ملازم یا غلام ہوتے ہیں تو کیا کوئی صاحب ثروت انسان غلام کو برابر جانتا ہے یا کرسکتا ہے کہ اگر رزق بانٹ بھی دے تو بحیثیت غلام دیا تو وہ مالک نہ بن سکے گا مال تو مالک ہی کا رہا اور اگر آزاد کر کے دیا تو اگرچہ مال میں برابر ہوگیا ، مگر غلام نہ رہا تو جب مشرکین بتوں یا دیوی دیوتاؤں کو مخلوق اور مملوک مانتے ہیں تو مخلوق بھلا خالق کے برابر کیسے ہو سکتی ہے کس قدر بودی بات اور اللہ کے انعامات میں محض جھگڑنے والی بات ہے بغیر کسی دلیل کے ۔ (اسلام کا معاشی نظام) اللہ جل جلالہ کے اس ارشاد میں یہ بھی ظاہر ہے کہ امیر و غریب ہونا کوئی حادثہ نہیں حیات انسانی کا نظام اسی پر استوار ہے جیسے علم یا عقل میں لوگ مختلف ہیں ایک دیوار بنانا جانتا ہے مگر دولت نہیں رکھتا دوسرے کے پاس دولت ہے دیوار نہیں بنا سکتا لہذا باہمی معاملہ کرتے ہیں وہ اس کی دیوار بنا دیتا ہے اور وہ اسے اجرت دیتا ہے اسی نظام پر عمل کرنے میں ان کی صلاحیت اور نیکی کا امتحان بھی ہوتا ہے مگر جب اس میں ظلم شروع ہوا اور کسب معاش کے ذرائع پر چند افراد یا چند جماعتیں قابض ہوگئیں تو انہوں نے ظالمانہ طریقے ایجاد کرکے ساری دولت اپنے ہاں جمع کرنے اور دوسرے کو محتاج کرنے کے حیلے ایجاد کئے جسے سرمایہ دارانہ نظام کیا گیا ہے ان کے ظلم سے تنگ آکر متبادل نظام کے طور پر اشتراکیت میدان میں اتری جسے کمیونزم یا سوشلزم کا نام بھی دیا گیا اور مظلوموں نے ایک خوبصورت نعرہ سنا کر مال سب میں برابر تقسیم کیا جائے گا مگر جب اس نظام میں جکڑے گئے تو پتہ چلا کہ یہ تو سرمایہ داری سے کہیں بڑھ کر ظالم نظام ہے کہ اس میں انسان غربت و افلاس کے ساتھ اپنی ایک انسانی حیثیت تو رکھتا تھا یہاں وہ بھی گئی اور محض مشین کا پرزہ قرار پایا ہر شے گھر بار مال اولاد تک حکومت کی ملکیت قرار پائی جس میں نہ اس کی پسند کا لحاظ ہے نہ ضمیر نام کی حرکت کرنے کی اجازت بلکہ اف کرنے والے باغی قرار پا کر ظالمانہ طریقے سے قتل کئے گئے ، اسلام نے سرمایہ داری اور اشتراکیت کی ظالمانہ اور احمقانہ اشاروں کے درمیان ایک بہترین نظام عطا فرمایا جس میں سود اور جوئے جیسے حربوں کو حرام قرار دیکر ناجائز سرمایہ داری کی بنیاد ختم کردی مصنوعی گرانی اور قحط پیدا کرنے کو حرام قرار دیا کہ کوئی فرد یا جماعت دوسروں کو لوٹ نہ سکے پھر ہر مالدار کے مال میں غریبوں کا حصہ فرض قرار دیا ، مرنے والے کی دولت کو وارثوں میں تقسیم کردیا قدرتی چشموں سمندروں اور پہاڑی خودرو جنگلوں کو سب کی مشترکہ ملکیت قرار دیا تاکہ کبھی بھی ارتکاز دولت نہ ہو سکے ، رہا افراد میں تفاوت تو جیسے علمی وعملی صلاحتیوں کا فرق ایک فطری امر ہے ایسے ہی رزق میں مختلف درجات نظام عالم کا حصہ ہیں اور ان کا مٹانے کا نعرہ یا بیوقوف لگاتا ہے یا پھر دوسروں کو بیوقوف بنانے کے لیے لگایا جاتا ہے ۔ کیا تم یہ فرق مٹا سکتے ہو کہ اللہ کریم نے تمہاری جنس میں سے تمہاری بیویاں پیدا کردیں جس کو تمہاری نسل کی بقاکا باعث بنایا کہ ان سے اولاد اور پھر اولاد کے ہاں اولاد پیدا ہوتی ہے ۔ (عورت کی حیثیت) یہاں نسل انسانی کا تذکرہ کرتے ہوئے عورت کو مرد ہی کی ذات اور جنس سے قرار دیا یعنی ان کے جذبات واحسات وہی ہیں تو اسی انسانی احترام کی مستحق بھی ہیں اگرچہ فرائض جداگانہ ہیں پھر اس نظام کو اولاد کا سبب اور بقائے نسل کا باعث بنایا تو کیا کوئی اس سارے نظام کو مٹال کر سب کو ایک سا کرسکتا ہے کہ مردوں کو عورت بنا دے یا عورت کو مرد اور اگر یہ سب ہوجائے تو کیا نظام عالم یا نسل انسانی باقی رہ سکتی ہے پھر بقائے شخصی کے لیے بہترین غذائیں دیں جو سب انسانوں کی ایک نہیں ہوسکتیں ایک کو جو چیز نافع ہے دوسرے کو نقصان دیتی ہے تو جب ان سب امور میں ہر کوئی ایک سا نہیں ہوسکتا تو خالق ومالک کے ساتھ دوسروں کی برابری کا دعوی کیسا کیا یہ ایسی بات نہیں کہ اللہ کریم کی نعمتوں اور حسانات کرکے محض غلط اور ناقابل عمل باتوں پر یقین کرلیا گیا ہے ۔ اور اللہ جل جلالہ کی ذات کے علاوہ لوگوں نے بعض دوسروں کی عبادت شروع کر رکھی ہے جو خود مخلوق ہیں اور رزق کے محتاج اپنی عبادتوں والوں کی روزی میں آسمانوں یا زمین میں ان کا کوئی داخل اور نہ ہی وہ ایسا کرسکتے ہیں لہذا اللہ کریم کو دنیا کے حاکموں پر قیاس کرکے مثالیں نہ دیا کرو کہ جیسے انہیں اپنے نائبین کی ضرورت ہوتی ہے اللہ جل جلالہ کے بھی ویسے نائب ہیں بادشاہ اور نائب دونوں مخلوق ہیں جبکہ اللہ جل جلالہ اکیلا خالق ہے لہذا مشرکانہ نظام کی یہ بنیادی دلیل اور مثال ہرگز درست نہیں اللہ کریم بہت جانتا ہے جب کہ تم کچھ نہیں اور ہر بات کے جاننے میں بھی اس کے محتاج ہو ، اللہ کریم نے دو مثالیں ارشاد فرمائی ہیں کہ بھلا ایک غلام جو کسی کی ملکیت ہو اور مالک کے مال میں بھی اپنی مرضی سے خرچ نہ کرسکے جبکہ دوسرا نہ صرف مال کا بلکہ اس غلام کا بھی مالک ہو اور جیسے چاہے خرچ کرے اسے بھی جو چاہے حکم دے تو دونوں مخلوق ہوتے ہوئے بھی اور انسان ہونے کے باوجود بھی ہرگز برابر نہیں ہوسکتے تو بھلا کوئی بھی مخلوق خالق کی برابری کا دعوی کیسے کرسکتی ہے جبکہ سب کمالات کا مالک اکیلا اللہ جل جلالہ ہے مگر اکثر انسان اس بات کو نہیں جان رہے یا دوسرا جو کسی کا غلام بھی ہو اور کسی کام کا نہ ہو نہ علمی اعتبار سے درست ہو نہ عقل سلامت ہو اور نہ کام کرنے کی طاقت ہو بلکہ الٹا مالک پر بوجھ ہو اور اس کے کام بھی مالک کو کرنے پڑیں اور اسے جہاں بھیجا جائے کام سنوار کر نہ آئے بلکہ نقصان کی خبر لانے والا ہو اور دوسرا انسان جو نہ صرف علمی کمال رکھتا ہو قوت عمل بھی رکھتا ہو اور خود بھی درست کام کرتا ہو ساتھ دوسروں سے بھی درست کام لے اور بہترین قابلیت کا حامل ہو کیا یہ دونوں باوجود مخلوق اور انسان ہونے کے برابر ہو سکتے ہیں یقینا نہیں تو پھر کوئی اللہ جل جلالہ کے برابر کیسے ہو سکتا ہے ۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 71 تا 73 فضل بڑائی دی۔ فضلوا بڑھائے گئے۔ رادی لوٹانے والے۔ ملکت ایمان داہنے کی ملکیت، غلام۔ سواء برابر۔ یجحدون وہ انکار کرتے ہیں۔ ازواج جوڑے، بیویاں۔ بنین بیٹے۔ حفدۃ پوتے۔ لایستطیعون وہ قدرت طاقت نہیں رکھتے۔ تشریح : آیت نمبر 71 تا 73 اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے علم اور قدرت کاملہ اور اپنی ان نعمتوں کا ذکر فرمایا ہے جو اس نے انسانوں کے فائدہ کیلئے عطا فرمائی ہیں۔ ان آیات میں چند اور نعمتوں کا بھی ذکر کر کے توحید کا اثبات اور باطل کے بےحقیقت ہونے کا اظہار فرمایا ہے۔ فرمایا کہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے کہ اس نے اپنی حکمت اور قدرت کا ملہ سے سب کو ایک درجہ کا نہیں بنایا بلکہ کسی کو امیر کسی کو غریب کسی کو نہایت سمجھ دار اور کسی کو بیوقوف بنایا ہے۔ اگر ساری دنیا کے انسان ایک ہی جیسے رتبے اور مقام کے ہوتے تو اس کائنات کا نظام کیسے چلتا۔ اس میں اللہ نے اپنی توحید کو نہایت شان کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ ارشاد ہے کہ اس غریبی اور امیری کے فرق میں تم اس بات کو اچھی طرح سمجھ سکتے ہو کہ اللہ نے جن لوگوں کو خوب عطا فرمایا ہے وہ بہت خوش حال ہیں۔ دوسری طرف غریب، مفلس، غلام اور نوکر چاکر ہیں لیکن کوئی آقا، مالک اور صاحب حیثیت آدمی اپنا سب کچھ دے کر غریبوں کو اپنے برابر کی سطح پر لانا نہیں چاہتا۔ اپنی عزت، رتبے اور مال و دولت کے نشے میں کسی کو خاطر میں نہیں لاتا۔ فرمایا کہ تم تو اپنی دولت، ملکیت اور رتبے میں کسی کو شریک کرنا پسند نہیں کرتے مگر تمہاری یہ کتنی بڑی بھول ہے کہ تم پتھر کے بےجان بتوں اور غیر اللہ کو اللہ کے برابر کرتے ہو اور اس کا شریک بناتے ہو۔ فرمایا کہ جس چیز کو تم اپنے لئے پسند نہیں کرتے اپنے اس لئے کیلئے کیسے پسند کرتے ہو جس کی عظمت کی کوئی مثال دینا بھی دشوار ہے۔ جس کی یہ ساری کائنات ہے اور اس کا ذرہ ذرہ اس کی ملکیت ہے فرمایا کہ کیا تم اللہ کی نعمتوں کا انکار کرسکتے ہو۔ اللہ نے تو تم پر یہ کرم فرمایا کہ تمہاری جنس سے تمہیں وہ بیویاں اور زندگی کی ساتھی عطا کی ہیں جو تمہارے گھر کے انتظام کو سنبھالتی ہیں جو تمہارے دکھ سکھ کی شریک، تمہارے مال و دولت اور بچوں کی نگراں ہیں جو تمہارے لئے سکون قلب اور انسیت و محبت کا ذریعہ ہیں ۔ وہ اللہ جس نے تمہیں اولاد بھی دی اور اولاد کی اولاد یعنی پوتے اور نواسے بھی عطا فرمائے جس سے تمہاری نسل چلتی ہے اور تمہارے آڑے وقت میں کام آتے ہیں۔ فرمایا کہ تمہیں تو اسی کی عبادت و بندگی کرنی چاہئے تھی اور غیر اللہ کو اس کے برابر کرنے کے بجائے توحید کا پیکر ہونا چاہئے تھا کیونکہ اللہ نے اپنی قدرت سے ہر چیز کو پیدا کیا ہے یہ پتھر کے بت اور مورتیاں جو خود اپنے وجود کے لئے تمہارے ہاتھوں کی محتاج ہیں زمین و آسمان میں نہ تو کسی کو رزق پہنچا سکتی ہیں اور نہ ان میں طاقت و قوت ہے۔ واللہ فضل بعضکم علی بعض اللہ کی حکمت اور مشیت ہے کہ اس نے اس دنیا میں بسنے والے تمام لوگوں کو برابر نہیں کیا بلکہ رزق ، ملکیت ، دولت اور صلاحیتوں میں بعض کو بعض پر فضیلت عطا فرمائی ہے۔ کسی کو اتنا دیا کہ وہ خوب عیش و آرام سے رہتا، بستا کھاتا اور پیتا ہے وہ اپنی مرضی سے اپنی زیر ملکیت چیزوں کو استعمال کرتا ہے اور دوسروں کو بھی دیتا ہے۔ اس کے برخلاف بعض وہ لوگ ہیں جو نہایت تنگی اور عسرت کی زندگی گذارتے ہیں اور اپنے بنیادی اخراجات میں بھی تنگی ترشی سے گذارا کرتے ہیں اور کچھ لوگ وہ ہیں جو متوسط اور درمیانہ حال کے مالک ہیں۔ دنیا میں ہمیشہ سے یہی تین طبقے رہے ہیں۔ اللہ نے تو اپنی اس کائنات میں کسی کے لئے کوئی رکاوٹ نہیں رکھی جو شخص بھی چاہے محنت اور اپنی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دنیاوی زندگی کے ہر عیش و آرام کو اپنے اردگرد جمع کرسکتا ہے لیکن بعض لوگ وہ ہیں کہ سب کچھ محنت اور ان تھک محنت کے باوجود پوری زگندی عسرت و تنگی کی زندگی گذارت یہیں۔ بہرحال دنیا میں یہی تین طبقے رہے ہیں۔ یہ ایک فطری تقسیم ہے جو ہمیشہ سے رہی ہے۔ سرمایہ داروں کے ظلم و ستم اور جبر و تشدد کے ہاتھوں تنگ آجانے والوں میں سے کچھ لوگوں نے ایک ایسا نظام بنانے کی کوشش کی جس میں سب لوگ برابر ہوجائیں اور ان میں وسائل زندگی برابر تقسیم کئے جائیں۔ اس نظریہ میں بڑی جاذبیت تھی اور اسی (80) سال کی محنت کے بعد کمیونزم کا نظام قائم کرنے کے لئے چند مملکتیں بن گئیں مگر یہ غیر فطری تقسیم کا نظام بھی سرمایہ دارانہ نظام زندگی کی طرح انسانوں کے مسائل کو حل نہ کرسکا، پہلے تو لوگ سرمایہ داروں کے غلام تھے لیکن کمیوزنزم میں لوگ ایک ایسی سلطنت کے غلام بن گئے جس میں انسانی آزادی بھی چھین لی گئی اور غیر فطری تقسیم کا نظام آخر کار چند برسوں ہی میں ناکام ہوگیا اور ہمارے زمانہ تک جو ملک ابھی تک اس شکنجے میں پھنسے ہوئے ہیں وہ بھی بہت جلد آزاد ہوجائیں گے۔ گزشتہ کوئی سو برسوں سے انسان نے طرح طرح کے تجربات کئے لیکن انسان کو سکون میسر نہ آسکا کیونکہ جب تک دنیا اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جنگ پر آمادہ رہے گی اس وقت تک انسان کو اس کی سچی منزل نصیب نہیں ہوگی اور خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مکمل اطاعت و محبت پر نہیں آئے گی اور خوش نما نعروں کو زندگی سمجھے گی اس وقت تک اس کو زندگی کا حقیقی سکون حاصل نہیں ہوگا۔ ۔ افبنعمتہ اللہ یجحدون …… ترجمہ…… کیا پھر بھی وہ اللہ کی نعمت کا انکار کریں گے۔ آیت کے اس حصے میں اللہ تعالیٰ نے اس طرف متوجہ فرمایا ہے کہ انسان پر اللہ کی ہزاروں نعمتیں ہیں ایک نعمت یہ فطری تقسیم بھی ہے فرمایا کہ انسان تو اس بات پر جتنا بھی غور رکے گا شکر اور احسان مندی کے جذبے سے اس کا سر تو اٹھ ہی نہیں سکتا بلکہ ان احسانات کے سامنے اس کو اپنا سر جھکانا ہی پڑے گا کیونکہ وہ اللہ اپنے بندوں کا خیر خواہ ہے۔ اس کے برخلاف شیطان انسان کو ناشکری کی راہ پر ڈالنا چاتہا ہے جو انسان کی سب سے بڑی بھول ہے۔ من انفسکم ازوجاً …… ترجمہ…… اللہ نے تمہارے لئے تم ہی میں سے تمہاری بیویوں کو بنایا۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بیوی بچے ، پوتے، نواسے عطا فرمائے جن کے ذریعہ اس کی نسل چلتی ہے بہت بڑی نعمت ہیں۔ انسان کو اپنی رفیقہ حیات سے جو سکون، اطمینان اور اعتبار ملتا ہے وہ بیوی کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ پھر جب ان میاں بیوی کے ذریعہ اللہ اولاد اور پھر اولاد کی اولاد عطا فرماتا ہے۔ تو یہ اور بھی بڑی نعمت بن جاتی ہے کیونکہ انسان کے لئے یہ تصور ہی بڑا حسین ہے کہ اب آگے اس کی نسل چلتی رہے گی۔ بیوی جو ایک مرد کی محنت اور مزدوری سے اس کے گھر کا نظام چلاتی ہے اس کے مال کی حفاظت کرتی ہے۔ اس کو اس کے خاندان میں عزت کا مقام دلواتی ہے۔ اس کے بچوں کی تعلیم و تربیت اور نگہداشت کرتی ہے اور اس مرد کے لئے قلبی اور جذباتی انس، سکون اور محبت کا ذریعہ بنتی ہے اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ جو لوگ زندگی کی اس ذمہ داری سے بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں وہ بڑے ہی بدنصیب ہیں۔ ہم نے ترقی یافتہ ملکوں میں دیکھا ہے کہ اکثر لوگ زندگی کی اس ذمہ داری سے بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں کسی ایک عورت کے ساتھ کچھ وقت گذارتے اور اولاد کی ذمہ داریوں سے دور رہنے کے لئے ایسے مصنوعی طریقے اختیار کرتے ہیں جس سے ان کے ہاں اولاد نہ ہو۔ ہزاروں لاکھوں انسان ایسے ہیں جو اسی عیاشی میں اپنی زندگی گذارتے ہیں اور بےنام و نشان اس دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔ جب یہ صورتحال سامنے آتی ہے تو قرآن کریم میں بتائی گئی اس نعمت حقیقی کا اندازہ ہوتا ہے کہ بیوی، بچے پوتے، نواسے یعنی ایک خاندانی زندگی کتنی بڑی نعمت ہے۔ رزقکم من الطیبت … ترجمہ… اور اس نے تمہیں بہت پاکیزہ رزق عطا کیا ہے۔ اصل میں رزق طیب یعنی رزق حلال بھی اللہ کی نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت ہے جس میں سات گنا زیادہ برکت ہے اس کے برخلاف رزق حرام میں ہزاروں نحوستیں ہیں۔ اس آیت کے حصے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے انسان کو محنت کی صلاحیت دی ہے اور رزق حلال کے ہزاروں راستے کھول دیئے ہیں اب یہ انسان کی بھول ہے کہ وہ اپنی جلد بازی میں اور فوری نتیجہ حاصل کر کے چکر میں اپنی حلال روزی کو اپنے لئے حرام بنا لیتا ہے اور اس طرح وہ باطل اور جھوٹ کو اپنی زندگی کی کامیابی سمجھ کر اللہ کی اس نعمت کو اپنے لئے حرام بنا لیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ تمام نعمتیں تمہارے پروردگار نے تمہیں بخشی ہیں۔ ان نعمتوں کے بخشنے میں ان بےجان پتھروں کو کوئی دخل نہیں ہے جنہیں تم نے اپنا معبود بنا رکھا ہے۔ نہ ان میں اس کی طاقت ہے نہ قوت ہے لیکن ایک انسان اپنے حقیقی اللہ کو بھول کر بےجان پتھروں کو اس کا شریک معبود بنا لیتا ہے تو یقینا وہ بہت بڑا ظلم کرتا ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ اس میں شرک کی غایت تقبیح ہے کہ جب تمہارے غلام تمہارے شریک رزق نہیں ہوسکتے تو اللہ کے غلام اس کے شریک الوہیت کیسے ہوسکتے ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جس طرح اللہ تعالیٰ موت وحیات کا مالک ہے اسی طرح وہ انسان کا رزق بڑھانے اور اسے کم کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جس طرح انسانوں کی زندگی کے مختلف مراحل مقرر کیے ہیں اسی طرح اس نے لوگوں کے درمیان جسمانی، روحانی اور معاشرتی اعتبار سے امتیازات قائم فرمائے ہیں۔ ایسے ہی اس نے معاشی حوالے سے لوگوں کے درمیان فرق قائم کیا ہے۔ تاکہ لوگ ایک دوسرے کی ضرورت بن کر زندگی بسر کریں۔ ایک شخص زمیندار ہے دوسرا اس کا مزارع، ایک کارخانہ دار ہے دوسرا اس کا ور کر۔ ایک مالدار ہے دوسرا اس کا ملازم گویا کہ معاشی اعتبار سے بھی اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو ایک دوسرے پر برتری عنایت فرمائی ہے۔ ملازم کے بغیر مالدار کا کاروبار آگے نہیں بڑھ سکتا۔ کاریگر اور ور کر کے بغیر فیکٹری کا پہیہ جام ہوجاتا ہے۔ مزارع کے بغیر زمین میں زراعت نہیں ہوسکتی۔ یہی اسباب رزق کی کمی وبیشی کا سبب ثابت ہوتے ہیں۔ یہاں رزق کے حوالے سے مشرک کو عقیدۂ توحید سمجھانے کی کوشش فرمائی ہے کہ ایک لینڈ لارڈمزارع کو اور کارخانہ دار ور کر کو اپنے کاروبار اور زمین میں حصہ دار بنانے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ مگر مشرکانہ ذہن رکھنے والے لوگ فطرت سلیم اور انصاف کے اصولوں کے برخلاف اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات میں دوسروں کو شریک بناکر شرم محسوس نہیں کرتے۔ یہاں ان کی مردہ فطرت کو جگانے کے بعد ان سے سوال کیا گیا ہے کہ اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھو اور اپنے ضمیر سے پوچھو۔ کیا تم اپنے غلاموں، نوکروں اور مزارعوں کو اپنے کاروبار میں شریک کرنے کے لیے تیار ہو ؟ یقیناً تم ایسا کرنے کے لیے تیار نہیں ہو۔ مگر تم خدا کی خدائی میں زندہ اور مردہ یہاں تک کہ بتوں کو شریک بناتے ہوئے عار محسوس نہیں کرتے۔ حقیقت یہ ہے کہ شرک کرنے کی وجہ سے تمہارے ضمیر مردہ ہوچکے ہیں جس کی وجہ سے تم نہ صرف شرک سے اجتناب نہیں کرتے بلکہ شرکیہ عقیدہ کی خاطر جھگڑتے ہو۔ دراصل تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا انکار کرتے ہو۔ اللہ کی نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت عقیدۂ توحید ہے جس سے انسان میں خودداری اور اللہ کے سوا باقی سب سے بےنیازی پیدا ہوتی ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے رزق کے لحاظ سے بعض کو بعض پر برتری دی ہے۔ ٢۔ کوئی مالدار اپنے مال میں کسی کو حصہ دار بنانا پسند نہیں کرتا۔ ٣۔ اللہ کی نعمتوں کا انکار نہیں کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن کافر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا انکار کرتے ہیں : ١۔ کافر اللہ کی نعمت کا انکار کرتے ہیں۔ (النحل : ٧١) ٢۔ ہماری آیات کا صرف کافر ہی انکار کرتے ہیں۔ (العنکبوت : ٤٩) ٣۔ ظالم لوگ اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہیں۔ (الانعام : ٣٣) ٤۔ اللہ کی آیات کا انکار کرنے کا بدلا آخرت میں آگ کا گھر ہے۔ (حم السجدۃ : ٢٨) ٥۔ کیا تم باطل کے ساتھ ایمان لاتے اور اللہ کی نعمتوں کا انکار کرتے ہو ؟ (النحل : ٧٢) ٦۔ کافر اللہ کی نعمتوں کو پہچانتے ہیں۔ پھر ان کا انکار کرتے ہیں۔ (النحل : ٨٣) ٧۔ جو بھی اللہ کی نعمت کو تبدیل کرے اس کے لیے سخت عذاب ہے۔ (البقرۃ : ٢١١) ٨۔ قیامت کے دن ہم انہیں فرموش کردیں گے جس طرح وہ قیامت کی ملاقات کو بھول گئے کیونکہ وہ ہماری آیات کا انکار کرتے تھے۔ (الاعراف : ٥١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ نے بعض کو بعض پر رزق میں فضیلت دی ہے، اس نے تمہارے لیے بیویاں پیدا کیں، پھر ان سے بیٹے پوتے عطا فرمائے اور تمہیں عمدہ چیزیں کھانے کو دیں ان آیات میں بھی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا تذکرہ فرمایا توحید کی دعوت دی ہے اور شرک سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے۔ اولاً یہ ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تم میں سے بعض کو بعض پر رزق میں فضیلت دی ہے اس میں رزق سے وہ چیزیں مراد ہیں جو بندوں کی ملکیت میں آتی ہیں، اللہ تعالیٰ نے جس کو جو کچھ بھی عطا فرمایا وہ اللہ تعالیٰ کا انعام ہے پھر اس انعام میں تفضیل فرمائی یعنی بعض کو بعض پر فضیلت دے دی، کسی کے پاس مال زیادہ ہے اور کسی کے پاس کم ہے اس کمی بیشی میں اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے اگر سبھی مالدار یا تنگدستی میں برابر ہوجائیں تو دنیا کا نظام ٹھیک طرح سے نہیں چل سکتا جب سبھی برابر ہوں تو کوئی کسی سے کیسے کام لے اور کوئی کسی کا کام کیوں کرے، محنت اور مزدوری کی وجہ سے جو بہت سے کام ہوجاتے ہیں اور بہت سوں کو رزق مل جاتا ہے یہ سب ختم ہوجائیں۔ کارخانے ٹھپ ہوجائیں فیکٹریاں بند ہوجائیں ایک شخص کو کام لینے کی حاجت ہے تاکہ اس کا کارخانہ چلے اور دوسرے شخص کو پیسے کی ضرورت ہے تاکہ اس کی حاجتیں پوری ہوں، پہلا شخص کام لیتا ہے پیسے دیتا ہے دوسرا شخص کام کرتا ہے اور پیسے لیتا ہے، اسی طرح سے انسانوں کی مختلف انواع کی ضرورتیں بھی پوری ہو رہی ہیں اور منڈیوں میں مال بھی آ رہا ہے۔ بازار بھی چالو ہیں فیکٹریوں میں بھی مال تیار ہو رہے ہیں اور کارخانے پروڈکشن کے لیے مصروف عمل ہیں۔ یہ جو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو مال دیا ہے اور ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اس میں یہ بات بھی ہے کہ جن کے پاس مال ہے وہ اپنے غلاموں کو مال دے کر اپنے برابر دیکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں اس کو فرمایا (فَمَا الَّذِیْنَ فُضِّلُوْا بِرَآدِّیْ رِزْقِھِمْ عَلٰی مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُھُمْ ) اس میں مشرکین کی تردید فرمائی کہ جب تم اپنے غلاموں کو اپنے برابر نہیں دیکھ سکتے اور برابر کا درجہ نہیں دے سکتے تو تمہیں یہ کیسے گوارا ہوا کہ اللہ کی مخلوق اور مملوک کو اللہ کے برابر کردیا اور غیر اللہ کو اللہ کی عبادت میں شریک کردیا، تم بھی مخلوق ہو اور تمہارے غلام بھی مخلوق ہیں مخلوق کو گوارا نہیں کہ دوسری مخلوق کو اپنے برابر دیکھ لے، پھر خالق جل مجدہ کے ساتھ اس کی مخلوق کو کیسے برابر بنا دیا، اور مستحق عبادت سمجھ لیا (اَفَبِنِعْمَۃِ اللّٰہِ یَجْحَدُوْنَ ) (کیا اللہ تعالیٰ کی نعمت کا انکار کرتے ہیں) انعام تو دیا اللہ نے اور عبادت میں شریک کرلیا دوسروں کو، اس کا حاصل یہ ہوا کہ اللہ کی نعمت کے انکاری ہوگئے جب نعمت دینے والا صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے جس کا مقتضی یہ ہے کہ صرف اسی کی عبادت کی جائے تو غیر اللہ کو معبود بنا کر یہ سمجھ لیا کہ ان سے بھی کچھ مل سکتا ہے اس سے اللہ تعالیٰ کے انعام کا انکار لازم آتا ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

54:۔ یہ معبود حق اور معبود باطل کی مثال ہے۔ قال مجاھد ھذا مثل الایھۃ الباطلۃ (ابن کثیر) ۔ اللہ تعالیٰ نے رزق اور دنیوی دولت میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔ بعض لوگ بڑے دولت مند اور لینڈ لارڈ ہیں اور بعض بیچارے ان کے نوکر اور کارندے ہیں۔ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے زیادہ دولت دی ہے اور انہیں دوسروں پر فوقیت بخشی ہے وہ یہ ہرگز گوارا نہیں کرسکتے کہ اپنی دولت اپنے نوکروں اور گلاموں میں تقسیم کردیں تاکہ ان کے غلام دولت اور اختیارات میں ان کے برابر ہوجائیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی اس بات کو گوارا نہیں فرماتا کہ وہ اپنی صفات الوہیت اور اپنے اختیارات، علم وقدرت اور ملک و تصرف میں سے اپنے مقرب بندوں کو کچھ حصہ عطا کر کے انہیں اپنے شریک بنالے۔ اس لیے جس طرح اس نے مجازی مالک و مملوک میں دولت اور اختیارات کی کمی بیشی سے فرق قائم رکھا ہے اسی طرح اس نے اپنی صفاتِ کارسازی میں اپنے بندوں کو کچھ بھی نہ دے کر معبود اور عابد کا فرق قائم فرمایا۔ قال تعالیٰ منکرا علیھم (ای علی المشرکین) انتم لا ترضون ان تساو وا عبیدکم فیما رزقنٰکم فکیف یرضی ھو تعالیٰ بمساواۃ عبید لہ فی الالوھیۃ والتعظیم (ابن کثیر ج 2 ص 577) ۔ ” فھم فیہ سواء “ یہ منفی پر متفرع ہے یعنی مالک اپنے مملوک کو اپنی دولت میں سے اس قدر نہیں دیتا کہ وہ اس کے برابر ہوجائیں فی موضع جواب النفی کانہ فیستو وا (بحر ج 5 ص 515) ۔ 55:۔ یہ تمام مذکورہ بالا انعامات تو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائے مگر یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتے بلکہ اللہ کے عطا کردہ چوپایوں اور اس کی پیدا کردہ کھیتیوں میں سے غیر اللہ کی نذر و نیاز دے کر کفران نعمت کرتے ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

71 ۔ اور اللہ تعالیٰ نے تمہارے بعض کو بعض پر روزی میں فضلیت اور زیادتی عطا کی ہے پھر جن لوگوں کو روزی میں برتری اور زیادتی دی گئی ہے وہ اپنی روزی اور دولت اپنے غلاموں کو اس طریقہ پر کبھی دینے کو آمادہ اور تیار نہیں کہ وہ ان کے غلام سب اس دولت میں مساوی ہوجائیں کیا پھر بھی یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے ساتھ منکر انہ برتائو کرتے رہیں گے۔ یعنی روزی اور دولت کا فرق نمایاں ہے پھر کوئی دولت مند اس پر آمادہ نہیں کہ وہ اپنی دولت میں اپنے لونڈی غلاموں کو اس طرح شریک کرلے کر آقا اور غلام اس دولت میں مساوی اور برابر شریک ہوجائیں ۔ کیا اس بات کو سمجھنے کے بعد پھر اللہ تعالیٰ کے انعامات کا انکار کرتے ہو اپنی دولت میں کسی کو شریک کرنا پسند نہیں کرتے اور اللہ تعالیٰ کی الوہیت میں دوسروں کو شریک کرتے ہو۔ وہ اللہ تعالیٰ جو اپنے انعامات میں منفرد اور یکتا ہے اس کی الوہیت میں اس کے مملوکوں کو شریک کرو اور اپنی دولت میں اپنے اپنے مملوکوں کو شریک کرنے سے کترائو ، یہی تو اللہ تعالیٰ کے احسانات کا انکار اور نا سپاسی ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب کسی کا غلام اس کا کھانا پکا لاوے گرمی دھوپ آپ اٹھاوے اور تحفہ مال اس کو پہنچا وے تو لازم ہے کہ اسکو ساتھ بٹھا کر کھلاوے۔ نہ ہو سکے تو ایک دونوالے ہاتھ میں رکھ دے۔