Surat un Nahal

Surah: 16

Verse: 72

سورة النحل

وَ اللّٰہُ جَعَلَ لَکُمۡ مِّنۡ اَنۡفُسِکُمۡ اَزۡوَاجًا وَّ جَعَلَ لَکُمۡ مِّنۡ اَزۡوَاجِکُمۡ بَنِیۡنَ وَ حَفَدَۃً وَّ رَزَقَکُمۡ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ ؕ اَفَبِالۡبَاطِلِ یُؤۡمِنُوۡنَ وَ بِنِعۡمَتِ اللّٰہِ ہُمۡ یَکۡفُرُوۡنَ ﴿ۙ۷۲﴾

And Allah has made for you from yourselves mates and has made for you from your mates sons and grandchildren and has provided for you from the good things. Then in falsehood do they believe and in the favor of Allah they disbelieve?

اللہ تعالٰی نے تمہارے لئے تم میں سے ہی تمہاری بیویاں پیدا کیں اور تمہاری بیویوں سے تمہارے لئےتمہارے بیٹے اور پوتے پیدا کئے اور تمہیں اچھی اچھی چیزیں کھانے کو دیں ۔ کیا پھر بھی لوگ باطل پر ایمان لائیں گے؟ اور اللہ تعالٰی کی نعمتوں کی ناشکری کریں گے؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Among His Blessings and Signs are Mates, Children and Grandchildren Allah says, وَاللّهُ جَعَلَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا وَجَعَلَ لَكُم مِّنْ أَزْوَاجِكُم بَنِينَ وَحَفَدَةً ... And Allah has made for you mates of your own kind, and has made for you, from your mates, sons and grandsons, Allah mentions the blessing He has bestowed upon His servant by giving them mates from among themselves, mates of their own kind. If He had given them mates of another kind, there would be no harmony, love and mercy between them. But out of His mercy He has made the Children of Adam male and female, and has made the females wives or mates for the males. Then Allah mentions that from these wives He creates children and grandchildren, one's children's children. This was the opinion of Ibn Abbas, `Ikrimah, Al-Hasan, Ad-Dahhak and Ibn Zayd. Shu`bah said, narrating from Abu Bishr from Sa`id bin Jubayr from Ibn Abbas: "Children and grandchildren, who are one's children and one's children's children." It was also said that this means servants and helpers, or it means sons-in-law or in-laws. I say: if we understand وَحَفَدَةً (grandsons), to refer back to wives, then it must mean children, children's children, and sons-in-law, because they are the husbands of one's daughter or the children of one's wife. ... وَرَزَقَكُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ ... and has granted you good provisions. meaning your food and drink. Then Allah denounces those who associate others in worship with the One Who bestows blessings on them: ... أَفَبِالْبَاطِلِ يُوْمِنُونَ ... Do they then believe in false deities, meaning idols and rivals to Allah. ... وَبِنِعْمَتِ اللّهِ هُمْ يَكْفُرُونَ and deny the favor of Allah. meaning, by concealing the blessings that Allah has given them and attributing them to others. According to a Sahih Hadith, the Prophet said: إِنَّ اللهَ يَقُولُ لِلْعَبْدِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مُمْتَنًّا عَلَيْهِ أَلَمْ أُزَوِّجْكَ أَلَمْ أُكْرِمْكَ أَلَمْ أُسَخِّرْ لَكَ الْخَيْلَ وَالاِْبِلَ وَأَذَرْكَ تَرْأَسُ وَتَرْبَع Allah will say to His servant on the Day of Resurrection, reminding him of His blessings: "Did I not give you a wife? Did I not honor you? Did I not subject horses and camels to your use, and cause you to occupy a position of leadership and honor?"

بندوں پر اللہ تعالیٰ کا احسان اپنے بندوں پر اپنا ایک اور احسان جتاتا ہے کہ انہی کی جنس سے انہی کی ہم شکل ، ہم وضع عورتیں ہم نے ان کے لئے پیدا کیں ۔ اگر جنس اور ہوتی تو دلی میل جول ، محبت و موعدت قائم نہ رہتی لیکن اپنی رحمت سے اس نے مرد عورت ہم جنس بنائے ۔ پھر اس جوڑے سے نسل بڑھائی ، اولاد پھیلائی ، لڑکے ہوئے ، لڑکوں کے لڑکے ہوئے ، حفدہ کے ایک معنی تو یہی پوتوں کے ہیں ، دوسرے معنی خادم اور مددگار کے ہیں پس لڑکے اور پوتے بھی ایک طرح خدمت گزار ہوتے ہیں اور عرب میں یہی دستور بھی تھا ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں انسان کی بیوی کی سابقہ گھر کی اولاد اس کی نہیں ہوتی ۔ حفدہ اس شخص کو بھی کہتے ہیں جو کسی کے سامنے اس کے لئے کام کاج کرے ۔ یہ معنی بھی کئے گئے ہیں کہ اس سے مراد دامادی رشتہ ہے اس کے معنی کے تحت میں یہ سب داخل ہیں ، چنانچہ قنوت میں جملہ آتا ہے والیک نسعی ونحفد ہماری سعی کوشش اور خدمت تیرے لئے ہی ہے اور یہ ظاہر ہے کہ اولاد سے ، غلام سے ، سسرال والوں سے ، خدمت حاصل ہوتی ہے ان سب کے پاس سے نعمت الہی ہمیں ملتی ہے ۔ ہاں جن کے نزدیک وحفدۃ کا تعلق ازواجا سے ہے ان کے نزدیک تو مراد اولاد اور اولاد کی اولاد اور داماد اور بیوی کی اولاد ہیں ۔ پس یہ سب بسا اوقات اسی شخص کی حفاظت میں ، اس کی گود میں اور اس کی خدمت میں ہوتے ہیں اور ممکن ہے کہ یہی مطلب سامنے رکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہو کہ اولاد تیری غلام ہے ۔ جیسے کہ ابو داؤد میں ہے اور جنہوں نے حفدہ سے مراد خادم لیا ہے ۔ ان کے نزدیک یہ معطوف ہے اللہ کے فرمان آیت ( وَاللّٰهُ جَعَلَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا وَّجَعَلَ لَكُمْ مِّنْ اَزْوَاجِكُمْ بَنِيْنَ وَحَفَدَةً وَّرَزَقَكُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ 72؀ۙ ) 16- النحل:72 ) پر یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہاری بیویوں اور اولاد کو خادم بنا دیا ہے اور تمہیں کھانے پینے کی بہترین ذائقے دار چیزیں عنایت فرمائی ہیں پس باطل پر یقین رکھ اللہ کی نعمتوں کی ناشکری نہ کرنی چاہئے ۔ رب کی نعمتوں پر پردہ ڈال دیا اور ان کی دوسروں کی طرف نسبت کر دی ۔ صحیح حدیث میں ہے کے قیامت کے دن اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے بندوں کو اپنے احسان جتاتے ہوئے فرمائے گا کیا میں نے تجھے بیوی نہیں دی تھی ؟ میں نے تجھے ذی عزت نہیں بنایا تھا ؟ میں نے گھوڑوں اور اونٹوں کو تیرے تابع نہیں کیا تھا اور میں نے تجھے سرداری میں اور آرام میں نہیں چھوڑا تھا ؟

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

72۔ 1 یعنی اللہ تعالیٰ اپنے انعامات کا تذکرہ کر کے جو آیت میں مذکور ہیں، سوال کر رہا ہے کہ سب کچھ دینے والا تو اللہ ہے، لیکن یہ اسے چھوڑ کر دوسروں کی عبادت کرتے ہیں اور دوسروں کا ہی کہنا مانتے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧١] انسان اور اس کی نوع کی بقا کے اسباب :۔ تمہارے بقائے نوع کے اسباب بھی اللہ نے مہیا کیے اور تمہاری اپنی زندگی کی بقا کے اسباب بھی اسی نے پیدا کیے۔ پھر بھی مشرک اپنے معبودان باطل کے متعلق یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ فلاں کی کرم نوازی سے بیٹا پیدا ہوا اور فلاں آستانے پر جانے سے شفا نصیب ہوئی وغیر ذلک من الخرافات

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاللّٰهُ جَعَلَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ ۔۔ :” وَحَفَدَةً “ ” حَفَدَ یَحْفِدُ “ (ض) سے ” حَافِدٌ“ کی جمع ہے، خدمت اور اطاعت میں جلدی کرنے والا، جیسا کہ قنوت کی ایک دعا میں ہے : ( وَإِلَیْکَ نَسْعٰی وَ نَحْفِدُ ) [ ابن خزیمۃ : ٢؍١٥٥، ح : ١١٠٠ ] ” حَفِیْدٌ“ کی جمع ” حُفَدَاءُ “ آتی ہے۔ ” حَافِدٌ“ اور ” حَفِیْدٌ“ بیٹوں کو اور اولاد کی اولاد کو کہتے ہیں، خادم کو بھی کہہ لیتے ہیں۔ (قاموس) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے کئی احسان ذکر فرمائے ہیں، ایک تو تنہائی اور وحشت دور کرنے کے لیے ساتھی دیا، مرد کے لیے عورت، عورت کے لیے مرد۔ دوسرا یہ کہ وہ ساتھی اس کی جنس انسان سے دیا، کیونکہ دوسری جنس سے نہ انس حاصل ہوسکتا تھا، نہ سکون اور نہ موافقت۔ (دیکھیے روم : ٢١) ہمارے والد ماجد آدم (علیہ السلام) کو جنت میں رہنے کے باوجود سکون تبھی حاصل ہوا جب انھیں اپنی جنس سے بیوی ملی۔ (دیکھیے نساء : ١) اس سے اہل علم نے یہ بات بھی اخذ کی ہے کہ جن و انس کے درمیان نکاح کی اور ان سے اولاد ہونے کی تمام باتیں محض افسانہ ہیں۔ تیسرا یہ کہ میاں بیوی سے اولاد اور اولاد کی اولاد (بیٹے اور پوتے و نواسے) عطا فرمائے، جو بڑھاپے میں خوشی کا باعث اور سہارا بنتے ہیں اور خوش دلی سے بابا کی خدمت کرتے اور اس کے نام اور نسل کی بقا کا ذریعہ بنتے ہیں۔ چوتھا یہ کہ پھر ان سب کی زندگی کی ہر ضرورت کے لیے پاکیزہ رزق عطا فرمایا۔ اَفَبِالْبَاطِلِ يُؤْمِنُوْنَ : یعنی کیا اپنے بنائے ہوئے خداؤں، حاجت رواؤں، مشکل کشاؤں اور داتاؤں کا احسان مانتے ہیں کہ انھوں نے ہی بیماری سے شفا دی، بیٹا دیا، یا روزی بخشی، حالانکہ وہ سب باطل ہیں اور وہم و خیال کے سوا ان کی کچھ حقیقت ہی نہیں۔ دیکھیے سورة یونس (٦٦) ۔ وَبِنِعْمَةِ اللّٰهِ هُمْ يَكْفُرُوْنَ : یعنی اللہ تعالیٰ جو سچا معبود ہے اور تمام احسانات اسی کے ہیں، اس کی نعمتوں کی ناشکری اور انکار کرتے ہیں، اس کے بجائے بتوں اور بزرگوں کے احسان مانتے ہیں کہ تندرستی، بیٹے اور روزی یہ دیتے ہیں، حالانکہ یہ سب باطل (جھوٹ) ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ دینے والا اللہ تعالیٰ ہے جس کے مشرک شکر گزار نہیں ہوتے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary In verse 72: جَعَلَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا (Allah has created spouses from among you), a special blessing has been mentioned in that Allah Ta’ ala has created spouses from the same genus so that they remain mutually familiar and their distinction and nobility inherent in the human species also remains stable through generations. Given here, there may be another hint towards the fact that spouses belong to each other&s genus and, as such, their needs and feelings are common to both, therefore, mutual consideration is but necessary for them. The next sentence of the verse: وَجَعَلَ لَكُم مِّنْ أَزْوَاجِكُم بَنِينَ وَحَفَدَةً has been translated as: &and created for you from your spouse’ s sons and grandsons. &Though children are born to father and mother both, yet in this verse, their birth has been identified with mothers only. The indication given here is suggestive of the fact that the role of the mother in the birth and the creational formation of the child is more pronounced that that of the father. The father contributes only a lifeless drop. The locale where this drop goes through different kinds of stages from the transfor¬mation into human form and shape to becoming alive, and where all these inimitable achievements of nature take place, is a place no other than the womb of the mother. Therefore, in the Hadith, the right of the mother has been made to precede the right of the father. There is yet another hint visible in this sentence which mentions grandsons along with sons, that is, the real purpose behind creating spouses is the procreation and survival of human race so that they have children, then, their children have their children. What else would this be, if not the survival of human species? After that, by saying: وَرَ‌زَقَكُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ (and gave you provision from good things), mention was made of things which guarantee personal sur¬vival. In other words, once a human child is born, food is needed for its personal survival. That too was provided by Allah Ta’ ala. The real mean¬ing of the word: حَفَدَةً - (hafadah) in this verse is that of one who helps and serves. That this word has been used for children suggests that children should always be at the service of their father and mother. (Qurtubi)

خلاصہ تفسیر : اور (منجملہ دلائل قدرت و وجوہ نعمت کے ایک بڑی نعمت اور دلیل قدرت اللہ تعالیٰ کی خود تمہارا وجود وبقاء شخصی ونوعی ہے کہ) اللہ تعالیٰ نے تم ہی میں سے (یعنی تمہاری جنس اور نوع سے) تمہارے لئے بیبیاں بنائیں اور (پھر) ان بیبیوں سے تمہارے بیٹے اور پوتے پیدا کئے (کہ یہ بقاء نوعی ہے) اور تم کو اچھی اچھی چیزیں کھانے (پینے) کو دیں (کہ یہ بقاء شخصی ہے اور چونکہ بقاء موقوف ہے وجود پر اس میں اس کی طرف بھی اشارہ ہوگیا) کیا (یہ سب دلائل ونعم سنکر) پھر بھی بےبنیاد چیز پر (یعنی بتوں وغیرہ پر جن کے معبود ہونے کی کوئی دلیل نہیں بلکہ خلاف دلیل ہے) ایمان رکھیں گے اور اللہ تعالیٰ کی نعمت کی ناشکری (بےقدری) کرتے رہیں گے اور (مطلب اس ناشکری کا یہ ہے کہ) اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیزوں کی عبادت کرتے رہیں گے جو ان کو نہ آسمان میں سے رزق پہنچانے کا اختیار رکھتی ہیں اور نہ زمین میں سے (یعنی نہ بارش برسانے کا ان کو اختیار ہے نہ زمین سے کچھ پیدا کرنے کا) اور نہ (اختیار حاصل کرنے کی) قدرت رکھتے ہیں (اس کی نفی سے زیادہ مبالغہ ہوگیا کیونکہ بعض دفعہ دیکھا جاتا ہے کہ ایک شخص بالفعل تو بااختیار نہیں ہے لیکن جدوجہد سے اختیارات حاصل کرلیتا ہے اس لئے اس کی بھی نفی فرما دی) سو (جب شرک کا بطلان ثابت ہوگیا تو) تم اللہ تعالیٰ کے لئے مثالیں مت گھڑو (کہ اللہ تعالیٰ کی مثال بادشاہان دنیا کی سی ہے کہ ہر شخص ان سے عرض حاجت نہیں کرسکتا اس لئے اس کے نائب ہوتے ہیں کہ عوام ان سے عرض حاجت کرتے ہیں پھر وہ سلاطین سے عرض کرتے ہیں کذا فی الکبیر ویؤ خد من قولہ مَا نَعْبُدُهُمْ اِلَّا لِيُقَرِّبُوْنَآ هٰٓؤ ُ لَاۗءِ شُفَعَاۗؤ ُ نَا عِنْدَاللّٰهِ ) اللہ تعالیٰ (خوب) جانتے ہیں (کہ ایسی مثالیں محض مہمل ہیں) اور تم (بوجہ عدم تدبر کے) نہیں جانتے (اس لئے جو چاہتے ہو بک ڈالتے ہو اور) اللہ تعالیٰ (شرک کے بطلان ظاہر کرنے کے لئے) ایک مثال بیان فرماتے ہیں کہ (فرض کرو) ایک (تو) غلام ہے (کسی کا) مملوک کہ (اموال وتصرفات میں سے) کسی چیز کا (بلا اجازت آقا) اختیار نہیں رکھتا اور (دوسرا) ایک شخص ہے جس کو ہم نے اپنے پاس سے خوب روزی دے رکھی تو اس میں سے پوشیدہ اور علانیہ (جس طرح چاہتا ہے جہاں چاہتا ہے) خرچ کرتا ہے (اس کو کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں) کیا اس قسم کے شخص آپس میں برابر ہو سکتے ہیں (بس جب مالک مجازی ومملوک مجازی برابر نہیں ہو سکتے تو مالک حقیقی ومملوک حقیقی تو کب برابر ہو سکتے ہیں اور استحقاق عبادت موقوف ہے مساوات پر اور وہ ہے نہیں) ساری تعریفیں اللہ ہی کے لائق ہیں (کیونکہ کامل الذات والصفات وہی ہیں پس معبود بھی وہی ہوسکتا ہے مگر پھر بھی مشرکین غیر اللہ کی عبادت نہیں چھوڑتے) بلکہ ان میں اکثر تو (بوجہ عدم تدبر کے) جانتے ہی نہیں (اور چونکہ عدم علم کا سبب خود ان کا عدم تدبر ہے اس لئے معذور نہ ہوں گے) اور اللہ تعالیٰ (اس کی توضیح کے لئے) ایک مثال بیان فرماتے ہیں کہ (فرض کرو) دو شخص ہیں جن میں ایک تو (علاوہ غلام ہونے کے) گونگا (بہرا بھی) ہے (اور بوجہ بہرے اندھے بےعقل ہونیکے) کوئی کام نہیں کرسکتا اور (اس وجہ سے) وہ اپنے مالک پر وبال جان ہے (کہ وہ مالک ہی اس کے سارے کام کرتا ہے اور) وہ (مالک) اس کو جہاں بھیجتا ہے کوئی کام درست نہیں ہوتا سو) کیا یہ شخص اور ایسا شخص باہم برابر ہو سکتے ہیں جو اچھی باتوں کی تعلیم کرتا ہو (جس سے اس کا ناطق عاقل صاحب قوت علمیہ ہونا معلوم ہوتا ہے) اور خود بھی (ہر امر میں) معتدل طریقہ پر (چلتا) ہو (جس سے قوت عملیہ منتظمہ معلوم ہوتی ہے جب مخلوق مخلوق میں اشتراک ماہیت و اشتراک اوصاف کے یہ تفاوت ہے جو کجا مخلوق و خالق اور لایقدر کے ترجمہ میں بلا اجازت آقا کی قید سے جو سابقہ آیات میں ہے فقہی شبہات مندفع ہوگئے اور کوئی وسوسہ میں نہ پڑے کہ شاید معبود غیر اللہ کو بھی اذن ہوگیا ہو جواب یہ ہے کی ربوبیت کے لئے کسی کو اذن نہیں ہوا اور نہ ہوسکتا ہے) معارف و مسائل : (آیت) جَعَلَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا اس آیت میں ایک اہم نعمت کا ذکر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری جنس اور قوم میں سے تمہاری بیبیاں بنائیں تاکہ باہمی موانست بھی پوری ہو اور نسل انسانی کی شرافت و بزرگی بھی قائم رہے دوسرا اشارہ اس طرف بھی ہوسکتا ہے کہ تمہاری بیبیاں تمہاری ہی جنس کی ہیں انکی ضروریات اور جذبات بھی تمہارے ہی جیسے ہیں ان کی رعایت تم پر لازم ہے، (آیت) وَجَعَلَ لَكُمْ مِّنْ اَزْوَاجِكُمْ بَنِيْنَ وَحَفَدَةً یعنی تمہاری بیبیوں سے ہم نے تمہارے بیٹے پوتے پیدا کئے یہاں یہ بات قابل نظر ہے کہ اولاد تو ماں باپ دونوں ہی سے مل کر پیدا ہوتی ہے اس آیت میں اس کو صرف ماؤں سے پیدا کرنے کا ذکر فرمایا ہے اس میں اشارہ ہے کہ بچہ کی تولید و تخلیق میں بہ نسبت باپ کے ماں کا دخل زیادہ ہے باپ سے تو صرف ایک قطرہ بےجان نکلتا ہے اس قطرہ پر مختلف قسم کے دور گذرتے ہوئے انسانی شکل میں تبدیل ہونا اور اس میں جان پڑنا قدرت کے ان سارے تخلیقی کارناموں کا محل تو ماں کا پیٹ ہی ہے اسی لئے حدیث میں ماں کے حق کو باپ کے حق پر مقدم رکھا گیا ہے۔ اس جملے میں بیٹوں کے ساتھ پوتوں کا ذکر فرمانے میں اس طرف بھی اشارہ پایا جاتا ہے کہ اس جوڑے بنانے کا اصل مقصد نسل انسانی کی بقا ہے کہ اولاد پھر اولاد کی اولاد ہوتی رہی تو یہ انسان کی بقاء نوعی کا سامان ہوا۔ پھر وَرَزَقَكُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ میں اس کی بقاء شخصی کے سامان کا ذکر فرما دیا کہ انسان پیدا ہوجائے تو پھر اس کی بقاء شخصی کے لئے غذا کی ضرورت ہے وہ بھی حق تعالیٰ نے مہیا فرما دی آیت میں لفظ حفدۃ کے اصلی معنی مددگار کے ہیں اولاد کے لئے یہ لفظ استعمال کرنے میں اس طرف اشارہ ہے کہ اولاد کو اپنے ماں باپ کا خادم ہونا چاہئے (قرطبی )

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

حفدۃ کی تشریح قول باری ہے (وجعل لکم من ازواجکم نبی ن وحفدۃ۔ اور اسی نے ان بیویوں سے تمہیں بیٹے اور پوتے عطا کئے) حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ حفدہ نوکروں اور مددگاروں کو کہتے ہیں۔ حسن کا قول ہے۔ ” من اعانک فقد حفدک “ (جس شخص نے تمہاری اعانت کی وہ تمہارا حفید یعنی مددگار بن گیا) مجاہد، قتادہ اور طائوس کا قول ہے کہ حفدہ نوکروں اور خدمت گاروں کو کہتے ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) ، ابو الضحی، ابراہیم نخعی اور سعید بن جبیر کا قول ہے کہ دو بہنوں کو حفدہ کہتے ہیں۔ ایک قول کے مطابق حفد کے اصل معنی اسراع فی العمل (کام میں تیزی دکھانے) کے ہیں، اسی سے دعائے قنوت میں یہ فقرہ ہے۔ والیک نسعی و تحفد، یعنی ہم تیری طرف دوڑے آتے اور اس میں تیزی دکھاتے ہیں۔ ’ عفدۃ حافد ‘ کی جمع ہے جس طرح کملۃ کامل کی جمع ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ جب سلف نے حفدہ کے دو معنی بیان کئے ہیں ایک نوکر چاکر اور مددگار اور دوسرے دو بہنیں۔ تو اب ضروری ہے کہ اس لفظ کو انہیں دو معنوں پر محمول کیا جائے۔ اس میں یہ دلالت موجود ہے کہ باپ اپنے بیٹے سے خدمت اور مدد لینے کا حق رکھتا ہے اس لئے کہ قول باری ہے (وجعل لکم من ازواجکم بنین وحفدۃ) اسی بنا پر ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ باپ اگر بیٹے کو اپنی خدمت کے لئے اجرت پر رکھ لے تو بیٹا خدمت کی صورت میں اجرت کا مستحق نہیں ہوگا اس لئے کہ باپ کو اجارے کے بغیر بھی بیٹے سے یہ خدمت لینے کا حق حاصل ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٢) اور اللہ تعالیٰ نے تمہاری ہی جنس میں سے تمہارے لیے بیویاں بنائیں اور پھر تمہاری عورتوں میں سے بیٹے اور پوتے پیدا کیے اور غلام، باندی اور داماد وغیرہ بھی پیدا کیے اور تمہیں جانوروں سے بہتریں چیزیں کھانے کو دیں کیا پھر بھی تم شیطان اور بتوں پر ایمان رکھو گے اور ان کی تصدیق کرو گے اور وحدانیت کا انکار کرتے رہو گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٢ (وَاللّٰهُ جَعَلَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا) عربی میں ” زوج “ شریک حیات (spouse) کو کہتے ہیں اور یہ لفظ بیوی اور خاوند دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ عورت کے لیے مرد زوج ہے اور مرد کے لیے عورت۔ (اَفَبِالْبَاطِلِ يُؤْمِنُوْنَ وَبِنِعْمَةِ اللّٰهِ هُمْ يَكْفُرُوْنَ ) یعنی کفران نعمت کرتے ہیں۔ یہاں یہ اہم بات لائق توجہ ہے کہ اس سورة میں اللہ کی نعمتوں کا ذکر بہت تکرار کے ساتھ آ رہا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

63. “Is then in falsehood that they believe”: they have this false and baseless belief that there are certain gods and goddesses, jinns and saints, dead and alive, who possess the power to make or mar their fates, fulfill their desires and answer their prayers, give them children, cure their diseases and help them win law suits. 64. “In the bounty of Allah that they disbelieve”: by associating others with Allah in offering gratitude to Him for His favors, though they did not have any proof or authority that their false gods had played any part in regard to those favors. The Quran considers such an association to be the denial of Allah’s favors. It puts forward the fundamental principle: It is the denial of the favor of the real benefactor to offer gratitude for his favor to anyone who has not done that favor, or to presume without any proof or reason that the real benefactor has nor granted that favor of his own accord but because of the mediation or regard or recommendation or intercession of this or that person.

سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :63 ”باطل کو مانتے ہیں“ ، یعنی یہ بے بنیاد اور بے حقیقت عقیدہ رکھتے ہیں کہ ان کی قسمتیں بنانا اور بگاڑنا ، ان کی مرادیں بر لانا اور دعائیں سننا ، انہیں اولاد دینا ، ان کو روزگار دلوانا ، ان کے مقدمے جتوانا ، اور انہیں بیماریوں سے بچانا کچھ دیویوں اور دیوتاؤں اور جنوں اور اگلے پچھلے بزرگوں کے اختیار میں ہے ۔ سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :64 اگرچہ مشرکین مکہ اس بات سے انکار نہیں کرتےتھے کہ یہ ساری نعمتیں اللہ کی دی ہوئی ہیں ، اور ان نعمتوں پر اللہ کا احسان ماننے سے بھی انہیں انکار نہ تھا ، لیکن جو غلطی وہ کرتے تھے وہ یہ تھی کہ ان نعمتوں پر اللہ کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ وہ ان بہت سی ہستیوں کا شکریہ بھی زبان اور عمل سے ادا کرتے تھے جن کو انہوں نے بلا کسی ثبوت اور بلا کسی سند کے اس نعمت بخشی میں دخیل اور حصہ دار ٹھیرا رکھا تھا ۔ اسی چیز کو قرآن” اللہ کے احسان کا انکار ” قرار دیتا ہے ۔ قرآن میں یہ بات بطور ایک قاعدہ کلیہ کے پیش کی گئی ہے کہ محسن کے احسان کا شکریہ غیر محسن کو ادا کرنا دراصل محسن کے احسان کا انکار کرنا ہے ۔ اسی طرح قرآن یہ بات بھی اصول کے طور پر بیان کرتا ہے کہ محسن کے متعلق بغیر کسی دلیل اور ثبوت کے یہ گمان کر لینا کہ اس نے خود اپنے فضل و کرم سے یہ احسان نہیں کیا ہے بلکہ فلاں شخص کے طفیل ، یا فلاں کی رعایت سے ، یا فلاں کی سفارش سے ، یا فلاں کی مداخلت سے کیا ہے ، یہ بھی دراصل اس کے احسان کا انکار ہی ہے ۔ یہ دونوں اصولی باتیں سراسر انصاف اور عقل عام کے مطابق ہیں ۔ ہر شخص خود بادنی تأمل ان کی معقولیت سمجھ سکتا ہے ۔ فرض کیجیے کہ آپ ایک حاجت مند آدمی پر رحم کھا کر اس کی مدد کرتے ہیں ، اور وہ اسی وقت اٹھ کر آپ کے سامنے ایک دوسرے آدمی کا شکریہ ادا کر دیتا ہے جس کا اس امداد میں کوئی دخل نہ تھا ۔ آپ چاہے اپنی فراخ دلی کی بنا پر اس کی اس بیہودگی کو نظر انداز کر دیں اور آئندہ بھی اپنی امداد کا سلسلہ جاری رکھیں ، مگر اپنے دل میں یہ ضرور سمجھیں گے کہ یہ ایک نہایت بدتمیز اور احسان فراموش آدمی ہے ۔ پھر اگر دریافت کر نے پر آپ کو معلوم ہو کہ اس شخص نے یہ حرکت اس خیال کی بنا پر کی تھی کہ آپ نے اس کی جو کچھ بھی مدد کی ہے وہ اپنی نیک دلی اور فیاضی کی وجہ سے نہیں کی بلکہ اس دوسرے شخص کی خاطر کی ہے ، درانحالیکہ یہ واقعہ نہ تھا ، تو آپ لا محالہ اسے اپنی توہین سمجھیں گے ۔ اس کی اس بیہودہ تاویل کا صریح مطلب آپ کے نزدیک یہ ہوگا کہ وہ آپ سے سخت بدگمان ہے اور آپ کے متعلق یہ رائے رکھتا ہے کہ آپ کوئی رحیم اور شفیق انسان نہیں ہیں ، بلکہ محض ایک دوست نواز اور یارباش آدمی ہیں ، چند لگے بندھے دوستوں کے توسُّل سے کوئی آئے تو آپ اس کی مدد ان دوستوں کی خاطر کر دیتے ہیں ، ورنہ آپ کے ہاتھ سے کسی کو کچھ فیض حاصل نہیں ہو سکتا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٧٢۔ اللہ پاک نے یہ اوپر ایک نعمت کا احسان جتلایا کہ تمہارے واسطے تمہاری جنس کی عورتیں پیدا کیں حضرت آدم (علیہ السلام) کی پسلی سے حضرت حوا کو پیدا کیا چناچہ صحیح بخاری و مسلم میں اور علیحدہ صحیح مسلم میں ابوہریرہ (رض) کی جو روایتیں ہیں ١ ؎، ان میں اس کا ذکر تفصیل سے ہے اور اس میں مصلحت یہ ہے کہ اگر غیر جنس کی بیویاں انسان کے لئے پیدا کی جاتیں تو انسان کو ایسے وحشت ہوتی یہ محبت اور انسیت میاں بیوی میں ہرگز نہ ہوتی غرض کہ یہ کمال مہربانی اللہ جل شانہ کی ہے کہ اس نے انسان کے لئے انسان ہی کا جوڑا بنایا اور پھر اس سے آل و اولاد کا سلسلہ چلایا حضرت عبد اللہ بن عباس عقدۃ کی تفسیر میں یہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد پوتے پوتیاں ہیں اور نواسے نواسیاں پھر اللہ پاک نے یہ فرمایا کہ تمہاری زندگی کے لئے یہ سامان بھی مہیا کردیا کہ تمہارا رزق پاک صاف چیزوں میں مقرر کیا تاکہ ایک مقررہ وقت تک تم زندگی بسر کرو پھر ان نعمتوں کا بھی کچھ خیال نہیں کرتے بت پرستی کئے چلے جاتے ہو اور وہ بت جن میں کسی ایک بات کی بھی قدرت نہیں ان کو اپنا معبود ٹھہراتے ہو اور انہیں پر تمہارا ایمان ہے اور خدا کی ان سب نعمتوں کا شکر نہیں بجا لاتے کفر کرتے ہو اوپر کی آیت کی تفسیر میں صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے عبد اللہ بن مسعود (رض) کی حدیث گزر چکی ہے ٢ ؎۔ اسی حدیث کو اس آیت کی تفسیر میں بھی بڑا دخل ہے جس کا حاصل وہی ہے جو عبد اللہ بن عباس (رض) کے قول کے موافق اوپر کی آیت کی تفسیر میں بیان کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے جو ان کو ان کی جنس کی بیویوں کو پیدا کیا اور ان کو اور دنیا کی نعمتیں دیں اب ان نعمتوں کے پیدا کرنے والے کی تعظیم میں دوسروں کو شریک ٹھہرانا بڑے وبال کی بات ہے۔ ١ ؎ صحیح بخاری ص ٧٧٩ ج ٢ باب الامداراۃ مع النساء تفسیر ہذا جلددوم ص ٢٣٩۔ ٢ ؎ یعنی زیر تفسیر آیات سابقہ۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(16:72) ازواجا۔ جوڑے۔ ہم مثل چیزیں۔ زوج کی جمع ہے۔ یہاں بیویاں مراد ہیں۔ حفدۃ۔ حافد کی جمع۔ حفد سے اسم فاعل حفد یحفد (باب ضرب) خدمت کے لئے دوڑتے ہوئے حاضر ہونا۔ یہاں اس سے مراد پوتے ہیں کیونکہ ان کی خدمت زیادہ سچی ہوتی ہے۔ بنو سعد العشیرہ کی لغت میں حفدۃ نواسوں کو کہتے ہیں۔ اور لفظی معنی کے لحاظ سے ہر وہ شخص خواہ رشتہ دار ہو یا نہ ہو۔ جو دوڑتے ہوئے خدمت میں حاضر ہو۔ حافد کہلاتا ہے۔ باطل۔ حق کے مقابلہ میں۔ اس سے مراد جھوٹے خدا معبود انِ باطل بھی ہوسکتا ہے۔ وبنعمت اللہ ہم یکفرون۔ میں ہم ضمیر کو تاکید اور زور کا فائدہ حاصل کرنے کے لئے لایا گیا ہے۔ ورنہ تو مضمون اس کے بغیر بھی ادا ہوجاتا تھا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 یعنی ان کا احسان مانتے ہیں کہ ان ہی نے بمیاری سے شفا دی، بیٹا دیا یا روزی بخشی۔ 6 جو سچا معبود ہے اور تمام احسانات اسی کے ہیں مگر یہ بتوں اور بزگروں کے احسان مانتے ہیں کہ تندرستی بیٹے اور روزی یہ دیتے ہیں حالانکہ یہ سب جھوٹ باطل ہے سچی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ دینے والا اللہ تعالیٰ ہے جس کے مشرک شکر گزار نہیں ہوتے۔ (کذافی الموضح )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ یعنی منجملہ دلائل قدرت وہ جو نعمت کے ایک بڑی نعت اور دلیل قدرت اللہ کی خود تمہارا وجود شخصی ونوعی ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ اللہ تعالیٰ کے بلا شرکت غیرے خالق ہونے کی پانچویں دلیل : مشرک کے ضمیر کو جھنجھوڑنے اور رزق میں تفادت بیان کے بعداب ان کے نفوس کے حوالے سے عقیدۂ توحید سمجھایا جا رہا ہے۔ اللہ وہ خالق ہے جس نے مردوں میں سے ہی ان کی بیویوں کو پیدا فرمایا اور پھر ان کی بیویوں سے بیٹے اور پوتوں کا سلسلہ جاری کیا۔ وہی تمہیں پاک چیزوں سے روزی دیتا ہے لیکن اس کے باوجود لوگ باطل معبودوں پر ایمان لاتے ہیں۔ حقیقت میں مشرک اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے ساتھ کفر کرتے ہیں اس آیت مبارکہ میں دو باتیں بیان فرمائی گئی ہیں۔ ١۔ اللہ تعالیٰ نے مردوں سے ان کی بیویوں کو پیدا فرمایا جسے قرآن مجید نے یوں بیان فرمایا ہے۔” اے لوگو ! اپنے رب سے ڈرتے رہو جس نے تمہیں ایک جان ( آدم (علیہ السلام) سے پیدا کیا پھر آدم سے ہی اس کی بیوی کو پیدا فرمایا پھر دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پیدا کیں۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔ جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتہ داری میں بھی اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو یقیناً اللہ تعالیٰ تم پر نگران ہے۔ “ (سورۃ النساء : ١) حضرت آدم (علیہ السلام) کا ذکر فرماکر یہاں تمام لوگوں کی تخلیق بیان کی گئی ہے۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے کہ ” ہم نے تم سے تمہاری بیویوں کو پیدا کیا ہے۔ “ جس کا پہلا مفہوم یہ ہے کہ وہ تمہاری جنس سے تعلق رکھتی ہیں۔ دوسرا مفہوم یہ لینے کی گنجائش بھی نکلتی ہے کہ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کو ایک ہی مٹی سے پیدا کیا ہو۔ (الروم : ٢١) ٢۔ اللہ تعالیٰ ہی میاں بیوی کے ملاپ کے بعد بیٹے دیتا ہے اور کتنے ہی لوگ ہیں جنہیں پوتوں کی خوشیاں بھی دیکھنا نصیب ہوتی ہے۔ اس بات سے یہ حقیقت عیاں کرنا مقصود ہے کہ اے لوگو ! اللہ تعالیٰ ہی تمہیں بیویاں اور اولاد عطا فرماتا ہے۔ اور وہی پاک چیزوں سے تمہاری روزی کا بندوبست کرتا ہے۔ اس کے باوجود مشرک اپنے معبودوں کی اللہ تعالیٰ کے ساتھ مثالیں دیتے ہیں۔ لیکن تم اس کی نعمتوں کا شکر یہ ادا کرنے کے بجائے اس کے ساتھ دوسروں کو حاجت روا، مشکل کشا سمجھتے اور عبادت کے لائق جانتے ہو۔ حالانکہ وہ تمہیں رزق کا ایک دانہ بھی مہیا نہیں کرسکتے۔ اور نہ ہی کسی کی حاجت پوری کرنے کے قابل اور مشکل حل کرسکتے ہیں۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے لیکن تم نہیں جانتے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے مرد کی نسل سے ہی عورت پیدا کی ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی رزق دینے کا اختیار نہیں رکھتا۔ ٣۔ مشرک اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری کرتے ہیں۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ بتوں اور مدفون بزرگوں کی مثالیں بیان نہیں کرنی چاہییں۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی کسی کے رزق کا مالک نہیں : ١۔ اللہ کے سوامشرک ان کی عبادت کرتے ہیں جو ان کو آسمان و زمین سے رزق دینے کا اختیار نہیں رکھتے۔ (النحل : ٧٣) ٢۔ اگر تم اللہ کے خزانوں کے مالک ہوتے تو اس کے خرچ ہوجانے کے ڈر سے ہاتھ روک لیتے۔ (الاسراء : ١٠٠) ٣۔ بیشک جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو وہ تمہارے رزق کے مالک نہیں ہیں۔ (العنکبوت : ١٧) ٤۔ کتنے ہی چوپائے ایسے ہیں کہ تم انہیں رزق نہیں دیتے اللہ ہی ان کو رزق دینے والا ہے۔ (العنکبوت : ٦٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد ازواج و اولاد کی نعمت کا تذکرہ فرمایا کہ اللہ نے تمہارے لیے تمہیں میں سے بیویاں بنا دیں (تمہیں میں سے یعنی تمہاری جنس سے وہ بھی انسان ہیں اور تم بھی انسان ہو ہم جنس ہونے کی وجہ سے آپس میں استمتاع اور انتقاع بہت سہل ہے لذیذ ہے اور نفع بخش ہے) پھر اللہ تعالیٰ نے ان بیویوں سے بیٹے پیدا فرمائے پھر ان بیٹوں کے بیٹے پیدا کیے جو تمہارے پوتے بن گئے اس طرح سے تمہاری نسلیں آگے چل رہی ہیں بڑھ رہی ہیں اور ان کو دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے ہو اور محض اسی پر اکتفا نہیں فرمایا کہ بیویاں عنایت فرما دیں اور بیٹے پوتے دے دئیے ان انعامات کے ساتھ کھانے کے لیے پاکیزہ چیزیں عطا فرما دیں (اَفَبِالْبَاطِلِ یُؤْمِنُوْنَ وَ بِنِعْمَتِ اللّٰہِ ھُمْ یَکْفُرُوْنَ ) (کیا باطل پر ایمان لاتے ہیں اور اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کرتے ہیں) انعام فرمایا اللہ نے جو معبود حقیقی ہے اور اس کے ساتھ دوسروں کو شریک بنا کر اس کی نعمت کی ناشکری کرنے لگے یہ بڑی بھونڈی اور بےعقلی کی بات ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

56:۔ یہ دلیل ماقبل سے متعلق ہے اللہ تعالیٰ کا یہ بھی احسان ہے کہ اس نے تمہاری جنس سے تمہارے آرام و سکون کی خاطر تمہارے لیے بیویاں پیدا کیں پھر ان سے اولاد در اولاد پیدا فرمائی اور دنیا میں تمہاری نسل کو بقا نصیب ہوا۔ اور پھر ہر قسم کی پاکیزہ روزی کا سامان بہم پہنچایا۔ ” افبا لباطل یومنون “ لیکن یہ ناشکر گذار انسان اللہ تعالیٰ کو بھول جاتے ہیں اور اس کی عطا کردہ نعمتوں کو اپنے خود ساختہ معبودوں کی طرف منسوب کردیتے ہیں۔ یسترون نعمۃ اللہ علیہم و یضیفونہا الی غیرہ ( ابن کثیر) روزی وہ دیتا ہے، مصیبتیں وہ دور کرتا ہے اور اولاد وہی عطا کرتا ہے۔ مگر وہ اسے پیروں فقیروں اور بزرگوں کی عطا سمجھنے لگتے ہیں جیسا کہ ان کے مشرکانہ ناموں سے معلوم ہوتا ہے۔ مثلاً عطا محمد، محمد بخش، احمد بخش، نبی بخش، رسول بخش، حسین بخش، علی بخش، میراں بخش، پیراں دتہ، گوراں دتہ وغیرہ۔ شاہ عبدالقادر (رح) فرماتے ہیں ” یعنی بتوں کا احسان مانتے ہیں کہ بیماری سے چنگا کیا یا بیٹا دیا یا روزی دی اور یہ سب جھوٹ وہ جو سچ دینے والا ہے اس کے شکر گذار نہیں “۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا میرا اور جن و انس کا بھی عجب معاملہ ہے کہ ان کا خالق میں ہوں مگر وہ عبادت غیروں کی کرتے ہیں اور ان کا رازق میں ہوں مگر وہ شکر اوروں کا ادا کرتے ہیں۔ قال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قال اللہ تعالیٰ انی والجن والانس فی نبا عطیم اخلق و یعبد غیری وارزق و یشکر غیری (مظہری ج 5 ص 357) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

72 ۔ اور اللہ تعالیٰ نے تم ہی میں سے تمہارے لئے بیویوں اور جوڑوں کو پیدا کیا اور ان بیویوں سے تمہارے لئے بیٹے اور پوتے پیدا کئے اور تم کو ستھری اور پاکیزہ اور اچھی اچھی چیزوں سے روزی دی کیا یہ سب کچھ سن کر اور دیکھ کر پھر بھی یہ لوگ باطل اور بےبنیاد باتوں پر اعتقاد اور ایمان رکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور اس کے احسانات کی نا شکری اور بےقدری کرتے ہیں ۔ یعنی اللہ تعالیٰ ہی نے تمہاری بقائے نوعی کیلئے تمہاری جنس سے عورتیں بنائیں ۔ حضرت آدم سے حوا کو پیدا کیا پھر آگے تو الدہ تناسل کا سلسلہ شروع کردیا پھر تمہاری بقا نوعی کے لئے تم کو ان عورتوں سے بیٹے اور پوتے دیئے پھر اچھی اچھی چیزوں سے رزق دیا کہ یہ بقائے شخصی ہے ان احسانات کے باوجود تم باطل پر اور بتوں پر ایمان رکھتے ہو اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا کفران نعمت کرتے ہو اور کفران نعمت کی تفسیر اگلی آیت میں مذکور ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی بتوں کا احسان مانتے ہیں کہ بیماری سے چنگا کیا بیٹا دیا یا روزی دی اور یہ سب جھوٹ وہ جو سچ کردینے والا ہے اس کے شکر گزار نہیں ۔ 12