Surat un Nahal

Surah: 16

Verse: 77

سورة النحل

وَ لِلّٰہِ غَیۡبُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ وَ مَاۤ اَمۡرُ السَّاعَۃِ اِلَّا کَلَمۡحِ الۡبَصَرِ اَوۡ ہُوَ اَقۡرَبُ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿۷۷﴾

And to Allah belongs the unseen [aspects] of the heavens and the earth. And the command for the Hour is not but as a glance of the eye or even nearer. Indeed, Allah is over all things competent.

آسمانوں اور زمین کا غیب صرف اللہ تعالٰی ہی کو معلوم ہے اور قیامت کا امر تو ایسا ہی ہے جیسے آنکھ کا جھپکنا ، بلکہ اس سے بھی زیادہ قریب ۔ بیشک اللہ تعالٰی ہرچیز پر قادر ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Unseen belongs to Allah and only He has Knowledge of the Hour Allah says: وَلِلّهِ غَيْبُ السَّمَاوَاتِ وَالاَرْضِ ... And to Allah belongs the Unseen of the heavens and the earth. Allah tells us of the perfection of His knowledge and ability to do all things, by telling us that He alone knows the Unseen of the heavens and the earth. No one knows anything about such things except for what Allah informs about as He wills. His complete power, which no one can oppose or resist, means that when He wants a thing, He only has to say to it "Be!" and it is, as Allah says: وَمَأ أَمْرُنَأ إِلاَّ وَحِدَةٌ كَلَمْحٍ بِالْبَصَرِ And Our commandment is but one as the twinkling of an eye. (54:50) meaning, whatever He wills happens in blinking. Thus Allah says here: ... وَمَا أَمْرُ السَّاعَةِ إِلاَّ كَلَمْحِ الْبَصَرِ أَوْ هُوَ أَقْرَبُ إِنَّ اللّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ And the matter of the Hour is not but as a twinkling of the eye, or even nearer. Truly, Allah is Able to do all things. Elsewhere, Allah says: مَّا خَلْقُكُمْ وَلاَ بَعْثُكُمْ إِلاَّ كَنَفْسٍ وَحِدَةٍ The processes of creating you all and resurrecting you all are but like that of (the creation and resurrection of) a single person. (31:28) Among the Favors Allah has granted People are Hearing, Sight and the Heart Allah says: وَاللّهُ أَخْرَجَكُم مِّن بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ لاَ تَعْلَمُونَ شَيْيًا وَجَعَلَ لَكُمُ الْسَّمْعَ وَالاَبْصَارَ وَالاَفْيِدَةَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ

نیکیوں کی دیوار لوگ اللہ تعالیٰ اپنے کمال علم اور کمال قدرت کو بیان فرما رہا ہے کہ زمین آسمان کا غیب وہی جانتا ہے ، کوئی نہیں جو غیب دان ہو اللہ جسے چاہے ، جس چیز پر چاہے ، اطلاع دے دے ۔ ہر چیز اس کی قدرت میں ہے نہ کوئی اس کا خلاف کر سکے ۔ نہ کوئی اسے روک سکے جس کام کا جب ارادہ کرے ، قادر ہے پورا ہو کر ہی رہتا ہے آنکھ بند کر کے کھولنے میں تو تمہیں کچھ دیر لگتی ہو گی لیکن حکم الٰہی کے پورا ہونے میں اتنی دیر بھی نہیں لگتی ۔ قیامت کا آنا بھی اس پر ایسا ہی آسان ہے ، وہ بھی حکم ہوتے ہی آ جائے گی ۔ ایک کا پیدا کرنا اور سب کا پیدا کرنا اس پر یکساں ہے ۔ اللہ کا احسان دیکھو کہ اس نے لوگوں کو ماؤں کے پیٹوں سے نکالا یہ محض نادان تھے پھر انہیں کان دئیے جس سے وہ سنیں ، آنکھیں دیں جس سے دیکھیں ، دل دئیے جس سے سوچیں اور سمجھیں ۔ عقل کی جگہ دل ہے اور دماغ بھی کہا گیا ہے ۔ عقل سے ہی نفع نقصان معلوم ہوتا ہے یہ قویٰ اور حواس انسان کو بتدریج تھوڑے تھوڑے ہو کر ملتے ہیں عمر کے ساتھ ساتھ اس کی بڑھوتری بھی ہوتی رہتی ہے ۔ یہاں تک کہ کمال کو پہنچ جائیں ۔ یہ سب اس لئے ہے کہ انسان اپنی ان طاقتوں کو اللہ کی معرفت اور عبادت میں لگائے رہے ۔ صحیح بخاری میں حدیث قدسی ہے کہ جو میرے دوستوں سے دشمنی کرتا ہے وہ مجھ سے لڑائی کا اعلان کرتا ہے ۔ میرے فرائض کی بجا آوری سے جس قدر بندہ میری قربت حاصل کر سکتا ہے اتنی کسی اور چیز سے نہیں کر سکتا ۔ نوافل بکثرت پڑھتے پڑھتے بندہ میرے نزدیک اور میرا محبوب ہو جاتا ہے ۔ جب میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو میں ہی اس کے کان بن جاتا ہوں ، جن سے وہ سنتا ہے اور اس کی نگاہ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جن سے وہ تھامتا ہے اور اس کے پیر بن جاتا ہوں جن سے وہ چلتا ہے ۔ وہ اگر مجھ سے مانگے میں دیتا ہوں ، اگر دعا کرے میں قبول کرتا ہوں ، اگر پناہ چاہے میں پناہ دیتا ہوں اور مجھے کسی کام کے کرنے میں اتنا تردد نہیں ہوتا جتنا مومن کی روح کے قبض کرنے میں موت کو ناپسند کرتا ہے ۔ میں اسے ناراض کرنا نہیں چاہتا اور موت ایسی چیز ہی نہیں جس سے کسی ذی روح کو نجات مل سکے ۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب مومن اخلاص اور اطاعت میں کامل ہو جاتا ہے تو اس کے تمام افعال محض اللہ کے لئے ہو جاتے ہیں وہ سنتا ہے اللہ کے لئے ، دیکھتا ہے اللہ کے لئے ، یعنی شریعت کی باتیں سنتا ہے ، شریعت نے جن چیزوں کا دیکھنا جائز کیا ہے ، انہی کو دیکھتا ہے ، اسی طرح اس کا ہاتھ بڑھانا ، پاؤں چلانا بھی اللہ کی رضامندی کے کاموں کے لئے ہی ہوتا ہے ۔ اللہ پر اس کا بھروسہ رہتا ہے اسی سے مدد چاہتا ہے ، تمام کام اس کے اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے ہی ہوتے ہیں ۔ اس لئے بعض غیر صحیح احادیث میں اس کے بعد یہ بھی آیا ہے کہ پھر وہ میرے ہی لئے سنتا ہے اور میرے ہی لئے دیکھتا ہے اور میرے لئے پکڑتا ہے اور میرے لئے ہی چلتا پھرتا ہے ۔ آیت میں بیان ہے کہ ماں کے پیٹ سے وہ نکالتا ہے ، کان ، آنکھ ، دل ، دماغ وہ دیتا ہے تاکہ تم شکر ادا کرو اور آیت میں فرمان ہے آیت ( قُلْ هُوَ الَّذِيْٓ اَنْشَاَكُمْ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْــِٕدَةَ ۭ قَلِيْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ 23؀ ) 67- الملك:23 ) یعنی اللہ ہی نے تمہیں پیدا کیا ہے اور تمہارے لئے کان اور آنکھیں اور دل بنائے ہیں لیکن تم بہت ہی کم شکر گزاری کرتے ہو ، اسی نے تمہیں زمین میں پھیلا دیا ہے اور اسی کی طرف تمہارا حشر کیا جانے والا ہے ۔ پھر اللہ پاک رب العالمین اپنے بندوں سے فرماتا ہے کہ ان پرندوں کی طرف دیکھو جو آسمان و زمین کے درمیان کی فضا میں پرواز کرتے پھرتے ہیں ، انہیں پروردگار ہی اپنی قدرت کاملہ سے تھامے ہوئے ہے ۔ یہ قوت پرواز اسی نے انہیں دے رکھی ہے اور ہواؤں کو ان کا مطیع بنا رکھا ہے ۔ سورہ ملک میں بھی یہی فرمان ہے کہ کیا وہ اپنے سروں پر اڑتے ہوئے پرندوں کو نہیں دیکھتے ؟ جو پر کھولے ہوئے ہیں اور پر سمیٹے ہوئے بھی ہیں انہیں بجز اللہ رحمان و رحیم کے کون تھامتا ہے ؟ وہ اللہ تمام مخلوق کو بخوبی دیکھ رہا ہے ، یہاں بھی خاتمے پر فرمایا کہ اس میں ایمانداروں کے لئے بہت سے نشان ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

77۔ 1 یعنی آسمان اور زمین میں جو چیزیں غائب ہیں اور وہ بیشمار ہیں اور انہی میں قیامت کا علم ہے۔ ان کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں۔ اس لئے عبادت کے لائق بھی صرف ایک اللہ ہے نہ کہ وہ پتھر کے بت جن کو کسی چیز کا علم نہیں نہ وہ کسی کو نفع نقصان پہنچانے پر قادر ہیں۔ 77۔ 2 یعنی اس کی قدرت کاملہ کی دلیل ہے کہ وسیع و عریض کائنات اس کے حکم سے پلک جھپکنے میں بلکہ اس سے بھی کم لمحے میں تباہ برباد ہوجائے گی۔ یہ بات بطور مبالغہ نہیں ہے بلکہ ایک حقیقت واقعہ ہے کیونکہ اس کی قدرت غیر متناہی ہے۔ جس کا ہم اندازہ نہیں کرسکتے، اس کے ایک لفظ کُنْ سے سب کچھ ہوجاتا ہے جو وہ چاہتا ہے۔ تو یہ قیامت بھی اس کے کُنْ (ہو جا) کہنے سے برپا ہوجائے گی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٨] قیامت کا دفعتاً واقع ہونا :۔ یہاں درمیان میں مشرکوں کے ایک سوال کا ذکر کیے بغیر اس کا جواب دیا جارہا ہے۔ وہ اکثر یہ سوال کرتے رہتے ہیں کہ قیامت کب یعنی کتنے سال بعد اور کس مہینہ کی کون سی تاریخ کو آئے گی ؟ اور اس کا جواب بھی کئی پہلوؤں سے مذکور ہوچکا ہے۔ یہاں جس پہلو کا ذکر ہے وہ یہ ہے کہ اس کائنات کی تمام تر اشیاء اور وہ واقعات اور حوادثات جو ماضی میں واقع ہوچکے ہیں یا اس وقت ہو رہے ہیں یا مستقبل میں پیش آنے والے ہیں۔ وہ غائب تو تمہاری نظروں اور علم سے ہیں۔ اللہ کے لیے یہ سب باتیں ایسے ہی ہیں جیسے وہ اس کے سامنے موجود اور حاضر ہیں۔ اسی طرح قیامت کا بھی اسے پورا علم ہے اور وہ جانتا ہے کہ اسے کب واقع کرنا ہے۔ تم بس ایک بات سمجھ لو کہ قیامت ایسے نہیں آئے گی کہ تم اسے دور سے آتا دیکھ لو تو سنبھل جاؤ اور تو بہ تائب کرلو۔ بلکہ قیامت جب آئی تو آنکھ جھپکنے جتنی بھی دیر نہ لگے گی کہ وہ واقع ہوجائے گی۔ چنانچہ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ : && دو آدمی کپڑا بچھائے سودا بازی کر رہے ہونگے اور ابھی وہ اس سودابازی اور کپڑا لپیٹنے سے فارغ نہ ہوں گے کہ قیامت آجائے گی اور ایک اونٹنی کا دودھ لے کر جارہا ہوگا اور ابھی یہ اسے پینے نہ پائے گا کہ قیامت آجائے گی اور ایک آدمی اپنا حوض لیپ پوت رہا ہوگا لیکن ابھی نہ اس میں پانی بھرا جائے گا اور نہ پیا جائے گا کہ قیامت آجائے گی۔ اور ایک آدمی کھانے کا نوالہ اپنے منہ کی طرف اٹھائے گا اور ابھی اس نے وہ منہ میں نہ ڈالا ہوگا کہ قیامت آجائے گی۔ (بخاری، کتاب الرقاق۔ باب بلاعنوان۔ نیز کتاب الفتن۔ باب بلاعنوان)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلِلّٰهِ غَيْبُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ وَمَآ اَمْرُ السَّاعَةِ اِلَّا كَلَمْحِ الْبَصَرِ اَوْ هُوَ اَقْرَبُ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ : ” غَيْبُ “ جو نہ حواس خمسہ سے معلوم ہو سکے، نہ عقل سے، مخلوق سے پوشیدہ ہو۔ ” لِلّٰهِ “ خبر ہے ” غَيْبُ السَّمٰوٰتِ “ کی۔ بعد میں آنے کے بجائے پہلے آنے سے کلام میں حصر پیدا ہوگیا، اس لیے ترجمہ ” اللہ ہی کے پاس ہے “ کیا گیا۔ صرف اللہ تعالیٰ کے معبود برحق ہونے کے دلائل میں سے یہ بہت بڑی دلیل ہے۔ ساتھ ہی ایک ایسے غیب کا ذکر فرما دیا جو اللہ کے سوا کسی کو معلوم نہیں، کیونکہ وہ غیب کا علم کسی کو بتایا ہی نہیں گیا اور وہ قیامت ہے اور اس کا علم ہونا سچا معبود ہونے کی دلیل اور علم نہ ہونا باطل ہونے کی دلیل ہے۔ دیکھیے سورة نحل (٢١) ۔ وَمَآ اَمْرُ السَّاعَةِ اِلَّا كَلَمْحِ الْبَصَرِ ۔۔ : ” السَّاعَةِ “ زمانے کا چھوٹے سے چھوٹا حصہ، مراد قیامت ہے، کیونکہ وہ اچانک اتنے کم وقت میں قائم ہوجائے گی۔ ” اَوْ هُوَ اَقْرَبُ “ میں ” اَوْ “ بمعنی ” بَلْ “ ہے، جیسا کہ یونس (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : (وَاَرْسَلْنٰهُ اِلٰى مِائَةِ اَلْفٍ اَوْ يَزِيْدُوْنَ ) [ الصافات : ١٤٧ ] ” اور ہم نے اسے ایک لاکھ کی طرف بھیجا، بلکہ وہ زیادہ ہوں گے۔ “ دوسری جگہ اپنے امر (کُنْ ) کے متعلق فرمایا : (وَمَآ اَمْرُنَآ اِلَّا وَاحِدَةٌ كَلَمْحٍۢ بِالْبَصَرِ ) [ القمر : ٥٠ ] ” اور ہمارا حکم تو صرف ایک بار ہوتا ہے، جیسے آنکھ کی ایک جھپک۔ “ اور یہاں ” اَوْ “ فرمایا، کیونکہ آنکھ جھپکنا بھی کچھ وقت چاہتا ہے، قیامت اس سے بھی کم وقت میں قائم ہوجائے گی۔ یہ اللہ تعالیٰ کے لیے کچھ مشکل نہیں، کیونکہ وہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھنے والا ہے۔ بعض علماء نے اس کا معنی یہ بھی بیان کیا ہے کہ تم قیامت کو بہت دور سمجھ رہے ہو، حالانکہ وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک آنکھ جھپکنے سے بھی زیادہ قریب ہے، جیسا کہ فرمایا : (اِنَّهُمْ يَرَوْنَهٗ بَعِيْدًا ۝ ۙوَّنَرٰىهُ قَرِيْبًا) [ المعارج : ٦، ٧ ] ” بیشک وہ اسے دور خیال کر رہے ہیں اور ہم اسے قریب دیکھ رہے ہیں۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر : اور آسمانوں اور زمین کی تمام پوشیدہ باتیں (جو کسی کو معلوم نہیں باعتبار علم کے اللہ ہی کے ساتھ خاص ہیں (تو صفت علم میں وہ کامل ہیں) اور (قدرت میں ایسے کامل ہیں کہ ان غیوب میں سے جو ایک امر عظیم ہے یعنی) قیامت (اس) کا معاملہ بس ایسا (جھٹ پٹ) ہوگا جیسے آنکھ جھپکنا بلکہ اس سے بھی جلدی (قیامت کے معاملہ سے مراد ہے مردوں میں جان پڑنا اور اس کا بہ نسبت آنکھ جھپکنے کے جلدی ہونا ظاہر ہے کیونکہ آنکھ جھپکنا حرکت ہے اور حرکت زمانی ہوتی ہے اور جان پڑنا آنی ہے اور آنی ظاہر ہے کہ زمانی سے اسرع ہے اور اس پر تعجب نہ کیا جائے کیونکہ) یقینا اللہ تعالیٰ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتے ہیں (اور اثبات قدرت کے لئے تخصیص قیامت کی شاید اس وجہ سے کہ ہو کہ وہ منجملہ غیوب خاصہ کے بھی ہے اس لئے وہ علم اور قدرت دونوں کی دلیل ہے قبل الوقوع تو علم اور بعد الوقوع قدرت کی) اور (منجملہ دلائل قدرت ووجوہ نعمت یہ امر ہے کہ) اللہ تعالیٰ نے تم کو تمہاری ماؤں کے پیٹ سے اس حالت میں نکالا کہ تم کچھ بھی نہ جانتے تھے (اس درجہ کا نام فلاسفہ کی اصطلاح میں عقل ہیولانی ہے) اور اس نے تم کو کان دئیے اور آنکھ اور دل تاکہ تم شکر کرو (استدلال علی القدرت کے لئے) کیا لوگوں نے پرندوں کو نہیں دیکھا کہ آسمان کے (تلے) فضاء میں (قدرت کے) مسخر ہو رہے ہیں (یعنی) ان کو (اس جگہ) کوئی نہیں تھا متابجز اللہ کے (ورنہ ان کے اجسام کا ثقیل ہونا اور مادہ ہوا کا رقیق ولطیف ہونا طبعا مقتضی اس کو ہے کہ نیچے گر پڑیں اس لئے اس امر مذکور میں) ایمان والوں کے لئے (قدرت الہیہ کی) چند دلیلیں (موجود) ہیں (چند نشانیاں اس لئے فرمایا کہ پرندوں کو خاص وضع پر پیدا کرنا جس سے اڑنا ممکن ہو ایک دلیل ہے پھر فضا کو ایسے طرز پر پیدا کرنا جس میں اڑنا ممکن ہو دوسری دلیل ہے پھر بالفعل اس طیران کا وقوع تیسری دلیل ہے اور جن اسباب کو طیران میں دخل ہے وہ سب اللہ ہی کے پیدا کئے ہوئے ہیں پھر ان اسباب پر مسبب یعنی طیران کا مرتب ہوجانا یہ بھی مشیت الہی ہے ورنہ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی چیز کے اسباب موجود ہوتے ہوئے بھی وہ وجود میں نہیں آتی اس لئے مایمسکھن الخ فرمایا گیا اور منجملہ وجوہ نعمت و دلیل قدرت یہ امر ہے کہ) اللہ تعالیٰ نے تمہارے واسطے (حالت حضر میں) تمہارے گھروں میں رہنے کی جگہ بنائی (اور حالت سفر میں) تمہارے لئے جانوروں کی کھال کے گھر (یعنی خیمے) بنائے جن کو تم اپنے کوچ کے دن اور مقام (کرنے) کے دن ہلکا (پھلکا) پاتے ہو (اور اس وجہ سے اس کا لادنا اور نصب کرنا سب سہل معلوم ہوتا ہے) اور ان (جانوروں) کے اون انکے روؤں اور ان کے بالوں سے (تمہارے) گھر کا سامان اور فائدے کی چیزیں ایک مدت تک کے لئے بنائیں (مدت تک اس لئے فرمایا کہ عادۃ یہ سامان بہ نسبت روئی کے کپڑوں کے دیرپا ہوتا ہے اور منجملہ دلائل قدرت و وجوہ نعمت کے ایک یہ ہے کہ) اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے اپنی بعض مخلوقات کے سائے بنائے (جیسے درخت ومکانات وغیرہ) اور تمہارے لئے پہاڑوں میں پناہ کی جگہیں بنائیں (یعنی غار وغیرہ جس میں گرمی سردی بارش موذی دشمن جانور آدمی سے محفوظ رہ سکتے ہو) اور تمہارے لئے ایسے کرتے بنائے جو گرمی سے تمہاری حفاظت کریں اور ایسے کرتے (بھی) بنائے جو تمہاری آپس کی لڑائی (میں زخم لگنے) سے تمہاری حفاظت کریں (مراد اس سے زرہ ہیں) اللہ تعالیٰ تم پر اسی طرح کی اپنی نعمتیں پوری کرتا ہے کہ تم (ان نعمتوں کے (شکریہ میں) فرمانبردار رہو (اور ہرچند مذکورہ نعمتوں میں بعض مصنوعات عباد بھی ہیں مگر ان کا مادہ اور ان کے بنانے کا سلیقہ تو اللہ ہی کا پیدا کیا ہوا ہے اس لئے منعم حقیقی وہی ہیں پھر ان نعمتوں کے بعد بھی) اگر یہ لوگ ایمان سے اعراض کریں (تو آپ غم نہ کریں آپ کا کوئی نقصان نہیں کیونکہ) آپ کے ذمہ تو صرف صاف صاف پہنچا دینا ہے (اور ان کے اعراض کی وجہ سے یہ نہیں کہ وہ ان نعتموں کو پہچانتے نہیں بلکہ وہ لوگ) خدا کی نعمتوں کو تو پہچانتے ہیں مگر پہچان کر پھر (برتاؤ میں) اس کے منکر ہوتے ہیں (کہ جو برتاؤ منعم کے ساتھ چاہئے تھا یعنی عبادت وطاعت وہ دوسرے کے ساتھ کرتے ہیں) اور زیادہ ان میں ایسے ہی ناشکرے ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلِلّٰهِ غَيْبُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ وَمَآ اَمْرُ السَّاعَةِ اِلَّا كَلَمْحِ الْبَصَرِ اَوْ هُوَ اَقْرَبُ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ 77؀ غيب الغَيْبُ : مصدر غَابَتِ الشّمسُ وغیرها : إذا استترت عن العین، يقال : غَابَ عنّي كذا . قال تعالی: أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل/ 20] ( غ ی ب ) الغیب ( ض ) غابت الشمس وغیر ھا کا مصدر ہے جس کے معنی کسی چیز کے نگاہوں سے اوجھل ہوجانے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ غاب عنی کذا فلاں چیز میری نگاہ سے اوجھل ہوئی ۔ قرآن میں ہے : أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل/ 20] کیا کہیں غائب ہوگیا ہے ۔ اور ہر وہ چیز جو انسان کے علم اور جو اس سے پودشیدہ ہو اس پر غیب کا لفظ بولا جاتا ہے أرض الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . ( ا رض ) الارض ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ أمر الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته : إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود/ 123] ( ا م ر ) الامر ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔ { وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ } ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے ساعة السَّاعَةُ : جزء من أجزاء الزّمان، ويعبّر به عن القیامة، قال : اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر/ 1] ، يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف/ 187] ( س و ع ) الساعۃ ( وقت ) اجزاء زمانہ میں سے ایک جزء کا نام ہے اور الساعۃ بول کر قیامت بھی مراد جاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر/ 1] قیامت قریب آکر پہنچی ۔ يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف/ 187] اے پیغمبر لوگ ) تم سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔ لمح اللَّمْحُ : لمعان البرق، ورأيته لَمْحَةَ البرق . قال تعالی: كَلَمْحٍ بِالْبَصَرِ [ القمر/ 50] ويقال : لأرينّك لَمْحاً باصرا «1» . أي : أمرا واضحا . ( ل م ح ) اللمح کے معنی بجلی کی چمک کے ہیں ۔ محاورہ ہے : رایت لمحۃ البرق میں نے اسے بجلی کی چمک کی طرح ایک جھلک دیکھا ۔ قرآن میں ہے : كَلَمْحٍ بِالْبَصَرِ [ القمر/ 50] آنکھ کے جھپکنے کی طرح ۔ اور محاورہ ہے : لارینک لمحا باصرا ۔ میں تمہیں صاف طور پر دکھلادوں گا۔ تم پر حقیقت کھول دونگا ۔ قرب الْقُرْبُ والبعد يتقابلان . يقال : قَرُبْتُ منه أَقْرُبُ «3» ، وقَرَّبْتُهُ أُقَرِّبُهُ قُرْباً وقُرْبَاناً ، ويستعمل ذلک في المکان، وفي الزمان، وفي النّسبة، وفي الحظوة، والرّعاية، والقدرة . نحو : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة/ 35] ( ق ر ب ) القرب والبعد یہ دونوں ایک دوسرے کے مقابلہ میں استعمال ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قربت منہ اقرب وقربتہ اقربہ قربا قربانا کسی کے قریب جانا اور مکان زمان ، نسبی تعلق مرتبہ حفاظت اور قدرت سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے جنانچہ قرب مکانی کے متعلق فرمایا : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة/ 35] لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا نہیں تو ظالموں میں داخل ہوجاؤ گے شيء الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم . ( ش ی ء ) الشئی بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اس کے متعلق خبر دی جا سکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترکہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ماسواپر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجود ات اور معدہ سب کو شے کہہ دیتے ہیں ،

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٧) تمام پوشیدہ باتیں جو بندوں میں سے کسی کو بھی معلوم نہیں، اللہ ہی کے ساتھ خاص ہیں قیامت ہے، اس کا معاملہ ایسا جھٹ پٹ ہوگا جیسا کہ آنکھ جھپکنا بلکہ اس سے بھی زیادہ جلدی اللہ تعالیٰ مرنے کے بعد کی زندگی وغیرہ ہر چیز پر قادر ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

70. The subsequent sentence shows that this is the answer to a question which was frequently put to the Prophet (peace be upon him) by the disbelievers of Makkah. The question which has not been cited was this: If the Resurrection so often you talk of is really coming, let us know the date of its coming. 71. That is, don’t be under the delusion that the Resurrection will come gradually and take a long time: you will neither be able to see it coming at a distance nor guard against it and make preparations to meet it. For it will come suddenly without any previous notice, in the twinkling of an eye or even will take less time than this. Therefore, now is the time to consider this matter seriously and to decide about your attitude towards it. You should not depend upon this false hope that there is still a long time in the coming of the Resurrection and you will set matters right with Allah when you will see it coming. It may be pointed out that the Resurrection has been mentioned here during the discussion on Tauhid in order to warn the people that the choice between the doctrines of Tauhid and shirk is not merely a theoretical question. For that choice determines different courses of life for which they will be called to account on the Day of Resurrection. They have also been warned that it will come all of a sudden at some unknown time. Therefore, they should be very careful to make that choice which will determine their success or failure on that Day.

سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :70 بعد کے فقرے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دراصل جواب ہے کفار مکہ کے اس وال کا جو وہ اکثر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا کرتے تھے کہ اگر واقعی وہ قیامت آنے والی ہے جس کی تم ہمیں خبر دیتے ہو تو آخر وہ کس تاریخ کو آئے گی ۔ یہاں ان کے سوال کو نقل کیے بغیر اس کا جواب دیا جارہا ہے ۔ سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :71 یعنی قیامت رفتہ رفتہ کسی طویل مدت میں واقع نہ ہوگی ، نہ اس کی آمد سے پہلے تم دور سے اس کو آتے دیکھو گے کہ سنبھل سکو اور کچھ اس کے لیے تیاری کر سکو ۔ وہ تو کسی روز اچانک چشم زدن میں ، بلکہ اس سے بھی کم مدت میں آجائے گی ۔ لہٰذا جس کو غور کرنا ہو سنجیدگی کے ساتھ غور کرے ، اور اپنے رویہ کے متعلق جو فیصلہ بھی کرنا ہو جلدی کر لے ۔ کسی کو اس بھروسے پر نہ رہنا چاہیے کہ ابھی تو قیامت دور ہے ، جب آنے لگے گی تو اللہ سے معاملہ درست کرلیں گے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ توحید کی تقریر کے درمیان یکایک قیامت کا یہ ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ لوگ توحید اور شرک کے درمیان کسی ایک عقیدے کے انتخاب کے سوال کو محض ایک نظری سوال نہ سمجھ بیٹھیں ۔ انہیں یہی احساس رہنا چاہیے کہ ایک فیصلے کی گھڑی کسی نامعلوم وقت پر اچانک آجانے والی ہے اور اس وقت اسی انتخاب کے صحیح یا غلط ہونے پر آدمی کی کامیابی و ناکامی کا مدار ہو گا ۔ اس تنبیہ کے بعد پھر وہی سلسلہ تقریر شروع ہو جاتا ہے جو اوپر سے چلا آرہا تھا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٧٧۔ آیت کے اس ٹکڑے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے کمال علم کو ذکر فرمایا کہ غیب کا علم سوائے خدا کے اور کسی کو نہیں ہے انبیاء اور رسول کوئی بھی غیب دان نہیں ہیں اللہ پاک نے جس کو جتنا وحی یا الہام کے ذریعہ سے خبردار کردیا وہ اتنا ہی جانتا ہے اور ماسوا اس کے آسمان و زمین میں جو جو باتیں غیب کی ہیں اس کا علم کسی کو نہیں خدا ہی جانتا ہے اور غیب کا علم اسی کے ساتھ خاص ہے چناچہ صحیح مسلم میں حضرت عمر (رض) سے روایت ہے ١ ؎، کہ جب حضرت جبریل (علیہ السلام) نے انسان کی شکل میں آکر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ قیامت کب ہے تو آپ نے یوں اپنی لا علمی ظاہر کی کہ پوچھنے والے سے میں زیادہ نہیں جانتا ہوں جس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح پوچھنے والے کو اس کا علم نہیں ہے کیونکہ اگر وہ جانتا ہوتا تو پھر پوچھتا کیوں اسی طرح مجھے بھی اس کا علم نہیں ہے۔ جو چیز مخلوقات کی نظر سے غائب ہے اس کو غیب کہتے ہیں مثلاً دنیا میں یہ کہ قیامت کب آوے گی یا کل کیا ہوگا یا مینہ کب برسے گا یا حاملہ عورت کے پیٹ میں لڑکا ہے یا لڑکی یا عقبیٰ میں عذاب قبر جنت دوزخ کا حال یہ سب غیب کی باتیں ہیں سورت الجن میں آوے گا کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہتا ہے بذریعہ وحی کے ان کی باتوں میں سے کچھ باتیں بتلا دیتا ہے تاکہ اس غیب کی بات کا ظاہر کردینا نبوت کی نشانی ٹھہرے۔ مثلاً بدر کی لڑائی میں جو سرکش لوگ مارے جانے والے تھے ان کے مارے جانے سے ایک رات پہلے ان لوگوں کے نام اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو بتلا دئیے۔ اور اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ حال صحابہ سے کہہ دیا۔ چناچہ صحیح مسلم کی انس بن مالک (رض) کی یہ روایت ایک جگہ گزر چکی ہے ٢ ؎۔ صحیح بخاری و مسلم میں ابوذر (رض) سے جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ سے فرمایا دوزخ کا حال جو کچھ مجھ کو معلوم ہے اگر وہ تفصیل سے تم لوگوں کو معلوم ہوجاوے تو تم ہنسنا بالکل کم کر دو ہر وقت روتے رہو بستی چھوڑ کر جنگل کو نکل جاؤ اور وہاں ہر دم اللہ سے لو لگائے رہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ دنیا کا انتظام قائم رہنے کے لئے بعض غیب کی باتیں اللہ کے رسول نے بقدر ضرورت مختصر طور پر امت کو بتلائی ہیں۔ حاصل کلام یہ ہے کہ ان جھوٹے معبودوں کو جب بھلا برا حال ہی کسی کا معلوم نہیں کہ آئندہ ان کے پوجنے والوں کے حق میں کیا ہونے والا ہے تو پھر یہ اپنے پوجنے والوں کے آئندہ کے نہ کسی ضرر کو دفع کرسکتے ہیں نہ کوئی نفع پہنچا سکتے ہیں چناچہ مکہ کے قحط میں ان مشرکوں کو اس کا تجربہ ہوچکا ہے کہ ان جھوٹے معبودوں سے کچھ مدد و رفع قحط میں ان مشرکوں کو نہ ملی آخر اللہ کے رسول کی دعا سے وہ قحط رفع ہوا جس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ بارگاہ الٰہی میں اللہ کے رسولوں کا کیا مرتبہ ہے اور ان جھوٹے معبودوں کی رسائی اس بارگاہ میں کہاں تک ہے۔ حدیث شریف میں قیامت کا لفظ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو معنے میں فرمایا ہے ایک تو کسی زمانے کے سارے موجودہ لوگوں کا رفتہ رفتہ اپنی عمر پا کر مرجانا اور دوسرے زمانہ کے لوگوں کا ان پہلے لوگوں کی جگہ پیدا ہوجانا مثلاً رفتہ رفتہ سارے صحابہ کا وفات پا کر تابعیوں کے زمانہ کا آجانا یہ گویا ایک زمانے کے لوگوں کے مرجانے کے حساب سے ایک درمیانی قیامت ہے اسی زمانہ کو قرن صحابہ اور قرن تابعین کہتے ہیں۔ دوسرے تمام دنیا کی عمر پوری ہو کر صور کا پھونکا جانا غرض یہ دونوں صورتیں اس طرح کی ناگہانی اور اچانک آنے والی ہیں کہ جب ان کا وقت آوے گا تو آنکھ جھپکانے میں آجاوے گا کیوں کہ ہر شخص کو اپنی عمر کا حال معلوم نہیں کہ آنکھ جھپکانے میں کب مرجاوے اسی طرح یہ بھی معلوم نہیں کہ جس قدر روحوں کا دنیا میں پیدا کرنا اللہ تعالیٰ نے ازل میں ٹھہرایا ہے ان کی گنتی کب پوری ہوجاوے اور اس آخری قرن کے ختم پر دنیا کی عمر ختم ہو کر پلک جھپکانے میں صور پھونک دیا جاوے اور تمام عالم تباہ ہوجاوے اس واسطے ہر انسان کی عمر بھروسہ نہ ایک پل کا ہے نہ دنیا کی عمر کا کچھ بھروسہ ہے۔ اس مطلب کے ذہن نشین کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ہے۔ حاصل معنے آیت کے یہ ہیں کہ غفلت سے لوگ اپنی عمر اور دنیا کی عمر کے بھروسہ پر بڑے بڑے دیر طلب کام کرتے ہیں اللہ کے نزدیک وعدہ آجانے کی دیر ہے پھر اس کی قدرت کے روبرو درمیانی اور آخری قیامت کا قائم ہوجانا پلک کے جھپکنے سے بھی نزدیک ہے کیونکہ اس کی درگاہ میں ہر کام کے لئے فقط حکم کی دیر ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ برے کام سے توبہ اچھے کام کا سرانجام جو کچھ انسان کو کرنا ہے وہ آج کرلے آج کے کام کو کل پر نہ رکھے کس لئے کہ جب انسان کی عمر کو قیام ہی نہیں تو نہیں معلوم کہ کل کیا ہو۔ صحیح بخاری و مسلم میں حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ لوگ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قیامت کے آنے کا حال پوچھا کرتے تھے تو آپ ایک نو عمر لڑکے کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کرتے تھے کہ یہ لڑکا بوڑھا نہ ہونے پاوے گا کہ اتنے میں تم لوگوں کی قیامت قائم ہوجاوے گی۔ مطلب یہ ہے کہ اس لڑکے کے بوڑھا ہونے سے پہلے اس قرن کے سب عمر رسیدہ لوگ مرجاویں گے یہ حدیث قیامت کے پہلے معنے کی تفسیر ہے۔ صحیح مسلم میں عبد اللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب عیسیٰ (علیہ السلام) دجال کو ہلاک کر چکیں گے تو ملک شام کی طرف سے ایک ٹھنڈی ہوا آوے گی جس سے اس طرح کے سب لوگ مرجاویں گے جن کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہوگا اب دنیا میں پھر شرک پھیل جاوے گا۔ اسی حالت میں پہلا صور پھونکا جاوے گا اور تمام دنیا برباد ہوجاوے گی ٣ ؎۔ یہ حدیث قیامت کے دوسرے معنے کی تفسیر ہے۔ صحیح بخاری کے حوالہ سے عبد اللہ بن عمر (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ مر نے کے بعد جو شخص قیامت کے دن جنت میں جانے والا ہے اس کو اس کا جنت کا ٹھکانہ اور جو دوزخ میں جانے والا ہے اس کو اس کا دوزخ کا ٹھکانا صبح شام اللہ کے فرشتے دکھا کر یہ کہتے ہیں کہ قیامت کے دن اس ٹھکانے میں جانے کے لئے تجھ کو دوبارہ زندہ کیا جاوے گا ٤ ؎۔ حضرت عائشہ (رض) کی روایت میں ہر قرن کی موت کو قیامت جو فرمایا ہے اس کی یہ تفصیل عبد اللہ بن عمر (رض) کی روایت سے اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے کہ مرنے کے ساتھ ہی ہر شخص کو قیامت کے دن کا اپنا انجام معلوم ہوجاتا ہے اس لئے ہر قرن کے لوگوں کے حق میں ان کی موت بھی گویا قیامت ہے ان اللہ علی کل شئی قدیر اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی کام اللہ کی قدرت سے باہر نہیں ہے اس لئے وقت مقررہ پر ایک قرن کے لوگوں کی موت اور تمام دنیا کی بربادی اور پھر جزا و سزا کے لئے حشر کا قائم ہونا ان سب چیزوں کی اس کو قدرت ہے جو لوگ اس کے منکر ہیں وہ نادان ہیں۔ کیونکہ دنیا کا کارخانہ دیکھ کر یہ ہر سمجھدار سمجھ سکتا ہے کہ یہ اتنا بڑا کارخانہ بغیر جزا و سزا کے بےٹھکانے رہ جاتا ہے۔ ١ ؎ جلد ہذا ص ٢٠٢۔ ٢٠٨ وغیرہ۔ ٢ ؎ مشکوٰۃ ص ٤٨٠ باب قرب الساعۃ الخ۔ ٣ ؎ صحیح مسلم ص ٤٠٣ ج ٢ باب ذکر الدجال۔ ٤ ؎ صحیح بخاری ص ١٨٤ ج ١ باب المیت یعرض علیہ مقعدہ الخ۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(16:77) امر الساعۃ۔ یعنی قیامت برپا ہونے کا معاملہ۔ لمح۔ اسم مصدر۔ پلک جھپکنا۔ لمح البرق۔ بجلی چمکی۔ یا جھپکی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 غیب سے مرد وہ باتیں ہیں جو بندوں کے لحاظ سے پوشیدہ ہیں۔ 6 یعنی یا اس سے بھی کم ویژن اللہ تعالیٰ قیامت کو لاسکتا ہے اس کے لئے کوئی کام ذرہ مشکل نہیں ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

(رکوع نمبر ١ ١) اسرارومعارف جو انسانی منصوبہ بندیاں اور اندازے ہیں جن کی بنیاد پر لوگ رب جلیل کو بھی عام انسانوں کی طرح تصور کرکے مثالیں دیتے ہیں ان کی کوئی حیثیت نہیں کہ زمین اور آسمانوں میں یا ساری مخلوق میں غیب کا علم تو صرف اللہ جل جلالہ کو ہے اور کل کیا ہونے والا ہے یا آئندہ کیا پیش آئے گا یہ صرف اللہ جل جلالہ جانتا ہے ، لہذا انسان کی بہتری اسی کی اطاعت میں ہے ، ورنہ انسان کو تو یہ بھی خبر نہیں کہ کس گھڑی سب کچھ تہ وبالا ہوجائے گا اور پلک جھپکنے میں قیامت قائم ہوجائے گی اللہ جل جلالہ تو یقینا جانتا ہے بلکہ وہی ذات قیامت قائم کرنے والی ہے اور یقینا وہ ہر بات پہ کامل قدرت رکھتا ہے لہذا اسی کے حکم کے مطابق عمل بھی اور آئندہ کی منصوبہ بندی بھی درست ہے ۔ آدمی کے علم کی حیثیت صرف اتنی ہے کہ اللہ جل جلالہ نے تمہیں ماؤں کے پیٹ سے اس حال میں پیدا فرمایا کہ تم کچھ نہیں جانتے تھے نہ غذا خبر نہ لباس کا پتہ نہ بھلے برے کی تمیز کچھ بھی تو نہ جانتے تھے پھر اس نے تمہیں حواس عطا فرمائے ، جن میں بتدریج پختگی آتی گئی اور تم علم حاصل کرنے لگے حصول علم کا بہت بڑا ذریعہ تمہاری سماعت کو بنایا دوسرے درجے پر بصارت کو کہ انسان زندگی بھر سن کر معلومات جمع کرتا ہے اور مشاہدہ بہرحال اس سے کم تر ہی ہوتا ہے ۔ (علم کا مرکز دل ہے) پھر علم کا خزینہ قلب کو بنا دیا ، تاکہ تم اس کا شکر ادا کرو اور اس کے احسانات یاد کرو ، فلاسفہ کے مطابق علم کا خزانہ دماغ ہے مگر یہ درست نہیں حق یہ ہے کہ دماغ معلومات جمع کرنے کا خزانہ ہے اور معلومات انسان کا حال نہیں بن سکتیں بلکہ جب دل چاہتا ہے تو معلومات کو بیچ کھاتا ہے مثلا ڈاکٹر ، وکیل یا ایک منصف ہی کو لے لیں تو اگر محض ذہنی طور پر اپنے فن کے بارے معلومات رکھتا ہے تو ان سے ہر جائز وناجائز طریقے سے محض دنیا سمیٹے گا ، اپنے فرض منصبی کا لحاظ تک بھی نہ کر پائے گا کہ معلومات دماغ میں ہیں اور دل پہ ان کا اثر نہیں لیکن اگر دل کا حال بدل گیا اور ڈاکٹر کی کیفیت یا وکالت وعدالت کے منصب کا حال دل پر وارد ہوگیا تو ڈاکٹر مریض کے آرام کی فکر زیادہ کرے گا خواہ فیس کم ہی مل سکے ، وکیل محنت کرے گا اور منصف انصاف کرنے کی کوشش کرے گا ، کہ ان کا دل اسی بات میں راحت محسوس کرے گا اور یاد رہے ، دل کی حیات وحی سے شروع ہوتی ہے اور نبی ہی اس کو تقسیم فرماتا ہے لہذا یہ صرف مومن ہے جس کا دل زندہ ہو کر قبول علم کا قابل ہوتا ہے ، ورنہ کافر کو تو سرے سے یہ لذت نصیب ہی نہیں یہی وجہ ہے کہ پورا کافر معاشرہ مجبورو بےبس کا خون نچوڑتا ہے ، سود ، جوا اور ذخیرہ اندوزی صرف غریب اور بےبس کو لوٹنے کا ڈھنگ ہیں ، اپنی معمولی خواہشات کی تکمیل کے لیے پوری انسانیت کو جنگ کی آگ میں جھونک دیتا ہے کافروں کا پراپیگنڈہ نہ دیکھا جائے کاش کوئی اندر جھانک کر دیکھے ، رہے مسلمان تو ان میں جب نور ایمان میں کمی آتی ہے تو دل علم کا خزانہ نہیں بن سکتا ، بلکہ معلومات دماغ کے پاس ہوتی ہیں ، دل اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے ان سے ناجائز فائدے حاصل کرتا ہے ، ذرا پرندوں کو ہوا کا سینہ چیرتے ہوئے دیکھو جن کا مادی اور کثیف وجود قدرت باری کی صفت کے طفیل ہواؤں میں تیر رہا ہے ، اللہ جل جلالہ کے سوا انہیں کوئی تھامنے والا نہیں ان کے جسموں کی ساخت پروں کے سائز پر پرندے کے حجم کے مطابق پھر ان میں ایک شعور جو اڑنے اور اترنے کے لیے ضروری تھا پھر فضا میں وہ خاصیت کہ اس میں پرواز ممکن ہو یہ سب اور اس طرح کی بےحساب دلیلیں ان کی ذوات میں موجود ہیں مگر سمجھنے کے لیے نور ایمان چاہئے ۔ (گھر بھی اللہ جل جلالہ کی اطاعت ہی سے راحت کا سبب بن سکتا ہے ورنہ نہیں) رب جلیل نے تمہارے لیے تمہارے گھروں کو راحت کا سبب بنا دیا کہ تم غم جہاں سے گھر میں سکون پاتے ہو بیوی بچے اور رزق حلال ذہنی وقلبی سکون کا باعث بنتے ہیں ، اس آیہ کریمہ سے ظاہر ہے کہ کفر یا نافرمانی کرکے بڑے سے بڑا اور پرتکلف گھر بھی آرام مہیا نہیں کرتا بلکہ مصائب میں اضافہ کرتا ہے جبھی تو یورپ کے غیر مسلم معاشرہ میں خود کشی کی شرح بہت زیادہ ہے ، جبکہ ان کے گھروں میں ہر مادی سہولت موجود ہے ۔ اور پھر اللہ جل جلالہ نے جانوروں کی کھال ، بال ، اون وغیرہ سب کو تمہاری راحت و خدمت کا سامان بنا دیا کہ لباس ، خیمے ، جوتے اور طرح طرح کی چیزیں بنا کر استعمال میں لاتے ہو ، اور دار دنیا میں استعمال کرکے فائدہ اٹھاتے ہو۔ (مسئلہ) اس آیہ کریمہ سے ثابت کیا گیا ہے کہ جانوروں کی کھال یا اون اور بال سب حلال ہیں اور استعمال جائز ہے وہ جانور حلال ہو یا نہ ، ذبح کیا گیا ہو یا مردار ہر حال اون بال تو ویسے ہی حلال ہیں جبکہ کھال دباغت سے پاک ہوجاتی ہے ، اللہ جل جلالہ کی نعمتوں کو دیکھو تو کہ ہر شے کو سایہ عطا کرکے اسے تمہارے لیے راحت کا باعث بنا دیا بڑے بڑے پہاڑوں کے دامن تمہاری پناہ گاہوں کا کام دیتے ہیں اور لباس بخشا جو تمہیں موسموں کے اثرات سے بچاتا ہے اور ایسے لباس بنانا سکھا دیئے جو میدان کار زار ہیں تمہارے بدنوں کی حفاظت کا کام کرتے بھلا کہاں تک شمار کرو گے یہ بیشمار انعامات تقاضا کرتے ہیں کہ تم اللہ کی اطاعت کرو ، لیکن اس کے باوجود اگر لوگ اطاعت نہ کریں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کام میری بات صاف صاف پہنچا دینا ہے کہ یہ سب لوگ اللہ کی نعمتوں کو اچھی طرح پہچانتے ہیں ، رات دن برت رہے ہیں مگر اس کے باوجود اس کا احسان ماننے سے انکار کردیتے ہیں اور اکثریت کفر کی مصیبت میں مبتلا نظر آتی ہے ۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 77 تا 83 امرالساعۃ قیامت کا حال۔ لمح البصر آنکھ کا جھپکنا، آنکھ کا بند ہونا۔ اقرب زیادہ قریب۔ بطون (بطن) پیٹ۔ شیئاً کچھ بھی۔ السمع سننا، کان الابصار (بصر) آنکھیں۔ الافئدۃ دل، قلب۔ الطیر پرندہ۔ فی جو السمآء آسمان کی فضا میں۔ مایمسک نہیں تھامتا۔ سکن ٹھکانا، رہنے کی جگہ۔ جلود (جلد) کھالیں۔ تستخفون تم ہلکا پھلکا پاتے ہو۔ یوم ظعن سفر کے دن، کوچ کے دن۔ یوم اقامۃ ٹھہرنے کے دن۔ اصواف (صوف) اون۔ اوبار (وبر) اونٹ کا نرم رواں۔ اشعار (شعر) بال۔ اثاثاً سامان اسباب۔ متاعاً سامان۔ حین وقت ، زمانہ۔ ظلال سائے۔ اکنان صکن) چھپنے کی جگہ۔ سرابیل (سربال) کرتے۔ تقیکم تمہیں بچاتا ہے۔ باس لڑائی، جنگ۔ تسلمون تم فرماں برداری کرتے ہو۔ یعرفون وہ پہچانتے ہیں۔ ینکرون وہ انکار کرتے ہیں۔ تشریح : آیت نمبر 77 تا 83 فرمایا کہ یہ لوگ پتھر اور لکڑیوں کے بےجان بتوں کو اپنا معبود بنا کر ان سے اپنی مرادیں مانگتے ہیں حالانکہ وہ نہایت بےبس عاجز اور کمزور ہیں جو اپنے وجود تک کے لئے انسانی ہاتھوں کے محتاج ہیں وہ کسی کے نفع اور نقصان کے مالک کیسے ہو سکتے ہیں ؟ اس دنیا میں اور آخرت میں اس کے کوئی کام نہیں آسکیں گے۔ اس کے برخلاف اللہ کی قدرت و شان اور اختیار یہ ہے کہ اس نے کائنات کی ہر چیز کو پیدا کیا ہے جو بھی اس کے تابع اور فرماں بردار ہے وہ ذرے ذرے کی حقیقت اس کے راز اور ہر بھید سے واقف ہے۔ وہی اللہ سب کا خالق ومالک اور محسن ہے۔ انسان کی یہ کتنی بڑی بھول ہے کہ وہ اپنے حقیقی محسن کو بھول کر غیر اللہ کے سامنے جھکتا ہے اور ان کو اپنا حاجت روا سمجھتا ہے حالانکہ حاجت روا صرف اللہ کی ذات ہے۔ اللہ کے سارے نبیوں اور رسولوں نے یہی بتایا کہ اس کائنات میں صرف ایک اللہ کا حکم چلتا ہے وہی سب کی حاجتیں پوری کرتا ہے۔ ہر چیز پر اس کو پوری قدرت کو طاقت حاصل ہے۔ اس نے سب لوگوں کو قیامت تک مہلت دی ہوئی ہے جب وہ قیامت آجائے گی پھر ہر شخص کو زندگی کے ایک ایک لمحے کا حساب دینا ہوگا ۔ اس وقت یہ پتھر کے بےجان بت کسی کی کوئی مدد نہ کرسکیں گے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو اللہ کے آخری نبی اور آخری رسول ہیں آپ نے بھی سب سے پہلے مکہ والوں کو یہی بتایا کہ ساری قدرت و طاقت اللہ ہی کی ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور بہت جلد قیامت آنے والی ہے وہ قیامت جس میں اس کائنات کو سمیٹ کر رکھ دیا جائے گا۔ چاند ، سورج بےنور ہوجائیں گے ستارے ٹوٹ کر ایک دوسرے سے ٹکرا جائیں گے پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں گے، زمین ایک شدید زلزلے کے جھٹکے سے ختم کردی جائے گی اور پھر اللہ ایک نئی زمین پیدا فرمائیں گے۔ میدان حشر قائم ہوگا۔ اور پھر سب کا حساب کتاب ہوگا ۔ کفار مذاق اڑاتے ہوئے کہتے کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آخر قیامت جس کا آپ بار بار ذکر کرتے ہیں وہ کب آئے گی ؟ فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ان سے کہہ دیجیے کہ آسمانوں اور زمین کے ہر بھید اور راز کو صرف اللہ ہی جانتا ہے اللہ کو معلوم ہے کہ قیامت کب آئے گی لیکن جب وہ قیامت آئے گی تو اس کے آنے میں اتنی دیر بھی نہیں لگے گی جتنی دیر پلک جھپکنے میں لگتی ہے۔ اللہ اس پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ فرمایا کہ اس کائنات میں اللہ کی قدرت و طاقت کی سینکڑوں نشانیاں موجود ہیں مثلاً : 1) ہر انسان کا اپنا وجود ہی ایک نشانی ہے۔ جب اللہ کسی انسان کو نو مہینے ماں کے پیٹ میں رکھ کر اس کو اس دنیا میں لاتا ہے اس وقت وہ سننے، دیکھنے اور سوچنے کی صلاحیت ہونے کے بوجود اپنی ان صلاحیتوں کو استعمال نہیں کرسکتا تھا وہ اللہ اس کو سننے دیکھنے اور سوچنے کی طاقتیں عطا کرتا ہے یہ چیز ہر انسان کے لئے مقام شکر ہے۔ 2) اس نے ہزاروں قسم کے پرندے پیدا کئے جن کو ایسا ہلکا پھلکا جسم اور اڑنے کی صلاحیت عطا فرمائی کہ وہ فضاؤں میں بےتکلف اڑتے پھرتے ہیں۔ فضاؤں کو ہواؤں کو ان کے لئے ایسا مسخر کردیا کہ نہ ان کو زمین کی کشش اڑنے سے روک سکتی ہے اور نہ فضاؤں کی تیزی، ان پرندوں کو یہ صلاحیت کس نے دی ؟ یقینا اللہ نے اپنی قدرت سے ان کو عطا فرمائی ہے۔ 3) اللہ نے انسان کو عقل، فہم اور فراست کے ساتھ ساتھ ایسے ذرائع بھی عطا فرمائے جن سے وہ دنیا کی زندگی کو آرام اور سکون سے گذار سکے۔ فرمایا کہ ان کو گھر بنا کر اس میں سکون سے رہنے کی صلاحیت عطا فرمائی۔ اسی اللہ نے جانوروں کی کھالوں سے خیمے بنا کر رہنے کی صلاحیت عطا فرمائی جن کو انسان نہایت آسانی اور سہولت سے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرسکتا ہے۔ اللہ نے اس انسان کو ایسی صلاحیت عطا فرمائی جس سے وہ جانوروں کو اون، رویں اور بال حاصل کر کے سردی گرمی موسم کی سختی اور نرمی سے بچنے کا سامان بناتا ہے اور سکون حاصل کرتا ہے۔ انسان کا اپنا گھر اور لباس وغیرہ اللہ کی بڑی نعمت ہے جس پر اسے ہر آن شکر ادا کرتے رہنا چاہئے۔ 4) اسی طرح اس لئے نے تپتے صحراؤں اور میدانوں میں درختوں، پہاڑوں اور بادلوں کا سایہ عطا فرمایا۔ اگر سایہ نہ ملے تو انسان جھلس کر رہ جائے۔ اسی طرح پہاڑوں کے غار بنائے جس میں آدمی رہ سکتا ہے وقت ضرورت ان کو اپنی پناہ گاہ بنا سکتا ہے۔ اس نے لوہا پیدا کیا جسے انسان زرہ تلواریں اور دوسرے ہتھیار بنا کر اپنی حفاظت کرسکتا ہے۔ فرمایا کہ اس طرح اللہ نے طرح طرح کی نعمتیں عطا فرمائیں یہ سب اس کی قدرت کاملہ کے نمونے اور نشانیاں ہیں۔ فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اللہ کی یہ نشانیاں ہیں جو اس نے کائنات میں بکھیر دی ہیں اب ان سے فائدہ اٹھانا اور عبرت حاصل کرنا انسان کا اپنا کام ہے آپ اللہ کے اس پیغام کو پہنچا دیجیے کہ اس کائنات میں ساری قدرت و طاقت صرف اللہ کی ہے اس لئے یہ سب کچھ عطا فرمایا ہے۔ اسی کی عبادت و بندگی کرنا چاہئے۔ فرمایا کہ وہ لوگ اس کی قدر کریں یا نہ کریں وہ جانتے بوجھتے شرک کا راستہ اختیار کریں یا نا شکری اور کفر کا آپ کا کام ہے اللہ کا پیغام پہنچا دینا۔ آپ کو اکثر لوگ وہ ملیں گے جو سب کچھ دیکھنے اور جاننے کے باوجود انکار کریں گے لیکن آپ ان کی پرواہ نہ کریں۔ یہ اللہ کا دین ہے وہ اس کا خود ہی محافظ و نگراں ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ قیامت کے معاملہ سے مراد ہے مردوں میں جان پڑنا اور اس کا جلدی ہونا ظاہر ہے کیونکہ آنکھ جھپکنا حرکت ہے اور حرکت زمانی ہوتی ہے اور جان پڑن آنی ہے اور آنی طاہر ہے کہ زمانی سے اسرع ہے۔ 4۔ اثبات قدرت کے لیے تخصیص ساعہ کی شاید اس وجہ سے کی ہو کہ وہ من جملہ غیوب خاصہ کے بھی ہے پس وہ علم اور قدرت دونوں کی دلیل ہے قبل الوقوع تو علم کی اور بعدالوقوع قدرت کی۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ توحید کے انکار کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ مشرک آخرت کی جوابدہی کا انکار کرتا ہے۔ لہٰذا توحید کے بعدعقیدہ آخرت کے ثبوت دیئے جاتے ہیں۔ گویا کہ توحید اور آخرت کا عقیدہ لازم وملزوم ہیں۔ آدمی کے کفرو شرک اختیار کرنے کی بنیادی وجہ یہ ہوتی ہے کہ کافر سرے سے اللہ تعالیٰ کی ذات کا منکر ہونے کی وجہ سے آخرت کا انکار کرتا ہے۔ مشرک آخرت کے بارے میں اس لیے دلیر ہوتا ہے کہ اس کا عقیدہ ہوتا ہے کہ جنکو وہ مشکل کشا اور حاجت روا سمجھتا ہے وہ قیامت کے دن ا سے بچا لیں گے۔ اس بنا پر کافر کفر سے اور مشرک شرک سے باز نہیں آتا۔ مکہ کے کفار کی حالت یہ تھی کہ وہ آخرت کا انکار کرنے کے ساتھ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مطالبہ کرتے تھے کہ آخرت برپا کیوں نہیں ہوتی ؟ جس کے جواب میں قرآن مجید میں کئی دلائل دیئے گئے ہیں یہاں صرف یہ جواب دیا گیا ہے کہ جس طرح زمین و آسمان کے غیبی امور کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اسی طرح اس کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ قیامت کب قائم ہوگی۔ البتہ جب اس کا وقت آئے گا تو آنکھ جھپکنے سے پہلے برپا ہوجائے گی۔ کیونکہ اللہ ہر بات پر قادر ہے۔ (مَنْ مَّاتَ فَقَدْ قَامَتَ قِیَامَتَہٗ ) [ السلسلۃ الضعیفۃ و الموضوعۃ ] ” جو شخص مرگیا اس کے لیے قیامت قائم ہوگئی۔ “ (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لاَ تَقُوم السَّاعَۃُ حَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِہَا، فَإِذَا طَلَعَتْ فَرَآہَا النَّاسُ آمَنُوْا أَجْمَعُوْنَ ، فَذٰلِکَ حِیْنَ لاَ یَنْفَعُ نَفْسًا إِیْمَانُہَا، لَمْ تَکُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ ، أَوْ کَسَبَتْ فِیْٓ إِیمَانِہَا خَیْرًا، وَلَتَقُوْمَنَّ السَّاعَۃُ وَقَدْ نَشَرَ الرَّجُلاَنِ ثَوْبَہُمَا بَیْنَہُمَا فَلاَ یَتَبَایَعَانِہٖ وَلاَ یَطْوِیَانِہِ ، وَلَتَقُوْمَنَّ السَّاعَۃُ وَقَدِ انْصَرَفَ الرَّجُلُ بِلَبَنِ لِقْحَتِہٖ فَلاَ یَطْعَمُہٗ ، وَلَتَقُوْمَنَّ السَّاعَۃُ وَہْوَ یَلِیْطُ حَوْضَہٗ فَلاَ یَسْقِیْ فِیْہِ ، وَلَتَقُوْمَنَّ السَّاعَۃُ وَقَدْ رَفَعَ أُکْلَتَہٗ إِلٰی فِیْہِ فَلاَ یَطْعَمُہَا) [ رواہ البخاری : کتاب الرقاق ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا قیامت قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ سورج مغرب سے طلوع ہوجائے جب سورج مغرب سے طلوع ہوگا تو اسے دیکھ کر تمام کے تمام لوگ ایمان لے آئیں گے۔ لیکن اس وقت اس کے ایمان لانے کا کوئی فائدہ نہ ہوگا جو اس سے قبل ایمان نہیں لایا اور اس نے نیک اعمال نہ کیے ہوں۔ دو آدمیوں نے کپڑا پھیلایا ہوگا وہ اس کپڑے کو بیچ اور سمیٹ نہیں پائیں گے کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔ دودھ دوہنے والادودھ پی نہیں سکے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔ حوض پر پہنچانے والا پانی نہیں پی سکے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔ کھانا کھانے والا اپنے منہ میں ڈالا ہوا لقمہ کھا نہیں پائے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔ “ مسائل ١۔ آسمان و زمین کی پوشیدہ باتیں اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ ٢۔ قیامت آنکھ جھپکنے سے پہلے برپا ہوجائے گی۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ تفسیر بالقرآن قیامت برپا ہو کر رہے گی : ١۔ قیامت آنکھ جھپکنے کی مانند یا اس سے بھی پہلے برپا ہوجائے گی۔ (النحل : ٧٧) ٢۔ قیامت قریب تر ہے۔ (الانبیاء : ١) ٣۔ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور قیامت برپا ہونے میں کسی قسم کا کوئی شک نہیں۔ (الکہف : ٢١) ٤۔ قیامت میں کوئی شک نہیں اللہ قبروں سے مردوں کو اٹھالے گا۔ (الحج : ٧) ٥۔ بیشک قیامت آنے والی ہے۔ (طٰہٰ : ١٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

بعثت بعد الموت کا مسئلہ وہ مسئلہ ہے جو ہر دور میں نہایت درجہ مختلف فیہ رہا ہے۔ اس کے بارے میں لوگوں نے ہر رسول کے ساتھ مکالمہ ، مجادلہ اور مناظرہ کیا ہے۔ اپنی اصل میں یہ وہ غیب ہے جو اللہ کے مخصوص ترین رازوں میں سے ہے۔ تشریح : وللہ غیب السموت والارض (٦١ : ٧٧) ” زمین و آسمان کے پوشیدہ حقائق کا علم تو اللہ ہی کو ہے “۔ انسانوں کی حالت تو یہ ہے کہ وہ پردہ غیب کے پیچھے پوشیدہ اسرار و رموز کے پانے سے عاجزو قاصر ہیں۔ ان کا مادی علم جس قدر بھی آگے بڑھ جائے اور دنیا کی مادیات کے بارے میں ان پر جس قدر علوم کے خزانے بھی کھل جائیں۔ وہ زمین کے اندر پوشیدہ خزانوں کی ایک بڑی مقدار کو دریافت کیوں نہ کرلیں وہ ان اسرار کائنات کو پا نہیں سکتے۔ جبکہ اس کائنات میں علوم غیب کے بارے میں سب سے زیادہ جاننے والے برگزیدہ انسان کو بھی یہ معلوم نہیں کہ کل اس کی ذات کے ساتھ کیا ہونے والا ہے ، بلکہ یہ بھی معلوم نہیں کہ نکلنے والا سانس پھر لوٹے گا یا نہیں۔ انسان کی خواہشات کی دنیا تو طویل و عریض ہے لیکن پردہ غیب کے پیچھے سے تقدیر اس پر خندہ زن ہوتی ہے۔ اسے معلوم نہیں ہوتا کہ اگلے لمحے اس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ بعض اوقات اگلے ہی لمحے میں اسے مشکلات سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔ یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ اس نے انسان کو اگلے لمحے آنے والے واقعات سے لاعلم رکھا ہے تاکہ وہ ہر وقت پر امید رہیں ، کام کرتے رہیں ، پیدا کرتے رہیں ، اور نشوونما دیتے رہیں اور جن کاموں کا انہوں نے آغاز کیا ہے انہیں پیچھے چھوڑ دیں تاکہ آنے والے ان کی تکمیل کریں۔ یہاں تک کہ تقدیر وہ چہرہ نمودار کردے جو پس پردہ ہے۔ قیامت بھی ان پوشیدہ اور مستور غیبوں سے ہے۔ اور اگر لوگوں کو قیام قیامت کی سات کا علم ہوجائے تو زندگی کی گاڑی یکدم رک جائے یا اس کے اندر عظیم خلل پڑجائے۔ زندگی کے شب و روز اس طرح نہ گزریں جس طرح کہ قانون قدرت نے ان کے لئے ضابطہ بندی کی ہوئی ہے بلکہ لوگ بیٹھ جاتے اور سال و ماہ اور دن اور گھنٹے گنتے کہ بس اب قیام قیامت کے اتنے دن رہ گئے۔ وما امر الساعۃ الا کلمح البصر اوھو اقرب۔ (٦١ : ٧٧) ” اور قیامت کے برپا ہونے کا معاملہ کچھ دیر نہ لے گا مگر بس اتنی کہ جس میں آدمی کی پلک جھپک جائے بلکہ اس سے بھی کچھ کم۔ یہ بہت ہی قریب ہے لیکن اس کے وقت کا حساب انسان کے ماہ و سال کے حساب سے مختلف پیمانوں کے ساتھ ہے۔ اس کے انتظامات کے لئے اللہ کو کسی وقت کی ضرورت نہیں ہے۔ پلک جھپکنے کی دیر کافی ہے ، اس سے بھی کم وقت میں یہ تمہارے سامنے اپنے پورے مناظر کے ساتھ حاضر ہوگی۔ ان اللہ علی کل شیئی قدیر (٦١ : ٧٧) ” حقیقت یہ ہے کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے “۔ انسانوں اور مخلوقات کی یہ ان گنت تعداد کو حاضر کرنا ، ان کا اٹھانا ، جمع کرنا ، حساب و کتاب لینا ، جزاء و سزا دینا اس قدرت کے لئے کچھ مشکل نہیں ہے جس نے صرف کن کہنا ہے اور سب کچھ ہوجانا ہے۔ یہ معاملہ صرف ان لوگوں کے لئے خوفناک اور مشکل ہے جو انسانی پیمانوں سے معاملات کو سوچتے ہیں۔ انسانی نظروں سے دیکھتے ہیں اور انسانی اعداد میں حساب و کتاب کرتے ہیں ۔ اس لئے ان کی سوچ اور اندازے غلط ہوجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس عظیم واقعہ کو انسانی زندگی کی بعض مثالوں سے انسان کے لئے قریب الفہم بناتے ہیں ، کیونکہ اس عظیم اور ہولناک واقعہ کے حقیقی تصور سے انسان کی قوت ادراک اور قوت تصور عاجز ہے۔ یہ مثالیں انسانی زندگی میں دہرائی جاتی ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ تعالیٰ ہی کو غیب کا علم ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے توحید کے دلائل بیان فرمانے کے بعد یہ بتایا کہ اللہ تعالیٰ شانہٗ کو آسمانوں کی اور زمین کی ان سب چیزوں کا علم ہے جو مخلوقات کے علم اور فہم اور عقل و ادراک سے باہر ہیں، وقوع قیامت کی جو خبر آرہی ہے اس میں اس کی تمہید ہے، مذکورہ بالا علوم غیبیہ کا تذکرہ فرما کر جن کا علم اللہ تعالیٰ ہی کے لیے خاص ہے یوں فرمایا کہ جب قیامت کے آنے کا وقت ہوگا جو صرف اللہ تعالیٰ ہی کے علم میں ہے اس وقت اچانک آجائے گی اور ایسی جلدی اس کا وقوع ہوگا جیسے پلک جھپک جائے، پلک جھپکنے میں کچھ دیر بھی لگتی ہے اس سے بھی کم وقت میں آپہنچے گی، (اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ) (بلاشبہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے) اس میں منکرین بعث کی تردید فرمائی کہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے اس نے جو قیامت کا وقت مقرر کیا ہے اس کے مطابق آئے گی اس وقت جلدی سے آجائے گی مردوں کو زندہ کرنا اور گلی سڑی ریزہ ریزہ ہڈیوں میں جان ڈالنا یہ سب کچھ اس کی قدرت میں ہے سب کے احوال اور اعمال بھی اسے معلوم ہیں وہ زندہ فرما کر اپنے علم کے مطابق حساب لے گا اور جزا دے گا، موحد ہونے کے ساتھ ساتھ چونکہ معاد اور بعث و نشور پر ایمان لانا بھی ضروری ہے اس لیے توحید کے دلائل بیان کرنے کے بعد وقوع قیامت کا بھی تذکرہ فرما دیا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

61:۔ واؤ تعلیلیہ ہے اور اس میں دعویٰ توحید مذکورہ کی علت بیان کی گئی ہے یعنی سب کچھ کرنیوالا اللہ تعالیٰ ہی ہے کیونکہ غیب داں وہی ہے۔ اگر واؤ استینافیہ ہو تو یہ دوسرے دعوے کا بیان ہوگا یعنی جس طرح سب کچھ کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے اسی طرح سب کچھ جاننے والا بھی وہی ہے۔ ” و ما امر الساعۃ الخ “ یہ تخویف اخروی ہے۔ قیامت بپا کرنا اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی مشکل نہیں۔ جب اسکا معین وقت آجائے گا تو وہ آن واحد میں سارے جہان کو زیر و زبر کردے گا کیونکہ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

77 ۔ اور اللہ تعالیٰ ہی کے ساتھ آسمانوں اور زمین کے تمام پوشیدہ امور خاص ہیں اور اسی کے پاس تما م آسمانوں اور زمین کے بھید ہیں اور قیامت کا کام اور قیامت کا معاملہ تو بس ایسا ہے جیسے آنکھ کا جھپکنا یا اس سے بھی قریب تر بلا شبہ اللہ تعالیٰ ہر شے پر پوری طرح قدرت رکھتا ہے۔ پلک جھپکنا بہر حال زمانی ہے اور ارادہ کا تعلق آنی ہے یا تو قیامت مراد ہے یا مردوں کا زندہ ہونا ۔ چونکہ امور پوشیدہ اسی کے لئے خاص ہیں اسی لئے وقوع قیامت کا علم بھی اسی کو ہے۔ ان الساعۃ ایتہ اکا دا اخفیھا التجزی