Surat un Nahal

Surah: 16

Verse: 78

سورة النحل

وَ اللّٰہُ اَخۡرَجَکُمۡ مِّنۡۢ بُطُوۡنِ اُمَّہٰتِکُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ شَیۡئًا ۙ وَّ جَعَلَ لَکُمُ السَّمۡعَ وَ الۡاَبۡصَارَ وَ الۡاَفۡئِدَۃَ ۙ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ ﴿۷۸﴾

And Allah has extracted you from the wombs of your mothers not knowing a thing, and He made for you hearing and vision and intellect that perhaps you would be grateful.

اللہ تعالٰی نے تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے نکالا ہے کہ اس وقت تم کچھ بھی نہیں جانتے تھے ، اسی نے تمہارے کان اور آنکھیں اور دل بنائے کہ تم شکر گزاری کرو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And Allah has brought you out from the wombs of your mothers while you knew nothing. And He gave you hearing, sight, and hearts, that you might give thanks. Allah mentions His blessings to His servants in that He brought them from their mothers' wombs not knowing a thing, then He gives them hearing to recognize voices, sight to see visible things and hearts - meaning reason - whose seat, according to the correct view, is the heart, although it was also said that its seat is the brain. With his reason, a person can distinguish between what is harmful and what is beneficial. These abilities and senses develop gradually in man. The more he grows, the more his hearing, vision and reason increase, until they reach their peak. Allah has created these faculties in man to enable him to worship his Lord, so he uses all these organs, abilities and strengths to obey his Master. Al-Bukhari reported in his Sahih from Abu Hurayrah that the Messenger of Allah said: يَقُولُ تَعَالَى مَنْ عَادَىىِلي وَلِيًّا فَقَدْ بَارَزَنِي بِالْحَرْبِ وَمَا تَقَرَّبَ إِلَيَّ عَبْدِي بِشَيْءٍ أَفْضَلُ مِنْ أَدَاءِ مَا افْتَرَضْتُ عَلَيْهِ وَلاَ يَزَالُ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبَّهُ فَإِذَا أَحْبَبْتُهُ كُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِي يَسْمَعُ بِهِ وَبَصَرَهُ الَّذِي يُبْصِرُ بِهِ وَيَدَهُ الَّتِي يَبْطِشُ بِهَا وَرِجْلَهُ الَّتِي يَمْشِي بِهَا وَلَيِنْ سَأَلَنِي لاَُعْطِيَنَّهُ وَلَيِنْ دَعَانِي لاَُجِيبَنَّهُ وَلَيِنِ اسْتَعَاذَ بِي لاَُعِيذَنَّهُ وَمَا تَرَدَّدْتُ فِي شَيْءٍ أَنَا فَاعِلُهُ تَرَدُّدِي فِي قَبْضِ نَفْسِ عَبْدِي الْمُوْمِنِ يَكْرَهُ الْمَوْتَ وَأَكْرَهُ مَسَاءَتَهُ وَلاَ بُدَّ لَهُ مِنْه Allah says: "Whoever takes My friend as an enemy, has declared war on Me. My servant does not draw near to Me with anything better than his doing that which I have enjoined upon him, and My servant keeps drawing near to Me by doing Nawafil (supererogatory) deeds until I love him. And when I love him, I am his hearing with which he hears, his vision with which he sees, his hand with which he strikes and his foot with which he walks. Were he to ask Me for anything, I would give it to him, if he were to call on Me, I would respond, if he were to seek Me for refuge I would surely grant him it. I do not hesitate to do anything as I hesitate to take the soul of My believing servant, because he hates death and I hate to upset him, but it is inevitable." The meaning of the Hadith is that when a person is sincere in his obedience towards Allah, all his deeds are done for the sake of Allah, so he only hears for the sake of Allah, he only sees for the sake of Allah - meaning he only listens to or looks at what has been allowed by Allah. He does not strike or walk except in obedience to Allah, seeking Allah's help in all of these things. Thus in some versions of the Hadith, narrated outside the Sahih, after the phrase "his foot with which he walks", there is added: فَبِي يَسْمَعُ وَبِي يُبْصِرُ وَبِي يَبْطِشُ وَبِي يَمْشِي So through Me he hears, through Me he sees, through Me he strikes and through Me he walks. Thus Allah says: وَجَعَلَ لَكُمُ الْسَّمْعَ وَالاَبْصَارَ وَالاَفْيِدَةَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ And He gave you hearing, sight, and hearts that you might give thanks. Elsewhere, He says: قُلْ هُوَ الَّذِى أَنشَأَكُمْ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالاٌّبْصَـرَ وَالاٌّفْيِدَةَ قَلِيلً مَّا تَشْكُرُونَ قُلْ هُوَ الَّذِى ذَرَأَكُمْ فِى الاٌّرْضِ وَإِلَيْهِ تُحْشَرُونَ Say it is He Who has created you, and endowed you with hearing and seeing, and hearts. Little thanks you give. Say: "It is He Who has created you on the earth, and to Him shall you be gathered (in the Hereafter)." (67:23-24) In the Subjection of the Birds in the Sky there is a Sign Allah says:

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

78۔ 1 شَیْئًا، نکرہ ہے تم کچھ نہیں جانتے تھے، نہ نیکی و بدبختی کو، نہ فائدے اور نقصان کو۔ 78۔ 2 تاکہ کانوں کے ذریعے تم آوازیں سنو، آنکھوں کے ذریعے سے چیزوں کو دیکھو اور دل، یعنی عقل (کیونکہ عقل کا مرکز دل ہے) دی، جس سے چیزوں کے درمیان تمیز کرسکو اور نفع نقصان پہچان سکو، جوں جوں انسان بڑا ہوتا ہے، اس کی عقل و حواس میں بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے، حتیٰ کہ جب انسان شعور اور بلوغت کی عمر کو پہنچتا ہے تو اس کی یہ صلاحیتیں بھی قوی ہوجاتی ہیں، حتیٰ کہ پھر کمال کو پہنچ جاتی ہیں۔ 78۔ 3 یعنی یہ صلاحیتیں اور قوتیں اللہ تعالیٰ نے اس لئے عطا کی ہیں کہ انسان ان عضا وجوارح کو اس طرح استعمال کرے جس سے اللہ تعالیٰ راضی ہوجائے۔ ان سے اللہ کی عبادت و اطاعت کرے۔ یہی اللہ کی ان نعمتوں کا عملی شکر ہے حدیث میں آتا ہے ' میرا بندہ جن چیزوں کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا ہے ان میں سب سے محبوب وہ چیزیں ہیں جو میں نے اس پر فرض کی ہیں۔ علاوہ ازیں نوافل کے ذریعے سے بھی وہ میرا قرب حاصل کرنے کی سعی کرتا ہے۔ حتی کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں۔ اور جب میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے آنکھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے ہاتھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے پاؤں ہوجاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے سوال کرتا ہے تو میں اسے دیتا ہوں اور مجھ سے کسی چیز سے پناہ طلب کرتا ہے تو میں اسے پناہ دیتا ہوں۔ تنبیہ : اس حدیث کا بعض لوگ غلط مطلب لے کر اولیاء اللہ کو خدائی اختیارات کا حامل باور کراتے ہیں۔ حالانکہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب بندہ اپنی اطاعت و عباد اللہ کے لیے خالص کرلیتا ہے تو اس کا ہر کام صرف اللہ کی رضا کے کے لیے ہوتا ہے، وہ اپنے کانوں سے وہی بات سنتا اور اپنی آنکھوں سے وہی چیز دیکھتا ہے جس کی اللہ نے اجازت دی ہے، جس چیز کو ہاتھ سے پکڑتا ہے یا پیروں سے چل کر اس کی طرف جاتا ہے تو وہی چیز ہوتی ہے جس کو شریعت نے روا رکھا ہے وہ ان کو اللہ کی نافرمانی میں استعمال نہیں کرتا بلکہ صرف اطاعت میں استعمال کرتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٩] اللہ کی نعمتیں اور انسان کی ناشکری :۔ یہاں سے پھر گذشتہ مضمون یعنی دلائل توحید کا تسلسل قائم ہو رہا ہے۔ پیدائش کے وقت انسان کا بچہ جس قدر بیخبر اور کمزور ہوتا ہے اتنا اور کسی جاندار کا بچہ بیخبر اور کمزور نہیں ہوتا۔ دوسرے سب جانداروں کے بچے پیدا ہوتے ہی راہ دیکھنے اور چلنے پھرنے لگ جاتے ہیں۔ لیکن انسان کا بچہ چلنا تو درکنار بیٹھ بھی نہیں سکتا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آنکھ، کان اور دل سب جانداروں کو عطا کیے ہیں۔ لیکن انسان کو اللہ نے جو کان، آنکھیں اور دل دیئے ہیں وہ اتنی اہلیت اور صلاحیت رکھتے ہیں کہ ان کے ذریعہ انسان باقی تمام جانداروں اور دوسری مخلوق کو اپنا تابع بنا رہا ہے اور ان پر حکمرانی کر رہا ہے۔ اب اس کا حق تو یہی ہے کہ جس ہستی نے اسے ایسے قابل کان، آنکھیں اور دل عطا کیے ہیں اس کا شکر بجا لائے۔ کانوں سے اللہ کا کلام سنے، آنکھوں سے کائنات میں ہر سو بکھری ہوئی اللہ کی نشانیوں اور قدرتوں کو دیکھے۔ پھر دل سے غور و فکر کرے اور صانع حقیقی کی معرفت اور توحید تک پہنچے مگر افسوس ہے کہ اکثر انسانوں نے اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کی کوئی قدر نہ کی اور استعداد رکھنے کے باوجود کانوں، آنکھوں اور دلوں سے وہ کام نہیں لیا جس غرض کے لیے اللہ نے یہ نعمتیں انسان کو عطا کی تھیں۔ اپنی دنیوی اغراض کی خاطر ان سے اتنا ہی کام لیا جتنا دوسرے حیوانات لیتے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاللّٰهُ اَخْرَجَكُمْ مِّنْۢ بُطُوْنِ اُمَّهٰتِكُمْ ۔۔ : اس سورت کی آیت (٦٥) (وَاللّٰهُ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً ) سے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا ذکر اور اس کے اکیلے معبود ہونے کے جو دلائل شروع ہوئے تھے وہی سلسلۂ کلام جاری ہے۔ اس آیت میں پہلا انعام ماؤں کے پیٹوں سے نکالنا ہے۔ اس سے پہلے بہت سے مراحل خود بخود اس میں آجاتے ہیں۔ نو ماہ تک پیٹ میں مکمل بچہ بنانے کے بعد اسے نکلنے کا راستہ مہیا کرنا اور ماں اور بچے دونوں کی خیریت کے ساتھ بچے کو باہر لے آنا کیا معمولی بات ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے اپنے اتنے بڑے احسان کے باوجود انسان کے ناشکری اور شرک اختیار کرنے پر اس کے لیے بہت سخت الفاظ استعمال فرمائے، فرمایا : (ۭقُتِلَ الْاِنْسَانُ مَآ اَكْفَرَهٗ 17؀ۭ مِنْ اَيِّ شَيْءٍ خَلَقَهٗ 18؀ۭ مِنْ نُّطْفَةٍ ۭ خَلَقَهٗ فَقَدَّرَهٗ 19؀ۙثُمَّ السَّبِيْلَ يَسَّرَهٗ )[ عبس : ١٧ تا ٢٠ ] ” مارا جائے انسان ! وہ کس قدر ناشکرا ہے، اس نے اسے کس چیز سے پیدا کیا۔ ایک قطرے سے، اس نے اسے پیدا کیا، پس اس کا اندازہ مقرر کیا، پھر اس کے لیے (ماں کے شکم سے نکلنے کا) راستہ آسان کردیا۔ “ لَا تَعْلَمُوْنَ شَـيْـــًٔـا : انسان ماں کے پیٹ سے نکلتا ہے تو اسے کچھ علم نہیں ہوتا، پھر کچھ چیزیں اللہ تعالیٰ اسے فطری طور پر سکھا دیتا ہے، مثلاً ماں کا دودھ تلاش کرلینا، اسے چوسنا، جو چیز ملے منہ میں ڈالنا وغیرہ اس کی مثال ہیں۔ کھانے پینے اور زندگی قائم رکھنے کی دوسری ضروریات کے حصول کا طریقہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے علاوہ ہر چیز کی فطرت میں رکھ دیا ہے، ورنہ کوئی چیز زندہ نہ رہتی۔ وَّجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْــِٕدَةَ ۔۔ : کان، آنکھیں اور دل اگرچہ ہر جاندار کو عطا ہوئے ہیں، مگر دوسرے تمام جاندار ان سے اتنا ہی فائدہ اٹھاتے ہیں جتنا ان کی فطرت میں ہے۔ بطخ آج سے لاکھوں سال پہلے جس طرح تیرتی تھی اب بھی اس میں کوئی تبدیلی یا ترقی نہیں ہوئی، یہی حال پرندوں کا اور چوپاؤں اور سمندری جانوروں کا ہے، درندے اور کیڑے مکوڑے بھی ایک ہی ڈگر پر چلے جا رہے ہیں، جب کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے کچھ اختیار سے بھی نوازا ہے کہ وہ ہدایت اور گمراہی میں سے کسی بھی چیز کو اختیار کرسکتا ہے، پھر اس کو عطا کردہ کان، آنکھیں اور دل پچھلی نسلوں کے تجربے قلم سے محفوظ رکھتے ہیں، انھیں بعد والوں تک پہنچاتے اور نئی سے نئی ایجاد میں لگے رہتے ہیں، حتیٰ کہ انسان ان کی بدولت اتنی دنیاوی ترقی کرچکا ہے کہ رہائش، سفر، کھانے پینے، غرض ہر چیز میں پہلے انسان اور آج کے انسان کی آسائشوں میں کوئی نسبت ہی نہیں۔ اسی طرح توانائی کے حصول میں وہ ایٹم تک پہنچ گیا ہے، جس سے وہ بربادی کا بےحساب سامان بھی تیار کرچکا ہے اور انسانی فوائد کا بھی۔ غرض اگر انسان اللہ کی عطا کردہ صلاحیتوں پر غور کرے تو کبھی نہ اس کے وجود کا انکار کرے، نہ اس کا کوئی شریک بنائے، نہ اس کے علاوہ کسی کو حاجت روا، مشکل کشا، داتا یا غریب نواز قرار دے کر پکارے، کیونکہ کسی نعمت میں کسی اور کا کوئی حصہ ہی نہیں اور نہ اس کی بندگی اور فرماں برداری میں کوتاہی کرے، بلکہ ہر دم اپنے دل، زبان اور ہر عضو کے ساتھ قولاً و عملاً اس کا شکر ادا کرے۔ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ : اللہ تعالیٰ نے یہ سب کچھ اس لیے بنایا کہ تم شکر کرو۔ یہاں اگرچہ ذکر نہیں فرمایا کہ انسان نے شکر ادا کیا یا نہیں، مگر دوسرے کئی مقامات پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اکثر لوگ شکر نہیں کرتے، جیسے فرمایا : (وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُوْن) [ المؤمن : ٦١ ] ” اور لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے۔ “ اور فرمایا : (وَقَلِيْلٌ مِّنْ عِبَادِيَ الشَّكُوْر) [ سبا : ١٣ ] ” اور میرے بندوں میں سے بہت کم شکر کرنے والے ہیں۔ “ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے خالق کی پہچان کے لیے نہ اپنے ان کانوں سے کام لیتے ہیں، نہ آنکھوں سے اور نہ دلوں سے۔ دیکھیے سورة اعراف (١٧٩) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary The Divine statement: لَا تَعْلَمُونَ شَيْئًا (when you knew nothing - 78) indi¬cates that knowledge is not an ingrained personal excellence of man. When born, man has no knowledge or skill. Then, in proportion to grow¬ing human needs, man is made to absorb some knowledge, bit by bit, directly from Allah Ta’ ala in which no role is played by the parents or teachers. First of all, man was taught to cry. This one qualification alone provides all he needs at that time. Hungry or thirsty, he cries. Feels hot or cold, he cries. If some other discomfort bothers him, he would still cry. Nature has poured a special kind of love in the hearts of the father and the mother for the needs of the infant, because of which, when they hear the sounds made by the child, they become all too eager to find out what is bothering the baby, and all too willing to remove the problem. If the child was not inducted into this act of crying as part of his or her early education from a side no less than that of Allah Himself, who else could have trained the child to employ this skill and start crying like that as and when there be some need. Along with it, Allah Ta’ ala also taught the child, inspiration-wise, that he or she should use gums and lips to suck milk, the child&s energy food, from the breast of the mother. If this edu¬cation and training was not natural and direct, no teacher anywhere could dare make this newborn learn to pout and move the mouth right and suck nipples on the breast. Thus, with the increase in the needs of the child, nature took care of teaching its charge directly without the intermediary link of the father and mother, in a manner almost sponta¬neous and self-regulating. After the passage of some time, the child starts learning a little by hearing parents and others around say what they do, or pick up a few tips by seeing a few things around. This, then, creates in the child the ability to understand sounds heard and things seen. Therefore, after: لَا تَعْلَمُونَ شَيْئًا (when you knew nothing) in the verse under comment, it was said: وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ‌ وَالْأَفْئِدَةَ (and He made for you ears, eyes and hearts). It means: Though, human beings knew noth¬ing about anything at the early stage of their birth, but nature had installed in their very frame of existence novel instruments to fulfill their need to learn. Out of these instruments, the first to be mentioned was سَمَع &sam’ a&, that is, the faculty of hearing which precedes perhaps for the rea¬son that the very first knowledge, and the most of it, comes through noth¬ing but ears. In the beginning, eyes are closed, but ears hear. Furthermore, if we were to think about it, we shall not fail to realize that the amount of information one acquires in a whole life time is mostly what has been heard with ears. Information collected visually is much less than that. After these two, comes information which one deduces by deliberat¬ing into things heard and seen. According to the statements of the Qur&an, this is a function of the human heart. Therefore, stated at num¬ber three is: أَفْئِدَةَ (afidah) which is the plural of: فُواد fu’ ad which means the heart. Scientists identify the human brain as the center of understanding and reason. But, the statement of the Qur&an tells us that though the brain plays a role in this process of reasoning, yet the real center of knowledge and reason is the heart. On this occasion, Allah Ta&a1a has mentioned the faculties of hearing, seeing and understanding. Speech was not mentioned because speech plays no role in the acquisition of knowledge. It is, rather, a source of the expression of knowledge. In addition to that, according to Imam Al-Qurtubi, the word: سَمَع &sam’ a|" (hearing) is inclusive of نُطق nutq (speech) as a corollary, as experience bears out that a person who hears speaks as well. A person deprived of the power of speech remains deaf in the ears as well. Perhaps, the reason why a dumb person cannot speak lies in the person&s very inability to hear any sounds which could make learn¬ing to speak through hearing possible. وَاللہُ اَعلم Wallahu a` lam: &And Allah knows best& is a standard appendage to conclusions where definite knowl¬edge about a subject in flux is not available or accessible or reliable. For a believer, this serves as a safety device against the possibility of having made any false statements, which may be a sin.

معارف و مسائل : قولہ تعالیٰ لَا تَعْلَمُوْنَ شَـيْـــًٔـا اس میں اشارہ ہے کہ علم انسان کا ذاتی ہنر نہیں پیدائش کے وقت وہ کوئی علم وہنر نہیں رکھتا پھر ضرورت انسانی کے مطابق اس کو کچھ کچھ علم اللہ تعالیٰ کی طرف سے بلاواسطہ سکھایا جاتا ہے جس میں نہ ماں باپ کا دخل ہے نہ کسی معلم کا سب سے پہلے اس کو رونا سکھایا اس کی یہی صفت اس وقت اس کی تمام ضروریات مہیا کرتی ہے بھوک پیاس لگے تو وہ روتا ہے سردی گرمی لگے تو رو دیتا ہے کوئی اور تکلیف پہنچنے تو رو دیتا ہے قدرت نے اس کی ضروریات کے لئے ماں باپ کے دلوں میں خاص الفت ڈال دی کہ جب بچے کی آواز سنیں تو وہ اس کی تکلیف کے پہچاننے اور اس کے دور کرنے لئے آمادہ ہوجاتے ہیں اگر بچے کو منجانب اللہ یہ رونے کی تعلیم نہ دی جاتی تو اس کو کون یہ کام سکھا سکتا کہ جب کوئی ضرورت پیش آئے تو اس طرح چلایا کرے اس کے ساتھ ہی اس کو اللہ تعالیٰ نے الہامی طور پر یہ بھی سکھا دیا کہ اپنی غذاء کو چھاتی سے حاصل کرنے کے لئے اپنے مسوڑھوں اور ہونٹوں سے کام لے اگر یہ تعلیم فطری اور بلاواسطہ نہ ہوتی تو کس معلم کی مجال تھی جو اس نومولود کو منہ چلانا اور چھاتی کو چوسنا سکھا دیتا اسی طرح جوں جوں اس کی ضروریات بڑھتی گئیں قدرت نے اس کو بلاواسطہ ماں باپ اور دوسرے آس پاس کے آدمیوں کی بات سن کر یا کچھ چیزوں کو دیکھ کر کچھ سیکھنے لگتا ہے اور پھر ان سنی ہوئی آوازوں اور دیکھی ہوئی چیزوں کو سوچنے سمجھنے کا سلیقہ پیدا ہوتا ہے۔ اسی لئے آیت مذکورہ میں لَا تَعْلَمُوْنَ شَـيْـــًٔـا کے بعد فرمایا (آیت) وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْــِٕدَةَ یعنی اگرچہ پیدائش میں انسان کو کسی چیز کا علم نہیں تھا مگر قدرت نے اس کے وجود میں علم حاصل کرنے کے عجیب و غریب قسم کے آلات نصب کردیئے کہ انسان کا سب سے پہلا علم اور سب سے زیادہ علم کانوں ہی کے راستہ سے آتا ہے شروع میں آنکھ تو بند ہوتی ہے مگر کان سنتے ہیں اور اس کے بعد بھی اگر غور کیا جائے تو انسان کو اپنی پوری عمر میں جس قدر معلومات حاصل ہوتی ہیں ان میں سب سے زیادہ کانوں سے سنی ہوئی ہوتی ہیں آنکھ سے دیکھی ہوئی معلومات اس کی نسبت سے بہت کم ہوتی ہیں ان دونوں کے بعد نمبر ان معلومات کا ہے جن کو انسان اپنی سنی اور دیکھی ہوئی چیزوں میں غور و فکر کر کے معلوم کرتا ہے اور یہ کام قرآنی ارشادات کے مطابق انسان کے قلب کا ہے اس لئے تیسرے نمبر میں افئدۃ فرمایا جو فواد کی جمع ہے جس کے معنی قلب کے ہیں فلاسفہ نے عام طور پر سمجھ بوبھ اور ادراک کا مرکز انسان کے دماغ کو قرار دیا ہے مگر ارشاد قرآنی سے معلوم ہوا کہ دماغ کو اگرچہ اس ادراک میں دخل ضرور ہے مگر علم و ادراک کا اصلی مرکز قلب ہے۔ اس موقع پر حق تعالیٰ نے سننے دیکھنے اور سمجھنے کی قوتوں کا ذکر فرمایا ہے گویائی اور زبان کا ذکر نہیں فرمایا کیونکہ نطق اور گویائی کو حصول علم میں داخل نہیں بلکہ وہ اظہار علم کا ذریعہ ہیں اس کے علاوہ امام قرطبی نے فرمایا کہ لفظ سمع کے ساتھ نطق بھی ضمنا آگیا کیونکہ تجربہ شاہد ہے کہ جو شخص سنتا ہے وہ بولتا بھی ہے گونگا جو بولنے پر قادر نہیں وہ کانوں سے بھی بہرا ہوتا ہے اور شاید اس کے نہ بولنے کا سبب ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ کوئی آواز سنتا نہیں جس کو سن کر بولنا سیکھے واللہ اعلم۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاللّٰهُ اَخْرَجَكُمْ مِّنْۢ بُطُوْنِ اُمَّهٰتِكُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ شَـيْـــًٔـا ۙ وَّجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْــِٕدَةَ ۙ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ 78؀ خرج خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] ، ( خ رج ) خرج ۔ ( ن) خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ بطن أصل البَطْن الجارحة، وجمعه بُطُون، قال تعالی: وَإِذْ أَنْتُمْ أَجِنَّةٌ فِي بُطُونِ أُمَّهاتِكُمْ [ النجم/ 32] ، وقد بَطَنْتُهُ : أصبت بطنه، والبَطْن : خلاف الظّهر في كلّ شيء، ويقال للجهة السفلی: بَطْنٌ ، وللجهة العلیا : ظهر، وبه شبّه بطن الأمر وبطن الوادي، والبطن من العرب اعتبارا بأنّهم کشخص واحد، وأنّ كلّ قبیلة منهم کعضو بطن وفخذ وكاهل، وعلی هذا الاعتبار قال الشاعر : 58- النّاس جسم وإمام الهدى ... رأس وأنت العین في الرأس «1» ويقال لكلّ غامض : بطن، ولكلّ ظاهر : ظهر، ومنه : بُطْنَان القدر وظهرانها، ويقال لما تدرکه الحاسة : ظاهر، ولما يخفی عنها : باطن . قال عزّ وجلّ : وَذَرُوا ظاهِرَ الْإِثْمِ وَباطِنَهُ [ الأنعام/ 120] ، ما ظَهَرَ مِنْها وَما بَطَنَ [ الأنعام/ 151] ، والبَطِين : العظیم البطن، والبَطِنُ : الكثير الأكل، والمِبْطَان : الذي يكثر الأكل حتی يعظم بطنه، والبِطْنَة : كثرة الأكل، وقیل : ( البطنة تذهب الفطنة) «2» . وقد بَطِنَ الرجل بَطَناً : إذا أشر من الشبع ومن کثرة الأكل، وقد بَطِنَ الرجل : عظم بطنه، ومُبَطَّن : خمیص البطن، وبَطَنَ الإنسان : أصيب بطنه، ومنه : رجل مَبْطُون : علیل البطن، والبِطانَة : خلاف الظهارة، وبَطَّنْتُ ثوبي بآخر : جعلته تحته . ( ب ط ن ) البطن اصل میں بطن کے معنی پیٹ کے ہیں اس کی جمع بطون آتی ہے قرآں میں ہے ؛{ وَإِذْ أَنْتُمْ أَجِنَّةٌ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ } ( سورة النجم 32) اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں بچے تھے ۔ بطنتۃ میں نے اس کے پیٹ پر مارا ۔ البطن ہر چیز میں یہ ظھر کی ضد ہے اور ہر چیز کی نیچے کی جہت کو بطن اور اویر کی جہت کو ظہر کہا جاتا ہے اسی سے تشبیہ کہا جاتا ہے ؛۔ بطن الامر ( کسی معاملہ کا اندرون ) بطن الوادی ( وادی کا نشیبی حصہ ) اور بطن بمعنی قبیلہ بھی آتا ہے اس اعتبار سے کہ تمام عرب کو بمنزلہ ایک شخص کے فرض کیا جائے ہیں اور ہر قبیلہ بمنزلہ بطن مخذ اور کاہل ( کندھا) وغیرہ اعضاء کے تصور کیا جائے ۔ اسی بناء پر شاعر نے کہا ہے ع ( طویل ) (57) الناس جسم اومامھم الھدیٰ راس وانت العین فی الراس ( کہ لوگ بمنزلہ جسم ہیں اور امام ہدی بمنزلہ سر ہے مگر تم سر میں آنکھ ہو ۔ اور ہر پیچیدہ معاملہ کو بطن اور جلی اور یہاں کو ظہر کہا جاتا ہے ۔ اسی سے بطنان القدر وظھرانھا کا محاورہ ہے ۔ یعنی دیگ کی اندرونی اور بیرونی جانب ۔ ہر اس چیز کو جس کا حاسہ بصر سے ادراک ہو سکے اسے ظاہر اور جس کا حاسہ بصر سے ادراک نہ ہوسکے اسے باطن کہا جاتا ہے قرآن میں ہے :۔ وَذَرُوا ظاهِرَ الْإِثْمِ وَباطِنَهُ [ الأنعام/ 120] اور ظاہری اور پوشیدہ ( ہر طرح کا ) گناہ ترک کردو ۔ ما ظَهَرَ مِنْها وَما بَطَنَ [ الأنعام/ 151] ظاہری ہوں یا پوشیدہ ۔ البطین کلاں شکم ۔ البطن بسیار خور المبطان جس کا بسیار خوری سے پیٹ بڑھ گیا ہو ۔ البطنۃ بسیارخوری ۔ مثل مشہور ہے ۔ البطنۃ نذھب الفطنۃ بسیار خوری ذہانت ختم کردیتی ہے ۔ بطن الرجل بطنا شکم پری اور بسیار خوری سے اتراجانا ۔ بطن ( ک ) الرجل بڑے پیٹ والا ہونا ۔ مبطن پچکے ہوئے پیٹ والا ۔ بطن الرجل مرض شکم میں مبتلا ہونا اس سے صیغہ صفت مفعولی مبطون مریض شکم آتا ہے ۔ البطانۃ کے معنی کپڑے کا استریا اس کے اندورنی حصہ کے ہیں اور اس کے ضد ظہارۃ ہے ۔ جس کے معنی کپڑے کا اوپر کا حصہ یا ابرہ کے ہیں اور بطنت ثوبی باٰ خر کے معنی ہیں میں نے ایک کپڑے کو دوسرے کے نیچے لگایا ۔ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا اور راک کرنا جعل جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها، ( ج ع ل ) جعل ( ف ) یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔ سمع السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا . ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] ، ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ بصر البَصَر يقال للجارحة الناظرة، نحو قوله تعالی: كَلَمْحِ الْبَصَرِ [ النحل/ 77] ، ووَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب/ 10] ( ب ص ر) البصر کے معنی آنکھ کے ہیں جیسے فرمایا ؛کلمح البصر (54 ۔ 50) آنکھ کے جھپکنے کی طرح ۔ وَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب/ 10] اور جب آنگھیں پھر گئیں ۔ نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق/ 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔ فأد الْفُؤَادُ کالقلب لکن يقال له : فُؤَادٌ إذا اعتبر فيه معنی التَّفَؤُّدِ ، أي : التّوقّد، يقال : فَأَدْتُ اللّحمَ : شَوَيْتُهُ ، ولحم فَئِيدٌ: مشويٌّ. قال تعالی: ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى [ النجم/ 11] ، إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤادَ [ الإسراء/ 36] ، وجمع الفؤاد : أَفْئِدَةٌ. ( ف ء د ) الفواد کے معنی قلب یعنی دل کے ہیں مگر قلب کے فواد کہنا معنی تفود یعنی روشن ہونے کے لحاظ سے ہے محاورہ ہے فادت الحم گوشت گو آگ پر بھون لینا لحم فئید آگ میں بھنا ہوا گوشت ۔ قرآن میں ہے : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى [ النجم/ 11] جو کچھ انہوں نے دیکھا ان کے دل نے اس کو جھوٹ نہ جانا ۔ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤادَ [ الإسراء/ 36] کہ کان اور آنکھ اور دل فواد کی جمع افئدۃ ہے قرآن میں ہے فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ [إبراهيم/ 37] لوگوں کے دلوں کو ایسا کردے کہ ان کی طرف جھکے رہیں ۔ لعل لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] ( لعل ) لعل ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔ شكر الشُّكْرُ : تصوّر النّعمة وإظهارها، قيل : وهو مقلوب عن الکشر، أي : الکشف، ويضادّه الکفر، وهو : نسیان النّعمة وسترها، ودابّة شکور : مظهرة بسمنها إسداء صاحبها إليها، وقیل : أصله من عين شكرى، أي : ممتلئة، فَالشُّكْرُ علی هذا هو الامتلاء من ذکر المنعم عليه . والشُّكْرُ ثلاثة أضرب : شُكْرُ القلب، وهو تصوّر النّعمة . وشُكْرُ اللّسان، وهو الثّناء علی المنعم . وشُكْرُ سائر الجوارح، وهو مکافأة النّعمة بقدر استحقاقه . وقوله تعالی: اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ/ 13] ، ( ش ک ر ) الشکر کے معنی کسی نعمت کا تصور اور اس کے اظہار کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ کشر سے مقلوب ہے جس کے معنی کشف یعنی کھولنا کے ہیں ۔ شکر کی ضد کفر ہے ۔ جس کے معنی نعمت کو بھلا دینے اور اسے چھپا رکھنے کے ہیں اور دابۃ شکور اس چوپائے کو کہتے ہیں جو اپنی فربہی سے یہ ظاہر کر رہا ہو کہ اس کے مالک نے اس کی خوب پرورش اور حفاظت کی ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ عین شکریٰ سے ماخوذ ہے جس کے معنی آنسووں سے بھرپور آنکھ کے ہیں اس لحاظ سے شکر کے معنی ہوں گے منعم کے ذکر سے بھرجانا ۔ شکر تین قسم پر ہے شکر قلبی یعنی نعمت کا تصور کرنا شکر لسانی یعنی زبان سے منعم کی تعریف کرنا شکر بالجورح یعنی بقدر استحقاق نعمت کی مکانات کرنا ۔ اور آیت کریمہ : اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ/ 13] اسے داود کی آل میرا شکر کرو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٨) اور کیا اللہ تعالیٰ نے تمہاری ماں کے پیٹ سے تمہیں اس حالت میں نہ نکالا کہ تمہیں اشیا میں سے کسی چیز کی بھی خبر نہ تھی اور اس نے تمہیں نیک بات سننے کے لیے کان اور نیک بات دیکھنے کے لیے آنکھیں اور امور خیر کے سمجھنے کے لیے دل عطا کیے تاکہ تم نعمت خداوندی کا شکر کرو اور اس پر ایمان لاؤ۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٨ (وَاللّٰهُ اَخْرَجَكُمْ مِّنْۢ بُطُوْنِ اُمَّهٰتِكُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ شَـيْـــًٔـا) نوزائیدہ بچہ عقل و شعور اور سمجھ بوجھ سے بالکل عاری ہوتا ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ انسان کا بچہ تمام حیوانات کے بچوں سے زیادہ کمزور اور زیادہ محتاج (dependent) ہوتا ہے۔ (وَّجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْــِٕدَةَ ) وَالْاَفْــِٕدَةَ کا ترجمہ عام طور پر ” دل “ کیا جاتا ہے ‘ مگر میرے نزدیک اس سے مراد عقل اور شعور ہے۔ اس پر تفصیلی گفتگو ان شاء اللہ سورة بنی اسرائیل کی آیت (اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓءِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْءُوْلاً ) کے ضمن میں ہوگی۔ آیت زیر نظر میں کانوں اور آنکھوں کا ذکر انسانی حواس (senses) کے طور پر ہوا ہے اور ان حواس کا تعلق عقل (وَالْاَفْــِٕدَةَ ) کے ساتھ وہی ہے جو کمپیوٹر کے input devices کا اس کے پراسیسنگ یونٹ کے ساتھ ہوتا ہے۔ جس طرح کمپیوٹر کا پراسیسنگ یونٹ مختلف ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات (data) کو پر اسس کر کے اس سے کوئی نتیجہ اخذ کرتا ہے اسی طرح حواس خمسہ سے حاصل ہونے والی معلومات سے انسانی دماغ سوچ بچار کر کے کوئی نتیجہ نکالتا ہے۔ انسان کی اسی صلاحیت کو ہم عقل کہتے ہیں اور میرے نزدیک والْاَفْــِٕدَةَ سے مراد انسان کی یہی عقل ہے۔ (لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ ) یہ تمام صلاحیتیں انسان کے لیے اللہ تعالیٰ کی نعمت ہیں اور اللہ نے یہ نعمتیں انسان کو اس لیے عطا کی ہیں کہ وہ ان پر اللہ کا شکر ادا کرے ‘ اور اس سلسلے میں اللہ کے شکر کا تقاضا یہ ہے کہ انسان ان نعمتوں کا استعمال درست طور پر کرے اور ان سے کوئی ایسا کام نہ لے جس سے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا کوئی پہلو نکلتا ہو۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

72. This is to remind them that when they were born they were more helpless and ignorant than the young one of an animal, but Allah gave them ears to hear, eyes to see and minds to think and reflect. These have enabled them to acquire every kind of information and knowledge to carry on their worldly affairs efficiently. So much so that these sensory faculties are the only means which help man attain so much progress as to rule over everything on the earth. 73. That is, you should be grateful to that Allah Who has bestowed upon you such blessings as these. It will be ingratitude on your part if you hear everything with your ears except the word of God, and see everything with your eyes except the signs of Allah and consider seriously about all the matters except your Benefactor Who has blessed you with these favors.

سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :72 یعنی وہ ذرائع جن سے تمہیں دنیا میں ہر طرح کی واقفیت حاصل ہوئی اور تم اس لائق ہوئے کہ دنیا کے کام چلا سکو ۔ انسان کا بچہ پیدائش کے وقت جتنا بے بس اور بے خبر ہوتا ہے اتنا کسی جانور کا نہیں ہوتا ۔ مگر یہ صرف اللہ کے دیے ہوئے ذرائع علم ( سماعت ، بینائی ، اور تعقل و تفکر ) ہی میں ہیں جن کی بدولت وہ ترقی کر کے تمام موجودات ارضی پر حکمرانی کر نے کے لائق بن جاتا ہے ۔ سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :73 یعنی اس خدا کے شکر گزار جس نے یہ بے بہا نعمتیں تم کو عطا کیں ۔ ان نعمتوں کی اس سے بڑھ کر ناشکری اور کیا ہو سکتی ہے کہ ان کانوں سے آدمی سب کچھ سنے مگر ایک خدا ہی کی بات نہ سنے ، ان آنکھوں سے سب کچھ دیکھے مگر ایک خدا ہی کی آیات نہ دیکھے اور اس دماغ سے سب کچھ سوچے مگر ایک یہی بات نہ سوچے کہ میرا وہ محسن کون ہے جس نے یہ انعامات مجھے دیےہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٧٨۔ ٧٩۔ اوپر ذکر تھا کہ جب وقت آئے گا تو پلک جھپکنے میں درمیانی یا آخری قیامت آجائے گی کیونکہ اسے ہر شے پر پوری قدرت ہے وہ کسی چیز سے عاجز نہیں ہے منکر حشر یہ نہ سمجھیں کہ قیامت نہ ہوگی اور پھر انسان دوبارہ زندہ نہ ہوں گے اب فرمایا کہ اللہ پاک نے تمہیں اس حالت میں پیدا کیا کہ تمہارا کچھ وجود نہ تھا باپ کی پیٹھ سے ماں کے شکم میں نطفہ کو ٹھہرا دیا اور رفتہ رفتہ اس نطفہ سے پتلا بنایا پھر روح پھونکی اور تمہیں ماں کے پیٹ سے جب روئے زمین پر ظاہر کیا اس وقت بھی تمہاری حالت یہ تھی کہ تم دنیا میں کسی چیز کو نہیں جانتے تھے نہ نفع کی چیزوں کا تمہیں علم تھا نہ ضرر دینے والی اشیا کو تم جانتے تھے نہ دوست کو پہچانتے تھے نہ دشمن کی شناخت تھی یہاں تک کہ اپنے ماں باپ کو بھی نہیں پہچانتے تھے مگر اللہ پاک نے تمہیں کان دئیے کہ تم لوگوں کی باتوں کو سنو کہ وہ کیا کہتے ہیں اور آنکھیں بھی دیں کہ اچھے برے کو دیکھ کر تمیز کرو اور اپنی زندگی میں ان آنکھوں کے ذریعہ سے مناسب کام لو نفع و ضرر کو دیکھو دوست و دشمن کو پہچانو غرض کہ آنکھیں عجب نعمت ہیں ان کی حقیقت اور قدر وہی جانتا ہے جو کسی زمانے میں آنکھیں رکھتا ہو اور پھر بحکم قضا و قدر اس نعمت عظمیٰ سے محروم ہوگیا پھر اسی پر اللہ پاک نے اکتفا نہیں کیا انسان کو دل بھی دیا تاکہ ہر شے کو سمجھے بوجھے اطباء کے قول کے موافق دل مرکز حیات ہے اگر دل میں کچھ فتور پڑجاوے تو انسان کی زندگی کے لالے پڑجاتے ہیں۔ بہر حال یہ نعمتیں ایسی نہیں ہیں جن کو انسان بھول جاوے اور ان پر منعم حقیقی کا شکر نہ بجا لائے انسان جس طرح اپنے کمال پر پہنچتا جاتا ہے اسی طرح اس کے کان اور دل کی قوت میں ترقی ہوتی جاتی ہے اور اس حقیقی مالک کی ہستی پر دلیل قائم کرتا ہے اور اس بات کو پائے ثبوت تک پہنچا دیتا ہے کہ انسان جیسے کل زرے کے پتلے کی پیدا کرنے والی ضرور کوئی نہ کوئی ذات ہے جس کا کوئی مثل نہیں پھر اللہ پاک اپنی ہستی پر دلیل قائم کرتا ہے اور اس بات کو پائے ثبوت تک پہنچا دیتا ہے کہ انسان جیسے کل پرزے کے پتلے کی پیدا کرنے والی ضرور کوئی نہ کوئی ذات ہے جس کا کوئی مثل نہیں پھر اللہ پاک نے اپنی ہستی پر دوسری دلیل قائم کی کہ آسمان و زمین کے درمیان میں تم سینکڑوں جانوروں کو اڑتے ہوئے دیکھتے ہو جن کو نہ آسمان سے کوئی تعلق نہ زمین سے کوئی علاقہ جس طرح انسان دریا میں تیرتا ہے اسی طرح یہ ہوا میں سیر کرتے پھرتے ہیں کیا ان کا تھامنے والا اور روکنے والا سوائے خدا کے اور کوئی ہے ہرگز نہیں یہ بھی اس کی ادنیٰ قدرت ہے ورنہ یہ خاکی جانور اپنے اجسام کے بوجھ کے سبب سے فوراً زمین پر آن پڑتے پھر فرمایا کہ یہ باتیں ایسی ہیں جن پر سلیم عقلیں ایمان لاتی ہیں اور ایمان دار بندے جو خدا کے دین کے تابعدار ہیں ان باتوں سے خدا کی وحدانیت اور اس کے عجائب قدرت پر دلیل پکڑتے ہیں۔ صحیح بخاری و مسلم میں عبد اللہ بن مسعود (رض) سے اور صحیح مسلم میں حذیفہ بن اسید (رض) سے جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ حمل کے دوسرے چلے میں بچے کے آنکھ کان اور دل کی بناوٹ شروع ہوجاتی ہے اور چار مہینے میں بچہ کا پتلا بالکل تیار ہو کر اس میں روح پھونک دی جاتی ہے ١ ؎۔ ان حدیثوں کو آیتوں کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب قرار پایا کہ آنکھ کان اور دل کی بناوٹ تو ماں کے پیٹ میں ہوتی ہے اور ان اعضاء سے نفع اٹھانے کا موقع ماں کے پیٹ سے پیدا ہوجانے کے بعد حاصل ہوتا ہے اور آیتوں میں ان اعضاء سے نفع اٹھانے کا اور اس کی شکر گزاری کا ذکر ہے اس لئے آیتوں میں بچہ کی پیدائش کے بعد ان اعضاء کا ذکر فرمایا اور حدیثوں میں ان اعضاء کی ساخت اور بناوٹ کے وقت کا ذکر فرمایا گیا ہے حاصل کلام یہ ہے کہ آیتوں اور حدیثوں میں کچھ مخالفت نہیں ہے بلکہ ایک دوسرے کی تفسیر ہے۔ اوپر اڑتے ہوئے جانور آنکھوں سے نظر آتے ہیں اور آنکھوں سے دیکھی ہوئی چیز پر آدمی کو پورا یقین ہوجاتا ہے اس لئے آنکھوں کے ذکر کے بعد اڑتے ہوئے جانوروں کا ذکر فرمایا تاکہ آنکھوں والا شخص اس قدرت الٰہی کو دیکھے اور اس صاحب قدرت کو پہچانے اور اس کی تعظیم میں کسی کو شریک نہ کرے۔ ١ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٥٨٠ ج ٢۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 یعنی اس خدا کا شکر کرو جس نے تمہیں بےبہا نعمتیں عطا فرمائیں اور اس کے سوا کسی کو نہ پوجو۔ (وحیدی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ اس مرتبہ کا نام اصطلاح میں عقل ہولانی ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : قیامت کے منکرین کو قیامت کا منظر بتلانے کے بعد ان کی پیدائش کا منظر بتلایا ہے۔ قیامت کے منکر سب سے بڑی یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ جب ہم مٹی کے ساتھ مٹی ہوجائیں گے تو اللہ تعالیٰ ہمیں کس طرح اٹھائے گا۔ اس کے ساتھ وہ یہ دلیل بھی دیتے ہیں۔ کہ انسان کے الفاظ اور اس کا کردار ہوا میں تحلیل ہوجاتا ہے اس لیے انسان کا دوبارہ زندہ ہونا اور اس کے اعمال کا محاسبہ کرنا نہ ممکنات میں سے ہے۔ موت کے بعد جی اٹھنے کا انکار کرنے والوں کو غور کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ وہ ذات ہے جو تمہاری ماؤں کے بطنوں سے تمہیں نکالتا ہے۔ اس حالت میں کہ اس سے پہلے تمہارا وجود نہ تھا۔ اسی نے تمہاری آنکھیں، کان، اور دل بنائے۔ تاکہ تم اس کی ذات کا اعتراف کرتے ہوئے اس کا شکریہ ادا کرو۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق کا مقام اس کی ماں کا رحم رکھا ہے۔ جو ازدوجی زندگی سے پہلے بالکل خالی ہوتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ انسان کی پیدائش کا فیصلہ فرماتا ہے۔ تو اس کے ماں باپ کے مادہ منویہ سے جرثومے اس کی ماں کے کے رحم میں ملاپ حاصل کرتے ہیں۔ جس سے انسان کی تخلیق کا آغاز ہوتا ہے۔ جس سے انسان بیخبر ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ پیدائش کے بعد بھی ایک مدت تک اسے اپنے بارے میں کچھ علم نہیں ہوتا۔ اس کے باوجود اللہ تعالیٰ اسے دو آنکھوں، دو کانوں اور ایک دل کے ساتھ پیدا کرتا ہے۔ مگر یہ اعضاء انسان کی پیدائش کے وقت اس قدر نازک اور اپنے گردو پیش کے ماحول سے بیخبر ہوتے ہیں کہ اسے یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ مجھے جنم دینے والی مامتا کون ہے ؟ اللہ تعالیٰ اسے القاء کرتا ہے جس بنا پر ہر نومولود بیشک جانور کا بچہ کیوں نہ ہو وہ اپنی ماں کی چھاتی کی طرف لپکتا ہے۔ جوں جوں انسان بڑا ہوتا ہے اس کی سماعت، بصارت اور سوچ و فکر کی صلاحیتیں بھی پروان چڑھتی ہیں۔ لیکن افسوس بڑا ہو کر وہ ہر بات سنتا، ہر چیز دیکھتا اور دینوی نفع و نقصان پر غور و خوض کرتا ہے۔ اس کے باوجود اپنے خالق حقیقی کو بھول جاتا ہے اور اس کے ساتھ دوسروں کو شریک بناتا ہے۔ یہ پرلے درجے کا کفر اور اللہ تعالیٰ کی نا شکری ہے۔ حالانکہ انسان کو غیروں کی بجائے اپنے خالق اور منعم حقیقی کو پہچاننا اور اس کا شکر گزار رہنا چاہیے۔ یہاں انسان کی پیدائش کو اس ماں کی طرف منسوب کیا گیا ہے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انسان کی تخلیق ماں کے رحم میں ہوتی ہے۔ اس لیے باپ کی بجائے ماں کا ذکر ہوا ہے۔ اسی بناء پر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ماں کے حقوق والد کی نسبت زیادہ بیان فرمائے ہیں۔ (عَنْ اأبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ لَّمْ یَشْکُرِ النَّاسَ لَمْ یَشْکُرِ اللّٰہَ ) [ رواہ احمد ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص لوگوں کا شکر گزار نہیں ہوتا وہ اللہ کا بھی شکر ادا نہیں کرسکتا۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کا مقصدیہ ہے کہ جو اپنے جیسے انسانوں کے چھوٹے چھوٹے احسانات کا شکریہ نہیں ادا کرتا حالانکہ اسے ان احسانات کا شکر ادا کرنا آسان ہے وہ خالق کائنات کے پہاڑوں جیسے اور ان گنت احسانات کا شکریہ کس طرح ادا کرسکتا ہے۔ شکر کے مقابلے میں ناشکری کو شریعت کی زبان میں تمام نا فرمانیوں اور بغاوتوں کا پیش خیمہ تصور کیا ہے۔ (لإَِ نْ شَکَرْتُمْ لَأَزِیْدَنَّکُمْ وَلَءِنْ کَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدُ ) [ ابراہیم۔ ٧] ” اگر تم شکریہ ادا کروگے تو تمہیں ضرور مزید عنایت کیا جائے گا اگر ناشکری کا رویہ اختیار کروگے تو پھر میرا عذاب بہت سخت ہے۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس کی ماں کے پیٹ سے نکالا اور اسے کچھ خبر نہ تھی۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی سماعت، بصارت اور دل بنایا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کا ہر حال میں شکر ادا کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن شکر کی اہمیت اور اس کے فوائد : ١۔ اللہ نے تمہارے لیے سماعت، بصارت اور دل بنایا تاکہ تم شکر کرو۔ (النحل : ٧٨) ٢۔ اگر تم شکر کرو گے تو اللہ تمہیں زیادہ دے گا۔ (ابراہیم : ٧) ٣۔ اگر تم اللہ کا شکر کرو تو وہ تم سے خوش ہوگا۔ (الزمر : ٧) ٤۔ اگر تم اللہ کا شکر ادا کرو اور اس پر ایمان لاؤ تو تمہیں عذاب کرنے کا اسے کیا فائدہ ؟ (النساء : ١٤٧) ٥۔ اللہ شکر کرنے والوں کو جزا دے گا۔ (آل عمران : ١٤٤) ٦۔ اللہ نے کفر اور شرک کا راستہ واضح فرمادیا ہے۔ (الدھر : ٣)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت : واللہ اخرجکم………تشکرون۔ (٨٧) تشریح : یہ بھی ایک عالم غیب ہے جو انسان کے بہت ہی قریب ہے ، لیکن قریب ہونے کے ساتھ ساتھ وہ فہم و ادراک سے بہت بعید بھی ہے۔ یہ کہ اس عالم غیب بطن مادر میں جنین کس طرح تکمیل کے مراحل طے کرتا ہے۔ بعض اوقات لوگ جنین کے حالات ملاحظہ کرتے ہیں ، لیکن ان کا علم محدود ہے اور وہ یہ معلوم نہیں کرسکتے کہ وہ کس طرح تکمیل اور نشوونما کے مراحل طے کرتا ہے۔ کیونکہ اس کی نشوونما میں راز حیات اصل راز ہے ، جس کا عل آج تک پوشیدہ ہے۔ وہ علم جس کا انسان دعویٰ کرتا ہے اور جس کے ساتھ انسان آگے بڑھتا ہے اور جس کے ذریعے وہ قیامت کے قیام کو بھی معلوم کرنا چاہتا ہے ، وہ ایک حادث علم ہے کیونکہ پہلے انسان کچھ بھی نہ جانتا تھا۔ واللہ اخرجکم من بطون امھتکم لا تعلمون شئیا۔ (٦١ : ٨٧) ” اللہ نے تم کو تمہاری مائوں کے پیٹوں سے نکالا اس حالت میں کہ تم کچھ نہ جانتے تھے “۔ ہر عالم اور ہر محقق کی ولادت اور اس حال میں ماں کے پیٹ سے اس کا نکلنا کہ وہ کچھ نہیں جانتا ایک قریب المہد واقعہ ہے۔ اس کے بعد اس نے جو علم سیکھا وہ اللہ کا دین ہے اور یہ اللہ نے انسان کو اسی قدر دیا ہے جس قدر اس جہاں میں انسان کے لئے زندگی گزارنے کے لئے کافی ہو ، یعنی اس پوری کائنات میں جو انسان کے ارد گرد پھیلی ہوئی ہے۔ وجعل لکم السمع والبصار ولافئدۃ (٦١ : ٨٧) ” اس نے تمہیں کان دئیے ، آنکھیں دیں اور سوچنے والے دل دئیے “۔ قرآن کریم انسان کے قوائے مدرکہ کے مجموعے پر قلب اور فواد کا اطلاق کرتا ہے۔ اس میں عقل بھی آتی ہے اور اس میں وہ وجدانی اور الہامی قوتیں بھی آتی ہیں جن کی حقیقت سے انسان خبردار نہیں ہے۔ اور انسان کو یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ یہ قوتیں کس طرح کام کرتی ہیں اور تمہیں کان ، آنکھیں اور دل دئیے۔ لعلکم تشکرون (٦١ : ٨٧) ” اس لئے کہ تم شکر گزار بنو “ جب تم غور کرو کہ یہ چیزیں انسان کو دے کر اللہ نے کس قدر کرم کیا ہے ، نیز ان کے علاوہ اللہ کے انعامات کو ان آلات مدرکہ سے پا کر تم اللہ کا شکر ادا کرو ، اور شکر کا پہلا مظہر یہ ہے کہ انسان اللہ وحدہ پر ایمان لائے۔ ایک دوسرا تعجب انگیز منظر جو رحمت الہیہ کے آثار میں سے ہے اور جو انسانوں کے پیش پا افتادہ ہے ، انسان اسے دیکھتا ہے اور تدبر نہیں کرتا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ تعالیٰ کے متعدد انعامات، انسانوں کی تخلیق، جانوروں کا اڑنا لباس کا سامان پیدا فرمانا، پہاڑوں میں رہنے کی جگہیں بنانا ان آیات میں اللہ جل شانہ نے اپنے متعدد انعامات ذکر فرمائے ہیں جن میں بندوں پر امتنان بھی ہے اور دعوت توحید بھی ہے۔ (١) اولاً بندوں کی تخلیق کا تذکرہ فرمایا کہ اللہ نے تمہیں ماؤں کے پیٹوں سے نکالا تم صحیح سالم باہر آگئے تم بالکل ہی انجان تھے اللہ تعالیٰ نے علم سے نوازا اور علم کے ذرائع پیدا فرمائے، سننے کی قوت دی، دیکھنے کے لیے آنکھیں دیں، جاننے کے لیے دل عطا فرمائے یہ اللہ کی بڑی بڑی نعمتیں ہیں بندوں کو چاہیے کہ شکر گزار ہوں، شکر گزاری یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں اور کسی کو اس کے لیے شریک نہ ٹھہرائیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

62 ۔ یہ توحید پر چھٹی عقلی دلیل ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے تمہیں پیدا کیا اس وقت تم کچھ بھی نہیں جانتے تھے پھر اس نے تمہیں سننے، دیکھنے اور سوچنے سمجھنے کی قوتیں عطا فرمائیں تاکہ تم اس کا شکر ادا کرو اور اس کے ساتھ شرک نہ کرو اور گیر اللہ کو حاجات میں غائبانہ مت پکارو اور اس کی عطا کردہ قوتوں کو علم دین اور معرفت الٰہی کی تحصیل میں خرچ کرو۔ اجتلاب العلم والعمل بہ من شکر المنعم و عبادتہ والقیام بھقوقہ (مدارک ج 2 ص 227)

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

78 ۔ اور اللہ تعالیٰ نے تم کو تمہاری مائوں کے پیٹوں میں سے اس حال میں نکالا کہ تم اس وقت کچھ بھی نہیں جانتے تھے اور اس نے تم کو کان دیئے اور آنکھیں اور دل عطا کئے تا کہ تم شکر بجا لائو اور اس کا شکر کرو۔