Surat un Nahal

Surah: 16

Verse: 84

سورة النحل

وَ یَوۡمَ نَبۡعَثُ مِنۡ کُلِّ اُمَّۃٍ شَہِیۡدًا ثُمَّ لَا یُؤۡذَنُ لِلَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ لَا ہُمۡ یُسۡتَعۡتَبُوۡنَ ﴿۸۴﴾

And [mention] the Day when We will resurrect from every nation a witness. Then it will not be permitted to the disbelievers [to apologize or make excuses], nor will they be asked to appease [ Allah ].

اور جس دن ہم ہر امت میں سے گواہ کھڑا کریں گے پھر کافروں کو نہ اجازت دی جائے گی اور نہ ان سے توبہ کرنے کو کہا جائے گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Plight of the Idolators on the Day of Judgement Allah says: وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِن كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيدًا ... And on the Day when We resurrect a witness from each nation, Allah tells about the predicament of the idolators on the Day when they will be resurrected in the realm of the Hereafter. He will raise a witness from every nation - that is - their Prophet, to testify about their response to the Message he conveyed from Allah. ... ثُمَّ لاَ يُوْذَنُ لِلَّذِينَ كَفَرُواْ ... then, those who disbelieved will not be given leave. meaning, they will not be allowed to offer any excuse, as Allah says: هَـذَا يَوْمُ لاَ يَنطِقُونَ وَلاَ يُوْذَنُ لَهُمْ فَيَعْتَذِرُونَ That will be a Day when they do not speak. And they will not be permitted to present any excuse. (77:35-36) Hence, Allah says: ... وَلاَ هُمْ يُسْتَعْتَبُونَ

ہر امت کا گواہ اس کا نبی قیامت کے دن مشرکوں کی جو بری حالت بنے گی اس کا ذکر ہو رہا ہے کہ اس دن ہر امت پر اس کا نبی گواہی دے گا کہ اس نے اللہ کا پیغام انہیں پہنچا دیا تھا کافروں کو کسی عذر کی بھی اجازت نہ ملے گی کیونکہ ان کا بطلان اور جھوٹ بالکل ظاہر ہے ۔ سورۃ والمرسلات میں بھی یہی فرمان ہے کہ اس دن نہ وہ بولیں گے ، نہ انہیں کسی عذر کی اجازت ملے گی ۔ مشرکین عذاب دیکھیں گے لیکن پھر کوئی کمی نہ ہو گی ایک ساعت بھی عذاب ہلکا نہ ہو گا نہ انہیں کوئی مہلت ملے گی اچانک پکڑ لئے جائیں گے ۔ جہنم آ موجود ہو گی جو ستر ہزار لگاموں والی ہو گی ۔ جس کی ایک لگام پر ستر ہزار فرشتے ہوں گے ۔ اس میں سے ایک گردن نکلے گی جو اس طرح پھن پھیلائے گی کہ تمام اہل محشر خوف زدہ ہو کر بل گر پڑیں گے ۔ اس وقت جہنم اپنی زبان سے باآواز بلند اعلان کرے گی کہ میں اس ہر ایک سرکش ضدی کے لئے مقرر کی گئی ہوں ۔ جس نے اللہ کے ساتھ کسی اور کو شریک کیا ہو اور ایسے ایسے کام کئے ہوں چنانچہ وہ کئی قسم کے گنہگاروں کا ذکر کرے گی ۔ جیسے کہ حدیث میں ہے پھر وہ ان تمام لوگوں کو لپٹ جائے گی اور میدان محشر میں سے انہیں لپک لے گی جیسے کہ پرند دانہ چگتا ہے ۔ جیسے کہ فرمان باری ہے آیت ( اذا رایتھم ) الخ جب کہ وہ دور سے دکھائی دے گی تو اس کا شور و غل ، کڑکنا ، بھڑکنا یہ سننے لگیں گے اور جب اس کے تنگ و تاریک مکانوں میں جھونک دئیے جائیں تو موت کو پکاریں گے ۔ آج ایک چھوڑ کئی ایک موتوں کو بھی پکاریں تو کیا ہو سکتا ہے؟ اور آیت میں ہے ( وَرَاَ الْمُجْرِمُوْنَ النَّارَ فَظَنُّوْٓا اَنَّهُمْ مُّوَاقِعُوْهَا وَلَمْ يَجِدُوْا عَنْهَا مَصْرِفًا 53؀ۧ ) 18- الكهف:53 ) گنہگار جہنم کو دیکھ کر سمجھ لیں گے کہ وہ اس میں جھونک دئے جائیں گے لیکن کوئی بچاؤ نہ پائیں گے ۔ اور آیت میں ہے ( لو یعلم الذین کفروا ) کاش کہ کافر اس وقت کو جان لیتے جب کہ وہ اپنے چہروں پر سے اور اپنی کمروں پر سے جہنم کی آگ کو دور نہ کر سکیں گے نہ کسی کو مددگار پائیں گے اچانک عذاب الہٰی انہیں ہکا بکا کر دیں گے نہ انہیں ان کے دفع کرنے کی طاقت ہو گی نہ ایک منٹ کی مہلت ملے گی ۔ اس وقت ان کے معبودان باطل جن کی عمر بھر عبادتیں اور نذریں نیازیں کرتے رہے ان سے بالکل بےنیاز ہو جائیں گے اور ان کی احتیاج کے وقت انہیں مطلقا کام نہ آئیں گے ۔ انہیں دیکھ کر یہ کہیں گے کہ اے اللہ یہ ہیں جنہیں ہم دنیا میں پوجتے رہے تو وہ کہیں گے جھوٹے ہو ہم نے کب تم سے کہا تھا کہ اللہ چھوڑ کر ہماری پرستش کرو ؟ اسی کو جناب باری نے فرمایا آیت ( وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ يَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَنْ لَّا يَسْتَجِيْبُ لَهٗٓ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ وَهُمْ عَنْ دُعَاۗىِٕهِمْ غٰفِلُوْنَ Ĉ۝ ) 46- الأحقاف:5 ) یعنی اس سے زیادہ کوئی گمراہ نہیں جو اللہ کے سوا انہیں پکارتا ہے جو اسے قیامت تک جواب نہ دیں بلکہ وہ ان کے پکار نے سے بھی بےخبر ہوں اور حشر کے دن ان کے دشمن ہو جانے والے ہوں اور ان کی عبادت کا انکار کر جانے والے ہوں ۔ اور آیتوں میں ہے کہ اپنا حمایتی اور باعث عزت جان کر جنہیں یہ پکارتے رہے وہ تو ان کی عبادتوں کے منکر ہو جائیں گے ۔ اور ان کے مخالف بن جائیں گے خلیل اللہ علیہ والسلام نے بھی یہی فرمایا کہ آیت ( ثُمَّ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ يَكْفُرُ بَعْضُكُمْ بِبَعْضٍ وَّيَلْعَنُ بَعْضُكُمْ بَعْضًا ۡ وَّمَاْوٰىكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِّنْ نّٰصِرِيْنَ 25؀ڎ ) 29- العنكبوت:25 ) یعنی قیامت کے دن ایک دوسروں کے منکر ہو جائیں گے ۔ اور آیت میں ہے کہ انہیں قیامت کے دن حکم ہو گا کہ اپنے شریکوں کو پکارو الخ اور بھی اس مضمون کی بہت سی آیتیں کلام اللہ میں موجود ہیں ۔ اس دن سب کے سب مسلمان تابع فرمان ہو جائیں گے جیسے فرمان ہے آیت ( اَسْمِعْ بِهِمْ وَاَبْصِرْ ۙيَوْمَ يَاْتُوْنَنَا لٰكِنِ الظّٰلِمُوْنَ الْيَوْمَ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ 38؀ ) 19-مريم:38 ) یعنی جس دن یہ ہمارے پاس آئیں گے ، اس دن خوب ہی سننے والے ، دیکھنے والے ہو جائیں گے ۔ اور آیت میں ہے ( وَلَوْ تَرٰٓي اِذِ الْمُجْرِمُوْنَ نَاكِسُوْا رُءُوْسِهِمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۭ رَبَّنَآ اَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا اِنَّا مُوْقِنُوْنَ 12 ؀ ) 32- السجدة:12 ) تو دیکھے گا کہ اس دن گنہگار لوگ اپنے سر جھکائے کہہ رہے ہوں گے کہ اے اللہ ہم نے دیکھ سن لیا ، الخ ۔ اور آیت میں ہے کہ سب چہرے اس دن اللہ حی و قیوم کے سامنے جھکے ہوئے ہوں گے ، تابع اور مطیع ہوں گے ، زیر فرمان ہوں گے ۔ ان کے سارے بہتان و افترا جاتے رہیں گے ۔ ساری چالاکیاں ختم ہو جائیں گی کوئی ناصر و مددگار کھڑا نہ ہو گا ۔ جنہوں نے کفر کیا ، انہیں ان کے کفر کی سزا ملے گی اور دوسروں کو بھی حق سے دور بھگاتے رہتے تھے دراصل وہ خود ہی ہلاکت کے دلدل میں پھنس رہے تھے لیکن بےوقوف تھے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کافروں کے عذاب کے بھی درجے ہوں گے ، جس طرح مومنوں کے جزا کے درجے ہوں گے جیسے فرمان الہٰی ہے آیت ( قَالَ لِكُلٍّ ضِعْفٌ وَّلٰكِنْ لَّا تَعْلَمُوْنَ 38؀ ) 7- الاعراف:38 ) ہر ایک کے لیے دوہرا اجر ہے لیکن تمہیں علم نہیں ۔ ابو یعلی میں حضرت عبداللہ سے مروی ہے کہ عذاب جہنم کے ساتھ ہی زہر یلے سانپوں کا ڈسنا بڑھ جائے گا جو اتنے بڑے بڑے ہوں گے جتنے بڑے کھجور کے درخت ہو تے ہیں ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ عرش تلے سے پانچ نہریں آتی ہیں جن سے دوزخیوں کو دن رات عذاب ہو گا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

84۔ 1 یعنی ہر امت پر اس امت کا پیغمبر گواہی دے گا کہ انھیں اللہ کا پیغام پہنچا دیا گیا تھا۔ لیکن انہوں نے اس کی پرواہ نہیں کی ان کافروں کو عذر پیش کرنے کی اجازت بھی نہیں دی جائے گی، اس لئے کہ ان کے پاس حقیقت میں کوئی عذر یا حجت ہوگی ہی نہیں۔ نہ ان سے رجوع یا عتاب دور کرنے کا مطالبہ کیا جائے گا۔ کیونکہ اس کی ضرورت بھی اس وقت پیش آتی ہے جب کسی کو گنجائش دینا مقصود ہو، ایک دوسرے معنی یہ کئے گئے ہیں کہ انھیں اپنے رب کو راضی کرنے کا موقع نہیں دیا جائے گا۔ کیونکہ وہ موقع تو دنیا میں دیا جا چکا ہے جو دارالعمل ہے۔ آخرت تو دارعمل نہیں، وہ تو دارالجزا ہے، وہاں تو اس چیز کا بدلہ ملے گا جو انسان دنیا سے کر کے گیا ہوگا، وہاں کچھ کرنے کا موقع کسی کو نہیں ملے گا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٦] قیامت کا ایک منظر مشرکوں کی ایک دوسرے کے خلاف گفتگو :۔ اس سے آگے اب میدان محشر کا ایک منظر پیش کیا جارہا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کی عدالت قائم ہوگی تو ہر امت اور ہر فرقہ سے ایک گواہ سامنے لایا جائے گا۔ ہر امت میں سے گواہ اس امت کا نبی ہوگا یا پھر وہ نیک بندہ جس نے اللہ کا پیغام پوری وضاحت کے ساتھ لوگوں کو پہنچا دیا ہو۔ گواہوں کی یہ گواہی کافروں پر اتمام حجت کے لیے ہوگی اور مفصل ہوگی۔ یعنی وہ گواہ یہ گواہی دے گا کہ فلاں فلاں لوگوں نے میری بات تسلیم کرلی تھی اور فلاں فلاں لوگ اکڑ گئے تھے۔ اور انہوں نے راہ حق کی مخالفت میں یہ اور یہ کام کیے تھے اور ہمیں ایسا اور ایسا جواب دیا کرتے تھے۔ اس گواہی کے دوران کافروں کو بولنے کی قطعاً اجازت نہ ہوگی۔ اور کافر جب میدان محشر کا یہ ہولناک منظر دیکھیں گے تو اپنے گناہوں کی معافی مانگنا چاہیں گے مگر اس وقت انھیں توبہ کا موقع نہیں دیا جائے گا کیونکہ توبہ کا موقع تو صرف اس دنیا میں ہے اور جب موت کی آخری ہچکی آجائے اور جان لبوں پر آئے تو اس لمحہ سے توبہ کا وقت ختم ہوجاتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ اُمَّةٍ شَهِيْدًا : یعنی قیامت کے دن ہر امت کا پیغمبر اللہ کے سامنے کھڑا ہوگا اور ان تک حق پہنچا دینے کی شہادت دے گا، ساتھ ہی اگر انھوں نے تصدیق کی ہوگی تو اس کی اور اگر جھٹلایا ہوگا تو اس کی بھی شہادت دے گا۔ پیغمبروں کی وفات کے بعد جن لوگوں نے حق پہنچایا وہ یہ شہادت دیں گے۔ اس میں نعمت کے منکروں کے لیے وعید ہے۔ شہادت کے مفہوم کے لیے دیکھیے سورة بقرہ (١٤٣) ، نساء (٤١) ، حج (٧٨) اور سورة زمر (٦٩) ۔ ثُمَّ لَا يُؤْذَنُ لِلَّذِيْنَ كَفَرُوْا : پھر کافروں کو اجازت نہیں دی جائے گی۔ کس چیز کی ؟ دوسری جگہ اس کی وضاحت آئی ہے، اس میں سے ایک تو یہ ہے کہ اس دن نہ وہ بول سکیں گے اور نہ انھیں عذر کرنے کی اجازت دی جائے گی، جیسے فرمایا : (هٰذَا يَوْمُ لَا يَنْطِقُوْنَ 35؀ۙوَلَا يُؤْذَنُ لَهُمْ فَيَعْتَذِرُوْنَ ) [ المرسلات : ٣٥، ٣٦ ] ” یہ دن ہے کہ نہ وہ بولیں گے اور نہ انھیں اجازت دی جائے گی کہ وہ عذر کریں۔ “ دوسری یہ کہ جب وہ کہیں گے : ( رَبِّ ارْجِعُوْنِ 99 ۝ ۙلَعَلِّيْٓ اَعْمَلُ صَالِحًا فِيْمَا تَرَكْتُ ) [ المؤمنون : ٩٩، ١٠٠ ] (اے میرے رب ! مجھے واپس بھیجو، تاکہ میں جو کچھ چھوڑ آیا ہوں اس میں کوئی نیک عمل کرلوں) تو انھیں واپس جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی، کیونکہ واپس جانے پر بھی وہ وہی کچھ کریں گے جو پہلے کرتے رہے ہیں۔ ( دیکھیے انعام : ٢٨) قرآن کی بلاغت دیکھیے، یہ فرمایا کہ اجازت نہیں دی جائے گی، یہ ذکر نہیں کیا کہ کس چیز کی ؟ کیونکہ وہ کئی چیزیں ہیں۔ وَلَا هُمْ يُسْتَعْتَبُوْنَ : ” عَتَبَ یَعْتُبُ عَتْبًا “ (ن، ض) ناراض ہونا۔ ” أَعْتَبَ یُعْتِبُ “ ناراضگی دور کرنا۔ ” اَلْعُتْبٰی “ راضی کرنا، منانا۔ ” اِسْتَعْتَبَ فُلَانٌ فُلَانًا “ یعنی فلاں نے دوسرے پر اپنی ناراضگی ظاہر کی، تاکہ وہ اس کی ناراضگی دور کرسکے، یا معافی مانگ سکے۔ ” وَلَا هُمْ يُسْتَعْتَبُوْنَ “ کا مطلب یہ ہے کہ ان کے سامنے اس لیے ناراضگی کا اظہار نہیں کیا جائے گا کہ وہ معافی کی درخواست کرکے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی دور کرسکیں، یعنی انھیں اللہ کو راضی کرنے کی درخواست کا موقع ہی نہیں دیا جائے گا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر : اور (وہ دن یاد کرنے کے قابل ہے) جس دن ہم ہر ہر امت میں سے ایک ایک گواہ (کہ اس امت کا پیغمبر ہوگا) قائم کریں گے (جو ان کے اعمال سیہ کی شہادت دیں گے) پھر ان کافروں کو (عذر و معذرت کرنے کی) اجازت نہ دی جائے گی اور نہ ان سے حق تعالیٰ کے راضی کرنے کی فرمائش کی جائے گی (یعنی ان سے یوں نہ کہا جائے گا کہ تم توبہ یا کوئی عمل کر کے اللہ کو خوش کرلو، وجہ اس کی ظاہر ہے کہ آخرت دارالجزاء ہے دارالعمل نہیں) اور جب ظالم (یعنی کافر) لوگ عذاب کو دیکھیں گے (یعنی اس میں پڑیں گے) تو وہ عذاب نہ ان سے ہلکا کیا جائے گا اور نہ وہ (اس میں) کچھ مہلت دئیے جائیں گے (کہ چند روز کے بعد وہ عذاب جاری کیا جائے) اور جب مشرک لوگ اپنے شریکوں کو (جن کو خدا کے سوا پوجتے تھے) دیکھیں گے تو (بطور اقرار جرم کے) کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار وہ ہمارے شریک یہی ہیں کہ آپ کو چھوڑ کر ہم ان کی پوجا کرتے تھے سو وہ (شرکاء ڈریں گے کہ کہیں ہماری کم بختی نہ آجائے اس لئے) وہ ان کی طرف کلام کو متوجہ کریں گے کہ تم جھوٹے ہو (اصل مطلب ان کا یہ ہوگا کہ ہمارا تمہارا کوئی تعلق نہیں جس سے مقصود اپنی حفاظت ہے اب خواہ یہ مطلب ان کا صحیح ہو جیسا اگر مقبولین مثل ملائکہ وانبیاء (علیہم السلام) کے یہ بات کہیں تو صحیح ہے کقولہ تعالیٰ (آیت) بَلْ كَانُوْا يَعْبُدُوْنَ الْجِنَّ اور خواہ یہ غلط ہو جیسے خود شیاطین کہنے لگیں اور خواہ ان کو صحیح غلط ہونے کی خبر ہی نہ ہو جیسے اصنام واشجار وغیرہ کہنے لگیں) اور یہ مشرک اور کافر لوگ اس روز اللہ تعالیٰ کے سامنے اطاعت کی باتیں کرنے لگیں گے اور جو کچھ (دنیا میں) افتراء پر دازیاں کرتے تھے (اس وقت) وہ سب گم ہوجائیں گے (اور ان میں) جو لوگ (خود بھی) کفر کرتے تھے (اور دوسروں کو بھی) اللہ کی راہ (یعنی دین) سے روکتے تھے ان کے لئے ہم ایک سزا پر (کہ کفر کے مقابلہ میں ہوگی) دوسری سزا بمقابلہ ان کے فساد کے (کہ راہ خدا سے روکتے تھے) بڑھا دیں گے، اور (وہ دن میں بھی یاد کرنے اور لوگوں کے ڈرنے کا ہے) جس دن ہم ہر ہر امت کے ایک ایک گواہ جو انہی میں سے ہوگا ان کے مقابلہ میں قائم کریں گے (مراد اس امت کا نبی ہے اور انہی میں کا ہونا عام ہے خواہ باعتبار شرکت نسب کے ہو خواہ باعتبار شرکت سکنی کے ہو) اور ان لوگوں کے مقابلہ میں آپ کو گواہ بنا کر لائیں گے (اور اس اخبار شہادت سے جو آپ کی رسالت کا اخبار مفہوم ہوتا ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ) ہم نے آپ پر قرآن اتارا ہے جو (علاوہ معجز ہونے کے جو کہ مدار ہے اثبات رسالت کا ان خوبیوں کا جامع ہے) کہ تمام (دین کی) باتوں کا (بواسطہ یا بلاواسطہ عامۃ الناس کے لئے) بیان کرنے والا ہے اور (خاص) مسلمانوں کے واسطے بڑی ہدایت اور بڑی رحمت اور (ایمان پر) خوشخبری سنانے والا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ اُمَّةٍ شَهِيْدًا ثُمَّ لَا يُؤْذَنُ لِلَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَلَا هُمْ يُسْتَعْتَبُوْنَ 84؀ بعث أصل البَعْث : إثارة الشیء وتوجيهه، يقال : بَعَثْتُهُ فَانْبَعَثَ ، ويختلف البعث بحسب اختلاف ما علّق به، فَبَعَثْتُ البعیر : أثرته وسيّرته، وقوله عزّ وجل : وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام/ 36] ، أي : يخرجهم ويسيرهم إلى القیامة، ( ب ع ث ) البعث ( ف ) اصل میں بعث کے معنی کسی چیز کو ابھارنے اور کسی طرف بیجھنا کے ہیں اور انبعث در اصل مطاوع ہے بعث کا مگر متعلقات کے لحاظ سے اس کے معنی مختلف ہوتے رہتے ہیں مثلا بعثت البعیر کے معنی اونٹ کو اٹھانے اور آزاد چھوڑ دینا کے ہیں اور مردوں کے متعلق استعمال ہو تو قبروں سے زندہ کرکے محشر کی طرف چلانا مراد ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام/ 36] اور مردوں کو تو خدا ( قیامت ہی کو ) اٹھایا جائے گا ۔ عتب العَتَبُ : كلّ مکان نابٍ بنازله، ومنه قيل للمرقاة ولأُسْكُفَّةِ البابِ : عَتَبَةٌ ، وكنّي بها عن المرأة فيما روي : «أنّ إبراهيم عليه السلام قال لامرأة إسماعیل : قولي لزوجک غيّر عَتَبَةَ بَابِكَ» «4» واستعیر العَتْبُ والمَعْتَبَةُ لغِلْظَةٍ يجدها الإنسان في نفسه علی غيره، وأصله من العتبِ ، وبحسبه قيل : خَشُنْتُ بصدر فلان، ووجدت في صدره غلظة، ومنه قيل : حمل فلان علی عَتَبَةٍ صعبةٍ «5» ، أي : حالة شاقّة کقول الشاعر : 308- وحملناهم علی صعبة زو ... راءَ يعلونها بغیر وطاء «1» وقولهم أَعْتَبْتُ فلاناً ، أي : أبرزت له الغلظة التي وُجِدَتْ له في الصّدر، وأَعْتَبْتُ فلاناً : حملته علی العَتْبِ. ويقال : أَعْتَبْتُهُ ، أي : أزلت عَتْبَهُ عنه، نحو : أشكيته . قال تعالی: فَما هُمْ مِنَ الْمُعْتَبِينَ [ فصلت/ 24] ، والاسْتِعْتَابُ : أن يطلب من الإنسان أن يذكر عَتْبَهُ لِيُعْتَبَ ، يقال : اسْتَعْتَبَ فلانٌ. قال تعالی: وَلا هُمْ يُسْتَعْتَبُونَ [ النحل/ 84] ، يقال : «لک العُتْبَى» «2» ، وهو إزالة ما لأجله يُعْتَبُ ، وبینهم أُعْتُوبَةٌ ، أي : ما يَتَعَاتَبُونَ به، ويقال : عَتبَ عَتْباً : إذا مشی علی رجل مشي المرتقي في درجة . ( ع ت ب ) العتب ۔ ہر اس جگہ کو کہتے ہیں جو وہاں اترنے والے کے لئے ساز گار نہ ہو نیز دروازہ کی چوکھٹ اور سیڑھی کو بھی عتبہ کہا جاتا ہے ۔ اور حضرت ابراھیم (علیہ السلام) نے حضرت اسمعیل (علیہ السلام) کی بیوی سے جو فرمایا تھا قولی زوجک غیر عتبتہ بابک اپنے خاوند سے کہنا کہ اپنے دروازہ کی چو کھٹ تبدیل کرلے تو یہاں عتبتہ کے معنی بطور کنایہ عورت کے ہیں اور استعارہ کے طور پر عتب ومعتب کے معنی اس نارضگی یا سختی کے بھی آجاتے ہیں جو انسان کے دل میں دوسرے کے متعلق پیدا ہوجاتی ہے یہ بھی اصل میں العتب ہی سے اسی کے مطابق خشنت بصدر فلان ووجدت فی صدرہ غلظتہ کا محاورہ استعمال ہوتا ہے اور اسی سے کہا گیا ہے ۔ حمل فلان علٰی عتبتہ صبعبتہ فلان کو ناگورا ھالت پر مجبور کیا گیا ۔ جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) ( 300 ) وحملنا ھم علٰی صعبتہ رایعلونھا بغیر وطاء ہم نے انہیں نہایت ٹیڑھی حالت پر سوار کیا چناچہ وہ بغیر نمدہ کے اس پر سوار ہیں ۔ اعتبت فلان ( 1 ) ناراضگی ظاہر کرنا ( 2 ) ناراضگی پر ابھارنا ( 3 ) میں نے اس کی ناراضگی دو ۔ کردو یعنی راضی کرلیا جیسا کہ اشکیتہ کے معنی ہیں میں نے اس کی شکایت دور کردی ( یعنی سلب ماخذ کے معنی پائے جاتے ہیں ) قرآن میں ہے : ۔ فَما هُمْ مِنَ الْمُعْتَبِينَ [ فصلت/ 24] ان سے عتاب دور نہیں کیا جائے گا ۔ الاستعتاب ( رضامندی چاہنا ) کسی سے یہ خواہش کرنا کہ وہ اپنے عتاب کو دور کردے تاکہ راضی ہوجائے کہا جاتا ہے استعتب فلان کسی سے عتاب کو دور کرنے کی کو اہش کی ۔ قرآن میں ہے ولا هُمْ يُسْتَعْتَبُونَ [ النحل/ 84] اور نہ ان کی معذرت قبول کر کے ان سے عتاب دور کیا جائیگا ۔ لک العتبی تیرے لئے رضا مندی ہے ۔ بینھم اعتوبتہ وہ باہم کشادہ ہیں ۔ عتب عتبا آدمی کا ایک پاؤں پر کود کر چلنا جیسے اوپر چڑھنے والا سیڑھی پر قدم رکھتا چلا جاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٤) اور جس دن ہم ہر ایک قوم میں سے ان کے پیغمبر کو ان پر تبلیغ احکام کے لیے گواہ قائم کریں گے پھر ان کفار کو کلام کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور نہ یہ توبہ کے لیے دنیا میں واپس بھیجے جائیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨٤ (وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ اُمَّةٍ شَهِيْدًا) شہادتِ حق کا یہ مضمون اس سورت میں دو مرتبہ (مزید ملاحظہ ہو آیت ٨٩) آیا ہے۔ جبکہ قبل ازیں سورة البقرۃ کی آیت ١٤٣ اور سورة النساء کی آیت ٤١ میں بھی اس کا ذکر ہے۔ آیت زیر نظر میں ہر امت میں سے جس گواہ کا ذکر ہے وہ اس امت کا نبی یا رسول ہوگا۔ جیسا کہ سورة الاعراف میں فرمایا گیا : (فَلَنَسْــــَٔـلَنَّ الَّذِيْنَ اُرْسِلَ اِلَيْهِمْ وَلَنَسْــــَٔـلَنَّ الْمُرْسَلِيْنَ ) ” ہم ضرور پوچھیں گے ان سے جن کی طرف رسول بھیجے گئے اور ہم رسولوں سے بھی پوچھیں گے “۔ روز محشر ہر امت کی پیشی کے وقت اس امت کا رسول عدالت کے سرکاری گواہ (prosecution witness) کی حیثیت سے گواہی دے گا کہ اے اللہ ! تیری طرف سے جو پیغام مجھے اس قوم کے لیے ملا تھا وہ میں نے بےکم وکاست ان تک پہنچا دیا تھا۔ اب یہ لوگ جو ابدہ ہیں ‘ ان سے محاسبہ ہوسکتا ہے۔ اس طرح تمام انبیاء و رسل اپنی اپنی امت کے خلاف گواہی دیں گے۔ (ثُمَّ لَا يُؤْذَنُ لِلَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَلَا هُمْ يُسْتَعْتَبُوْنَ ) اس وقت انہیں ایسا موقع فراہم نہیں کیا جائے گا کہ وہ عذر تراش کر اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرسکیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

80. The witness will be the Prophet of that community or his follower who invited that community to Tauhid and God worship and warned it of the consequences of shirk and superstitious rites and customs and cautioned it against the accountability on the Day of Resurrection. He will bear witness of the fact that he had conveyed the true message to those people, and that they committed evils deliberately and not in ignorance. 81. This does not mean that the criminals will not be given any opportunity to clear themselves but it means that their crimes will be proved to the hilt by means of irrefutable evidence which will leave no room for excuses.

سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :80 یعنی اس امت کا نبی ، یا کوئی ایسا شخص جس نے نبی کے گزر جانے کے بعد اس امت کو توحید اور خالص خدا پرستی کی دعوت دی ہو ، شرک اور مشرکانہ اوہام و رسوم پر متنبہ کیا ہو ، اور روز قیامت کی جواب دہی سے خبردار کیا ہو ۔ وہ اس امر کی شہادت دے گا کہ میں نے پیغام حق ان لوگوں کو پہنچا دیا تھا ، اس لیے جو کچھ انہوں نے کیا وہ ناواقفیت کی بنا پر نہیں کیا ، بلکہ جانتے بوجھتے کیا ۔ سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :81 یہ مطلب نہیں ہے کہ انہیں صفائی پیش کر نے کی اجازت نہ دی جائے گی ۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ ان کے جرائم ایسی صریح ناقابلِ انکار اور ناقابلِ تاویل شہادتوں سے ثابت کر دیے جائیں گے کہ ان کے لیے صفائی پیش کرنے کی کوئی گنجائش نہ رہے گی ۔ سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :82 یعنی اس وقت ان سے یہ نہیں کہا جائے گا کہ اب اپنے رب سے اپنے قصوروں کی معافی مانگ لو ۔ کیونکہ وہ فیصلے کا وقت ہو گا ، معافی طلب کر نے کا وقت گزر چکا ہوگا ۔ قرآن اور حدیث دونوں اس معاملہ میں ناطق ہیں کہ تو بہ و استغفار کی جگہ دنیا ہے نہ کہ آخرت ۔ اور دنیا میں بھی اس کا موقع صرف اسی وقت تک ہے جب تک آثار موت طاری نہیں ہو جاتے جس وقت آدمی کو یقین ہو جائے کہ ا سکا آخری وقت آن پہنچا ہے اس وقت کی توبہ ناقابل قبول ہے ۔ موت کی سرحد میں داخل ہوتے ہی آدمی کی مہلت عمل ختم ہو جاتی ہے اور صرف جزا و سزا ہی کا اسحقاق باقی نہیں رہ جاتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

35: اس سے مراد ہر امت کے پیغمبر ہیں جو یہ گواہی دیں گے کہ انہوں نے اس امت کے لوگوں کو حق کا پیغام پہنچایا تھا، اور ان کافروں نے اسے قبول نہیں کیا۔ 36: اس لیے کہ توبہ کا دروازہ موت سے پہلے پہلے تک تو کھلا رہتا ہے۔ اس کے بعد توبہ قبول نہیں ہوتی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٨٤۔ ٨٧۔ اللہ پاک نے مشرکوں کے نتیجے جو قیامت کے دن ہوں گے ان کو ان آیتوں میں بیان فرمایا کہ ہر ایک امت کا گواہ اس روز اس امت کا پیغمبر کھڑا ہو کر اس بات کی گواہی دے گا کہ جو پیغام خدا کی طرف سے ان کے پاس پہنچایا گیا اس کا کیا جواب ان لوگوں نے دیا کس کس نے ان کی رسالت کی تصدیق کی اور کس کس نے اللہ کے رسولوں کو جھٹلایا اگرچہ اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے۔ لیکن اس نے مخلوق کے حساب و کتاب کا دارو مدار اپنے علم پر نہیں رکھا ہے جس طرح دنیا میں انسان کی عادت جاری ہے کہ ہر ایک مقدمہ میں گواہ پیش ہو کر فیصلے ہوا کرتا ہے اسی طرح آخرت میں بھی گواہوں کی شہادت سن کر فیصلہ کیا جائے گا غرض کہ جس وقت انبیاء و رسول ہر ہر امت کے خدا کے روبرو ان کی گواہی دیں گے اور مشرکین لوگ جب اس گواہی کو نہ مانیں گے تو مشرکوں کے اعضاء سے گواہی دلوائی جاوے گی پھر ان مشرکوں کا کوئی عذر نہیں سنا جائے گا اور نہ ان کو زبان کھولنے کی اجازت ملے گی۔ پھر مشرکین اور کفار جنہوں نے خدا کی نافرمانی کر کے دنیا میں اپنی جان پر ظلم کیا تھا جہنم کے عذاب کو دیکھیں گے اور ان پر عذاب ہونے لگے گا تو پھر اس میں کمی نہیں کی جائے گی دم لینے کی بھی مہلت نہیں ملے گی اور جس و قت مشرکین اپنے ان معبودوں کو دیکھیں گے جنہیں دنیا میں وہ پوجتے تھے اور خدا کا شریک ٹھہراتے تھے تو کہنے لگیں گے کہ اے رب یہی ہمارے وہ شریک ہیں جنہیں ہم تیرے سوا دنیا میں پوجتے تھے اور پکارتے تھے انہیں کی نسبت ہمارا یہ خیال تھا کہ ان کے سبب سے ہمیں تیری قربت حاصل ہوگی اور انہیں کی نسبت ہمارا یہ اعتقاد تھا کہ تیرے دربار میں ہماری شفاعت کریں گے مشرکوں کی یہ باتیں سن کر ان کے وہ معبود جلدی سے ان کے قول کو جھٹلا دیں گے کہ تم محض جھوٹے ہو تم نے ہرگز ہماری عبادت نہیں کی تم تو اپنی خواہش نفسانی کے پیرو تھے تمہارا نفس جو کچھ تمہیں سکھلاتا تھا وہی کرتے تھے۔ یہاں شہید کے معنے گواہ کے ہیں۔ ابن ابی حاتم میں قتادہ کا قول ہے کہ ہر ایک امت کی حالت پر یہ رسولوں کی گواہی اللہ تعالیٰ کے روبرو پیش ہوگی کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کا پیغام اپنی امتوں کو پہنچادیا۔ مسند امام احمد، صحیح بخاری، نسائی اور ابن ماجہ کے حوالہ سے سورت الاعراف میں ابو سعید خدری (رض) کی حدیث گزر چکی ہے ١ ؎ جس کا حاصل یہ ہے کہ جن امتوں نے دنیا میں اپنے رسولوں کی نافرمانی کی ہے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان امتوں کے رسولوں سے پوچھے گا کہ تم نے اللہ تعالیٰ کے احکام اپنی امتوں کو پہنچاوے تھے اللہ تعالیٰ کے رسول جواب دیویں گے یا اللہ تجھے خوب معلوم ہے کہ ہم نے ان لوگوں کو تیرے سب احکام پہنچادئیے تھے۔ اس حدیث قتاد کے قول کی پوری تائید ہوتی ہے اس لئے قتادہ کا قول اور یہ حدیث آیت کے ٹکڑے ویوم نبعث من کل امتۃ شھیدا کی تفسیر ہے۔ صحیح بخاری میں سعید بن جبیر (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ نافع بن ازرق نے حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے پوچھا تھا کہ قرآن شریف میں کہیں تو یہ ہے کہ مشرکوں کو قیامت کے دن بات کرنے اور کسی عذر کے پیش کرنے کا حکم نہ ہوگا اور کہیں یہ ہے کہ مشرک لوگ قسمیں کھا کھا کر اللہ تعالیٰ کے روبرو شرک کا انکار کریں گے اس اختلاف کا کیا سبب ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) نے اس کا جو جواب دیا اس کا حاصل یہ ہے کہ قیامت پچاس ہزار برس کا دن ہے اس میں یہ مشرک لوگ پہلے پہل شرک سے انکار رسولوں کا جھٹلانا سب کچھ کریں گے پھر آخر کو ان کے منہ پر خاموشی کی مہر لگائی جا کر ان کے ہاتھ پیروں سے گواہی لی جاوے گی اس کے بعد ان کو جھوٹ بولنے اور کسی جھوٹے عذر کے پیش کرنے کا موقع باقی نہ رہے گا۔ معتبر سند سے مسند امام احمد صحیح ابن حبان اور مسند ابی یعلی میں ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کا دن پچاس ہزار برس کا ہوگا ٢ ؎۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے ٣ ؎ کہ جب مشرک لوگ اپنے اسلام کا جھوٹا دعویٰ کریں گے تو ان کے منہ پر خاموشی کی مہر لگائی جا کر ان کے اعضاء سے اصل حال کی گواہی ہی ادا کرائی جاوے گی تاکہ ان کا جھوٹ اچھی طرح کھل جاوے اور یہ لوگ پورے قائل ہوجاویں۔ ان حدیثوں سے عبد اللہ بن عباس (رض) کے قول کی پوری تائید ہوتی ہے اور حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کا قول اور یہ حدیثیں آیت کے ٹکڑے ثم لا یؤذن للذین کفرو ولا ھم یستعتبون کی تفسیر ہیں جس کا حاصل یہ ہے کہ آیت کے اس ٹکڑے میں مشرکوں کی ایک خاص حالت کا ذکر ہے دوزخیوں کی جلی ہوئی کھال کے گھڑی گھڑی بدلے جانے کا ذکر مشرکوں کے جھوٹے معبودوں کا اپنے پوجنے والوں سے بیزار ہونے کا ذکر۔ مشرکوں کے شرک سے پچھتانے کا ذکر یہ سب اوپر گزر چکا ہے وہی باقی آیتوں کی تفسیر ہے۔ ١ ؎ تفسیر ہذا جلذ دوم ص ٢٣١۔ ٢ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٥٨١ ج ٤۔ ٣ ؎ جلد ہذا ص ٣٣٩۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(16:84) یوم۔ کا نصب محذوف عبارت کی وجہ سے ہے۔ ای اذکر یوم۔۔ تبعث۔ مضارع جمع متکلم بعث مصدر۔ (باب فتح) ہم کھڑا کریں گے۔ ہم قائم کریں گے۔ لا یؤذن۔ مضارع منفی مجہول واحد مذکر غائب اجازت نہیں دی جائے گی۔ (عذرومعذرت پیش کرنے کی) ۔ ولا ہم یستعتبون۔ مضارع منفی مجہول کا صیغہ جمع مذکر غائب العتب اصل میں اس جگہ کو کہتے ہیں جو وہاں اترنے والے کے لئے ناسازگار ہو۔ پھر استعارہ کے طور پر عتب کے معنی ناراضگی سختی۔ خفگی کے آجاتے ہیں۔ عتب یعتب (نصر) عتب یعتب (ضرب) عتب خفگی کرنا۔ ناراض ہونا۔ غصہ ہونا۔ اعتاب (باب افعال) میں سلب ماخذ کی خصوصیت کی وجہ سے معنی ہونگے عتاب کو دور کرنا۔ ناراضگی۔ غصہ۔ خفگی کو دور کرنا۔ باب استفعال میں طلب ماخذ کی خصوصیت ہے جیسے استغفر زید (زید نے مغفرت مانگی) ۔ لہٰذا استعتاب کا مطلب ہوا۔ طلبِ عتاب یعنی ناراضگی کو دور کرنے کی طلب۔ یعنی کسی سے خواہش کرنا کہ وہ تیری ناراضگی کو دور کر دے اور تجھے رضا مند بنا لے۔ باب افعال (ثلاثی مزید فیہ) سے باب استفعال بنانا غیر قیاسی ہے کیونکہ قیاساً باب استفعال ثلاثی مجرد سے بنایا جاتا ہے۔ ولاہم یستعتبون۔ (اور نہ ہی ان سے اللہ تعالیٰ کے راضی کرنے کی فرمائش کی جائے گی) اور نہ ہی ان سے توبہ لی جائے گی ! نیز ملاحظہ ہو لغات القرآن۔ ندوۃ المصنفین اور نیزاضواء البیان جلد سوم تفسیر آیۃ ہذا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 یعنی خوب دبانتے ہیں کہ یہ ت مام نعمتیں اللہ تعالیٰ ہی کی ذات عنایت فرما رہی ہے مگر جب عملاً شکر گزاری کا وقت آتا ہے تو سب بھول جاتے ہیں اور بخرک کرنے لگتے ہیں۔ گویا دل میں نعمتوں کا متوار اور اپنے عمل سے انکار کرتے ہیں۔ 6 ان کا پیغمبر اللہ کے سامنے کو ہوگا اور ان کے حق میں ایمان و تصدیق کی گواہی دے گا۔ (بشرطیکہ یہاں لا کر پیروی کی ہوگی اور اگر انحراف کیا ہوگا تو ان کے خلاف کفر و تکذیب کی گواہی دے گا۔ اس میں منکرین نعمت کے لئے وعید ہے۔ شوکانی 7 یعنی ان کا مجرم ہونا اتنا واضح ہوگا کہ ان کے پاس کوئی عذر یا بحث نہیں ہوگی جس کے بیان کرنے کی اجازت دی جائے۔ 8 یا نہ انہیں (اپنے رب کو) راضی کرنے کا موقع دیا جائے گا یعنی نیک عمل کر کے کیونکہ آخرت عمل کا کفر نہیں ہے عمل کا گھر دنیا ہے اور دنیا کی طرف پلٹنا ممکن نہیں۔ (قرطبی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

(رکوع نمبر ١٢) اسرارومعارف ایک روز ایسا آئے جب ہر قوم میں سے ایک ہستی یعنی اس کی طرف بھیجا گیا نبی یا رسول شہادت کے لیے بارگاہ الہی میں طلب کیا جائے گا جو ان لوگوں کے روبرو ان کے اس کردار کی شہادت دے جو انہوں نے اللہ جل جلالہ کے احکام کے ساتھ اپنایا تھا تو وہ وقت اعمال کا نہ ہوگا کہ تب کافروں کو اصلاح احوال کی اجازت ملے یا یہ موقع دیا جائے ، اب کوئی ایسا عمل کرلو جس پر اللہ جل جلالہ راضی ہوجائیں کہ وہ روز تو اجر اور جزا کا ہوگا عمل کا ثواب ہی وقت ہے جب کفار پر عذاب وارد ہوگیا یا یہ اس میں داخل ہوگئے تو پھر نہ ہی عذاب میں کمی واقع ہوگی اور نہ انہیں کسی طرح کی مہلت ہی مل سکے گی بلکہ بات ہی الٹ جائے گی ، یہ جن ہستیوں کو اللہ جل جلالہ کا شریک ٹھہراتے ہیں انہیں دیکھ کر کہیں گے کہ یہی وہ ہیں جن کی پوجا ہم کیا کرتے تھے ، اور تیری ذات وصفات میں انہیں شریک مانتے تھے تو وہ بھی ڈر کر کہہ دیں گے کہ ایسا ہرگز نہیں تم صاف جھوٹ بول رہے ہو خواہ یہ بات یوں درست ہو کہ جیسے انبیاء کو یا فرشتوں کو پوجتے رہے تو انہوں نے تو ہرگز ایسا کرنے کو نہ کہا تھا یا درخت اور پتھر کہہ اٹھیں تو انہیں بھی ان امور کا علم ہی نہ تھا یا پھر شیاطین بھی کہہ دیں اور وہ بھی کافر ہی تو ہیں انہی کی طرح جھوٹ بول رہے ہوں ، جیسے یہ دنیا میں بولتے تھے وہ وہاں انکار کر رہے ہوں ، بہرحال یہ حیلہ بازیاں کوئی فائدہ نہ دیں گی اور کفار پر عذاب کئی گنا بڑھا دیا جائے گا کہ ایک تو اپنے کفر پہ مرتب ہوگا پھر جتنے لوگوں کو کفر پر لگایا اور اللہ کی راہ سے بھٹکایا ہر ایک کا عذاب ان پر بھی تو پڑے گا کہ اس فساد کے بانی تھے ، اس روز ہر قوم کا نبی اس پر شہادت دے گا اور جب یہ لوگ اپنے نبیوں کی بات جھٹلانے کی کوشش کریں گے تو ان کے مقابل آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نبیوں کے حق میں گواہ بنایا جائے گا اس لیے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن اتارا گیا جو ہر بات کو بیان کرتا ہے ، امم سابقہ کے حالات انبیاء کی باتیں اور کفار کا کردار اور ساتھ ہی ساتھ ماننے والوں اور مسلمانوں کے لیے اللہ جل جلالہ کی ہدایت بھی ہے اور رحمت بھی نیز آخرت کے بارے خوشی کی خبر دینے والا بھی قرآن حکیم ہی تمام امور کے اصول بیان فرماتے ہیں ، دین کی ہر بات کی اصل تو موجود ہے جس کی شرح حدیث پاک ہے ، دنیا کی تمام ایجادات کا اشارہ بھی ملتا ہے جہاں مختلف اشیاء میں تدبر اور غور وفکر کی دعوت دی گئی ہے نیز بنیادی اور اصولی باتیں تو پہلوں اور پچھلوں کے حالات کے ساتھ بیان فرما دیتا ہے ۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 84 تا 89 نبعث ہم اٹھائیں گے۔ شہید گواہ۔ لایوذن اجازت نہیں دی جائے گی۔ لایستعتبون نہ وہ راضی کرسکیں گے۔ لاینظرون نہ دیکھے جائیں گے، مہلت نہ دی جائے گی۔ کنا ہم تھے۔ ندعوا ہم بلاتے ہیں۔ القوا انہوں نے ڈالا (وہ ڈالیں گے) یومئذ اس دن۔ السلم اطاعت و فرماں برداری۔ زدنا ہم نے بڑھا دیا (ہم بڑھا دیں گے) تبیان کھلی بات، واضح بات۔ بشریٰ خوشخبری۔ تشریح :- آیت نمبر 84 تا 89 نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ہے کہ ” یہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے “ یعنی اس دنیا میں جس انسان نے اپنے عمل کا جیسا بیج بویا ہوگا۔ وہ اس کو آخرت میں جا کر کاٹے گا۔ یہ دنیا دار العمل ہے اور آخرت اس کے عمل کی جزا ہوگی جیسا بوئے گا ویسا ہی کاٹے گا۔ کانٹے بو کر پھولوں کی تمنا حماقت سے زیادہ کچھ نہیں ہے خلاصہ یہ ہے کہ قیامت آنے کے بعد اللہ تعالیٰ ایک نیا جہاں پیدا فرمائیں گے جس میں تمام انسانوں کو جمع کر کے ان کی پوری زندگی کے متعلق حساب پوچھا جائے گا جس کے اعمال درست ہوں گے وہ جنت کا اور جس کے اعمال خراب ہوں گے وہ جہنم کا مستحق ہوگا۔ وہاں کوئی عذر اور معذرت قبول نہیں کی جائے گی۔ ان آیات میں اسی بات کو فرمایا جا رہا ہے کہ وہ کتنا ہیبت ناک دن ہوگا۔ جب ہر امت کا نبی اپنی امت کی گواہی دینے کے لئے کھڑا ہوگا۔ کہ ان میں کون نیک، اطاعت گذار اور دین پر چلنے والا تھا اور کون برائیوں، گناہوں اور نافرمانیوں کا پیکر بن چکا تھا۔ جب عذاب سامنے آئے گا تو کفار و مشرکین یہ عذر پیش کریں گے کہ الٰہی ہمیں سزا نہ دیجائے بلکہ ان معبودوں کو سزا دی جائے جنہوں نے ہمیں گمراہی کے راستے پر ڈالا تھا۔ وہ جھوٹے معبود جن کی وہ عبادت و بندگی کرتے تھے کہیں گے کہ اے اللہ ہمیں تو یہ معلوم ہی نہیں کہ یہ ہمیں اپنا معبود کیوں مانتے تھے اس میں ہمارا کیا قوصر ہے ” یعنی ہم تو بےجان پتھر اور لکڑی کے بنائے گئے بت تھے اس میں ہمارا کوئی اختیار نہ تھا۔ اس طرح اس برے وقت میں وہی جھوٹے معبود ان کو تنہا چھوڑ کر ان سے غائب ہوجائیں گے۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ تم سب جھوٹے ہو۔ آج کا دن جزا کا دن ہے تمہاری شرمندگی اور معذرت پر تو کوئی رعایت ملے گیا ور نہ عذاب میں کمی کی جائے گی بلکہ دوگنا سزا ملے گی کیونکہ تم لوگ خود بھی گمراہی پر قائم تھے اور دوسروں کو بھی اللہ کے راستے سے گمراہ کرتے اور روکتے تھے۔ فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! وہ دن بھی کفار کے لئے کی اس عجیب اور دہشت ناک دن ہوگا۔ جب ہر امت میں سے ہر ایک نبی اپنی امت کے اعمال کی گواہی دے گا اور ان انبیاء کرام اور ان کی امتوں پر اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ گواہی دیں گے (اور اس دن یہ حقیقت پوری طرح کھل کر سامنے آئے گی کہ ) اللہ نے آپ پر قرآن کریم کو نازل فرمایا جس میں ہر چیز کو کھول کھول کر بیان فرمایا گیا ہے وہ قرآن کریم جو ہدایت، رحمت اور اللہ و رسول کے فرماں برداروں کے لئے خوش خبری ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ امت کے تمام اعمال نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پیش کئے جاتے ہیں۔ خیر اور بھلائی کے اعمال پر آپ اللہ کا شکر ادا فرماتے ہیں اور امت کی برائی اور بد اعمالیوں سے آپ کو سخت تکلیف پہنچتی ہے اور آپ ان کے لئے دعائے مغفرت فرماتے ہیں (تفسیر عثمانی) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) امت کے ان ہی اعمال کی گواہی دیں گے۔ اس مضمون کے سلسلہ میں احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ میدان حشر میں ہر نبی اور رسول اپنی امت پر اس بات کی گواہی دیں گے کہ اے اللہ ہم نے آپ کا پیغام ان کفار و مشرکین تک پہنچا دیا تھا لیکن سوائے چند لوگوں کے باقی لوگ اپنی گمراہی میں لگے رہے۔ اس پر وہ کفار و مشرکین جھوٹ کی انتہا کرتے ہوئے کہیں گے کہ اے اللہ ہمیں کوئی پیغام نہیں پہنچا تھا اس پر انبیاء فرمائیں گے کہ اے اللہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت سے پوچھ لیا جائے وہ اس بات کی گواہی دیں گے کہ ہم نے آپ کا پیغام پہنچانے میں کوئی کوتاہی نہیں کی جب امت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گواہی دے گی وہ پھر کہیں گے کہ اے اللہ یہ امت تو ہمارے بعد یعنی آخر میں آئی ہے ان کو کیا معلوم۔ اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کہے گی کہ اے اللہ اس پر آپ کے محبوب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گواہ ہیں کیونکہ یہ سب باتیں ہمیں انہوں نے ہی بتائی تھیں۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب گواہی دیں گے تو کفار و مشرکین ڈھٹائی کی انتہا کرتے ہوئے کہیں گے کہ اے اللہ یہ تو بالکل آخر میں تشریف لائے ہیں ان کو کیا معلوم کہ ہمارے نبیوں نے آپ کا پیغام ہم تک پہنچایا تھا یا نہیں اس پر اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ میں اپنے محبوب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات پر وگاہ ہوں۔ اس طرح کفار و مشرکین اپنے اس جھوٹ پر شرمندہ ہوں گے اور پھر ان کو جہنم کی طرف ہنکا دیا جائے گا اور انبیاء کرام کی بات مان کر اطاعت گذاروں کو جنت کی ابدی راحتوں سے ہم کنار کردیا جائے گا۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ یعنی ان سے یوں نہ کہا جائے گا کہ تم توبہ یا کوئی عمل کرکے اللہ کو خوش کرلو وجہ اس کی ظاہر ہے کہ آخرت دارالجزاء ہے دارلعمل نہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناقدری اور اس کی ذات کے ساتھ کفر کرنے کا انجام۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناقدری اور اس کی ذات کا انکار کرنے والے لوگ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کیے جائیں گے۔ وہ جہنم کا عذاب اور رب کا جلال دیکھ کر اپنے گناہوں کا اعتراف کرنے سے انکار کردیں گے۔ اور بڑی ڈھٹائی کے ساتھ کہیں گے کہ اے ہمارے رب ہمارے پاس کوئی سمجھانے والا نہیں آیا تھا اگر کوئی ہمیں سمجھاتا تو ہم ضرور تیری ذات اور فرمان پر ایمان لاتے۔ اس انکار پر ہر امت کے نبی کو ان کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ جب اس امت کا نبی اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی قوم کے خلاف گواہی دے گا کہ اے رب میں نے پیغام من و عن پہنچا دیا تھا۔ مجرم لوگ اپنے نبی کی شہادت مسترد کردیں گے اس پر اللہ تعالیٰ نبی کو حکم فرمائیں گے کہ آپ اپنی تائید کے لیے گواہ پیش کریں وہ نبی امت محمدیہ کے لوگوں کو گواہ کے طور پر پیش کریں گے۔ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کے لوگ گواہی دیں گے کہ بار الٰہا ہم نے تیرے قرآن میں پڑھا تھا کہ پہلے انبیاء نے اپنی اپنی امتوں کو ٹھیک ٹھیک طریقے سے حق کا پیغام پہنچایا۔ انبیاء (علیہ السلام) کی گواہی دینے کے باوجود مجرم ہر گواہی کو مسترد کرتے جائیں گے۔ اس صورت حال میں اللہ تعالیٰ ان کی زبانوں پر مہر ثبت فرماکر ان کے عضاء کو حکم دے گا کہ تم گواہی دو کہ کیا یہ واقعی مجرم نہیں ہیں ؟ مجرموں کے اعضاء اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہو کر اس کے حضور اپنی شہادت پیش کریں گے کہ یہ حقیقی مجرم ہیں۔ ( یٰس : ٦٥) جب مجرم لوگ ہر طرف سے لاجواب ہوجائیں گے تو پھر مزید انہیں عذر پیش کرنے کی اجازت نہ ہوگی اور نہ ہی ان کی معذرت قبول کی جائے گی ظالموں کو جس عذاب سے واسطہ پڑے گا اس میں نہ تخفیف کی جائے گی اور نہ ہی انہیں مہلت دی جائے گی۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

تشریح : یہ قیامت کا منظر ہے۔ انبیاء کھڑے ہیں اور وہ تمام واقعات کے چشم دید گواہ ہیں۔ ان کے اور ان کی قوم کے درمیان جو کشمکش ہوئی وہ اسکرین پر چل رہی ہوگی۔ کفار دنگ کھڑے ہوں گے۔ اب ان کو حجت بازی کی اجازت نہ ہوگی۔ سفارشیں لانے کے اجازت نہ ہوگی۔ ان سے یہ مطالبہ بھی نہ کیا جائے گا کہ یہ یہ کام کرکے رب کو راضی کرو کیونکہ اب تو توبہ کا دروازہ بند اور عمل کا میدان ختم ہے۔ اب تو مکافات عمل کا میدان ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

قیامت کے دن کے چند مناظر، کافروں اور مشرکوں کے لیے عذاب کی وعید ان آیات میں روز قیامت کے بعض مناظر ذکر فرمائے ہیں اول تو یہ فرمایا کہ قیامت کے دن ہر امت میں سے ہم ایک گواہ قائم کریں گے یہ گواہ ان کا پیغمبر ہوگا جو ان کے کفر کے بارے میں گواہی دے گا، جب کفار قیامت کے دن جمع ہوں گے تو انہیں کسی قسم کے عذر اور معذرت کی اجازت نہیں دی جائے گی اور نہ ان سے یوں کہا جائے گا کہ اللہ کو راضی کرلو اور راضی کرکے عذاب سے چھوٹ جاؤ کیونکہ راضی کرنے کا موقع صرف دنیا ہی میں تھا وہاں کفر سے توبہ کرلیتے تو اللہ تعالیٰ شانہٗ راضی ہوجاتا لیکن جب کفر پر موت آگئی تو اب اپنے رب کو راضی کرنے کا کوئی راستہ نہ رہا اب تو عذاب میں جانا ہی ہوگا۔ کفر کی سزا میں جب انہیں عذاب نظر آئے گا اور عذاب میں داخل ہونے لگیں گے تو خلاصی کا یا تخفیف عذاب کا یا مہلت کا کوئی راستہ نہ پائیں گے اس موقع پر کفار اور مشرکین اپنے شرکاء یعنی اپنے معبودوں کے بارے میں کہیں گے کہ اے ہمارے رب یہ ہمارے شرکاء ہیں یعنی یہ وہ معبود ہیں جنہیں ہم نے آپ کی عبادت میں شریک کرلیا تھا ان کے شرکاء یعنی باطل معبودان کی طرف متوجہ ہو کر کہیں گے کہ تم جھوٹے ہو یہ بات کہہ کر ان سے اپنی بےتعلقی ظاہر کردیں گے۔ علامہ قرطبی (رض) اپنی تفسیر ص ١٦٣ ج ١٠ میں لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ بتوں کو بولنے کی قوت عطا فرمائے گا اور وہ یوں کہیں گے کہ تم نے جو ہمارے بارے میں معبود ہونے کا عقیدہ بنایا اس میں تم جھوٹے ہو ہم معبود نہیں تھے ہم تو معبود حقیقی کی مخلوق تھے اور عاجز محض تھے ہم نے تمہیں اپنی عبادت کا حکم نہیں دیا تھا، کافروں کو رسوا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ بتوں کو زبان دے دے گا جب یہ کفار عذاب دیکھیں گے اور عذاب سے بچنے کا کوئی راستہ نہ پائیں گے تو فرمانبرداری کی باتیں کرنے لگیں گے اور یوں کہیں گے کہ اے رب جو کچھ حکم ہو ہم کرنے کے لیے تیار ہیں ہمیں عذاب سے محفوظ کردیا جائے، دنیا میں جب انہیں توحید کی دعوت دی جاتی تھی تو کفر و شرک کی باتیں کرتے تھے اور انہیں ضد تھی کہ حق قبول نہ کریں گے، حضرات انبیائے کرام (علیہ السلام) کو بھی جھٹلاتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی طرف ایسی باتیں منسوب کرتے تھے جن سے وہ پاک ہے، ساری باتیں اس دن گم ہوجائیں گی اور توبہ کا بھی موقع نہ دیا جائے گا قبول ایمان اور توبہ کا موقع دنیا میں تھا جسے پیچھے چھوڑ آئے۔ جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ کی راہ سے روکا وہ مبتلائے عذاب ہوں گے اور ان کے فساد پھیلانے کی وجہ سے ان کو عذاب دیا جائے گا ایک عذاب کفر پر دوسرا عذاب فساد کرنے پر قال صاحب الروح ای زدناھم عذابا فوق العذاب الذی یستحقونہ بکفرھم بسبب استمرارھم علی الافساد وھو الصدعن السبیل صاحب روح المعانی فرماتے ہیں یعنی اپنے کفر کی وجہ سے وہ جس عذاب کے مستحق تھے اس سے اوپر اور عذاب دیا فساد پر ان کے اصرار کی وجہ سے اور ان کا فساد راہ حق سے لوگوں کو روکنا ہے۔ (ص ٢١٢ ج ١٤) آخر میں فرمایا ہم ہر جماعت میں سے ایک گواہ قائم کریں گے جو انہیں میں سے ہوگا اور ان پر گواہی دے گا، یہ ہر امت کا نبی ہوگا اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی اپنی امت پر گواہ بنایا جائے گا، آپ ان کا تزکیہ فرمائیں گے، کہ میری امت گواہی دینے کے لائق ہے، شاہد عدل ہے (کما مر فی البقرۃ) اور بعض مفسرین نے فرمایا کہ ھولاء سے حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) مراد ہیں وہ حضرات اپنی اپنی امتوں کے بارے میں گواہی دیں گے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کے بارے میں گواہی دیں گے کہ ان حضرات کی گواہی حق ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

68:۔ تخویف اخروی ہے۔ یہ ماقبل سے متعلق ہے یعنی دنیا میں ماننے پر نہیں آتے قیامت کے دن جب تمام امتیں احکم الحاکمین کی عدالت میں حاضر ہوں گی تو ہر امت کا رسول بطور گواہ پیش ہو کر اپنی امت کے نیک و بد کے بارے میں بیان دے گا کہ اس نے دعوت حق کے ساتھ کیسا سلوک کیا، اس دن ان منکرین کو اپنی صفائی پیش کرنے کے لیے لب کشائی کی اجازت نہ ہوگی اور نہ ان سے توبہ کا مطالبہ کیا جائے گا۔ ” و اذا را الذین الخ “ انبیاء (علیہم السلام) کی گواہی کے بعد مشرکین کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ پھر نہ ان کے عذاب میں کچھ تخفیف ہوگی اور نہ انہیں عذاب میں داخل کرنے سے پہلے کچھ مہلت دیجائے گی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

84 ۔ اور وہ دن قابل ذکر ہے جس دن ہم ہر ایک امت میں سے ایک گواہ اٹھا کھڑا کردیں گے پھر ان لوگوں کو جنہوں نے کفر کا شیوہ اختیار کر رکھا ہے نہ تو بولنے کی اور معذرت کرنے کی اجازت دی جائیگی اور نہ اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے اور راضی کرنے کی ان سے خواہش کی جائیگی ۔ یعنی ہر امت کے پیغمبرکو شہادت کیلئے طلب کیا جائیگا تا کہ وہ اپنی اپنی امت کے اعمال سیہ پر گواہی دے پھر نہ منکروں کو بولنے کا حق ہوگا نہ ان سے یہ کہا جائے گا کہ توبہ کرلو یا کوئی اچھا عمل کر کے اللہ تعالیٰ کو راضی کرلو کیونکہ وہ دارالجزا ہے دارالعمل نہیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں حکم نہ ملے یعنی بولنے کا۔ 12