Surat un Nahal

Surah: 16

Verse: 88

سورة النحل

اَلَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ صَدُّوۡا عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ زِدۡنٰہُمۡ عَذَابًا فَوۡقَ الۡعَذَابِ بِمَا کَانُوۡا یُفۡسِدُوۡنَ ﴿۸۸﴾

Those who disbelieved and averted [others] from the way of Allah - We will increase them in punishment over [their] punishment for what corruption they were causing.

جنہوں نے کفر کیا اور اللہ کی راہ سے روکا ہم انہیں عذاب پر عذاب بڑھاتے جائیں گے یہ بدلہ ہوگا ان کی فتنہ پردازیوں کا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

الَّذِينَ كَفَرُواْ وَصَدُّواْ عَن سَبِيلِ اللّهِ زِدْنَاهُمْ عَذَابًا ... ... فَوْقَ الْعَذَابِ بِمَا كَانُواْ يُفْسِدُونَ Those who disbelieved and tried to obstruct the path of Allah, for them We will add torment, meaning one punishment for their disbelief and another punishment for turning others away from following the truth, as Allah says: وَهُمْ يَنْهَوْنَ عَنْهُ وَيَنْأَوْنَ عَنْهُ And they prevent others from him and they themselves keep away from him. (6:26) meaning they forbade others to follow him and they themselves shunned him, but: وَإِن يُهْلِكُونَ إِلاَّ أَنفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ they destroyed only themselves, while they do not realize it. This is evidence that there will be varying levels of punishment for the disbelievers, just as there will be varying degrees of Paradise for the believers, as Allah says: قَالَ لِكُلٍّ ضِعْفٌ وَلَـكِن لاَّ تَعْلَمُونَ For each one there is double (torment), but you know not. (7:38)

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

88۔ 1 جس طرح جنت میں اہل ایمان کے درجات مختلف ہوں گے، اسی طرح جہنم میں کفار کے عذاب میں فرق ہوگا جو گمراہ ہونے کے ساتھ دوسروں کی گمراہی کا سبب بنے ہونگے، ان کا عذاب دوسروں کی نسبت شدید تر ہوگا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٩] کیونکہ وہ دوہرے تہرے مجرم ہیں۔ ایک یہ کہ خود اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار کیا اور اس کی مخالفت کرتے رہے۔ دوسرے مختلف طرح کے حیلوں بہانوں سے دوسرے لوگوں کو حق قبول کرنے کی راہ میں رکاوٹ بنے رہے۔ ایمان لانے والوں پر ظلم و تشدد کرتے رہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَلَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَصَدُّوْا ۔۔ : ان لوگوں کو ہم عذاب پر عذاب زیادہ کرتے جائیں گے، کیونکہ وہ دوہرے مجرم ہوں گے۔ ایک عذاب ان کے کفر کی وجہ سے اور ایک دوسروں کو اللہ کی راہ، یعنی اسلام سے روکنے کی وجہ سے۔ ان کے گمراہ کردہ لوگوں کو جتنا عذاب ہوگا، ان کے اپنے عذاب کے ساتھ وہ بھی شامل ہوجائے گا، بلکہ قیامت تک ان کے گمراہ کردہ لوگوں کی جد و جہد کے نتیجے میں جب بھی کوئی گمراہ ہوگا، تو اس کو دیے جانے والے عذاب جتنا عذاب ان سب لوگوں کے عذاب میں بھی بڑھا دیا جائے گا جو اس کی گمراہی کا باعث بنے۔ یہ آیت بھی دلیل ہے کہ اہل جہنم کے عذاب کے لحاظ سے کئی درجے ہوں گے۔ اَلَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَصَدُّوْا : اس فساد کی وجہ سے جو وہ پھیلاتے رہے اور اپنے ساتھ کئی دوسروں کو بھی لے ڈوبے، جیسے ناحق قتل کی رسم کی ابتدا کرنے والا آدم (علیہ السلام) کا بیٹا تھا۔ مزید وضاحت کے لیے دیکھیے سورة مائدہ (٣٢) ، سورة اعراف (٣٨) اور سورة عنکبوت ( ١٢، ١٣) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَصَدُّوْا عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ زِدْنٰهُمْ عَذَابًا فَوْقَ الْعَذَابِ بِمَا كَانُوْا يُفْسِدُوْنَ 88؀ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ صدد الصُّدُودُ والصَّدُّ قد يكون انصرافا عن الشّيء وامتناعا، نحو : يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً ، [ النساء/ 61] ، وقد يكون صرفا ومنعا نحو : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل/ 24] ( ص د د ) الصدود والصد ۔ کبھی لازم ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے رو گردانی اور اعراض برتنے کے ہیں جیسے فرمایا ؛يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً ، [ النساء/ 61] کہ تم سے اعراض کرتے اور کے جاتے ہیں ۔ اور کبھی متعدی ہوتا ہے یعنی روکنے اور منع کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل/ 24] اور شیطان نے ان کے اعمال ان کو آراستہ کردکھائے اور ان کو سیدھے راستے سے روک دیا ۔ سبل السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] ( س ب ل ) السبیل ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] دریا اور راستے ۔ زاد الزِّيادَةُ : أن ينضمّ إلى ما عليه الشیء في نفسه شيء آخر، يقال : زِدْتُهُ فَازْدَادَ ، وقوله وَنَزْداد كَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف/ 65] ( زی د ) الزیادۃ اس اضافہ کو کہتے ہیں جو کسی چیز کے پورا کرنے کے بعد بڑھا جائے چناچہ کہاجاتا ہے ۔ زدتہ میں نے اسے بڑھا یا چناچہ وہ بڑھ گیا اور آیت :۔ وَنَزْدادُكَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف/ 65] اور ( اس کے حصہ کا ) ایک بار شتر غلہ اور لیں گے ۔ فوق فَوْقُ يستعمل في المکان، والزمان، والجسم، والعدد، والمنزلة، وذلک أضرب : الأول : باعتبار العلوّ. نحو : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة/ 63] ، مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ [ الزمر/ 16] ، وَجَعَلَ فِيها رَواسِيَ مِنْ فَوْقِها [ فصلت/ 10] ، ويقابله تحت . قال : قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ [ الأنعام/ 65] الثاني : باعتبار الصّعود والحدور . نحو قوله :إِذْ جاؤُكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ [ الأحزاب/ 10] . الثالث : يقال في العدد . نحو قوله : فَإِنْ كُنَّ نِساءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ [ النساء/ 11] . الرابع : في الکبر والصّغر مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] . الخامس : باعتبار الفضیلة الدّنيويّة . نحو : وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ [ الزخرف/ 32] ، أو الأخرويّة : وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ البقرة/ 212] ، فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ آل عمران/ 55] . السادس : باعتبار القهر والغلبة . نحو قوله : وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام/ 18] ، وقوله عن فرعون : وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف/ 127] ( ف و ق ) فوق یہ مکان ازمان جسم عدد اور مرتبہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے اور کئی معنوں میں بولا جاتا ہے اوپر جیسے فرمایا ۔ وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة/ 63] اور کوہ طور کو تم پر اٹھا کھڑا کیا ۔ مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ [ الزمر/ 16] کے اوپر تو آگ کے سائبان ہوں گے ۔ وَجَعَلَ فِيها رَواسِيَ مِنْ فَوْقِها [ فصلت/ 10] اور اسی نے زمین میں اس کے پہاڑ بنائے ۔ اس کی ضد تحت ہے جس کے معنی نیچے کے ہیں چناچہ فرمایا ۔ قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ [ الأنعام/ 65] کہ وہ اس پر بھی قدرت رکھتا ہے کہ تم پر اوپر کی طرف سے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے عذاب بھیجے ۔ 2 صعود یعنی بلند ی کی جانب کے معنی میں اس کی ضدا سفل ہے جس کے معنی پستی کی جانب کے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ إِذْ جاؤُكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ [ الأحزاب/ 10] جب وہ تمہارے اوپر اور نیچے کی جانب سے تم پر چڑھ آئے ۔ 3 کسی عدد پر زیادتی کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَإِنْ كُنَّ نِساءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ [ النساء/ 11] اگر اولاد صرف لڑکیاں ہی ہوں ( یعنی دو یا ) دو سے زیادہ ۔ 4 جسمانیت کے لحاظ سے بڑا یا چھوٹا ہونے کے معنی دیتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] مچھر یا اس سے بڑھ کر کسی چیز مثلا مکھی ۔ مکڑی کی مثال بیان فرمائے ۔ 5 بلحاظ فضیلت دنیوی کے استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا ۔ وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ [ الزخرف/ 32] اور ایک دوسرے پر درجے بلند کئے ۔ اور کبھی فضلیت اخروی کے لحاظ سے آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ البقرة/ 212] لیکن جو پرہیز گار ہیں وہ قیامت کے دن ان پر پر فائق ہوں گے ۔ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ آل عمران/ 55] کافروں پر فائق ۔ 6 فوقیت معنی غلبہ اور تسلط کے جیسے فرمایا : ۔ وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام/ 18] اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے ۔ وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف/ 127] فرعون سے اور بےشبہ ہم ان پر غالب ہیں ۔ فسد الفَسَادُ : خروج الشیء عن الاعتدال، قلیلا کان الخروج عنه أو كثيرا،. قال تعالی: لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون/ 71] ، ( ف س د ) الفساد یہ فسد ( ن ) الشئی فھو فاسد کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کے حد اعتدال سے تجاوز کر جانا کے ہیں عام اس سے کہ وہ تجاوز کم ہو یا زیادہ قرآن میں ہے : ۔ لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون/ 71] تو آسمان و زمین ۔۔۔۔۔ سب درہم برہم ہوجائیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٨) جو لوگ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم کا انکار کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی دین الہی اور اطاعت خداوندی سے منع کرتے ہیں تو ہم دوزخ کے عذاب میں سانپوں، بچھوؤں، بھوک اور پیاس اور زمہریر وغیرہ کی اور ان پر زیادتی کردیں گے، بمقابلہ ان کی نافرمانیوں اور ان کے اقوال وافعال شرکیہ کے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨٨ (اَلَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَصَدُّوْا عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ زِدْنٰهُمْ عَذَابًا فَوْقَ الْعَذَابِ بِمَا كَانُوْا يُفْسِدُوْنَ ) ان لوگوں کا عذاب بتدریج بڑھتا ہی چلا جائے گا جنہوں نے نہ صرف حق کو جھٹلایا بلکہ اس کے خلاف سازشیں کیں اور لوگوں کو ورغلا کر اللہ کے رستے سے روکتے رہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

85. “We will increase punishment over punishment”: one for their own disbelief and the other for hindering others from the Way of Allah.

سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :85 یعنی ایک عذاب خود کفر کرنے کا اور دوسرا عذاب دوسروں کو راہ خدا سے روکنے کا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٨٨۔ علماء مفسرین نے اس میں بڑا اختلاف کیا ہے کہ وہ عذاب پر عذاب جو زیادہ دیا جاوے گا جس کا ذکر اس آیت میں ہے وہ کس قسم کا عذاب ہوگا لیکن اوپر حضرت ابوہریرہ (رض) کی حدیث صحیح مسلم کی روایت سے بیان ہوچکی ہے کہ جو کوئی شخص کوئی راستہ نیک نکالے تو اس نیک راستہ پر جتنے لوگ دنیا میں عمل کریں گے جس قدر اجر ان عمل کرنے والوں کو ملے گا اتنا ہی اجر نیک راستہ نکالنے والوں کو ملے گا اسی طرح جو کوئی شخص دنیا میں کوئی برا طریقہ ایجاد کرے گا تو جس قدر لوگ اس برے طریقہ پر چلیں گے جتنا عذاب ان کو ہوگا اتنا ہی عذاب برا رستہ نکالنے والے پر ہوگا ١ ؎۔ اس حدیث سے صاف معلوم ہوگیا کہ ہر نیکی اور بدی کا ثواب و عذاب اللہ کی بارگاہ میں مقرر ہے اس صورت میں آیت کی تفسیر میں اختلاف کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے بلکہ اس صحیح مسلم کی حدیث کے معنے و تفسیر آیت کے یہ ہیں کہ جو کوئی خود برا کام کرے گا اس کو جو سزا اس برے کام کی مقرر ہے وہ ملے گی اور جو کوئی برا کام کر کے دوسرے شخص کو کسی نیک کام سے روکے گا اور باز رکھے گا اس باز رہنے والے شخص کو جو سزا ہوگی اس قدر اس باز رکھنے والے کو بھی ہوگی مثلاً زید نے فرض نماز ترک کردی تو تارک الصلوٰۃ کی سزا زید کو ہوگی اور خالد نے خود فرض نماز چھوڑ دی اور حامد کو بہکا کر اس کا روزہ چھڑوا دیا تو خالد کو تارک الصلوٰۃ اور تارک صوم دونوں شخصوں کی سزا ہوگی اور حامد کو فقط تارک صوم کی جو سزا ہے وہی ہوگی صحیح مسلم میں سمرہ بن جندب (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ دوزخ کی آگ بعضے لوگوں کو ٹخنوں تک جلاوے گی اور بعضوں کو گھٹنوں تک اور بعضوں کو کمر تک اور بعضوں کو گردن تک ٢ ؎ سوا اس کے اور صحیح حدیثوں میں ہے جن کا حاصل یہ ہے کہ اہل جنت اور اہل دوزخ کے درجے ہیں اور یہ درجہ ہر نیکی اور بدی کی جزا و سزا ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ خود بہکنا اور دوسروں کو بہکانا یہ دو گناہ ہیں دونوں گناہ ہونگے گنہگاروں کو دوہری سزا دی جاوے گی اور اس دوہری سزا کے مناسب حال و دوزخ کے درجہ میں ایسے لوگوں کو رکھا جاوے گا۔ ١ ؎ صحیح مسلم ص ٣٤١ ج ٢ باب من سن سنتہ سنتہ او سینتہ الخ۔ ٢ ؎ مشکوٰۃ ص ٥٠٢ باب صفتہ النار واہلہا۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(16:88) صدوا۔ ماضی جمع مذکر غائب۔ انہوں نے روکا۔ صد وصدود مصدر انہوں نے (دوسروں کو) روکا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 کیونکہ ان کا جرم بھی اسی نوعیت کا ہوگا۔ انہیں ایک عذاب تو خود کافر رہنے کا دیا جائے گا اور دوسرا عذاب اس چیز کا کہ انہوں نے دوسروں کو بہکایا اور انہیں اللہ کی راہ سے روکا۔ (قرطبی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

الذین کفروا وصدوا عن سبیل اللہ زدنھم عذابا فوقا العذاب بما کانوا یفسدون (٦١ : ٨٨) ” جن لوگوں نے خود کفر کی راہ اختیار کی اور دوسروں کو اللہ کی راہ سے روکا ، انہیں ہم عذاب پر عذاب دیں گے۔ اس فساد کے بدلے جو دنیا میں وہ برپا کرتے تھے۔ بیشک کفر بذات خود ایک فساد ہے ، دوسرے کو کافر بنانا بہت بڑا فساد ہے۔ انہوں نے اپنے کفر کے جرم کا بھی ارتکاب کیا اور دوسروں کو بھی ہدایت سے روکا۔ اس لئے ان کا عذاب دگنا کردیا گیا۔ یہی ان کے جرم کا پورا بدلہ ہے۔ یہ معامہ تمام اقوام کا ہوگا لیکن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قوم کا معاملہ یوں ہوگا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

88 ۔ اور جو لوگ خود کفر کے مرتکب ہوئے اور دوسرے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی راہ سے روکتے رہے ہم ان کے لئے سزا پر سزا بڑھا دینگے اس شرارت کے بدلے میں جو وہ کیا کرتے تھے۔ یعنی ان کے ایک کفر کی سزا پر دوسری ان کی شرارت اور فساد انگیزی کی سزا کا اضافہ کردیں گے۔ اعادنا الہ منہ ۔