Surat un Nahal

Surah: 16

Verse: 92

سورة النحل

وَ لَا تَکُوۡنُوۡا کَالَّتِیۡ نَقَضَتۡ غَزۡلَہَا مِنۡۢ بَعۡدِ قُوَّۃٍ اَنۡکَاثًا ؕ تَتَّخِذُوۡنَ اَیۡمَانَکُمۡ دَخَلًۢا بَیۡنَکُمۡ اَنۡ تَکُوۡنَ اُمَّۃٌ ہِیَ اَرۡبٰی مِنۡ اُمَّۃٍ ؕ اِنَّمَا یَبۡلُوۡکُمُ اللّٰہُ بِہٖ ؕ وَ لَیُبَیِّنَنَّ لَکُمۡ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ مَا کُنۡتُمۡ فِیۡہِ تَخۡتَلِفُوۡنَ ﴿۹۲﴾

And do not be like she who untwisted her spun thread after it was strong [by] taking your oaths as [means of] deceit between you because one community is more plentiful [in number or wealth] than another community. Allah only tries you thereby. And He will surely make clear to you on the Day of Resurrection that over which you used to differ.

اور اس عورت کی طرح نہ ہوجاؤ جس نے اپنا سوت مضبوط کاتنے کے بعد ٹکڑے ٹکڑے کرکے توڑ ڈالا کہ تم اپنی قسموں کو آپس کے مکر کا باعث ٹھہراؤ اس لئے کہ ایک گروہ دوسرے گروہ سے بڑھا چڑھا ہو جائے بات صرف یہی ہے کی اس عہد سے اللہ تمہیں آزما رہا ہے ۔ یقیناً اللہ تعالٰی تمہارے لئے قیامت کے دن ہر اس چیز کو کھول کر بیان کر دے گا جس میں تم اختلاف کر رہے تھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَلاَ تَكُونُواْ كَالَّتِي نَقَضَتْ غَزْلَهَا مِن بَعْدِ قُوَّةٍ أَنكَاثًا ... And do not be like the one who undoes the thread which she has spun, after it has become strong, Abdullah bin Kathir and As-Suddi said: "This was a foolish woman in Makkah. Every time she spun thread and made it strong, she would undo it again." Mujahid, Qatadah and Ibn Zayd said: "This is like the one who breaks a covenant after confirming it." This view is more correct and more apparent, whether or not there was a woman in Makkah who undid her thread after spinning it. The word Ankathan could be referring back to the word translated as "undoes", reinforcing the meaning, or it could be the predicate of the verb "to be", meaning, do not be Ankathan, the plural of Nakth (breach, violation), from the word Nakith (perfidious). Hence after this, Allah says: ... تَتَّخِذُونَ أَيْمَانَكُمْ دَخَلً بَيْنَكُمْ ... by taking your oaths as a means of deception among yourselves, meaning for the purposes of cheating and tricking one another. ... أَن تَكُونَ أُمَّةٌ هِيَ أَرْبَى مِنْ أُمَّةٍ ... when one group is more numerous than another group. meaning, you swear an oath with some people if they are more in number than you, so that they can trust you, but when you are able to betray them you do so. Allah forbids that, by showing a case where treachery might be expected or excused, but He forbids it. If treachery is forbidden in such a case, then in cases where one is in a position of strength it is forbidden more emphatically. Mujahid said: "They used to enter into alliances and covenants, then find other parties who were more powerful and more numerous, so they would cancel the alliance with the first group and make an alliance with the second who were more powerful and more numerous. This is what they were forbidden to do." Ad-Dahhak, Qatadah and Ibn Zayd said something similar. ... إِنَّمَا يَبْلُوكُمُ اللّهُ بِهِ ... Allah only tests you by this, Sa`id bin Jubayr said: "This means (you are tested) by the large numbers." This was reported by Ibn Abi Hatim. Ibn Jarir said: "It means (you are being tested) by His command to you to adhere to your covenants." ... وَلَيُبَيِّنَنَّ لَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ And on the Day of Resurrection, He will certainly clarify that which you differed over. Everyone will be rewarded or punished in accordance with his deeds, good or evil.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

92۔ 1 یعنی مؤکد بہ حلف عہد کو توڑ دینا ایسا ہی ہے جیسے کوئی عورت سوت کاتنے کے بعد اسے خود ہی ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے۔ یہ تمثیل ہے۔ 92۔ 2 یعنی دھوکہ اور فریب دینے کا ذریعہ بناؤ۔ 92۔ 3 جب تم دیکھو کہ اب تم زیادہ ہوگئے ہو تو اپنے گمان سے حلف توڑ دو ، جب کہ قسم اور معاہدے کے وقت وہ گروہ کمزور تھا، لیکن کمزوری کے باوجود وہ مطمئن تھا کہ معاہدے کی وجہ سے ہمیں نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔ لیکن تم عذر اور نقص عہد کر کے نقصان پہنچاؤ۔ زمانہء جایلیت میں اخلاقی پستی کی وجہ سے اس قسم کی عہد شکنی عام تھی، مسلمانوں کو اس اخلاقی پستی سے روکا گیا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٥] معاہدوں کو توڑنے کی ممانعت :۔ مکہ میں ایک دیوانی عورت رہتی تھی جس کا نام خرقاء (توڑ پھوڑ دینے والی) پڑگیا تھا۔ دن بھر سوت کا تتی رہتی پھر اسے توڑ پھوڑ کر پھینک دیتی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ تفسیر سورة نحل) اللہ تعالیٰ نے اس عورت کی مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ تم اپنے باہمی معاہدات کو کچے دھاگے کی طرح نہ سمجھو کہ جب چاہا اپنا معاہدہ توڑ دیا اور اس عورت کی طرح دیوانے نہ بنو۔ عرب کے کافر قبیلوں کا یہ حال تھا کہ ایک قبیلے سے دوستی کا عہد کرتے اور قسمیں کھاتے۔ پھر دوسرے قبیلے کو اس سے زبردست پا کر پہلا عہد توڑ ڈالتے اور اس قبیلے سے عہد کرلیتے اور بعض قبیلوں نے مسلمانوں سے بھی ایسا ہی معاملہ کیا۔ پہلے ان سے دوستی کا عہد باندھا پھر کسی وقت قریش مکہ کا پلہ بھاری دیکھا تو مسلمانوں سے عہد شکنی کرکے ان سے دوستی کرلی۔ مسلمانوں کو اس قسم کی مفاد پرستیوں سے سختی سے روک دیا گیا۔ اور آج کل صورت حال یہ ہے کہ موجودہ سیاست کا دارومدار ہی مفاد پرستی پر ہے جو کام اس دور کے کافر قبیلے کرتے تھے وہی کام آج کل کی مہذب حکومتیں کر رہی ہیں اور اس لحاظ سے ان کافر قبیلوں سے بھی آگے بڑھ گئی ہیں کہ ان کے علانیہ معاہدے تو اور قسم کے ہوتے ہیں اور خفیہ معاہدے بالکل جداگانہ اور علانیہ معاہدوں کے متضاد ہوتے ہیں۔ گویا موجودہ دور کی کامیاب سیاست میں عہد شکنی کے علاوہ منافقت کا عنصر بھی شامل ہے اور ایسی چالبازیوں کو آج کی زبان میں && ڈپلومیسی && کہا جاتا ہے اور ان کی ایسی عہد شکنی اور منافقت کو معیوب سمجھنے کے بجائے کامیاب سیاست سمجھا جاتا ہے اور قومیں اپنے ایسے بددیانت لیڈروں کی حوصلہ افزائی کرتی اور انھیں کامیاب لیڈرسمجھتی ہیں اور مسلمان ممالک سے تو بالخصوص آجکل یہی کچھ ہو رہا ہے۔ ظاہراً ان سے دوستی کی پینگیں بڑھائی جاتی ہیں جبکہ اندرون خانہ ان کے استیصال میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا جاتا۔ اور مسلمان ممالک اللہ پر عدم توکل اور اپنی نااہلی کی وجہ سے ان مہذب قوموں سے مدتوں سے دھوکے پر دھوکہ کھاتے چلے جا رہے ہیں۔ مگر انھیں یہ توفیق نصیب نہیں ہوتی کہ اپنے اختلاف چھوڑ کر اور متحد ہو کر ان کافر حکومتوں کے سامنے ڈٹ جائیں۔ جمہوریت اور لوٹا ازم :۔ یہ تو موجودہ حکومتوں کا حال ہے۔ افراد کا حال بھی اس سے کچھ مختلف نہیں۔ آج کل جمہوریت اور اسمبلیوں کا دور دورہ ہے۔ اسمبلیوں کے منتخب شدہ ممبر اپنے مفادات کی خاطر فوراً سابقہ سیاسی جماعت سے اپنی وفاداریاں توڑ کر حزب اقتدار میں چلے جاتے ہیں۔ آج کی سیاسی اصطلاح میں انھیں && لوٹے && کہا جاتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس قسم کے بےاصول لوگ اور بےدین لوگ بےپیندے لوٹوں کی طرح ہوتے ہیں کہ جدھر اپنا مفاد دیکھا یا کچھ نقد رقم وصول کی فوراً ادھر لڑھک گئے۔ اپنے معاہدے کا انھیں کچھ پاس نہیں ہوتا۔ [٩٦] دنیوی اور دینی مفادات سے بےنیاز ہو کر عہد کو نبھانا چاہئے :۔ یہ آزمائش اس بات میں ہے کہ آیا تم اپنے مفادات سے بےنیاز ہو کر اپنے معاہدہ کے پابند رہتے ہو یا نہیں۔ یہ مفادات خواہ دنیوی ہوں یا دینی۔ کسی صورت میں بھی ایک مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ عہد شکنی کرے۔ اسلام اور مسلمانوں کے مفادات عہد کی پاسداری میں آڑے نہیں آسکتے۔ عہد کی پاسداری کی بہترین مثال وہ واقعہ ہے جو غزوہ بدر کے میدان میں پیش آیا۔ دو مسلمان حذیفہ بن یمان اور ابو حسیل آپ کے پاس جنگ میں شمولیت کے لیے آئے اور ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ ہم کافروں کے ہتھے چڑھ گئے اور ہمیں ان سے رہائی اس شرط پر ملی تھی کہ ہم جنگ میں حصہ نہ لیں۔ چناچہ آپ نے ان دونوں کو یہ کہہ کر واپس کردیا کہ جب تم ان سے عہد کرچکے ہو تو اپنا عہد پورا کرو۔ (مسلم۔ کتاب الجہادو السیر۔ باب الوفا بالعہد) حالانکہ اس وقت آپ کو افرادی قوت کی شدید ضرورت بھی تھی۔ اور مذہبی مفادات کے نام پر عہد شکنی کرنے اور دوسرے کا ہر جائز و ناجائز طریقے سے مال ہضم کرنے والے یہود تھے جنہوں نے اپنا اصول ہی یہ بنا لیا کہ (لَيْسَ عَلَيْنَا فِي الْاُمِّيّٖنَ سَبِيْلٌ 75؀) 3 ۔ آل عمران :75) (یعنی غیر یہودی سے ہم جو کچھ بھی کرلیں ہمیں اس پر کچھ مؤاخذہ نہ ہوگا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّتِيْ نَقَضَتْ غَزْلَهَا مِنْۢ بَعْدِ قُوَّةٍ اَنْكَاثًا ۔۔ : ” غَزْلٌ“ مصدر بمعنی مفعول ہے، فعل ” غَزَلَ یَغْزِلُ “ (ض) آتا ہے، روئی یا اون کا سوت (دھاگا) بنانا۔ ” اَنْكَاثًا “ ” نِکْثٌ“ (نون کے کسرہ کے ساتھ) کی جمع ہے، ٹکڑے۔ 3 یہ ایک تشبیہ ہے جو قسموں کو پختہ کرنے کے بعد ان کو توڑنے والوں کے لیے بیان کی گئی ہے، ضروری نہیں کہ ایسی عورت کہیں پائی بھی گئی ہو، جو عورت بھی ایسا کرے گی اسے یہی کہا جائے گا کہ یہ کتنی احمق ہے۔ اسی طرح قسمیں توڑنے والوں کا حال بھی اس عورت کا سا ہے، اگرچہ ابن جریر اور ابن ابی حاتم کی بعض روایات میں ہے کہ مکہ میں ایک پاگل عورت تھی جو سوت کا تتی تھی اور پھر اسے بٹ کر ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالتی تھی۔ تَتَّخِذُوْنَ اَيْمَانَكُمْ دَخَلًۢا ۔۔ : ” دَخَلًۢا “ سے مراد دھوکا، فریب اور کھوٹ ہے۔ اصل میں ” دَخَلًۢا “ اس چیز کو کہتے ہیں جو دوسری چیز میں داخل کردی جائے، جب کہ وہ اس میں سے نہ ہو، مثلاً چائے کی پتی میں چنے کے چھلکے ملا دیے جائیں۔ ” اَرْبٰى“ ” رَبَا یَرْبُوْ “ (ن) سے اسم تفضیل ہے، کسی چیز کا زیادہ ہونا، بڑھنا۔ 3 یعنی کسی گروہ سے اس لیے بدعہدی نہ کرو کہ جب تم نے عہد باندھا اس وقت تم کمزور تھے اور وہ گروہ طاقتور تھا اور اب تم طاقتور اور وہ کمزور ہوگیا ہے، یا اب تمہیں اس سے زیادہ طاقتور کوئی دوسرا حلیف مل گیا ہے، جیسا کہ اہل جاہلیت کرتے تھے۔ (شوکانی، قرطبی) اور جیسا کہ اس زمانے میں اہل مغرب بلکہ تمام کفار کا عام دستور ہے۔ اِنَّمَا يَبْلُوْكُمُ اللّٰهُ بِهٖ : کہ تم اپنے عہد پر قائم رہتے ہو یا دوسرے گروہ کو طاقتور یا کمزور پاکر اپنے عہد کا خیال چھوڑ دیتے ہو۔ (قرطبی)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In verse 92: أَن تَكُونَ أُمَّةٌ هِيَ أَرْ‌بَىٰ مِنْ أُمَّةٍ (merely because a group is higher [ in number and wealth ] than the other), Muslims have been ordered that they should not break the pact they enter into with a group simply for the sake of worldly interests and gains. For example, they may come to think that the group or party with which they have entered into a pact is weak and few in numbers, or lacks financial backing, while the other group or party abounds in numbers and strength, or is wealthy. Now, if they are tempted to join the party having power and wealth in the hope of better gains from them, this breaking of the pledge given to the first party is not permissible. Rather than do something like that, one should stay by the pledge given and let all gains and losses rest with Allah Ta` ala. However, if the group or party with which one has entered into a pact commits or commissions acts contrary to the dictates of Islamic re¬ligious law, then, it is necessary to break that pledge - subject to the con¬dition that they be clearly forewarned that Muslims will not be bound by that pact anymore - as stated in the verse: فَانبِذْ إِلَيْهِمْ عَلَىٰ سَوَاءٍ (then, throw [ the treaty ] towards them being right forward - 8:58). At the conclusion of the verse, the given situation has been identified as a device to test Muslims whereby Allah Ta’ ala tries them to deter-mine if they would obey the desires of their self and break the solemn pledge, or go on to sacrifice their selfish motives in obedience to the com-mand of Allah Ta’ ala.

(آیت) اَنْ تَكُوْنَ اُمَّةٌ هِىَ اَرْبٰى مِنْ اُمَّةٍ ۔ اس آیت میں مسلمانوں کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ جس جماعت سے تمہارا معاہدہ ہوجائے اس معاہدہ کو دنیوی اغراض و منافع کے لئے نہ توڑو مثلا تمہیں یہ محسوس ہو کہ جس جماعت یا پارٹی سے معاہدہ ہوا ہے یہ کمزور اور تعداد میں قلیل ہے یا مال کے اعتبار سے مفلس ہے اور اس کے بالمقابل دوسری جماعت کثیر اور قوی ہے یا مال و دولت والی ہے تو صرف اس طمع سے قوی اور مالدار پارٹی میں شامل ہوجانے سے منافع زیادہ ہوں گے پہلی جماعت کا عہد توڑنا جائز نہیں بلکہ اپنے عہد پر قائم رہے اور نفع وضرر کو خدا تعالیٰ کے سپرد کرے البتہ جس جماعت یا پارٹی سے عہد کیا ہے وہ اگر خلاف شرع امور کا ارتکاب کرے اور کرائے تو اس کا عہد توڑ دینا واجب ہے بشرطیکہ واضح طور پر ان کو جتلا دیا جائے کہ ہم اب اس عہد کے پابند نہیں رہیں گے جیسا کہ آیت فانْۢبِذْ اِلَيْهِمْ عَلٰي سَوَاۗءٍ میں مذکور ہے۔ آخر آیت میں مذکورہ صورت حال کو مسلمان کو آزمائش کا ذریعہ بتلایا گیا ہے کہ حق تعالیٰ اس کا امتحان لیتے ہیں کہ یہ اپنے نفس کی اغراض و خواہشات کا تابع ہو کر عہد کو توڑ ڈالتا ہے یا اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں نفسانی جذبات کو قربان کرتا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّتِيْ نَقَضَتْ غَزْلَهَا مِنْۢ بَعْدِ قُوَّةٍ اَنْكَاثًا ۭ تَتَّخِذُوْنَ اَيْمَانَكُمْ دَخَلًۢا بَيْنَكُمْ اَنْ تَكُوْنَ اُمَّةٌ هِىَ اَرْبٰى مِنْ اُمَّةٍ ۭ اِنَّمَا يَبْلُوْكُمُ اللّٰهُ بِهٖ ۭ وَلَيُبَيِّنَنَّ لَكُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ مَا كُنْتُمْ فِيْهِ تَخْتَلِفُوْنَ 92؀ غزل قال تعالی: وَلا تَكُونُوا كَالَّتِي نَقَضَتْ غَزْلَها[ النحل/ 92] ، وقد غَزَلَتْ غَزْلَهَا . والْغَزَالُ : ولد الظّبية، والْغَزَالَةُ : قرصة الشمس، وكني بالغَزْلِ والْمُغَازَلَةِ عن مشافنة «3» المرأة التي كأنها غَزَالٌ ، وغَزِلَ الکلب غَزَلًا : إذا أدرک الْغَزَالَ فلهي عنه بعد إدراکه . ( غ زل ) الغزل ( ض ) کا تے ہوئے سوت کو کہتے ہیں قرآن میں ہے : وَلا تَكُونُوا كَالَّتِي نَقَضَتْ غَزْلَها[ النحل/ 92] اور عورت کی طرح نہ ہونا جس نے اپنا کا تا ہوا سوت ادھیڑ دیا ۔ غزلت غذلا سوت کاتنا اور ہرنی کے بچہ کو غرال کہاجاتا ہے ۔ الغزالۃ سورج کی ٹکیہ اور کنایہ کے طور پر غزل ( س) اور مغازلۃ کے معنی غزال یعنی ہر نوٹے جیسی خوبصورت عورتوں کے ساتھ عشق و محبت اور دلسبتگی کی باتیں کرنا آتے ہیں ۔ غزل الکلب غزالا کتے کا ہر ن کو پاکر اس کسے پیچھے ہٹ جانا ۔ قوی القُوَّةُ تستعمل تارة في معنی القدرة نحو قوله تعالی: خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة/ 63] ( ق وو ) القوۃ یہ کبھی قدرت کے معنی میں اسرعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة/ 63] اور حکم دیا کہ جو کتاب ہم نے تم کو دی اس کو زور سے پکڑے رہو ۔ نكث النَّكْثُ : نَكْثُ الأَكْسِيَةِ والغَزْلِ قَرِيبٌ مِنَ النَّقْضِ ، واستُعِيرَ لِنَقْضِ العَهْدِ قال تعالی: وَإِنْ نَكَثُوا أَيْمانَهُمْ [ التوبة/ 12] ، إِذا هُمْ يَنْكُثُونَ [ الأعراف/ 135] والنِّكْثُ کالنِّقْضِ والنَّكِيثَةُ کالنَّقِيضَةُ ، وكلُّ خَصْلة يَنْكُثُ فيها القومُ يقال لها : نَكِيثَةٌ. قال الشاعر مَتَى يَكُ أَمْرٌ لِلنَّكِيثَةِ أَشْهَد ( ن ک ث ) النکث کے معنی کمبل یا سوت ادھیڑ نے کے ہیں اور یہ قریب قریب نقض کے ہم معنی ہے اور بطور استعارہ عہد شکنی کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنْ نَكَثُوا أَيْمانَهُمْ [ التوبة/ 12] اور اگر اپنی قسمیں توڑ ڈالیں ۔ إِذا هُمْ يَنْكُثُونَ [ الأعراف/ 135] تو وہ عہد توڑ ڈالتے ہیں ۔ النکث والنکثۃ ( مثل النقض والتقضۃ اور نکیثۃ ہر اس مشکل معاملہ کو کہتے ہیں جس میں لوگ عہد و پیمان توڑ ڈالیں شاعر نے کہا ( 437 ) متیٰ یک امر للنکیثۃ اشھد جب کوئی معاملہ عہد شکنی کی حد تک پہنچ جائے تو میں حاضر ہوتا ہون ۔ أخذ الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف/ 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة/ 255] ( اخ ذ) الاخذ ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ { مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ } ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ { لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ } ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔ الأُمّة : كل جماعة يجمعهم أمر ما إمّا دين واحد، أو زمان واحد، أو مکان واحد سواء کان ذلک الأمر الجامع تسخیرا أو اختیارا، وجمعها : أمم، وقوله تعالی: وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثالُكُمْ [ الأنعام/ 38] الامۃ ہر وہ جماعت جن کے مابین رشتہ دینی ہو یا وہ جغرافیائی اور عصری وحدت میں منسلک ہوں پھر وہ رشتہ اور تعلق اختیاری اس کی جمع امم آتی ہے اور آیت کریمہ :۔ { وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُمْ } ( سورة الأَنعام 38) اور زمین پر جو چلنے پھر نے والے ( حیوان ) دو پروں سے اڑنے والے پرند ہیں وہ بھی تمہاری طرح جماعتیں ہیں رَبَا : إذا زاد وعلا، قال تعالی: فَإِذا أَنْزَلْنا عَلَيْهَا الْماءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ [ الحج/ 5] ، أي : زادت زيادة المتربّي، فَاحْتَمَلَ السَّيْلُ زَبَداً رابِياً [ الرعد/ 17] ، فَأَخَذَهُمْ أَخْذَةً رابِيَةً [ الحاقة/ 10] ، وأربی عليه : أشرف عليه، ورَبَيْتُ الولد فَرَبَا من هذا، وقیل : أصله من المضاعف فقلب تخفیفا، نحو : تظنّيت في تظنّنت . اور اسی سے ربا ہے جس کے معنی بڑھنے اور بلند ہونے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَإِذا أَنْزَلْنا عَلَيْهَا الْماءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ [ الحج/ 5] پھر جب ہم اس پر پانی بر سادیتے ہیں تو وہ لہلانے اور ابھرنے لگتی ہے ۔ فَاحْتَمَلَ السَّيْلُ زَبَداً رابِياً [ الرعد/ 17] پھر نالے پر پھولا ہوا اجھاگ آگیا ۔ فَأَخَذَهُمْ أَخْذَةً رابِيَةً [ الحاقة/ 10] تو خدا نے بھی انہیں بڑا سخت پکڑا ۔ اربی علیہ کسی پر بلند ہونا یا کسی کی نگرانی کرنا ۔ ربیت الوالد فربا میں نے بچے کی تربیت کی چناچہ وہ بڑھ گیا ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں ربیت ہے تخفیف کے لئے ایک باء حزف کردی گئی ہے ۔ جیسا کہ تظنیت کہ اصل میں تظننت ہے تحقیقا ایک نون کو یاء سے تبدیل کردیا ہے ۔ بلی يقال : بَلِيَ الثوب بِلًى وبَلَاءً ، أي : خلق، ومنه قيل لمن سافر : بلو سفر وبلي سفر، أي : أبلاه السفر، وبَلَوْتُهُ : اختبرته كأني أخلقته من کثرة اختباري له، وقرئ : هُنالِكَ تَبْلُوا كُلُّ نَفْسٍ ما أَسْلَفَتْ «3» [يونس/ 30] ، أي : تعرف حقیقة ما عملت، ولذلک قيل : بلوت فلانا : إذا اختبرته، وسمّي الغم بلاءً من حيث إنه يبلي الجسم، قال تعالی: وَفِي ذلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ [ البقرة/ 49] ( ب ل ی ) بلی الواب ۔ بلی وبلاء کے معنی کپڑے کا بوسیدہ اور پرانا ہونے کے ہیں اسی سے بلاہ السفرہ ای ابلاہ ۔ کا تج اور ہ ہے ۔ یعنی سفر نے لا غر کردیا ہے اور بلو تہ کے معنی ہیں میں نے اسے آزمایا ۔ گویا کثرت آزمائش سے میں نے اسے کہنہ کردیا اور آیت کریمہ : هُنالِكَ تَبْلُوا كُلُّ نَفْسٍ ما أَسْلَفَتْ «3» [يونس/ 30] وہاں ہر شخص ( اپنے اعمال کی ) جو اس نے آگے بھیجے ہوں گے آزمائش کرلے گا ۔ میں ایک قرآت نبلوا ( بصیغہ جمع متکلم ) بھی ہے اور معنی یہ ہیں کہ وہاں ہم ہر نفس کے اعمال کی حقیقت کو پہنچان لیں گے اور اسی سے ابلیت فلان کے معنی کسی کا امتحان کرنا بھی آتے ہیں ۔ اور غم کو بلاء کہا جاتا ہے کیونکہ وہ جسم کو کھلا کر لاغر کردیتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَفِي ذلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ [ البقرة/ 49] اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے بڑی دسخت آزمائش تھی ۔ الاختلافُ والمخالفة والاختلافُ والمخالفة : أن يأخذ کلّ واحد طریقا غير طریق الآخر في حاله أو قوله، والخِلَاف أعمّ من الضّدّ ، لأنّ كلّ ضدّين مختلفان، ولیس کلّ مختلفین ضدّين، ولمّا کان الاختلاف بين النّاس في القول قد يقتضي التّنازع استعیر ذلک للمنازعة والمجادلة، قال : فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم/ 37] ( خ ل ف ) الاختلاف والمخالفۃ الاختلاف والمخالفۃ کے معنی کسی حالت یا قول میں ایک دوسرے کے خلاف کا لفظ ان دونوں سے اعم ہے کیونکہ ضدین کا مختلف ہونا تو ضروری ہوتا ہے مگر مختلفین کا ضدین ہونا ضروری نہیں ہوتا ۔ پھر لوگوں کا باہم کسی بات میں اختلاف کرنا عموما نزاع کا سبب بنتا ہے ۔ اس لئے استعارۃ اختلاف کا لفظ نزاع اور جدال کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم/ 37] پھر کتنے فرقے پھٹ گئے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے (ولا تکونوا کالتی نقضت غزلھا من بعد قو ۃ انکاتاً تمہاری حالت اس عورت کی سی نہ ہوجائے جس نے آپ ہی محنت سے سوت کاتا اور پھر آپ ہی اسے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا) آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو جو تقرب الٰہی کی نیت سے اپنے اوپر کوئی نیکی اور عبادت لازم کرلے اور پھر اسے فسخ کر کے پورا نہ کرے اس عورت کے ساتھ تشبیہ دی ہے جو اون یا کسی قسم کی کوئی اور شے کات کر دھاگا بنائے اور پھر اسے اچھی طرح کات لینے کے بعد ٹکڑے ٹکڑے کو ڈالے۔ قول باری (من بعد قوۃ) کا یہی مفہوم ہے اس لئے کہ عرب کے لوگ مضبوطی کے ساتھ سوت یا اون کاتنے کا نام دیتے ہیں۔ اس لئے جو شخص اپنے اوپر کوئی چیز لازم کرے یا کوئی عبادت واجب کرلے یا اسے شروع کرلے اور پھر اسے مکمل نہ کرے تو اس کی حالت اس عورت کی طرح ہوجائے گی جو محنت اور مضبوطی سے سوت یا اون کاتنے کے بعد اسے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالتی ہے۔ یہ بات اس امر کی موجب ہے کہ جو شخص نفل نماز یا نفلی روزہ یا اسی قسم کی کوئی عبادت شروع کردے تو اسے مکمل کرنے سے پہلے اسے چھوڑ دینا جائز نہیں ہوگا ورنہ اس کی حیثیت اس عورت جیسی ہوجائے گی جس نے آپ ہی محنت سے سوت کاتا اور پھر آپ ہی اسے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٩٢) اور تم عہد شکنی کرکے رائطہ نامی دیوانی عورت کی طرح مت بنو کہ جس نے اپنا سوت کاتنے کے بعد پھر ٹکڑے ٹکڑے کرڈالا کہ تم بھی اپنے وعدوں کو مکرو فریب اور فساد کا ذریعہ بنانے لگو، محض اس وجہ سے کہ ایک جماعت دوسری جماعت سے زیادہ ہوجائے پس اس زیادہ ہونے سے یا اس نقص عہد سے اللہ تعالیٰ تمہاری آزمائش کرتا ہے اور دین میں جو کچھ اختلاف کرتے ہو، اس کی حقیقت قیامت کے دن تمہارے اوپر ظاہر کر دے گا۔ شان نزول : (آیت ) ”۔ ولا تکونوا کالتی نقضت (الخ) ابن ابی حاتم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ابوبکر بن ابی حفص سے روایت کیا ہے کہ سعیدیہ اسدیہ دیوانی ایک عورت تھی، جو بالوں کو اور سوت کو جمع کرتی اور کات کر پھر توڑ دیتی تھی، اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ تم مکہ کی اس دیوانی عورت کی طرح مت بنو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩٢ (وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّتِيْ نَقَضَتْ غَزْلَهَا مِنْۢ بَعْدِ قُوَّةٍ اَنْكَاثًا) دیکھو تم تو ایک مدت سے نبی آخر الزماں کے منتظر چلے آ رہے تھے اور اہل عرب کو اس حوالے سے دھمکایا بھی کرتے تھے کہ نبی آخر الزمان آنے والے ہیں جب وہ تشریف لے آئے تو ہم ان کے ساتھ مل کر تم لوگوں پر غالب آجائیں گے۔ اب جب کہ وہ نبی آگئے ہیں تو تم لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ تم ان کو جھٹلانے کے لیے بہانے ڈھونڈ رہے ہو ! تو کیا اب تم لوگ اپنے منصوبوں اور افکار و نظریات کے تانے بانے خود اپنے ہی ہاتھوں تار تار کردینے پر تل گئے ہو ؟ کیا اس دیوانی عورت کی طرح تمہاری بھی مت ماری گئی ہے جو بڑی محنت اور مشقت کے ساتھ کا تے ہوئے اپنے سوت کی تار تار ادھیڑ کے رکھ دے ؟ (تَتَّخِذُوْنَ اَيْمَانَكُمْ دَخَلًۢا بَيْنَكُمْ اَنْ تَكُوْنَ اُمَّةٌ هِىَ اَرْبٰى مِنْ اُمَّةٍ ) یعنی تم نے تو اس معاملے کو گویا دو قوموں کا تنازعہ بنا لیا ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ وہی نبی ہیں جن کی بشارت تمہاری کتاب میں موجود ہے تم آپس میں عہد و پیمان کر رہے ہو ‘ قسمیں کھا رہے ہو کہ ہم ہرگز آپ پر ایمان نہیں لائیں گے۔ تمہاری اس ہٹ دھرمی کی وجہ اس کے سوا اور کوئی نہیں کہ تم قومی عصبیت میں مبتلا ہوچکے ہو۔ چونکہ اس آخری نبی کا تعلق بنی اسماعیل یعنی امیین سے ہے ‘ اس لیے تم لوگ نہیں چاہتے کہ بنی اسماعیل کو اب ویسی ہی فضیلت حاصل ہوجائے جو پچھلے دو ہزار سال سے تم لوگوں کو حاصل تھی۔ (اِنَّمَا يَبْلُوْكُمُ اللّٰهُ بِهٖ ) اس میں تمہاری آزمائش ہے۔ اللہ تعالیٰ دیکھنا چاہتا ہے کہ تم لوگ حق پرست ہو یا نسل پرست ؟ اگر تم لوگ اس معاملے میں نسل پرستی کا ثبوت دیتے ہو تو جان لو کہ اللہ سے تمہارا کوئی تعلق نہیں اور اگر حق پرست بننا چاہتے ہو تو تمہیں سوچنا چاہیے کہ ایک مدت تک اللہ تعالیٰ نے نبوت تمہاری نسل میں رکھی اور اب اللہ تعالیٰ نے بنی اسماعیل کے ایک فرد کو اس کے لیے چن لیا ہے۔ لہٰذا اسے اللہ کا فیصلہ سمجھتے ہوئے تمہیں قبول کرلینا چاہیے۔ تمہیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ بنی اسماعیل بھی تو آخر تمہاری ہی نسل میں سے ہیں۔ وہ بھی تمہارے جد امجد حضرت ابراہیم ہی کی اولاد ہیں ‘ مگر تم لوگ ہو کہ تم نے اس معاملے کو باہمی مخاصمت اور ضد (بَغْیًا بَیْنَہُمْ ) کی بھینٹ چڑھا دیا ہے اور اس طرح تم لوگ اللہ کی اس آزمائش میں ناکام ہو رہے ہو۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

90. In this verse, Allah has enjoined three kinds of covenants which have been mentioned in the order of their importance. The first of these covenants is the one between man and his Allah which is the most important of all. The second in importance is the covenant between one man or one group of men and another man or another group of men, which is taken with Allah as a witness or in which the name of God has been used. The third covenant is that which has been made without using Allah’s name. Though this is third in importance, its fulfillment is as important as that of the first two and the violation of any of these has been prohibited. 91. In this connection it should be noted that Allah has rebuked the people for the worst form of violation of treaties which has been creating the greatest disorder in the world. It is a pity that even big people consider it to be a virtue to violate treaties in order to gain advantages for their people in political, economic and religious conflicts. At one time the leader of one nation enters into a treaty with another nation for the interest of his own people but at another time the same leader publicly breaks the very same treaty for the interest of his people, or secretly violates it. It is an irony that such violations are made even by those people who are honest in their private lives. Moreover, it is regrettable that their own people do not protest against them; nay, they eulogize them for such shameful feats of diplomacy. Therefore, Allah warns that every such treaty is a test of the character of those who enter into it, and of their nations. They might gain some apparent advantage for their people in this way, but they will not escape their consequences on the Day of Judgment. 92. This is to warn that decision about differences and disputes that lead to conflict will be made on the Day of Judgment. Therefore, these should not be made an excuse to break agreements and treaties. Even if one is wholly in the right and the opponent is wholly in the wrong. It is not right for the former to break treaties or make false propaganda or employ other deceitful methods to defeat the other. If one does so, it will go against him on that Day because righteousness demands that one should not only be right in his theories and aims but should also use right methods and employ right means. This warning has especially been given to those religious groups and sects who always suffer from this misunderstanding that they have a right to defeat their opponents because they are on the side of God and their opponents are rebels against Allah. Therefore, there is no obligation on them to stick to their treaties with their opponents. This was what the Arab Jews practiced, declaring: There is no moral obligation on us in regard to the pagan Arabs, and we are rightly entitled to practice dishonesty and deceit that might be of advantage to us and harmful to the disbelievers.

سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :90 یہاں علی الترتیب تین قسم کے معاہدوں کو ان کی اہمیت کے لحاظ سے الگ الگ بیان کر کے ان کی پابندی کا حکم دیا گیا ہے ۔ ایک وہ عہد جو انسان نے خدا کے ساتھ باندھا ہو ، اور یہ اپنی اہمیت میں سب سے بڑھ کر ہے ۔ دوسرا وہ عہد جو ایک انسان یا گروہ نے دوسرے انسان یا گروہ سے باندھا ہو اور اس پر اللہ کی قسم کھائی ہو ، یا کسی نہ کسی طور پر اللہ کا نام لے کر اپنے قول کی پختگی کا یقین دلایا ہو ۔ یہ دوسرے درجے کی اہمیت رکھتا ہے ۔ تیسرا وہ عہد و پیمان جو اللہ کا نام لیے بغیر کیا گیا ہو ۔ اس کی اہمیت اوپر کی دو قسموں کے بعد ہے ۔ لیکن پابندی ان سب کی ضروری ہے اور خلاف ورزی ان میں سے کسی کی بھی روا نہیں ہے ۔ سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :91 ” یہاں خصوصیت کے ساتھ عہد شکنی کی اس برترین قسم پر ملامت کی گئی ہے جو دنیا میں سب سے بڑھ کر موجب فساد ہوتی ہے اور جسے بڑے بڑے اونچے درجے کے لوگ بھی کار ثواب سمجھ کر کرتے اور اپنی قوم سے داد پاتے ہیں ۔ قوموں اور گروہوں کی سیاسی ، معاشی اور مذہبی کشمکش میں یہ آئے دن ہوتا رہتا ہے کہ ایک قوم کا لیڈر ایک وقت میں دوسری قوم سے ایک معاہدہ کرتا ہے اور دوسرے وقت میں محض اپنے قومی مفاد کی خاطر یا تو اسے علانیہ توڑ دیتا ہے یا درپردہ اس کی خلاف ورزی کر کے ناجائز فائدہ اٹھاتا ہے ۔ یہ حرکتیں ایسے ایسے لوگ کر گزرتے ہیں جو اپنی ذانی زندگی میں بڑے راستباز ہوتے ہیں ۔ اور ان حرکتوں پر صرف یہی نہیں کہ ان کی پوری قوم میں سے ملامت کی کوئی آواز نہیں اٹھتی ، بلکہ ہر طرف سے ان کی پیٹھ ٹھونکی جاتی ہے اور اس طرح کی چالبازیوں کو ڈپلومیسی کا کمال سمجھا جاتا ہے ۔ اللہ تعالی اس پر متنبہ فرماتا ہے کہ ہر معاہدہ دراصل معاہدہ کرنے والے شخص اور قوم کے اخلاق و دیانت کی آزمائش ہے اور جو لوگ اس آزمائش میں ناکام ہوں گے وہ اللہ کی عدالت میں مؤاخذہ سے نہ بچ سکیں گے ۔ سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :92 یعنی یہ فیصلہ تو قیامت ہی کے روز ہوگا کہ جن اختلافات کی بنا پر تمہارے درمیان کشمکش برپا ہے ان میں برسر حق کون ہے اور برسر باطل کون ۔ لیکن بہرحال ، خواہ کوئی سراسر حق پر ہی کیوں نہ ہو ، اور اس کا حریف بالکل گمراہ اور باطل پرست ہی کیوں نہ ہو ، اس کے لیے یہ کسی طرح جائز نہیں ہو سکتا کہ وہ اپنے حریف کے مقابلہ میں عہد شکنی اور کذب و افترا اور مکر و فریب کے ہتھیار استعمال کرے ۔ اگر وہ ایسا کرے گا تو قیامت کے روز اللہ کے امتحان میں ناکام ثابت ہوگا ، کیونکہ حق پرستی صرف نظریے اور مقصد ہی میں صداقت کا مطالبہ نہیں کرتی ، طریق کار اور ذرائع میں بھی صداقت ہی چاہتی ہے ۔ یہ بات خصوصیت کے ساتھ ان مذہبی گروہوں کی تنبیہ کے لیے فرمائی جا رہی ہے جو ہمیشہ اس غلط فہمی میں مبتلا رہے ہیں کہ ہم چونکہ خدا کے طرفدار ہیں اور ہمارا فریق مقابل خدا کا باغی ہے اس لیے ہمیں حق پہنچتا ہے کہ اسے جس طریقہ سے بھی ممکن ہو زک پہنچائیں ۔ ہم پر ایسی کوئی پابندی نہیں ہے کہ خدا کے باغیوں کے ساتھ معاملہ کرنے میں بھی صداقت ، امانت اور وفائے عہد کا لحاظ رکھیں ۔ ٹھیک یہی بات تھی جو عرب کے یہودی کہا کرتے تھے کہ لَیْسَ عَلَیْنَا فِی الْاُمّیِّیْنَ سَبِیْلٌ ۔ یعنی مشرکین عرب کے معاملہ میں ہم پر کوئی پابندی نہیں ہے ، ان سے ہر طرح کی خیانت کی جا سکتی ہے ، جس چال اور تدبیر سے بھی خدا کے پیاروں کا بھلا ہو اور کافروں کو زک پہنچے وہ بالکل روا ہے ، اس پر کوئی مؤاخذہ نہ ہوگا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

39: روایات میں ہے کہ مکہ مکرمہ میں ایک دیوانی عورت تھی جسے خرقاء کہتے تھے۔ وہ بڑی محنت سے دن بھر سوت کا تتی تھی، اور شام کو اسے ادھیڑ ڈالتی تھی۔ یہ عورت اس ماعملے میں ایک ضرب المثل بن گئی تھی۔ جب کوئی شخص اچھا خاصا کام کر کے خود ہی اسے بگاڑ دے تو اسے اس عورت سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ یہاں یہ تشبیہ ان لوگوں کے لیے استعمال کی گئی ہے جو زور و شور سے کسی بات کی قسم کھا کر اسے توڑ ڈالیں 40: جھوٹی قسم کھانے یا قسم کو توڑنے کا مقصد عام طور پر کوئی نہ کوئی دنیا کا فائدہ حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اس لیے فرمایا گیا ہے کہ اس معمولی سے فائدے کی خاطر ایسے گناہ کا ارتکاب نہ کرو۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(16:92) نقضت غزلھا۔ نقضت۔ ماضی واحد مؤنث غائب اس عورت نے توڑ ڈالا۔ بل کھول دئیے۔ غزلھا۔ مضاف مضاف الیہ۔ غزل کا تا ہوا دھاگہ۔ غزل یغزل (ضرب) غزل (روئی یا اون کا تنا۔ اغزل عورت کا چرخہ کاتنا اور باب سمع سے غزل یغزل وتغزل۔ عورتوں سے محبت جتانا۔ ان کے حسن و جمال کی تعریف کرنا۔ اسی سے غزل عشقیہ کلام ہے۔ الکاثا۔ ٹکڑے ٹکڑے نکث کی جمع جس کے معنی سوت کے اس ٹکڑے کے ہیں جو دوبارہ کاتنے کے لئے توڑا جائے۔ نقضت غزلھا من بعد قوۃ انکاثا۔ اس نے اپنے دھاگے کو مضبوط کاتنے کے بعد توڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا۔ انکاتا غزل کا حال ہے۔ مکہ میں ایک بیوقوف قریشی عورت تھی جو صبح سے دوپہر تک یا دن بھر باندیوں کو ساتھ لے کر سوت کاتا کرتی تھی اور آخر میں تمام کاتا ہوا سوت توڑ ڈالتی تھی۔ اس کا نام ریطہ بنت عمروبن سعد تھا۔ (بغوی) بعض نے دیگر مختلف نام دئیے ہیں۔ دخلا۔ بہانہ ۔ دغا۔ فساد۔ دخل یدخل (سمع) کا مصدر ہے۔ الدخل ما یدخل فی الشی ولم یکن منہ۔ الدخل۔ وہ ہے کہ جو کسی شے میں داخل ہو لیکن اس میں سے نہ ہو۔ یا الدخل ما یدخل فی الشی علی سبیل الفساد۔ الدخل وہ ہے جو فساد کے واسطے کسی شے میں داخل ہو۔ ایک چیز کو دوسری میں فساد کے لئے ملانا دخل ہے۔ کل شیٔ لم یصح فھو دخل ودخیل بمعنی المفسد والداخل ضد الخارج (جو چیز درست نہ ہو وہ دخل ہے) دخل بمعنی دغل ہے۔ ادغل فی۔ کسی کام میں غیر متعلق چیز کو داخل کر کے اسے خراب کردینا۔ دخلا بینکم۔ باہمی فساد و خیانت ودغابازی۔ دخل یدخل (نصر) دخول اندر داخل ہونا۔ تتخذون ایمانکم دخلا بینکم۔ یہ لا تکونوا کی ضمیر کا حال ہے امام رازی کے نزدیک یہ جملہ مستانفہ (نیا جملہ) ہے اور استفہامیہ ہے۔ ای أتتخذون ایمانکم دخلا بینکم کیا تم اپنی قسموں کو باہمی دھوکہ بازی کا ذریعہ بناتے ہو ؟ اربی۔ افعل التفضیل۔ کا صیغہ ہے۔ ربا یربوا۔ (نصر) رباء وربو سے جس کے معنی بڑھنے اور چڑھنے کے ہیں۔ الربو۔ سود ۔ بیاج۔ زیادتی۔ اربی تعداد میں اور مال و دولت میں بڑھ چڑھ کر ہونا۔ ان تکون امۃھی اربی من امۃ۔ اس کی مندرجہ ذیل صورتیں ہوسکتی ہیں۔ (1) کان (تکون) تامہ ہے اورھی من امۃ۔ امۃ کی صفت ہے اور امۃ۔ تکون کا فاعل ہے۔ اس اعتبار سے معنی ہوں گے : کہ ایک قوم ایسی ہوجائے کہ جو دوسری قوم سے زیادہ طاقتور ہو۔ (2) کان یکون فعل ناقص ہے اورھی اربی من امۃ اس کی خبر ہے۔ گویا آیۃ کی تقدیر ان تکون امۃ امۃ اربی من امۃ۔ تکرار کے سقم کو دور کرنے کے لئے اسم ظاہر امۃ کی بجائےھی ضمیر لائی گئی ہے کہ ایک جماعت دوسری جماعت سے زبردست ہوجائے۔ زمانہ جاہلیت میں قریش اور دیگر قبائل ایک قوم سے معاہدہ کرلیتے پھر جب دیکھتے کہ دوسری قوم قوی ہے تو اس سے معاملہ کرلیا۔ اور پچھلے معاہدہ کو توڑ دیا۔ اس سے مسلمانوں کو منع کیا جا رہا ہے اور ایفائے عہد پر زور دیا گیا ہے ۔ یبلوکم۔ یبلو۔ مضارع واحد مذکر غائب۔ (باب نصر) بلاء مصدر۔ وہ آزمائش کرتا ہے۔ وہ آزماتا ہے۔ کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر۔ وہ (اللہ) تم کو آزماتا ہے۔ بہ میں ہٖ ضمیر واحد مذکر حاضر کا مرجع یا تو فقرہ ان تکون امۃ بھی اربی من امۃ ہے یعنی کسی گروہ کی افزائش قوت و ثروت۔ یا یہ راجع ہے اس امرونہی کی طرف جس سے خبردار کیا جارہا ہے۔ لیبینن۔ لام تاکید کے لئے۔ مضارع بانون ثقیلہ واحد مذکر غائب تبیین (تفعیل) مصدر۔ وہ ضرور ہی کھول کر بیان کرے گا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 یہ ایک تشبیہ ہے جو قسموں کو پختہ کرنے کے بعد ان کو توڑنے والوں کے لئے بیان کی گی ہے۔ ضرویر نہیں کہ ایسی عورت کہیں پائی بھی گئی ہو اگر یہ ان جرتیر اور ابن ابی حاتم کی بعض روایات میں ہے کہ مکہ میں ایک پاگل عورت تھی و نبوت کا تتی اور پھر سے خوب بٹ کر ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالتی۔ حضرت ابن عباس اور مجاہد کہتے ہیں کہ اس آیت میں قسمیں توڑنے والوں کو اس عورت سے تشبیہ دی گی ہے واللہ اعلم فیضا القربی) 10 یعنی کسی گروہ سے اس لئے بدعہدی نہ کرو جب تم نے عہد ……موجود تھے اور یہ سمجھو طاقت ور تھا اور اب تم طاقتور ہوگئے ہو اور یہ کمزور ہوگیا ہے یا اب تمہیں اس سے زیادہ طاقتور کوئی دوسرا حلیف مل گیا جیسا کہ اہل جاہلیت کرتے تھے۔ شوکانی (قرطبی) اور جیسا کہ اس آنے میں اہل مغرب کا عام دستور ہے۔ 11 کہ تم اپنے عہد پر قائم رہتے ہو یا دسروں گروہ کو طاقتور یا کمزور پا کر اپنے عہد کا خیال چھوڑ دیتے ہو۔ (قرطبی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ کیونکہ قسم وعہد توڑنے سے موافقین کو بےاعتباری اور مخالفین کو برانگیختگی پیدا ہوتی ہے اور یہ اصل ہے فساد کی۔ 5۔ دیکھیں وفاء عہد کرتے ہو یا جھکتا پلہ دیکھ کر ادھر ڈھل جاتے ہو۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ عہد کو توڑنا اور قسم کا احترام نہ کرنا اپنے اچھے کردار کی نفی کرتا ہے۔ انسان کتنا ہی صاحب کردار اور باوقار کیوں نہ ہو جب دوسرے سے کیے ہوئے عہد کو توڑتا ہے اور اپنی قسم کا خیال نہیں رکھتا تو ایساشخص اس حد تک لوگوں کی نظروں میں گر جاتا ہے کہ لوگ نہ صرف اس کے صالح کردار کی نفی کرتے ہیں بلکہ اس کی نماز روزہ کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ لوگوں کو ایسے شخص سے اس قدر نفرت ہوجاتی ہے کہ اس کا نام سنتے ہی لوگ اسے بےایمان کہتے ہیں۔ ایسا شخص قسم کی بےحرمتی اور عہد شکنی کی وجہ سے اپنے ماضی کے اچھے کردار کی نفی کر بیٹھتا ہے۔ اس شخص کی مکہ کی اس عورت (یہ کوئی خاص عورت تھی یا ویسے ہی بطور مثال ذکر ہوا ہے) کے ساتھ مثال دی جا رہی ہے جس کا دماغی توازن ٹھیک نہ تھا۔ وہ سارا دن سوت کاتنے کے بعد مغرب کے بعد خود ہی اسے ریزہ ریزہ کردیتی تھی۔ عہد توڑنے اور اپنی قسم کی پاسداری نہ کرنے والے کا یہی حال ہوتا ہے۔ عام طور پر عہد شکنی اور قسم کی بےحرمتی آدمی اس وقت کرتا ہے جب وہ دوسرے کی مخالفت یا کسی فائدہ کے لالچ میں حد سے گزر جاتا ہے۔ اس لیے ایسی حرکت سے سختی کے ساتھ منع کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ تم ایک دوسرے کو نیچا دکھانے یا ایک دوسرے سے بڑھ کر فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کرو۔ ایسے کاموں سے تجھے رک جانا چاہیے جو لوگ کسی معاملہ میں غلط ہونے کے باوجود جھوٹی قسم اٹھاتے ہیں انہیں سمجھایا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں معاملات میں آزماتا ہے کہ تم کس حد تک اپنی قسموں کا خیال اور اپنے درمیان عہد کی پاسداری کرتے ہو۔ اگر تم باز نہیں آؤ گے تو قیامت کے دن تمہارے اختلافات کا ٹھیک ٹھیک فیصلہ کردیا جائے گا۔ (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ الْکَبَاءِرُ الإِشْرَاک باللَّہِ ، وَعُقُوقُ الْوَالِدَیْنِ ، وَقَتْلُ النَّفْسِ ، وَالْیَمِینُ الْغَمُوسُ )[ رواہ البخاری : باب الْیَمِینِ الْغَمُوسِ ] ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی قسم اٹھانا کبیرہ گناہوں میں سے ہیں۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیے ہوئے عہد اور قسم کو نہ توڑو۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی آزمائش کرتا ہے۔ ٣۔ قیامت کے دن لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ کیا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ قیامت کے دن لوگوں کے درمیان فیصلہ کرے گا : ١۔ بیشک تیرا رب قیامت کے دن ان کے درمیان فیصلہ کرے گا جس میں وہ اختلاف کرتے تھے۔ (یونس : ٩٣) ٢۔ اللہ ان کے معاملات کا فیصلہ فرمائے گا۔ (البقرۃ : ٢١٠) ٣۔ یقیناً اللہ تمہارے درمیان اپنے حکم سے فیصلہ فرمائے گا۔ (النحل : ٧٨) ٤۔ اللہ عدل و انصاف کا فیصلہ فرماتا ہے۔ (المومن : ٢٠ ) ٥۔ اللہ ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ فرمائے گا۔ (یونس : ٥٤) ٦۔ اللہ قیامت کے دن تمہارے اختلافات کا فیصلہ فرمائے گا۔ (الحج : ٦٩) ٧۔ اللہ قیامت کے دن عدل و انصاف کا ترازو قائم فرمائے گا۔ (الانبیاء : ٤٧) ٨۔ یقیناً اللہ تمہارے درمیان فیصلہ فرمائے گا جو تم اختلاف کرتے تھے۔ (الزمر : ٣) ٩۔ اللہ قیامت کے دن تمہارے اختلاف کا فیصلہ فرمائے گا۔ (البقرۃ : ٢١٣) ١٠۔ اللہ قیامت کے دن تمہارے درمیان فیصلہ فرمائے گا اور کافر مومنوں پر کوئی راستہ نہیں پائیں گے۔ (النساء : ١٤١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قرآن کہتا ہے : ولا تکونوا کالتی نقضت غزلھا من بعد قوۃ انکاثا تتخذون ایمانکم دخلا بینکم ان تکون امۃ ھی اربی من امۃ انما یبلوکم اللہ بہ ولیبینن لکم یوم القیمۃ ما کنتم فیہ تختلفون (٦١ : ١٩) ” تمہاری حالت اس عورت کی سی نہ ہوجائے جس نے آپ ہی محنت سے سوت کاتا اور پھر آپ ہی اس کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا۔ تم اپنی قسموں کو آپس کے معاملات میں مکرو فریب کا ہتھیار بناتے ہوتا کہ ایک قوم دوسری قوم سے بڑھ کر فائدے حاصل کرے۔ حالانکہ اللہ اس عہد و پیمان کے ذریعہ سے تم کو آزمائش میں ڈالتا ہے ، اور ضرور وہ قیامت کے روز تمہارے تمام اختلافات کی حقیقت تم پر کھول دے گا “۔ جو شخص عہد توڑتا ہے وہ اس بیوقوف عورت کی طرح ہے جو کمزور ہے اور ہر وقت رائے اور عزم بدل دینے والی ہے۔ بار بار سوت کا تتی ہے اور پھر اسے توڑ دیتی ہے اور ٹکڑے ٹکڑے کرکے پھر اسے سوت بنا دیتی ہے۔ اس تمثیل کا ہر جز تعجب اور حقارت کا اظہار کرتا ہے۔ اور اس عورت کے فعل کو فعل شنیع اور قابل نفرت بناتا ہے۔ یہی اصل مقصود ہے اس تشبیہ سے۔ کوئی بھی شریف النفس انسان اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ وہ اس صعیف الارادہ ، احمق عورت کی طرح ہوجائے جو ایسا کرتی ہو جس میں اس کے لئے کوئی فائدہ نہ ہو۔ ان میں سے بعض لوگ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ اپنے کیے ہوئے عہد کو اس لئے توڑنے کی سوچ رہے تھے کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جمعیت قلیل ہے اور وہ کمزور ہے جبکہ ان کے مقابلہ میں قریش کی جمعیت کثیر ہے۔ چناچہ ایسے لوگوں کو متنبہ کیا گیا کہ یہ ان کے لئے کوئی وجہ جواز نہیں ہے کہ وہ ایسے قسمیہ معاہدوں کو دھوکہ اور بےایمانی کا ذریعہ بنائیں اور کسی بھی وقت گردن سے اتار پھینکیں۔ تتخذون ایمانکم دخلا بینکم ان تکون امۃ ھی اربی من امۃ (٦١ : ٢٩) ” تم اپنی قسموں کو آپس کے معاملات میں مکر و فریب کا ہتھیار نہ بنائو اس لئے کہ ایک قوم دوسری قوم سے بڑھ کر ہے “۔ یعنی اس لئے کہ ایک قوم دوسری قوم سے تعداد میں زیادہ ہے اور تمہاری مصلحت زیادہ تعداد والی امت سے وابستہ ہے۔ اس آیت کے مفہوم میں یہ بات بھی شامل ہے کہ کوئی محض اس لئے عہد کو توڑے کہ کسی ملک کے مصالح اس کا تقاضا کرتا ہوں۔ مثلاً پہلے ایک حکومت دوسری حکومت کے ساتھ یا دوسری حکومتوں کے مجموعے کے ساتھ کوئی معاہدہ کرے اور پھر اس کو محض اس لئے توڑ دے کسی دوسری طرف اقوام کا بڑا جتھہ ہے اور اس حکومت کے مصالح اس دوسرے مجموعے کے ساتھ وابستہ ہوں۔ اسلام اس قسم کی مصلحتوں کو خاطر میں ہیں لاتا۔ اسلا چاہتا ہے کہ ہر حالت میں عہد کو وفا کیا جائے اور کسی بھی عہد کو دھوکے اور مفاد کا ذریعہ نہ بنایا جائے۔ یہ شرط اس کے علاوہ ہے کہ کوئی عہد صرف نیکی اور خدا خوفی کی اساس پر ہو ، کسی غیر مستحسن اور خدا کی نافرمانی کے مقاصد کے لئے کوئی عہد سرے سے کیا ہی نہ جائے۔ اثم ، فسوق اور نافرمانی کی بنیاد پر کوئی عہد نہ کیا جائے۔ یہ بات تو ناقابل تصور ہے کہ اقوام و ملل کو لوٹنے کے لئے کوئی عہد کیا جائے۔ یہ ہے وہ اصول جس پر اسلامی جماعت کی تشکیل ہوئی اور اسلامی مملکت کی یہی پالیسی رہی۔ اس کے نتیجے میں پوری دنیا اطمینان ، اعتماد اور پاکیزگی کی دولت سے مالا مال ہوگئی۔ اسی پر مسلمان ، افراد اور امم سے معاملہ کرتے رہے جب تک کہ مسلمان جہاں کے قائد تھے۔ قرآن کریم کی یہ آیت مسلمانوں کو متنبہ کرتی ہے کہ وہ اس قسم کی باتوں کو وجہ جواز بنا کر معاہدات کو پس پشت نہ ڈالیں اور یہ کہ ایسے حالات پیدا ہوجائیں کہ کوئی شخص یا حکو مت معاہدے کو توڑنے کے لئے مجبور ہوجائے۔ ان تکون امۃ ھی اربی من امۃ (٦١ : ٢٩) ” اس لئے کہ ایک قوم دوسری قوم سے زیادہ ہے “۔ یہ ایک آزمائش ہے اور اللہ کی طرف سے امتحان ہے۔ اس طرح اللہ ان کی قوت ارادی ، ان کے جذبہ وفائے عہد اور ان کی عزت نفس کی اس ذات کے احترام کرنے میں آزمائش کرتا ہے جس کے نام پر انہوں نے یہ عہد کیا تھا۔ یعنی اس پر انہوں نے اللہ کو شاہد و گواہ بنالیا تھا۔ انمایبلوکم اللہ بہ (٦١ : ٢٩) ” بیشک اللہ تعالیٰ اس معاملے میں تمہیں آزماتا ہے “۔ افراد اور اقوام کے درمیان جو اختلافات پیدا ہوجاتے ہیں ، ان کے پورے فیصلے یہاں ہی نہیں ہوجاتے ، اللہ فرماتے ہیں کہ آخری فیصلہ اللہ نے قیامت کے دن کرنا ہے۔ ولیبنن لکم یوم القیمۃ ما کنتم فیہ تختلفون (٦١ : ٢٩) ” اور اللہ ضرور قیامت کے دن تمہارے تمام اختلافات کی حقیقت تم پر کھول دے گا “۔ ان الفاظ کو بطور تمہید یہاں لایا گیا ہے ، یہ اس مر کے لئے تمہید ہیں کہ رائے ، نظریہ اور عقیدے کے خلاف لوگوں کے ساتھ بھی اگر عہد ہو تو اسے پورا کیا جائے یون کہ ولو شاء اللہ لجعلم امۃ واحدہ ولکن یضل من یشاء ویھدی من یشاء ولتسئلن عما کنتم تعملون (٦١ : ٢٩) ” اگر اللہ کی مشیت ہوتی تو وہ سب کو ایک ہی امت بنا دیتا ، مگر وہ جسے چاہتا ہے گمراہی میں ڈالتا ہے اور جسے چاہتا ہے راہ راست دکھاتا ہے اور ضرور تم سے تمہارے اعمال کی باز پرس ہوگی “۔ اگر اللہ چاہتا تو لوگوں کو ایک ہی استعداد پر پیدا کرتا ، لیکن اللہ نے ان کو بالکل مختلف صلاحتیں دیں اور ان کو ایک ہی طباعت کے نسخے نہیں بنایا۔ مختلف طرز پر بنایا ہے۔ پھر ان کے لئے اس نے ہدایت پانے اور ضلالت پانے کے ضابطے بنا دئیے اور ہر شخص کو اس کے اعمال کا مسئول بنایا۔ لہٰذا اختلاف عقائد و مذاہب اس بات کا جواز نہیں ہے کہ تم اس سے نقص عہد کرو۔ اختلاف مذاہب کے اور اسباب ہیں جن کا تعلق اللہ کی مشیت سے ہے۔ رہا عہد تو اس کا دفا کرنا لازم ہے۔ اگرچہ عقائد کا اختلاف ہو۔ یہ ہے اسلام کا اولین اصول بین المل کی معاملات اور مذہبی رواداری۔ اس اصول میں اسلام اپنے عروج پر ہے اور قرآن کریم کے زیر ہدایت اس اصول کو اس دنیا میں صرف مسلمانوں نے عملی شکل دی۔ مزید تفصیلات دی جاتی ہیں جن میں وفائے عہد کی تاکید کی گئی ہے اور اس بات کی مزید ممانعت کی گئی ہے کہ تم معاہدے کو دھوکہ دہی اور فساد پرستی کے لئے استعمال کرو۔ یہ دنیاوی مفاد پرستی اور دنیائے دنی کے وقتی مفادات تمہیں اطمینان کی وہ دولت نہیں دے سکتے۔ اس کے نتیجے میں انسان کی نفسیاتی اور اجتماعی زندگی کے تمام اصول ٹوٹ جائیں گے اور اجتماعی معاملات اور تعلقات میں ایک بھونچال پیدا ہوجائے گا۔ یہ تو تھا دنیا کا عذاب۔ رہی آخرت تو آخرت میں ایسے لوگوں کو سخت عذاب سے دوچار ہونا ہوگا۔ یہاں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ اگر تم نے وفائے عہد کیا اور اس کے نتیجے میں تمہیں کوئی دنیاوی نقصان ہوگیا تو اس کی جزاء بھی اللہ دے گا۔ دنیا کے مفادات تو فنا ہونے والے ہیں اور آخرت کے مفادات باقی رہنے والے ہیں۔ اللہ کے خزانے وسیع ہیں اور اس کے پاس نہ ختم ہونے والی دولت ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(وَ لَا تَکُوْنُوْا کَالَّتِیْ نَقَضَتْ غَزْلَھَا مِنْ بَعْدِ قُوَّۃٍ اَنْکَاثًا) (اور اس عورت کی طرح نہ ہوجاؤ جس نے اپنے کا تے ہوئے کو محنت کرنے کے بعد ذرا ذرا کرکے توڑ ڈالا) اس جملہ میں یہ بتایا ہے کہ تم عہد توڑ کر ایسی عورت کی طرح مت بن جاؤ جس نے سوت کاتا پھر اس کو مضبوطی کے ساتھ بٹا اور پھر اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے پھینک دیے پہلے تو سوت کے کاتنے میں محنت کی پھر بٹنے میں محنت کی پھر جو کیا دھرا تھا اس کے ٹکڑے کرکے ڈال دئیے اگر کسی عورت کا یہ حال تمہیں معلوم ہو تو اسے بیوقوف اور احمق بتاؤ گے لہٰذا تم عہد کرکے اس عہد کو توڑنے کی حرکت نہ کرو ورنہ تم بھی حماقت کرنے والوں میں شمار ہوجاؤ گے، بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ یہ بطور تمثیل ہے اور مطلب یہ ہے کہ اگر عہد توڑو گے تو اسی عورت کی طرح ہوجاؤ گے، جو کہ مذکورہ عمل کر گزرے لیکن بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ مکہ مکرمہ میں ایک عورت تھی جس کا نام ریطہ تھا وہ ایسی حرکت کیا کرتی تھی (تفسیر قرطبی ص ١٧١ ج ١٠) جو بھی صورت ہو اس میں نقض عہد کی قباحت اور شناعت بیان فرمائی ہے۔ احقر کے نزدیک الفاظ کا عموم بہت سے مسائل کو شامل ہے نماز شروع کرکے توڑ دینا، روزہ توڑ دینا، حج وعمرہ کا احرام باندھ کر فاسد کردینا اور جہاد میں جاکر پشت پھیرلینا اور قسم کھا کر توڑ دینا یہ سب باتیں اور اسی طرح کی بہت سی چیزیں آیت کے عموم میں آتی ہیں نیز اعمال کو حبط کرنے والے کو بھی آیت کریمہ کا عموم شامل ہے۔ احقر نے تفسیر کی کتابوں میں تلاش کیا کہ میرے ذہن میں جو یہ باتیں آئی ہیں ان کی تصریح مل جائے لیکن کہیں کچھ نہ ملا، مواہب الٰہیہ میں سے سمجھ کر لکھ دیا۔ والعلم عند اللّٰہ الکریم (تَتَّخِذُوْنَ اَیْمَانَکُمْ دَخَلًا بَیْنَکُمْ اَنْ تَکُوْنَ اُمَّۃٌ ھِیَ اَرْبٰی مِنْ اُمَّۃٍ ) (تم اپنی قسموں کو آپس میں فساد ڈالنے کا ذریعہ بناتے ہو اس وجہ سے کہ ایک جماعت دوسری جماعت سے بڑھی ہوئی ہو) اہل عرب کا یہ طریقہ تھا کہ قبائل میں آپس میں دشمنیاں چلتی رہتی تھیں جن کی وجہ سے اپنے بچاؤ اور حفاظت کے لیے ایک قبیلہ دوسرے قبیلہ سے معاہدہ کرلیتا تھا کہ جب کوئی قبیلہ ہم میں سے کسی پر حملہ کرے گا تو دونوں قبیلے مل کر دفاع کریں گے۔ اور حملہ آور قبیلہ سے جنگ کریں گے۔ جب معاہدہ کرنے کے بعد محسوس کرتے تھے کہ جس قبیلہ سے ہم نے معاہدہ کیا ہے وہ مال اور عدد کے اعتبار سے کمزور ہے تو اس سے معاہدہ توڑ کر کسی دوسرے قبیلہ سے معاہدہ کرلیتے تھے، اللہ جل شانہ نے اس سے منع فرمایا اور پہلے قبیلہ سے جو قسم کھا کر معاہدہ کیا تھا اس معاہدہ کے توڑنے کو (دَخَلًا بَیْنَکُمْ ) سے تعبیر فرمایا کہ یہ چیز آپس میں فساد ڈالنے والی ہے۔ (اِنَّمَا یَبْلُوْکُمُ اللّٰہُ بِہٖ ) (بات یہی ہے کہ اللہ تمہیں اس کے ذریعے آزماتا ہے) یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہیں عہد پورا کرنے کا حکم دیا ہے اس میں تمہاری آزمائش ہے تاکہ فرمانبردار اور نافرمان کا کردار ظاہر ہوجائے، بعض حضرات نے اس کا یہ مطلب بتایا ہے کہ کسی جماعت سے معاہدہ کرنے کے بعد زیادہ تعداد والی دوسری جماعت سامنے آجانے پر پہلے جماعت کا معاہدہ کو توڑ کر دوسری بڑی جماعت تعداد والی جماعت سے معاہدہ کرتے ہو یا پرانے معاہدے پر جمے رہتے ہو اس میں تمہاری آزمائش ہوتی ہے۔ فائدہ : اگر کسی جماعت کے معاہدہ کرنے کے بعد یہ اندیشہ ہو کہ دوسرا فریق دھوکہ دینے والا ہے اور شدید خطرہ ہے کہ وہ لوگ نقض عہد کردیں گے اور ان کے ساتھ معاہدہ باقی رکھنا خلاف مصلحت معلوم ہوتا ہے تو اس کا طریقہ سورة انفال کی آیت کریمہ (وَ اِمَّا تَخَافَنَّ مِنْ قَوْمٍ خِیَانَۃً ) کے ذیل میں گزر چکا ہے۔ (وَ لَیُبَیِّنَنَّ لَکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ مَا کُنْتُمْ فِیْہِ تَخْتَلِفُوْنَ ) (اور یہ بات ضروری ہے کہ قیامت کے دن اللہ ان چیزوں کو بیان فرما دے گا جن میں تم اختلاف کرتے تھے۔ ) جو مختلف راہیں اختیار کر رکھی تھیں ان سب کی حقیقت ظاہر ہوجائے گی اللہ تعالیٰ اہل حق کو بہترین جزاء اور اہل باطل کو بدترین سزا دے گا یہ سزا ملنا اس بات کی دلیل ہوگا کہ تم جو کچھ عقیدہ رکھتے تھے اور جو کچھ کہتے اور عمل کرتے تھے وہ سب غلط تھا اسی کی وجہ سے آج مبتلائے عذاب ہو رہے ہو۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

75:۔ یہ عہد تورنے والوں کے لیے تمچیل ہے۔ کہتے ہیں مکہ مکرمہ میں ایک عورت تھی جس کے دماغ میں خلل تھا وہ سوت کا تتی تھی مگر کاتنے کے بعد سوت کو نوچ ڈالتی (ابن کثیر) فرمایا عہد کو توڑنا بالکل ویسا ہی ہے جیسا کہ وہ کم عقل عورت سوت کات کر توڑ دیتی تھی۔ ” انکاثا “ ٹکڑے ٹکڑے۔ یہ ” غزلھا “ سے حال ہے۔ ” تتخذون، لا تکوانوا “ کے فاعل سے حال ہے۔ ” دخلاً “ سے مراد غدر و خیانت ہے اور یہ ” تتخذون “ کا مفعول ثانی ہے (روح) ان تکون ای بسبب ان تکون (مدارک) امۃ اول سے جماعت مشرکین اور امۃ ثانی سے جماعت مومنین مراد ہے اوبی تعداد اور مال و دولت میں زیادہ، ازید عددا واوفر مالا (مدارک ج 2 ص 230) ۔ یعنی مشرکین کی کثرت تعداد اور فراوانی مال و زر کی وجہ سے اپنے عہد و میثاق کو اپنے بھائیوں سے غدر و خیانت کا ذریعہ نہ بنانا۔ المعنی لا تغدروا بجماعۃ بسبب ان تکون جماعۃ اخری اکثر منھا واعز بل علیکم الوفاء بالایمان (روح ج 14 ص 322) ۔ 76:۔ کفار کو کثرت مال عطا کرنے کی حکمت بیان فرمائی کسی قوم کی کثرت تعداد اور دولت تمہارے لیے عہد شکنی کا باعث نہ بنے کیونکہ یہ ایک آزمائش ہے جس سے تمہارا امتحان مقسود ہے کہ کون اپنے عہد پر قائم رہتا ہے اور کون عہد کو توڑتا ہے۔ ” و لیبینن لکم الخ “ قیامت کے دن تم پر خوب واضح ہوجائے گا کہ عہد تور کر تم نے بہت بڑا جرم کیا ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

92 ۔ اور تم عہد شکنی کر کے اس دیوانی عورت کے مشابہ مت ہونا جو اپنے کا تے ہوئے سوت کو محنت کرنے اور مضبوط کاتنے کے بعد ٹکڑے ٹکڑے کردیتی تھی اور اپنے کا تے کو توڑ ڈالتی تھی اس عورت کی طرح تم بھی اپنی قسموں کو پختہ کرنے کے بعد محض آپس میں فسا ڈالنے کا ذریعہ بنانے لگو اور قسموں کو توڑنے لگو اور یہ صرف اس لئے کہ ایک جماعت دوسری جماعت سے بڑھی ہوئی ہے اور ایک فرقہ دوسرے فرقہ سے زیادہ ہے سوائے اس کے نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس جماعتی فرق کی وجہ سے تم کو آزماتا اور پرکھتا ہے اور جن چیزوں میں تم اختلاف کرتے رہے ہو قیامت کے دن ان سب کی حقیقت تم پر واضح اور ظاہر کر دے گا ۔ یعنی عام طور سے لوگ باہم عہد و پیمان کیا کرتے اور اس طرح ایک قبیلہ دوسرے قبیلہ کے حلیف ہوجاتے تھے اور جب کبھی ایک حلیف پر کوئی حملہ کرتا تو دوسرا حلیف اس کی مدد کرتا اور اس قسم کے عہود اسلام سے پہلے بھی لوگ کیا کرتے تھے اور اسلام کے بعد بھی ایک دوسرے کے معاہد اور حلیف بنتے رہے۔ کبھی کفار کے دو گروہوں میں ایک گروہ مسلمانوں کا حلیف ہوجاتا تھا دوسرا گروہ کسی غیر مسلم کا حلیف ہوجاتا تھا ۔ پھر جس فرقہ سے مصالحت اور عہدہو جاتا اگر اس کے مقابلے میں کوئی دوسرا قبیلہ مال میں اور تعداد میں زیادہ ہوتا تو اس کا پلہ بھاری ہوتا تو پہلے عہد کو نظر انداز کردیتے اور جھٹ دوسرے سے عہد و پیمان کرلیتے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس طریقہ کار کی مذمت فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ مکہ کی اس دیوانی عورت کی طرح نہ ہو جو بڑی محنت سے سوت کتواتی تھی اور کہتی تھی کہ جاڑے میں لوگوں کی جڑاول دوں گی پھر اس سوت کو بوٹے بوٹے کر ڈالتی تھی ۔ یعنی عورت کی طرح بیوقوف نہ بن جائو جب کوئی عہد کسی فرقہ سے کرلو تو وہ کمزور ہو خواہ غریب اور فقیر ہو اس کو توڑو نہیں کسی جماعت کا قوی اور کسی کا کمزور ہونا یہ محض تمہاری آزمائش اور ابتلاکے لئے ہوتا ہے کہ تم اپنے عہد کی پابندی کرتے ہو یا کسی کم تعداد والے کو چھوڑ کر کسی بڑی تعداد اور بڑی ثروت والے فرقہ سے جا ملتے ہو اور آزمائش میں فیل ہوجاتے ہو۔ اس طریقہ کار میں عہد شکنی بھی ہے اور توکل علی اللہ کے بھی منافی ہے۔ بہر حال یہاں تو امتحان ہے باقی نتیجہ قیامت کے دن ظاہر ہوجائے گا اور جو جھگڑے حق و باطل میں کرتے ہو قیامت میں واضح طور پر معلوم ہوجائے گا کیونکہ حق کی اس دن مدد ہوگی اور باطل ذلیل ہوگا ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کوئی قول دیکر دغا کرتا ہے اس واسطے کو زبردست کو گرا دے اور کمزور کو چھڑا دے۔ یہ اللہ نے آزمانے کو رکھا ہے کسی کو بدلے سے بدلا نہیں جاتا ادبار سے اقبال وہی لاوے تو آوے اور بد قولی کا خیال تب ہی آتا ہے جب ادبار آنے والا ہوتا ہے دوسرا گرا یا نہ گرا دل آپ کرتا ہے اپنے بنے کام کو خراب کرتا ہے۔ جیسے ایک عورت دیوانی تھی مال دار سارے برس سو ت کتواتی کہ جڑ ا دل دوں گی اقربا کو جب جاڑا شروع ہوتا سوت کتر کر بوٹی بوٹی سب کو بانٹتی۔ 12