Surat un Nahal

Surah: 16

Verse: 94

سورة النحل

وَ لَا تَتَّخِذُوۡۤا اَیۡمَانَکُمۡ دَخَلًۢا بَیۡنَکُمۡ فَتَزِلَّ قَدَمٌۢ بَعۡدَ ثُبُوۡتِہَا وَ تَذُوۡقُوا السُّوۡٓءَ بِمَا صَدَدۡتُّمۡ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ۚ وَ لَکُمۡ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ ﴿۹۴﴾

And do not take your oaths as [means of] deceit between you, lest a foot slip after it was [once] firm, and you would taste evil [in this world] for what [people] you diverted from the way of Allah , and you would have [in the Hereafter] a great punishment.

اور تم اپنی قسموں کو آپس کی دغابازی کا بہانہ نہ بناؤ ۔ پھر تو تمہارے قدم اپنی مضبوطی کے بعد ڈگمگا جائیں گے اور تمہیں سخت سزا برداشت کرنا پڑے گی کیونکہ تم نے اللہ کی راہ سے روک دیا اور تمہیں سخت عذاب ہوگا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَلاَ تَتَّخِذُواْ أَيْمَانَكُمْ دَخَلً بَيْنَكُمْ فَتَزِلَّ قَدَمٌ بَعْدَ ثُبُوتِهَا ... And do not make your oaths a means of deception among yourselves, resulting in the slip of a foot after it was firmly planted, Allah warns His servant against taking oaths as means of deception, i.e., using them for treacherous purposes, lest a foot should slip after being firmly planted. This is an analogy describing one who was on the right path but then deviated and slipped from the path of guidance because of an unfulfilled oath that involved hindering people from the path of Allah. This is because if a disbeliever were to find that after having agreed to a covenant, then the believer betrayed him, then the believer will have hindered him from entering Islam. Thus Allah says: ... وَتَذُوقُواْ الْسُّوءَ بِمَا صَدَدتُّمْ عَن سَبِيلِ اللّهِ وَلَكُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ and you taste the evil of having hindered from the path of Allah, and you will suffer a terrible punishment. Do not break Oaths for the sake of Worldly Gain Then Allah says:

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

94۔ 1 مسلمانوں کو دوبارہ مذکورہ عہد شکنی سے روکا جا رہا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہاری اس اخلاقی پستی سے کسی کے قدم ڈگمگا جائیں اور کافر تمہارا یہ رویہ دیکھ کر قبول اسلام سے رک جائیں اور یوں تم لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکنے کے مجرم اور سزا کے مستحق بن جاؤ۔ بعض مفسرین نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیعت مراد لی ہے۔ یعنی نبی کی بیعت توڑ کر پھر مرتد ہوجانا، تمہارے ارادوں کو دیکھ کر دوسرے لوگ بھی اسلام قبول کرنے سے رک جائیں گے اور یوں تم دگنے عذاب کے مستحق قرار پاؤ گے۔ (فتح القدیر)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٨] یعنی جب تم کوئی معاملہ کرنے لگو تو تمہاری نیت صاف ہونی چاہیے۔ دل میں کسی قسم کی خیانت یا بددیانتی یا عہد شکنی کا ارادہ نہیں ہونا چاہیے اور اگر تم ایسا کرو گے تو اس کے دو نقصان ہوں گے ایک تو تمہاری اپنی ساکھ ختم ہوجائے گی اور اس کے بجائے ذلت و رسوائی ہوگی۔ دوسرے جو لوگ اسلام لانا چاہتے ہیں جب وہ دیکھیں گے کہ جو کام کافر کرتے ہیں وہی کچھ مسلمان بھی کرتے ہیں تو وہ کیوں اسلام کی طرف مائل ہوں گے، اس طرح تم خود ہی اسلام کے راستے میں رکاوٹ کا سبب بن جاؤ گے۔ لہذا دنیا میں ذلت و رسوائی اور ساکھ کی تباہی کے علاوہ آخرت میں بھی تمہیں بری طرح سزا ملے گی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَا تَتَّخِذُوْٓا اَيْمَانَكُمْ دَخَلًۢا ۔۔ : یعنی ایسا نہ ہو کہ تمہاری دھوکا دہی اور بدعہدی دیکھ کر کوئی شخص مرتد ہوجائے، یا عہد توڑنے والا شخص خود کفر میں مبتلا ہوجائے۔ زمخشری نے فرمایا کہ ” قَدَمٌۢ“ کو واحد اور نکرہ اس لیے رکھا کہ بدعہدی کے نتیجے میں ایک شخص کا قدم پھسلنا اور اسلام سے دور ہونا بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت بڑی بات ہے، کجا یہ کہ اس حرکت سے بہت سے لوگ مرتد ہوجائیں۔ پہلے ” تَتَّخِذُوْنَ اَيْمَانَكُمْ دَخَلًۢا “ میں قسم کھا کر دھوکا دینے کا سبب بیان فرمایا، تو اس آیت میں ” لَا تَتَّخِذُوْٓا اَيْمَانَكُمْ دَخَلًۢا “ فرما کر اس کا برا نتیجہ بیان فرمایا۔ بِمَا صَدَدْتُّمْ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ : اور تم لوگوں کو اسلام سے روکنے کا ذریعہ بن جاؤ اور تم پر دنیا ہی میں اس کا وبال آجائے۔ وَلَكُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ: اور پھر آخرت کے عذاب عظیم میں مبتلا کردیے جاؤ۔ مطلب یہ کہ اسلام کو بدنام نہ کرو کہ ایمان لانے والے شک میں پڑجائیں، جس کا گناہ تم پر پڑے گا۔ (موضح)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

An oath sworn to deceive someone may cause forfeiture of Faith (&Iman) Verse 94 which begins with the words: وَلَا تَتَّخِذُوا أَيْمَانَكُمْ دَخَلًا (do not take your oaths as a means of mischief) gives yet another instruction to stay away from getting involved in what is a great sin laden with evil conse¬quences. It means that anyone who at the very time of taking an oath harbours other ideas and intentions, is all set to act counter to the oath taken while going through the exercise of oath-taking merely to deceive the other party, then, this would be an act far more dangerous than that of breaking a common oath. As a result, the danger is that this person may end up being all deprived of the very asset of&Iman (faith). The sen¬tence which follows immediately, that is: فَتَزِلَّ قَدَمٌ بَعْدَ ثُبُوتِهَا (lest a foot should slip after it is firmly placed - 94), means exactly this. [ Qurtubi ]

کسی کو دھوکہ دینے کے لئے قسم کھانے میں سلب ایمان کا خطرہ ہے : (آیت) وَلَا تَتَّخِذُوْٓا اَيْمَانَكُمْ دَخَلًا اس آیت میں ایک اور عظیم گناہ اور وبال سے بچانے کی ہدایت ہے وہ یہ کی قسم کھاتے وقت ہی اسے اس قسم کے خلاف کرنے کا ارادہ ہو صرف مخاطب کو فریب دینے کے لئے قسم کھائی جائے تو یہ عام قسم توڑنے سے زیادہ خطرناک گناہ ہے جس کے نتیجہ میں یہ خطرہ ہے کہ ایمان کی دولت ہی سے محروم ہوجائے (آیت) فَتَزِلَّ قَدَمٌۢ بَعْدَ ثُبُوْتِهَا کا یہی مطلب ہے (قرطبی)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَا تَتَّخِذُوْٓا اَيْمَانَكُمْ دَخَلًۢا بَيْنَكُمْ فَتَزِلَّ قَدَمٌۢ بَعْدَ ثُبُوْتِهَا وَتَذُوْقُوا السُّوْۗءَ بِمَا صَدَدْتُّمْ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۚ وَلَكُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ 94؀ زل الزَّلَّةُ في الأصل : استرسال الرّجل من غير قصد، يقال : زَلَّتْ رِجْل تَزِلُّ ، والْمَزِلَّةُ : المکان الزّلق، وقیل للذّنب من غير قصد : زَلَّةٌ ، تشبيها بزلّة الرّجل . قال تعالی: فَإِنْ زَلَلْتُمْ [ البقرة/ 209] ، فَأَزَلَّهُمَا الشَّيْطانُ [ البقرة/ 36] ، واسْتَزَلَّهُ : إذا تحرّى زلّته، وقوله : إِنَّمَا اسْتَزَلَّهُمُ الشَّيْطانُ [ آل عمران/ 155] ، أي : استجرّهم الشّيطان حتی زلّوا، فإنّ الخطيئة الصّغيرة إذا ترخّص الإنسان فيها تصیر مسهّلة لسبیل الشّيطان علی نفسه . وقوله عليه السلام :«من أُزِلَّتْ إليه نعمةٌ فلیشکرها»أي : من أوصل إليه نعمة بلا قصد من مسديها، تنبيها أنه إذا کان الشّكر في ذلک لازما فكيف فيما يكون عن قصده . والتَّزَلْزُلُ : الاضطراب، وتكرير حروف لفظه تنبيه علی تكرير معنی الزّلل فيه، قال : إِذا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزالَها[ الزلزلة/ 1] ، وقال : إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيمٌ [ الحج/ 1] ، وَزُلْزِلُوا زِلْزالًا شَدِيداً [ الأحزاب/ 11] ، أي : زعزعوا من الرّعب . ( ز ل ل ) الزلۃ کے اصل معیل بلا قصد کے قدم پھسل جانے کے ہیں کہا جاتا ہے : ۔ زلت ( ض ) رجل تزل اور پھسلنے کی جگہ کو زکۃ کہا جاتا ہے نیز جو گناہ بلا قصد سرزد ہوجائے اسے بھی بطور تشبیہ زلۃ سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَإِنْ زَلَلْتُمْ [ البقرة/ 209] اگر تم لغزش کھا جاؤ ۔ فَأَزَلَّهُمَا الشَّيْطانُ [ البقرة/ 36] انہیں شیطان نے پھسلا دیا ۔ استزلہ استفعال ) کسی کو پھسلانے کا قصد د ارادہ کرنا اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّمَا اسْتَزَلَّهُمُ الشَّيْطانُ [ آل عمران/ 155] شیطان نے انہیں پھسلا دیا کے معنی یہ ہیں کہ شیطان انہیں آہستہ آہستہ پھسلانے کی کوشش کرتا رہا حتٰی کہ وہ پھسل گئے کیونکہ جب انسان صغائر میں بےپرواہی سے کام لیتا ہے تو وہ شیطان کے تسلط کے لئے راستہ ہموار کرتا ہے ۔ حدیث میں ہے کہ جسے بلا طلب نعمت مل جائے اسے منعم کا شکر گزار ہونا چاہیئے ۔ جس سے مفہوم ہوتا ہے کہ جب بلا قصد نعمت حاصل ہونے پر شکر گزاری لازم ہے تو جو احسان کسی کے قصد اور ارادہ سے ہو اس کا لشکر یہ بالا دلی ضروری ہے ۔ التزلزل اس کے معنی اضطراب کے ہیں اور اس میں تکرار حروف تکرار معنی پر دال ہے قرآن میں ہے : ۔ إِذا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزالَها[ الزلزلة/ 1] جب زمین بڑے زور سے ہلائی جائے گی ۔ إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيمٌ [ الحج/ 1] بیشک قیامت کا زلزلہ بڑی ( سخت ) مصیبت ہوگی ۔ وَزُلْزِلُوا زِلْزالًا شَدِيداً [ الأحزاب/ 11] اور وہ ( دشمنوں کے رعب سے ) خوب ہی جھڑ جھڑائے گئے ۔ قدم القَدَمُ : قَدَمُ الرّجل، وجمعه أَقْدَامٌ ، قال تعالی: وَيُثَبِّتَ بِهِ الْأَقْدامَ [ الأنفال/ 11] ، وبه اعتبر التّقدم والتّأخّر، ( ق د م ) القدم انسان کا پاؤں جمع اقدام ۔ قرآن میں ہے : وَيُثَبِّتَ بِهِ الْأَقْدامَ [ الأنفال/ 11] اس سے تمہارے پاؤں جمائے رکھے ۔ اسی سے تقدم کا لفظ لیا گیا ہے جو کہ تاخر کی ضد ہے ثبت الثَّبَات ضدّ الزوال، يقال : ثَبَتَ يَثْبُتُ ثَبَاتاً ، قال اللہ تعالی: يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا [ الأنفال/ 45] ( ث ب ت ) الثبات یہ زوال کی ضد ہے اور ثبت ( ن ) ثباتا کے معنی ایک حالت پر جمے رہنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا [ الأنفال/ 45] مومنو جب ( کفار کی ) کسی جماعت سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو ۔ ذوق الذّوق : وجود الطعم بالفم، وأصله فيما يقلّ تناوله دون ما يكثر، فإنّ ما يكثر منه يقال له : الأكل، واختیر في القرآن لفظ الذّوق في العذاب، لأنّ ذلك۔ وإن کان في التّعارف للقلیل۔ فهو مستصلح للکثير، فخصّه بالذّكر ليعمّ الأمرین، وکثر استعماله في العذاب، نحو : لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء/ 56] ( ذ و ق ) الذاق ( ن ) کے معنی سیکھنے کے ہیں ۔ اصل میں ذوق کے معنی تھوڑی چیز کھانے کے ہیں ۔ کیونکہ کسی چیز کو مقدار میں کھانے پر اکل کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن نے عذاب کے متعلق ذوق کا لفظ اختیار کیا ہے اس لئے کہ عرف میں اگرچہ یہ قلیل چیز کھانے کے لئے استعمال ہوتا ہے مگر لغوی معنی کے اعتبار سے اس میں معنی کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا معنی عموم کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا معیک عموم کے پیش نظر عذاب کے لئے یہ لفظ اختیار کیا ہے ۔ تاکہ قلیل وکثیر ہر قسم کے عذاب کو شامل ہوجائے قرآن میں بالعموم یہ لفظ عذاب کے ساتھ آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء/ 56] تاکہ ( ہمیشہ ) عذاب کا مزہ چکھتے رہیں ۔ سَّيِّئَةُ : الفعلة القبیحة، وهي ضدّ الحسنة، قال : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم/ 10]: بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة/ 81] سَّيِّئَةُ : اور ہر وہ چیز جو قبیح ہو اسے سَّيِّئَةُ :، ، سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسی لئے یہ لفظ ، ، الحسنیٰ ، ، کے مقابلہ میں آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم/ 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ چناچہ قرآن میں ہے اور سیئۃ کے معنی برائی کے ہیں اور یہ حسنۃ کی ضد ہے قرآن میں ہے : بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة/ 81] جو برے کام کرے صدد الصُّدُودُ والصَّدُّ قد يكون انصرافا عن الشّيء وامتناعا، نحو : يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً ، [ النساء/ 61] ، وقد يكون صرفا ومنعا نحو : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل/ 24] ( ص د د ) الصدود والصد ۔ کبھی لازم ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے رو گردانی اور اعراض برتنے کے ہیں جیسے فرمایا ؛يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً ، [ النساء/ 61] کہ تم سے اعراض کرتے اور کے جاتے ہیں ۔ اور کبھی متعدی ہوتا ہے یعنی روکنے اور منع کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل/ 24] اور شیطان نے ان کے اعمال ان کو آراستہ کردکھائے اور ان کو سیدھے راستے سے روک دیا ۔ سبل السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] ( س ب ل ) السبیل ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] دریا اور راستے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٩٤) اور تم لوگ اپنے عہدوں کو فساد اور مکرو فریب اور آپس میں دھوکہ دہی کا ذریعہ نہ بناؤ کہیں دوسرے اطاعت خداوندی سے نہ پھسل جائیں جیسا کہ چلتے ہوئے آدمی کا قدم جمنے کے بعد پھسل جاتا ہے اور پھر تمہیں اس وجہ سے کہ تم نے دوسروں کو دین الہی اور اطاعت خداوندی سے روکا جہنم کی تکلیف بھگتنا پڑے اور تمہیں کو آخرت میں سخت عذاب ہوگا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩٤ (وَلَا تَتَّخِذُوْٓا اَيْمَانَكُمْ دَخَلًۢا بَيْنَكُمْ فَتَزِلَّ قَدَمٌۢ بَعْدَ ثُبُوْتِهَا) دیکھو حقیقت یہ ہے کہ تم ہمارے نبی کو اچھی طرح پہچان چکے ہو : (يَعْرِفُوْنَهٗ كَمَا يَعْرِفُوْنَ اَبْنَاۗءَھُمْ ) (البقرۃ : ١٤٦) ۔ اب اس حالت میں اگر تم پھسلو گے تو یاد رکھو سیدھے جہنم کی آگ میں جا کر گرو گے : (فَانْهَارَ بِهٖ فِيْ نَارِ جَهَنَّمَ ) (التوبۃ : ١٠٩) (وَتَذُوْقُوا السُّوْۗءَ بِمَا صَدَدْتُّمْ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۚ وَلَكُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ) تمہیں تو چاہیے تھا کہ سب سے پہلے کھڑے ہو کر گواہی دیتے کہ ہم نے محمد کو اپنی کتاب میں دی گئی نشانیوں سے ٹھیک ٹھیک پہچان لیا ہے ‘ آپ واقعی اللہ کے رسول ہیں۔ اور تمہیں نصیحت بھی کی گئی تھی : (وَلَا تَكُوْنُوْٓا اَوَّلَ كَافِرٍۢ بِهٖ ) (البقرۃ : ٤١) ” اور تم اس کے پہلے منکر نہ بن جانا “۔ اس سب کچھ کے باوجود تم لوگ اس گواہی کو چھپار ہے ہو : (وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَهَادَةً عِنْدَهٗ مِنَ اللّٰهِ ) (البقرۃ : ١٤٠) ” اور اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہوگا جس نے چھپائی وہ گواہی جو اس کے پاس ہے اللہ کی طرف سے ! “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

95. That is, someone who might have been convinced of Islam, seeing your dishonest conduct should become disgusted and hold back from joining the believers. For he might argue like this: As these Muslims are not much different from the disbelievers in their morals and dealings, there is no reason why I should join them.

سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :95 یعنی کوئی شخص اسلام کی صداقت کا قائل ہو جانے کے بعد محض تمہاری بد اخلاقی دیکھ کر اس دین سے برگشتہ ہو جائے اور اس وجہ سے وہ اہل ایمان کے گروہ میں شامل ہونے سے رک جائے کہ اس گروہ کے جن لوگوں سے اس کو سابقہ پیش آیا ہو ان کو اخلاق اور معاملات میں اس نے کفار سے کچھ بھی مختلف نہ پایا ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

41: یہ قسم کو توڑنے کا ایک اور نقصان بیان فرمایا جا رہا ہے اور وہ یہ کہ جب تم قسم توڑو گے تو عین ممکن ہے کہ تمہیں دیکھ کر کوئی اور شخص بھی اس گناہ پر آمادہ ہوجائے۔ پہلے تو اس کے پاؤں جمے ہوئے تھے، تمہیں دیکھ کر وہ پھسل گیا تو چونکہ تم اس کے گناہ کا سبب بنے تو تمہیں دہرا گناہ ہوگا۔ کیونکہ تم نے اس کو اللہ تعالیٰ کے راستے سے روکا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(16:94) ولا تتخذوا ایمانکم رخلا بینکم۔ اور اپنی قسموں کو آپس میں فریب دہی کا ذریعہ مت بنائو۔ نیز ملاحظہ ہو۔ 16:92 ۔ فتزل قدم۔ ف تعلیل کا ہے بمعنی ورنہ۔ نتیجۃً ایسا نہ ہو۔ تزل مضارع واحد مؤنث غائب زل یزل (ضرب) زل سے۔ الزلۃ کے اصل معنی ہیں۔ بلا قصد قدم پھسل جانا۔ اس لئے جو گناہ بلا قصد سرزد ہوجائے اس کو بطور تشبیہ زلۃ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ چناچہ قرآن مجید میں ہے فان زللتم (2:209) اگر تم لغزش کھا جائو۔ باب استفعال سے کسی کو پھسلانے کا ارادہ کرنا۔ مثلاً انما استزلہم الشیطن (2:36) انہیں شیطان نے پھسلا دیا۔ یعنی شیطان انہیں آہستہ آہستہ پھسلانے کی کوشش کرتا رہا۔ حتی کہ وہ پھسل گئے۔ اسی معنی سے تزلزل بمعنی اضطراب کے ہیں اور اس میں تکرارِ حروف تکرارِ معنی پر دلالت کرتا ہے۔ مضارع کا نصب جوابِ نہی ہونے کی وجہ سے ہے فتزل قدم یعنی (تم اپنی قسموں کو باہمی فساد کا ذریعہ مت بنائو) ورنہ (تمہارا یا کسی کا یا لوگوں کا) قدم (جادۂ حق سے) پھسل جائے گا (یا کہیں ایسا نہ ہو کہ قدم راہ مستقیم سے پھسل جائے۔ بعد ثبوتھا۔ اس کے جم جانے کے بعد (یعنی اچھے بھلے ہدایت یافتہ قدم ڈگمگا جائیں۔ تذوقوا۔ ذاق یذوق (نصر) ذوق سے مضارع جمع مذکر حاضر۔ نون اعرابی بوجہ عامل (جواب نہی) گرگیا۔ تمہیں چکھنا پڑے۔ تمہیں بھگتنا پڑے۔ یا تمہیں چکھنا پڑے گا۔ بھگتنا پڑے گا۔ السوئ۔ عذاب۔ برا نیتجہ۔ یہاں دنیوی عذاب کی طرف اشارہ ہے۔ جہاں تک عذاب آخرت کا تعلق ہے تو آیۃ کے آخر میں ہے ولکم عذاب عظیم۔ بما ۔ بسبب ۔ بوجہ۔ صددتم ماضی جمع مذکر حاضر۔ صد مصدر۔ (باب نصر) تم نے روکا۔ تم مانع ہوئے (بوجہ عہد شکنی کے) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 اس سے معلوم ہوا کہ کافر کو بد عہدی کر کے نہ ماریئے۔ ایسی باتوں سے کفر تو مٹتا نہیں الٹا وہاں آتا ہے۔ (موضح) 3 یعنی ایسا نہ ہو کہ تمہاری بدعہدی کو دیکھ کر لوگ مرتد ہوجائیں یا نقض عہد کرنے والا خود کفر میں مبتلا ہوجائے۔ (شوکانی) 4 اور تم لوگوں کو سلام سے روکنے کا ذریعہ بن جائو اور تم پر اس کا وبال آجائے۔ 5 اور آخرت کے عذاب عظیم میں مبتلا کردیئے جائو۔ مطلب یہ کہ اسلام کو بدنام نہ کرو کہ ایمان لانے والے شک میں پڑجائیں جس کا گناہ تم پر پڑے گا۔ (موضع)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

7۔ یعنی قسموں اور عہدوں کو مت توڑو۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : دنیا کی خاطر اللہ کے نام کو بدنام اور اپنا ایمان برباد نہ کرو دنیا تو ختم ہونے والی ہے، اور جو اللہ تعالیٰ کے ہاں تمہارا صلہ ہے وہ ہمیشہ رہنے والا ہے۔ انسان دنیوی مفاد کی خاطر جھوٹی قسم اس لیے کھاتا ہے کہ وہ نقصان سے بچ جائے یا اسے فائدہ پہنچے۔ اس برائی سے منع کرتے ہوئے سمجھایا ہے کہ جس جھوٹی انا اور دنیوی مفاد کی خاطر اپنے رب کے عظیم نام کو استعمال کرتے اور عملاً دین کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہو۔ اس پر غور کرو کہ یہ دنیا تو عارضی اور ختم ہوجانے والی ہے۔ اگر تم جھوٹی انا اور عارضی مفاد کے مقابلہ میں اخلاقی قدروں اور دین کے اصولوں پر قائم رہو تو اللہ کے ہاں اس کا نہ ختم ہونے والا اجر ہے۔ استقامت اور دنیا کا معمولی مفاد چھوڑنے کے بدلے اللہ تعالیٰ تمہیں ایسی حیات طیبہ اور اجر عظیم عطا فرمائے گا۔ جس کا تم دنیا کی زندگی میں تصور بھی نہیں کرسکتے۔ اس میں مرد اور عورت کے درمیان کوئی فرق اور تخصیص نہیں ہے۔ دنیا میں حقوق و فرائض کے حوالے سے عورت اور مرد میں کچھ فرق ہے لیکن اجر وثواب کے حوالے سے کوئی فرق نہیں۔ جہاں تک حیات طیبہ کا تعلق ہے یہ آخرت میں ہی نہیں دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ عطا فرماتا ہے۔ جو اپنے رب کے حکم اور اس کی رضا کی خاطر اخلاقی قدروں اور دین کے اصولوں کا خیال رکھے ہوئے ہیں اللہ تعالیٰ ایسے مرد اور عورت کو اپنی نعمتیں عطا کرنے کے ساتھ اسے معاشرے میں وہ احترام و مقام عطا فرماتا ہے جس کی لوگ مثال پیش کرتے ہیں۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال اللّٰہُ تَعَالٰی اَعْدَدْتُّ لِعِبَادِیَ الصَّالِحِیْنَ مَالَاعَیْنٌ رَاأتْ وَلَآ اُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَاخَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ وَّاقْرَءُ وْٓا اِنْ شِءْتُمْ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِیَ لَھُمْ مِنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ ) [ رواہ البخاری : باب ما جاء فی صفۃ الجنۃ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ‘ میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے ایسی نعمتیں تیار کی ہیں ‘ جن کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ ہی ان کے متعلق کسی کان نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں ان کا خیال آیا اگر تمہیں پسند ہو تو اس آیت کی تلاوت کرو ” کوئی نہیں جانتا کہ ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے کیا چیز چھپا کے رکھی گئی ہے۔ “ (قُلْ بِفَضْلِ اللَّہِ وَبِرَحْمَتِہٖ فَبِذَلِکَ فَلْیَفْرَحُوْا ہُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُونَ )[ یونس : ٥٨] ” آپ فرما دیں یہ اللہ کے فضل اور اس کی مہربانی سے نازل ہوئی ہے لہٰذا انہیں اس پر خوش ہونا چاہیے یہ اس سے بہتر ہے جو وہ جمع کررہے ہیں۔ “ مسلمان کی دعا : (وَمِنْہُمْ مَنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَاب النَّارِ ) [ البقرہ : ٢٠١] ” اور کچھ ایسے ہیں جو کہتے ہیں اے ہمارے رب ! ہمیں دنیا اور آخرت میں بھلائی سے نواز اور ہمیں جہنم کے عذاب سے بچا لے۔ “ (عَنْ بُسْرِ بْنِ أَرْطَاۃَ الْقُرَشِیِّ (رض) یَقُولُ سَمِعْتُ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَدْعُواللَّہُمَّ أَحْسِنْ عَاقِبَتَنَا فِی الأُمُورِ کُلِّہَا وَأَجِرْنَا مِنْ خِزْیِ الدُّنْیَا وَعَذَاب الآخِرَۃِ )[ رواہ احمد ] ” حضرت بسر بن ارطاۃ قرشی (رض) کہتے ہیں میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ دعا کرتے ہوئے سنا اے اللہ ! ہمارے تمام معاملات کا انجام اچھا فرما اور ہمیں دنیا اور آخرت کی رسوائی سے محفوظ فرما۔ “ مسائل ١۔ قسموں کو مفاد اور فساد کا ذریعہ نہیں بنا نا چاہیے۔ ٢۔ اللہ کی راہ سے روکنے والوں کے لیے عذاب عظیم ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے عہد کو تھوڑے فائدے کے بدلے نہ بیچیں۔ ٤۔ انسان کے پاس جو کچھ ہے وہ ختم ہوجائے گا اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ باقی رہے گا۔ ٥۔ صبر کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کا بہتر صلہ عطا فرمائے گا۔ ٦۔ اچھے اعمال کرنے والوں کو دنیا میں بھی پاکیزہ زندگی سے نوازا جائے گا۔ ٧۔ اچھے اعمال کرنے والوں کو قیامت کے دن ان کے اعمال کی بہترین جزا ملے گی۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ بہترین اجر دینے والا ہے : ١۔ ہم ان کو ان کے اعمال سے بہتر جزا دیں گے۔ (النحل : ٩٧) ٢۔ اللہ ان کو ان کے اعمال سے بہتر صلہ عطا فرمائے۔ ( الزمر : ٣٥) ٣۔ ہم ان کے اعمال سے بہتر جزا دیں گے۔ (العنکبوت : ٧) ٤۔ اللہ ان کو ان کے اعمال کا بہتر صلہ اور اپنے فضل سے مزید عنایت فرمائے گا۔ (النور : ٣٨)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

تشریح : قسموں کو دھوکے اور فریب کے لئے استعمال کرنے کے نتیجے میں انسانی ضمیر سے عقیدہ مر جاتا ہے اور دوسروں کے ضمیر میں اس کی صورت بگڑ جاتی ہے۔ جو شخص قسم اٹھاتا ہے اور یہ جانے ہوئے اٹھاتا ہے کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے ، ایسے شخص کے دل میں کوئی عقیدہ قرار نہیں پکڑ سکتا۔ نہ ایسا شخص کسی راستے پر ثابت قدمی سے چل سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ جن کے خلاف قسم اٹھاتا ہے ان کی نظروں میں بھی اپنے دین و ایمان کی شکل بگاڑ کر رکھ دیتا ہے۔ دوسرا فریق جان لیتا ہے کہ اس کی یہ قسمیں دھوکے کے لئے تھیں۔ یوں یہ شخص ان لوگوں کو دین اسلام سے متنفر کرکے ان کی گمرالی کا سبب بنتا ہے کیونکہ یہ دوسرے مسلمانوں اور غیر مسلموں کے لئے ایک بری مثال قائم کرتا ہے۔ جب لوگوں نے دیکھا کہ اہل اسلام اپنے وعدے کے بہت پکے ہیں ، عہدے کے پابند ہیں ، معاملات میں صاف ہیں اور ایمان میں مخلص ہیں تو کفار جماعتوں اور اقوام کی شکل میں اسلام میں داخل ہوگئے کیونکہ وفائے عہد اور ایفائے میثاق کے نتیجے میں ان کو جو خسارہ ہوتا تھا ، اس سے فائدہ بہت زیادہ تھا۔ قرآن کریم اور سنت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کا کردار تعمیر کرتے ہوئے اس پہلو سے ان کی زندگیوں پر بہت ہی اچھے نقوش چھوڑے اور انہی نقوش کے مطابق مسلمان انفرادی طور اور حکومتی سطح پر لوگوں سے معاملات کرتے رہے۔ ان کا یہ طرز عمل نہایت ہی امتیازی تھا۔ روایات میں آتا ہے کہ حضرت معاویہ اور شاہ روم کے درمیان معاہدہ امن کا ایک وقت مقرر تھا۔ حضرت معاویہ نے اختتام اجل سے پہلے ہی شاہ شام کے خلاف لشکر کشی کردی جبکہ ان کو معلوم ہی نہ تھا۔ اس موقع پر حضرت عمر ابن عتبہ نے فرمایا اللہ اکبر ، یا معاویہ ، وعدے کی وفا کرو ، غداری مت کرو ، میں نے خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ کہتے سنا ہے ” جس شخص اور کسی قوم کے درمیان ایک میعاد امن مقرر ہو ، تو وہ اپنے اس عہد کو ہر گز حلال نہ کرے جب تک وقت گزر نہ جائے۔ چناچہ حضرت معاویہ لشکر لے کر واپس ہوگئے۔ اسلامی تاریخ ایسی روایات سے بھری پڑی ہے کہ مسلمانوں نے نقص عہد میں صریح فائدے کے باوجود عہد کا پاس رکھا اور ظاہری مصلحتوں کو چھوڑ دیا۔ قرآن کریم نے مسلمانوں کے دلوں پر یہی اسلامی رنگ چڑھا دیا تھا۔ قرآن نے وفائے عہد کی ترغیب دی ، عہد شکنی سے ڈرایا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو ڈرایا اور یہ قرار دیا ہے کہ فریقین ہی معاہدے کے فریق نہیں ہوتے بلکہ اللہ بھی فریق ہوتا ہے ۔ قرآن کریم نے یہ قرار دیا کہ عہد شکنی کی صورت میں جو نفع ہوتا ہے وہ نہایت ہی معمولی اور حقیر ہوتا ہے اور اللہ وفائے عہد پر جو اجر اور انعام دے گا وہ بہت ہی بڑا انعام ہوگا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (وَ لَا تَتَّخِذُوْٓا اَیْمَانَکُمْ دَخَلًا بَیْنَکُمْ ) (الآیۃ) کہ اپنی قسموں کو اپنے درمیان فساد کا ذریعہ نہ بناؤ اس مضمون کو بطور تاکید دوبارہ ذکر فرمایا اور ساتھ ہی قسموں کو فساد کا ذریعہ بنانے کا نتیجہ بھی بیان فرمایا اور نتیجہ کے نتیجہ سے بھی باخبر فرما دیا، نتیجہ بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا (فَتَزِلَّ قَدَمٌ بَعْدَ ثُبُوْتِھَا) (کہ اس کی وجہ سے قدم جمنے کے بعد پھسل جائے گا) اگر اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد کو توڑا تو یہ تو کفر ہے، ایمان کے بعد کوئی شخص کفر کے گڑھے میں جاپڑے اس سے زیادہ لغزش والا کون ہوسکتا ہے عہد توڑا ایمان چھوڑا کفر کے گڑھے میں جاپڑا اس سے بڑی لغزش کوئی نہیں، اور اگر بندوں کے عہد کو توڑا ان کو دھوکہ دیا اگرچہ حدود کفر میں داخل نہ ہوا بدعہدی کی وجہ سے جو مستحق عقاب و عذاب ہوئے یہ بھی بہت بڑی لغزش ہے۔ اہل ایمان پر لازم ہے کہ ایمان پر پختگی کے ساتھ جسمیں جب قدم راسخ ہوگیا تو اسے جمائے رہیں ایمان کے تقاضوں کو پورا کرتے رہیں پھر نتیجے کا نتیجہ بیان فرمایا یعنی قدم پھسلنے کے بعد یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کی راہ سے روکنے کی وجہ سے دنیا میں بھی برا عذاب چکھو گے اور آخرت میں بھی برے عذاب میں گرفتار ہوگے۔ قال صاحب الروح والمراد من السوء العذاب الدنیوی من القتل والاسرو النھب والجلاء و غیر ذلک مما یسوء اور اللہ کی راہ سے روکنے کا مطلب بتاتے ہوئے صاحب معالم التنزیل ص ٨٤ ص ج ٣ بعض اکابر سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ معناہ مثلتم طریقۃ نقض العھد علی الناس بنقضکم العھد یعنی جب تم عہد توڑ دو گے تو لوگوں کے لیے مثال بن جاؤ گے ان کو بھی اس کا راستہ مل جائے گا، نقض عہد کرکے دوسروں کے لیے نقض عہد کا راستہ ہموار کرنا یہ اللہ کے راستہ سے روکنا ہے، اور بعض اکابر نے فرمایا ہے (فَتَزِلَّ قَدَمٌ بَعْدَ ثُبُوْتِھَا) سے یہ مستنبط ہوتا ہے کہ قسمیں کھا کر دھوکہ دینا اور اپنے درمیان فساد ڈالنے کا ذریعہ بنا دینا ایسی چیز ہے جس سے سلب ایمان کا خطرہ ہے بہت سے لوگ اللہ کی قسم کھا کر وعدہ کرلیتے ہیں یا کسی گزشتہ واقعہ پر جھوٹی قسم کھا جاتے ہیں کہ ہم نے ایسا کیا ہے۔ فلاں نے ایسا کیا ہے اور مخاطب کو فریب دینا مقصود ہوتا ہے چونکہ اللہ تعالیٰ کا نام مکرو فریب کے لیے استعمال کیا اس کی پاداش میں سلب ایمان کی سزا مل سکتی ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

78:۔ امر زائد مرتب کرنے کے لیے مضمون مذکور کا بصورت نہی اعادہ کیا گیا۔ نیز اعادہ سے تاکید مقصود ہے اپنی قسموں اور اپنے عہدوں کو غدر و خیانت کا ذریعہ نہ بناؤ ورنہ اس (عہد شکنی) کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تمہارے پاؤں دین اسلام کی راہ سے پھسل جائیں گے اور تم میں سے جو لوگ عہد بیعت توڑ کر دوبارہ کفر میں چلے جائیں گے ان کا یہ عمل دوسروں کے لیے بھی بیعت تور کر اسلام سے خارج ہونے کا باعث ہوگا اس لیے تمہیں دنیا اور آخرت میں اس عہد شکنی کا سخت ترین عذاب جھیلنا پڑے گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہاں عہد اور ایمان سے مراد عام نہیں بلکہ بیعت اسلام کا عہد مراد ہے کیونکہ اتنی سخت وعید ترک اسلام پر ہی ہوسکتی ہے اور اس کے بعد ” من کفر باللہ من بعد ایمانہ الخ “ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ عہد سے عہد اسلام مراد ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

94 ۔ اور اے اہل ایمان تم اپنی قسموں کو آپس میں دھوکہ اور فریب دہی اور فساد کا ذریعہ نہ بنائو مبادا کسی کا قدم جمے پیچھے پھسل نہ جائے اور تم اس کے باعث کہ تم نے خدا کی راہ سے روکا اور اس سبب سے کہ تم خدا کی راہ سے مانع ہوئے تم کو کسی سخت تکلیف کا مزہ چکھنا پڑے اور تم کو آخرت میں بڑے عذاب کا سامنا ہو۔ یعنی اگر تم مسلمان ہو کر اپنی قسموں کا کھیل بنا لو گے اور قسموں کو فساد کا ذریعہ بنائو گے تو لا محالہ دوسرے لوگوں کو اسلام سے نفرت ہوگی اور کوئی شخص جو اسلام قبول کرنے کا ارادہ کرچکا ہو اس کا دل ہٹ جائے یا کسی نے تازہ تازہ اسلام قبول کیا ہو اور وہ تمہارے اس طرز عمل کو دیکھ کر اسلام سے پھر جائے تو چونکہ تمہارے اعمال سے یہ اثر پیدا ہوگا تو گویا تم اللہ کی راہ سے اور دین حق سے روکنے کا سبب ہوئے اس لئے تم کو دنیا میں بھی خمیازہ بھگتنا پڑے گا اور آخرت میں بڑے عذاب کا سامنا ہوگا ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی مسلمانوں کو بد نام نہ کرو یقین لانے والے شک میں پڑیں اور تم پر گناہ چڑھے۔ 12