Surat un Nahal

Surah: 16

Verse: 96

سورة النحل

مَا عِنۡدَکُمۡ یَنۡفَدُ وَ مَا عِنۡدَ اللّٰہِ بَاقٍ ؕ وَ لَنَجۡزِیَنَّ الَّذِیۡنَ صَبَرُوۡۤا اَجۡرَہُمۡ بِاَحۡسَنِ مَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ ﴿۹۶﴾

Whatever you have will end, but what Allah has is lasting. And We will surely give those who were patient their reward according to the best of what they used to do.

تمہارے پاس جو کچھ ہے سب فانی ہے اور اللہ تعالٰی کے پاس جو کچھ ہے باقی ہے ۔ اور صبر کرنے والوں کو ہم بھلے اعمال کا بہترین بدلہ ضرور عطا فرمائیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

مَا عِندَكُمْ يَنفَدُ ... if you only knew. Whatever you have will be exhausted, meaning, it will come to an end and will vanish, because it is only there for a certain, limited time. ... وَمَا عِندَ اللّهِ بَاقٍ ... and what is with Allah will remain. meaning, His reward for you in Paradise will remain, without interruption or end, because it is eternal and will never change n... or disappear. ... وَلَنَجْزِيَنَّ الَّذِينَ صَبَرُواْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ And to those who are patient, We will certainly grant them their rewards in proportion to the best of what they used to do. Here the Lord swears, with the Lam of affirmation, that He will reward the patient for the best of their deeds, i.e., He will forgive them for their bad deeds.   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠٠] صبر کرنے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو دنیوی مفادات کی خاطر اسلام کی اعلیٰ اقدار اور اصولوں کو قربان نہیں کردیتے بلکہ اصولوں کی خاطر دنیوی مفادات کو قربان کردیتے ہیں اور دنیا کا مال و دولت جتنا بھی ہو اور دنیوی مفادات جتنے بھی ہوں وہ کم ہی ہیں کیونکہ وہ سب ختم اور فنا ہوجانے والے ہیں۔ مگر اصولو... ں کی خاطر دنیوی مفادات کو ٹھکرا دینے سے جو آخرت میں اجر ملے گا وہ بہت بہتر، پائیدار اور ابدی ہوگا۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

مَا عِنْدَكُمْ يَنْفَدُ : چاہے وہ مقدار کے لحاظ سے کتنا ہی زیادہ ہو، بلکہ خواہ ساری دنیا ہو۔ وَلَنَجْزِيَنَّ الَّذِيْنَ صَبَرُوْٓا ۔۔ : لام تاکید اور نون ثقیلہ کی تاکید اکٹھے ہوں تو قسم جیسی تاکید کا فائدہ دیتے ہیں۔ صبر کا معنی اپنے آپ کو کسی چیز پر باندھنا اور روک کر رکھنا ہے، یعنی جنھوں نے دنیوی ... طمع کے مقابلے میں اپنے آپ کو حق پر قائم رکھا۔ صبر بہترین عمل ہے، کیونکہ یہ تمام اعمال کی بنیاد ہے، اس کی تین قسمیں ہیں، اللہ اور اس کے رسول کے احکام پر قائم رہنا اور طبیعت کو ان کا پابند رکھنا صبر ہے، اسی طرح اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی منع کردہ چیزوں سے روکنا صبر ہے اور تیسری قسم مصیبت کے وقت جزع فزع اور اللہ تعالیٰ کے شکوے سے اپنے آپ کو روکنا صبر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قسم کھا کر فرمایا کہ ہم صبر کرنے والوں کو ان کے بہترین اعمال کے مطابق بدلہ دیں گے۔ بہترین عمل سے مراد صبر ہے، یعنی ان کے صبر کے مطابق اجر دیں گے۔ ایک معنی یہ بھی ہے کہ ہم انھیں ان کے عمل سے بہت زیادہ اچھا اجر دیں گے، جو کم از کم دس گنا اور زیادہ سے زیادہ بےحساب ہوگا، جیسا کہ فرمایا : (اِنَّمَا يُوَفَّى الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ ) [ الزمر : ١٠ ] ” صرف کامل صبر کرنے والوں کو ان کا اجر کسی شمار کے بغیر دیا جائے گا۔ “  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

All Worldly Gains and States will Perish - Only their Outcome with Allah shall Remain A casual look at the expression: مَا عِندَكُمْ (ma ` indakum: &what is with you& meaning world gains) leads one to think of wealth and possessions only. My revered teacher, Maulana Sayyid Asghar Husain of Deoband, may the mercy of Allah be upon him, said that the word: مَا ma (what) is general lexically a... nd there is nothing prohibiting us from taking it in a general sense, therefore, included under it are wealth and possessions of the present world as well as all states and matters that one experiences therein. These could be happiness and sorrow, pain and comfort, sick¬ness and health, gain and loss or someone&s friendship or enmity. These form part of it for all these are transitory and must perish. However, the after-effects of all these states and matters which are to bring reward or punishment on the Day of Judgment are destined to remain. So, any reckless pursuit of states and matters that must perish and to stake one&s life and its energies on this altar by becoming negligent of the eter¬nal reward and punishment is something no sane person should elect to do.  Show more

دنیا کی راحت وکلفت دوستی دشمنی سب فنا ہونے والے ہیں اور ان کے ثمرات و نتائج جو اللہ کے پاس ہیں وہ باقی رہنے والے ہیں : مَا عِنْدَكُمْ کے لفظ سے عام طور پر ذہن صرف مال و متاع کی طرف جاتا ہے استاذ محترم مولانا سید اصغر حسین صاحب (رح) نے فرمایا کہ لفظ ما لغت کے اعتبار سے عام ہے اور عموم کے معنی مراد ل... ینے سے کوئی امر شرعی مانع نہیں اس لئے اس میں دنیا کا مال و متاع بھی داخل ہے اور اس میں پیش آنے والے تمام حالات و معاملات خوشی اور غم رنج اور راحت بیماری اور صحت نفع اور نقصان کسی کی دوستی یا دشمنی یہ سب چیزیں شامل ہیں کہ سب کی سب فنا ہونے والی ہیں البتہ ان حالات و معاملات پر جو آثار مرتب ہونے والے ہیں اور قیامت میں ان پر عذاب وثواب ہونے والا ہے وہ سب باقی رہنے والے ہیں فنا ہوجانے والے حالات و معاملات کی دھن میں لگا رہنا اور اپنی زندگی اور اس کی توانائی کو اسی کی فکر میں لگا کر دائمی عذاب وثواب سے غفلت برتنا کسی ذی عقل کا کام نہیں۔ دوران بقاء چو باد صحرا بگذشت تخلی و خوشی وزشت وزیبا بگذشت بنداشت ستمگر کہ جفا برما کرد برگردن وے بماند وبرما بگذشت   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

مَا عِنْدَكُمْ يَنْفَدُ وَمَا عِنْدَ اللّٰهِ بَاقٍ ۭ وَلَنَجْزِيَنَّ الَّذِيْنَ صَبَرُوْٓا اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ 96؀ نفد النَّفَادُ : الفَناءُ. قال تعالی: إِنَّ هذا لَرِزْقُنا ما لَهُ مِنْ نَفادٍ [ ص/ 54] يقال : نَفِدَ يَنْفَدُ «1» قال تعالی: قُلْ لَوْ كانَ الْبَحْرُ مِداد... اً لِكَلِماتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَنْ تَنْفَدَ [ الكهف/ 109] ، ما نَفِدَتْ كَلِماتُ اللَّهِ [ لقمان/ 27] . وأَنْفَدُوا : فَنِيَ زادُهم، وخَصْمٌ مُنَافِدٌ: إذا خَاصَمَ لِيُنْفِدَ حُجَّةَ صاحبِهِ ، يقال : نَافَدْتُهُ فَنَفَدْتُهُ. ( ن ف د ) النفاد ( س ) ختم ہوجانا ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ هذا لَرِزْقُنا ما لَهُ مِنْ نَفادٍ [ ص/ 54] یہ ہمارا رزق ہے جو کبھی ختم نہیں ہوگا ۔ اور اس معنی میں فعل نفد ( س ) استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ قُلْ لَوْ كانَ الْبَحْرُ مِداداً لِكَلِماتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَنْ تَنْفَدَ [ الكهف/ 109] کہہ دو کہ اگر سمندر میرے پروردگار کی باتوں کے لکھنے کے لئے سیاہی ہو تو قبل اس کے کہ میرے پروردگار کی باتیں تمام ہوں سمندر ختم ہوجائے ما نَفِدَتْ كَلِماتُ اللَّهِ [ لقمان/ 27] تو خدا کی باتیں ( یعنی اس کی صفتیں ختم نہ ہوں ۔ انفدوا ان کا تو شہ ختم ہوگیا ۔ اور خصم منا فد دوسرے کی حجت کو ختم کرنے کے لئے جھگڑنے والے کو کہتے ہیں اور نافدۃ ونفد تہ کے معنی دوسرے کی دلیل کو ختم کرنے کے ہیں ۔ بقي البَقَاء : ثبات الشیء علی حاله الأولی، وهو يضادّ الفناء، وعلی هذا قوله : بَقِيَّتُ اللَّهِ خَيْرٌ لَكُمْ [هود/ 86] ( ب ق ی ) البقاء کے معنی کسی چیز کے اپنی اصلی حالت پر قائم رہنے کے ہیں یہ فناء کی ضد ہے ۔ یہ باب بقی ( س) یبقی بقاء ہے ۔ یہی معنی آیت کریمہ : بَقِيَّتُ اللَّهِ خَيْرٌ لَكُمْ [هود/ 86] ، میں بقیۃ اللہ کے ہیں جو کہ اللہ تعالیٰ کی طرف مضاف ہے ۔ جزا الجَزَاء : الغناء والکفاية، وقال تعالی: لا يَجْزِي والِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلا مَوْلُودٌ هُوَ جازٍ عَنْ والِدِهِ شَيْئاً [ لقمان/ 33] ، والجَزَاء : ما فيه الکفاية من المقابلة، إن خيرا فخیر، وإن شرا فشر . يقال : جَزَيْتُهُ كذا وبکذا . قال اللہ تعالی: وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه/ 76] ، ( ج ز ی ) الجزاء ( ض ) کافی ہونا ۔ قرآن میں ہے :۔ { لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا } ( سورة البقرة 48 - 123) کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے گا ۔ کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آسکیگا ۔ الجزاء ( اسم ) کسی چیز کا بدلہ جو کافی ہو جیسے خیر کا بدلہ خیر سے اور شر کا بدلہ شر سے دیا جائے ۔ کہا جاتا ہے ۔ جزیتہ کذا بکذا میں نے فلاں کو اس ک عمل کا ایسا بدلہ دیا قرآن میں ہے :۔ وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه/ 76] ، اور یہ آں شخص کا بدلہ ہے چو پاک ہوا ۔ صبر الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب/ 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر» ( ص ب ر ) الصبر کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب/ 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر» ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں أجر الأجر والأجرة : ما يعود من ثواب العمل دنیویاً کان أو أخرویاً ، نحو قوله تعالی: إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [يونس/ 72] ( ا ج ر ) الاجروالاجرۃ کے معنی جزائے عمل کے ہیں خواہ وہ بدلہ دینوی ہو یا اخروی ۔ چناچہ فرمایا : ۔ {إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ } [هود : 29] میرا جر تو خدا کے ذمے ہے ۔ احسان الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» . فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] ( ح س ن ) الحسن الاحسان ( افعال ) احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٩٦) یا یہ کہ جب تم اس کی تصدیق کرنا چاہو اور جو مال و دولت تمہارے پاس ہے وہ ختم ہوجائے گا اور ثواب خداوندی باقی رہے گا اور جو لوگ وفائے عہد وغیرہ پر ثابت قدم ہیں۔ ہم ان کے دنیا کے اچھے کاموں کے بدے میں آخرت میں ان کو اس کو ثواب دیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(وَلَنَجْزِيَنَّ الَّذِيْنَ صَبَرُوْٓا اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ) ہر نیکو کار شخص کے تمام اعمال ایک درجے کے نہیں ہوتے کوئی نیکی اعلیٰ درجے کی ہوتی ہے اور کوئی نسبتاً چھوٹے درجے کی۔ مگر جن لوگوں سے اللہ تعالیٰ خوش ہوجائیں گے ان کی اعلیٰ درجے کی نیکیوں کو سامنے رکھ کر ان کے اجر...  وثواب کا تعین کیا جائے گا۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

98. Those who practice fortitude are the people who will always stand firm in the struggle between right and truth on one side and greed and lust on the other. They bear every loss for the sake of righteousness and spurn away every gain that they might obtain by adopting unlawful means. They patiently wait for the rewards of their good deeds in the Hereafter.

سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :98 صبر سے کام لینے والوں کو ، یعنی ان لوگوں کو جو راہ طمع اور خواہش اور جذبہ نفسانی کے مقابلہ میں حق اور راستی پر قائم رہیں ، ہر اس نقصان کو برداشت کرلیں جو اس دنیا میں راستبازی اختیار کرنے سے پہنچتا ہو ، ہر اس فائدے کو ٹھکرا دیں جو دنیا میں ناجائز طریقے اختیار کرنے...  سے حاصل ہو سکتا ہو ، اور حسن عمل کے مفید نتائج کے لیے اس وقت تک انتظار کر نے کے لیے تیار ہوں جو موجودہ دنیوی زندگی ختم ہو جانے کے بعد دوسری دنیا میں آنے والا ہے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

42: پہلے کئی بار عرض کیا جا چکا ہے کہ قرآن کریم کی اصطلاح میں ’’ صبر‘‘ کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ اپنی نفسانی خواہشات کو دبا کر اللہ تعالیٰ کے احکام کی پابندی کو بھی صبر کہا جاتا ہے، اور کسی تکلیف کے موقع پر اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر کوئی شکایت نہ کی جائے تو وہ بھی صبر ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(16:96) ینفد۔ نفد ینفد (باب سمع) نفاد سے واحد مذکر غائب۔ ختم ہوجائے گا۔ جیسے اور جگہ قرآن مجید میں آیا ہے۔ قل لو کان البحر مدادا لکلمت ربی لنفد البحر قبل ان تنفد کلمت ربی۔ (18:109) آپ کہہ دیجئے کہ اگر (سارے کے سارے) سمندر روشنائی ہوجائیں میرے پروردگار کی باتیں لکھنے کے لئے تو سمندر ختم ہوجائیں گے۔ ... اور میرے پروردگار کی باتیں ختم نہ ہو سکیں گی۔ باق۔ باقی رہنے والا۔ اسم فاعل۔ واحد مذکر۔ ناقص یائی سے ہے۔ اصل میں باقی تھا ضمہ ی پر دشوار تھا۔ اس کو ساکن کیا۔ اب ی اور تنوین ود ساکن جمع ہوئے تو ی اجتماع ساکنین سے گرگئی باق ہوگیا۔ بقاء مصدر۔ باب سمع سے آتا ہے بقی یبقی بقاء کسی چیز کا اپنی اصلی حالت پر قائم رہنا۔ یہ فناء کی ضد ہے۔ لنجزین۔ مضارع بلام تاکیدونون ثقیلہ ۔ صیغہ جمع متکلم۔ ہم ضرور بالضرور اجر دیں گے۔ احسن۔ اسم التفضیل کا صیغہ ہے۔ بہت اچھا۔ سب سے اچھا۔ احسن ما کانوا یعملون۔ جو عمل وہ کیا کرتے تھے ان میں سے کا سب سے اچھا۔ یعنی ہم صبر کرنے والوں کو ان کے کئے کا جو بہترین عمل ہوگا اس کے مطابق اجر دیں گے۔ صاحب تفہیم القرآن رقمطراز ہیں :۔ بالفاظِ دیگر جس شخص نے دنیا میں چھوٹی اور بڑی ہر طرح کی نیکیاں کی ہوں گی اسے وہ اونچا مرتبہ دیا جائے گا جس کا وہ اپنی بڑی نیکی کے لحاظ سے مستحق ہوگا۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 چاہے وہ مقدار کے لحاظ سے کتنا ہی زیادہ ہو۔ 8 یعنی جنہوں نے دنیوی لالچ کے مقابلے میں حق و صداقت کا دامن ن چھوڑا۔ 9 فرض سنت، مستحب سب بہتر کام ہیں اس لئے ان سب کا اجر ملیگ ا۔ اس اعتبار احسن کے مقابل ہمیں حسن کو مباح کہا جائے گا جو باعث ثواب نہیں ہوتا کیونکہ جزا صرف طاعت کے کاموں پر ملتی ہے۔ (شوکان... ی) یا دوسرا ترجمہ یہ ہوسکتا ہے کہ ہم انہیں ان کے اعمال کا بہترین بدلہ دیں گے جیسا کہ فرمایا : من جاء بالحسنۃ فلہ مشر امثالھا۔ یا ہم کسی عمل کے ادنیٰ فرد کی جزا بھی اس کے اعلیٰ فرد کے مطابق دیں گے۔ (کذافی الشوکانی والقرطبی)  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ما عندکم ینفد وما عند اللہ باق (٦١ : ٥٩) ” جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ خرچ ہوجانے والا ہے اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے ، وہی باقی رہنے والا ہے “۔ قرآن کریم وفائے عہد کے لئے لوگوں کے عزم کو قوت دیتا ہے اور وفائے عہد کی راہ میں تکالیف اٹھانے کی ترغیب دیتا ہے اور ان تکالیف پر صبر کرنے والوں کے ساتھ اجر حسن کا...  وعدہ کرتا ہے۔ ولنجرزین الذین صبروا اجرھم باحسن ما کانوا یعملون (٦١ : ٦٩) ” اور ہم ضرور صبر سے کام لینے والوں کو ان کے اجر ، ان کے بہترین اعمال کے مطابق دیں گے “ ۔ اور اس سلسلے میں ان سے جو غلطیاں سرزد ہوئیں ان کو معاف کردیں گے۔ پس جزاء میں صرف اعمال کا اچھا پہلو ملحوظ رہے گا۔ عمل اور جزاء کی مناسبت سے یہاں عمومی ضابطہ بتا دیا جاتا ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

آخرت کی نعمتیں باقی رہنے والی ہیں، صبر کرنے والے مردوں اور عورتوں کو حیات طیبہ نصیب ہوگی اور ان کے اعمال کا اچھا اجر ملے گا یہ دو آیتوں کا ترجمہ ہے پہلی آیت میں یہ بتایا کہ جتنی دنیا بھی کمالو گے وہ سب ختم ہوجائے گی اور اعمال صالحہ پر (جس میں گناہوں سے بچنا اور نقض عہد سے بچنا بھی شامل ہے) جو اللہ ... تعالیٰ کی طرف سے آخرت میں انعام ملے گا اور وہاں جو اکرام ہوگا وہ سب باقی رہنے والا ہے (اس میں ان لوگوں کو خاص تنبیہ ہے جو عہد توڑ کر اس کے عوض مال لے لیتے ہیں اور دنیاوی اعزاز حاصل کرلیتے ہیں۔ ) جب دنیا سامنے آنے لگتی ہے اور جاہ و مال کے منافع نفس کو متاثر کرنے لگتے ہیں اور آدمی کو ابھارتے ہیں کہ تو قسم توڑ دے یا ایسا گناہ کرلے جس سے مال اور جاہ کا نفع ہوتا ہو تو اس وقت دنیاوی منافع کو نہ دیکھے، شیطان کے ورغلانے سے بچ جانا اور نفس کے وسوسے کو ٹھکرا کر حکم شرعی پر جمے رہنا بری بات ہے۔ (مَا عِنْدَکُمْ یَنْفَدُ ) میں یہ بتایا کہ دنیاوی منافع کے لیے عہود اور قسموں کو جو توڑتے ہو اور حرام ذریعوں سے پیسہ حاصل کرتے ہو اس کو اپنی زندگی کا مقصد نہ بناؤ۔ دنیا میں جو کماؤ گے وہ ختم ہوجائے گا اس کی وجہ سے آخرت کی نعمت سے محروم نہ ہو، وہاں جو کچھ ہے ہمیشہ کے لیے باقی رہنے والا ہے۔ فانی دنیا کے لیے باقی رہنے والی نعمتوں سے محروم رہنا سمجھ داری کی بات نہیں ہے، باقی رہنے والی نعمتوں کی طرف دوڑو اور انہی کے لیے عمل کرو۔ چونکہ رشوت سے بچنے میں نفس کو تکلیف ہوتی ہے اور حرام چھوڑ کر صبر کرنا پڑتا ہے اس لیے ساتھ ہی یوں بھی فرمایا (وَ لَنَجْزِیَنَّ الَّذِیْنَ صَبَرُوْٓا اَجْرَھُمْ بِاَحْسَنِ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ) اس میں جو (الَّذِیْنَ صَبَرُوْٓا) فرمایا اس میں ان کی استقامت اور ثابت قدمی کی طرف اشارہ فرما دیا کہ وہ دنیاوی منافع سامنے آنے پر بھی ایمان تقاضوں پر جمے رہے اور دنیا کی وجہ سے کسی عہد کو نہیں توڑا، پیچھے سے گو نقض عہد کا ذکر ہے لیکن الفاظ کے عموم نے بتادیا کہ جو صبر کرے گا راہ حق پر جمے گا اسے ضرور اچھے سے اچھا اجر ملے گا۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

80: دنیا کی تحقیر کا بیان مقصود ہے یعنی دنیوی ساز و سامان کی طرف توجہ نہ کرو بلکہ آخرت کی فکر کرو۔ کیونکہ دنیا کی ہر چیز فانی اور ختم وجانے والی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے یہاں منکرین کے لیے جو عذاب ہے اور مومنین کے لیے جو ثواب ہے وہ کبھی کتم نہیں ہوگا جو لوگ دنیا میں عہد اسلام پر قائم رہیں گے اور اللہ ... تعالیٰ کے احکام و حدود کی پابندی کریں گے آخرت میں ان کے تمام اعمال کا انہیں پورا پورا اجر وثواب ملے گا۔ حضرت شیخ فرماتے ہیں جہاں دولت دنیا کے فریب میں آنے سے ڈرایا جاتا ہے وہاں عام طور سے تین باتیں مذکور ہوتی ہیں (1) دولت دنیا قلیل و حقیر ہے۔ (2) اس کی وجہ سے دنیا میں عذاب آتا ہے (3) آخرت میں بھی عذاب ہوگا۔ امر اول ” ما عندکم ینفد “ سے امر دوم ” و تذوقوا السوء “ سے اور امر سوم ” ولکم عذاب عظیم “ سے ذکر کیا گیا ہے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

96 ۔ جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ سب ختم ہوجائے گا اور نبڑ جائے گا اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ باقی رہنے والا اور دائمی ہے اور جو لوگ وفائے عہد میں ثابت قدم رہتے ہیں اور عہد کے پورا کرنے میں جو تکلیف ہوتی ہے اس پر صبر کرتے اور ثابت قدم رہتے ہیں ہم ان کو ان کے اچھے کاموں کے عوض جو وہ کیا کرتے تھے ضرور صل... ہ اور اجر عنایت فرمائیں گے۔ یعنی تمہارے پاس جو دنیا سے وہ فنا ہونیوالی ہے اور اس کے مقابلہ میں آخرت اور وہاں کا اجر جو ہماری بارگاہ سے ملے گا وہ دائمی ہے۔ آیت کے آخری حصے میں اس اجر کے ملنے پر تاکیدی وعدہ کیا گیا ہے۔  Show more