Surat un Nahal

Surah: 16

Verse: 97

سورة النحل

مَنۡ عَمِلَ صَالِحًا مِّنۡ ذَکَرٍ اَوۡ اُنۡثٰی وَ ہُوَ مُؤۡمِنٌ فَلَنُحۡیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً ۚ وَ لَنَجۡزِیَنَّہُمۡ اَجۡرَہُمۡ بِاَحۡسَنِ مَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ ﴿۹۷﴾

Whoever does righteousness, whether male or female, while he is a believer - We will surely cause him to live a good life, and We will surely give them their reward [in the Hereafter] according to the best of what they used to do.

جو شخص نیک عمل کرے مرد ہو یا عورت ، لیکن با ایمان ہو تو ہم اُسے یقیناً نہایت بہتر زندگی عطا فرمائیں گے اور ان کے نیک اعمال کا بہتر بدلہ بھی انہیں ضرور ضرور دیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Righteous Deeds and their Reward Allah says: مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَى وَهُوَ مُوْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ Whoever does righteous deeds - whether male or female - while he (or she) is a believer; then We will certainly give them a good life, and We will certainly grant them their rewards in proportion to the best of what they used to do. This is a promise from Allah to those Children of Adam, male or female, who do righteous deeds - deeds in accordance with the Book of Allah and the Sunnah of His Prophet, with a heart that believes in Allah and His Messenger, while believing that these deeds are commanded and enjoined by Allah. Allah promises that He will give them a good life in this world and that He will reward them according to the best of their deeds in the Hereafter. The good life includes feeling tranquility in all aspects of life. It has been reported that; Ibn Abbas and a group (of scholars) interpreted it to mean good, lawful provisions. It was reported that Ali bin Abi Talib interpreted as; contentment. This was also the opinion of Ibn Abbas, Ikrimah and Wahb bin Munabbih. Ali bin Abi Talhah recorded from Ibn Abbas that; it meant happiness. Al-Hasan, Mujahid and Qatadah said: "None gets (this) good life (mentioned) except in Paradise." Ad-Dahhak said: "It means lawful provisions and worship in this life." Ad-Dahhak also said: "It means working to obey Allah and finding joy in that." The correct view is that a good life includes all of these things. as found in the Hadith recorded by Imam Ahmad from Abdullah bin `Amr that the Messenger of Allah said: قَدْ أَفْلَحَ مَنْ أَسْلَمَ وَرُزِقَ كَفَافًا وَقَنَّعَهُ اللهُ بِمَا اتَاه He who submits (becomes a Muslim) has succeeded, is given sufficient provisions, and is content with Allah for what he is given. It was also recorded by Muslim.

کتاب و سنت کے فرماں بردار اللہ تبارک و تعالیٰ جل شانہ اپنے ان بندوں سے جو اپنے دل میں اللہ پر اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان کامل رکھیں اور کتاب و سنت کی تابعداری کے ماتحت نیک اعمال کریں ، وعدہ کرتا ہے کہ وہ انہیں دنیا میں بھی بہترین اور پاکیزہ زندگی عطا فرمائے گا ۔ عمدگی سے ان کی عمر بسر ہو گی ، خواہ وہ مرد ہوں ، خواہ عورتیں ہوں ، ساتھ ہی انہیں اپنے پاس دار آخرت میں بھی ان کی نیک اعمالیوں کا بہترین بدلہ عطا فرمائے گا ۔ دنیا میں پاک اور حلال روزی ، قناعت ، خوش نفسی ، سعادت ، پاکیزگی ، عبادت کا لطف ، اطاعت کا مزہ ، دل کی ٹھنڈک ، سینے کی کشادگی ، سب ہی کچھ اللہ کی طرف سے ایماندار نیک عامل کو عطا ہوتی ہے ۔ چنانچہ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اس نے فلاح حاصل کر لی جو مسلمان ہو گیا اور برابر سرابر روزی دیا گیا اور جو ملا اس پر قناعت نصیب ہوئی اور حدیث میں ہے جسے اسلام کی راہ دکھا دی گئی اور جسے پیٹ پالنے کا ٹکڑا میسر ہو گیا اور اللہ نے اس کے دل کو قناعت سے بھر دیا ، اس نے نجات پا لی ( ترمذی ) صحیح مسلم شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے مومن بندوں پر ظلم نہیں کرتا بلکہ ان کی نیکی کا بدلہ دنیا میں عطا فرماتا ہے اور آخرت کی نیکیاں بھی انہیں دیتا ہے ، ہاں کافر اپنی نیکیاں دنیا میں ہی کھا لیتا ہے آخرت کے لئے اس کے ہاتھ میں کوئی نیکی باقی نہیں رہتی ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

97۔ 1 حیات طیبہ (بہتر زندگی) سے مراد دنیا کی زندگی ہے، اس لئے آخرت کی زندگی کا ذکر اگلے جملے میں ہے اور مطلب یہ ہے کہ ایک مومن باکردار کو صالحانہ اور متقیانہ زندگی گزارنے اور اللہ کی عبادت و اطاعت اور زہد و قناعت میں جو لذت و حلاوت محسوس ہوتی ہے، وہ ایک کافر اور نافرمان کو دنیا بھر کی آسائشوں اور سہولتوں کے باوجود میسر نہیں آتی، بلکہ وہ ایک طرح کی بےچینی و اضطراب کا شکار رہتا ہے۔ " ومن اعرض عن ذکری فان لہ معیشۃ ضنکا " جس نے میری یاد سے اعراض کیا اس کا گزران تنگی والا ہوگا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠١] پاکیزہ زندگی کیسے حاصل ہوتی ہے ؟:۔ اس آیت سے تین باتیں معلوم ہوئیں۔ ایک یہ کہ اگرچہ تقسیم کار کی بنا پر مرد کو اس دنیا میں عورت پر فوقیت حاصل ہے مگر اخروی اجر کے لحاظ سے دونوں کا مرتبہ یکساں ہے۔ وہاں معیار صرف ایمان اور نیک اعمال ہوں گے۔ اگر اس معیار کے مطابق عورت مرد سے فائق ہوگی تو اسے یقیناً مردوں سے بہتر درجہ بھی مل سکتا ہے۔ دوسری یہ کہ ایمان اور اعمال صالحہ اختیار کرنے سے مومن کی دنیا بھی سنورتی ہے اور آخرت بھی۔ اور یہ جو عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ ایک ایماندار، دیانتدار اور را ستباز انسان کو آخرت میں تو ضرور اجر ملے گا مگر وہ دنیا میں نقصان میں ہی رہتا ہے۔ یہ خیال سراسر غلط ہے۔ بلکہ جو لوگ راستباز اپنے عہد پر قائم رہنے والے اپنی بات کے پکے اور صاف نیت ہوتے ہیں۔ انھیں بد عمل، عہد شکن، مفاد پرست لوگوں کے مقابلہ میں جو ساکھ سچی عزت اور قلبی سکون میسر ہوتا ہے وہ ان لوگوں کو کبھی میسر نہیں آسکتا جو نیت کے کھوٹے، فریب کار اور عہد شکن ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں دنیوی لحاظ سے بھی راست باز لوگ با لآخر فائدہ میں رہتے ہیں اور یہی حیوۃ طبیۃ کا واـضح مفہوم ہے۔ اور تیسری یہ بات کہ ایسے ایماندار اور نیکو کار لوگوں کو آخرت میں جو مرتبہ ملے گا وہ ان کے بہتر اعمال کے لحاظ سے مقرر ہوگا۔ مثلاً ایک شخص نے اپنی زندگی میں چھوٹی چھوٹی اور بڑی بڑی ہر طرح کی نیکیاں کی ہیں تو اسے وہ اونچا مقام عطا کیا جائے گا جس کا وہ اپنی بڑی سے بڑی نیکی کے لحاظ سے مستحق ہوگا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى : لفظ ” مَنْ “ (جو بھی) میں مرد اور عورت دونوں آجاتے ہیں، مگر پھر دونوں کا خاص الگ الگ ذکر فرمایا، تاکہ نہ عورتیں اپنے آپ کو کمتر یا محروم سمجھیں، نہ کوئی اور انھیں ایسا خیال کرے۔ اسلام کے سوا کہیں عورت کو یہ عزت نہیں ملی۔ حَيٰوةً طَيِّبَةً : پاکیزہ زندگی میں حلال روزی، قناعت (اللہ نے جس حال میں رکھا ہے اسی پر خوش رہنا) ، سچی عزت، سکون و اطمینان، دل کا غنی ہونا، اللہ کی محبت، ایمان کی لذت سبھی چیزیں شامل ہیں، جو ایمان اور عمل صالح کی بدولت نصیب ہوتی ہیں، ایمان یا عمل صالح یا دونوں سے محروم لوگوں کو یہ چیزیں کبھی حاصل نہیں ہوتیں۔ مطلب یہ ہے کہ ایمان اور عمل صالح سے اخروی زندگی ہی نہیں بلکہ دنیوی زندگی بھی نہایت سکھ اور چین سے گزرے گی۔ مہائمی (رض) نے فرمایا کہ ایسا شخص دنیا میں اپنے عمل سے ایسی لذت پاتا ہے جو مال و جاہ کی لذت سے کہیں زیادہ ہوتی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ اسے اس کی قسمت پر راضی کر کے اسے قناعت عطا فرما دیتا ہے، جس کے نتیجے میں مال بچا بچا کر رکھنے اور بڑھانے کی حرص کم ہوجاتی ہے۔ کافر کی زندگی مال وجاہ کے باوجود خوشگوار نہیں ہوتی، کیونکہ اس کی حرص اور دولت کے ہاتھ سے نکل جانے کا خوف دونوں بڑھتے جاتے ہیں۔ اہل ایمان کو آخرت میں اس سے بھی بہت بہتر اجر بدلے میں دیا جائے گا۔ چناچہ ان سے یہ نہیں کہا جائے گا : ( اَذْهَبْتُمْ طَيِّبٰتِكُمْ فِيْ حَيَاتِكُمُ الدُّنْيَا) [ الأحقاف : ٢٠ ] ” تم اپنے اچھے اعمال کا بدلہ اپنی دنیا کی زندگی میں لے چکے۔ “ بلکہ ان کے ادنیٰ اعمال بھی مکمل کرکے اعلیٰ کے ساتھ ملا دیے جائیں گے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary What is &good life&? According to the majority of commentators, the expression &good life& used here means a pure and pleasing life in the present world while some Tafsir authorities have taken it to mean life in the Hereafter. And a closer look at the explanation given by the majority would also show that it does not mean that such a person will never encounter poverty or sickness. Instead, it means that a believer - even if he ever faces poverty or pain - has two things with him which shield him from becoming disturbed. First comes his habit of remaining content with the available (qa¬na’ ah), the hallmark of a simple life. This thing works in straitened circumstances as well. Secondly, there is this belief of his, the belief that he is going to receive the great and eternal blessings of the Hereafter in return for whatever poverty or pain he has suffered from. Poised counter to this is the condition of a disbeliever and sinner. If such a person faces poverty and pain, he has nothing to hold him together and give him solace and comfort. In this state, he is likely to lose his sanity, even think of committing suicide. And in case he was affluent, his greed would not let him sit peacefully. When the drive for more wealth makes him a millionaire, the dreams of becoming a billionaire would keep spoil¬ing his peace. As for righteous believers, says Ibn ` Atiyyah, Allah Ta’ ala blesses them with a life full of pleasure, contentment and gracefulness right here in this world as well, something that never changes whatever the condition. That their life will be graceful while they enjoy health and ex-tended means is all too obvious, particularly so on the ground that they just do not have the greed to keep their wealth increasing unnecessarily, an urge that keeps harassing one under all circumstances. And even if they have to face lean days or sickness of some sort, they always have a strong support to fall back on. They are perfect believers in the promises made by Allah. They have strong hopes of seeing ease after hardship and comfort after pain. These strengths never let their life become grace-less. It is like the work of a farmer who has made his farm ready for crops. No matter how much pain he takes in working to see his crops grow, yet he welcomes all that for the sake of the comfort he is going to have. In a short time, he is certain, he is going to have the best of return for what he has done. A businessman or a wage earner would do the same. They would face all sorts of hardship in their job, even a little dis¬grace once in a while. But, they brave through everything and remain happy and hopeful. They believe that their business will bring profit and their job, a salary. The believer too believes that he is getting a return for every hardship and when comes the life of the Hereafter, his return for every hardship will come to him in the form of blessings that are great and everlasting. As for the life of the present world, it is not such a big deal as compared to that of the Hereafter. Therefore, a believer finds it easy to remain patient against worldly variations in living conditions. Thus, these conditions never make a believer suffer from anxiety, appre¬hension and boredom. This is the &good life& a believer is blessed with in cash, on the spot, right here in this world.

خلاصہ تفسیر : (اس سے پہلی آیات میں ایفاء عہد کی تاکید اور عہد شکنی کی مذمت کا بیان تھا جو ایک خاص عمل ہے اس آیت میں تمام اعمال صالحہ اور عاملین صالحین کا عمومی بیان ہے مضمون آیت کا یہ ہے کہ آخرت کا اجر وثواب اور دنیا کی برکات صرف ایفائے عہد میں منحصر نہیں اور نہ کسی عامل کی تخصیص ہے بلکہ قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ) جو شخص بھی کوئی نیک کام کرے گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ صاحب ایمان ہو (کیونکہ کافر کے اعمال صالحہ مقبول نہیں) تو ہم اس شخص کو (دنیا میں تو) بالطف زندگی دیں گے اور (آخرت میں) ان کے اچھے کاموں کے عوض میں ان کا اجر دیں گے۔ معارف و مسائل : حیات طیبہ کیا چیز ہے ؟ جمہور مفسرین کے نزدیک یہاں حیات طیبہ سے مراد دنیا کی پاکیزہ اور بالطف زندگی ہے اور بعض ائمہ تفسیر نے اس سے آخرت کی زندگی مراد لی ہے اور جمہور کی تفسیر کے مطابق بھی اس سے یہ مراد نہیں کہ اس کو کبھی فقر وفاقہ یا بیماری پیش نہ آئے گی بلکہ مراد یہ ہے کہ مومن کو اگر کبھی معاشی تنگی یا کوئی تکلیف بھی پیش آتی ہے تو دو چیزیں اس کو پریشان نہیں ہونے دیتیں ایک قناعت اور سادہ زندگی کی عادت جو تنگدستی میں بھی چل جاتی ہے دوسرے اس کا یہ عقیدہ کہ مجھے اس تنگی اور بیماری کے بدلے میں آخرت کی عظیم الشان دائمی نعمتیں ملنے والی ہیں بخلاف کافر وفاجر کے کہ اگر اس کو تنگدستی اور بیماری پیش آتی ہے تو اس کے لئے کوئی تسلی کا سامان نہیں ہوتا عقل وہوش کھو بیٹھتا ہے بعض اوقات خود کشی کی نوبت آجاتی ہے اور اگر اس کو فراخی عیش بھی نصیب ہو تو اس کو زیادتی کی حرص کسی وقت چین سے نہیں بیٹھنے دیتی وہ کروڑ پتی ہوجاتی ہے تو ارب پتی بننے کی فکر اس کے عیش کو خراب کرتی رہتی ہے۔ ابن عطیہ نے فرمایا کہ مؤمنین صالحین کو حق تعالیٰ دنیا میں بھی وہ فرحت و انبساط اور پر لطف زندگی عطا فرماتے ہیں جو کسی حال میں متغیر نہیں ہوتی تندرستی اور فراخ دستی کے وقت تو ان کی زندگی کا پر لطف ہونا ظاہر ہے ہی خصوصا اس بنا پر کہ بلاضرورت مال کو بڑھانے کی حرص ان میں نہیں ہوتی جو انسان کو ہر حال میں پریشان رکھتی ہے اور تنگدستی یا بیماری بھی پیش آئے تو اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر ان کا مکمل یقین اور مشکل کے بعد آسانی کلفت کے بعد راحت ملنے کی قوی امید ان کی زندگی کو بےلطف نہیں ہونے دیتی جیسے کاشتکار کھیت بولے اور اس کی پرورش کے وقت اس کو کتنی ہی تکلیفیں پیش آجائیں سب کو اس لئے راحت محسوس کرتا ہے کہ چند روز کے بعد اس کا بڑا صلہ اس کو ملنے والا ہے تاجر اپنی تجارت میں ملازم اپنی ڈیوٹی ادا کرنے میں کیسی کیسی محنت ومشقت بلکہ بعض اوقات ذلت بھی برداشت کرتا ہے مگر اس لئے خوش رہتا ہے کے چند روز کے بعد اس کو تجارت کا بڑا نفع یا ملازمت کی تنخواہ ملنے کا یقین ہوتا ہے مومن کا بھی یہ عقیدہ ہوتا ہے کہ مجھے ہر تکلیف پر اجر مل رہا ہے اور آخرت میں اس کا بدلہ دائمی عظیم الشان نعمتوں کی صورت میں ملے گا اور دنیا کی زندگی آخرت کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی اس لئے یہاں کے رنج و راحت اور سرد وگرم سب کو آسانی سے برداشت کرلیتا ہے اس کی زندگی ایسے حالات میں بھی مشوش اور بےلطف نہیں ہوتی یہی وہ حیات طیبہ ہے جو مومن کو دنیا میں نقد ملتی ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهٗ حَيٰوةً طَيِّبَةً ۚ وَلَـنَجْزِيَنَّهُمْ اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ 97؀ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے صالح الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] ( ص ل ح ) الصالح ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔ حيى الحیاة تستعمل علی أوجه : الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] ، الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا، قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] ، الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی: أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة، وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري، فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ. ( ح ی ی ) الحیاۃ ) زندگی ، جینا یہ اصل میں حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔ ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔ ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات/ 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔ طيب ( پاكيزه) يقال : طَابَ الشیءُ يَطِيبُ طَيْباً ، فهو طَيِّبٌ. قال تعالی: فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء/ 3] قوله تعالی: مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ [إبراهيم/ 24] ، وقوله : إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ [ فاطر/ 10] ، وَمَساكِنَ طَيِّبَةً [ التوبة/ 72] ، أي : طاهرة ذكيّة مستلذّة . ( ط ی ب ) طاب ( ض ) الشئی یطیب طیبا فھم طیب ( کے معنی کسی چیز کے پاکیزہ اور حلال ہونے کے ہیں ) قرآن میں ہے : تو ان کے سوا عورتیں تم کو پسند ہوں ان سے نکاح کرلو ۔ ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء/ 4] ہاں اگر وہ اپنی خوشی سے تم کو چھوڑدیں اسی معنی میں فرمایا ؛ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ [إبراهيم/ 24] پاک عمل کی مثال شجرۃ طیبہ کی ہے ۔ إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ [ فاطر/ 10] اسی کی طرف پاکیزہ کلمے پڑھتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٩٧) اور جو شخص بھی خالص اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی اچھا کام کرے گا اور اللہ تعالیٰ پر یقین قائم رکھے گا، بشرطیکہ مومن مخلص ہو تو ہم اس کو لطف والی زندگی دیں گے یعنی طاعت میں یا قناعت میں یا یہ کہ جنت میں اور ان کے دنیاوی اچھے کاموں کے بدلہ ان کو آخرت میں ثواب دیں گے، یہ آیت مبارکہ عبدان بالاشوع اور امرء القیس کندگی کے متعلق نازل ہوئی ہے، ان دونوں میں ایک زمین کا جھگڑا تھا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩٧ (مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهٗ حَيٰوةً طَيِّبَةً ) ایسے لوگ بیشک دنیا میں روکھی سوکھی کھا کر گزارہ کریں مگر انہیں سکون قلب کی دولت نصیب ہوگی ان لوگوں کے دل غنی ہوں گے کیونکہ حضور کا فرمان ہے : (اَلْغِنٰی غِنَی النَّفْسِ ) کہ اصل امیری تو دل کی امیری ہے۔ اگر انسان کا دل غنی ہے تو انسان واقعتا غنی ہے اور اگر ڈھیروں دولت پا کر بھی دل لالچ کے پھندے میں گرفتار ہے تو ایسا شخص دراصل غنی یا امیر نہیں فقیر ہے۔ چناچہ نیکو کار انسانوں کو دنیوی زندگی میں ہی غنا اور سکون قلب کی نعمت سے نوازا جائے گا کیونکہ یہ نعمت تو ثمرہ ہے اللہ کی یاد کا : (اَلاَ بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَءِنُّ الْقُلُوْبُ ) (الرعد) ” آگاہ رہو ! دل تو اللہ کے ذکر ہی سے مطمئن ہوتے ہیں “۔ ایسے لوگوں کا شمار اللہ کے دوستوں اور اولیاء میں ہوتا ہے۔ ان کے ساتھ خصوصی شفقت کا معاملہ فرمایا جاتا ہے اور انہیں حزن و ملال کے سایوں سے محفوظ رکھا جاتا ہے : (اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآء اللّٰہِ لاَخَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُوْنَ ) ( یونس) ” آگاہ رہو ! یقیناً اولیاء اللہ پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

99. This verse removes the wrong notions of both the Muslims and the disbelievers who are of the opinion that those who adopt a just honest and pious attitude, are most surely losers in this world, though they might be gainers in the Hereafter. Allah removes this misunderstanding, as if to say: This presumption of yours is wrong. The righteous attitude not only leads to a happy life in the Hereafter, but it also guarantees, by Allah’s grace, a pure and happy life even in this world. And this is a fact that those people who are sincerely righteous, honest, pure and fair in their dealings enjoy a much better life in this world. For they enjoy that confidence and real honor and respect because of their spotless character, which is not enjoyed by those who lack these virtues. They obtain such pure and outstanding success as are denied to those who employ dirty and disgusting ways to win success. Above all, they enjoy, even though they might be living in poor houses, that peace of mind and satisfaction of conscience which is denied to the wicked dwellers of mansions and palaces. 100. That is, their rank in the Hereafter shall be determined according to their best deeds. In other words, if a person has done both small and great virtues, he will be awarded that high rank which he would merit according to his greatest virtues.

سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :99 اس آیت میں مسلم اور کافر دونوں ہی گروہوں کے ان تمام کم نظر اور بے صبر لوگوں کی غلط فہمی دور کی گئی ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ سچائی اور دیانت اور پرہیزگاری کی روش اختیار کرنے سے آدمی کی آخرت چاہے بن جاتی ہو مگر اس کی دنیا ضرور بگڑ جاتی ہے ۔ اللہ تعالی ان کے جواب میں فرماتا ہے کہ تمہارا یہ خیال غلط ہے ۔ اس صحیح رویہ سے محض آخرت ہی نہیں بنتی ، دنیا بھی بنتی ہے ۔ جو لوگ حقیقت میں ایماندار اور پاکباز اور معاملہ کے کھرے ہوتے ہیں ان کی دنیوی زندگی بھی بے ایمان اور بد عمل لوگوں کے مقابلہ میں صریحا بہتر رہتی ہے ۔ جو ساکھ اور سچی عزت اپنی بے داغ سیرت کی وجہ سے انہیں نصیب ہوتی ہے وہ دوسروں کو نصیب نہیں ہوتی ۔ جو ستھری اور پاکیزہ کامیابیاں انہیں حاصل ہوتی ہیں وہ ان لوگوں کو میسر نہیں آتیں جن کی ہر کامیابی گندے اور گھناؤنے طریقوں کا نتیجہ ہوتی ہے ۔ وہ بوریا نشین ہو کر بھی قلب کے جس اطمینان اور ضمیر کی جس ٹھنڈک سے بہرہ مند ہوتے ہیں اس کا کوئی ادنی سا حصہ بھی محلول میں رہنے والے فساق و فجار نہیں پا سکتے ۔ سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :100 یعنی آخرت میں ان کا مرتبہ ان کے بہتر سے بہتر اعمال کے لحاظ سے مقرر ہوگا ۔ بالفاظ دیگر جس شخص نے دنیا میں چھوٹی اور بڑی ، ہر طرح کی نیکیاں کی ہوں گی اسے وہ اونچا مرتبہ دیا جائے گا جس کا وہ اپنی بڑی سے بڑی نیکی کے لحاظ سے مستحق ہوگا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٩٧۔ اس آیت میں اللہ پاک نے یہ فرمایا کہ جو شخص اسلام کے عہد پر قائم رہے گا اور نیک عمل کرے گا خواہ وہ عمل کرنے والا مرد ہو یا عورت تو اس کو دنیا میں بھی بھلائی ہے اور آخرت میں بھی دنیا میں اس کی چین سے کٹے گی اور آخرت میں اس کے عمل کا بہتر سے بہتر بدلہ ملے گا۔ مطلب یہ ہے کہ جو شخص مطابق شریعت کے عمل کرے گا اس کے لئے دنیا اور دین کا یہ اجر ہے۔ حیات طیبہ میں مفسرین کا اختلاف ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) نے اس کی تفسیر میں یوں کہا ہے کہ مراد حیات طیبہ سے رزق حلال ہے ١ ؎۔ جو دنیا میں نیک عمل کرنے والے مومن کو عطا ہوتا رہے گا اور حضرت علی بن ابی طالب (رض) نے اس کی تفسیر قناعت کے ساتھ کی ہے ٢ ؎۔ مسند امام احمد اور صحیح مسلم میں عبد اللہ بن عمر (رض) کی ایک حدیث ہے کہ وہ شخص با مراد ہے جو مسلمان ہوگیا اور جو حلال قوت لا یموت اسے ملے گا۔ اس پر اس نے قناعت کی۔ اس حدیث سے حضرت عبد اللہ بن عباس اور حضرت علی (رض) کے قول کی تائید ہوتی ہے۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے صہیب رومی (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے ٣ ؎۔ جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایماندار شخص کی زندگی ہر حالت میں اچھی ہے کیونکہ اس کو اللہ تعالیٰ نے اگر کچھ خوش حالی دی تو وہ اللہ کا شکر ادا کرتا ہے اور اگر کچھ تندگستی ہوئی تو صبر کرتا ہے صحیح مسلم میں انس بن مالک (رض) سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایماندار شخص کے نیک عملوں کا بدلہ اس کو دنیا میں بھی دیا جاتا ہے اور آخرت میں بھی اس کو اجر ملے گا ہاں نافرمان لوگوں کے نیک عملوں کا بدلہ دنیا میں ہی مل جاتا ہے۔ اجر کے قابل ان کی کوئی نیکی آخرت میں باقی نہیں رکھی جاتی ٤ ؎۔ صحیح بخاری و مسلم میں چند صحابہ سے جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ ایماندار شخص کے نیک عمل کا اجر آخرت میں دس گنا سے لے کر سات سو تک اور بعض نیکیوں کا اس سے بھی زیادہ ملے گا ٥ ؎۔ آیت میں ایماندار شخص کی دنیا کی اچھی زندگی اور عقبیٰ کے بہتر بدلہ کا جو ذکر ہے ان حدیثوں کو اس کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ایماندار شخص کی زندگی ہر حال میں اچھی ہے کیوں کہ اس کی خوشحالی کی زندگی شکر گزاری کی ہے اور تنگدستی کی زندگی صبر و قناعت کی اور عقبیٰ میں اس کی شکر گزاری اور صبر و قناعت کا اور اسی طرح باقی کی نیکیوں کا اجر دس گونہ سے لے کر سات سو تک اور بعض نیکیوں کا اس سے بھی زیادہ ملے گا آیت میں وھو مومن جو فرمایا اس کی یہ تفسیر انس بن مالک (رض) کی اوپر کی حدیث سے سمجھ میں آسکتی ہے کہ عقبیٰ کے اجر کے لئے ایمانداری کی شرط ضروری ہے۔ ١ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٥٨٥ ج ٢۔ ٢ ؎ تفسیرابن کثیر ص ٥٨٥ ج ٢۔ ٣ ؎ تفسیر ہذا جلد دوم ص ٤٥٢ ٤ ؎ تفسیر ابن کثیر ٥٠٥ ج ٣۔ ٥ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٣١٦۔ ٣١٧ ج ١۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(16:97) لنحیینہ مضارع بلام تاکید نون ثقیلہ جمع متکلم ۔ ہُ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب جس کا مرجع فعل عمل کا فاعل ہے۔ یعنی نیک صالح عمل کرنے والا۔ ہم اس کو ضرور بالضرور زندگی بخشیں گے۔ حیوۃ طیبۃ۔ پاکیزہ زندگی۔ اسی دنیا میں کہ اس میں رزق حلال حاصل ہو۔ قناعت ہو اطمینان و تسکین ہو رضاء الٰہی حاصل ہو۔ یا عالم برزخ کی زندگی کہ اس کی قبر روضۃ من ریاض الجنۃ ہو اس کی برزخ کی زندگی باغات جنت سے ایک باغ بن جائے یا اخروی زندگی۔ کہ وہاں نہ موت کا ڈر نہ نعمتوں کے ختم ہوجانے کا خدشہ جہاں صحت بلاسقم۔ سعادت بلا شقاوت حاصل ہوگی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 پاک زندگی میں حلال روزی قناعت سچی عزت سکون و اطمینان دل کی تو نگری اللہ کی محبت اور لذت سبھی چیزیں شامل ہیں۔ مطلب یہ کہ ایمان اور عمل صالح سے اخروی زندگی ہی نہیں بلکہ دنیوی زندگی بھی نہایت سکھا اور چین سے گزرے گی۔ شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 97 تا 100 صالح نیک، بہتر۔ ذکر مرد۔ انثیٰ عورت۔ نحیین ہم ضرور زندگی دیں گے۔ حیوۃ طیبۃ پاکیزہ زندگی۔ نجزین ہم ضرور بدلہ لیں گے۔ احسن زیادہ بہتر۔ قرات تم نے پڑھا، تلاوت کی۔ استعذ پناہ مانگ لے۔ سلطن زور، قوت۔ پتوکلون وہ بھروسہ کرتے ہیں۔ یتولون دوستی کرتے ہیں۔ تشریح آیت نمبر 97 تا 100 ان آیات میں اللہ نے فرمایا ہے کہ عورت ہو یا مردان میں سے جو بھی ایمان اور عمل صالح کا پیکر ہوگا۔ ہم اس کو نہ صرف حیاۃ طیبہ عطا کریں گے بلکہ اس نے جو بھی نیکی اور بھلائی کے کام کئے ہوں گے ان پر اس کے تصویر سے بھی بہتر اجر وثواب عطا کریں گے۔ دوسری بات یہ فرمائی گئی کہ یہ قرآن کریم جو ہر نیکی، ایمان اور عمل صالح کا سرچشمہ ہے اس کی تلاوت کے آداب یہ ہیں کہ جب بھی اس کی قرأت کی جائے تو پہلے ” استعاذہ “ کرلیا جائے یعنی شیطان جو ہر وقت مستعد اورت یار رہنا ہے کہ کسی طرح لوگوں کو نیکی اور بھلائی کے کاموں سے دور لے جائے اور ان کے دل میں طرح طرح کے وسوسے ڈال کر ان پر حاوی ہوجائے فرمایا کہ تلاوت کلام اللہ کے وقت اللہ سے اس کی پناہ اور شیطان کے شر سے بچنے کی درخواست کرلیا کریں تاکہ شیطان کے کسی چکر میں نہ پھنس جائیں۔ فرمایا کہ جو لوگ ایمان لاتے ہیں اور ہر حال میں اسی پر بھروسہ کر کے زندگی کی راہوں میں چلتے ہیں ان پر شیطان کا زور نہیں چلتا۔ اس کا زور تو ان لوگوں پر چلتا ہے جو اللہ کے دین کی ہر بات سے منہ پھیر کر چلتے ہیں یا اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسروں کو شریک کرتے ہیں۔ ان آیات کی مزید وضاحت کیلئے کچھ الفاظ کا ترجمہ اور مفوہم بھی پیش نظر رکھ لیجیے : عمل صالح ہر وہ کام جو اللہ او اس کے رسول حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احکامات کے تحت محض اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے کیا جائے ” عمل صالحذ ہے۔ قرآن کریم میں عموماً ایمان کے ساتھ عمل صالح کا حکم اسی اہمیت کے پیش نظر فرمایا گیا ہے۔ لہٰذا ہر وہ کام جس کو ہم بہتر سمجھتے ہیں ضروری نہیں ہے کہ وہ عمل صالح ہو۔ البتہ اگر اللہ و رسول کے حکم کے مطابق ہو تو وہ عمل صالح ہے۔ ذکر او انثی یعنی ایمان اور عمل صلح جو بھی کرے گا اس کو اجر ملے گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت۔ جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ کفار و مشرکین عورت ذات کو انتہائی کم تر اور گھٹیا درجہ دیتے تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ ایمان اور عمل صالح کے حق دار صرف مرد ہیں فرمایا کہ اعمال صالحہ میں ہر مرد اور ہر عورت برابر کا درجہ رکھتے ہیں جو جیسا عمل کرے گا اس کو ویسا ہی اجر وثواب دیا جائے گا۔ حیاۃ طیبۃ پاکیزہ اور کامیاب زندگی جس میں نیکی سے کئے گئے کاموں اور اجر وثواب اس دنیا میں اور آخرت میں بھرپور طریقے سے ادا کیا جائے گا۔ ان کو دنیا میں رزق حلال، صبر و قناعت، تحمل اور برداشت، قلبی سکون و اطمینان، معاشی خوش حالی، گھریلو سکون، کامیاب مستقبل کا خوشنما تصور عزت و سربلندی، کامیابی اور کامران نصیب ہوگی۔ قبر میں اس کا ایمان اور عمل صالح اس پر سایہ کئے ہوں گے اور وہ عذاب قبر سے محفوظ رہے گا۔ پھر آخرت میں جنت کی وہ راحتیں نصیب ہوں گی جن کی لذت اور کیفیت کا تصور اس دنیا میں ممکن ہی نہیں ہے۔ عرضی کہ دنیاوی زندگی، قبر کی منزل کی آسانی، حشر میں رسوائی سے حفاظت اور نجت کی ہمیشہ رہنے والی راحتیں اور لذتیں حیاۃ طیبہ ہیں۔ قرأت القرآن قرآن کریم کو پڑھنا، تلاوت کرنا قرأت کرنا اس کے تمام آداب کا لحاظ کرنا قرأت قرآن کریم کہلاتا ہے۔ قرآن کریم اس لئے نازل کیا گیا ہے کہ اس کی تلاوت کی جائے اس کو سمجھا جائے اور سمجھ کر ایمان اور عمل صالح کا راستہ اختیار کیا جائے تاکہ آخرت کی ابدی راحتیں نصیب ہو سکیں۔ لیکن قرآن کریم چونکہ سرچشمہ ہدایت ہے اس لئے اگر ایک شخص محض تلاوت قرآن کریم کرتا ہے اور اس کے معنی نہیں سمجھتا تب بھی اس کو ہر حرف پر دس نیکیوں کا ثواب عطا کیا جانے کا وعدہ ہے۔ اس لئے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جب قرآن کریم کے ایک حرف پر دس نیکیاں ہیں اگر اس کو سمجھ کر پڑھا جائے تو اس کے اجر وثواب کا کیا ٹھکانا ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ صحابہ کرام جو قرآن کریم اور اس کی تشریح یعنی سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں اس طرح ڈھل گئے تھے کہ انہوں نے اس قرآن کریم کے ذریعہ ساری دنیا میں ایک صالح انقلاب برپا کردیا تھا۔ آج بھی اس کی ضرورت ہے کہ قرآن کریم کے نور سے ساری دنیا کو روشن کر کے اندھیروں کو سمیٹ دیا جائے۔ استعاذہ اصل میں شیطان ہر آن اس فکر میں لگا رہتا ہے کہ وہ انسان کو صراط مستقیم سے بھٹکا کر اللہ کی رحمت سے دور لے جائے وہ اس کو بہت سے فضول کاموں کی طرف متوجہ کرتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ کسی طرح وہ قرآن کریم کی تلاوت کی طرف نہ جاسکے وہ اس کے دل میں وسوسے ڈالتا ہے تاکہ وہ قرآن کریم کے نور سے دور رہ سکے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو اللہ کے نبی اور رسول ہیں اور وہ ہر خطا سے معصوم ہیں اور براہ راست اللہ کی نگرانی میں ہیں آپ کو خطاب کرتے ہوئے درحقیقت پوری امت کے ہر فرد کو بتایا گیا ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ جب بھی تلاوت قرآن فرمائیں تو سب سے پہلے اس بات کی درخواست کریں کہ اے اللہ مجھے شیطان کے ہر وسوسے سے محفوظ فرما۔ اس کے ہر شر سے بچاتے ہوئے اپنی پناہ اور حفاظت عطا فرما۔ چونکہ شیطان کا وارتو ان لوگوں پر چلتا ہے جو اللہ اور اس کی پناہ سے منہ پھیر کر چلتے ہیں یا اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک کرتے ہیں لیکن وہ لوگ جو ایمان، عمل صالح اور توکل علی اللہ کے پیکر ہوتے ہیں ان پر شیطان کا بس نہیں چلتا۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ کیونکہ کافر کے اعمال صالحہ مقبول نہیں۔ 2۔ حیات طیبہ سے یہ مراد نہیں کہ اس کو فقر یا مرج کبھی نہ ہوگا بلکہ مطلب یہ ہے کہ اطاعت کی برکت سے اس کے قلب میں ایسانور ہوگا جس سے وہ ہر حال میں شاکر وصابر اور رضا و تسلیم رہے گا اور اصل جمعیت کی یہی رضا ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

چناچہ اس آیت سے درج ذیل اصول وضع ہوتے ہیں : (١) جزاء و سزا میں انسان کے دونوں جنس مرد اور عورت ایک ہی حکم رکھتے ہیں۔ دونوں اس معاملے میں بالکل مساوی ہیں اور دونوں کی سزا وجزاء برابر ہے۔ اللہ کے ہاں ان کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ لفظ (من) اگرچہ مرد اور عورت دونوں کے لئے آتا ہے لیکن من ذکر اونثی (٦١ : ٧٩) ” کا لفظ زیادہ تاکید اور وضاحت کے لئے اضافہ کردیا۔ اس سورة میں اس لفظ کو بالخصوص اس لئے بھی لایا گیا کہ اس میں عورت کے بارے میں اہل جاہلیت کے برے خیالات کی تردید بھی کی گئی تھی۔ مثلاً یہ کہ عورتوں کے بارے میں اس سوسائٹی کی رائے اچھی نہ تھی اور جس شخص کو یہ خبر ملتی کہ اس کے ہاں لڑکی پیدا ہوئی ہے تو وہ بدررنگ ہوجاتا اور لوگوں سے چھپتا پھرتا۔ پریشانی ، شرمندگی اور عار میں مبتلا ہوتا۔ (٢) ہر عمل کے لئے کسی اساس کا ہونا ضروری ہے۔ اسلام میں اعمال کے لئے ایک ہی اساس ہے ، وہ یہ کہ وھو مومن (٦١ : ٧٩) ” بشرطیکہ وہ مومن ہو “ یہ ایمان کسی بھی اخلاقی عمارت کے لئے ایک پختہ اساس ہے ، اس کے بغیر کوئی عمارت تعمیر نہیں ہوسکتی۔ اس کے بغیر اعمال یونہی ہوں گے جس طرح ریت کا ڈھیر کہ جب اسے کوئی سخت آندھی لے تو ہوا میں بکھر جائے۔ عقیدہ اور نظریہ وہ چیز ہے جس کے ساتھ اعمال کی تاریں جڑی ہوئی ہوتی ہیں۔ اگر یہ نہ ہو تو پھر اعمال کے تارو پود ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر جاتے ہیں۔ عقیدہ اعمال صالحہ کا سبب بنتا ہے اور ان کو مقصدیت عطا کرتا ہے۔ عقیدہ اور نظریہ اعمال خیر یہ کو ایک ایسی اساس عطا کرتا ہے جس کی اوپر وہ سب ٹھہرے ہوتے ہیں ، مضبوط ہوتے ہیں۔ ان میں عارضی پن اور تزلزل نہیں ہوتا اور نہ مفادات اور خواہشات کے مطابق بدلتے رہے ہیں۔ قرآن کہتا ہے کہ اگر اعمال صالحہ ایمان کی اساس پر استوار ہوں تو نتائج یہ ہوں گے کہ ایسے لوگوں کو اس جہاں میں بھی حیات طیبہ عطا ہوگی۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ یہ حیات عیاشی ، خوشحالی اور دولتمندی کی زندگی ہو ، کبھی یہ بھی ہوگا کہ ایک مومن کو یہ چیزیں بھی دستیاب ہوں گی۔ اور کبھی نہ ہوں گے۔ لیکن یاد رہے کہ بعض اوقات بقدر کفایت مال کے ساتھ بھی انسان کی زندگی نہایت ہی خوبصورتی کے ساتھ گزرتی ہے بشرطیکہ تعلق باللہ قائم ہو ، اطمینان قلبی نصیب ہو اور اللہ پر بھروسہ اور اللہ کی رضا حاصل ہو۔ انسان کو جسمانی صحت نصیب ہو ، اس کی خواہشات میں ٹھہرائو اور اس کی ہر چیز میں برکت ہو۔ گھر کا ماحول اچھا ہو ، اور افراد خانہ کے دلوں میں محبت ہو۔ ماحول ایسا ہو کہ اس میں اعمال صالحہ ہو رہے ہوں اور ان اعمال کی وجہ سے ہر طرف زندگی میں طمانیت اور ضمیر میں سکون ہو۔ مال تو امن و سکون کا ایک معمولی عنصر ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ مال بقدر کفایت ہو ورنہ وبال بن جاتا ہے۔ لیکن یہ مقام ان لوگوں کو حاصل ہوتا ہے کہ انسان کا دل پاکیزہ ، برگزیدہ اور اعلیٰ مقاصد کے ساتھ لگا ہوا ہے کہ جو اللہ کے ہاں قیمتی ہیں۔ یاد رہے کہ دنیا کی حیات طیبہ آخرت کے اجر میں کوئی کمی نہیں لاتی۔ آخرت کا اجر تو ان اچھے اعمال پر ہوگا جو اہل دین نے سرانجام دئیے اور باحسن ما کانوا یعملون (٦١ : ٧٩) ” سے ضمناً یہ بات نکلتی ہے کہ برے اعمال قلم زدہوجائیں گے۔ کیا اچھا سلوک ہے اور کس قدر کرم نوازی ہے ذات باری کی۔ جس کتاب کے ذریعہ مذکورہ بالا تعلیمات دی گئیں اب اس کتاب کے بارے میں چند کلمات اس کے ، آداب تلاوت اور اس کے بارے میں مشرکین کے تبصروں پر تنقید۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

فرمایا (مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی) (الآیۃ) کہ جو بھی کوئی مرد ہو یا عورت اچھا عمل کرے گا اسے ہم حیات طیبہ (اچھی زندگی) دیں گے، اس میں ایک قانون بتادیا جس میں ہر نیک عمل پر ہر مومن مرد و عورت کے لیے حیات طیبہ کا اور اجرو ثواب کا وعدہ فرمایا ہے۔ حیات طیبہ ” اچھی زندگی “ سے کیا مراد ہے اس کے بارے میں علامہ قرطبی نے پانچ اقوال نقل کیے ہیں حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ اس سے قناعت مراد ہے، تیسرا قول یہ ہے کہ اس سے طاعات کی توفیق دینا مراد ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کا ذریعہ بنتی ہے، اور اللہ تعالیٰ کے حضور میں (مَقْعَدِ صِدْقٍ ) نصیب ہونا مراد ہے، ان اقوال کے بعد دو قول اور لکھے ہیں ایک یہ کہ بندہ مخلوق سے بےنیاز ہوجائے اور ہر حال میں اپنے کو حق تعالیٰ شانہ ہی کا محتاج بنائے، دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے رضا بالقضاء مراد ہے۔ ان اقوال میں کوئی تعارض نہیں ہے بات یہ ہے کہ مومن بندوں کی دنیا والی زندگی بھی اچھی ہوتی ہے سکون و اطمینان سے رہتے ہیں، اگر کوئی پریشانی اور تنگدستی بھی ہو تو اس کی وجہ سے انہیں گھبراہٹ نہیں ہوتی اللہ تعالیٰ کی قضاء پر راضی رہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی یاد میں منہمک رہتے ہیں بلکہ فقر و فاقہ اور بیماری سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور کفار و فجار کا یہ حال ہوتا ہے کہ ان پر دنیاوی مصائب آتے ہیں تو بلبلا اٹھتے ہیں مال کی حرص میں رات دن تگ و دو میں لگے رہتے ہیں باطن کو سکون نہیں ہوتا مومن بندوں کو حیات طیبہ دنیا میں حاصل ہے اور آخرت میں جب جنت میں جائیں گے اور اللہ کی نعمتوں سے مالا مال ہوں گے جو دائمی ہوں گی ان کا تو ذکر ہی کیا ہے ان کی تو کوئی مثال ہی نہیں۔ اس میں جو (وَ ھُوَ مُؤْمِنٌ) فرمایا اس میں یہ بتادیا کہ حیات طیبہ دنیاوی و اخروی انہی مومن بندوں کے لیے ہے جو حالت ایمان میں عمل صالح کرتے ہوں حالت کفر کا کوئی عمل اللہ تعالیٰ کے یہاں مقبول نہیں۔ اور (مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی) فرما کر یہ بتادیا کہ اعمال صالحہ کا اجر وثواب مردوں کو بھی ملے گا اور عورتوں کو بھی۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

81:۔ جو مرد و زن دنیا میں نیک کام کرے بشرطیکہ وہ مومن ہو تو اس کی دنیا کی زندگی بھی پاکیزہ اور پر لطف ہوگی کیونکہ مومن موحد کو اللہ تعالیٰ کی بندگی، اطاعت، اور صبر و قناعت میں جو لطف اور قلبی اطمینان حاصل ہوتا ہے وہ شاہانِ دنیا کو تخت و تاج اور بیشمار سامان تعیش سے بھی نصیب نہیں ہوتا۔ اور آخرت میں بھی اپنے تمام اعمال کی پوری پوری جزا پائیں گے۔ بعض مفسرین نے ” حیۃ طیبۃ “ سے اخروی زندگی مراد لی ہے۔ جس کا پاکیزہ اور پر لطف ہونا کسی تشریح و توضیح کا محتاج نہیں۔ والمراد بالحیاۃ الطیبۃ الحیاۃ التی تکون فی الجنۃ اذ ھناک حیاۃ بلا موت و غنی بلا فقر و صحۃ بلا سقم و ملک بلا ھلک و سعادۃ بلا شقاوۃ (روح ج 14 ص 226) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

97 ۔ جو شخص نیک اعمال کرے گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ مومن اور صاحب ایمان ہو تو ہم اس کو زندگی عطا کریں گے ایک پاکیزہ اور پر لطیف زندگی اور ہم ان کو ان کے اچھے اعمال کے عوض جو وہ کیا کرتے تھے ان کا اجر اور اصلہ عطا فرمائیں گے۔ حیات طیبہ یعنی دنیا میں اطمینان قلب اور ذکر و شغل کی لذت اور آخرت میں اجر وثواب اور صلہ یا آخرت کی زندگی کو حیات طیبہ فرمایا اور یہ واقعہ ہے کہ وہاں سے بہتر زندگی کہاں مل سکتی ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں اچھی زندگی قیامت کو جلا دیں گے یا دنیا میں اللہ کی محبت میں اور لذت میں ۔ 12