Surat Bani Isareel

Surah: 17

Verse: 101

سورة بنی اسراءیل

وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا مُوۡسٰی تِسۡعَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ فَسۡئَلۡ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ اِذۡ جَآءَہُمۡ فَقَالَ لَہٗ فِرۡعَوۡنُ اِنِّیۡ لَاَظُنُّکَ یٰمُوۡسٰی مَسۡحُوۡرًا ﴿۱۰۱﴾

And We had certainly given Moses nine evident signs, so ask the Children of Israel [about] when he came to them and Pharaoh said to him, "Indeed I think, O Moses, that you are affected by magic."

ہم نے موسیٰ کو نو معجزے بالکل صاف صاف عطا فرمائے ، تو خود ہی بنی اسرائیل سے پوچھ لے کہ جب وہ ان کے پاس پہنچے تو فرعون بولا کہ اے موسٰی! میرے خیال میں تو تجھ پر جادو کر دیا گیا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Nine Signs of Musa Allah tells: وَلَقَدْ اتَيْنَا مُوسَى تِسْعَ ايَاتٍ بَيِّنَاتٍ فَاسْأَلْ بَنِي إِسْرَايِيلَ إِذْ جَاءهُمْ فَقَالَ لَهُ فِرْعَونُ ... And indeed We gave Musa nine clear signs. Ask then the Children of Israel, when he came to them, then Fir`awn said to him: Allah tells us that He sent Musa with nine clear signs, which provided definitive proof that his Prophethood was real and that what he was conveying from the One Who had sent him to Fir`awn was true. These clear signs were: his staff, his hand, the years of famine, the sea, the flood, the locusts, the lice, the frogs and the blood. This was the view of Ibn Abbas. Muhammad bin Ka`b said, "They were: his hand and his staff, the five signs mentioned in Suarah Al-A`raf, and destruction of wealth and the rock." Ibn Abbas, Mujahid, Ikrimah, Ash-Sha`bi and Qatadah said: "They are: his hand, his staff, the years of famine, the failure of the crops, the flood, the locusts, the lice, the frogs and the blood." فَاسْتَكْبَرُواْ وَكَانُواْ قَوْماً مُّجْرِمِينَ Yet they remained arrogant, and they were of those people who were criminals, (7:133) meaning, despite all these signs and their witnessing of them, they disbelieved them and belied them wrongfully and arrogantly, although they were themselves were convinced of them, so they did not have any effect on them. By the same token, (Allah tells His Messenger here), `if We were to respond to what these people are asking you for, who have said that they will not believe in you until you cause springs to gush forth throughout the land for them, they would not respond or believe except if Allah willed.' As Fir`awn said to Musa, even though he had witnessed the signs which he brought, ... إِنِّي لاََظُنُّكَ يَا مُوسَى مَسْحُورًا "O Musa! I think you are indeed bewitched." It was said that this meant he thought he was a sorcerer, but Allah knows best. These nine signs which were mentioned by the Imams (scholars) quoted above are what is referred to here, and in the Ayah: وَأَلْقِ عَصَاكَ فَلَمَّا رَءَاهَا تَهْتَزُّ كَأَنَّهَا جَأنٌّ وَلَّى مُدْبِراً وَلَمْ يُعَقِّبْ يمُوسَى لاَ تَخَفْ "And throw down your stick!" But when he saw it moving as if it were a snake, he turned in flight, and did not look back. (It was said:) "O Musa ! Fear not." until His saying, فِى تِسْعِ ءَايَـتٍ إِلَى فِرْعَوْنَ وَقَوْمِهِ إِنَّهُمْ كَانُواْ قَوْماً فَـسِقِينَ among the nine signs (you will take) to Fir`awn and his people. Verily, they are a people who are rebellious. (27:10-12) These Ayat include mention of the stick and the hand, and the rest of the nine signs are mentioned in detail in Surah Al-A`raf. Musa was also given many other signs, such as striking the rock with his staff and water flowing from it, their being shaded with clouds, manna and quails, and other signs which were bestowed upon the Children of Israel after they had left the land of Egypt. But here Allah mentions the nine signs which were witnessed by his people in Egypt. These became evidence against them, because they stubbornly rejected them out of disbelief. So Musa said to Fir`awn:

پانچ معجزے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تو ایسے معجزے ملے جو آپ کی نبوت کی صداقت اور نبوت پر کھلی دلیل تھی ۔ لکڑی ، ہاتھ ، قحط ، دریا ، طوفان ، ٹڈیاں ، جوئیں ، مینڈک اور خون ۔ یہ تھیں تفصیل وار آیتیں ۔ محمد بن کعب کا قول ہے کہ یہ معجزے یہ ہیں ہاتھ کا چمکیلا بن جانا ۔ لکڑی کا سانپ ہو جانا اور پانچ وہ جن کا بیان سورہ اعراف میں ہے اور مالوں کا مٹ جانا اور پتھر ۔ ابن عباس وغیرہ سے مروی ہے کہ یہ معجزے آپ کا ہاتھ ، آپ کی لکڑی ، قحط سالیاں پھلوں کی کمی طوفان ٹڈیان جوئیں مینڈگ اور خون ہیں ۔ یہ قول زیادہ ظاہر ، بہت صاف ، بہتر اور قوی ہے ۔ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے ان میں سے قحط سالی اور پھلوں کی کمی کو ایک گن کر نواں معجزہ آپ کی لکڑی کا جادو گروں کے سانپوں کو کھا جانا بیان کیا ہے ۔ لیکن ان تمام معجزوں کے باوجود فرعونیوں نے تکبر کیا اور گنہگاری پر اڑے رہے باوجودیکہ دل یقین لا چکا تھا مگر ظلم وزیا دتی کر کے کفر انکار پر جم گئے ۔ اگلی آیتوں سے ان آیتوں کا ربط یہ ہے کہ جیسے آپ کی قوم آپ سے معجزے طلب کرتی ہے ایسے ہی فرعونیوں نے بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام سے معجزے طلب کئے جو ظاہر ہوئے لیکن انہیں ایمان نصیب نہ ہوا آخرش ہلاک کر دئے گئے ۔ اسی طرح اگر آپ کی قوم بھی معجزوں کے آ جانے کے بعد کافر رہی تو پھر مہلت نہ ملے گی اور معا تباہ برباد کر دی جائے گی ۔ خود فرعون نے معجزے دیکھنے کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جادوگر کہہ کر اپنا پیچھا چھڑا لیا ۔ پس یہاں جن نو نشانیوں کا بیان ہے یہ وہی ہیں اور ان کا بیان والق عصاک سے قوما فاسقین تک میں ہے ان آیتوں کا بیان سورہ اعراف میں ہے ۔ ان کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بہت سے معجزے دئیے تھے مثلا آپ کی لکڑی کے لگنے سے ایک پتھر میں سے بارہ چشموں کا جاری ہو جانا ، بادل کا سایہ کرنا ، من وسلوی کا اترنا وغیرہ وغیرہ ۔ یہ سب نعمتیں بنی اسرائیل کو مصر کے شہر چھوڑنے کے بعد ملیں پس ان معجزوں کو یہاں اس لئے بیان نہیں فرمایا کہ وہ فرعونیوں نے دیکھے تھے اور انہیں جھٹلایا تھا ۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک یہودی نے اپنے ساتھی سے کہا چل تو ذرا اس نبی سے ان کے قران کی اس آیت کے بارے میں پوچھ لیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو وہ نو آیات کیا ملی تھیں ؟ دوسرے نے کہا نبی نہ کہہ ، سن لیا تو اس کی چار آنکھیں ہو جائیں گی ۔ اب دونوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا آپ نے فرمایا یہ کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو ، چوری نہ کرو ، زنا نہ کرو ، کسی جان کو ناحق قتل نہ کرو ، جادو نہ کرو ، سود نہ کھاؤ ، بےگناہ لوگوں کو پکڑ کر بادشاہ کے دربار میں نہ لے جاؤ کہ اسے قتل کرا دو اور پاک دامن عورتوں پر بہتان نہ باندھو یا فرمایا جہاد سے نہ بھاگو ۔ اور اے یہودیو! تم پر خاص کر یہ حکم بھی تھا کہ ہفتے کے دن زیادتی نہ کرو ۔ اب تو وہ بےساختہ آپ کے ہاتھ پاؤں چومنے لگے اور کہنے لگے ہماری گواہی ہے کہ آپ اللہ کی نبی ہیں ۔ آپ نے فرمایا پھر تم میری تابعداری کیوں نہیں کرتے ؟ کہنے لگے حضرت داؤد علیہ السلام نے دعا کی تھی کہ میری نسل میں نبی ضرور رہیں اور ہمیں خوف ہے کہ آپ کی تابعداری کے بعد یہود ہمیں زندہ چھوڑیں گے ۔ ترمذی نسائی اور ابن ماجہ میں بھی یہ حدیث ہے امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ اسے حسن صحیح بتلاتے ہیں لیکن ہے ذرا مشکل کام اس لئے کہ اس کے راوی عبداللہ بن سلمہ کے حافظ میں قدرے قصور ہے اور ان پر جرح بھی ہے ممکن ہے نو کلمات کا شبہ نو آیات سے انہیں ہو گیا ہو اس لئے کہ یہ توراۃ کے احکام ہیں فرعون پر حجت قائم کرنے والی یہ چیزں نہیں ۔ واللہ اعلم ۔ اسی لئے فرعون سے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ اے فرعون یہ تو تجھے بھی معلوم ہے کہ یہ سب معجزے سچے ہیں اور ان میں سے ایک ایک میری سچائی کی جیتی جاگتی دلیل ہے میرا خیال ہے کہ تو ہلاک ہونا چاہتا ہے اللہ کی لعنت تجھ پر اترا ہی چاہتی ہم تو مغلوب ہو گا اور تباہی کو پہنچے گا ۔ مثبور کے معنی ہلاک ہونے کے اس شعر میں بھی ہیں اذا جار الشیطان فی سنن الغی ومن مال میلہ مثبور یعنی شیطان کے دوست ہلاک شدہ ہیں ۔ علمت کی دوسری قرأت علمت تے کے زبر کے بدلے تے کے پیش سے بھی ہے لیکن جمہور کی قرأت کے زبر سے ہی ہے ۔ اور اسی معنی کو وضاحت سے اسی آیت میں بیان فرماتا ہے ( وَجَحَدُوْا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَآ اَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا ۭ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِيْنَ 14۝ۧ ) 27- النمل:14 ) یعنی جب ان کے پاس ہماری ظاہر اور بصیرت افروز نشانیاں پہنچ چکیں تو وہ بولے کہ یہ تو کھلا ہوا جادو ہے یہ کہہ کر منکرین انکار کر بیٹھے حالانکہ ان کے دلوں میں یقین آ چکا تھا لیکن صرف ظلم و زیادتی کی راہ سے نہ مانے الخ الغرض یہ صاف بات ہے کہ جن نو نشانیوں کا ذکر ہوا ہے یہ عصا ، ہاتھ ، قحط سالی ، پھلوں کی کم پیداواری ، ٹڈیاں ، جوئیں ، مینڈک ، اور دم ( خون ) تھیں ۔ جو فرعون اور اس کی قوم کے لئے اللہ کی طرف سے دلیل برہان تھا اور آپ کے معجزے تھے جو آپ کی سچائی اور اللہ کے وجود پر دلائل تھے ان نو نشانیوں سے مراد احکام نہیں جو اوپر کی حدیث میں بیان ہوئے کیونکہ وہ فرعون اور فرعونیوں پر حجت ہونے اور ان احکام کے بیان ہونے کے درمیان کوئی مناسبت ہی نہیں ۔ یہ وہم صرف عبداللہ بن سلمہ راوی حدیث کی وجہ سے لوگوں کو پیدا ہوا اس کی بعض باتییں واقعی قابل انکار ہیں ، واللہ اعلم ۔ بہت ممکن ہے کہ ان دونوں یہودیوں نے دس کلمات کا سوال کیا ہو اور راوی کو نو آیتوں کا وہم رہ گیا ہو ۔ فرعون نے ارادہ کیا کہ انہیں جلا وطن کر دیا جائے ۔ پس ہم نے خود اسے مچھلیوں کا لقمہ بنایا اور اس کے تمام ساتھیوں کو بھی ۔ اس کے بعد ہم نے بنی اسرائیل سے فرما دیا کہ اب زمین تمہاری ہے رہو سہو کھاؤ پیو ۔ اس آیت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی زبردست بشارت ہے کہ مکہ آپ کے ہاتھوں فتح ہو گا ۔ حالانکہ سورت مکی ہے ہجرت سے پہلے نازل ہوئی ۔ واقع میں ہوا بھی اسی طرح کہ اہل مکہ نے آپ کو مکہ شریف سے نکال دینا چاہا جیسے قرآن نے آیت ( وَاِنْ كَادُوْا لَيَسْتَفِزُّوْنَكَ مِنَ الْاَرْضِ لِيُخْرِجُوْكَ مِنْهَا وَاِذًا لَّا يَلْبَثُوْنَ خِلٰفَكَ اِلَّا قَلِيْلًا 76؀ ) 17- الإسراء:76 ) میں بیان فرمایا ہے پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو غالب کیا اور مکے کا مالک بنا دیا اور فاتحانہ حیثیت سے آپ بعد از جنگ مکے میں آئے اور یہاں اپنا قبضہ کیا اور پھر اپنے حلم و کرم سے کام لے کر مکے کے مجرموں کو اور اپنے جانی دشمنوں کو عام طور پر معافی عطا فرما دی ، صلی اللہ علیہ وسلم ۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے بنی اسرائیل جیسی ضعیف قوم کو مشرق و مغرب کا وارث بنا دیا تھا اور فرعون جیسے سخت اور متکبر بادشاہ کے مال ، زمین ، پھل ، کھیتی اور خزانوں کا مالک کر دیا جیسے آیت ( كَذٰلِكَ ۭ وَاَوْرَثْنٰهَا بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ 59؀ۭ ) 26- الشعراء:59 ) میں بیان ہوا ہے ۔ یہاں بھی فرماتا ہے کہ فرعون کی ہلاکت کے بعد ہم نے بنی اسرائیل سے فرمایا کہ اب تم یہاں رہو سہو قیامت کے وعدے کے دن تم اور تمہارے دشمن سب ہمارے سامنے اکٹھے لائے جاؤ گے ، ہم تم سب کو جمع کر لائیں گے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

101۔ 1 وہ نو معجزے ہیں۔ ہاتھ، لاٹھی، قحط سالی، نقص ثمرات، طوفان، جراد (ٹڈی دل) قمل (کھٹمل، جوئیں) ضفاد (مینڈک) اور خون، امام حسن بصری کہتے ہیں، کہ قحط سالی اور نقص ثمرات ایک ہی چیز ہے اور نواں معجزہ لاٹھی کا جادو گروں کی شعبدہ بازی کو نگل جانا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ان کے علاوہ بھی معجزات دیئے گئے تھے مثلًا لاٹھی کا پتھر پر مارنا، جس سے بارہ چشمے ظاہر ہوگئے تھے، بادلوں کا سایہ کرنا، من وسلوی وغیرہ۔ لیکن یہاں آیات تسعہ سے صرف وہی نو معجزات مراد ہیں، جن کا مشاہدہ فرعون اور اس کی قوم نے کیا۔ اسی لیے حضرت ابن عباس (رض) نے انفلاق بحر (سمندر کا پھٹ کر راستہ بن جانے) کو بھی ان نو معجزات میں شمار کیا ہے اور قحط سالی اور نقص ثمرات کو ایک معجزہ شمار کیا ہے ترمذی کی ایک روایت میں آیات تسعہ کی تفصیل اس سے مختلف بیان کی گئی ہے لیکن سنداً وہ روایت ضعیف ہے اس لیے آیات تسعہ سے مراد یہی مذکورہ معجزات ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١٩] سیدنا موسیٰ کے نو معجزات :۔ یہ نو واضح آیات یا معجزے قرآن کریم میں سورة اعراف میں مذکور ہیں اور یہ ہیں عصائے ١ موسیٰ ، ید ٢ بیضا، بھری مجلس ٣ میں برسرعام جادوگروں کی شکست، سارے ملک میں قحط واقع ہونا، یکے بعد دیگر طوفان، ٹڈی دل، جوؤں، مینڈکوں، اور خون کی بلاؤں کا نازل ہونا۔ یہ ایسے واضح معجزات تھے جو سیدنا موسیٰ کی نبوت پر بھی واضح دلائل تھے اور ان کے قلبی اطمینان کے لیے بھی کافی تھے لیکن وہ پھر بھی ایمان نہ لائے اس کی وجہ بھی وہی ہے جو اوپر کے حاشیہ میں مذکور ہوئی ہے۔ قریش کا بھی یہی حال تھا۔ کچھ معجزات تو وہ دیکھ چکے تھے مگر ایمان نہ لائے تھے۔ یہاں یہ بتانا مقصود ہے کہ اگر ان کے مطلوبہ معجزات دکھلا بھی دیئے جائیں تو یہ بھی فرعونیوں کی طرح ایمان لانے کی طرف کبھی نہ آئیں گے۔ علاوہ ازیں ان نو واضح آیات سے متعلق ترمذی میں ایک حدیث ہے جو درج ذیل ہے : صفوان بن عسال مرادی سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے دوسرے سے کہا && آؤ اس نبی کے پاس چلیں اور اس سے کچھ پوچھیں && وہ کہنے لگا && اسے نبی نہ کہو، اگر اس نے یہ بات سن لی تو اس کی آنکھیں چمک اٹھیں گی && چناچہ وہ دونوں آپ کے پاس آئے اور پوچھا کہ && موسیٰ کو کون سی نو واضح آیات دی گئی تھیں ؟ && آپ نے فرمایا : && یہ کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ، زنا نہ کرو، جس جان کو اللہ نے مارنا حرام قرار دیا ہے اسے ناحق نہ مارو، چوری نہ کرو، جادو نہ کرو، کسی بےقصور کو سلطان کے ہاں نہ لے جاؤ کہ وہ اسے مار ڈالے، کسی پاکدامنہ پر تہمت نہ لگاؤ، جنگ سے فرار نہ کرو۔ راوی شعبہ کو شک ہے کہ نویں بات آپ نے یہ کہی کہ اے یہود ! نویں بات خالصتاً تمہارے لیے ہے کہ ہفتہ کے دن میں زیادتی نہ کرو && وہ کہنے لگے && ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے نبی ہیں && آپ نے پوچھا && پھر کون سی چیز تمہارے اسلام لانے میں مانع ہے ؟ && کہنے لگے && داؤد نے دعا کی تھی کہ نبی انہی کی اولاد سے ہو۔ نیز ہم ڈرتے ہیں کہ اگر ہم مسلمان ہوگئے تو یہود ہمیں مار ڈالیں گے && (ترمذی ابو اب التفسیر) اس روایت کو حافظ ابن کثیر نے راوی عبداللہ بن مسلمہ کی وجہ سے مجروح قرار دیا ہے اور تطبیق کی یہ صورت پیش کی ہے کہ شاید یہود نے ان احکام عشرہ کے متعلق پوچھا ہو جو تورات کے شروع میں بطور وصایا لکھے جاتے تھے۔ [١٢٠] فرعون کی نظروں میں سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کی سحر زدگی یا دیوانگی یہ تھی کہ آپ نے اس سے برملا بنی اسرائیل کی آزادی اور انھیں اپنے ہمراہ بھیجنے کا مطالبہ کردیا۔ کیونکہ وہ خود کو ایسا شہنشاہ سمجھتا تھا جو اپنی تمام رعایا کے سیاہ و سپید کا مالک بنا بیٹھا تھا اور از راہ تکبر سیدنا موسیٰ کے دعٰوئے نبوت اور اس مطالبہ کو دیوانگی پر محمول کرتا تھا اور بعض لوگوں نے یہاں مسحور سے مراد ساحر لیا ہے جیسا کہ فرعون اپنی رعایا کو یہی یقین دلانا چاہتا تھا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسٰي تِسْعَ اٰيٰتٍۢ ۔۔ : یعنی ہم موسیٰ (علیہ السلام) کو ایسے نو (٩) معجزے دے چکے ہیں جو ان کی نبوت پر کھلی نشانی تھے۔ اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلی ہے اور قریش کو اس مطالبے کا جواب دیا ہے جو انھوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیا تھا کہ ہم آپ پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ آپ یہ کام کرکے نہ دکھا دیں۔ مطلب یہ ہے کہ آپ سے تو چھ معجزوں کا مطالبہ کیا گیا ہے، ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو نو معجزے دیے، مگر نہ ماننے والوں نے پھر بھی نہ مانا۔ ان نو (٩) معجزوں کا ذکر سورة اعراف کی آیات (١٠٧، ١٠٨، ١٣٠، ١٣٣) میں ہے۔ بعض نے ان سے شریعت کے نو (٩) احکام مراد لیے ہیں، جو تمام شریعتوں میں ثابت تھے، مگر صحیح یہی ہے کہ یہاں نو (٩) معجزات ہی مراد ہیں وہ نو احکام دراصل تورات میں مذکور نو وصیتیں ہیں جو بنی اسرائیل کو دی گئیں، ان کا فرعون کے سامنے پیش کیے گئے معجزوں سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کی دلیل سورة نمل کی آیات (١٠ تا ١٢) ہیں، جن میں اللہ تعالیٰ نے عصائے موسیٰ اور ید بیضا کا ذکر کرکے فرمایا : (فِيْ تِسْعِ اٰيٰتٍ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَقَوْمِهٖ ) [ النمل : ١٢ ] یعنی یہ دونوں معجزے ان نو (٩) معجزوں میں شامل تھے جو موسیٰ (علیہ السلام) کو دے کر فرعون اور اس کی قوم کی طرف بھیجا گیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کو اور معجزات بھی دیے گئے، مثلاً پتھر سے بارہ چشمے جاری ہونا، گائے کا حصہ مارنے سے مردہ زندہ ہونا، من وسلویٰ ، بادلوں کا سایہ، پہاڑ کا اکھڑ کر ان پر آکھڑا ہونا وغیرہ، مگر یہ بنی اسرائیل کے لیے تھے۔ اِنِّىْ لَاَظُنُّكَ يٰمُوْسٰي مَسْحُوْرًا : یہ بالکل اسی قسم کا الزام ہے جو کفار مکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیتے تھے، جیسا کہ قرآن میں ہے : (اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسْحُوْرًا ) [ بني إسرائیل : ٤٧ ]” تم پیروی نہیں کرتے مگر ایسے آدمی کی جس پر جادو کیا گیا ہے۔ “ ہر زمانے میں باطل پرست ناقابل تردید دلائل سن کر حق پرستوں کے بارے میں ایسی ہی باتیں کیا کرتے ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary The first verse (101): وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَىٰ تِسْعَ آيَاتٍ mentions the bestowal of nine clear signs on Sayyidna Musa (علیہ السلام) . The word: آیَہ (&ayah) carries the meaning of miracle or sign as well as that of the آیَت : ayat or verses of the Qur&an, that is, the divine injunctions. At this place, the probability of both meanings exists. Therefore, a number of commentators have taken the word &ayat& to mean miracles - and the number nine does not make it necessary that they will not be more than nine - but, at this place, the figure &nine& has been mentioned on the basis of some particular importance it has. Sayyidna ` Abdullah ibn ` Abbas (رض) has enumerated these miracles as follows: 1. The staff of Sayyidna Musa (علیہ السلام) which turned into a huge snake. 2. The hand that emitted light when placed under and taken out of the armpit. 3. The removal of stammering from his tongue. 4. The splitting of the water barrier in two sections to give safe passage to the Bani Isra&il to cross it. 5. The sending of the punishment through locusts in unusual circum¬stances. 6. The sending of the storm. 7. The clothes on their bodies were infested with countless lice they had no escape from. 8. The punishment of frogs was released on them when frogs would ap¬pear in everything they ate or drank. 9. The punishment of blood was sent that filled every utensil and min¬gled with whatever they ate or drank. And a Sahih Hadith tells us that the word &ayat& used here means divine injunctions. This Hadith has been reported in Abu Dawud, an-Nasa&i, Tirmidhi and Ibn Majah on the authority of Sayyidna Safwan ibn al-` Aththal. He says that a Jew asked one of his friends to take him to &that& prophet. The friend said, &do not call him a prophet. If he finds out that we too call him a prophet, he will have four eyes on him (that is, he will have an opportunity to wallow in his pride and glee).& Then they came to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and asked him as to what were the nine clear signs given to Sayyidna Musa (علیہ السلام) . He said: 1. Do not ascribe any partners to Allah. 2. Do not steal. 3. Do not fornicate. 4. Do not unjustly take the life of the one whose killing has been forbidden by Allah. 5. Do not falsely impute anyone innocent with charges liable to the sentence of death or any other punishment. 6. Do not practice magic. 7. Do not devour interest. 8. Do not level a false accusation of fornication on a chaste woman. 9. Do not desert the battlefield in Jihad for fear of being killed. And he also said, &0 Jews, it has also been specially enjoined on you that you shall not contravene the particular injunctions of the obser¬vance of the day of Sabbath (Saturday) given to you.& Hearing what the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said, they both kissed his hands and feet and declared, &We bear witness that you are the prophet of Al¬lah.& He said, &What is it, then, that stops you from following me?& They said that Sayyidna Dawud (علیہ السلام) had prayed to his Lord for prophets to always keep appearing from among his progeny - &and we are scared that the Jews will kill us if we started following you.& Since this explanation of the verse stands proved on the authority of Sahih Hadith, therefore, this is what many commentators have pre¬ferred to go by.

خلاصہ تفسیر : اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کھلے ہوئے نو معجزے دیئے (جنکا ذکر پارہ نہم کے رکوع ششم آیت اول میں ہے) جبکہ وہ بنی اسرائیل کے پاس آئے تھے سو آپ بنی اسرائیل سے (بھی چاہے) پوچھ دیکھئے (اور چونکہ آپ فرعون کی طرف بھی بھیجے گئے تھے اور فرعون وآل فرعون کے ایمان نہ لانے سے وہ عجائبات معجزات ظاہر ہوئے تھے اس لئے موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کو دوبارہ ایمان لانے کے لئے یاد دہانی کی اور ان آیات بینہ سے ڈرایا) تو فرعون نے ان سے کہا کہ اے موسیٰ میرے خیال میں تو ضرور تم پر کسی نے جادو کردیا ہے (جس سے تمہاری عقل مخبوط ہوگئی کہ ایسی بہکی بہکی باتیں کرتے ہو) موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا تو (دل میں) خوب جانتا ہے (گو عار کیوجہ سے زبان سے اقرار نہیں کرتا) کہ یہ عجائبات خاص آسمان اور زمین کے پروردگار ہی نے بھیجے ہیں جو کہ بصیرت کے لئے (کافی) ذرائع ہیں اور میرے خیال میں ضرور تیری کمبختی کے دن آگئے ہیں (اور یا تو فرعون کی یہ حالت تھی کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی درخواست پر بھی بنی اسرائیل کو مصر سے جانے کی اجازت نہ دیتا تھا اور) پھر (یہ ہوا کہ) اس نے (اس احتمال سے کہ کہیں بنی اسرائیل موسیٰ (علیہ السلام) کے اثر سے قوت نہ پکڑ جاویں خود ہی) چاہا کہ بنی اسرائیل کا اس سر زمین سے قدم اکھاڑ دے (یعنی ان کو شہر بدر کردے) سو ہم نے (قبل اس کے کہ وہ کامیاب ہو خود) اس (ہی) کو اور جو اس کے ساتھ تھے سب کو غرق کردیا اور اس (کے غرق کرنے) کے بعد ہم نے بنی اسرائیل کو کہہ دیا کہ (اب) تم اس سر زمین (کے جہاں سے تم کو نکالنا چاہتا تھا مالک ہو تم ہی اس) میں رہو سہو (خواہ بالقوہ یا بالفعل مگر یہ مالکیت حیوۃ دنیا تک ہے) پھر جب آخرت کا وعدہ آ جاوے گا تو ہم سب کو جمع کر کے (قیامت کے میدان میں مملوکانہ محکومانہ) لاکر حاضر کریں گے (یہ ابتدا میں ہوگا پھر مومن و کافر اور نیک و بد کو الگ الگ کردیا جاوے گا) اور (جس طرح ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو معجزے دیئے اسی طرح آپ کو بھی بہت سے معجزات دیئے جن میں عظیم الشان معجزہ قرآن ہے کہ) ہم نے اس قرآن کو راستی ہی کے ساتھ تو نازل کیا اور وہ راستی ہی کے ساتھ (آپ پر) نازل ہوگیا (یعنی جیسا کاتب کے پاس سے چلا تھا اسی طرح مکتوب الیہ تک پہنچ گیا اور درمیان میں کوئی تغیر و تبدل و تصرف نہیں ہوا پس سر تا سر راستی ہی راستی ہے) اور (جس طرح ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو پیغمبر بنایا تھا اور ہدایت ان کے اختیار میں نہ تھی اسی طرح) ہم نے آپ کو (بھی) صرف (ایمان پر ثواب کی) خوشی سنانے والا اور (کفر پر عذاب سے) ڈرانیوالا بنا کر بھیجا ہے (اگر کوئی ایمان نہ لاوے کچھ غم نہ کیجئے) اور قرآن (میں صفت راستی کے ساتھ بمتقضائے رحمت اور بھی ایسے صفات کی رعایت کی گئی ہے کہ اس سے ہدایت زیادہ آسان ہو چناچہ ایک تو یہ کہ اس) میں ہم نے (آیات وغیرہ کا) جا بجا فصل رکھا تاکہ آپ اس کو لوگوں کے سامنے ٹھہر ٹھہر کر پڑھیں (جس میں وہ اچھی طرح سمجھ سکیں کیونکہ تقریر طویل مسلسل بعض اوقات ضبط میں نہیں آتی) اور (دوسرے یہ کہ) ہم نے اس کو اتارنے میں بھی (حسب واقعات) تدریجا اتارا (تاکہ معانی کا خوف انکشاف ہو اب ان سب امور کا مقتضا یہ تھا کہ یہ لوگ ایمان لے آتے لیکن اس پر بھی ایمان نہ لاویں تو آپ کچھ پروا نہ کیجئے بلکہ صاف) کہہ دیجئے کہ تم اس قرآن پر خواہ ایمان لاؤ یا ایمان نہ لاؤ (مجھ کو کوئی پرواہ نہیں دو وجہ سے اول تو یہ کہ میرا کیا ضرر کیا۔ دوسرے یہ کہ تم ایمان نہ لائے تو کیا ہوا دوسرے لوگ ایمان لے آئے چنانچہ) جن لوگوں کو قرآن (کے نزول) سے پہلے (دین کا) علم دیا گیا تھا (یعنی منصف علماء اہل کتاب) یہ قرآن جب ان کے سامنے پڑھا جاتا ہے تو ٹھوڑیوں کے بل سجدہ میں گر پڑتے ہیں اور کہتے ہیں ہمارا رب (وعدہ خلافی سے) پاک ہے بیشک ہمارے رب کا وعدہ ضرور پورا ہی ہوتا ہے (سو جس کتاب کا جس نبی پر نازل کرنے کا وعدہ کتب سابقہ میں کیا تھا اس کو پورا فرما دیا اور ٹھوڑیوں کے بل (جو) گرتے ہیں (تو) روتے ہوئے (گرتے ہیں) اور یہ قرآن (یعنی اس کا سننا) ان کا (دلی) خشوع اور بڑھا دیتا ہے (کیونکہ ظاہر و باطن کا توافق کیفیت کو قوی کردیتا ہے) معارف و مسائل : وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسٰي تِسْعَ اٰيٰتٍۢ اس میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو نو آیات بینات عطا فرمانے کا ذکر ہے آیت کا لفظ معجزے کے معنی میں آتا ہے اور آیات قرآن یعنی احکام الہیہ کے معنی میں بھی اس جگہ دونوں معنی کا احتمال ہے اسی لئے ایک جماعت مفسرین نے اس جگہ آیات سے مراد معجزات لئے ہیں اور نو کے عدد سے یہ ضروری نہیں کہ نو سے زائد نہ ہوں مگر اس جگہ نو کا ذکر کسی خاص اہمیت کی بناء پر کیا گیا ہے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے یہ نو معجزات اس طرح شمار فرمائے ہیں (١) عصاء موسیٰ جو اژدھا بن جاتی تھی (٢) یدبیضا جس کو گریبان میں ڈال کر نکالنے سے چمکنے لگتا تھا (٣) زبان میں لکنت تھی وہ دور کردی گئی (٤) بنی اسرائیل کے دریا پار کرنے کے لئے دریا کو پھاڑ کر اس کے دو حصے الگ کردیئے اور راستہ دے دیا (٥) ٹڈی دل کا عذاب غیر معمولی صورت میں بھیج دیا گیا (٦) طوفان بھیج دیا گیا (٧) بدن کے کپڑوں میں بیحد جوئیں پیدا کردی گئیں جن سے بچنے کا کوئی راستہ نہ رہا (٨) مینڈکوں کا ایک عذاب مسلط کردیا گیا کہ ہر کھانے پینے کی چیز میں مینڈک آجاتے تھے (٩) خون کا عذاب بھیجا گیا کہ ہر برتن اور کھانے پینے میں خون مل جاتا تھا۔ اور ایک صحیح حدیث کے مضمون سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہاں آیات سے مراد احکام الہیہ ہیں یہ حدیث ابوداؤد، نسائی، ترمذی، ابن ماجہ میں بسند صحیح حضرت صفوان بن عسال (رض) سے منقول ہے وہ فرماتے ہیں کہ ایک یہودی نے اپنے ایک ساتھی سے کہا کہ مجھے اس نبی کے پاس لے چلو ساتھی نے کہا کہ نبی نہ کہو اگر ان کو خبر ہوگئی کہ ہم بھی ان کو نبی کہتے ہیں تو ان کی چار آنکھیں ہوجاویں گی یعنی ان کو فخر و مسرت کا موقع مل جاوے گا پھر یہ دونوں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دریافت کیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو جو نو آیات بینات دی گئی تھیں وہ کیا ہیں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (١) اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو (٢) چوری نہ کرو (٣) زنا نہ کرو (٤) جس جان کو اللہ نے حرام کیا ہے اس کو ناحق قتل نہ کرو (٥) کسی بےگناہ پر جھوٹا الزام لگا کر قتل و سزاء کے لئے پیش نہ کرو (٦) جادو نہ کرو (٧) سود نہ کھاؤ (٨) پاک دامن عورت پر بدکاری کا بہتان نہ باندھو (٩) میدان جہاد سے جان بچا کر نہ بھاگو اور اے یہود خاص کر تمہارے لئے یہ بھی حکم ہے کہ یوم سبت (ہفتہ) کے جو خاص احکام تمہیں دیئے گئے ان کی خلاف ورزی نہ کرو۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بات سن کر دونوں نے آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھوں اور پاؤں کو بوسہ دیا اور کہا کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے نبی ہیں آپ نے فرمایا کہ پھر تمہیں میرا اتباع کرنے سے کیا چیز روکتی ہے کہنے لگے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) نے اپنے رب سے یہ دعا کی تھی کہ ان کی ذریت میں ہمیشہ نبی ہوتے رہیں اور ہمیں خطرہ ہے کہ اگر ہم آپ کا اتباع کرنے لگیں تو یہود ہمیں قتل کردیں گے چونکہ یہ تفسیر صحیح حدیث سے ثابت ہے اس لئے بہت سے مفسیرین نے اسی کو ترجیح دی ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسٰي تِسْعَ اٰيٰتٍۢ بَيِّنٰتٍ فَسْــــَٔـلْ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اِذْ جَاۗءَهُمْ فَقَالَ لَهٗ فِرْعَوْنُ اِنِّىْ لَاَظُنُّكَ يٰمُوْسٰي مَسْحُوْرًا ١٠١؁ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ سأل السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. ( س ء ل ) السؤال ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔ فِرْعَوْنُ : اسم أعجميّ ، وقد اعتبر عرامته، فقیل : تَفَرْعَنَ فلان : إذا تعاطی فعل فرعون، كما يقال : أبلس وتبلّس، ومنه قيل للطّغاة : الفَرَاعِنَةُ والأبالسة . فرعون یہ علم عجمی ہے اور اس سے سرکش کے معنی لے کر کہا جاتا ہے تفرعن فلان کہ فلاں فرعون بنا ہوا ہے جس طرح کہ ابلیس سے ابلس وتبلس وغیرہ مشتقات استعمال ہوتے ہیں اور ایس سے سرکشوں کو فراعنۃ ( جمع فرعون کی اور ابا لسۃ ( جمع ابلیس کی ) کہا جاتا ہے ۔ ظن والظَّنُّ في كثير من الأمور مذموم، ولذلک قال تعالی: وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس/ 36] ، وَإِنَّ الظَّنَ [ النجم/ 28] ، وَأَنَّهُمْ ظَنُّوا كَما ظَنَنْتُمْ [ الجن/ 7] ، ( ظ ن ن ) الظن اور ظن چونکہ عام طور پر برا ہوتا ہے اس لئے اس کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا : وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس/ 36] اور ان میں کے اکثر صرف ظن کی پیروی کرتے ہیں ۔ سحر والسِّحْرُ يقال علی معان : الأوّل : الخداع وتخييلات لا حقیقة لها، نحو ما يفعله المشعبذ بصرف الأبصار عمّا يفعله لخفّة يد، وما يفعله النمّام بقول مزخرف عائق للأسماع، وعلی ذلک قوله تعالی: سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف/ 116] والثاني : استجلاب معاونة الشّيطان بضرب من التّقرّب إليه، کقوله تعالی: هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء/ 221- 222] ، والثالث : ما يذهب إليه الأغتام «1» ، وهو اسم لفعل يزعمون أنه من قوّته يغيّر الصّور والطّبائع، فيجعل الإنسان حمارا، ولا حقیقة لذلک عند المحصّلين . وقد تصوّر من السّحر تارة حسنه، فقیل : «إنّ من البیان لسحرا» «2» ، وتارة دقّة فعله حتی قالت الأطباء : الطّبيعية ساحرة، وسمّوا الغذاء سِحْراً من حيث إنه يدقّ ويلطف تأثيره، قال تعالی: بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر/ 15] ، ( س ح ر) السحر اور سحر کا لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے اول دھوکا اور بےحقیقت تخیلات پر بولاجاتا ہے جیسا کہ شعبدہ باز اپنے ہاتھ کی صفائی سے نظرون کو حقیقت سے پھیر دیتا ہے یانمام ملمع سازی کی باتین کرکے کانو کو صحیح بات سننے سے روک دیتا ہے چناچہ آیات :۔ سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف/ 116] تو انہوں نے جادو کے زور سے لوگوں کی نظر بندی کردی اور ان سب کو دہشت میں ڈال دیا ۔ دوم شیطان سے کسی طرح کا تقرب حاصل کرکے اس سے مدد چاہنا جیسا کہ قرآن میں ہے : هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء/ 221- 222] ( کہ ) کیا تمہیں بتاؤں گس پر شیطان اترا کرتے ہیں ( ہاں تو وہ اترا کرتے ہیں ہر جھوٹے بدکردار پر ۔ اور اس کے تیسرے معنی وہ ہیں جو عوام مراد لیتے ہیں یعنی سحر وہ علم ہے جس کی قوت سے صور اور طبائع کو بدلا جاسکتا ہے ( مثلا ) انسان کو گدھا بنا دیا جاتا ہے ۔ لیکن حقیقت شناس علماء کے نزدیک ایسے علم کی کچھ حقیقت نہیں ہے ۔ پھر کسی چیز کو سحر کہنے سے کبھی اس شے کی تعریف مقصود ہوتی ہے جیسے کہا گیا ہے (174) ان من البیان لسحرا ( کہ بعض بیان جادو اثر ہوتا ہے ) اور کبھی اس کے عمل کی لطافت مراد ہوتی ہے چناچہ اطباء طبیعت کو ، ، ساحرۃ کہتے ہیں اور غذا کو سحر سے موسوم کرتے ہیں کیونکہ اس کی تاثیر نہایت ہی لطیف ادرباریک ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر/ 15]( یا ) یہ تو نہیں کہ ہم پر کسی نے جادو کردیا ہے ۔ یعنی سحر کے ذریعہ ہمیں اس کی معرفت سے پھیر دیا گیا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٠١) اور ہم نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو کھلے ہوئے نومعجزے یعنی یدبیضاء، عصا، طوفان، ٹڈیاں، گھن کے کیڑے، مینڈک، خون، قحط سالی، اور مالوں کی کمی و بربادی دیے جب کہ وہ بنی اسرائیل کے پاس آئے تھے۔ آپ مثلا حضرت عبداللہ بن سلام (رض) اور ان کے ساتھیوں سے بھی پوچھ کر دیکھ لیجیے تو فرعون نے ان سے کہا کہ موسیٰ تم ضرور مغلوب العقل ہو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٠١ (وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسٰي تِسْعَ اٰيٰتٍۢ بَيِّنٰتٍ ) ان میں سے دو نشانیاں تو وہ تھیں جو آپ کو ابتدا میں عطا ہوئی تھیں یعنی عصا کا اژدھا بن جانا اور ید بیضا۔ ان کے علاوہ سات نشانیاں وہ تھیں جن کا ذکر سورة الاعراف کی آیات ١٣٠ اور ١٣٣ میں ہوا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مختلف قسم کے عذاب تھے (قحط سالی پھلوں اور فصلوں کا نقصان طوفان ٹڈی دل چچڑیاں مینڈک اور خون) جو مصر میں قوم فرعون پر مختلف اوقات میں آتے رہے۔ جب وہ لوگ عذاب کی تکالیف سے تنگ آتے تو اسے ٹالنے کے لیے حضرت موسیٰ سے دعا کی درخواست کرتے اور حضرت موسیٰ کی دعا سے وہ عذاب ٹل جاتا۔ یہاں یہ نکتہ لائق توجہ ہے کہ سورت کے آغاز میں بھی حضرت موسیٰ کا ذکر ہوا تھا اور اب آخر میں بھی آپ کا ذکر ہونے جا رہا ہے۔ یہ اسلوب ہمیں قرآن حکیم کی ان سورتوں میں ملتا ہے جو ایک خطبے کے طور پر ایک ہی تنزیل میں نازل ہوئی ہیں۔ ایسی سورتوں کی ابتدائی اور آخری آیات خصوصی اہمیت اور فضیلت کی حامل ہوتی ہیں اور ان کے مضامین میں ایک خاص ربط پایا جاتا ہے۔ سورت کے آغاز میں حضرت موسیٰ کی حیات مبارکہ کے اس دور کا ذکر کیا گیا ہے جب آپ مصر سے نکل کر صحرائے سینا میں آ چکے تھے اور وہاں سے آپ کو کوہ طور پر بلا کر تورات عطا کی گئی تھی : (وَاٰتَیْنَا مُوْسَی الْکِتٰبَ وَجَعَلْنٰہُ ہُدًی لِّبَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ اَلاَّ تَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِیْ وَکِیْلاً ) ” اور ہم نے موسیٰ کو کتاب (تورات) دی اور ہم نے اسے بنایا ہدایت بنی اسرائیل کے لیے کہ تم مت بناؤ میرے سوا کسی کو کارساز “۔ اب آخر میں بنی اسرائیل کے زمانۂ مصر کے حالات کے حوالے سے پھر حضرت موسیٰ کا ذکر کیا جا رہا ہے : (فَسْــــَٔـلْ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اِذْ جَاۗءَهُمْ فَقَالَ لَهٗ فِرْعَوْنُ اِنِّىْ لَاَظُنُّكَ يٰمُوْسٰي مَسْحُوْرًا) دیکھئے جو الفاظ فرعون نے حضرت موسیٰ سے کہے تھے عین وہی الفاظ حضور کے لیے آپ کے مخالفین کی طرف سے استعمال کیے گئے ہیں۔ اسی سورت میں ہم پڑھ آئے ہیں کہ قریش مکہ آپ کے بارے میں کہتے تھے : (اِنْ تَتَّبِعُوْنَ الاَّ رَجُلاً مَّسْحُوْرًا) ” تم نہیں پیروی کر رہے مگر ایک سحر زدہ شخص کی۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

113. It should be noted that this is the third answer to the demand of the disbelievers of Makkah for signs. They said: We will not believe in you until you do this and do that before our eyes. In answer to this demand, they are being warned: Nine clear signs, like the ones you are demanding, were shown one after the other to Pharaoh before you and you also know well what he said, simply because he did not want to believe in Moses (peace be upon him); you also know that when he rejected the Prophet, even after seeing the signs, We drowned him. The nine signs mentioned here have also been mentioned in (Surah Al-Aaraf, Ayat 133). These were: (1) The staff which turned into a monster snake. (2) Moses’bright hand which shone like the sun. (3) The public defeat of the sorcery of the magicians. (4) Universal famine. (5) Storm. (6) Locusts. (7) Lice. (8) Frogs. (9) Rain of blood. 114. This has been particularly mentioned here because the mushriks of Makkah attributed the same epithet to the Prophet (peace be upon him) as contained in( Ayat 47). These wrong-doers say to each other: The man, you are following, is a bewitched person. Here they are being warned that they were following the attitude of Pharaoh, who gave the same epithet to Prophet Moses (peace be upon him). In this connection, we want to make a brief reference to an objection which has been raised by the modernists against a tradition according to which the Prophet (peace be upon him) once came under the influence of sorcery. They say that this tradition confirms that the epithet “bewitched” applied to the Prophet by the Quraish was correct, whereas the Quran refutes this as false. They forget that the same argument could be applied to the case of Prophet Moses (peace be upon him) whom Pharaoh accused of being bewitched. For the Quran says, in (Surah Taaha, Ayats 66- 67): When the magicians threw down their cords and rods (instruments of their sorcery), it seemed to Moses as if they were running, as a result of which Moses (peace be upon him) conceived in his mind a sort of fear. If the words of the tradition were to be considered against the Quran, do not these words of the Quran contradict its own words that the charge of Moses (peace be upon him) being bewitched was false? Do these modernists consider this verse to confirm Pharaoh’s charge? As a matter of fact, these objectors do not know the sense in which the disbelievers of Makkah and Pharaoh called the Prophet and Prophet Moses (peace be upon them) bewitched. What they meant was that some enemy had so bewitched them that they had lost their senses and so in their insanity claimed to be prophets and delivered a curious message. The Quran refutes this charge as false. As regards the temporary influence of magic on same person or a part of him has not been denied, for the influence of magic is like the effect produced on a person who is hit with a stone. The fact that some prophet was temporarily influenced by magic, does not in any way affect his prophethood adversely. Just as poison produced its effect on a prophet, or a prophet was wounded, so a prophet could also temporarily come under the influence of magic. Such a temporary magic could not cause any defect in his prophethood. God forbid, had magic produced any adverse effect on his reasoning and thinking faculties, one might have been skeptical about the authenticity of the message. And when Pharaoh and the disbelievers of Makkah said that Prophet Moses and the Prophet Muhammad (peace be upon them) were bewitched, they meant that they had lost their senses under the influence of magic. The Quran refutes this charge brought against the Prophets.

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :113 واضح رہے کہ یہاں پھر کفار مکہ کو معجزات کے مطالبے پر جواب دیا گیا ہے ، اور تیسرا جواب ہے ۔ کفار کہتے تھے کہ ہم تم پر ایمان نہ لائیں گے جب تک تم یہ اور یہ کام کر کے نہ دکھاؤ ۔ جواب میں ان سے کہا جا رہا ہے کہ تم سے پہلے فرعون کو ایسے ہی صریح معجزات ، ایک دو نہیں ، پے در پے ۹ دکھائے گئے تھے ، پھر تمہیں معلوم ہے کہ جو نہ ماننا چاہتا تھا اس نے انہیں دیکھ کر کیا کہا ؟ اور یہ بھی خبر ہے کہ جب اس نے معجزات دیکھ کر بھی نبی کو جھٹلایا تو اس کا انجام کیا ہوا ؟ وہ نو نشانیاں جن کا یہاں ذکر کیا گیا ہے ، اس سے پہلے سورہ اعراف میں گزر چکی ہیں ۔ یعنی عصاء ، جو اژدہا بن جاتا تھا ، یدِ بیضاء جو بغل سے نکالتے ہی سورج کی طرح چمکنے لگتا تھا ، جادوگروں کے جادو کو برسرعام شکست دینا ، ایک اعلان کے مطابق سارے ملک میں قحط برپا ہو جانا ، اور پھر یکے بعد دیگرے طوفان ، ٹڈی دل ، سرسریوں ، مینڈکوں اور خون کی بلاؤں کا نازل ہونا ۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :114 یہ وہی خطاب ہے جو مشرکین مکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا کرتے تھے ۔ اسی سورت کی آیت ٤۷ میں ان کا یہ قول گزر چکا ہے کہ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلاً مَّسحُوراً ۔ ( تم تو ایک سحر زدہ آدمی کے پیچھے چلے جا رہے ہو ) ۔ اب ان کو بتایا جا رہا ہے کہ ٹھیک اسی خطاب سے فرعون نے موسٰی علیہ السلام کو نوازا تھا ۔ اسی مقام پر ایک ضمنی مسئلہ اور بھی ہے جس کی طرف ہم اشارہ کر دینا ضروری سمجھتے ہیں ۔ زمانہ حال میں منکرین حدیث نے احادیث پر جو اعتراضات کیے ہیں ان میں سے ایک اعتراض یہ ہے کہ حدیث کی رو سے ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جادہ اثر ہوگیا تھا ، حالانکہ قرآن کی رو سے کفار کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ جھوٹا الزام تھا کہ آپ ایک سحر زدہ آدمی ہیں ۔ منکرین حدیث کہتے ہیں کہ اس طرح راویان حدیث نے قرآن کی تکذیب اور کفار مکہ کی تصدیق کی ہے ۔ لیکن یہاں دیکھیے کہ بعینہ قرآن کی رو سے حضرت موسی علیہ السلام پر بھی فرعون کا یہ جھوٹا الزام تھا کہ آپ ایک سحرزدہ آدمی ہیں ، اور پھر قرآن خود ہی سورہ طٰہ میں کہتا ہے کہ فَاِذَا حِبَالُھُمْ وَعِصِیُّھُمْ یُخَیَّل اِلَیْہِ مِنْ سِحْرِھِمْ اَنَّھَا تَسْعٰی ۔ فَاَوجَسَ فِیْ نَفْسِہ خِیْفَةً مُّوْسٰی ۔ یعنی جب جادوگروں نے اپنے انچھر پھینکے تو یکایک ان کے جادو سے موسی علیہ السلام کو یہ محسوس ہونے لگا کہ ان کی لاٹھیاں اور رسیاں دوڑ رہی ہیں ، پس موسی علیہ السلام اپنے دل میں ڈر سا گیا ۔ کیا یہ الفاظ صریح طور پر دلالت نہیں کر رہے ہیں کہ حضرت موسی علیہ السلام اس وقت جادو سے متاثر ہو گئے تھے؟ اور کیا اس کے متعلق بھی منکرین حدیث یہ کہنے کے لیے تیار ہیں کہ یہاں قرآن نے خود اپنی تکذیب اور فرعون کے جھوٹے الزام کی تصدیق کی ہے؟ دراصل اس طرح کے اعتراضات اٹھانے والوں کو یہ معلوم نہیں ہے کہ کفار مکہ اور فرعون کس معنی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت موسی علیہ السلام کو مسحور کہتے تھے ۔ ان کا مطلب یہ تھا کہ کسی دشمن نے جادو کر کے ان کو دیوانہ بنا دیا ہے اور اسی دیوانگی کے زیر اثرات یہ نبوت کا دعوی کرتے اور ایک نرالا پیغام سناتے ہیں ۔ قرآن ان کے اسی الزام کو جھوٹا قرار دیتا ہے ۔ رہا وقتی طور پر کسی شخص کے جسم یا کسی حاسئہ جسم کا جادو سے متاثر ہو جانا تو یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کسی شخص کو پتھر مارنے سے چوٹ لگ جائے ، اس چیز کا نہ کفار نے الزام لگایا تھا ، نہ قرآن نے اس کی تردید کی ، اور نہ اس طرح کے کسی وقتی تاثر سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب نبوت پر حرف آنے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے ۔ منصب نبوت میں اگر قادح ہو سکتی ہے تو یہ بات کہ نبی کے قوائے عقلی و ذہنی جادو سے مغلوب ہو جائیں ، حتی کہ اس کا کام اور کلام سب جادو ہی کے زیر اثر ہونے لگے ۔ مخالفین حق حضرت موسی علیہ السلام اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر یہی الزام لگاتے تھے اور اسی کی تردید قرآن نے کی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

53: ایک صحیح حدیث میں ان نو نشانیوں کی تفسیر خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بیان فرمائی ہے کہ یہ نو احکام تھے : شرک نہ کرو، چوری نہ کرو، زنا نہ کرو، کسی کو ناحق قتل نہ کرو، کسی پر جھوٹا الزام لگا کر اسے قتل یا سزا کے لئے پیش نہ کرو، جادو نہ کرو، سود نہ کھاؤ، پاک دامن عورتوں پر بہتان نہ باندھو، اور جہاد میں پیٹھ دکھاکر نہ بھاگو۔ (ابو داؤد، نسائی، ابن ماجہ

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٠١۔ مسند امام احمد بن حنبل، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ اور تفسیر ابن جریر میں اس آیت کی شان نزول صفوان بن عسال (رض) کی روایت سے یوں بیان کی گئی ہے کہ دو یہودیوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان نو معجزوں کی تفصیل پوچھی جن کا ذکر اس آیت میں ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا شرک نہ کرنا چوری نہ کرنا بدکاری نہ کرنا قتل بےجا نہ کرنا جادو نہ کرنا سود نہ کھانا بادشاہ وقت سے چغلی نہ کھانا پارسا عورتوں پر بدکاری کا بہتان نہ لگانا دین کی لڑائی سے نہ بھاگنا یہ جواب سن کر ان یہودیوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھوں اور پیروں کو بوسہ دیا اور کہا ہم اپنی قوم کے لوگوں سے ڈرتے ہیں کہ وہ ہم کو مار ڈالیں گے ١ ؎۔ اگرچہ ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے ٢ ؎۔ لیکن عمادالدین حافظ ابن کثیر نے اس تفسیر پر یہ اعتراض کیا ہے کہ یہ شان نزول عبارت قرآن کے مخالف ہے کیونکہ قرآن کی آیت سے یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ نو معجزے جن کا ذکر آیت میں ہے فرعون کے غرق ہونے سے پہلے فرعون کے جیتے جی حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کو ملے اور وہ معجزے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے فرعون پر ظاہر کیے اور فرعون نے وہ معجزے دیکھ کر حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کو جادو میں آلودہ بتلایا اور حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے فرعون سے کہا کہ نہ میں جادو میں آلودہ ہوں جن باتوں کا ذکر ہے وہ باتیں آیت کی تفسیر نہیں ٹھہرائی جاسکتی ہے کس واسطے کہ جن باتوں کا ذکر حدیث میں ہے نو باتیں وہ اور ایک ہفتہ کے دن کی تعظیم کا حکم یہ دس حکم تو وہ ہیں جو تورات کے شروع میں لکھے جاتے تھے اور یہ ظاہر بات ہے کہ توریت تو فرعون کی ہلاکت کے ایک عرصہ کے بعد نازل ہوئی ہے۔ غرض اصل بات یہ ہے کہ اس حدیث کی سند میں ایک شخص عبداللہ بن سلمہ کے حافظہ میں فتور ہے اس سبب سے بجائے دس احکام کے نو معجزوں کا ذکر حدیث میں عبداللہ بن سلمہ کی غلطی سے ہوگیا ہے آیت میں جن نو معجزوں کا ذکر ہے وہ وہی نو باتیں ہیں جن کا ذکر خود اللہ تعالیٰ نے سورة الاعراف اور سورة طہ میں کیا ہے کہ وہ نو باتیں عصا، ید بیضاء، خون، اور ٹڈیوں، اور مینڈکوں، اور پانی کا خون یہ سب باتیں ہیں۔ چناچہ تفسیر عبدالرزاق تفسیر ابن ابی حاتم وغیرہ میں حضرت عبداللہ عباس (رض) سے چند روایتیں ٣ ؎ آیت کی تفسیر کی جو ہیں ان میں نو نشانیاں انہی باتوں کو ٹھہرایا گیا ہے جن کا ذکر سورة اعراف اور سورة طہ میں ہے۔ اذجاء ہم اس کا مطلب یہ ہے کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) فرعون اور اس کی قوم کی ہدایت کے لیے رسول بن کر آئے اس وقت موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ نو نشانیاں معجزے کے طور پر دی گئی تھیں۔ ١ ؎ تفسیر ابن کثیرص ٧٦ ج ٣۔ ٢ ؎ تفسیر ابن کیراص ٦٧ ج ٣ جامع ترمذی ١٤٢ ج ٢ کتاب التفسیر۔ ٣ ؎ تفسیر الدر المنثورص ٢٠٤ ج ٤۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(17:101) تسع ایت بینت۔ نوواضح نشانیاں۔ (1) عصا۔ واعصاک فلما راھا تھتز کانھا جان ولی مدبرا ولم یعقب (27:10) اور تم اپنا عصا ڈال دو پھر جب اس نے دیکھا کہ وہ حرکت کر رہا ہے جیسے سانپ (کرتا ہے) تو وہ پیٹھ پھیر کر پیچھے بھاگا اور پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا۔ (2) ید ِ بیضاء وادخل یدک فی حبیبک تخرج بیضاء من غیر سوء فی تسع ایات الی فرعون وقومہ (27:12) اور اپنا ہاتھ اپنے گریبان کے اندر لے جا تو وہ بلا کسی عیب کے بالکل سفید ہو کر نکلے گا (یہ نو معجزات میں سے ہیں جو فرعون اور اس کی قوم تک (تو لے جائے گا) ۔ (3) شق ہونا سمندر کا۔ واذ فرقنا بکم البحر فانجیناکم واغرقنا ال فرعون (2:50) اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے تمہارے لئے سمندر کو پھاڑ دیا تھا۔ پھر ہم نے تمہیں نجات دے دی اور فرعونیوں کو غرق کردیا۔ (4) قحط سالی ولقد اخذنا ال فرعون بالسنین ونقص من الثمرات (7:130) اور بیشک ہم نے پکڑ لیا فرعونیوں کو قحط سالی اور پھلوں کی پیداوار میں کمی سے۔ (5) طوفان۔ (6) ٹڈی ۔ (7) جوئیں۔ (8) مینڈک۔ اور (9) خون۔ فارسلنا علیہم الطوفان والجراد والقمل والضفادع والدم ایت مفضلت (17:33) اور بھیجا ہم نے ان پر طوفان اور ٹڈی اور جوئیں اور مینڈک اور خون (یہ) سب واضح نشانیاں تھیں۔ اظنک۔ مضارع واحد متکلم ک ضمیر مفعول واحد مذکر حاضر۔ میں تجھ کو خیال کرتا ہوں۔ میں تجھ کو سمجھتا ہوں۔ مسحورا۔ سحرزدہ۔ خبطی۔ اسم مفعول واحد مذکر منصوب۔ یہاں بمعنی ساحرا بھی ہوسکتا ہے میں تجھ کو جادوگر خیال کرتا ہوں (عصا۔ ید بیضاء کے معجزے دیکھنے کے بعد مناسبت جادوگر سے بھی ہوسکتی تھی) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 یعنی ایسے نو معجزے د کے چکے ہیں جو ان کی نبوت پر کھلی نشانی تھے اس میں آنحضرت کو تسلی دی ہے اور قریش کو اس مطالبہ کا جواب دیا ہے جو انہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیا تھا کہ ہم آپ پر ایمان لائیں گے جب تک کہ آپ یہ کام کر کے نہ دکھا دیں مطلب یہ ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو نو معجزے دیئے مگر نہ ماننے والوں نے پھر بھی نہ مانا۔ ان آیات تسعہ “ کا ذکر سورة اعراف میں گزر چکا ہے یعنی طوفان ٹٹڈی، جوئیں، مینڈک، خون، عصا، یدبیضا، قحط اور پیداوار کی کمی بعض نے تسع آیات سے نواحکام عامہ مراد لئے ہیں جو10 یہ بالکل اسی قسم کا الزام ہے جو کفار مکہ آنحضرت کو دیتے تھے۔ ان تبتعون الا رجلاً مسحورا (فرقان 8) ہر زمانے میں باطل پرست ناقابل تردید دلائل سن کر حق پرستوں کے بارے میں اسی طرح کی باتیں کیا کرتے ہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

(رکوع نمبر ١٢) اسرارومعارف یہی تکبر اور اپنی بڑائی تو فرعون اور اس کی قوم کو لے ڈوبی تھی جبکہ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو نو نشانیاں یعنی بیشمار معجزات میں نو بہت بڑے بڑے معجزات دے کر مبعوث فرمایا کہ عصاء یدبیضا ، لکنت کا دور ہونا ، سمندر کا پھٹنا ، ٹڈی کا عذاب مینڈکوں کا عذاب ، جوؤں کا عذاب ، طوفان اور پانی کا خون ہوجانا یہ نو تو ایسے واضح معجزات تھے ، جنہیں ہر عام ذہن کا آدمی بھی دیکھ رہا تھا اور بعض مفسرین کے مطابق وہ نو احکام الہی تھے جو نوآیات شمار کئے گئے ہیں ، مگر بنی اسرائیل بھی خوب وقف ہیں ان ہی سے پوچھئے کہ فرعون نے کیا جواب دیا تھا کہ ان واضح معجزات کے باوجود کہنے لگا موسیٰ میں تو آپ کو سحر زدہ خیال کرتا ہوں کہ آپ کیسی بہکی بہکی باتیں کرتے ہیں اور میرے علاوہ کسی اور کو الہ قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں مخلوق کا مالک کوئی اور ہے اور اس بات کے پس پردہ ان کفار کی طرح اس کا بھی محض ذاتی تکبر تھا ، تو موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ تیری یہ باتیں محض لوگوں کو دھوکے میں رکھنے کے لیے ہیں ورنہ اے فرعون تو بھی خوب جانتا ہے یہ نشانیاں کائنات کے پروردگار نے سمجھانے کو اور تجھے راہ راست پہ لانے کو بھیجی ہیں ، اگر تو رب ہوتا تو ان کو یا ان کے اثرات کو بدلنے میں خود کو عاجز کیوں پاتا کہ ہر عذاب پہ پھر مجھ سے دعا کی درخواست کرتا ہے ، تیرے اس طرز عمل پہ مجھے تیری ہلاکت نظر آتی ہے اور تو تباہ ہوا چاہتا ہے مگر بجائے قبول کرنے کے فرعون ایسے طریقے سوچنے لگا کہ بنی اسرائیل کو کبھی پنپنے نہ دے کہ کہیں اس کی حکومت کے لیے خطرہ نہ بن جائیں مگر اللہ کی گرفت بھی بہت سخت ہے ، ہم نے نہ صرف اس کو بلکہ اس کے تمام معاونین کو اس کے ساتھ ہی غرق کردیا اور پورا ملک بنی اسرائیل کے سپرد کردیا اور فرمایا اللہ جل جلالہ کی زمین پر آرام سے رہو بس مگر یاد رکھو جب وعدہ آخرت کا وقت آئے گا تو تم سب کو بھی جمع کیا جائے گا یہ نہ ہو کہ آخرت سے بےفکر ہو کر گمراہی میں پھنس جاؤ ۔ اور یہ کوئی انوکھی بات نہیں آپ کو بھی ہم نے ہی مبعوث فرمایا ان لوگوں کی طرف اور حق کے ساتھ کتاب عطا فرمائی جس کا نزول بھی حق کے ساتھ ہے کہ اثناء راہ میں کسی کمی بیشی یا ناحق کا گمان نہیں ۔ (عقیدہ تحریف قرآن باطل ہے) جب بارگاہ الہی سے رسول اللہ تک پہنچنے میں ایسی حفاظت الہی حاصل ہے کہ کوئی کمی بیشی کا گمان نہیں تو جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان پاک سے بیان ہو کر مصحف بن چکا اور ہزاروں حفاظ کے سینوں میں بھی محفوظ ہوچکا تو اب کیسے تبدیل کیا جاسکتا ہے اور عجیب تر بات یہ ہے کہ اگر خلفاء راشدین نے تبدیل کیا تو گویا انہوں نے اللہ جل جلالہ کی کتاب بدل لی مگر ان کی بنائی ہوئی اور ترتیب دی ہوئی کوئی نہ بدل سکا لہذا تحریف قرآن کا عقیدہ باطل ہے ۔ اور ہم نے آپ کو جو منصب رسالت عطا کر کے بھیجا ہے ، اس کا تقاضا ہے کہ آپ اللہ جل جلالہ کی اطاعت پر خوشخبری سنائیں اور برائی اور نافرمانی کے انجام بد سے ہر وقت خبردار کریں ، اب کوئی مانتا ہے یا نہیں اس سے آپ کا تعلق نہیں بلکہ یہ قرآن تو آپ کے بیشمار معجزات میں ایک عظیم الشان معجزہ ہے ، لہذا اس کی تلاوت میں بھی یہ رعایت ضروری ہے کہ آپ ٹھہر ٹھہر کر اور سمجھا کر تلاوت فرمائیں جس طرح اللہ جل جلالہ نے اسے ایک دم سے نازل نہیں فرمایا کہ لوگ سوالات کے جواب تلاش کریں بلکہ ہر ضرورت پر اس کا حل نازل فرما دیا کہ لوگ آسانی سے سمجھ سکیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمایا دیجئے کہ لوگو تم ایمان لاؤ یا نہ لاؤ یہ معاملہ تو تمہارا اپنے مالک کے ساتھ مگر جہاں تک کتاب اللہ کی حقانیت کا تعلق ہے تو منصف مزاج علماء سابقہ بھی خوب پہچانتے ہیں اور جب ان کے سامنے یہ قرآن پڑھا جاتا ہے تو منہ کے بل سجدے میں گر جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پاک ہے ہمارا پروردگار اور اس کا وعدہ پورا ہو کر رہے گا ، یعنی پہلی کتب میں بعثت نبوی اور نزول قرآن کی خبر تھی اور وہ پوری ہو رہی ہے ویسے ہی قیامت کی خبر بھی حق ہے جو ضروری پوری ہوگی اور قرآن سنتے ہوئے ان پر گریہ طاری ہوجاتا ہے اور سجدے میں گر جاتے ہیں جس کے سبب انہیں مزید خشوع اور کیفیات قلبی عطا ہوتی ہیں ، صاحب تفسیر مظہری (رح) نے تلاوت میں رونا مستحب لکھا ہے مگر حق یہ ہے کہ یہ دلی کیفیت ہے جو ایمانی قوت سے نصیب ہوتی ہے اور کلام اللہ کے اثر سے رونا نصیب ہوجائے تو نجات کی دلیل ہے ۔ ان کا یہ کہنا کہ آپ پہلے تو اللہ جل جلالہ کو پکارتے تھے ، اب رحمن کا تذکرہ بھی ہے کہ بسم اللہ میں رحمن بھی آگیا تو فرمائیے وہ ذات واحد لاشریک ہے اور اس ایک ہی ذات کے بہت سے خوبصورت نام ہیں ، لہذا اس کے کسی بھی پیارے نام سے اسے پکارا جائے وہ اسی کو پکارنا ہے اور آپ نماز میں تلاوت اعتدال سے کیجئے کہ نہ اتنا بلند ہو کہ کفار سن کر طنز کریں اور نہ اتنا پست کہ مقتدی نہ سن سکیں ، بلکہ معتدل طریقے سے اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھئے اور کہہ دیجئے کہ سب خوبیاں اسی واحد اللہ جل جلالہ کی ذات کے لیے ہیں جس کا کوئی ہمسر ہے نہ ہوگا ، نہ اس کا کوئی بیٹا ہے اور نہ اس کی سلطنت و حکومت میں کسی کو دخل ہے ، وہ ذات ہر طرح کی کمی اور کمزوری سے پاک ہے کوئی ایسا نہیں جس کی مدد کی ضرورت اسے پڑے بلکہ اس سب سے بھی بڑھ کر اللہ کی بڑائی اس قدر بیان کریں جیسی اسے سزا وار ہے ۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 101 تا 109 تسع نو۔ اسئل پوچھئے۔ مسحور جادو کیا گیا۔ سحر زدہ۔ بصائر سمجھ بوجھ کی باتیں۔ مثور تباہ کیا جانے اولا۔ اسکنوا آباد ہوجاؤ۔ رہو سہو۔ لفیف سمیٹ کر۔ فرقنا ہم نے جدا کیا۔ مکت ٹھرٹھر کر۔ تنزیل آہستہ آہستہ اتارنا۔ اوتوالعلم علم دیا گیا۔ یتلی پڑھا گیا۔ یخرون وہ گر پڑتے ہیں۔ اذقان تھوڑیاں۔ یبکون وہ روتے ہیں۔ خشوع خشوع۔ عاجزی و انکساری ۔ تشریح : آیت نمبر 101 تا 109 انبیاء کرام کو معجزات اس لئے دیئے جاتے ہیں تاکہ ان کو دیکھ کر کفار اپنے کفر سے توبہ کرلیں اور سالام کی سچائیوں کو قبول کرلیں۔ ان آیات میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو ایسے نو معجزات عطا کئے تھے جن کو دیکھ کر بنی اسرائیل اور فرعون اور اس کے ساتھیوں کو ایمان قبول کرلینا چاہئے تھا مگر انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ کر بھی ان معجزات کا انکار کیا اس کے برخلاف جنہوں نے حضرت موسیٰ کے معجزات دیکھ کر ایمان قبول کرلیا تھا اللہ نے ان کو نجات عطا فرما دی اور فرعون اور اس کے ساتھی جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کا انکار کیا ان کو عبرت ناک سزا دی گئی۔ فرعون اور اس کے ماننے والوں میں غرق کردیا گیا۔ جب حضرت موسیٰ نے اللہ کے دین کی طرف دعوت دی تو انہوں نے نہ صرف انکار کیا بلکہ حضرت موسیٰ کے معجزات کو جادو قرار دے کر ملک کے تمام نامی گرامی جادو گروں کو حضرت موسیٰ کے مقابلے میں لاکھڑا کردیا۔ لیکن وہی جادوگر جو انعام و اکرام کے لالچ میں اپنے جادو کے کمالات دکھا رہے تھے جب انہوں نے عصائے موسیٰ کے معجزے کو دیکھا تو انہوں نے فرعون کے بھرے دربار میں اپنے ایمان کا اعلان فرما دیا۔ جب فرعون نے اس نافرمانی کے انجام سے ڈرایا تو وہ ڈٹ گئے اور انہوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ اے فرعون ہم نے اسلام قبول کرلیا اب اس کا انجام کچھ بھی ہو۔ حضرت موسیٰ نے بھرے دربار میں ایک مرتبہ پھر فرعون کو للکارا اور کہا کہ اگر تو نے ان معجزات کو دیکھ کر بھی ایمان قبول نہ کیا تو تیرا انجام بہت ہی زیادہ خراب ہونے والا ہے۔ فرعون نے حضرت موسیٰ کی اس دعوت کو ہنسی مذاق میں اڑا دیا اور پھر سے اپنی سازشوں میں لگ گیا اور حضرت موسیٰ کو شکست دینے کے طریقوں میں غرق ہوگیا۔ وہ نو معجزات جن کا ان آیات میں ذکر کیا گیا ہے وہ یہ ہیں۔ (1) ید بیضا (2) عصا (3) طوفان (4) ٹڈیوں کا عذاب (5) مینڈکوں کا عذاب (6) جوؤں کا عذاب (7) خون کا عذاب (8) ثمرات کی کمی (9) چچڑیوں کا پیدا ہونا (سورۃ اعراف) ترمذی میں یہ روایت نقل کی گئی ہے کہ یہود نے آپ سے پوچھا کہ وہ نو معجزات کیا تھے ؟ فرمایا وہ نو احکامات ہیں ۔ (1) شرک نہ کرو (2) چوری نہ کرو (و) زنانہ کرو (4) ناحق خون نہ بہاؤ (5) جادو نہ کرو (6) سود مت کھاؤ (7) بےگناہ کو نہ پکڑواؤ کہ حاکم اس کو قتل کر دے (8) پاک دامن عورتوں پر تہمت نہ لگاؤ (9) جہاد سے نہ بھاگو ۔ فرمایا کہ یہ نو احکامات تھے لیکن یہودیوں کے لئے ایک مخصوص حکم تھا کہ تم ہفتہ کے دن حد سے نہ بڑھو ۔ اہل یہود نے آپ کی اس بات کی تصدیق کی۔ قرآن کریم اور حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ نے حضرت موسیٰ کو نو نشانیاں دیں اور نو ہی احکامات بھی دیئے۔ جب فرعون اور آل فرعون نے مسلسل نافرمانی کی اور حضرت موسیٰ پر ایمان نہ لائے تو اللہ نے فرعون کو غرق کردیا اور بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم و ستم سے نجات دلا کر فرعونیوں کی بستیوں میں ان کو آباد کیا۔ حضرت موسیٰ نے قوم بنی اسرائیل کو سمجھایا کہ وہ فرعون کی طرح نافرمانی اختیار نہ کریں کیونکہ اللہ کو نافرمانی کسی کی بھی پسند نہیں ہے۔ فرمایا کہ اگر تم نے بھی گزشتہ لوگوں کی طرح کفر و شرک اور نافرمانی کا طریقہ اختیار کیا تو پھر اللہ کے عذاب سے بچانے والا کوئی نہ ہوگا ۔ حضرت موسیٰ نے بنی اسرائیل کو اس سر زمین پر آباد کر کے نصیحت فرمائی کہ تم اس سر زمین پر رہ، کھاؤ، پیو، بسو لیکن جب آخرت کا فیصلہ آجائے تو اللہ اس پروری کائنات کو سمیٹ کر رکھ دے گا۔ فرعون اور آل فرعون کی بات کرنے کے بعد کلام کا رخ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے اوپر ایمان والوں کی طرف پھیر کر فرمایا کہ اللہ نے جس چیز کے کرنے اور جس چیز کے نہ کرنے کا حکم دیا ہے اس کو اسی طرح کیا جائے اور فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کی تعلیمات سے آپ اپنی امت کو اچھی طرح آگاہ کردیجیے۔ آپ کا کام خوش خبری دینا بھی ہے اور برائیوں کے برے انجام سے ڈرانا بھی ہے۔ فرمایا کہ اے نبی ! آپ پر اس قرآن کو آہستہ آہستہ نازل کیا گیا ہے آپ بھی اس قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے اس کے آداب کا خیال رکھیے اور اس کو آہستہ آہستہ تلاوت فرمائیے تاکہ یہ قرآن دلوں میں اترتا چلا جائے۔ فرمایا کہ اے نبی ! آپ سب کو بتا دیجیے کہ جس اللہ نے یہ کلام نازل کیا ہے اگر تم اس کی اطاعت کرو گے تو تمہارے حق میں بہتر ہے لیکن اگر تم نے اس کی اطاعت نہ کی تو اس سچائی کی روشنی میں ذرا بھی کمی نہ آسکے گی۔ اللہ تعالیٰ نے گزشتہ قوموں کے ایک اچھے طرز عمل کو اس طرح بیان فرمایا ہے کہ جب ان کے سامنے اللہ کا کلام تلاوت کیا جاتا تھا تو اللہ کے احکامات کی عظمت کے سامنے ان کی گردنیں جھک جایا کرتی تھیں اور ان کی زبان پر یہی بات آتی تھی کہ اے ہمارے پروردگار ! آپ کی ذات پاک بےعیب ہے یقینا آپ نے جو وعدہ کیا ہے وہ ضرور پورا ہو کر رہے گا اور اس طرح وہ اپنی ٹھوڑیاں جھکا نہایت ادب و احترام سے اللہ کی طرف روتے گڑگڑاتے ٹھوڑیوں کے بل گر پڑتے تھے اور وہ اسلام کی سچائی کو دل سے قبول کرتے تھے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ جن کا ذکر پارہ نہم کے رکوع ششم آیت اول میں ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جس طرح اہل مکہ نے اپنی طاقت اور دولت کے گھمنڈ میں آکر نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا انکار کیا اسی طرح ہی فرعون نے مال واسباب اور اقتدار کے نشے میں آکر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کا انکار کیا تھا۔ حالانکہ اس کے سامنے بڑے بڑے معجزات پیش کیے گئے۔ سورۃ مزمل کی آیت : ١٥ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت سے مماثل قرار دیا ہے۔ اس لیے قرآن میں جابجا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کی کشمکش کا تذکرہ پایا جاتا ہے۔ اس میں ایک طرف نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی گئی ہے اور دوسری طرف اہل مکہ کے انجام کی طرف اشارہ اور مومنوں کو سمجھایا گیا ہے۔ تاکہ ان لوگوں کو حق و باطل کی کشمکش کو سمجھنے میں آسانی ہو۔ اسی حوالے سے امّتِ مسلمہ بالخصوص کفار کے سامنے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کی کشمکش کا ذکر کیا جاتا ہے۔ اگر کفار کو اس میں کوئی شک ہے تو انہیں اہل کتاب سے اس بارے میں پوچھ لینا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو نوبڑی بڑی نشانیاں دے کر فرعون کے پاس بھیجافرعون نے اقتدار کے نشے اور مال و اسباب کے گھمنڈ میں آکر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ اے موسیٰ میں سمجھتا ہوں کہ تجھ پر جادو ہوگیا ہے۔ یہی بات اہل مکہ نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ اس پر جادو کردیا ہے۔ جس وجہ سے نہ اسے ہماری مخالفت کی پروا ہے نہ ہی ہماری پیش کشوں کی طرف توجہ دیتا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کو دی جانے والی نو نشانیاں : اسی آیت کی تفسیر کرتے ہوئے علامہ ابن کثیر (رض) نے حضرت موسیٰ کو دی جانے والی نشانیوں کے بارے میں یہ الفاظ نقل کیے ہیں۔ ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) مجاھد، عکرمہ، شعبی اور قتادہ کے قول کے مطابق حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو عطا کی جانے والی نشانیاں یہ تھیں۔ ١۔ یدِبیضاء، ٢۔ عصا، ٣۔ قحط سالی، ٤۔ پھلوں کی کمی، ٥۔ طوفان، ٦۔ ٹڈی دل، ٧۔ جوئیں کھٹمل، ٨۔ مینڈک اور ٩۔ خون کے عذاب۔ “ [ ابن کثیر ]

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قصہ بنی اسرائیل کو یہاں اس لیے لایا گیا ہے کہ سورت کے مضمون کے ساتھ اس کا گہرا تعلق ہے۔ مسجد اقصیٰ اور بنی اسرائیل کی تاریخ کا ایک حصہ یہاں دیا گیا ہے۔ اس قصے کے آخر میں بھی آخرت کا ذکر کیا گیا ہے۔ اور فرعون اور اس کی قوم کے لئے آنے کا تذکرہ ہے۔ یہ ان مناظر قیامت کی مناسبت سے ہے جو ابھی سورت میں گزرے تھے اور جن میں بتایا گیا تھا کہ مکذبین کا انجام کیا ہونے والا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے نو معجزات جن کی طرف یہاں اشارہ کیا گیا وہ یدبیضا ، عصا ، فرعون اور اس کی قوم پر خشک سالی ، ہر قسم کی پیداوار کی کمی ، طوفان ، ٹڈی دل ، قمل ، مینڈک اور خون تھے۔ فسئل بنی اسرائیل ……(٧١ : ١٠١) ” فرعون نے اس سے کہا اے موسیٰ میں سمجھتا ہوں تو ضرور سحر زدہ آدمی ہے “۔ سچی بات ، عقیدہ توحید ، ظلم و سرکشی کا ترک کرنا اور لوگوں کو ایذا نہ دینے کی دعوت دیتا ، ایک باغی اور سرکش شخص کے نزدیک ایک سحر زدہ شخص کا کام ہے۔ کوئی معقول آدمی یہ کام نہیں کرسکتا۔ کیونکہ فرعون کی طرح کے سرکش اور مغرور ڈکٹیٹر ان باتوں کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔ ان کے سامنے تو کوئی شخص سر اٹھا کے نہیں چل سکتا۔ چہ جائیکہ وہ ایسی باتیں کرے۔ ان کے خیال میں کوئی معقول فرد ایسی باتیں نہیں کرسکتا ۔ سر پھرے ہی ایسی باتیں کرتے ہیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) تو ایک بہادر آدمی تھے اور ان کا دل سچائی کے نور اور خدائی روشنی سے بھرا ہوا تھا۔ وہ مطمئن تھے کہ اللہ کی امداد اور سر پرستی انہیں حاصل ہے۔ تو انہوں نے کہا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

موسیٰ (علیہ السلام) کو ہم نے کھلی ہوئی نشانیاں دیں فرعون اپنے ساتھیوں کے ساتھ غرق کردیا گیا اور بنی اسرائیل کو حکم دیا گیا کہ زمین میں رہو سہو ابتدائے سورت میں واقعہ معراج کے بعد بنی اسرائیل کے بعض واقعات بیان فرمائے اور ان سے فرمایا (اِنْ اَحْسَنْتُمْ اَحْسَنْتُمْ لِاَنْفُسِکُمْ وَ اِنْ اَسَاْتُمْ فَلَھَا) اس کے بعد مشرکین کے اعمال و اقوال اور عقیدہ شرک کی تردید فرمائی اور درمیان میں بعض مامورات اور منہیات بھی ذکر فرما دئیے پھر مشرکین کے عناد اور تکذیب کا تذکرہ فرمایا اب سورت کے ختم ہونے کے قریب بھی بنی اسرائیل اور ان کے دشمن فرعون کا تذکرہ فرمایا جس میں بنی اسرائیل یعنی یہود کے لیے اور تمام ہی منکرین اور معاندین کے لیے عبرت ہے، اول تو یہ فرمایا کہ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کھلی کھلی واضح نو نشانیاں عطا کیں، ان نشانیوں سے کیا مراد ہے یہ بات ہم عنقریب ذکر کریں گے انشاء اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا کہ فرعون کو نصیحت کرو اسے اور اس کی قوم کو توحید کی دعوت دو اور رب کائنات جل مجدہ کی عبادت کی طرف بلاؤ اور بنی اسرائیل کو اس کے چنگل سے چھڑا کر مصر سے لے جاؤ، فرعون بہت بڑا جابر تھا اپنے آپ کو معبود کہلواتا اور منواتا تھا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جب اس سے بات کی اور راہ حق کی دعوت دی اور بنی اسرائیل کے بارے میں فرمایا کہ انہیں چھوڑ دے میں ساتھ لے جاتا ہوں تو فرعون نے بڑی جاہلانہ باتیں کیں اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو جادوگر بتایا پھر جادو گر بلائے اور مقابلہ کرایا جادو گر ہار گئے اور مسلمان ہوگئے جس کا تفصیلی واقعہ سورة انعام کے رکوع ١٢ اور سورة طٰہ کے دوسرے تیسرے رکوع میں مذکور ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو فرعون نے ساحر یعنی جادو گر تو بتایا ہی تھا مسحور بھی بتایا اور کہنے لگا کہ اے موسیٰ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ تجھ پر جادو کردیا گیا ہے اسی جادو کی وجہ سے تو ایسی باتیں کررہا ہے معالم التنزیل میں محمد بن جریر سے مسحور کا ایک ترجمہ معطی علم السحر نقل کیا ہے جس کا معنی یہ ہے کہ تجھے جادو کا فن دیدیا گیا ہے اس کے ذریعے یہ عجائب تیرے ہاتھوں سے ظاہر ہو رہے ہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بڑی جرأت سے جواب دیا کہ تیرا دل جانتا ہے کہ یہ جو چیزیں سامنے آرہی ہیں اور میرے ہاتھوں ظاہر ہورہی ہیں۔ صرف اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی ہیں اور یہ بصیرت کی چیزیں ہیں تو عناد کرتا ہے حق سے بھاگتا ہے اس کا برا انجام تیرے سامنے آنے والا ہے میں سمجھتا ہوں کہ اب تیری شامت ہی آگئی اب تو ہلاک ہی ہو کر رہے گا، فرعون نے ساری سنی ان سنی کردی اور سمندر میں ڈوب کر ہلاک ہوا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جو کچھ فرمایا تھا وہ صحیح ثابت ہوا۔ بعض اکابر نے فرمایا ہے کہ فرعون پہلے تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے تقاضے پر ہی بنی اسرائیل کو مصر سے نکلنے کی اجازت نہیں دیتا تھا لیکن جب اس نے یہ دیکھا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طاقت بڑھ رہی ہے اور بنی اسرائیل ان کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں تو اندیشہ محسوس کیا کہ ان کی جماعت زور پکڑ کر کہیں مصری قوم کی بربادی کا سبب نہ بن جائے لہٰذا اس نے بنی اسرائیل کو مصر کی سرزمین سے نکال دینے کا پروگرام بنایا اس بات کو (فَاَرَادَ اَنْ یَّسْتَفِزَّھُمْ ) میں بیان فرمایا ہے اور روح المعانی میں مِنَ الْاَرْضِ کی تفسیر میں ایک قول یہ نقل کیا کہ ان سب کو ایک ایک کرکے قتل کردیا جائے یہ بھی زمین میں ہٹا دینے کی ایک صورت ہے۔ سورة اعراف میں فرمایا کہ فرعون نے کہا (سَنُقَتِّلُ اَبْنَآءَ ھُمْ وَ نَسْتَحْیٖ نِسَآءَ ھُمْ وَ اِنَّا فَوْقَھُمْ قٰھِرُوْنَ ) (کہ ہم ان کے مردوں کو خوب کثرت کے ساتھ قتل کردیں گے اور ان کی عورتوں کو زندہ چھوڑ دیں گے اور ہمیں ان پر غلبہ حاصل ہے) اس کے پیش نظر یہ دوسرا معنی اظہر ہے، فرعون اگر بنی اسرائیل کو جلاوطن کرنے پر راضی ہوتا تو بنی اسرائیل کو راتوں رات مصر سے راہ فرار اختیار کرنے کی ضرورت نہ پڑتی، علامہ قرطبی نے بھی (اَنْ یَّسْتَفِزَّھُمْ مِّنَ الْاَرْضِ ) کے دو معنی لکھے ہیں دونوں میں سے جو معنی بھی لیا جائے بہرحال فرعون کے ارادہ اور مکر وہ تدبیر سب کا الٹ ہوا اللہ جل شانہ نے فرعون کو اور اس کے ساتھیوں کو سمندر میں ڈبو دیا اور بنی اسرائیل پار ہو کر دوسرے کنارہ پر پہنچ گئے جس کا واقعہ سورة بقرہ اور سورة اعراف میں گزر چکا ہے۔ فرعون مصر سے بھی نکلا حکومت بھی ہاتھ سے گئی اور زندگی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا اور غرق ہونے کی ذلت میں مبتلا ہوا۔ اس کو فرمایا (فَاَغْرَقْنَاہُ وَمَنْ مَّعَہٗ جَمِیْعًا) (سو ہم نے اسے اور اس کے ساتھیوں کو سب کو غرق کردیا) (وَّ قُلْنَا مِنْ بَعْدِہٖ لِبَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ اسْکُنُوا الْاَرْضَ ) (اور ہم نے بنی اسرائیل سے کہا کہ اس کے بعد زمین میں رہو سہو۔ ) علامہ قرطبی لکھتے ہیں ای ارض الشام و مصر یعنی مصر اور شام کی زمین میں رہو جس کا مطلب یہ ہے کہ فرعون اور اس کی قوم کی بربادی کے بعد بنی اسرائیل کو اختیار دے دیا گیا خواہ مصر میں رہو اور خواہ اپنے آبائی وطن یعنی شام (فلسطین) میں جاکر آباد ہوجاؤ لیکن انہوں نے شام میں رہنا پسند کیا، پسند تو کرلیا لیکن اپنی حرکتوں کی وجہ سے میدان تیہہ میں گھومتے رہے اور چالیس سال کے بعد فلسطین میں داخل ہوسکے (مرفی سورة المائدہ) (فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ الْاٰخِرَۃِ جِءْنَابِکُمْ لَفِیْفًا) (پھر جب آخرت یعنی قیامت کا وعدہ آپہنچے گا اور قیامت قائم ہوگی تو ہم تم کو اس حالت میں اٹھا لیں گے کہ سب لفیف ہوں گے) یعنی قبور سے اس حالت میں اٹھیں گے کہ سب ملے جلے ہوں گے اور مختلف جہات سے اٹھ کر آئیں گے اور میدان میں جمع کرلیے جائیں گے۔ بعض حضرات نے اس کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ کافر قبروں سے اٹھ کر جب بدحالی دیکھیں گے تو مومنوں کی جماعتوں میں گھس جائیں گے تاکہ ان کی لپیٹ میں بچ جائیں جس پر اللہ تعالیٰ کا فرمان ہوگا (وَامْتَازُوا الْیَوْمَ اَیُّھَا الْمُجْرِمُوْنَ ) (کہ اے مجرمو آج کے دن علیحدہ ہوجاؤ) پھر کافروں کی جماعتیں بن بن کر دوزخ میں جائیں گی اور مومنین کی جماعتیں جنت میں چلی جائیں گی۔ فائدہ : اس رکوع کے شروع میں جو یہ فرمایا کہ ہم نے موسیٰ کو کھلی ہوئی نو نشانیاں عطا کیں، ان نشانیوں سے کون سی نشانیاں مراد ہیں۔ مفسرین نے فرمایا ہے کہ ان سے یہ معجزات مراد ہیں (١) عصا (٢) یدبیضاء (٣) سمندر سے بنی اسرائیل کو لے کر پار ہوجانا (٤) فرعون اور اس کی قوم کا قحط میں مبتلا ہوجانا (٥) اور پھلوں کا کم ہوجانا، (٦، ٧) اور قوم فرعون پر ٹڈیوں کا اور جوؤں کا عذاب آجانا (٨) اور مینڈکوں کے عذاب میں مبتلا ہونا (٩) اور ان کے برتنوں اور پینے کے پانی میں خون کا موجود ہوجانا۔ چونکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات اور بھی ہیں اس لیے بعض حضرات نے ان کو بھی اس ذیل میں ذکر فرمایا ہے مثلاً پتھر سے چشموں کا جاری ہوجانا اور من وسلویٰ نازل ہونا جو حضرات دوسرے معجزات کو ان نو معجزات میں شمار کرتے ہیں جن کا ذکر آیت بالا میں ہے وہ مذکورہ معجزات میں بعض کو نو معجزات والی گنتی میں نہیں لاتے ان کی جگہ دوسرے معجزات کو شمار میں لے لیتے ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

87:۔ یہ پانچویں آیت معجزہ ہے۔ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو نو واضح معجزے دئیے بنی اسرائیل کے علماء سے پوچھ لیجئے وہ اس بات کی تصدیق کرینگے لیکن بجائے اس کے کہ فرعون اور اس کی قوم ان معجزات واضحہ کو دیکھ کر ان پر ایمان لاتے انہوں نے ان معجزات کو جادو اور موسیٰ (علیہ السلام) کو جادوگر قرار دیا اور اللہ کی توحید کو ٹھکرا دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ فرعونیوں کو غرق کردیا گیا۔ اب اے مشرکین مکہ ! اگر تم نے بھی معجزہ معراج معجزہ قرآن اور دیگر معجزات دیکھنے کے بعد مسئلہ توحید کو نہ مانا تو ہلاک کردئیے جاؤ گے۔ اس طرح یہ آیت ابتدائے سورت سے متعلق ہوگی۔ یا یہ آیت ” سنۃ من قد ارسلنا “ سے متعلق ہے یعنی جس طرح فرعون بنی اسرائیل کو اور موسیٰ (علیہ السلام) کو ملک سے نکال کر خود بھی وہاں نہ رہ سکا اسی طرح مشرکین مکہ بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مکہ سے نکالنے کے بعد زیادہ عرصہ وہاں نہ رہ سکیں گے ہماری سنت جاریہ بھی ہے۔ ” مسحورا “ اسم مفعول بمعنی اسم فاعل ہے ای ساحرا بغرائب افعالک (قرطبی ج 10 ص 336) ۔ نو معجزات سے حضرت ابن عباس اور ضحاک کے مطابق حسب ذیل معجزات مراد ہیں۔ عصاء، ید بیضا، زبان کی لکنت کا دور ہونا، سمندر کا پھٹ جانا، طوفان، ٹڈی دل، جوئیں، مینڈک اور خون۔ (خازن و قرطبی و غیرہا) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

10 1 اور یقینا ہم نے موسیٰ کو جب کہ وہ بنی اسرائیل کے پاس آئے تھے نو نشانیاں واضح اور کھلی ہوئی دی تھیں آپ بنی اسرائیل سے دریافت کر دیکھئے پس فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا اے موسیٰ (علیہ السلام) میں تیرے متعلق یہ خیال کرتا ہوں کہ تو سحر زدہ ہے اور تجھ پر جادو کردیا گیا ہے یعنی یہ نونشانیاں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اس وقت عطا ہوئی تھیں جب موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کو فرعونی مظالم سے نجات دلانے کے لئے تشریف لائے یہ نونشانیاں نویں پارے میں مذکور ہوچکی ہیں چونکہ یہ نشانیاں بنی اسرائیل اور ان کے علماء کو معلوم تھیں ، اس لئے فرمایا بنی اسرائیل سے پوچھو دیکھو، جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) آئے اور فرعون سے باتیں ہوئیں تو اس نے بجائے ایمان لانے پر بنی اسرائیل کے ساتھ انصاف کرنے کے الٹا موسیٰ (علیہ السلام) کو سحر زدہ کہہ دیا۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں شاید نونشانیاں نو معجزے ہوں وے جو فرعون کے مقابلہ میں اللہ نے بھیجے اور شاید نو حکم ہوں کہ تورات کے سرے پر لکھے جاتے تھے وہ یہی کبیرہ گناہوں سے منع تھا۔ 21